• ہم دیکھیں گے۔ منصور آفاق
    دیوار پہ دستک

    ہم دیکھیں گے

    ہم دیکھیں گے یہ پرسوں رات کی بات ہے صبح کے چار بجے ایک خواب نے میری آنکھ کھول دی ۔عجیب خواب تھاچپک کر رہ گیا تھاآنکھ سے۔ اس کا ایک ایک جزو شعور میں موجود تھا۔جیسے میں کسی خواب سے نہیں حقیقت سے گزر کر آیا ہوں۔ خواب کیا تھا نور کا دریا رواں دواں تھا اس کے کنارے پر ایک بہت شاندار خیمہ لگا ہوا تھا۔ جیسے پرانے زمانے کے بادشاہوں کے سفر کے دوراں پڑائو میں خیمے ہوا کرتے تھے ۔عجیب خیمہ تھا اس کی جالی دار قناتوں سے دریائے نور کی لہریں دکھائی دیتی تھیں ۔اس خیمے میں کوئی بڑے بزرگ گائو تکیے سے ٹیک لگا…