• کامران فیصل کی لاش . منصور آفاق
    دیوار پہ دستک

    کامران فیصل کی لاش

    کامران فیصل کی لاش مشتاق بٹ پیپلزپارٹی کے بہت پرانے جیالے ہیں۔ پڑھے لکھے نہیں ہیں مگر سیاست پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کی ملاقاتیں ذوالفقار علی بھٹو سے رہی ہیں آج کل وہ یہاں برطانیہ میں میرے پاس ہوتے ہیں اور میری غیر موجودگی میں میرے بچوں کا خیال رکھتے ہیں ان کے ساتھ اکثر پاکستانی سیاست پرگفت و شنید ہوتی رہتی ہے۔ ان سے کامران فیصل کی موت کے حوالے سے بات ہوئی تو کہنے لگے ”یہ بات تو طے ہے کہ کامران فیصل نے خودکشی کی ہے“۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ اس کے قتل کے سلسلے میں یہ جو اتنے ثبوت مل رہے…

  • دھرنوں کی کامیابی. mansoor afaq
    دیوار پہ دستک

    دھرنوں کی کامیابی

    دھرنوں کی کامیابی اگرچہ روشنی کے دھرنوں کی عمر تیس دن سے زیادہ ہوچکی ہے مگرابھی تک’’چوری‘‘ اکڑ اکڑ کر زمین کی چھاتی پر چل رہی ہے۔شیشے کے سیل شدہ صاف شفاف باکس میں دھاندلی برہنہ پڑی ہوئی ہے۔ اور اس کے اردو گردرد کا دھرنا جاری ہے ۔امید کے ترانوں پر جیالوں کی دھمالیں شروع ہیں۔سچائی کا ڈھول بج رہا ہے۔ ایک طرف عمران خان چراغِ صبح کی طرح جل رہے ہیں تو دوسرے طرف ڈاکٹر طاہر القادری کی زرتارشعاعیںڈی چوک کو زندگی بخش روشنیوں سے منورکر رہی ہیں۔اسلام آباد کے آسمان نے اس سے پہلے ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا۔ کنٹینروں کی دیواروں ،ہتھکڑیوں کی جھنکاروں،جیلوں کی سیا…

  • ساڑھے لندن بجے. منصور آفاق
    دیوار پہ دستک

    ساڑھے لندن بجے

    ساڑھے لندن بجے منصورآفاق 1947سے پہلے پاکستان کا دارالحکومت ’’لندن ‘‘ تھا۔وہیں سے جب ٹیلی گرا ف آتا تھا تو یہاں موسم تبدیل ہوجاتا تھا پاکستان بننے کے بعد یہ مقام و مرتبہ لندن کی بجائے واشنگٹن کو حاصل ہوا ۔مگر لندن کی عظمت ورفعت اپنی جگہ پر مسلمہ رہی ۔ 1947 سے پہلے یہاں ملکہ برطانیہ کےلئے مساجد تک میں دعائیں مانگی جاتی تھیں ۔ملکہ کے شہزادوں کی سالگرہ کی تقریبات ہوا کرتی تھیں ۔ ملکہ کی لائبریری میں آج بھی سینکڑوں کی تعداد میں اردو قصائد موجود ہیں جو یہاں کے بڑے بڑے شاعروں نے ان کی شان میں لکھے تھے ۔یعنی لندن کیساتھ پاکستانیوں کی محبت بہت…

  • کہانی ختم سمجھو . منصور آفاق
    دیوار پہ دستک

    کہانی ختم سمجھو

    کہانی ختم سمجھو کسی حجرہ کے چراغ کی لو ہوا سے کہہ رہی ہے ۔ کہانی ختم سمجھو۔بے شک ہربل کھاتی ہوئی کہانی کو کسی نہ کسی موڑ پر تمام ہونا ہی ہوتاہے ۔یہ کہانی بھی اُن سطور سے ہم آغوش ہونے والی ہے جن کے بعد”ختم شد ” کا بورڈ آویزاںکردیا جاتا ہے یا اختتامی لکیر کھینچ دی جاتی ہے۔کچھ کرداراِس کہانی سے نکل کر ایک کہانی بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔دوسروں کی طرح میں بھی ان کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوں مگرالطاف حسین کی کہانی کے اختتامیہ سے اِس بات کا کوئی تعلق نہیں کہ کچھ کردارایک کہانی چھوڑ کرکسی دوسری کہانی میں داخل ہو گئے ہیں…