آقاقافا

آقاقافا

ناول

منصور آفاق

آہستگی سے اُس نے مرانام لے لیا

(پسندیدگی کی پہلی گھنٹی)

بریڈفورڈ کازندہ جسم برف کے سفید کفن میں لپٹا ہواتھا۔کہیں کہیں کوئی کالی گاڑی سیاہ پرندہ کی طرح پھڑپھڑا تی تھی تو شہر کی مردہ پیشانی پر ہلکی سی شکنیں نمودار ہوتی تھیں ۔عرصہ کے بعد اتنی برف گری تھی ۔موسمیات کی مشینوں کے اندازے غلط ہو گئےتھے ۔سڑکوں اورگلیوں میں نمک چھیڑکا نہیں جا سکا تھا۔سوایکسیلیٹر دینے سے گاڑیوں کے ویل ایک ہی جگہ برف میں گھومنے لگتے تھے۔برف باری پچھلی رات سے ہورہی تھی ۔نرم نرم گالے تہہ در تہہ اپنی ضخامت بڑھاتے جارہے تھے۔ کہیں کسی کالے پرندے کی پھڑپھڑاہٹ سے دم بھر کو منظر کی یک رنگی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر تی تھی اور بریڈ فورڈ کی آرٹ گیلری میں کسی بلیک اینڈ وائٹ پینٹنگ کا اضافہ ہوجاتا تھا۔

میرےکاروباری شریک ورما کی بیگم روناکی ایک امریکی دوست اورامضطرب تھی ۔وہ ٹیمپا سے بریڈفورڈ آئی تھی ۔ قدیم کیتھیڈرلز پر تحقیق کررہی تھی ۔بریڈفورڈ کیتھیڈرل کا سربراہ بشپ جارج کک میرا جاننے والا تھا ۔اس لئے مجھے اسے ساتھ لے کر جانا تھا۔ویسے بھی سونے جیسی رنگ والی اور سیاہ زلفوں والی اِس امریکی حسینہ کی رفاقت کسے خوش نہ آتی۔بشپ سے وقت مقررتھا ۔اورا کو اگلے دن واپس جانا تھا اُس کا اضطراب فطری تھی ۔وہ ورما کے گھر مقیم تھی ۔ پاس ہی میرا فلیٹ تھا ، صبح صبح میں یہاں آ گیا تھا۔ کیتھیڈرل تقریباًڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا۔میں نے پیدل جانے کا اعلان کیا تو اورانے اپنے نفیس سینڈلز کی طرف دیکھا۔جن پر روشنی منعکس کرنے والے موتی جڑے تھے ،ورما کی بیگم اپنے لانگ بوٹ نکال لائی ،اورا انہیں دیکھ کر کھل اٹھی۔اس نے اپنی ٹانگوں پر دبیزلیگز چڑھا لیں اور لانگ بوٹ پہن لئے ۔پھرہم دونوں لمبے کوٹ پہنے،چھتریاں اٹھا ئے ،برف باری ہی میں ساوتھ فیلڈ سکوائرسے نکلے اورلمب لین پر آگئے وہاں سے ویسٹ گیٹ کی طرف چل پڑے ۔برف میں پائوں دھنستے تھے ۔اورا کو تحقیق کا جنون تھا اورمیرے لاشعور میں شاید اورا۔میں نے بائیں کی عمارت کی طرف اشارہ کیااور کہا ۔’’یہ جو مکان ہے یہاں کتابیں مکین ہیں ۔‘‘ اس نے اپنی لمبی گردن گھماتے ہوئے کہا ’’ یعنی یہ لائبریری ہے ‘‘ ۔میں نے جواب دیا’’ ہاں اس میں سیکڑوں قلمی نسخے بھی ہیں ‘‘۔اس نے ذرا سا آہستہ ہو کر پوچھا ’’کیا انہیں دیکھا جا سکتا ہے ‘‘میں نے کہا ۔’’یہ تمہارے کسی کام کے نہیں ،عربی ، فارسی اور اردو زمیں ہیں ‘‘ وہ برف میں دھنسے ہوئے پائوں کو نکالتے ہوئے بولی ’’یہاں کس نے جمع کر رکھےہیں ۔انہیں تو برٹش لائبریری میں ہونا چاہئے ‘‘۔میں نے کہا ’’یہ پیرسید معروف حسین نوشاہی کے ذاتی مخطوطات ہیں ‘‘۔تھوڑا سا آگے آئے تو ایک بہت بڑی مسجد تھی اس نے دیکھ کرحیرت سےکہا ۔

’’ خوبصورت ،بہت دلکش گنبدہے۔مجھے گنبد بہت اچھے لگتے ہیں‘‘۔ میں نے اسکی بھرپورجوانی پرطائرانہ نظر ڈالی اورکہا۔۔ ’’میں جب یہاں آیا تھا ، یہ سٹرک ریڈ لائٹ ایریا کے طور پر استعمال ہوتی تھی ۔جگہ جگہ جسم فروخت ہوتے تھے پھر اِس کی قسمت بدل گئی ۔یہاں پاکیزگی کی خرید و فروخت شروع ہو گئی ۔یہاں مسلمان آباد ہو گئے ۔مسجدیں اور لائبریریاں بن گئیں ‘‘ ۔ہم ویسٹ گیٹ سے ہوتے ہوئے کریک گیٹ تک آئے ۔ٹاون سنٹر میں داخل ہو گئے ۔بولٹن روڈ پکڑی اور سٹول ہل پر پہنچ گئے ۔اب کیتھیڈرل کی سیڑھیاں ہمارے پائوں میں تھیں۔اوراکا چہرہ کھِل اُٹھا ۔ مجھ پراچٹتی سی نظر ڈال کربولی ۔ ’’ارے یہ تو گوتھِک فنِ تعمیر کے شاہکارہے ۔ یہ آبنوسی محرابی دروازہ دیکھ رہے ہو ۔اِسے اوپر سے کیسی ہنرمندی کے ساتھ نوکدار بنایا گیا ہے ۔ مجھے تو اپنی تحقیق مکمل ہوتی نظر آتی ہے ۔‘‘ مگر میں اُس پندرہ سالہ بچی کی طرف متوجہ تھا جو اپنی چھتری کی نوک سے برف پر I am in love لکھ چکی تھی اوراس کے ساتھ دل بنا رہی تھی۔ اوراآگے بڑھ گئی ۔میں نے تیزی سے تین سڑھیاں اکٹھی عبور کیں کہ اس کے ساتھ چل سکوں ، قریب پہنچا تو پائوں پھسل گیا ۔سنبھلنے کےلئے اُسی کا سہارا لینا پڑا۔ موسم سرد تھا ۔ کیتھیڈرل کے وسیع دالان میں اُگے سرو برف سے ڈھکے تھے ۔کیتھیڈرل سُرخی مائِل بھورے پتھر سے تعمیر شدہ تھا ۔اُس کی قصرایسی شانِ بے نیازی فضا کو اور بھی پُر اسرا بنا رہا تھا ۔ ابھی مرکزی دروازے تک کچھ سیڑھیاں عبور کرنی تھیں ۔ مگر اُس کی رنگین شیشوں سے آراستہ کھڑکیاں ہمیں باہر روک ہی تھیں ۔بڑی بڑی کھڑکیوں کے چمکتے شیشوں پربنائے گئے سیکسن دور کےجنگجو تھے ، سرخ، سبز اور نارنجی شیشوں کی آرائش سے عیسائیت کے مرکزی کرداروں کو اُبھارا گیا تھا ، کہیں صلیبیں جھلک رہی تھیں ۔شایداورا کےساتھ میں بھی اس خاموش داستان کے سناٹے میں جھانکنے لگا تھا۔تحقیق کے آئینے نے مجھے اپنی طرف متوجہ کر لیاتھا۔اوراکی آواز سنائی دی ۔’’یہ رنگین شیشوں سے سجی کھڑکیاں مختلف حوالوں سے پہچانی جاتی ہیں ۔ یہ دیکھو سٹینڈ گلاسس سے بنی یہ بڑی سی گول کھِڑکی یہ روز وِنڈو کہلاتی ہے ۔یہ کیتھرین وِنڈو ہے اور سینٹ نیٹیلی کے حوالے سے نیٹیلی وِنڈو بھی ۔ سینٹ نیٹیلی کو تاروں والے پہیےسے باندھ کرمار دیا گیا تھا۔ ‘‘اورااپنی تحقیق سے میرے علم میں اضافہ کررہی تھی ۔ اچانک پلٹ کر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔’’تم کہیں بور تو نہیں ہورہے میری باتوں سے ۔‘‘ میں خود تو اسے اِس کیٹھیڈرل تک لے کر آیا تھا میں کہاں اُکتا سکتا تھا ۔میں نے کہا۔ ’’ ارے نہیں میں تو بدِلچسپی سے سن رہا ہوں ۔ اوراتم میری معلومات میں وسیع کررہی ہو ۔آنکھوں کو کشادگی دے رہی ہو۔ میں تمہارا شکرگزار ہوں۔یہ خوبصورتی جو تمہارے ہونے سے ہے۔پہلے کہاںمیسرتھی‘‘ ۔میں اورا کے کچھ اور قریب ہوگیا۔ اُسے کچھ تسلی ہوئی ۔ وہ گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بولی ۔ ’’یہ سٹینڈ گلاس سے آرائشی کھڑکیوں کی ابتدا قدیم روم سے جاملتی ہے ۔

اس کی سب سے قدیم مثال جرمنی میں بیویریا کے قلب میں ایستادہ آگسبرگ کیتھیڈرل میں موجود ہے جِس کی کھڑکیوں میں مختلف انبیاءکی تصاویر بنائی گئی ہیں ۔جوگیارہویں صدی کی آخری دھائی میں بنایا گیا تھا ‘‘

میں نے اسے کہا۔’ ’مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے تم مجھے تمام کیتھیڈرلز کی سیر پر اُکسا رہی ہو ۔یہ جو انبیا کی تصویریں بنائی گئی ہیں میں انہیں درست نہیں سمجھتا ‘‘ ۔کہنے لگی ۔ ’’شیشوں کی یہ آرائشی کھڑکیوں میں یہ تصویریں اُن لوگوں کوانجیل کے مطالعہ کے مواقع فراہم کیا کرتی تھیں جو بڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے ۔یاغربت کے سبب انجیل تک اُن کی دسترس ممکن نہیں تھی۔ اُس زمانے میں زیادہ تر لوگ گوسپلز کے قصے نہیں پڑھ سکتے تھے کیونکہ وہ لاطینی زبان میں تھے ،اس طرح اشکال سےانہیں اپنےعقیدے کی سمجھ آ جاتی تھی ،یہ کام مڈل ایجزسے شروع ہوا اورگذشتہ صدی تک چلا آیا ۔ وہ دیکھو اُس کھڑکی سےسینٹ پیٹرک کا حوالہ صاف دکھائی دےرہا ہے ۔ تمہیں معلوم ہے ۵۲ مئی ۹۷۹۱میں امریکہ میں سینٹ پیٹرک کیٹھیڈرل کی اوپننگ ہوئی تو ایک اخبار نے اِس کےلئے یہ کہا تھا “The noblest temple ever raised in any land to the memory of Saint Patrick, and as the glory of Catholic America.” تمہیں موقع مِلے تو وہاں ضرور جانا یہ کیٹھیڈرل نیو یارک شہر کے فِفتھ ایوینیو میں واقع ہے ۔ ‘‘

اوراکی زبان رکی نہیں ، وہ میری طرف دیکھتے ہوئے مسلسل اپنی تحقیق کے دریچے مجھ پر وا کرتی رہی ۔ہم جب بشپ کے کمرے میں پہنچے تویہ سلسلہ رکا ۔وہ وہاں ہمارا منتظر تھا ۔جارج کک نے اوراسے ہاتھ ملاتے ہوئے میرے طرف دیکھ کر کہا ’’یہ تمہارا دوست بہت غیر معمولی باطن رکھنے والا نوجوان ہے ۔مجھے بہت پسند ہے ‘‘۔ اورا نے میری طرف دیکھا اور زیرِ لب مسکرائی اور آنکھوں سے کہہ گئی ۔’’پسند آئے ہو ‘‘۔کیٹھیڈرل اور دل میں اُسی لمحے گھنٹیاں بجنے لگیں۔

مجھے پسند ہے عورت ، نماز اور خوشبو

(صبحِ وصال کی پہلی شام)

موسم پر معمولی سی گفتگو ہوئی ۔اورا نے برف کی سفیدی میں لپٹے ہوئے مکانوں کو جناب ِ عیسیٰ کی زبان میں صدوقیوں اور فروسیوں کی سفیدی پھری قبریں قرار دیا۔میں نے چمینوں سے نکلنے والے دھویں کا مرثیہ کہا ۔یعنی ماضی کے مزاروں پر دئیے جلائے ۔جارج نے مسکراتے ہوئے گرم گرم کافی ،کافی مشین سے نکالی اور ہمارے سامنے رکھ دی اوربولا۔’’میں نے اِس یخ بستگی کی رُت میں برازیلن کافی کی خوشبوداربھاپ سے آپ کا استقبال کیا ہے ۔‘‘اس کے بعد ہم تینوں دفتر سے نکلے اور کیتھیڈرل دیکھنے لگے ۔بشپ ایک ایک چیز کے متعلق بتا جارہا تھا اور اورااپنی نوٹ بک پر نوٹس بناتی جارہی تھی ۔میں دل ہی دل میں جارج بشپ کی علمیت کا اعتراف کررہا تھا ۔ہوتے ہوتےہماری گفتگو براہیمی مذاہب کے موضوع تک پہنچ گئی ۔اوراکہنے لگی

’’اسلام ، یہودیت ، اور عیسائیت ،یہ تینوں براہیمی مذاہب ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں ۔ہم وہاں مشی گن میں ایک ’’ہائوس آف براہیم ‘‘ بنارہے ہیں ۔ ہمیں ایک ہونے میں کیا مسئلہ ہے ‘‘میں نے ہنس کر کہا ۔’’جو مسئلہ تمہیں ہمارے ساتھ ہے وہی مسئلہ یہودیوں کو تمہارے ساتھ ہے اور جو مسئلہ ہمیں تمہارے ساتھ ہے وہی مسئلہ تمہیں یہودیوں کے ساتھ ہے ‘‘۔ وہ کہنے لگی ’’ ہم اس وقت بریڈفورڈ ایک کیتھیڈرل میں ہیں ۔یہاں بے شمار مساجد بھی ہیں ۔یقیناً قرب و جوار کوئی سینی گال بھی ہوگا۔۔یہ تینوں بھی آپس میں مکالمہ کرتے ہونگے ۔یہ ایک بین المذہبی اور بین الثقافتی معاشرہ ہے۔ تینوں عالمگیر مذاہب کے بیچ جتنی قربتیں یہاں ہیں کہیں اور کم ہونگی ۔ہمیں اس معاشرت کوپوری دنیا میں پھیلانا چاہئے ‘‘۔ جارج بشپ بولا۔’’بے شک رواداری کے پھول ہرباغیچے میں کھلنے چاہئیں۔رنگ و نسل اور مذہب کا امتیارسے حسن و جمال طلوع چاہیے۔معاشرہ تو گلستان ہوتا ہے۔جہاں طرح طرح کی خوشبوئیں اور طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں۔تتلیاں ہوتی ہیں ،بھنورے ہوتے ہیں۔‘‘

میں نے کہا ’’ ہاں یہاں اسلام کی علمداری کسی اور مذہب سے قطعاً کم نہیں ۔مجھے یہاں داتا گنج بخش اور نوشہ گنج بخش سے لے کر میاں محمد بخش کی آواز بھی سنائی دیتی ہے اوربرطانیہ کی خوبصورت فضائوں کو مہکاتی ہوئی ورڈز ورتھ ، شیلے اور کیٹس کی شاعری بھی ۔‘‘

وہ میری بات سمجھتے ہوئے بولی

’’ یہ جو تم تین ’’بخش ‘‘بتائے ہیں ۔یہ تینوں کوئی سینٹ تھے ‘‘ میں نے کہا ’’ہاں میں برصغیر کے بہت اہم صوفی تھے ۔بخش کا مطلب ہوتا ہے دینے والا۔یہ وہی بخش تھے جنہوں نے بر صغیر کے بت کدوں کو خدا دیا‘‘

چلتے چلتے ایک دروازے کے سامنے بشپ رک گئے ۔یہ بہت ہی قدیم دروازہ تھا ۔ اس کے باہر ایک موٹا پرانے زمانہ والا تالہ لگا ہوا تھا ۔بشپ اُس کی طرف اشارہ کرکے کہنےلگا

’’یہ ایک آسیب زدہ کمرہ ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پچھلے تین سو سال سے اس میں بشپ کارلائل کی روح مقیم ہے ۔‘‘

میں نے پوچھا ’’کیا ہم اسے اندر سے بھی دیکھ سکتے ہیں ‘‘

بشپ بولا ’’ کیوں نہیں ۔اوراکی موجودگی میں اندر ہمارے لئے کوئی خطرہ نہیں ‘‘

میں نے ہنس کر کہا ’’بشپ کارلائل کی روح کااوراسے کوئی خاص تعلق ہے ‘‘

بشپ نے مسکرا کر کہا ’’صرف اوراسے نہیں ہر عورت سے ۔اس کمرے میں صرف وہی شخص اندر داخل ہوسکتاہے جس کے ساتھ کوئی عورت موجود ہو ۔اکیلےمرد اندر جا نے کی اجازت نہیں ۔جب بھی کوئی عورت کے بغیر مرد اندر داخل ہوا ہے آسیب کا شکار ہو ا ہے ۔ویسے میرے علم کے مطابق پچھلے دو سو سال سے اس کمرے میں کوئی مرد عورت کے بغیر داخل نہیں ہوا۔اس روایت پر بڑی پابندی سے عمل ہوتا آرہاہے ‘‘اورانے پوچھا ۔’’کیا اس بات کے ساتھ کوئی کہانی بھی وابستہ ہے ۔‘‘ بشپ نے ہاںمیں سر ہلا کر کہا۔ ’’ابھی بتاتا ہوں ‘‘

اور پھر تھوڑی دیر میں اس آسیب زدہ کی بھاری بھرکم چابی آگئی ۔بشپ نے تالا کھولا ۔خوشبو ایک جھونکا باہر آیا ۔ اور ہم تینوں اندر داخل ہوئے ۔ اندر شمعیں جل رہی تھیں ۔میں نے شعموں کی طرف اشارہ کرکے پوچھا ۔’’ یہ کب سے جل رہی ہیں ۔ ‘‘

بشپ بولا ۔’’میڈم نورما نے گذشتہ رات اسی کمرے میں گزاری ہے ۔صبح یہاں سے گئی ہیں ۔ یہ کمرہ زیادہ تر انہی کے استعمال میں رہتا ہے ‘‘میں نے ہنس کرکہا ’’کیا وہ بھی کوئی روح ہے ۔‘‘

اورابولی ۔’’میں نے ان کا نام سنا ہوا ہے ۔ بڑی مشہور میڈیم ہیں ۔روحوں کو بلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں ‘‘ اور پھر بشپ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔’’یہ وہی میڈم نورما ہیں نا ‘‘ ۔ بشپ نے کہا ۔

’’ہاں یہ وہی میڈم نورما ہیں ‘‘۔ میں نے ایک شمع کے قریب جاکر سونگھا اور پوچھا۔

’’یہ خوشبو انہی شمعوں سے نکل رہی ہے نا۔ ‘‘

بشپ بولا ۔’’ ہاں اس کمرے میں خوشبو دار شمعیں جلائی جاتی ہیں ۔‘‘

کمرے میں ایک طرف عبادت کرنے کےلئے جگہ بنائی گئی ہے ایک بہت پرانی اور نفیس میز پر بائیبل کو کوئی پرانا نسخہ پڑا ہوا تھا ۔بشپ کہنے لگا ۔’’دراصل بشپ کارلائل کو تین چیزوں سے بہت زیادہ دلچسپی تھی ۔ عورت ، خوشبو اورخدا کی عبادت۔اسے اسی کمرے میں عورتوں کے ملاپ کی وجہ سے ہی قتل کیا گیا تھا ‘‘۔اورابولی ۔ ’’عیسائیت میں ایک مرد کے ساتھ صرف ایک عورت کا تصور ہے ‘‘۔

میں نے بشپ سے کہا ’’ایک عجیب بات بتائوں آپ کو ۔ ہمارے پیغمبر کا بھی فرمان ہے کہ مجھے تین چیزیں پسند ہیں نماز ،عورت اور خوشبو ‘‘

بشپ نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا ’’ حیرت انگیز ‘‘

چھوٹا سا دن تھا کیتھیڈرل میں ہی شام ہو گئی مگر دل میں صبحِ وصال کی کیفیت تھی ۔

تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں جانتی

(چادر کی شکنیں شمار کرتی ہوئی گفتگو)

ہم وہاں سے نکلے توبڑی سخت بھوک لگی تھی ۔مگر ورما نے خاص طور پر فون کرکے کھانا گھر آکر کھانے کاکہا تھا ۔اوراوائن پینا چاہتی تھی۔میں اسے وہیں قریب ایک پب میں لے گیا ۔اورانے جلدی جلدی دو گلاس وائن کے پی لئے ۔میں اُس کےلئے شمپین کی بوتل خریدنے لگا تو اس نے روکتے ہوئے کہا۔

’’ورما کے گھر میں کوئی ڈرنک نہیں کرتا اس لئے مجھے وہاں ڈرنک کرنا اچھا نہیں لگتا ‘‘

