بلائنڈ سپاٹ
بلائنڈ سپاٹ عطاالحق قاسمی نے اپنے کالم میں آنکھ کےپلائنڈ سپاٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’اگر سامنے سے آنے والی بلاآنکھوں سے اوجھل ہوجائے تو حادثوں پر حیرت نہیں ہونی چاہئے ۔۱۹۷۱میں ہمارا ساتھ یہی ہوااور اب ایک دفعہ پھر یہ کہانی دھرانے کی کوشش کی جارہی ہے ‘‘۔اگرچہ میرے دل میں ان کے بے پناہ احترام ہے مگر میں ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ پھر تاریخ کودھرایا جارہاہے ۔مرشدی سے عرض ہے کہ بلائنڈ سپاٹ کئی طرح ہوتے ہیں ۔مثال کے طور پر نفسیاتی بلائنڈ سپاٹ ، جذباتی بلائنڈ سپاٹ، تعصابی بلائنڈ سپاٹ، دماغی بلائنڈ سپاٹ ،گفت و شیند کے بلا ئنڈ سپاٹ…
سید نصیر شاہ
سید نصیر شاہ ایک تو وہ دریائے سندھ ہے جس کی روانی موج موج پہاڑوں کا جگر چیرتی ہوئی۔۔ شیروں کی طرح دھاڑتی ہوئی۔۔آہنی چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی۔۔ سنگلاخ زاروں میں نت نئے راستے تراشتی ہوئی۔۔ کالاباغ کے مقام پر جب کوہساروں سے باہرآتی ہے تو میانوالی کے میدانوں کی سبک خرامیاں پہن لیتی ہے۔ مگر ایک اِس سے بھی عظیم تر دریائے سندھ تھا۔وہ علم و ادب کا دریائے سندھ تھا جس کا دوسرا کنارہ آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ وہ دریا روحوں کو سیراب کررہا تھا دماغوں میں بہہ رہاتھا۔اس دریا کے میٹھے پانیوں نے زندگی کی آبیاری کی ۔اس کی سبک خرامی نے میانوالی کی تہذیب کو چلنے…