سید نصیر شاہ
سید نصیر شاہ ایک تو وہ دریائے سندھ ہے جس کی روانی موج موج پہاڑوں کا جگر چیرتی ہوئی۔۔ شیروں کی طرح دھاڑتی ہوئی۔۔آہنی چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی۔۔ سنگلاخ زاروں میں نت نئے راستے تراشتی ہوئی۔۔ کالاباغ کے مقام پر جب کوہساروں سے باہرآتی ہے تو میانوالی کے میدانوں کی سبک خرامیاں پہن لیتی ہے۔ مگر ایک اِس سے بھی عظیم تر دریائے سندھ تھا۔وہ علم و ادب کا دریائے سندھ تھا جس کا دوسرا کنارہ آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ وہ دریا روحوں کو سیراب کررہا تھا دماغوں میں بہہ رہاتھا۔اس دریا کے میٹھے پانیوں نے زندگی کی آبیاری کی ۔اس کی سبک خرامی نے میانوالی کی تہذیب کو چلنے…