میں نے کہا ’’ تم آج رات میرے پاس ٹھہر جائو ‘‘

ہنس کر بولی ’’سوری میں دراصل اپنے آپ کو کوئی ایسا موقع نہیں دیتی جس کےلئے مجھے اپنے سامنے شرمندہ ہونا پڑے ۔‘‘میں نے اس بات نظر انداز کرتے ہوئے شیمپین کی دو بوتلیں خرید لیں ۔ہم واپسی کےسفر میں کچھ خاموش رہے اگرچہ دل بار بارکہہ رہا تھا کہ یہ مست مست چیز پھر ہاتھ نہیں آنی ۔تھوڑی سی اور محنت کر مگر میں نے سوچا کہ اسے ورما کے گھر چھوڑ کراپنے فلیٹ میں جا کر سو جائوں گا کیونکہ رات بھی نیند پوری نہیں کر سکا۔جب ہم ورما کے باہر پہنچے تو اورا بولی ’’میرا خیال ہے تمہارے فلیٹ پر ہی چلتے ہیں۔‘‘اور میرے چاروں طرف رات کے صحن میں سرخ سرخ پھول کھل اٹھے۔اُس وقت ہر گلی گلابوں والی گلی بن گئی تھی ۔اس نے مجھے کھوجنا شروع کیا وہ شاید میرے بستر کا ماضی کیا ہے یہ جاننا چاہتی تھی اور پھر کچھ ہی دیر میں اس نے میرے ساتھ ہمیشہ رہنے کی گفتگو شروع کردی ،میرے بارے میں کچھ زیادہ جاننا چاہا تو میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ میری زندگی کا اتنی مرتبہ ریپ کیا گیا ہے کہ اب وہ منٹو کا افسانہ ’’کھول دو‘‘ بن چکی ہے۔میری چشم ِ تمنامیں اتنی مرتبہ سلائیاں پھیری گئی ہیں کہ اب وہاں آنکھوں کی جگہ دو ہولناک غار بن گئے ہیں ۔مگر وہ بار بار پوچھتی تھی کہ میں کیا چاہتا ہوں ۔آخر تنگ آکر میں نے کہا ۔’’میں چاہتا ہوں
ایک خوشبو بھری شام میں رہنا۔ایک مہکی ہوئی رات کے گیت میں۔۔ایک کھوئی ہوئی روح کے وجد میں۔ایک تہجد کے جاگے ہوئے پہر میں۔چرچ کے گنگناتے سروں کی دعا بخش اتوار میں۔
ایک مندر کے اشلوک میں۔سینا گاگوں میں ہوتی مناجات میں۔گرداوارے کی ارداس میں۔ بابا فرید ایسے شاعرکی آیات میں۔تیرہ غاروں میں ہوتی نماز وں کے بیچ۔میں رہنا چاہتا ہوں ۔
حسنِ نور جہاں کی لہکتی ہو ئی گرم آواز میں۔رقصِ گوگوش کے دلربا بول میں۔ام کلثوم کی خواب بنتی ہوئی تان میں ۔ میڈونا کی صدیوں پہ پھیلی ہوئی تال میں ۔ایک کتھک کرتی ہوئی سونیا کی ہراک قوس میں ۔مونالیزا کے ہونٹوں پہ لکھی ہوئی نظم میں ۔رنگ جیسے پکاسو کی تجرید میں میں رہنا چاہتا ہوں ۔چاہتا ہوں کہ ہومر کی ہیلن مجھے پیار کرتی رہے۔چاہتا ہوں نئے عہد نامے کی کیتھی مرے لمس میں رنگ بھرتی رہے۔چاہتا ہوں کہ روزنیہ کی لمبی پلکیں مجھے خواب دیتی رہیں مگرمیری خواہش کتنی صدیوں سے کتوں کے جبڑوں میں ہے۔اورا نے سنجیدگی سے میری تمنائوں کے ذائقے کو محسوس کیا اور کہا ۔’’ اس مطلب یہی ہوا کہ تم میرے ساتھ رہنے چاہتے ہو‘‘

رات بارہ بجے ورما کا فون آیا کہ تم لوگ کہاں ہو۔ہم انتظار کرتے کرتے تھک چکے ہیں ۔اورا جانا تو نہیں چاہتی تھی کیونکہ برائی نیکی سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہےمگر اگلی دن اس کی فلائٹ تھی سامان بھی ورما کے گھر تھا۔ہم جلدی جلدی تیار ہوئے تقریباً ایک بجے میں نے اسے ورما کے گھر چھوڑا اور آکر گہری نیند سو گیا۔

آدمی نے اپنی صورت پر تراشے دیوتا

(میکسیکن دیوی کا پہلا میسج)

صبح اٹھا تو ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ اوراکدھر گئی پھر یاد آیا کہ اسے تو میں رات کو ہی ورما کے گھر چھوڑ آیا تھا۔ذرا سی اداسی محسوس کی ،دیوار پر لگی ہوئی پیٹنگ دیکھنے لگا جس میں کئی رنگوں کی لکیریں ایک دوسرے کو کاٹتی چلی جارہی تھیں ،کھڑکی سے پردہ سرکایا ،روشنی بھری برف آنکھوں میں دھنستی چلی گئی ۔جھرجھری سی لی اور اٹھ کھڑا ہوا ۔ پھراُس خلش کو سینے سے نکال کر نالی میں بہادیا۔دیر تک شاور کے نیچے کھڑا رہا،گرم گرم پانی سےاچھی طرح نہایا ،اُس کے لمس کو بدن سے کھرچ کھرچ دیا ،بار بار صابن ملا مگر اُس کی خوشبو آتی رہی ،ناشتہ کیا اور تیار ہوکر دفتر آگیا ۔برف کچھ کچھ پگھل چکی تھی ۔ سڑکیں پر مسلسل نمک کا چھڑکائو کر ٹریفک کا نظام درست کر لیا گیا تھا ۔تاحد نظر پھیلی ہوئی سفیدی میں تارکول کی کالی لکیریں رواں دواں تھیں ۔ورما نےاوراکو چھوڑنے کےلئے ایئر پورٹ جانا تھا وہ جلدی دفترسے نکل گیا ۔آج دفتر کا سارا کام مجھے ہی دیکھنا تھا ۔ہم نے ’’موٹیویشن ‘‘کے نام سے ایک ادارہ بنایا ہوا تھا ۔وہ بچے جو بگڑ جاتے تھے ۔مختلف شہروں کی لوکل کونسلز وہ ہمیں بھیجتی تھیں ہم انہیں اپنے چلڈرن ہومز میں رکھتے تھے اور انہیں اِس قابل بناتے تھے کہ وہ معاشرہ میں عام بچوں کے ساتھ چل سکیں ۔یعنی یہ آوارہ بچوں کو تہذیب یافتہ بنانے کا بزنس تھا ۔ہمارے پانچ چلڈرن ہومز میں بیس لوگ کام کرتے تھے جن میں ذہنی بیماریوں کے ڈاکٹر اور نفسیاتی ماہرین بھی شامل تھے ۔میں نے کام جائزہ لیا تو چند ای میلزکرنا تھیں ۔کونسل کے ایک آفیسر سے میٹنگ تھی۔ میں جلد ہی ان تمام معاملات سے فارغ ہو کراپنے معمول کے مطابق نروان کے پاس پہنچنے والا تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف سے اورا تھا ۔کہنے لگی ۔’’ میں اس وقت جہاز میں ہوں جہاز دس پندرہ منٹ میں اڑنے والا ہے ۔ میں تمہیں نے تمہیں صرف یہ بتانے کےلئے فون کیا ہے کہ اورا کہیں تمہارے فلیٹ میں رہ گئی ہے اس کا خیال رکھنا ‘‘

میں نے ہنس کر کہا ۔’’بے فکر رہو منصورآفاق بھی تمہارے ساتھ جہاز میں موجود ہے ۔ یہاں نہیں ہے،میں کافی دیر اسے ڈھونڈھتا رہا ہوں ‘‘۔فون بند کیا تومیسج آنے کی ہلکی سی آواز آئی ۔دیکھا تو وہ بھی اورا کا تھا لکھا تھا ’’بریڈفورڈ کے دیوتا!اک دھیمی سی کسک کے ساتھ جارہی ہوں جلد یہی جہازواپسی کےلئے پرواز کرے گامیرا انتظار کرنا ۔کیا کہوںسانس آتا ہے تو تیری خوشبو سے بھرا ہوتاہے ۔سانس جاتا ہے تو تیری تپش آتی ہے ۔میرے اجداد میکسکو کے پہاڑوں خزانے تلاش نہیں کر سکے تھے میں نے بریڈ فورڈ کی وادی میں اپنا خزانہ اپنا اثاثہ ڈھونڈھ لیا ہے آسمانوں کا دیوتا مجھ پر مہربان ہوگیا اس کے نام دنیا بھر کی تمام ثنائیں اور آدھی تمہارے نام ‘‘۔فون اور میسج کے بعد میں کچھ دیر اورا کے متعلق سوچتا رہا ۔اور پھر اپنے معمول کے مطابق خیالوں میں گیا ۔

بستیاں ہیں مری، ماضی کے کھنڈر پر آباد

(اکیسویں صدی کی قبر کا کتبہ )

نروان کے ساتھ گفتگو ہونے لگی۔یہ خیالوں میں نروان کے ساتھ رہنا مجھے بچپن سے بہت اچھا لگتا تھا۔ نروان کی باتیں میرا بابا کیا کرتا تھا اور وہ بچین سے میرے دماغ میں اتنی راسخ ہو گئی تھیں کہ میں جب بھی فارغ ہوتا تھا نروان کے بارے میں سوچتا تھا اور نروان مجھے اپنا ساتھ چلتا پھرتا دکھائی دیتا تھا میں خیالوں میں نروان کو کیا یاد کرتا تھا نروان کے زمانے میں پہنچ جاتا تھا اس کے ساتھ رہنے لگتا تھا ۔

یہ دوہزار پچیس قبل از مسیح کی ایک خوشگوار صبح تھی ۔میں اورنروان ایک قافلے کے ساتھ دھن کوٹ سے لوپورجارہے تھے۔ ابھی شہر سے نکلے ہوئے ہمیں تھوڑی دیر ہوئی تھی۔اس وقت دریائے سندھ ہمارے سامنے تھا۔پہاڑوں کی چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی دریاکی موجوں کے گرم خرام میں نرم روی آرہی تھی ۔کنارے پر تھرتھراتی ہوئی کشتیاں پرسکون ہوتی جارہی تھیں۔ان میں سامان لاد جا رہاتھا۔اونٹ اورگھوڑے بھی کشتیوں پر سوار ہونے تھے۔دریا پر زندگی جاگ چکی تھی۔ساحل چہک رہا تھا ۔جہاں ہم کھڑے تھے ہمارے بالکل پیچھے نمک کی کان تھی۔ہمارے دائیں طرف سرسبز وشاداب کالا باغ کی بستی تھی بائیں طرف بے آب و گیا ہ کوہساروں کا سلسلہ تھا۔ہمارے سامنے دریا کے اس پار کوریوں کی بستی ”ماڑی “ تھی جہاں کچھ سال پہلے کوریوں اور پانڈوں کے درمیان خوفناک لڑائی ہوئی تھی۔اتنا خون بہا تھا کہ دریائے سندھ کے پانی کا رنگ بھی سرخ ہو گیاتھا۔کئی چٹانوں پر ابھی خون کے داغ موجود تھے جہاں ہر جمعرات کو لوگ سرسوں کے تیل کے دئیے جلاتے تھے۔تھوڑی دیر میں قافلہ کشتیوں میں سما گیا۔جیسے ہی کشتیاں دریا کے درمیان میں پہنچیں تو پہاڑ پرنشیب سے فراز تک پھیلا ہوا کالاباغ شہر دکھائی دینے لگا۔آنکھیں ابھی اس منظر سے باہر نہیں نکلی تھیں کہ ہم دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔قافلہ کشتیوں سے اتر آیااور ماڑی شہر کو ایک طرف چھوڑ کر آگے بڑھنے لگا۔

اب ہم کئی کوس چل چکے تھے ۔دریا کے پانی سے دوشیزہ رہنے والی زمینیں بہت پیچھے رہ گئی تھیں ۔اس وقت ریت کا لق و دق تھل کاصحرا ہمارے دائیں طرف بہہ رہا تھااور چچالی کا بے آب و گیاہ پہاڑی سلسلے کی دیوتاﺅں کے ہاتھوں سے تراشی ہوئی سربلند دیوار بائیں طرف تھی۔ابھی سورج دوپہر کے نیزے تک نہیں پہنچا تھاہم آسمان سے ہمکلام ہوتی ہوئی دیوار کے سائے سائے چل رہے تھے ۔ ہم صرف چند لوگ نہیں تھے یہ ایک بڑا تجارتی قافلہ تھا سب تاجروں کے پاس دو طرح کا سامان تھا ،ہر تاجر کے سامان ایک حصہ” نمک “ پر مشتمل تھا۔یہ بڑا قیمتی نمک تھا۔ کالاباغ کی کانوں سے نکلنے والے اس نمک کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی ،اس نمک کو پچاس خچروں پر لادا گیا تھا۔سامان کا دوسرا حصہ سندھو گوزہ گر کے نگار خانے میں بنائے گئے برتنوں اورکچھی کے ترنجنوں میں بنے ہوئے ریشم کے نازک پارچہ جات پرمشتمل تھاکچھی کے جنگلات سے حاصل ہونے والے ریشم کی چمک سونے سے کم نہیں تھی۔ اکثر خریدار یہ سمجھتے تھے کہ یہ سونے کی تاروں سے بنا ہوا کپڑا ہے۔سامان کے اس حصے کو بائیس اونٹوں پر مضبوطی کے ساتھ باندھا گیا تھا ۔

ایک بوڑھا تاجر جو ہمارے قریب چل رہا تھا اس نے نروان سے پوچھا ۔” نوجوان تم کیابیچنے جا رہے ہولوپور“

نروان نے آہستہ سے کہا ۔”دماغ“

بوڑھے تاجر نے سوچتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا اور کہا ۔”جانتے ہو دماغ کسے کہتے ہیں “

نروان نے کہا ۔”ہاں دماغ دیوتائی عقل کے منبع کو کہتے ہیں جوروح کو سمجھنے کی اہلیت رکھتاہے “

بوڑھا تاجر بولا ۔ ”اور روح“

نروان نے کہا ۔”روح اس مکمل وحدت کی ایک کرن ہے جو ہر شے کی اصل ہے“

اب بوڑھے تاجر نے محبت بھرے انداز میں نروان کو دیکھااور بولا

میری دعاہے کہ تم جس مقصد کے لئے جارہے ہو اس میں عقل کا دیوتا تم پر مہربان رہے تمہاری باتوں سے الہام کی خوشبو آتی ہے الہام جو زندگی کی رہنمائی کےلئے روح ِ ِکل کا سب سے بڑا انعام ہے“

چلتے چلتے اچانک قافلہ رک گیا کسی اونٹ پر بندھی ہوئی پسے ہوئے نمک کی بوری میں سوراخ ہو گیا تھا۔بوڑھا تاجر ہمیں چھوڑ کر اس سمت بھاگا۔میں نے نروان سے کہا ۔”بوڑھا تاجر ایسا بھاگا ہے جیسے بوری سے نمک نہیں سونا بہہ رہا ہو“

نروان نے کہا ۔”میرے نزدیک تو یہ نمک سونے سے زیادہ اہم ہے۔ تمہیں معلوم ہے جس کان سے یہ نمک نکلتا ہے اس میں کام کرنے والوں کی عمر چالیس سال سے زیادہ نہیں ہوتی

میں نے حیرت سے کہا ۔ ”وہ کیوں “

نروان کہنے لگا ۔”نمک ہڈیوں کو چاٹ جاتا ہے۔۔۔انسانی زہر کے تریاق ہر بوری،انسانی سانسوں کا اجتماع ہوتی ہے اور سانس سے زیادہ قیمتی شے اس کائنات میں اور کوئی نہیں“

میں نے سوچتے ہوئے کہا ۔”انسانی زہر کا تریاق۔۔یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی “

نروان نے مجھے حقارت بھری نظر سے دیکھاجیسے اس کاواسطہ کسی بہت ہی کند ذہن شخص سے پڑ گیا ہو اور کہنے لگا ۔”انسان بنیادی طورپر ایک زہریلا جانور ہے۔بہت زیادہ زہریلا جانور۔۔وہ انسان جو نمک نہیں کھاتے وہ اتنے زیادہ زہریلے ہوتے ہیں کہ غلطی سے انہیں کبھی اڑنے والا کوبراکاٹ لے توخود مرجاتا ہے۔“

مجھے پھر حیرت سے پوچھنا پڑ گیا۔”میں سانپوں کے متعلق بہت کچھ جانتا ہوں مگرکوبروں کی کوئی ایسی نسل میری نظر سے نہیں گزری جو اڑ بھی سکتی ہو“

نروان نے ہنس کرکہا ۔”اڑنے والے کوبرے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے پر ہوتے ہیں ۔ یہ کوبرے دراصل بہت لمبی چھلانگ لگانے پر قادر ہوتے ہیں اسی چھلانگ کے دوران ڈس بھی لیتے ہیں ۔یہ دنیا کا سب سے زہریلا سانپ ہوتا ہے“

میں نے بحث کرتے ہوئے کہا ۔”مجھے اس نسل کا پتہ ہے مگر یہ کوبرے نہیں ہوتے“

نروان میری بحث سے اکتا کے بولا ۔” اچھا بھی یہ کوبرے نہیں ہوتے ہونگے ۔ مجھے تمہاری ملاقات رانو سنیاسی سے کرانی پڑے گی۔ اس کے مخبوں میں کئی ایسے کوبرے موجود ہیں اور خود رانو سنیاسی کوبرے سے زیادہ زہریلا ہے“

میں نے پوچھا ۔”کیا اس نے ساری زندگی نمک نہیں کھایا“

نروان کہنے لگا ۔”اس کا تعلق جس قبیلے سے کہا اس میں نمک کے استعمال کا ابھی رواج شروع نہیں ہوا۔اس قبیلے کی لڑکیاں اور لڑکے صرف ایک دوسرے سے شادی کرتے ہیں ۔ان کا کوئی فرد کسی نمک کھانے والے سے شادی کرلے تو بیچارے کی فوراً موت واقع ہوجاتی ہے۔ رانوسنیاسی کی دو بہت خوبصورت بیٹیاں ہیں مگر لوگ ان کے قریب سے بھی ڈر کر گزرتے ہیں“

اور کہیں قریب میں آک کا کویا پھٹا اور زندگی جاگی۔ہوا کے جھونکے نرم نرم ریشوں اپنے پروں پر سجا کر اڑنے لگے۔ آک کے کچھ ریشے پرمیرے چہرے سے لپٹ گئے اور ادھر بوڑھا تاجر میری طرف متوجہ ہوامگر اس کے کچھ کہنے سے پہلے نور نے میرا کندھا پکڑ کر مجھے جھنجھوڑ دیا اور میں دوہزار دس عیسویں میں واپس آگیا ۔میں وہیں بریڈفورڈ کے کارلائل بزنس سنٹر میں بیٹھا ہوا تھا۔

دل میں تین کواڑ لگا

(محبت کی پہلی مثلث)

وہی آفس تھا وہی کھڑکی سے آتی ہوئی دسمبر کے سورج کی برفاب شعاعیں تھیں بس اتنا فرق تھا کہ اب شعاعیں سیدھی نورکے چہرے پر پڑ رہی تھیں ۔اس کا چہرہ دوسو واٹ کے دودھیابلب کی طرح روشن تھاحالانکہ نور کی رنگت گندمی مائل تھی۔ ایک آدھ سکینڈ میری نظریں اس روشنی پر مرتکز ہوئیں تونور پیپر کٹر کو اپنی انگلیوں میں گھماتے ہوئے کہنے لگی ۔”یہ کہاں کھو جاتے ہو اتنی اتنی دیر۔۔ میں کتنی دیر سے تمہارے سامنے کھڑی ہوں اور تمہیں دکھائی ہی نہیں دے رہی“

میں نے ہاتھ سے اپنے چہرے پر چپکے ہوئے آک کے نرم ریشے ڈھونڈتے ہوئے کہا۔”میں ذرا نروان کے ساتھ تھا“ ۔نور بولی ۔”نروان نروان۔۔جاگتے میں نروان ۔ سوتے میں نروان۔۔کہیں تم پاگل ہی نہ ہو جاﺅ۔ اسے سوچ سوچ کر ۔تم نے تو اسے اس طرح حواس پر طاری کر لیا ہے جیسے تمہاری زندگی میں میانوالی کے اس قدیم فلاسفر سے اہم شے کوئی اور ہے ہی نہیں ۔۔“

میں نے نور سے کہا ۔”وہ مجھے اچھالگتا ہے اس کے ساتھ جب میں گفتگو کرتا ہوں تو یقین کرو مجھے یوں احساس ہوتا ہے جیسے وہ اور میں ایک ہی زمانے میں ہےں۔ میں اسے محسوس کرتا ہوں ۔ مجھے اس کی سانسوں کی آواز تک سنائی دیتی ہے ۔میں اسوقت دو ہزار سال پرانی صاف ستھری ہوا میں اڑتے ہوئے آک کے نرم نرم ریشوں کو مس کر رہا ہوں۔“ ۔نور مجھے سنجیدگی سے دیکھتے ہو ئے کہنے لگی۔ ۔ ”مجھے تو شک پڑنے لگ گیا ہے تمہاری ذہنی حالت پر۔۔ پتہ نہیں یہ آقا قافا تم سے کیا چاہتے ہیں “ ۔میں نے کہا ۔” کون “ ۔تو بولی ۔”میں نے تم سے ذکر کیا تھا اپنے مرشد کا ۔تمہاری طرح بڑے اچھے شاعر ہیں۔ ان سے میں نے تمہارے متعلق بات کی تھی وہ تم سے شاید ملنا چاہتے ہیں“۔ میں نے ہنس کر کہا ۔” شاید۔۔ شایدکیوں ۔۔ ویسے تمہاری اطلاع کےلئے عرض ہے کہ میں ایک آزاد خیال مسلمان ہوں اور ان پیری مریدی کے سلسلوں کو روزی کے دھندے سمجھتا ہوں ۔بیچارے مرید یہ سمجھتے ہیں یہ پیر ہمارا رکھوالا ہے اور پیر سمجھتے ہیں کہ یہ اون سے بھری ہوئی بھیڑیں ہیں جن کی کھال ذبح کیے بغیر بھی اتاری جا سکتی ہے“ ۔نور بولی ۔” میں تمہیں جانتی ہوں۔۔ اتنے دنوں میں کسی کے عقائد اور نظریات تو ایک طرف ،اس کی روح کو بھی سمجھا جاسکتا ہے“

