تھر پارکرکے مظلوم
تھر پارکرکے مظلوم میں اس سات سالہ نابینابچے کو کیسے بھول سکتا ہوںجو سوکھی ہوئی روٹی کے ایک ٹکڑے کا نوالہ ہاتھ میںلے کر لکڑی کےبرتن میں گھلی ہوئی مرچ کا کوئی قطرہ ڈھونڈھ رہا تھا۔میں اُس بارہ سالہ گونگے بچے کو کیسے اپنے ذہن سے نکال سکتا ہوں جو اشاروں کی زبان سے مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ مجھے روٹی چاہئے، پانی چاہئے ،بجلی چاہئے۔میں اُس گھر کو کیسے بھلا سکتا ہوں جس کے باسی اپنے کچے کوٹھے کے دروازے کی جگہ دیوار بنا کر تھر سے ہجرت کر گئے تھے کہ وہاںفاقوں نے زندگی ان کیلئے اجیرن کردی تھی ۔میں مسلمانوں کے اُس گائوں کو…