کچھ سیاسی شاعری
کچھ سیاسی شاعری آصف علی زرداری جب صدر ہوا کرتے تھے تو کبھی کبھار ان کے حوالے کوئی نہ کوئی شعر سرزد ہو جاتا تھا مگر ان کے تمام دورِ اقتدار میں ان کے حوالے کہے گئے اشعار کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ۔ایک بار جب کسی بات پر بہت تکلیف ہوئی تو کہا تھا: میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا پھر ایک بار ایک نظم کہی تھی جس میں…
محبت کےلئے تین نظمیں
محبت کےلئے تین نظمیں نئی سوچ کتابوں میں رکھے ہوئے خواب دیمک زدہ ہو گئے ہیں زندگی کمپیوٹر کی چِپ میں کہیں کھو گئی ہے اڑانوں کے نوچے ہوئے آسماں سے چرائے ہوئے چاند تارے مری خاک کی تجربہ گاہ میں اب پڑے۔۔ ڈر رہے ہیں زمیں اپنے جوتوں کی ایڑھی کے نیچے انہیں نہ لگادے کہیں اجالوں کی رحمت بھری دھوپ چمگادڑوں کی نظر میں ملا دی گئی ہے عجائب گھروں میں پرانے زمانے کی مضبوط انگیا اور ماضی سے وابستہ شہوت کی کھالیں سجادی گئی ہیں اک امرد پرستی کے بازار کے بدعمل پادری کے گلے کی صلیبیں مسیحا کی چھاتی کی زینت بنا دی گئی ہیں ازل…
عشق مجاز کے چند لمحے
عشق مجاز کے چند لمحے اب اس سولہ سالے۔۔ دلکش بھولے بھالے۔۔ نیلے نینوں والے لڑکے سے درخواست کرو ’’شرنا‘کی آواز پہ ناچے ۔۔ جیسے کتھک ناچ کیا تھا کل اس نے نازک قوس کلائی کی۔۔قوسِ قزح کے رنگ بکھیرے نرم تھراہٹ پائوں کی۔۔جیسے پارہ ٹوٹتا جائے تھر کاتا جائے اپنے بم گھومے اپنی ایڑھی پر اور تناسب نرم بدن کا تھال کے تیز کناروں پر دکھلائے او رومی کے نغمے گانے والی۔۔۔سرخ سفید رقاصہ آج تمہاری محفل میں میرے ہمرہ آئے ہوئے ہیں حافظ ، خسرو، بلھے شاہ اور مادھولال حسین. منصور آفاق
موازنہ فیض و فراز
موازنہ فیض و فراز مجھے ادب کے بڑوں نے کہا کہ غالب اور اقبال کے بعد تیسرے بڑے شاعر فیض احمد فیض ہیں حتیٰ کہخوداحمد فراز نے بھی میرے کان میں یہی سرگوشی کی۔ میں کسی کوکچھ نہ کہہ سکا مگر میں نے احتجاجاًاپنے قلم پر ایک سیاہ رنگ کی پٹی باندھ لی ۔ممکن ہے میرا احتجاج کچھ روشن دماغوں کوملگجا لگے۔ بہتر ہے کچھ دیرکیلئے کھڑکیوں سے پردے اٹھا دیجئے ۔میں دن کی روشنی میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔میرے پاس دکھائی دینے والے دلائل ہیں اور نظر کی عینکیں بھی۔ان عینکوں کے فریموں میں وہی عدسے ہیں جنہوں نے کتنےہی مسلمات کو پر کھا تو ان کی کرچیاں…
نظم مر گئی ہے
نظم مر گئی ہے ﴿جاوید انور کیلئے) رک گئیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں دھڑکنیں حرف کی لفظ مردھ ہوئے سو گئیں جاگتی گھنٹیاں چرچ کی اک سپیکر سے اٹھتی اذاں گر پڑی ایک بہتا ہوا گیت جم سا گیا مرگئی نظم قوسِ قزح پہ مچلتی ہوئی دور تک سرد سورج کی کالی چتا۔۔۔ دور تک راکھ چہرے پہ مل مل کے آتی ہوئی ایڑیوں سے اندھیرے اڑاتی ہوئی کچھ نہیں چار سو۔۔۔تیرگی سے بھری دھول ہی دھول ہے موت کے فلسفے کے شبستان میں اک سدھارتھ صفت سو گیا خاک پر رنگ پتھرا گئے کرچیاں ہو گئیں بوتلیں خواب کی بہہ گئی ارمغانِ حرم دشت میں ناگا ساکی سے…
آئینہ دیکھ کے میں حمد و ثنا کرتا ہوں
در کوئی جنت ِ پندار کا وا کرتا ہوں آئینہ دیکھ کے میں حمد و ثنا کرتا ہوں رات اور دن کے کناروں کے تعلق کی قسم وقت ملتے ہیں تو ملنے کی دعا کرتا ہوں وہ ترا ، اونچی حویلی کے قفس میں رہنا یاد آئے تو پرندوں کو رہا کرتا ہوں ایک لڑکی کے تعاقب میں کئی برسوں سے نت نئی ذات کے ہوٹل میں رہا کرتاہوں پوچھتا رہتا ہوں موجوں سے گہر کی خبریں اشکِ گم گشتہ کا دریا سے پتہ کرتا ہوں مجھ سے منصور کسی نے تو یہ پوچھا ہوتا ننگے پائوں میں ترے شہر میں کیا کرتا ہوں