میں ہنس کر بولا ۔” اتنے بڑے بڑے دعویٰ اچھے نہیں ہوتے ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا ۔وقت کا کالا انجن بیچارہ ہمارے بیچ۔رک رک کے چل رہا ہے۔اتنی آہستگی سے تو ماڑی انڈس سے عیسیٰ خیل جانے والی ریل گاڑی بھی نہیں چلتی تھی“۔ نور ہنس کر بولی۔ ” میں اُس ریل گاڑی کے متعلق تم سے زیادہ جانتی ہوں وہی جو اڑھائی فٹ کی ریلوے لائن پر چلا کرتی تھی“۔

میں نے اس کی معلومات سے خوفزدہ ہوکربات بدلتے ہوئے کہا ۔”نروان نے کہا تھاآدمی کی پہچان سفر میں یا خواب میں ہوتی ہے۔ابھی نہ تو ہم نے مل کر سفر کیا ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کے خواب دیکھے ہیں “ ۔نور زچ ہو کر بولی ۔” یہ نروان زندہ ہوتا تو میں اسے مار دیتی ۔ ۔

میں ہنس کر کہا ۔”کیا آنکھ “ ۔نورنے مصنوعی غصے سے پیپر کٹر کی نوک میری ہاتھ میں چبھوئی اور کہا ۔”میں کوئی دھان پان سی لڑکی نہیں ہوں ۔ کئی بار موت کے کھیل میں شریک رہی ہوں ۔مرتے ہوئے لوگوں کا بغور مطالعہ کیا ہے میں نے۔جانکنی کے عالم میں لوگوں کو دیکھا ہے ۔میں موت کے کھیل سے صرف واقف ہی نہیں ۔خود کھیل بھی چکی ہوں۔“

میں نے نور کی ہولناک دعوﺅں سے صرف ِ نظرکرتے ہوئے کہا ۔” ایک بات پوچھتا ہوں سچ سچ بتانا۔“ نور بولی۔ ”کیا“ ۔میں نے کہا ۔”میں دو مرتبہ تمہارے گھر گیا ہوں ۔ میں نے دونوں مرتبہ کھڑکی سے تمہیں لیونگ روم میں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا تھامگر تم اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی یا دروازے کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔ تمہاری ملازمہ نے آکرجب مجھے لیونگ میں بیٹھا دیا تو تم پھر لیونگ روم داخل ہوئی ۔ اس کا سبب کیا ہے“

نور ہنس بولی ۔”صرف اس لیے کہ تمہاری آمدپر مجھے نہ اٹھنا پڑے ۔ بلکہ میری آمد پر تمہیں کھڑا ہونا پڑے “

میں نے ماتھے پر پھیلتی ہوئی شکنوں کو کم کرنے کےلئے سگریٹ کی ڈیبا سے سگریٹ نکالا اور اسے لائیٹر سے جلاتے ہوئے کہا ۔” یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ۔ان اطوار سے لگتا ہے تم کوئی قدیم نواب زادی ہو“

نور بولی ۔”اوہ یہ تم نے کن باتوں میں الجھا دیا ہے میں تویہ کہنے آئی تھی کہ میں ایک گھنٹے کے بعد آﺅں گی ہم دونوں نے تین بجے آقا قافا کی مجلس میں شریک ہونا ہے ۔ ادھر ادھر مت ہو جانا ۔۔ہمیں وہاں جانا ہے “

میں نے ہنس کہا ۔”جب تم نے کہہ دیا ہے جانا ہے تو پھر جانا ہے “

میرا جملہ ابھی آدھا تھا کہ نور کمرے سے باہر جا چکی تھی۔اور میرا بزنس پارنٹر ورما اندر داخل ہوا اور ہنس کر بولا ۔”نورسے تمہاری دوستی کچھ لمبی نہیں ہوگئی ؟۔کبھی اس کے بارے میں کچھ بتایا نہیں۔میں کافی دیر سے اس کے جانے کا انتظار کر رہا تھا “

میں نے اسے کہا ۔ ”میرا وہ دوست رضا ملال ہے نا لیڈز یونیورسٹی میں میڈیا ڈپارٹمنٹ کا چیئرمین۔۔ اس نے ایک دن سکرپٹ رائیٹنگ کے موضوع پر لیکچر دینے کےلئے مجھے یونیورسٹی میں بلایاتھا۔انگریز طالب علموں نے تو میرے لیکچر میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لی تھی مگر یہ ایشین لڑکی لیکچر کے بعد میرے سر ہوگئی تھی۔ ۔چونکہ بہت زیادہ خوبصورت ہے اس لئے میں نے بھی اس میں دلچسپی لینی شروع کردی ۔

حسن جس حال میں ہوتا ہے جہاں ہوتا ہے

اہلِ دل کےلئے سرمایہ ء جاں ہوتا ہے“

ورما بولا ۔”جناب کی دلچسپی کونسی وادی میں پہنچی ہوئی ہے ۔ لمس کے پھول کھل چکے ہیں“

میں نے کہا ۔” نہیں وہ ایسی ویسی نہیں ہے ۔بس خالی خولی دوست ہی ہےجیسے تمہاری دوستی نورکے ساتھ ہے ۔بڑی انا ہے اس میں تو۔ اپنے آپ کو کوئی بہت توپ چیز سمجھتی ہے ۔اکیلی رہتی ہے ۔اکثر لوگوں سے اس کارویہ غلاموں جیسا ہوتا ہے ۔اس نے گھر میں دو ملازم رکھے ہوئے ہیں فل ٹائم ملازم اور وہ برطانیہ میں بھی اس کے سامنے ایسے کھڑے ہوتے ہیں ۔جیسے یہ کوئی قدیم زمانے کی شہزادی ہے اور وہ غلام ‘‘

ورما نے حیرانگی سے کہا ۔”یہاں برطانیہ ملین ائیر بھی گھر میں ملازم نہیں رکھتے۔لگتا ہے اس کے پاس بہت دولت ہے۔ کام کیا کرتی ہے ۔کوئی بزنس ہے اسکا“میں نے کہا” نہیں کوئی کام نہیں کرتی ۔میں نے ایک بار پوچھا تھا اس سلسلے میں تو کہتی تھی باپ دادا بہت چھوڑ گئے ہیں اس لئے نسلوں تک ختم نہیں ہو گا۔

ورما بولا۔ ”اکیلی لڑکی ہمیشہ پارٹنر کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ کئی ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں ہر رات نئے پارنٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے کہا”نہیں ورما اس حوالے بہت مضبوط لڑکی ہے ۔ایک بار اتفاق سے میرا ہاتھ اس کے جسم کے کسی حصے سے جا لگاتھا جس پر وہ بہت زیادہ ناراض ہوئی تھی ۔بڑی مشکل سے منایاتھا“

ور ما نے حیرت سے کہا ۔ ”اتنے خوبصورت ”اتفاق “ سے ناراض ہو گئی تھی “

میں نور کےبارے میں باتیں کرتے کرتے ذہنی طور پراورا کے پاس پہنچ گیا ۔دونوں میں مقابلہ کرنے لگا۔ دل دونوں کی طرف ایک ہی رفتار سے جھک رہتا تھا۔میں نے دونوں کا موازنہ کرنا شروع کیا ۔اورا کے کپڑوں میں بھی آگ دھکتی تھی ۔ نور کا جوبن بھی چودھویں کے چاند جیسا ہے۔اورا میں بے باکیوں کے چلوے تھے۔نور میں شرم و حیا کے آنچل لہراتے ہیں ۔اورا علم سے بھری تھی ۔نور سراپا عمل ہے۔

اچانک مجھے لگا ہے کہ ورما میرے جواب کا منتظر ہے ۔میں نے تیز نظر وں سے اسے دیکھا اور کہا۔”اسے چھوڑو یہ بتاﺅ آج میرے لئے کوئی کام ہے ۔ ‘‘

ورمابولا۔ ” کام ۔۔ تمہیں محبت کرنے کے سوا اور کوئی کام آتا ہے کیا “ اور چیک بک میرے سامنے میز پر پھینک کرکمرے سے باہر نکل گیا۔اور نور کے متعلق سوچنے لگا ۔نگارِ خانہ ء جاں میں رنگوں کی برسات ہونے لگی۔بے چہرگی ء وقت پہ خد و خال ابھرنے لگے۔ایک اور خوابیدہ کہانی کی آنکھ کھلنے لگی۔نا معلوم سے کچھ کردار قریہ ء معلوم میں آنے لگا۔کمپیوٹر کی ونڈو سے ایک نازک اندام لڑکی نے پانچ ہزار میل لمبی چھلانگ لگائی اور میرے پاس پہنچ گئی ۔حقیقت نے ایک کہانی کالمبا فرغل پہن لیا۔

چیک پہ چلتا ہوا قلم کیا ہے

(سو پونڈ کی خبر)

چیکوں پر دستخط کرتے ہوئے میں نے فائلوں والی ٹرے میں نظر دوڑائی تو مجھے اس حقیقت کا احساس ہواکہ جب سے میں نے ورما کو اپنا بزنس پارٹنر بنایا ہے میرے پاس دفتر میں چیک سائن کرنے کے سوا کوئی کام نہیں رہا۔لکھنے پڑھنے کا کام چھوڑے ہوئے بھی کئی سال ہو گئے تھے ۔وقت نے مجھے کہا تھا کہ چیک پہ چلتا ہوا قلم میر و غالب کے قلم سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے تو میں نے اپنی بال پوائنٹ کو پارکر کے ایسے پین سے بدل لیا تھا جس میں سونے کی نب لگی ہوئی تھی ۔ کئی سالوں سے اُسی چمکتی ہوئی نب سے لکھے ہوئے کی چمک دمک میرے چارسوتھی۔

میں نے فائلوں سے سر اٹھایا تو دیکھا کہ ایک سیاہ فام جمیکن دروازہ پر کھڑا ہے میں نے سر ہلا کر اسے اندر آنے کی اجازت دی وہ آیا اور مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولا ”مجھے مارٹن کہتے ہیں“

میں نے اس کی ظاہری حالت پر نظر ڈالی تو ایسا لگا کہ یہ کوئی نشہ میں مبتلاشخص ہے جس کا نشہ اس وقت ٹوٹ رہا ہے ۔ لباس بھی میلا سا تھا ۔ چہرے پر مایوسی پھیلی ہوئی تھی ۔آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں ۔رنگ زرد تھا۔مجھے حیرت ہوئی کہ اسے میری آفس تک کیوں آنے دیا گیا ۔میں نے ان سے پوچھاکہ

کیا چاہتے ہو“

کہنے لگا ۔’’ایک خبر ہے ۔میرے پاس ۔مگراس کی قیمت سو پونڈ ہے ۔“

میں نے کہا ”تم خبر بتاﺅ۔قیمت میں بتاﺅ ں گا۔“

کہنے لگا ”ابھی جو یہاں سے لڑکی نکل کر گئی ہے ۔اس کا قتل کاسودا دس ہزار پونڈ میں ہوا ہے ۔جس نے سودا کیا ہے ۔ میں اسے جانتا ہوں “

میں نے لمحہ بھر سوچا اور پھر پرس سے سو پونڈ نکال کر میز پر رکھ دئیے اورکہا ”بولو “

کہنے لگا۔ ’’بنجمن اور میں ایک ہی فلیٹ میں رہتے ہیں ۔بنجمن کو کسی شخص نے پانچ ہزار پونڈ ایڈوانس دئیے ہیں اس لڑکی کے قتل کےلئے ۔باقی پانچ ہزار قتل کے بعد دے گا۔بنجمن کے پاس اس لڑکی کی تصویر موجود ہے اوروہ اس کی تلاش میں ہے“

میں نے پوچھا ”کیا تمہارا بنجمن سے جھگڑا ہوا ہے “ بولا ”ہاں اس نے مجھے پانچ ہزار سے صرف دو سو پونڈ دئیے تھے ۔اسے کم از کم پانچ سو پونڈ دینے چاہئے تھے ۔“اگر تم اس آدمی کا پتہ بھی معلوم کر لو جس نے پانچ ہزار بنجمن کو دئیے تھے تو تین سو پونڈ اورمیں دوں گا“۔پھر میں نے ورما کو بلایا اور کہا ۔’’اس کے ساتھ جاکر اس کا فلیٹ دیکھ آﺅ ۔اس کے ساتھ کوئی بنجمن نام کا آدمی رہتا ہے اگر موجود ہو تو اس کی شکل دیکھ کر آنا “

ورما بولا ”خیریت ہے نا ۔اس کے پاس کوئی آپ کےلئے خبر تھی ۔میں نے اس لیے اسے اندر بھیجا تھا “میں نے کہا ”ہاں بس اب خبر کی تصدیق کرنی ہے “

ورما اسے لے کر دفتر سے نکل گیا میں نے سوچا کہ نور کو فون کر کے بتائوں مگر خیال آیا کہ بیچاری کو فوری طور پر پریشان نہ کیا جائے ۔ممکن ہے اس کالے نے سو پونڈ کے چکر میں یہ کہانی تراشی ہو ۔میں نے ذہن سے کالے کو نکال دیااور مجھے یاد آیا کہ نروان اور میں تو لوپورجا رہے تھے

آدمی اور کائناتِ خارجی میں ارتباط

(لفظ چباتے گیدڑوں کی پریشانی)

صحرا کی دھوپ میں دھلی ہوئی ہواکا ایک ریت سے بھرا ہوا جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا۔اورنروان کہنے لگا

اس ہوا کے بارے میں بابا کہا کرتے تھے۔ یہ ازل سے سفر میں رہنے والی بے شکل بلا کبھی کبھی صحرا میں پاگل اونٹنی کی طرح کاٹنے لگتی ہے یہ نظر آئے تو ناگ دیوتا کے ہاتھ سے چہرہ ڈھانپ لیا کرو“

میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا

ناگ دیوتاکا ہاتھ؟ “

نروان میری طرف دیکھ کر بولا

تمہیں تو ہر بات بتانی پڑتی ہے۔۔یہ جو ہم بل دے کر سر پر چارد کی کنڈلی مارلیتے ہیں یہ ناگ دیوتا کی علامت ہے ۔ ناگ دیوتا کا ہاتھ۔۔پگڑی کے پلوکو کہا جاتا ہے۔۔۔“

اور میں نے بھی نروان کی طرح پگڑی کے پلو کو چہرے کا نقاب بنا لیا۔کچھ دیر ہم خاموشی کے ساتھ چلتے رہے۔اچانک میری نظر پہاڑ کی طرف اٹھی تو ایک سلیٹ کی طرح سیدھی چٹان پر کچھ تصویریں بنی ہوئی تھی ۔میں نے نروان کو ان کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تو کہنے لگا

میں تم سے پہلے پڑھ چکا ہوں“ ۔

میں نے حیرانگی سے پوچھا

کیا یہ کچھ لکھا ہوا ہے “

کہنے لگا

تم بولتے بہت ہو ۔۔ہاں یہ قطبی ستارے کی شان میں لکھا ہوا ایک دراوڑی گیت ہے “

میں نے کہا

سناﺅ گے نہیں “

اور نروان گیت پڑھنا شروع کردیا

ابھے پاسے بکھداے ہن دے لیکھ دا تارہ

گندھیاے جیدے لشکاراںبھگوان دا گارا

ٍ (شمال کی طرف سے ہنوں کے مقدر کا ستارہ روشن ہوتا ہے جس کی شعاعوں میں بھگوان کے بت کا گارا گوندھا گیا ہے )

میں نے گیت کے بول سن کر حیرت سے کہا

یہ تو سرائیکی زبان ہے“

نروان کہنے لگا

سرائیکی ۔یہ بھی کسی زبان کا نام ہے۔یہ ہنی زبان ہے ۔ہنوں کی زبان “

میں نے حیرت سے پوچھا

یہ ’ ہن ‘کون تھے“

نروان بڑی بے رحمی سے بولا

تھے نہیں ہیں ۔جتنے جاہل تم ہو اتنا جاہل تو ہمارے قبیلے کا بال کاٹنے والا بھی نہیں “

مجھے ایسے لگا کہ آج نروان گفتگو کرنے کے موڈ نہیں ہے سو میں نے بھی خاموشی پہن لی مگر ابھی ایک کوس ہی نہیں چلے تھے کہ اس نے مجھ سے کہا

میرا خیال ہے تم زیادہ دیر میرے ساتھ نہیں چل سکو گے ۔تم دوسراپاﺅں ابد پر رکھنا چاہتے ہواور میں ازل کو سمجھنے کےلئے برسوں سے پہلے قدم پر رکا ہوا ہوں۔تمہارے نزدیک فلسفہ ءصبر قاتلوں کی منطق ہے اور میں انتظارکی صدیوں بھری وحشت کا مسافر ہوں۔تم ایک چھلانگ میں معرفت کی اعلیٰ ترین منزل پر پہنچنے کا خواب دیکھتے ہو اور میں اپنی فکری پرواز میں معرفتِ اعلیٰ کا پابند ہوںمیرے لئے اس حقیقت تک پہنچنے کے بہت سے مدارج ہیں جن سے میں نے گزرنا ہے ۔ دیکھو آندھیوں اور طوفانوں کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے “

میں نے اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا

نروان تمہارا تعلق گاﺅں سے ہے اور تم یہ بھی کہتے ہو کہ تم پہلی باردھن کوٹ جیسے بڑے شہر میں آئے ہو ۔تو پھریہ اتنی عقل مندی کی باتیں کہاں سے سیکھی ہیں“ ۔

نروان ہنس پڑا اور بولا

علم صرف شہروں میں لفظوں کو چبانے والے گیدڑوں کا ورثہ تونہیں۔میرے ساتھ درختوں کے پتے باتیں کرتے ہیں۔لہلہاتی فصلیں مجھے کہانیاں سناتی ہیں۔ان چھوئے جنگل مجھے اپنے خواب دکھاتے ہیں ۔ میری پرندوں سے گفتگو رہتی ہے۔ہوائیں مجھے لوریاں دیتی ہیں۔ سندھ کے پانی مجھ سے سر گوشیاں کرتے ہیں۔پہاڑ آگے بڑھ بڑھ کے میرے پاﺅں چومتے ہیں ۔ دشت میری آنکھ کی وسعت سے سہمے رہتے ہیں۔ راتوں کو ستارے مجھ سے ہمکلام ہوتے ہیں“

نروان کے منہ سے اتنی بڑی باتیں سن کر میں نے کہا

تو پھرلہوارجیسے شہر میں لفظوں کو چبانے والے گیدڑ وں سے کیا لینے جارہے ہو۔“

نروان کی پیشانی شکنوں سے بھر گئی اور بولا

تمہیں کہا ناکہ ماروائی اصل تک پہنچنے کے لئے جو مدارج میں نے طے کرنے ہیں ان کےلئے کسی رہنما کی ضرورت پڑتی ہے میں نے سنا ہے کہ لہوارمیں چندروید نام کا ایک آدمی ہے جو اس سلسلے میں میری مدد کر سکتا ہے“

اور میں نے چونک کر کہا

یہ کیسی آواز ہے شاید کوئی گھنٹی بج رہی ہے“

ٹکٹ خرید رکھے تھے مگر گئے نہ کہیں

(بدلتے راستے کی پہلی آہٹ)

اور ٹیلی فون کی گھنٹی مجھے واپس دفتر میں لے آئی ۔ فون پر نورتھی کہ میں پارکنگ میں انتظار کر رہی ہوں اور چند لمحوں کے بعد میں نور کی گاڑی میں کارلائل روڈ سے گزر رہا تھا ۔کار منگھم لین پر مڑی۔ اس وقت ہمارے دائیں طرف منگھم پارک تھا۔اسے دیکھتے ہی مجھے وہ شام یاد آگئی جب منگھم پارک کی جھیل میں نورکے ساتھ بیٹھ کر میں نے کشتی رانی کی تھی اس جھیل میں گھومنے کےلئے پیڈلوں والی چھوٹی چھوٹی کشتیاں کرائے پر ملتی ہیں ۔ایک کشتی صرف دو آدمی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں اور وہ بھی بہت زیادہ ایک دوسرے کے قریب ہو کر۔۔۔اسی کشتی رانی کے دوران میرا ہاتھ نور کے جسم کے کسی نازک حصے سے ٹکرایا تھااور وہ ناراض ہو گئی تھی۔کار منگھم لین کو پیچھے چھوڑتی ہوئی کیتھلے روڈ پر آگئی۔میں نے نور سے کہا

تمہیں معلوم ہے نا آج کتنا اہم کر کٹ میچ ہے ۔میری جیب میں دو ٹکٹ بھی موجود ہیں کہو تو گاڑی لیڈز کی طرف موڑ لوں “

نور بولی

نہیں ہرگز نہیں “

میں نے حیرت سے پوچھا

تمہیں کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں “

نور کہنے لگی

میرے بدن پر کرکٹ کی گیندوں کے لگے ہوئے بہت زخم ہیں ۔ہم جدھر جا رہے ہیں بس ادھر ہی جا رہے ہیں “

میں نے مسکرا کر کہا

کوئی نوکدار گیندیں تھیں ۔ کہاں سے ہوئی تھی تم پر باولنگ“

نور نے بڑی معصومیت سے کہا

کمپیوٹر کے مانیٹر سے نکل نکل کر لگتی رہی ہیں مجھے “

میں نے ذرا سا سنجیدہ ہو کر کہا

اتنی علامتی گفتگو اچھی نہیں ہوتی ۔ایک لفظ کے کئی کئی مطلب ہوتے ہیں “

نور بڑی سنجیدگی سے کہنے لگی

میں نے کوئی علامتی بات نہیں کی ۔۔ شاید تمہیں اس کا تجربہ نہیں ہے کبھی کبھی سکرین سے کردار باہر بھی نکل آتے ہیں۔مگر ہر شخص ان کرداروں سے ہمکلام نہیں ہو سکتا“

میں نے اس کی سنجیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے پوچھا

کمپیوٹر کے متعلق کتنا کچھ جانتی ہو “

کہنے لگی

تمہارے تصور سے بھی شاید کچھ زیادہ۔۔۔۔کمپیوٹر کا شمار میرے محسنوں میں ہوتا ہے۔تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ میں اس کمپیوٹر کی کھڑکی یعنی ونڈو کا کتنا احترام کرتی ہوں۔ یہ جادوئی کھڑکی میرے زندگی میں نہ آتی تو پتہ نہیں میرا کیا حشر ہوا ہوتا ۔“

میں نے نور کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا

کیا احسان کیا ہے کمپیوٹر نے تم پر “

نور بولی

میں یہاں سے پانچ ہزار میل دور ایک قید خانے میں تھی ۔جہاں مجھے صرف کمپیوٹر کی میسر تھی ۔ میں وہاں اس ونڈو میں داخل ہوئی اور یہاں برطانیہ آنکلی “

میں نے ہنس کر کہا !

