نظم مر گئی ہے
نظم مر گئی ہے ﴿جاوید انور کیلئے) رک گئیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں دھڑکنیں حرف کی لفظ مردھ ہوئے سو گئیں جاگتی گھنٹیاں چرچ کی اک سپیکر سے اٹھتی اذاں گر پڑی ایک بہتا ہوا گیت جم سا گیا مرگئی نظم قوسِ قزح پہ مچلتی ہوئی دور تک سرد سورج کی کالی چتا۔۔۔ دور تک راکھ چہرے پہ مل مل کے آتی ہوئی ایڑیوں سے اندھیرے اڑاتی ہوئی کچھ نہیں چار سو۔۔۔تیرگی سے بھری دھول ہی دھول ہے موت کے فلسفے کے شبستان میں اک سدھارتھ صفت سو گیا خاک پر رنگ پتھرا گئے کرچیاں ہو گئیں بوتلیں خواب کی بہہ گئی ارمغانِ حرم دشت میں ناگا ساکی سے…
آئینہ دیکھ کے میں حمد و ثنا کرتا ہوں
در کوئی جنت ِ پندار کا وا کرتا ہوں آئینہ دیکھ کے میں حمد و ثنا کرتا ہوں رات اور دن کے کناروں کے تعلق کی قسم وقت ملتے ہیں تو ملنے کی دعا کرتا ہوں وہ ترا ، اونچی حویلی کے قفس میں رہنا یاد آئے تو پرندوں کو رہا کرتا ہوں ایک لڑکی کے تعاقب میں کئی برسوں سے نت نئی ذات کے ہوٹل میں رہا کرتاہوں پوچھتا رہتا ہوں موجوں سے گہر کی خبریں اشکِ گم گشتہ کا دریا سے پتہ کرتا ہوں مجھ سے منصور کسی نے تو یہ پوچھا ہوتا ننگے پائوں میں ترے شہر میں کیا کرتا ہوں