صبح ہونے والی ہے
صبح ہونے والی ہے منصور آفاق آگ کے اردو گرد چار درویش بیٹھے تھے ان کے چہروں مٹی کی اتنی موٹی تہیں جم چکی تھیں کہ خدو خال پہچانے نہیں جا رہے تھے۔پٹ سن کا ہاتھ سے بناہوا خاکی لباس ،لباس نہیں لگ رہا تھایوں لگ رہاتھا جیسے انہوں نے مٹی پہن رکھی ہو۔ہونٹوں کے گرد و نواح میں گری ہوئی مٹی میں باریک دراڑیں بھی موجود تھیں جوشاید ہونٹوں کی حرکت کی وجہ سے پیدا ہو ئی تھیں۔ان کے قریب ایک کتابھی بیٹھا تھا ویسی ہی حالت میں ۔۔مٹی کا کتا۔۔کتے کے سانس چلنے کی آواز اگر نہ آ رہی ہوتی تو اسے سنگ تراشی کا شاہکار قرار دیا…