لگتا تو نہیں ہے مگر ممکن ہے تم کمپیوٹر کا کوئی پروگرام ہو“

نور نے اور زیادہ سنجیدگی سے کہا

صرف میں نہیں تم بھی ایک ڈیزائن شدہ پروگرام ہو مگر ہمارا پروگرامر کوئی آدمی نہیں خدا ہے “

اسی لمحے مجھے ایک تیز رفتار گاڑی بالکل سامنے سے آتی ہوئی دکھائی دی میں تیزی سے کٹ ماری ااورسانس بحال کرنے کےلئے گاڑی روک دی ۔ ایکسینڈنٹ ہوتے ہوتے رہ گیا تھامیں نے نورکی طرف دیکھا تووہ بڑے اطمینان سے بیٹھی ہوئی تھی۔میں نے نور سےکہا ۔”کوئی کالا تھا“

نور کہنے لگی ۔”ہاں کالے وائرس بڑے خطرناک ہوتے ہیں ۔ ہمیں اللہ نے بچالیا ہے وگرنہ کمپیوٹر سچ مچ کرش ہونے لگا تھا“

یک لخت پھر لولیس کے سائرن بجنے کی آوازیں آنے لگی اور پھر لیولیس کاریں شاں کر کے ہمارے قریب سے گزر گئی یقینا وہ کالا پولیس سے بھاگ رہا تھا۔نور بولی ۔”اوہ تو اینٹی وائرس فورسز پیچھے لگی ہوئی تھیں“

ہم نے چند منٹ خاموشی سے سفر طے کیا۔ اچانک مجھے نور کی گوری ماں یاد آئی اور میں نے نور سے پوچھا ۔”نور تم نے تو کہا تھا تمہاری ماں انگریز تھی۔ پھر تم یہاں پانچ ہزار میل دور سے کیسے آئی ہو “

نور براسا منہ بنا کر بولی ۔”مجھے ماں نے یہاں سے پانچ ہزار میل دور جنم دیا تھا۔۔۔گاڑی آہستہ کر لو۔ ہم نے بس یہاں سے گیٹ کے اندر داخل ہونا ہے“

اور پھرنور کے کہنے پر میں ایک وسیع عریض پیلس کے گیٹ میں گاڑی موڑلی ۔اور بر بڑاتے ہوئے کہا ۔”یہ تو کوئی بہت امیر آدمی ہے۔یہاں ہیلی پیڈ بھی موجود ہے “

اک شخص بزمِ یار میں میری طرح وجیہہ

(ہم زاد کی پہلی آواز)

جب ہم آقا قافا کے وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو اندر نماز ہو رہی تھی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ امام کے پیچھے دو صفیں تھی پہلی صف میں دس گیارہ نوجوان کھڑے تھے اور دوسری صف میں بھی تقریباً اتنی ہی نوجوان لڑکیاں ۔ان میں کچھ مغربی لباس میں بھی تھیں۔ یہ عصر کی نماز تھی چند ساعتوں میں ختم ہو گئی۔ میں نے امام کے دعا مانگتے ہوئے چہرے کو غور سے دیکھا۔ یاد رکھنے والا خوبصورت چہرہ تھا۔عمر زیادہ سے زیادہ تیس سال ہونی چاہئے اس نے تازہ شیو کیا ہوا تھاوہ نوجوان امام میری زندگی کا سب سے حیرت انگیز شخص تھاثبوت کےلئے یہی بہت ہے کہ اس نے پہلی نظرمیں مجھ جیسے آوارہ فکر شخص کو متاثرکرلیا تھا

نور نے اس سے میرا تعارف کرایااور پھرنور اور میں بھی دوسروں کی طرح مودب ہو کرقالین پر بیٹھ گئے ۔میرے سامنے والی دیوار پر دو تلواریں ایک دوسرے کو کراس کرتی ہوئی لگی ہوئی تھیں ان کے نیچے شیر کی کھال آویزاں تھی ۔میں نے دوسری دیوار کی طرف دیکھاتو وہاں آرٹ کے تین نمونے سجے ہوئے تھے ایک صادقین کی پینٹنگ تھی جس میں ایک مشہور آیت کو اس نے تجسیم کیا ہوا تھا۔دوسرے دو نمونے مجھ سے دور تھے لیکن اتنا احساس ہو رہا تھا کہ کوئی تجریدی آرٹ کے شہکار ہیں ۔جب نورنے اپنے مرشد سے ملاقات کےلئے مجھے کہا تھاتو میں نے سوچا تھاکوئی ساٹھ ستر سال کا بوڑھا شخص ہو گالمبی لمبی داڑھی ہو گی۔تعویذدھاگے کا کام کرتا ہو گااور بیچاری نور اپنی ضعیف العتقادی کی وجہ سے اس کے چکر میں آگئی ہو گی مگر اس محفل میں تو نور سے زیادہ خوبصورت لڑکیاں موجود تھیں اور آقا قافابے پناہ پر کشش شخص نظر آتا تھااس نے بہت شاندار سوٹ پہن رکھا تھاٹائی لگائی ہوئی تھی لباس کے رنگوں میں حسنِ تناسب اس کے ذوقِ جمال کی خبر دے رہا تھامیں زندگی میں پہلی بار کسی ایسے شخص کو دیکھ رہا تھا جو سوٹ پہن کر امامت کرا رہا تھا ۔ایک طویل خاموشی کے بعد آقا قافا نے اپنے لب کھولے اور بڑے دھیمے لہجے میں کہا

آج ایک ایسا شخص ہماری محفل میں موجود ہے جس نے خواب اور حقیقت کے درمیان ایک پل بنا لیا ہے وہ جاگتے ہوئے تصور میں جہاں تک پہنچتا ہے اس سے آگے کا سفر سونے کے بعد خواب میں شروع کر لیتا ہے اور اپنے اس کمال کااسے احساس ہی نہیں شاید یہ کمال اسے نروان کی ہمسفری سے ملا ہے۔ لیکن اسے علم نہیں کہ وہ ذہنی ارتقاءکے جس سفر پر روانہ ہونے والا ہے اس راستے پرنروان زیادہ دیر تک اس کا ساتھ نہیں دے سکے گا۔ وہ نہیں جانتا کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے وہ کچھ بھی نہیں جانتا نہ اپنے بارے اور نہ ہمارے بارے میں ۔۔ وہ تو یہاں صرف نور کا دل رکھنے کےلئے آیا ہے مگر مجھے بڑے دنوں سے اس شخص کا انتظار تھا۔۔شاید اس کی یا میری کوئی نیکی ہم دونوں کے کام آگئی ہے جس نے اسے نور سے ملا دیا ہے نورجو اس کا باطن ہے نور جو اس کی روح ہے نور جو روحِ کل سے اس کے رابطے کا ذریعہ ہے اور اس کی دوست بھی ۔ابھی میری باتیں اسکی سمجھ میں نہیں آئیں گی ۔ کیونکہ یہ تو وہ ہے جو اپنے گناہوں کا حساب رکھتا ہے ان پر اتراتا ہے اس کے خیال میں نور اس کی زندگی میں آنے والی دوسو اکیسویں لڑکی ہے اور میرے خیال کے مطابق پہلی۔۔اسے لڑکیوں کو تسخیر کرنے میں حسن دکھائی دیتا ہے اور جب گناہ خوبصورت نظر آنے لگیں بدی خوبی محسوس ہونے لگے تو اس کا مطلب ۔ کوئی مطلق مایوسی نہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شخص کا باطن مردہ خانہ بن چکا ہے جہاں ثواب اور خیر کی لاشیں پڑی ہوئی ہیںمگر روح کے ویرانوں میں جتنا بھی اندھیرا ہو جائے کوئی نہ کوئی چاند کوئی نہ کوئی ستارہ کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتا ہے۔ عورت اور مرد کا ملاپ تو ”کن“ کے فروغ کا نام ہے۔ ثوابِ عظیم ہے صدقہ ءجاریہ ہے بس اتنی سی بات ہے کہ آپ خدا کی کھینچی ہوئی لکیر کے اندر کھڑے ہیں یا باہر۔۔آپ نے اسے گواہ بنایا ہے یا نہیں۔وہ جو ہر شخص کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہے۔وہ بادشاہ ہے چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق اس خوبصورت ترین عمل میں اسے بھی یاد رکھے۔ خوبصورت ساعتوں میں اسے یاد کرنا بدصورت ساعتوں میں اسے یاد کرنے سے ہزار گنا افضل ہے“

اور پھر آقا قافاکی گفتگواس موضوع کے ارد گرد گھومنے لگی کہ نیکی کیا ہے۔تقریباًوہ گھنٹہ بھر بولتے رہے اور پھر مجلس اختتام کو پہنچی۔میں باہر نکل آیا نور ابھی اندر تھی کسی کے ساتھ کوئی بات کر رہی تھی میں نے آقا قافا کی ڈرائیو وے میں نور کی کار کے پاس کھڑے ہو کرغور سے اس عمارت کو دیکھنا شروع کیا ۔ یہ کوئی پرانا پیلس تھالیکن اسے بہت خیال سے رکھا گیا تھا۔ محراب دار کھڑکیوں میں رنگ دار شیشے کا کام تھامحرابوں کے اور پر نیلے رنگ کے شیشے کی ایک موٹی سے لائن تھی جو محراب کے ساتھ ساتھ بل کھاتی چلی جاتی تھی ۔گھر کے باہر صحن کی دیوار سے ملحقہ ایک بڑی سے ڈیوڑھی تھی جسے پتھر کے گول گول ستونوں پر اٹھا گیا تھااور اس کے اوپر مورچے بنے ہوئے تھے یہ مورچے پیلس کے چاروں کونوں پر بھی تھے جن کے اوپر چھوٹے چھوٹے گنبد تھے محل میں داخل ہونے کےلئے اس ڈیوڑھی گزرنا پڑتا تھا ۔ ساری عمار ت پر باہر سے سنگ سرخ لگا ہوا تھا۔عمارت کے چاروں طرف وسیع و عرایض لان تھے جن میں فوارے لگے ہوتے تھے ۔ تمام چل رہے تھے ۔خزاں رسیدہ بے شمار درختوں کے باوجود کہیں کوئی پتہ زمین پر گرا ہوا نہیں تھا لان کی گھاس تازہ تازہ کاٹی ہوئی تھی ۔پھولوں کی کیاریاں بھی ویران نہیں تھیں۔ لگتاتھا کہ اس محل کی تزئین و آرائش کےلئے آقا قافا نے کئی ملازم رکھے ہوئے ہیں۔اتنی دیر میں نور محل کے دروازے سے کسی شخص کے ساتھ باتیں کرتی ہوئی باہر نکلی۔وہ شخص اپنی مرسیڈز میں بیٹھ گیا اور میرے پاس آکر بولی

یہ سر قادرتھے“ ۔میں سر کا لفظ سن کر برا سا منہ بنایااورکہا ۔”پتہ نہیں سر کا لفظ سن کر میرے تن بدن میں آگ کیوں لگ جاتی ہے۔صدیوں پرانی کوئی دشمنی ہے شاید اس لفظ کے ساتھ“ ۔اس کے ساتھ موبائل نے کسی میسج کی خبر دی ۔اینانا کا میسج تھا ۔ لکھا تھا ۔’’میں گھر پہنچ چکی ہوں ۔چند گھنٹوں کا فلیش بیک ساری زندگی پر پھیل گیا ہے ۔تمہارے ساتھ مل کرروح کی نظم پڑھ رہی ہوں سر تمہاری آغوش میں رکھا ہوا ہے ساتھ ریڈ وائن بھی پڑی ہے اپنے گھر کے باغیچے میں پیلے پیلے پھولوں کے دائرے میں ہوں ۔سبز گھاس کی سیج پر لیٹی ہوئی‘‘

پھر ہم دونوں کار میں بیٹھ گئے ۔کار چلتے ہی نور نے پوچھا ’’ کس کا میسج تھا ۔میں بولا ’’بزنس کا کوئی میسج تھا‘‘ ۔نور ہنس کر کہنے لگی ۔’’کوئی بہت اچھی کاروباری خبر تھی میسج پڑھتے ہوئے تمہارا چہرہ کھل گیا تھا ‘‘ میں نے نور سے شکایت بھرے لہجے میں کہا ۔’’ میسج کو چھوڑو تم نے میرے بارے میں یہ کیا کیا آقا قافا کو بتا رکھا ہے ‘‘مگر وہ قسمیں اٹھانے لگی کہ میں نے تمہارے بارے میں ان سے کوئی بات نہیں کی۔وہ روحانی طور پر جس بات کو جاننا چاہتے ہیں اللہ تعالی انہیں اس بات کا علم عطا کر دیتا ہے۔میں نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔”کیا آقا قافا کو یہ علم نہیں ہوسکا کہ تمہیں کچھ لوگ قتل کرنا چاہتے ہیں “

نور نے حیرت سے پوچھا ”تمہیں کیسے علم ہوا۔مجھ پر اسوقت تک کئی حملے ہوچکے ہیں مگرزندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ویسے جب سے آقا قافا نے میری حفاطت کی ذمہ داری لی ہے مجھ پر کوئی حملہ نہیں ہوا“ ۔میں نے پوچھا۔ ’’آقاقافا تمہاری کیسے حفاظت کرتے ہیں‘‘

نور بولی ۔’’یہ بات سمجھنے میں تمہیں کچھ وقت لگے گا‘‘

میں نےاً بات تبدیل کرتے ہوئے کہا

آقا قافالیونگ روم میں صادقین کی بڑی اچھی کیلی گرافی لگی ہوئی تھی ۔ یہ اورجنل ہے یاکاپی“

نور بولی ۔”صرف وہی اورجنل نہیں ۔دوسری طرف لیونارڈو ڈونچی کی ایک پینٹنگ بھی لگی ہوئی ہے۔وہ کئی ملین پونڈ کی ہے۔ تمہیں دلچسپی ہے پینٹنگ سے ‘‘

میں نے ہنس کر کہا ۔’’میں تو بس شبِ فراق کی تصویر پینٹ کرتا رہتا ہوں ‘‘

نور بولی ۔’’کینوس پر بھوتنیاں بناتے ہوگے‘‘

میں نے کہا ” میں آیا کروں گا آقاقافا کے پاس ،کل پھر مجھے ساتھ لے کر جانا“۔نور بولی ۔”تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا کہ مجھے کچھ لوگ قتل کرنا چاہتے ہیں ۔“میں نے کچھ دیر سوچا اور کہا ”ذرا سی تحقیق اور کرلوں ۔ بس تم کالوں سے ہوشیار رہنا ۔کسی سیاہ فام پیشہ ور قاتل کو تمہارے پیچھے لگایا گیا ہے۔ اس کے پاس تمہاری تصویر موجود ہے اور وہ تمہاری تلاش میں ہے “۔نور نے پریشانی سے پوچھا”کیا اسے میری رہائش گاہ کا علم ہے “ میں نے کہا ۔”اس بارے میں ابھی کچھ نہیں جانتا۔پھر اس نے مجھے میرے دفتر کی پارکنگ میں اتار دیا ۔ تیزی سے نکل گئی ۔ میں نے فوراً موبائل نکالا اور اوراکو میسج کیا۔’’میں اپنی گرم گرم آغوش میں تمہارے لمس کو محسوس کر رہا ہوں‘‘۔اس کا فوراً جواب آیا۔ ’’سوری ۔اپنی بہشتِ خیال میں ایک چڑیل در آئی ہے ۔یہ اچانک میری دوست سانڈرآ گئی ہے ۔ پھر بات کریں گے ‘‘

بستر بچھا تھا فرشِ بہشتِ خیال پر

( آوازِ لمسِ یارِکا کرم)

میں نے وہاں سے اپنی گاڑی نکالی اور معمول کے مطابق کسینو چلا گیارولیٹ کی میزیں آباد تھیں کچھ دیر ادھر ادھر کا جائزہ لینے کے بعدمیں ایک میز کے پاس کھڑا ہو گیا۔ پچاس پونڈ کے ٹوکن لے لیے اس میز پر مجھ سے پہلے چار آدمی اور موجود تھے۔ آج کا دن بہت اچھا تھا میں نے آغاز ہی سے جیتنا شروع کردیا تھااور رولیٹ بال گھمانے والی لڑکی نے کئی بار مسکرا کر مجھے دیکھا بھی تھا مگر حیرت انگیز طور پر آج یہاں بھی میرا دل نہیں لگ رہا تھا تقریباًآدھے گھنٹے کے بعد میں اپنے ٹوکن سمیٹتا ہوااس میز سے اٹھ گیااور پھر ایک سو بیس پونڈ کے ٹوکن واپس کرکے میں کیسنو سے باہر آگیاکار پارکنگ سڑک کے دوسرے سمت تھی میں جا کر کارمیں بیٹھا تومیری نظر کسینو کے جلتے بجھتے سائن بورڈ پر پڑی جہاں” نیپولین“ لکھا ہوا تھا۔ میں روز یہیں کارکھڑی کرتا تھا مگر میں نے کبھی اس طرح نیپولین کو نہیں دیکھا تھا جس طرح آج دیکھ رہا تھامیرے ذہن میں نیپولین بوناپارٹ کی شبیہ بن رہی تھی۔ چھوٹے سے قد کا ایک جرنیل مجھے نظر آنے لگااس کے سینے پر بے شمار اعزازات چمک رہے تھے اور پھر نیپولین کے خدو خال میں آقا قافا کا چہرہ درآیا اس کا قد بڑھتا چلا گیااور کار پارکنگ سے باہر آگئی۔

میں ٹاﺅن سنٹر سے گزرتا ہوالیگرم لین پر آگیاسوچا کہ کھانا پنجاب سویٹ ہاﺅس پر بیٹھ کر کھایا جائے مگرکسی ان جانی طاقت نے مجھے وہاں کار روکنے نہیں دی اور میں آگے بڑھ گیاصنم ریستوران پر جا کر کار رک گئی۔اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک ٹیبل پر آقا قافا اور نومان قاصر بھی کھانا کھا رہے ہیں ۔ میں نے سلام کیا اور پھر ان کے اصرار پر اسی ٹیبل پر بیٹھ گیانومان قاصرشعر سنا رہے تھے جو میرے بیٹھ جانے پر انہوں نے مکمل کیا

اور آبِ یخ سے میری طبعیت سنبھل گئی

دریا کودی دعا ۔۔۔۔۔کہ ترا خاتمہ نہ ہوا“

کھانے کے دوران ان سے ہلکی پھلکی گفتگو جاری رہی۔برطانیہ میں پاکستانی فورڈ کی بڑھتی ہوئی مانگ میں مرچ مصالوںکی اہمیت پر بات ہوئی۔پھرنومان قاصر چلے گئے ۔کچھ اور ہم نے ادھر ادھر کی گفتگو کی ۔کھانے کے بعد بل بھی زبردستی انہوں نے ادا کیااور جاتے ہوئے مجھے کہا

پریشان نہیں ہونا ۔تم دماغی طور پر کچھ عجیب و غریب ساعتوں سے دوچار ہونے والے ہو۔بہت سے ایسی کہانیاں تمہارے سامنے آنے والی ہیں جو یقین کی گلیوں میں آباد نہیں ہو سکتیں“

میں نے ہنس کر کہہ کر کہا

پہلے بھی بہت عرصہ میری آنکھیں میرے دماغ میں ایک شک اتار کراگلے جہاں کے مشاہدوں سے میرا مکالمہ کراتی رہی ہیں “

آقا قافا بولے

وہ مشاہدہ کائناتی حیرتوں پر پھیلا ہوا تھا مگرنئے مشاہدات ذاتی حیرتوں پر محیط ہونگے “

میں وہاں سے اپنے فلیٹ پر آگیاسونے سے پہلے معمول کے مطابق مجھے نروان یاد آیا پھرمجھے خیال آیا کہ یہ بات آقا قافا کو کیسے معلوم ہوئی ہوگی کہ میں سونے سے پہلے خیالوں میں نروان کے ساتھ ہوتاہوں۔موبائل کی بیل بجتی ہے ۔دوسری طرف اورا تھی ۔کہنے لگی ۔’’نیند نہیں آرہی ۔مجھے اپنے سینے پر سر رکھ کے سونے دو ‘‘پھر دیر تک فون سے آوازِ لمس ِ یار آتی رہی ۔ بستر بہشتِ خیال پر بچھا رہا ۔پھر اورا تھک کر سو گئی اور میں کانٹوں کے بستر پر کروٹیں لینے لگا۔نجات کا راستہ صرف نروان کے پاس تھا۔

اور اسے سوچتے سوچتے جب سو جاتا ہوں تو اس کی ہمراہی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا خواب میں شروع ہو جاتا ہے یہ وہ بات تھی جو میں نے کبھی کسی کو بھی نہیں بتائی تھی کیونکہ یہ کوئی عام زندگی کی بات نہیں تھی۔ میں نے اک دو بار یہ بھی سوچا تھاکہ اس سلسلے میں کسی ماہرِ نفسیات سے بات کروں مگرکسی انجانی قوت نے روک دیا تھا۔میں آقا قافا کو بھول کر پھر نروان سے جاملا۔۔۔۔

اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا تھا

(روحِ کل سے ملاقات کا احساس)

قافلے نے ایک جگہ پڑاﺅ ڈال رکھا تھاخیمے لگ چکے تھے ایک خیمے میں نروان اپنے بستر پر بیٹھا ہوا تھا اورمیں لیٹ چکاتھا ۔ نروان نے میری طرف دیکھا اور پوچھا ۔” نیند آرہی ہے “

میں نے کہا ۔” نہیں“

اور میں اٹھ کر دوسری سمت سے لیٹ گیا تاکہ نروان مجھے اور میں اس کو دیکھ سکوں ایسا کرنے سے میرے پاﺅں شمال کی طرف ہو گئے اور نروان نے مجھے کہا

شمال کی طرف پاﺅں نہ کرو شمال کا احترام کیا کرو۔ اس سمت سے دیوتاﺅں کا ہمراز قطبی ستارہ طلوع ہوتا ہے جو ہمیں دشت کی تاریکیوں میں راستوں سے سرفراز کرتا ہے۔۔ شمال بلندی کی سمت ہے اور بلندیاں قابلِ احترام ہوا کرتی ہیں۔۔ پانی شمال کی سمت سے بہتے ہیں کیونکہ برف بلندیوں پر اپنے نشیمن بناتی ہے ۔“

میں نے اپنے پاﺅں سکیڑ لئے اور کہا

میں اس وقت یہ سوچ رہا ہوں کہ روح کے زیریں حصہ سے بالائی حصے کے جس رابطے کی تم بات کرتے ہواگراس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ کہیں سے بھی ٹوٹا ہوا نہیں ہے توزیریں حصے کو بالائی حصے کا احساس کیوں نہیں ہوتا “

نروان بولا ۔” احساس ہوتا ہے ہر شخص اپنے اندر کسی غیر مرئی طاقت کے آگے جھکنے کی جبلت کو محسوس کرتا ہے اسے کسی کو سجدہ کرنے میں تسکین ہوتی ہے یہ جذبہ روح کے بالائی حصے سے تعلق کی خبر دیتا ہے“

میں نے پو چھا ۔” کیا روح کی تقسیم بھی ممکن ہے “

کہنے لگا ۔” روح تو ایک تسلسل کانام ہے چلتی رہتی ہے بڑھتی رہتی ہے اسی تسلسل کی بدولت تو نسل ِ انسانی کی افزائش ہو رہی ہے اورہاں کبھی کبھی ایک روح دو جسموں میں بھی ظاہر ہو جاتی ہے ۔بعض جڑواں پیدا ہونے والے بچوں میں علامتیں ملتی ہیں “

میں نے کہا

یعنی تم یہ کہہ رہے ہو کہ ایک روح دو جسموں میں بھی ہو سکتی ہے “

نروان بولا

ہاں ہو سکتی ہے“

اور پھر نروان اور میں سو گئے میں شاید وہاں بھی سو گیا اور یہاں بھی ۔۔۔۔اور پھر قافلے والوں نے صبح ہونے سے پہلے بیدار کردیا ۔ یقینا یہ سونا اور جاگنا خواب کے اندر تھا۔۔۔خیمے اکھیڑ دئیے گئے اور قافلہ چل پڑاصبحِ صادق کی گہری ملگجی روشنی میں نروان کا چہرہ بہت نکھرا ہوا تھااس کی صبح جیسی صادق آنکھیں میری طرف بار بار اٹھ رہی تھیں میں نے اس سے پوچھ لیا

کیا بات ہے نروان “

کہنے لگا

صبح کا آغاز اس روحِ کل کی یاد سے کرنا چاہئے مگر تم ابھی نیند کے حصار میں ہو “

میں نے پو چھا

تم اس روح کل کو کیسے یاد کرتے ہو“

نروان بولا

کچھ دیر مراقبے میں رہتا ہوں جس میں صرف اس روحِ کل کو محسوس کرتا ہوں حتی کہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہوں “

گرمی کا احساس بہت زیادہ ہوا اور میری آنکھ کھل گئی میں سونے سے پہلے کمرے کا ہیٹربند کر بھول گیا تھا اب اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا ہوا تھا میں کچھ دیر کھڑکی سے آتی ہوئی سورج کی کرنوں سے لطف اندوز ہوا۔ برطانیہ میں سورج بھی کبھی کبھی نکلتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہی معمول کے کام شروع ہو گئے آج دفتر میں کئی میٹنگزتھیں اور پھر اورا سے چیٹ ہونے لگی۔سارے میسج تو یہاں کوڈ کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔کچھ درج کر دیتا ہوں

اورا۔’’میں کافی دیر فیس بک پر تمہاری تصویریں دیکھتی رہی ہوں۔ یو ٹیوپ پر پڑے ہوئے تمہارے سارے ویڈیوز بھی دیکھے ہیں ‘‘

’’تم بھی کئی بار یاد آئی ہو ۔ میٹنگز کے دوران ۔ذہن کا بار بار جھٹکنا پڑا ہے ‘‘

’’میں آرہی ہوں جانِ من ۔ مستقلاً تمہار ے پاس ۔بریڈفورڈ میں ۔اب میں تمہارے بغیر زندگی کا تصور نہیں سکتی ‘‘

’’میں بھی آ سکتا ہوں تمہارے پاس بریڈ فوڈ چھوڑ کر ‘‘

’’مجھے تمہارے فلیٹ کا کمرہ یاد آرہا ہے ۔جس کے کارپٹ پر ہماری اترن بکھری پڑی ہے۔جس کے بستر کی سلوٹوں میں ہماری سرگوشیوں گونج رہی ہیں ۔ہائے وہ کمبل جس میں ہماری محبت کی آگ پڑی ہے ۔جس سے دہکتے جسموں کی گرمی لپٹی ہوئی ہے۔‘‘

’’شریر میں بجلی سی دوڑ گئی ہے ‘‘

’’ہائے میں کیوں آ گئی ہوں اپنے منصور کا پیارا بھرا سینہ اور پھڑکتی ہوئی باہوں کی سرورگاہ چھوڑ کر ۔ میں کتنی مکمل ہوجاتی تھی جب تم سینے سے لگاتے تھے ‘‘

وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا اورنور کا فون آگیا کہ میں پارکنگ میں انتظار کر رہی ہوںاور ہم لیٹ ہو چکے ہیں۔میں فوراً اٹھ گیا کوئی کشش ایسی آقا قافا میں ضرور تھی جو مجھے اس کی طرف کھینچنے لگی تھی۔ہم جب وہاں پہنچے تو آقا قافا کی گفتگو جاری تھی وہ کہہ رہے تھے۔

وہ اک نگاہ کہ جس کے ہزار موسم تھے

(تبدیلیوں کا پہلا ما خذ)

وقت کائنات کی سب سے قیمتی شے ہے سب سے انمول ہیرا ہے مگر وقت کے باب میں پھر گفتگو ہو گی۔ابھی کچھ دیر اس نوجوان کے بارے میں بات کرتے ہیں کیونکہ یہی میرا کل ہے۔ میں نے اسی سے مکمل ہونا ہے مجھے اسی کا انتظار تھا اور ان جملوں کی وضاحت بھی ابھی نہیں کی جا سکتی۔یہ نروان سے روح کا پوچھتا ہے حالانکہ وہ برگزیدہ شخص اتنا کچھ نہیں جانتا جتنا یہ خود جانتا ہے مگر اس کے دماغ میں ایک گرہ پڑی ہوئی ہے اس گرہ کے کھلنے کی دیر ہے ۔نروان جب اسے شمال کے احترام کا مشورہ دیتا ہے تو یہ سوچنے لگتا ہے کہ آج بھی ہم برصغیر کے لوگ شمال کا احترام کیوں کرتے ہیں ادھر سائبریا کے برفاب میدانوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہم جن کا ایمان ہے کہ سارے ستارے اللہ کے ہیں انہیں قطبی ستارے سے کیا نسبت ۔نروان کے زمانے میں شاید یہاں ستارہ پرست لوگ آباد تھے ۔ بدھوں کے نزدیک بھی شمال قابل ِ احترام ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے ”ہن“ بھی شمال سے آئے تھے۔یہ سوال آج دن میں کئی بار اس کے دماغ میں آیا ہے کہ شمال میں نہ تو شاہ عبدالقادر جیلانی کا مزار ہے اور نہ ہی کوئی ایسی شے جس کا ہم مسلمان احترام کرتے ہیں پھر ہم کیوں شمال کی طرف پاﺅں نہیں کرتے اور اس نے اس کا جواب بھی درست سوچا ہے کہ وہ عقائد جو ثقافت کا حصہ بن جاتے ہیں وہ مذہبی تبدیلی سے بھی انسانی سرشت سے باہر نہیں نکل سکتے۔رات میں اس نوجوان کونیپولین بونا پارٹ لگ رہا تھا اس کی وجہ یہ نہیں جانتا میں اسے بتاتا ہوں کہ بچپن میں اس نے جب نیپولین کے متعلق ایک کہانی پڑھی تھی تو شدت کے ساتھ اس کے جی میں آیا تھا کہ وہ بھی بڑا ہو کر نیپولین بنے گاسو نیپولین کے چہرے میں میرے خدو خال دیکھنے کا مفہوم دراصل اپنے خدو خال میں نیپولین کو دیکھنے کی ایک لاشعوری خواہش ہے ۔ اس کے تمام مسائل اس لاشعوری گرہ کے کھلنے تک ہیں جو میری زندگی کا حاصل ہے پھر ایک ایسا جملہ بول گیا ہوں جس کی ابھی وضاحت ممکن نہیں ۔“

آقا قافا کی گفتگو سن کردسمبر کے مہینے میں لیونگ روم کے نارمل درجہ ءحرارت کے باوجودمیں اپنے ماتھے سے پسینے کی بوندیں پونجھ رہا تھا ۔ مجلس ختم ہوئی کار بیٹھتے ہی میں نے نور سے کہا

زندگی میں دوسری بار کسی ایسے شخص سے ملاقات ہوئی ہے جس کے بارے میں میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ یہ شخص انسان کے باطن میں جھانکنے کی قوت رکھتا ہے ۔“

نور نے پو چھا ۔” پہلا شخص کون تھا “

میں نے کہا ۔ ”پہلا شخص ایک مسجد کا مولوی تھا “

نور بولی ۔” کوئی پرانی بات ہے “

میں نے کہا ۔ ”یہ انیس سو ستاسی کی بات ہے اگست کے ایک دہکتے ہوئے جمعے کی صبح تھی میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ٹھیک نو بجے اس شخص سے ملنے پپلاں گیا تھاوہ میرے بڑے بھائی کا دوست تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے تھے ہم جب وہاں پہنچے تو مولوی صاحب بڑے پیار سے ہمیں ملے ان کے حجرے میں چار لوگ اور بھی بیٹھے ہوئے تھے اور مولوی صاحب بڑے دھیمے انداز میں گفتگو کر رہے تھے ۔ بات سمجھنے کے لیے مجھے اپنی سماعت مجتمع کر کے پوری توجہ ان کی آواز پر مرکوز رکھنی پڑرہی تھی ۔ہمیں وہاں بیٹھے ہوئے تقریباً آدھے گھنٹہ گزراتھا کہ انہوں نے کہا ” جمعہ کی نماز کا وقت ہونے والا ہے اس لئے اٹھا جائے“ سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے میں نے سوچا کہ ہمیں اٹھانے کےلئے مولوی صاحب کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی ابھی ساڑھے نو ہوئے ہوں گے جمعہ کی نماز ایک ڈیڑھ بجے کھڑی ہوتی ہے یہی سوچتے ہوئے میں اس حجرہ درویش سے باہر آیاتو مجھے احساس ہوا کہ سورج کو جہاں ہونا چاہئے تھا وہاں نہیں ہے۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ میں نے بھائی سے وقت پوچھا تو انہوں نے بھی میری گھڑی کی ایک لائن میں کھڑی ہوئی سوئیوں کی تصدیق کی ۔میں پریشان ہو گیاتقریبا ساڑھے تین گھنٹوں کا فرق لگ رہا تھا مجھے ۔میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ خانہ ءذہن سے یہ وقت کون چرا کر لے گیا ہے ۔میں ہفتہ بھر اسی وقت کی گمشدگی کے بارے میں سوچتا رہا ۔پھر ایک دن گھر سے نکلا تو میرے موٹر سائیکل کی تیز تر رفتار اس وقت دھیمی ہوئی جب میں پپلاں پہنچ چکا تھا۔ پپلاں پہنچتے ہی میرا موٹر سائیکل خوبخود اسی مسجد کی طرف مڑ گیا۔۔میں جو خدا کو نہیں مانتا تھا ۔۔میں جس نے الحاد اور تشکیک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔کئی سال سے نماز نہیں پڑھی تھی مسجد کے دروازے کے پاس جا کر رک گیا۔ شام کی نماز ہو چکی تھی نمازی مسجد کے دروازے سے نکل رہے تھے مسجد کے صحن میں صرف ایک شخص نمازپڑھ رہا تھا۔وہ وہی مولوی صاحب تھے شاید نفل پڑھ رہے تھے میں مسجد کے اندر داخل ہوا اور انہیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھنے لگا میں شاید ان سے اس موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا ۔۔اچانک مجھے ایک دوست کی آواز سنائی دی”شکر ہے کہ اللہ تعالی تمہیں مسجد میں لے آیا ہے رک کیوں گئے ہو چلو وضو کرو اور نماز پڑھو“میں نے اس سے کہا ”میں نماز پڑھنے نہیں آیا میرا مولوی صاحب سے کوئی کام ہے“اس نے مجھے کہا” دیکھواگر آج بھی تم نے نماز نہ پڑھی تو میں ساری زندگی تم سے کلام نہیں کروں گا “اور میں نے اپنے دوست کے لیے نماز پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔ وضو کیا اور مسجد کے صحن میں آگیاجہاں پانچ چھ قطاروں میں پنکھے لگے ہوئے تھے جن کے نیچے صفیں بچھی ہوئی تھیں۔ میں آخری صف پر ایک پنکھے کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا ۔ میرے بالکل سامنے مجھ سے پانچ صفیں آگے مولوی صاحب نماز پڑھ رہے تھے میں نے ابھی کوئی الٹی سیدھی نیت باندھی تھی کہ ایک طالب علم نے مولوی صاحب کے اوپر چلنے والے پنکھے کو چھوڑ کر باقی تمام پنکھوں کے بٹن آف کردئیے۔ بلا کی گرمی تھی میں نے سوچا کہ میرے دوست کا خدا بھی نہیں چاہتا کہ میں اس کے لیے نماز پڑھوں اور میں نے حیرت سے مولوی صاحب کو دیکھا جنہوں نے کھڑے کھڑے سلام پھیر لیااور جا کر میرے اوپر چلنے والے پنکھے کا بٹن آن کیا۔ واپس آئے اور نماز کی پھر نیت باندھ لی میں اندر سے کانپ کر رہ گیا۔ وہ مجھ سے اتنی دور تھے کہ انہیں میرے سر پر چلنے والے پنکھے کے بند ہو جانے کا احساس ہی نہیں ہو سکتاتھاپھرمیری طرف ان کی پشت تھی میں آج تک اپنے دماغ کو اس بات کا قائل نہیں کر سکا کہ انہیں پنکھے کے بند ہو جانے کا احساس ہو گیا تھا اور اگر احساس بھی ہو گیا تھا تو اس شخص سے زیادہ عظیم اور کون ہو سکتا ہے جس نے صرف ایک اجنبی آدمی کو گرمی سے بچانے کے لیے اپنی نماز توڑ دی“۔

میری بات ابھی یہیں پہنچی تھی کہ نور کی کار میرے دفتر کی پارکنگ میں داخل ہو گئی ۔ میں نے نور سے کہا ۔” یہ باتیں تمہیں پھر سناﺅں گا دفتر میں ورما میرا انتظار کر رہا ہو گا “

نور بولی ۔” یقینا وہ مولوی صاحب بھی آقا قافا کی طرح کوئی حیرت انگیز شخص تھے۔۔ تم ورما سے بات کرو میں ابھی ایک کام کر کے آتی ہوں ۔۔“

میں دفتر داخل ہوا تو ورما جا چکا تھا اب بیٹھنا بھی مجبوری تھی کہ نور نے آنے کا کہا تھااور میں وقت ملتے ہی نروان کی طرف چل پڑانروان جس کے ساتھ میں تصور میں دھن کوٹ سے لہوارجارہا تھا ۔ جھلساتی ہوئی ہوا میرے چہرے سے ٹکرائی اور میں نے پگڑی کے پلو سے چہرہ ڈھانپ کرنروان سے کہا ۔”ان روحوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جواپنے پروردگار کو بھلا چکی ہوتی ہیں “

نروان بولا ۔” اپنے اوپر ظلم کرنے والی ان روحوں پر ایک ایسی حالت طاری ہو جاتی ہے جس کے سبب وہ اس مقدس وطن سے غافل ہو جاتی ہیں جو ان کا حقیقی ماخذ اور مسکن ہے اور اس سفاک اور ہولناک المیے سے دوچار ہو کراپنی علیحدگی اور خود پسندی کے خمار میں مبتلا ہو جاتی ہیں ان کی آنکھوںمیں صرف یہی مادی دنیا یہی فنا ہو جانے والی دنیا رہ جاتی ہے“

نروان خاموش ہوا تو میں نے پوچھا ۔”ان روحوں کو اپنے حقیقی وطن کی طرف کس طرح لوٹایا جا سکتا ہے“۔

وہ کہنے لگا ۔ ”اس کا ایک طریقہ کار ہے سب سے پہلے تو ان کے اندر خود کوجاننے کی خواہش پیدا کرنی پڑتی ہے پھر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ ان آنکھوں میں دیکھنے کی صلاحیت ہے یا نہیں کیونکہ انہوں نے جسے تلاش کرنا ہے وہ ان کی ذات سے جدا نہیں اور اگر انہوں نے ذات سے جدا کسی غیر کی تلاش شروع کردی ہے تو وہ پھر بھٹک گئی ہیں لیکن یہ طے ہے کہ ان روحوں کو راہ راست پر لانے کےلئے کسی نروان کی ہر حال میں ضرورت ہے باقی روح روح میں فرق ہوتا ہے کسی کے لئے کسی نروان کی ایک نگاہ کافی ہے اور کہیں عمر بھر کی کوششیں بے سود ہیں خود میں یعنی نروان اپنی منزل کی تلاش میں کسی چندر وید کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں “

وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ نور دفتر میں داخل ہورہی تھی۔گھڑیال کی طرف دیکھنے پرخبر ہوئی کہ وہ ڈیڑھ گھنٹے میں واپس آئی ہے۔ نور نے کرسی پر بیٹھتے ہی کہا ۔ ”ہاں تو پھر اس مولوی صاحب سے ملاقات ہوئی ؟پھر کیا ہوا ؟“۔

میں نے وہیں سے بات دوبارہ شروع کر دی ۔” میں نے نماز پڑھی سچ مچ کی نماز اور مولوی صاحب سے کوئی بات کئے بغیرمسجد سے باہر آگیا ۔باہر میرا دوست میرا انتظار کر رہا تھااس نے پو چھا کہ مولوی صاحب سے ملے تو میں نے کہا ”ہاں میری ملاقات ہو گئی ہے ۔“میرا دوست ہنس پڑا اور بولا ”کسی وقت اس شخص سے ضرور ملنا ۔ حیرت انگیز آدمی ہے میں نے اس سے ملنے والوں کی تقدیریں بدلتی دیکھی ہیں ۔“بہرحال یہ واقعہ میرے دماغ میں اٹک کر رہ گیا تھامیں نے بہت سے ہم خیال دوستوں کے ساتھ اس موضوع پر گھنٹوں گفتگو کی ۔بہت سی تاویلیں بھی تلاش کیں مگر سانس میں پھانس بن کر اٹک جانے والا مولوی دماغ سے نکلتا ہی نہیں تھا۔ تقریباً دو ہفتوں کے بعد میں نے سوچا کہ مولوی صاحب کی تقریر سنی جائے۔ اس کے علم کا اندازہ لگایا جائے خود میں نے ایک مذہبی گھرانے میں جنم لیا تھا ابتدائی تعلیم مسجد سے حاصل کی تھی اور مطالعہ کا شوق مجھے لائبریری سمیت ورثے میں ملا تھا اس لئے میں خود کو اسلام پر اتھارٹی سمجھتا تھا اورشاےد ےہی زعم مجھے الحاد کی طرف لے گیا تھا۔ میں جمعہ کے روز جمعہ کی نماز سے ایک گھنٹہ پہلے مسجد میں پہنچ گیا میرے پہنچنے سے پہلے وہ تقریر شروع کر چکے تھے مسجد کا ہال نمازیوں سے بھرا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب کے بالکل سامنے دوسری صف میں ایک شخص کے بیٹھنے کی جگہ موجود ہے میں صفیں چیرتا ہواس جگہ تک پہنچا ۔۔ مولوی صاحب سے میری نظریں ملیں اور پھر مجھے کچھ یاد نہیں۔جب ہوش آیا تو میں سلام پھیر رہا تھا اور شدت کے ساتھ رو رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا گریبان پسینے سے نہیں آ نسوﺅں سے بھیگا ہوا ہے ”آنکھیں ٹکرانے “ سے لے کر ”سلام پھیرنے تک“ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا فاصلہ ہے میں توان ساڑھے تین گھنٹوں کی تلاش میں تھا جو کچھ دن پہلے اسی شخص کی محفل میں کھو گئے تھے الٹا ڈیڑھ گھنٹہ اور کھو بیٹھا ۔مگر اس ڈیڑھ گھنٹے کی گمشدگی نے ساری گمشدہ گُتھیاں سلجھا دیں اور میں یہ سوچ کر تشکیک کی وحشت سے باہر نکل آیاکہ میں اس خدا کے وجود کا کیسے انکار کر سکتا ہوں جس کے ایک معمولی سے ماننے والے مولوی کی ایک نگاہ برداشت نہیں کر سکا۔ میں شام کے وقت پھر اسی مسجد میں گیا اور خود کومولوی صاحب کے حلقہ ارادت میں دے دیا ۔انہوں نے دو باتیں کیں پہلی یہ تھی کہ اپنا حلقہ ءاحباب تبدیل کر لو اوردوسری یہ کہ وقت کو ضائع کرنا گناہ کبےرہ سے بھی بڑھ کے ہے۔ قضا نمازیں تو لوٹائی جا سکتی ہیں مگر قضا ساعتیں نہیں لوٹ سکتیں “

نور بولی ۔’’ اس مطلب تمہارا روحانیت سے گہرا تعلق ہے ۔ ‘‘ میں نے ۔’’ ہاں مجھے ایسا لگتاہے۔بچین کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔میں بچپن میں ایک بار عیسیٰ خیل اپنے عزیزوں کے پاس گیا ہوا تھا۔سہہ پہر کے وقت وہاں لڑکیاں در یا پر گھڑے بھرنے جایا کرتی تھیں ۔میں بھی ان کے ساتھ چلا جاتا تھا
ایک دن انہوں نے کہا۔’’وہ سندھو بابا‘‘۔اور وہاں سے بھاگ کردور ایک جگہ سے پانی بھرنے لگیں
میں وہیں کھڑا رہا۔وہ سندھو بابامیرے پاس آگیا۔مجھ سے بڑے پیار سے بولا۔’’بیٹے دریا سے باتیں کرنی ہیں‘‘۔میں نے پوچھا۔’’بابا کیا دریا بھی باتیں کرتے ہیں‘‘۔تو وہ کہنے لگا‘۔کیوں نہیں،۔موجیں بولتی ہیں۔سیپیاں گنگناتی ہیں ۔مچھلیاں قہقہے لگاتی ہیں ۔کچھوے روتے ہیں ۔پانی جلترنگ بجاتے ہیں‘‘۔میں نے کہا۔’’مگر بابامجھے توکچھ سنائی نہیں دیتا بس ایک شور سا ہے‘‘تو اس نے کہا
’’میرے ساتھ آؤمیں تمہاری پانی کے ساتھ بات کرا دیتاہوں مگر تم کسی کو بتانانہیں‘‘اور وہ مجھے دریا کے بلکل قریب لے گیا۔اس نے پانی سے اپنا کان لگا لیا۔میں نے بھی اسکی نقل کرتے ہوئے پانی کے سینے پر کان کسی پر مفہوم دھڑکن کے خیال میں رکھ دیا۔مجھے پانی سے تو کو ئی اور آوازسنائی نہیں دی مگر سندھو باباکی آوازمیرے کانوں میں آج تک گونجتی ہے۔وہ کہہ رہاتھا ۔’’اے میرے ساتھ بہتے سندھوسنا پہاڑوں پر کچھ برف پگھلی ہے۔وہ وقت کی شہزاد ی جو صدیوں سے چل رہی ہے اس کا کیا حال ہے۔ابھی اس کا کتنا سفراور باقی ہے۔اس نے میرے نام کوئی اور پیغام بھیجا ہے یا نہیں؟
یہ تیری ہم عمر بوڑھی ہوا کل مجھے بتا رہی تھی۔کہ شہزادی میرے انتظار میں روز دلہن کی طرح سجتی ہے۔اور تجھ سے پوچھا کرتی ہے کہ تو مجھے اس کے پاس کب لے کر جائے گا۔اس واقعہ نے مجھے بہت متاثر کیا ۔شاید میری تمام تر روحانیت اِسی سے نکلی ہے۔اور میں نے اس کا یہی مفہوم سمجھا ہے ۔میرا متعین سفر حق کی تلاش میں ایسی تکلیف دہ مسافت ہے۔جس کی گرد بھی انسانی جسم کے لئے کسی سوغات سے کم نہیں۔تمہارے تعین کے بغیر ہونے والے سفردوسری دنیا کے بھٹکتے ہوئے شوق تو ہو سکتے ہیں ۔منزل کے رازدار نہیں۔ریاضت کے یہ کھٹن راستے لاکھوں لوگوں نے اختیار کئےاور عرفان کی منزل تک پہنچنے کی جستجو میں رہےمگر شاید خدا کے قرب کی سعادت کسی کو نصیب نہ ہو سکی۔تم پانی پر چلنے والے۔ہوا میں اُڑنے والےزندگی بھر اس کے نزدیک ہونے کی خواہش میں زندگی سی جنگ کرتے رہتے ہو۔افسوس تمہیں یہ معلوم ہی نہیں جس زندگی سے تم بر سرِپیکار ہیں ۔جس سے نفرت کرتے ہیں ۔وہی برہما ہے وہی برہما کا پرتو ہے ۔آؤ محبت کریں زندگی سے۔انسان سے ۔خوبصورتی سے۔خیر سےکیونکہ یہی خدا سے محبت ہے۔

حسن کوئی خارجی معروضیت کی شے نہیں

(داخلیت کی جمالیت کا قصہ )

نور بولی ۔” مجھے یقین نہیں آتا کہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی ہیں ۔میرے خیال میں تو وہ صرف کرپٹ حکمرانوں کی سرزمین ہے“

میں نے کہا ۔” نہیں حکمرانوں میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں “

نور کہنے لگی ۔”ہونگے مگر ان کا کبھی برطانیہ کے حکمرانوں سے موازنہ کرو ۔ “

میں نے ہنس کر کہا ۔”یہ دنیا اور ہے وہ دنیا اور “

نور کہنے لگی ۔”کیاوہاں انسان نہیں رہتے “

میں نے کہا ۔”تم یہاں اور وہاں کے حکمرانوں کا موازنہ چاہتی ہونا ۔وہاں چیونٹیوں کی حکومت ہے ۔جو اگلے موسم کےلئے خوراک ذخیرہ کرنے کی عادت ہوتی ہے اور یہاں سور حکمران ہیں جو اپنی مادہ کے ساتھ ملاپ میں بھی شراکت کا خیال رکھتے ہیں اور لائن میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں “

نورنے ناک چڑھاتے ہوئے کہا ۔”کبھی کبھی تم بہت بری مثال دیتے ہو۔تم نے ان لوگوں کی اچھائی کو بھی برائی میں بدل دیا ہے “

میں نے سمجھانے والے انداز میں نور سے کہا ۔”اچھائی اور برائی کے درمیان ایک باریک سا پردہ ہوتا ہے ۔جو اچھائی کو بدی آمیز نیکی میں اور برائی کو نیکی آمیز بدی میں بدلتا رہتا ہے

نور بات بدل کربولی ۔” آج میرے پاس کافی وقت ہے ۔کل کسی کام کے لیے آفس سے چھٹی لے رکھی ہے میں نے “

مجھے اور کیا چاہئے تھا ہم دونوں دفتر سے باہر آئے اور نورکی کار میں بیٹھ گئے ۔

اورمیں نے نور کو غور سے دیکھا آج مجھے وہ بہت زیادہ خوبصورت لگی میں نے اسے کچھ اور غور سے دیکھا کہ کیا یہ وہی نورہے جسے میں روز ملتا ہوں تو مجھے محسوس ہوا کہ نہیں اُس نور اور اِس نور میں کافی فرق ہے۔ اب مجھے پتہ چلا کہ یہ جو ڈیڑھ گھنٹے کےلئے نور کسی کام کے بہانہ سے کہیں گئی تھی وہ کام گھر جا کر لباس تبدیل کرنا تھا ۔ نور کو آج میں پہلی بار ایشیائی لباس میں دیکھ رہا تھا وہ ہمیشہ مغربی لباس میں ہوتی تھی ۔ آج اس نے گلے میں موتیوں کی مالا بھی پہن رکھی تھی ۔بہت قیمتی مالا۔کانوں کی لووں پر دو ہیرے جگمگا رہے تھے ۔وہ مجھے کوئی نوابزادی لگ رہی تھی ۔اپنی چال ڈھال ، اپنے طور اطورار اپنے رکھ رکھاﺅ میں تو سائیکی ہمیشہ سے مجھے کوئی نواب زادی ہی لگتی تھی مگر آج اپنے بناﺅ سنگھارسے کوئی وہ اپنے آپ کو کوئی بہت بڑی چیز ثابت کر رہی تھی ۔میں جیسے جیسے اسے دیکھتا چلا جا رہا تھا میرے دل کی دھڑکنیں اس کےلئے تیز ہوتی جار ہی تھیں ۔ اچانک میرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ میں نے جس لڑکی کے انتظارمیں ابھی تک شادی نہیں کی۔وہ اورا نہیں یہ ہے ۔اس وقت ہماری منزل لیڈز کا ایک ریستوران تھا ۔لیڈز اور بریڈ فورڈ دونوں جڑواں شہر ہیں ۔ہمیں کارلائل روڈ سے لیڈز روڈ تک پہنچنے میں پانچ سات منٹ لگے اور پھر لیڈز روڈ پر تو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہاں بریڈفورڈ ختم ہوا ہے اور کہاں سے لیڈز شہر شروع ہو گیا ہے۔کار چلتی رہی اور میں نور کو دیکھتا رہا۔نور کار چلا رہی تھی اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ صرف کار ہی کا نہیں آج سے میرے وقت کااسٹیئرنگ وہیل بھی نور کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ تقریباً دس منٹ تک خاموشی ہمارے درمیان چیختی چلاتی رہی ۔رنگ بکھیرتی رہی خواب دکھاتی رہی ۔خیال اجالتی رہی ۔یک لخت کیکر کے ان درختوں پر پیلے پیلے پھول کھل اٹھے جنہیں میں میانوالی چھوڑ آیا تھا۔میری معصوم اور سادہ محبت کے پھول۔ مجھے یقین ہوتا چلا گیا کہ مجھے نور سے محبت ہوگئی ہے ،بے پناہ محبت کا احساس مجھے رگوں میں دوڑتا ہوا محسوس ہوااور پھر میں نے اس احساس کی وجہ تلاش کرنی شروع کردی ۔سوچنے لگاکہ کیا اس کا سبب صرف نور کی خوبصورتی ہے۔ یا پھریہ بھی کوئی آقا قافا کی کرامت ہے ۔ آخر کار نور نے خود خاموشی کے حیرت کدے میں پاﺅں رکھا اور کہنے لگی ۔” یہ اتنی دیر سے مجھے کیوں دیکھتے آ رہے ہوکیا کبھی پہلے دیکھنے کا موقع نہیں ملا؟“

میں نے کہا ۔”نہیں۔۔ سچ یہی ہے کہ میں نے آج تمہیں پہلی بار دیکھا ہے اور ۔۔۔۔۔۔“

نور میرا جملہ کاٹتے ہوئے اشتیاق سے بولی۔ ”ہاں بولو نا اور کیا۔۔۔“

اور میں نے بول دیا ۔”اور یہی کہ بار بار دیکھنے کی ہوس ہے “

نور ہنس پڑی اور شرما کر بولی ۔”بکواس نہ کرو۔ہمارے درمیان طے تھا کہ ہم ایسی باتیں نہیں کریں گے“

میں نے کہا ۔”مگر آج میری نیت ٹھیک نہیں ہے “

نور کہنے لگی ۔” اب اور کچھ کہا تو یہیں گاڑی سے اتادوں گی“

میں نے کہا ۔” اتار دو،مگر میں جو فیصلہ کر چکاہوں وہ اب تبدیل نہیں ہو سکتا “

نور نے پوچھا ۔” کیا فیصلہ کر چکے ہو“

میں نے کہا ۔”ابھی نہیں بتایا جاسکتاآرام سے کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں“

نور بولی ۔” پلیزدیکھو بڑے دنوں کے بعد آج موڈ بہت اچھا ہے۔اسے اچھا ہی رہنے دو “

میں نے کہا ۔”میں آج صرف محبت کے موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوںمیرا خیال ہے یہ کوئی ایسا موضوع نہیں جو کسی کے موڈ کو خراب کردے“۔

نور ذراسا مسکرائی اور بولی ۔”اچھا یہ بتاﺅتمہارے خیال میں محبت کیا شے ہے “

میں نے کار کی کھڑکی سے باہر جلتی بجھتی روشنیوںمیں خزاں زدہ درختوں کو دیکھتے ہوئے بڑی وارفتگی سے کہنے لگا

محبت بانسری دل کی ۔محبت ہجرکی نے ہے

محبت روح کی وحشت۔محبت درد کی لے ہے

محبت اک عجب شے ہے ۔محبت اک عجب شے ہے

یہ پتھر جیسے دل پگھلا کے آنکھوں سے بہا دینے پہ قادر ہے ۔

محبت کیاعجب شے ہے۔۔۔

یہ پیلے خشک پتوں کے کناروں پہ بھی گرتی اوس کے قطروں کے اندرچلتی رہتی ہے۔۔۔

یہ وہ ظالم ہے جومہتاب میں ڈھل کرسمندر کا گریباں چیر دیتی ہے ۔۔۔

مرا دل تو شکستہ آئینہ خانہ جہاں بارش ہوئی ہے سنگ و آہن کی

مری آنکھوں میں اپنی کرچیاں چبھنے لگی ہیں ۔۔

محبت سائیکی ہے جو لہومیں سرسراتی ہے۔

بدن میں گیت گاتی ہے۔۔

مراسم کی بہاریں ریگزاروں میں اگاتی ہے

مسافر کشتیوں کو ساحلوں کے پاس لاتی ہے

دماغوں کے جزیروںکو یہی آباد رکھتی ہے

محبت تیرے جیسی ہے۔ محبت میرے جیسی ہے

تراچہرہ مراچہرہ ۔محبت ہی کا چہرہ ہے ۔

تری آنکھیں مری آنکھیں محبت ہی کی آنکھیں ہیں۔۔

نور نے میرے لہجے کی گھمبیرتا سے متاثر ہوتے ہوئے کہا ۔ ”شاعر اچھے ہو مگرنظم سنانے کا ڈھنگ مجھے پسند نہیں آیا ۔پاگلوں کی طرح جذباتی انداز میں بولتے چلے جا رہے تھے “

میں نے نور کے گیئر لگانے والے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔”پتہ نہیں آج مجھے کیا ہوگیا ہے یہ کیا وارفتگی مجھ میں در آئی ہے ۔ تمہارے سوا کچھ اور نظر ہی نہیں آرہا۔بس تم ہی ایک ہو پھول کی طرح کھلتی ہوئی لڑکی ۔میں تمہاری خوشبو ہوں نور مجھے محسوس کرو “

جب میری بات ختم ہوئی تو نورنے آہستگی سے اپناہاتھ کھینچ لیا اور مصنوعی انداز میں کھردرے لہجے میں بولی ۔”تم نے پھر مجھے چھوا ہے ۔۔ہمارے درمیان طے تھا کہ تم کبھی مجھے ہاتھ نہیں لگاﺅ گے“

میں نے کار کے شیشے سے باہر دیکھ کر کہا ۔”سوری ۔اپنے اوپر قابو رکھناکبھی کبھی مشکل ہوجاتا ہے۔

لیکن ایک گزارش ہے

او دونوں جہاں کی سب سے سندر لڑکی

میرے ساتھ گزاروگی جو پیار بھرے دوپل توکیا نقصان کرو گی اپنا۔۔۔

تم میں کیاکم ہوجائے گا۔۔

تیرے جوبن کے گلشن کومیرے پاکیزہ ہاتھوں کے چھو لینے سے

میل نہیں لگ جائے گی ۔۔

میرے شانوں پرآ گرنے سے تیرے بالوں میں دھول نہیں پڑجائے گی۔۔

الٹا اور بڑھے گی رخساروں پر گرم لہو کی سرخ حرارت۔۔

شاخ بدن کھل جائے گی

کچھ اور حسین ہو جائے گی“

نور نے کار روک دی اور غصے سے کہا ۔”تم نے میرا موڈ خراب کردیا ہے ۔نیچے اترو جاﺅ ۔

میں نے فوراً کہا ۔”سوری سوری ۔ اب ایسی کوئی بات نہیں ہو گی۔میں نے تو ایک اور نظم سنانی ہے تجھے انداز بدل کر۔ چلو محبت کا موضوع ختم ۔۔ “

نورنے براسا منہ بنایا اور ایکسیلیٹر پر پاﺅں دباﺅ بڑھا دیا۔چند لمحوں میں ایک ریستوران کی پارکنگ میں کار کھڑی کرکے ریستوان میں داخل ہونے لگے تو ایک بھاری بھرکم گوری تیزی سے چلتی ہوئی پیچھے آئی اور مجھےتقریباً کندھا مارتی ہوئی آگے نکل گئی ۔نور نے اسے غصے سے دیکھااور کہا۔’’اس کی چال دیکھو ۔ایسا لگ رہا تھا جیسےکسی بہت پرانے ٹرک کے پیچھےلکھا ہوا ہو۔ سپیڈ میری جوانی ۔اورٹیک میرا نخرا‘‘

اس رات ہم کھانا کھانے کے بعد کافی دیر تک لیڈز شہر کی سڑکوں پر گھومتے رہے۔جدا ہونے سے پہلے میں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ نور سے کہا ۔’’نور بہتر یہی ہے کہ میری آنکھوں کا نوربننے سے پہلے میرے دل کا سرور بننے سے پہلے مجھ سے بچھڑ جا۔یہ تعلق ہم دونوں کے لئے مسئلہ بھی بن سکتا ہے ۔نور نے بھی پوری سنجیدگی سے کہا ’’میں اِس پر غور کروں گی ‘‘

اُس تذبذب میں روشنی سی تھی

(جس سے دل کا چراغ جل اٹھا)

میں نے فون کی بیل بند کی ہوئی تھی مگر وائبریٹرآن تھا ۔مجھے اندازہ ہوتا رہا کہ میسجز اور کالیں آتی رہی ہیں اور اندازہ بھی تھا کہ وہ اورا کی ہی ہو سکتی ہے ۔ گھر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے میں نے موبائل فون کو چیک کیا جس میں اورا کی ایک کال تھی میسج کئی تھی

’’میری زندگی ، میرے دیوتا تم کہاں ہو ۔تمہاری پیشانی کے عین وسط میں ایک اکیلا بال ہے ۔دو سے تین انچ لمبا ۔ سب سے بالکل الگ تھلگ ۔مجھے وہ بھی بہت یاد آرہا ہے ۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم میرے اندر اتنی محبت جگادو گے ۔کہاں ہو بہت یاد آ رہے ہو ۔تم سے سارے جذبے وابستہ ہو گئے ہیں میری جان ۔اپنی آواز سنا دو کہ مجھے نیند آ جائے ۔‘‘

دل و دماغ میں ایک حریفانہ کشمکش شروع ہو گئی تھی ایک طرف نور تھی ایک طرف اورا تھی ۔جسم اورا کی تمنا کرتا تھا ۔روح نور کی خواہش میں مچل رہی تھی ۔نور فتح مند ہوئی ۔ میں نے اورا کو کال نہیں کی صرف اتنا میسج کیا ۔’’کہیں مصروف ہوں فارغ ہو کر تم سے بات کرتا ہوں ‘‘ فوراً جواب آیا ۔ ’’میں جاگ رہی ہوں تمہاری کال کے انتظار میں ‘‘ ۔ میں نے پھر میسج کیا ۔ ’’تم سوجائو بہت دیر ہو جائے گی ‘‘جواب آیا ۔ ’’میں انتظار کررہی ہوں چاہے صبح ہی کیوں نہ ہوجائے ‘‘میں نے سو چا کہ ابھی دیر تھوڑی بعد کال کر لیتا ہوں ۔اب فوراً فون کرنا اچھی بات نہیں اور بستر پر لیٹ گیا ۔پتہ نہیں کیسے آنکھ لگ گئی ۔صبح سات بجے آنکھ کھلی فون کی گھنٹی بج رہی تھی دوسری طرف اورا تھی ۔ کہنے لگی ’’تم ابھی تک فارغ نہیں ہوئے ۔ میں جاگ رہی ہوں ‘‘ مجھے بڑی شرم آئی ۔میں نے اس سے سوری کی اور جھوٹ بولا کہ میں صوفے پر کام کرتے کرتے سو گیا تھا ۔اور اس بات پر ناراض بھی ہوا کہ تم میری کال کے انتظار میں رات بھر جاگتی رہی ہو جس پروہ کہنے لگی ۔ ’’دیکھو آفاق تم میرے لئے روشنی میں بدل چکے ہو۔تم میرے آسمان کا وہ ستارہ ہو جو ہمیشہ کےلئے روشن ہوچکا ہے ۔اب میرا سونا اور جاگنا صرف تمہارے ساتھ ہے ۔ دیکھو آفاق کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ایک ہنسی عمر بھر کی خاموشی نہ بدل جائے ۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ نہیں نہیں میں تمہارا ہوں اور ہمیشہ تمہارا رہوں گا ‘‘۔اورا سو گئی مگر مجھے اُس نے خاصا ڈسٹرب کر گئی ۔ میں اٹھا ۔چائے بنائی اور صوفے پر آ کر بیٹھ گیا ۔دل و دماغ نورکی طرف جھک رہے تھے ۔ اورا کہیں دور کھڑی دکھائی دے رہی تھی ۔خیر میں معمول کے مطابق تیار ہوااور دفتر آ گیا ۔آ قا قافا کی مجلس کا وقت قریب آ رہا تھا ۔ نور دفتر میں داخل ہوئی ۔ آ ج وہ بہت بن ٹھن کر آئی تھی ۔ قیامت بنی ہوئی تھی ۔بجلیاں گرا رہی تھی ۔مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس وقت یہ نور کا بنائو سنگھار صرف میرے لئے ہے ۔وہ اپنے محبوب منصور آفاق کےلئے تیار ہو کر آئی ہے۔تھوڑی دیر کے بعد ہم دونوں آقا قافا کی مجلس میں تھے وہ کسی سوال کے جواب میں کہہ رہے تھے

چند ساعتوں کی سبک خرام ندی کے کھو جانے کا دکھ سونے کے پہاڑ کے گم ہو جانے سے کہیں زیادہ ہونا چاہئے کیونکہ خیر کے لئے صرف ہونے والے چند لمحے سونے کے پہاڑوں سے زیادہ قیمتی ہیں اور خیر کیا ہے؟ خیر روشنی ہے خیر حسن ہے خیر زندگی ہے خیرآگہی ہے اور یہ خیر ہم سب کے سینوں میں موجود ہے اس کی تلاش کےلئے تمہیں کسی آقا قافا کی ضرورت ہے۔اور کوئی سوال “

میں نے سوال کرتے ہوئے کہا

راستہ تو وہ خود دکھاتا ہے وہی کسی کے سینے کو روشنیوں سے بھر دیتا ہے اور کسی کے کانوں میں پگھلا ہو اسیسہ ڈال دیتا ہے ۔ ان رہنماﺅں کی حیثیت سٹریٹ لائٹ سے زیادہ نہیں ہوتی کہ چلنے والا راستہ دیکھ سکے۔ ‘‘

آقا قافا بولے

میرے خیال میں تواگر راستہ دکھانے والا نہ ہو توآدمی اندھیروں میں بھٹکنے لگتا ہے میرے مرشد سلطان باہوکے نزدیک مرشد کے بغیر منزل ناممکن ہے ۔ ‘‘

سوال و جواب کا سلسلہ کافی دیرتک چلتا رہا جب مجلس ختم ہوئی اور سب لوگ جا نے لگے تو آقا قافا نے میرے اور نور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

تم نے دونوں ابھی بیٹھو۔ تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں“ ۔

سب لوگوں کے چلے جانے کے بعدآقا قافا بولے

نکاح جوانی کا محافظ ہوتا ہے میں چاہتا ہوں کہ تم دونوں آپس میں نکاح کرلو، شاید یہی تمہاری تقدیر میں لکھا ہے “۔

نور نے عجیب نظروں سے آقا قافا کی طرف دیکھا اور کہا

حضور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ درست کہہ رہے ہیں مگر میں نکاح کو ایک غیر فطری فعل سمجھتی ہوں۔ ایک ہی شخص کے ساتھ زندگی گزارنا انسانی جبلت کے خلاف ہے۔ انسانی فطرت میں اکتاہٹ ایک اہم عنصر ہے۔ایک ہی کھونٹے کے ساتھ ساری زندگی بندھے رہنا کسی بیل یا بکری کا کام ہے۔ اس کے مقابلے میں طلاق ایک فطری شے ہے ۔انسان روز ایک طرح کا کھانا نہیں کھا سکتا ایک طرح کا لباس نہیں پہنتا۔وہ تبدیلی چاہتا ہے اور تبدیلی فطرت کا ایک روپ ہے“

آقا قافا نور کی طرف اس طرح دیکھتے رہے جیسے کوئی بچی بات کر رہی ہو اور نورکی بات ختم ہو نے پر کہنے لگے مجھے تمہاری کسی بات سے بھی اختلاف نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نکاح کا عمل انسانی جبلت سے مطابقت نہیں رکھتا مگر انسانی معاشرت کی تشکیل فطرت کے ٹکراﺅ سے ہوتی ہے۔ فطرت یہ ہے کہ انسان ننگا ہے ۔لباس غیر فطری شے ہے مگر ہر معاشرت کےلئے جزو لازم ہے ایک اور بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ انسان فطرت کا حصہ نہیں فطرت انسان کے لئے ہے اور انسانی جبلتوں میں خیر کے ساتھ ساتھ شر بھی ہے ان سب سے جو چیز بلند تر ہے وہ انسانی دماغ ہے اور ہاں تم نے طلاق کی بات کی ہے ۔طلاق اللہ تعالی کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے مگر گناہ نہیں ۔ “

نورنے آقا قافا کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا

آپ خود کیوں نہیں شادی کرتے؟ “

آقا قافا بولے” اس موضوع پر تم سے پہلے بات ہو چکی ہے ، ‘‘(اور پھرنور سے مخاطب ہو کر)

’’تم ذرا باہر جائو میں نے اِ ن سے کوئی بات کرنا ہے ‘‘

نور باہر نکلی تو آقا قافا نے مجھ سے کہا ۔’’بے شک اورا بہت اچھی لڑکی ہے ۔ سراپا محبت ہے ۔میں تمہیں کبھی اسے چھوڑنے کا مشورہ نہیں دونگا مگر میں نور کے حق میں ہوں ۔تمہارا جو بھی فیصلہ ہو مگر یہ بھی طے ہے کہ تمہیں ایک دن نور سے شادی کرنا ہو گی ۔ اب تم جا سکتے ہو ‘‘

شام ہے لالی شگنوں والی

(سہاگ کے انتظاروں میں بھیگی ہوئی گفتگو)

میں باہر نکلا تو نور نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ میں نے کہا ۔’’اگر وہ بات تمہیں بتانا مناسب ہوتی تو آقا قافا تمہیں کبھی باہر نہ بھیجتے ۔ ‘‘نور نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

ہم دونوں خاموشی سے چلتے ہوئے آئے اورآکر گاڑی میں بیٹھ گئے ۔کچھ دیر کے بعد نور نے پوچھا

کیا تمہیں بھی آقا قافا کی یہ بات پسند نہیں آئی ؟“

میں نے کہا ۔”نہیں میں نے تو کل رات ہی تمہارے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر لیاتھا“۔

نورنے گاڑی ایک طرف سڑک پر روک دی اور میری طرف اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے ایسے دیکھنے لگی جیسے میرے جملے کو تولنے کی کوشش کر رہی ہو۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد نور نے گاڑی آگے بڑھادی مگر بولی کچھ نہیں ۔ میں نے خاصی دیر کی خاموشی کے بعد کہا ۔”تم مغرب میں ہو تم اگر کوئی مشرق میں ہوتیں تو میں تمہاری خاموشی کا مفہوم ”رضامندی “لے سکتا تھا مگریہ اکیسویں صدی ہے تمہیں اپنی مرضی کا اپنی زبان سے اظہار کرناہوگا“

نورکہنے لگی ۔” بات دراصل یہ ہے کہ میں انکار بھی نہیں کرناچاہتی اور اقرار بھی نہیں کر سکتی۔کوشش کروں گی کہ جلدی اس الجھن سے نکل آﺅں ۔ ہاں وہ میں نے تم سے پوچھنا تھا کہ تمہیں رنگ کونسا پسند ہے“میں نے ہنس کر پوچھا”رنگ۔۔اتنی سطحی بات تم نے پہلے کبھی نہیں پوچھی۔“

نوربولی ۔ ”17جنوری کو تمہاری سالگرہ ہے اس موقع پر سوچ رہی تھی کہ تمہارے لئے ایک سوٹ خریدوں اس لئے تم سے پوچھ لیا ہے کہ تمہیں کونسا رنگ پسند ہے “

میں نے کہا ۔”رنگ تو مجھے نیلا پسند ہے مگر خدا کےلئے نیلے رنگ کا سوٹ نہ لے لینا ۔“

نور نے بیزاری سے کہا ۔”میں سب سے زیادہ اسی رنگ سے الرجک ہوں یہ بھی کوئی اچھا لگنے والا رنگ ہے “

نور اےسے شکایت کر رہی تھی جیسے وہ ایک دوست سے زیادہ میری کچھ لگنے لگی ہے ۔میں نے سوچا کہ نور نے ذہنی طور پر مجھ سے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے سو میں نے مسکراتے ہوئے بہت شوخی بھرے لہجہ میں کہہ دیا ۔”نیلا رنگ تو بہت خوبصورت رنگ ہے یہ روح کا رنگ ہے سمندر کا رنگ ہے آسمان کا رنگ ہے طاقت کا رنگ ہے جنس کا رنگ ہے ،آنکھوں کی آخری حد کا رنگ ہے اور سب سے بڑھ کر ہےکہ تمہاری آنکھوں کا بھی تو یہی رنگ ہے“

نور حیرت بھری نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولی ۔”حیرت انگیز۔۔آقا قافا کو بھی نیلا رنگ پسند ہے اور میں نے ان سے اس کی پسندیدگی کی وجہ پوچھی تھی تو انہوں نے بھی مجھے یہی جواب دیا تھا مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ان کے بھی یہی الفاظ تھے“

مجھے اچانک کچھ خیال آیا ۔میں نے نور سے کہا ۔”جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے کبھی تم کو اپنی تاریخ پیدائش نہیں بتائی ۔۔تمہیں کیسے علم ہوا کہ میں 17جنوری کو پیدا ہوا تھااور تمہیں علم ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ کاغذی طور پر میری تاریخ پیدائش 17فروری ہے ۔ اور اس ملک میں کوئی یہ بات نہیں جانتا ؟“

نور بولی ۔”مجھے تمہاری تاریخ پیدائش آقاقافا نے بتائی تھی “

میں نے حیرت سے خود کلامی کی۔”اب مجھےآقاقافا پر پوری توجہ دینا پڑے گی۔“ ۔

اس دن نور اور میں رات دیر گئے تک گھومتے رہے ، دنیا کی جتنی خوبصورت باتیں ہو سکتی تھیں وہ ہونٹوں اور کانوں کی وساطت سے ایک دوسرے کو منتقل کرتے رہے۔ تتلیوں کے پروں پر خوشبو کے نقش و نگار بناتے رہے ، رنگوں کے کینوس پر خواب بکھیرتے رہے باری باری ایک دوسرے کے راستے میں روشنی اور پھول لے کر کھڑے ہوتے رہے اور پھر اپنے اپنے راستوں پر جانے کا وقت ہو گیا یعنی رات بہت بیت گئی۔ میں نے نور سے کہا ۔”میں صرف اتنا معلوم کرنا چاہوں گا ۔۔گھر جانے سے پہلے۔۔کہ وہ کونسی بات ہے جو تمہیں میرے ساتھ شادی کرنے سے روک رہی ہے “۔

نورکچھ دیر سوچنے کے بعد ٹھہر ٹھہر کر بولی ۔”میں شادی کرنے پر تیار ہوں مگر میری ایک شرط ہے “

میں نے پوچھا ۔”کیا“

تو کہنے لگی ۔”میں تم سے جب کہوں گی تم سبب معلوم کئے بغیر مجھے طلاق دے دو گے“

اس عجیب و غریب شرط پر میں پریشان ہو گیا ۔میں کچھ دیر کےلئے خاموش ہو گیا اچانک میرے دماغ میں ایک بات آئی اور میں نے نور سے پوچھا ۔”کیاتم کسی اور سے محبت کرتی ہو “

نورنے دھیمے لہجے میں مردہ سی آواز کے ساتھ کہا ۔”ہاں “

میں نے پو چھا ۔” کس سے “

تو بولی ۔” ہے کوئی “

میں نے پوچھا ۔”کیا میں اسے جانتا ہوں ؟“

تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا اور میرے ذہن میں فوراًآقا قافا کا نام آیا میں نے بے اختیار کہہ دیا۔”کون آقا قافا ؟“

نور خاموش رہی مگر اس کی خاموشی چیخ چیخ کر آقا قافا کے ساتھ اسکی محبت کی داستان سنا رہی تھی ۔ میں نے صورت احوال سے مکمل آشنا ہو جانے والے انداز میں نور سے پوچھا ۔” کیا تم ان کے سامنے اس بات کا اظہار کر چکی ہو “

تو نور بولی ۔”ہاں ۔۔ مگروہ کہتے ہیں میں نے کبھی شادی نہیں کرنی اور اگر زندگی میں کبھی شادی کی تو تمہارے ساتھ کروں گا۔ میں نے اسی لئے وہ شرط لگائی تھی کہ اگر کبھی وہ میرے ساتھ شادی کرنے پر تیار ہو گئے تو تم رکاوٹ نہیں بنو گے “

یہ بات سن کر نجانے کیوں مجھے نور پر ترس آنے لگا۔میں نے نورسے کہا ۔”ایک بات ذہن میں رکھو کہ جب تم میرے ساتھ شادی کرلو گی تو ان کے ساتھ شادی کے امکانات اور کم ہو جائیں گے“

نور بولی ۔” نہیں انہوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے اور وہ جو بات کرتے ہیں اس سے پھرتے نہیں“

میں نے نور سے کہا ۔”پھر تو تمہیں ایک سچے محبت کرنے والے شخص کی طرح انتظار کرنا چاہئے “۔

نور بے ساختہ ہنس پڑی اور ہنستے ہنستے کہنے لگی ۔ ”تو تم نے میرے ساتھ شادی کرنے کا ارادہ بدل لیا ہے صرف یہ بات سن کر کہ میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں ۔۔۔ کیا اتنی ہی محبت تمہارے دل میں میرے لئے اٹھی تھی“

میں نے نور سے کہا ۔” نہیں نور میں نے شادی کا ارادہ تبدیل نہیں کیا۔ دراصل میری محبت اُس خود غرضی پر مبنی نہیں ہو سکتی جس میں صرف ”حاصل“ ہی محبت کا مقصد ہوتا ہے ۔میرے خیال میں لا حاصلی بھی محبت میں کوئی کم شے نہیں“۔

نورکے چہرے پر خوشی کا تاثرابھرا اور وہ بولی ۔ ”فلسفوں کو چھوڑو اگر تمہیں واقعی مجھ سے محبت ہے تو پھر تم مجھے حاصل کر سکتے ہو “

میں نے پوچھا ۔” مگر وہ شرط“

نور بولی ۔” اس میں ترمیم ممکن نہیں “

میں نے کہا ۔ ”ایک بات کی ذراسی وضاحت کرو۔ ایک طرف تم اتنی مشرقی اور مذہبی ہوکہ تمہیں میرا ہاتھ بھی لگ جائے تو ناراض ہو جاتی ہو ۔۔ دوسری طرف تم ایک مرد کے ساتھ زندگی گزارنے کے فلسفے کو غیر فطرتی سمجھتی ہو۔ایسے نظریات رکھنے والی لڑکی کو کسی وقت بھی کسی کے ساتھ سو جانا چاہئے“

نور بڑی سنجیدگی سے بولی ۔” بس ایسی ہی ہوں ۔۔ سوچتی کچھ ہوں اور کرتی کچھ ہوں“اور پھر ہم نے رات بھر شادی کے مسئلہ پر سوچنے کے لئے اپنی راہیں مختلف کر لیں اور اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ میں گھر جا کر فون چیک کیا تو اورا کا کوئی میسج نہیں آیا ہوا تھا نہ کوئی کال آئی تھی ۔میں نے اس بات کو غنیمت سمجھا اور سوچنے لگا کہ اورا کو کیسے سمجھا یا جائے ۔کیا اپنا فون نمبر بدل لوں ؟۔یا اس سے صاف الفاظ میں معذرت کرلوں ؟۔پھر ذہن سے سارا کچھ جھٹک کر نروان کی طرف جا نکلا۔ قافلہ ابھی تک پہاڑ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا ۔

اٹھو بیڈ سے چلو گاڑی نکالو

( فقط بارہ کلومیٹر پہ میں ہوں )

نروان نے ایک پہاڑی درے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔”یہ ڈھک کی پہاڑی ہے۔ یہ پہاڑ صرف یہیں سے عبور کرنے کے قابل ہیں۔ دہن کوٹ سے دہنی کے علاقے میں جانے والوں کو یہیں سے آکر پہاڑ عبور کرناپڑتا ہے۔ کہتے ہیں اس کے دوسری سمت ایک جھیل ہے اور اس کے ساتھ بڑی بڑی غاریں ہیں۔ہزاروں سال پرانی غاریں ۔۔مادھو چند نے مجھے بتایا تھا کہ ’’قدیم کاہنوں کے خیال میں بھگوان نے جو پہلا جوڑا بنایا تھاوہ انہی غاروں میں سے کسی غار میں رہتے تھے“

میں نے پوچھا ۔” تمہارا کیا خیال ہے بھگوان نے پہلا جوڑا کس چیز سے بنایا تھا“

نروان کہنے لگا ۔”اس حوالے سے دو روایتیں سننے میں ملی ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ بھگوان نے بندر اور بندریا کو بلا کر ان پر پھونک ماری اور وہ مرد اور عورت میں تبدیل ہو گئے ۔دوسری روایت بھی اسی سے ملتی چلتی ہے وہ یہ ہے کہ بھگوان نے مٹی سے عورت اور مرد بنائے اور پھر ان میں اپنی روح پھونک دی۔ عورت اور مرد کے درمیان یہ جو محبت کا رشتہ ہے اس کا سبب بھگوان کی وہی روح ہے۔

میں نے پوچھا ۔”یہ محبت کیا شے ہے “

نروان کہنے لگا ۔”یہ جو محبت ہوتی ہے نااس کی لاکھوں کروڑوں قسمیں ہیں۔یہ ہمارا سفر بھی محبت کی ایک شکل ہے ہم جسے حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کی تلاش میں مشکل راستوںکو عبور کر رہے ہیں اس سے یقینا ہمیں محبت ہے لیکن ہر محبت کا آغاز اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔ حسن یا حسن ِکل سے یعنی بھگوان سے محبت بھی اصل میں اپنی ذات سے محبت ہے ۔ہم اپنی تکمیل کی جستجو میں بھٹک رہے ہیں اور یہی محبت ہے یہی کائنات کا سب سے عظیم جذبہ ہے“

میں نے نروان سے کہا ۔”کیا یہ ہمیشہ سے ہوتی ہے اور ہمیشہ رہتی ہے “ تو کہنے لگا ۔”نہیں اس کا اظہار وہاںہوتا ہے جب کسی روح میں حسن سے ہم آغوش ہونے کاجذبہ اتنا توانا ہو جائے کہ اس کے ادراک کو اپنی گرفت میں لے لے۔حسن کی بھی دو سطحیں ہوتی ہیں ایک حسنِ خالص اور دوسرا حسنِ مجسم ، تجسیم شدہ حسن بھی حسنِ مطلق ہی کا اظہار ہوتا ہے ،یہ زیریں حسن محبت کرنے والے کو اس بالا ئی حسن کی طرف لے کر جاتا ہے جس کے ساتھ اس کا تعلق قدیم ہے یعنی یہ بھی روح کا روحِ کل کے ساتھ رابطے کا ایک ذریعہ ہے ، مجاز سے متاثر ہونا انسانی سرشت میں شامل ہے لیکن اس سفر میں حقیقت تک اس کی رسائی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب وہ وارداتِ محبت کے باطنی اسرار سے واقف ہو جاتا ہے“

مجھے یاد نہیں کہ نروان کے ساتھ چلتے چلتے میں کس وقت سو گیا تھا اور کب میرا تصور خواب کی دنیا میں داخل ہوگیا تھا مگر اچانک مجھے احساس ہوا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی نے مجھے نیند سے جگا دیا ہے ۔میری نظر گھڑیال کی طرف گئی تو وہاں رات کے تین بج رہے تھے میں بیڈ سے اٹھا فون کا ریسور اٹھایا تو دوسری طرف نور تھی اس کی آواز پہچانتے ہی میں نے پوچھا ” خیریت توہے نا “

بولی ۔”ہاں مگر تم نے کچھ اتنا الجھا دیا ہے کہ ابھی تک نیند نہیں آئی میں نے سوچا کہ اگر میں جاگ رہی ہوں تو پھر تمہیں بھی میرے ساتھ جاگنا چاہئے ۔اپنے اپنے گھروں میں ہی سہی ۔ کم ازکم اتنا توہو گا کہ صرف میں ہی نہیں میرے ساتھ کہیں کوئی اور بھی جاگ رہا ہے “

میں نے ہنس کر کہا ۔ ” اپنے اپنے گھروں میں جاگنے کا کیا فائدہ ۔اٹھو بیڈ سے چلو گاڑی نکالو۔۔ فقط نو دس کلومیٹر پہ میں ہوں ۔۔۔یا کہو تومیں ادھر ہی آجاتا ہوں “

نور بولی ۔”نہیں اس وقت ہمارا ملناہم دونوں کے لئے ٹھیک نہیں ۔میں دراصل تمہیں ایک اور بات بتانا چاہتی تھی میرے بارے میں کچھ سوچتے ہوئے اسے بھی ذہن میں رکھنا“

میں نے کہا ۔” ذرا ٹھہرو میں چائے کا ایک کپ بنالوں “

اور پھر ریسیور کان سے لگائے ہوئے میں نے کیٹل کا بٹن آن کیا اور چائے بناتے ہوئے اس سے کہا

ہاں اب بولو “

تو کہنے لگی ۔” میں تمہیں یہ بتانا چاہتی تھی کہ میری اور تمہاری ملاقات اتفاقیہ نہیں ہوئی تھی مجھے آقا قافا نے تمہارے طرف متوجہ کیا تھا ۔اور میں نے پروفیسر رضا ملال کو کہا تھا کہ تمہیں لیڈز یونیورسٹی میں لیکچر کےلئے بلائیں ۔ہوا یہ تھا کہ ایک دن میں آقافاقا کے ساتھ کہیں جا رہی تھی کہ انہوں اچانک مجھے فوراً گاڑی روکنے کےلئے کہا اور میں نے گاڑی ڈبل ییلو لائن پر روک دی انہوں نے مجھے کہا کہ گاڑی یہیں رہنے دو اور میرے ساتھ آﺅ۔میں نے انہیں اس بات کا احساس دلایا کہ گاڑی ڈبل ییلو لائن پر کھڑی کی ہوئی ہے تو کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں اترو اگر آج بھی وہ نکل گیا تو شاید پھر اسے ڈھونڈنے میں نجانے کتنا عرصہ لگ جائے ۔ آقا قافا بہت تیز تیز چل رہے تھے مجھے ان کا ساتھ دینے کےلئے تقریباً بھاگنا پڑ رہا تھا کہ ایک جگہ وہ رک گئے سامنے ایک کافی شاپ تھی جس کے باہر بھی بنچ رکھے ہوئے تھے لوگ ان بنچوں پر بیٹھے ہوئے کافی پی رہے تھے ہم بھی ایک بنچ پر جا کر بیٹھ گئے ۔میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھاتو انہوں نے ساتھ والے بنچ پر اکیلے بیٹھے ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کیا اور کہاکہ یہ تمہارا ہونے والا شوہر ہے میں نے حیرت سے پوچھاکہ یہ کون ہیں تو بولے ”یہ معلوم کرنا تمہارا کام ہے۔پھر انہوں نے مجھے جانے کے لئے کہا اور میں آقاقافا کو وہیں چھوڑ کر اکیلی واپس آگئی ۔جانتے ہو وہ شخص کون تھا؟ “

نور محبت بھرے لہجہ کا شہد ٹپکا رہی تھی میرے کان میں اور میں اس مٹھاس کے حسن کو مجسم دےکھ رہا تھا ۔میں نے پوچھا ۔” کون تھا “

تو بولی ۔” وہ تم تھے“۔

جب میں نے نور سے دن ، وقت اور جگہ معلوم کی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہے ۔میں نے نور سے کہا ۔” تم مجھے پریشان کرتی چلی جا رہی ہو آقا قافاکو سمجھنے کا تجسس اور بڑھتا جا رہا ہے“

نور کہنے لگی ۔” نہیں یہ اتفاق نہیں ہو سکتا ۔اگر یہ ایک اتفاق ہے تو آقا قافا تمہاری تلاش میں کیوں تھا “

میں نے پوچھا ۔” کیااتنے عرصہ میں آقاقافا نے اپنے ماضی کے بارے میں کبھی کوئی بھی بات نہیں کی کہ وہ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں اور یہ اتنا بڑا محل نما جس مکان میں رہتے ہیں یہ انہوں نے کیسے خریدا ہے ،اس کے بل کیسے ادا ہوتے ہیں۔ ملازموں کی تنخواہیں کہاں سے آتی ہیں، وہ کوئی بھی کام نہیں کرتے ، ان کے اتنے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ یہ جو اتنے سارے سوال ہیں تم نے ان پر کبھی غور نہیں کیا “

نور کہنے لگی ۔” کچھ سوالوں کے جواب تو میں جانتی ہوں لیکن کچھ سوال ایسے ہیں جن کامجھے کوئی جواب نہیں مل سکا۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ آقا قافا کون ہیں ، کہاں سے آئے ہیں ۔ ان کے ماں باپ کون تھے کہاں پڑھے وغیرہ وغیرہ ، میں نے اس سلسلے میں آقا قافا سے پوچھا بھی ہے صرف میں نے ہی نہیں ان کی محفل میں شریک ہونے والے دوسرے لوگوں نے ۔۔۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ مجھے کسی شخص کا انتظار ہے جب وہ آجائے گاتو میں اپنی کہانی تم لوگوں کو سنا ﺅں گا اور مجھے پورا یقین ہے کہ انہیں جس شخص کا انتظار تھا وہ تم ہو ۔ اس دِن محفل میں وہ اس بات کا اظہار بھی کر چکے ہیں“

میں نے اسے کہا ۔” جن سوالوں کے جواب تم جانتی ہو وہ تو مجھے بتا دو “

نور کہنے لگی ۔ ۔ ”اس کے لئے تمہیں ایک اور کہانی سننی پڑے گی جو بہت طویل ہے “

میں فوراً بولا ۔ ”میرا خیال ہے میں تمہارے پاس اُدھر ہی آجاتا ہوں۔ اب نیند آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اتنی لمبی کہانی فون پر سنی بھی نہیں جا سکتی“

نور بولی ۔’ نہیں اتنی رات گئے بالکل نہیں اب تم نروان سے دل بہلاﺅ “

اور ایک طویل ہنسی کے ساتھ اس نے فون بند کردیا ۔

تیر سورج کی نظر میں لگ گیا تھا

(پریشاں خیالی کا زخم)

اب تومیں سچ مچ پریشان ہو گیا تھا آقاقافا کے بارے میں جتنا زیادہ سوچتا جا رہا تھا میری پریشانی اتنی بڑھتی جارہی تھی ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آقاقافا کے میرے ماضی سے کیا تعلق ہے۔ اسے میری تلاش کیوں تھی ۔ وہ مجھ سے کیا چاہتا تھا ۔ممکن ہے اس کے پاس کوئی غیر معمولی علوم ہوں مگر کیا میرا ان علوم سے کیا واسطہ ہے۔میں نے ذہن پر بہت روز دیا کہ میری زندگی میں آقا قافا سے ملتا جلتا کوئی شخص کہیں موجود نہیں تھا ۔وہم آبادمیں الجھنوں نے کچھ نئے گھروندے بنا لئے۔ دماغ کی پرانی نسوں میں نئے جالے تعمیر ہونے لگے۔ واہموں کی محراب دار کوٹھیوں کی دیواروں پرآتی جاتی ہوئی سرخ رنگ کی کوچیوں سے خون ٹپکنے لگا۔چھٹی حس کے سنگنل الٹے سیدھے میسج بھیجنے لگے۔حواس کے پانچوں سرکٹ کسی نامعلوم ستارے سے آتی ہوئی برقی لہروں سے شاٹ

ہو گئے۔میں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ ان نہ سمجھ آنے والوں سے بھاگ کر نروان کے پاس چلا جایا جائے ۔

نروان اور میں مسلسل چلتے جا رہے تھے۔پہاڑ ایک طرف رہ گئے تھے اب ہمارے چاروں طرف ریت ہی ریت تھی۔اچانک دور کہیں کچھ درختوں کے جھنڈ نظر آنے لگے۔ نروان نے مجھ سے کہا

میرے اندازے کے مطابق ہم لوگوں نے راستے کا چوتھا حصہ طے کر لیا ہے ۔ابھی دو دریا اور ہم نے عبور کرنے ہیں دریائے چناب اور دریائے جہلم اس کے بعد دریائے راوی رہ جائے گا راوی تک پہنچ گئے تو سمجھو لہوارر پہنچ گئے کیونکہ لہوار اسی کے کنارے پر آباد ہے۔

میں نے اس سے پوچھا

تم تو پہلی مرتبہ سفر کر رہے ہو تمہیں کیسے معلوم ہو گیا ہے کہ کتنا طے ہو چکا ہے؟ “

تو اس نے ہنس کر کہا

میں جب کسی خارجی یا باطنی سفر پر نکلتا ہوں تو سب سے پہلے راستے کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہوں کسی عظیم روشنی کے سفر پر نکلنے سے پہلے راستے کابنیادی علم رکھنا بڑا ضروری ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم سفر کرتے ہیں تو اپنے پہلے محدود علم کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اس سے کہیں بہت آگے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ کبھی کبھی حاصل ہونے والے علم سے بھی آگے نکل جاتے ہیں ۔سفر میں ایسی منزلیں بھی آتی جب علم اور علم جس کا احاطہ کر سکے، وہ دونوں آگے بڑھنے سے انکار کر دیتے ہیں وہ مقام آجاتے ہیں جن پر ان کے پرجلنے لگتے ہیں ۔ تم جب گیان کے راستے پر آگے بڑھوگے تو تمہیں ان حقیقتوں کا ادراک ہو گا“

ہم درختوں کے جھنڈ کے پاس پہنچ گئے ۔ ایک دائرے کی صورت میں کھجور کے سینکڑوں درخت دکھائی دے رہے تھے۔ ہم جب درختوں کے اندر داخل ہوئے توان کے درمیان پانی کا ایک بڑا ساتالاب موجود تھا۔صدیوں پرانے فراش کیکر اور شیشم کے درختوں کے تنے پانی کے اردگرد زمین پربکھرے ہوئے تھے اورتنوں سے لے کر پانی تک زمین پر کچھ کائی تھی اور کچھ سبز رنگ کی روئیدگی۔۔۔یہ دوپہر کا وقت تھا ۔وہاں پڑاﺅ ڈال دیا گیا اونٹوں اور آدمیوں نے ایک ہی گھاٹ سے جی بھر کر پانی پیا،پانی کی خالی مشکیں پھر سے بھر لی گئیں میں نے اس لق و دق صحرا میں درختوں اور پانی کے اس ذخیرے کودیکھ کر نروان سے کہا

یہ بھگوان ہے یہ روح ِکل ہے جو ہمیں قدم قدم پر اپنے معجزے دکھاتی ہے۔ پتہ نہیں یہ سب لوگوں کو نظرکیوں نہیں آتے “

وہ بولا

کائنات کی ہر شے روحِ کائنات کی جلوہ گری ہے مگر اس فرق کو سمجھنے کےلئے ضروری ہے کہ ادراک ، مادے اور روح کے درمیان جو تعلق ہے اس کو سمجھا جائے ۔انسانی تفہیم کے تمام سلسلے اسی شعور کے مراحل ہیں ۔ جوشخص جس مرحلے پر ہوتا ہے اس کی آنکھ اسی سطح تک دیکھ سکتی ہے اور جب اس سے آگے دیکھنے کی کوشش کرتی ہے تو اسرار جنم لیتے ہیں“ ۔

میں نے پوچھا

مادہ اور روح کے تعلق تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر ادارک تو دونوں کے ملنے کے بعد وجود میں آتا ہے

نروان بولا

میرے نزدیک ادراک اس پھونک کو کہتے ہیں جو بھگوان نے بندر اور بندریا پر پھونکی تھی ۔ بندر اور بندریا میں مادہ یعنی مٹی ،پانی اور ہوابھی موجود تھی اور روح بھی۔روح اور مادے کے ساتھ ادارک کا کیا تعلق ہے یہ بہت اہم سوال ہے“

اچانک میں نے دیکھا کہ مجھے ایک تیز روشنی نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ روشنی اتنی تیز ہے کہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہے رفتہ رفتہ روشنی کم ہونے لگتی ہے اور مجھے پتہ چلتا ہے کہ میں ایک حجرے میں بیٹھا ہوا ہوں وہی مولوی صاحب جنہوں نے مجھے مسلمان کیا تھا ۔وہ میرے سامنے بیٹھے ہیں اور کہہ رہے ہیں

اسرار صرف اسی وقت تک اسرار ہوتے ہیں جب تک ذہن انہیں کھول نہیں دیتا ۔۔ خودسے مت ڈرو ۔ ۔ وہ تمہارا ہی ایک رنگ ہے ۔ تمہاری روشنی ہے ۔۔وہ روشنی جوبندہ کو خدا سے ملاتی ہے مگر نماز کا دامن تمہارے ہاتھ نہیں چھوٹنا چاہئے کیونکہ نامعلوم کے اندھیروں میں نماز اس چراغ کی طرح ہے جو کبھی طور کے پہاڑ پر روشن ہوا تھا۔۔۔۔“

اور اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ مجھے سوئے ہوئے صرف دو گھنٹے ہی ہونگے۔ اب صبح کی نماز کا وقت ہے۔ میں بیڈپر پڑے پڑے سوچنے لگا کہ ایک طویل عرصہ کے بعد میرے مولوی صاحب نے میری خبر لی ہے یقینا اس وقت مجھے ان کی رہنمائی کی ضرورت تھی ، اٹھ کر نماز پڑھی اور پھر سو گیا۔دوپہر کو بارہ بجے آنکھ کھلی دروازے کی گھنٹی بج رہی تھی ۔اٹھا دروازہ کھولا تو ورما سامنے کھڑا تھا پریشان حال ۔۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا ۔”خیریت ہے ٹھیک ہونا؟“

میں نے کہا ۔”کیوں کیابات ہے “

تو بولا ۔”گھر کانمبر مسلسل انگیج ہے شاید تم نے ریسیور اتار رکھا ہے اور موبائل فون بند کیا ہوا ہے ۔پھریہ کہ پہلے اگرکسی دن تم نے دفتر نہیں آنا ہوتا تھا تو تم فون ضرور کرتے تھے ایسی صورت میں میرا پریشان ہونا بنتا تھا“

ہم دونوں لِونگ روم سے سیدھے کچن میں چلے گئے ۔میں نے چائے کےلئے کیٹل آن کی اور اسے کہا ۔ ”یار میں کسی وجہ سے بہت پریشان ہوں تم کوئی مشورہ دو“

ورما کے پوچھنے پر میں نے اسے آقاقافا کی تمام کہانی سنا دی ۔ ورما ہندو تھااس کے بارے میں ہمیشہ سے میرا یہی خیال تھا کہ جتنا میں مسلمان ہوں ورمااس سے کہیں کم ہندو ہے ۔وہ میری کہانی سن کر بولا ۔” تم جانتے ہو مذاہب پر میرا ایمان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہندو مت سے بھی اب صرف میرا اتنا تعلق رہ گیا ہے کہ ایک بزرگ ہیں میرے۔۔۔ بہت بڑے سادھو ہیں کبھی کبھار انہیں ملنے چلا جاتا ہوں لیکن ہیں وہ بہت ہی حیرت انگیز آدمی ۔۔ وہاں جا کر مجھے یہ بتانے کی ضرورت کبھی نہیں پیش آئی کہ میں کیوں آیا ہوں وہ سوال کرنے سے پہلے ہی جواب دے دیتے ہیں۔ اگر تمہیں برا نہ لگے تو میں تمہیں ان کے پاس لے جا سکتا ہوں ممکن ہے تمہیں آقا قافا کو سمجھنے میں کچھ مدد مل جائے “

میں نے ورما سے پوچھا ۔ ” کیا وہ اسی شہر میں رہتے ہیں؟ “

ورمانے ہاں میں سر ہلا تے ہوئے کہا ۔”یہیں لیڈز روڈ والے مندر میں رہتے ہیں “

اور میں نے کہا ۔” کیا اس وقت ان سے ملا جا سکتا ہے“

ورما بولا ”کسی بھی وقت ۔۔چاہے آدھی رات ہو یا دن انہوں نے مجھے ہر وقت ملنے کی اجازت دی ہوئی ہے “

میں نے کہا ۔” اچھا تو پھر میں تیار ہوتا ہوں۔ ان کے پاس چلتے ہیں “

ذہن میں آیا کہ میں ایک بت کدے میں جارہا ہوں ۔کیاباطن کے صحرا میں کئی فٹ برف جم گئی۔ہر قدم کوہ گراں لگ رہا تھا۔ جوتوں کے تلوں کی سلائی زمین کی آخری حدتک کردی گئی تھی میں نے دروازے پر صدیاں گزار دیں۔اور پھر شعور نے مجھے اندر کی بے کراں لامکانی میں پھینک دیا۔جہاں اپنے جذبوں کی عبادت کی جارہی تھی جہاں خواہشوں کی دیویاں تراشی جا رہی تھیں۔جہاں خواب تجسیم ہورہے تھے۔باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔میں ورما کے ساتھ جانے کےلئے کپڑے بدلنے لگا۔

دیوتا ہے کہ آدمی کیا ہے

(غیر مرئی طاقتوں کی پہلی جنگ)

اور تھوڑی د یر کے بعد ورما ایک مندر کے باہر کار روک رہا تھا ۔کار کے رکتے ہی ورما نے مجھ سے پوچھا۔’’کسی مندر میں پہلے بھی گئے ہو‘‘۔ میں اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بولا ۔’’مندرمیں جاتے ہوئے پریشان تو نہیں ہورہے نا۔‘‘میں نے ہنس کر کہا۔’’داتا کے بچاریوں کو کالی ماتا کے پجاریوں سے کیا پریشانی ہو سکتی ہے

لیڈر روڈ کی مصروف ترین سڑک پر یہ ایک چھوٹا سا مندر تھاباہر سے اس عمارت کی واحد شناخت اس کا پیلا رنگ تھا ہم جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو کچھ گھنٹیاں لگی ہوئی نظر آئیں جنہیں ورمانے ہلایااور اس شور میں ہم آگے بڑھ گئے۔ ورما پوجا پاٹ والے بڑے کمرے کی طرف جانے کی بجائے مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا۔کمرے میں کوئی چیز بھی نہیں تھی پتھریلے فرش پر ایک بہت بوڑھا سادھو آلتی پالتی مار کر بیٹھا ہوا تھا۔ ہم دونوں پورے احترام کے ساتھ ایک طرف کھڑے ہو گئے ۔سادھو ہماری طرف متوجہ نہیں ہوا ہمیں کھڑے کھڑے اتنی دیر ہو گئی کہ میں ورما سے کہنے ہی والا تھا کہ اب مجھ سے اور کھڑا نہیں رہا جا سکتا کہ سادھو کے لب کھلے اور اس نے مجھے مخاطب ہو کرکہا

اتنی بے صبری سائل کو زیب نہیں دیتی “

ورما بولا ۔” بابا یہ میرا پارنٹر آفاق ہے یہ آپ سے کچھ پوچھنے آئے ہیں“۔۔

سادھونے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ۔’’بولو‘‘

میں نے کہا ۔’’اس شہر میں آقا قافا نام کا ایک شخص ہے میں اُس سے بہت پریشان ہوں ‘‘

سادھو حیرت سے بولا ۔”آقا قافا “

اور پھر خاصی دیرخاموش رہ کرور ما سے کہنے لگا ۔”وہ شخص تمہارا پارنٹر تھا ،اب یہ وہ نہیں ہے۔ اسے یہاں سے لے جاﺅ اب بہت دیر ہو چکی ہے، اس کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا ۔شاید اب کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا “۔۔

ورمانے کہا ۔”رحم بابارحم میں تو تباہ ہوجاﺅں گا، میرا سارا کاروبار اسی کے دم سے ہے “

سادھو بولا ۔” میں نے تمہیں کہا ہے۔ اسے یہاں سے لے جاﺅ پہلے اس کی وجہ سے ایک بہت بڑے گیانی کی زندگی بھر کی تپسیاضائع ہو چکی ہے ۔ میں اس کے معاملے میں نہیں آسکتا“۔۔

ورما نے کہا ۔”بابا کچھ کیجئے جب میں نے اس کے ساتھ پارنٹر شپ کی تھی تو آپ سے پوچھا تھا “

بابا بولا ۔”اس وقت یہ آفاق تھااب قافاہے آقا قافا“

ورما نے کہا ۔”بابا یہ آقا قافا کون ہے؟ “

تو بابا غصہ سے بولا ۔” یہی تمہارا دوست تمہارا پارنٹر۔۔۔میں کہہ رہا ہوں لے جاﺅ اسے ےہاں سے۔۔“

میں نے ورما کو باہر کی طرف کھینچا اس کا چہرہ زرد تھا۔ میں نے اسے ہنس کر کہا ۔” دیکھنا کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوگامیرے سرپربھی کسی بہت ہی پہنچے ہوئے شخص کا ہاتھ ہے اور مجھے آقا قافا سے بھی کوئی خوف نہیں“

ورما نے مجھ سے پوچھا

کیا تمہارا پہلے بھی کسی سادھو سے واسطہ پڑا ہے؟“

میں نے کہا۔ ”نہیں “

وہ بولا ۔”پھربابا کیسے کہہ رہے تھے کہ تمہاری وجہ سے کسی بڑے سادھو کی تپسیا ضائع ہوئی ہے “

ورماکے چہرے پر اتنی گہری تشوےش دیکھ کر میں نے کہا ۔” مجھے وہ بھی کوئی آقا قافا کا چکر لگتا ہے تم نے دیکھا تھا نا سادھو جی مجھے آقا قافا کہہ رہے تھے“

ورما بولا ۔” میں تو بہت الجھ گیا ہوں بھگوان خیر کرے۔۔۔۔پتہ نہیں تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے“

میری الجھنیں بڑھتی جا رہی تھیں ۔سادھو بابا نے میری پریشانی بھی بڑھا دی تھی میں نے اپنے حالات پر غور کرتے ہوئے ورماسے کہا ۔” میرا دل کہتا ہے کہ آقا قافا کوئی براشخص نہیں ہے اس کے ساتھ میرا کوئی روحانی رشتہ ہے مجھے ایسا لگتا ہے کوئی اسرار کھلنے والا ہے“

موبائل فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف نور تھی ، کہہ رہی تھی کہ وہ آقاقافا کے گھر میں ہے ۔

کیا میرے لئے ممکن ہے کہ میں بھی وہاں پہنچ جاﺅں۔ میں نے اسے کہا کہ ٹھیک ہے میں ادھر ہی آرہاہوں۔ فون پر بات ختم کر کے میں نے ورما سے کہا ۔”مجھے آقا قافا کے گھر اتار دو “

ورما بولا ۔” کیا میں بھی تمہارے ساتھ آقا قافا کو مل سکتا ہوں “

میں نے کہا ۔” کیوں نہیں آﺅ دونوں ملتے ہیں تم بھی اندازہ کرنا کہ وہ کیا چیز ہیں “

اورہم دونوں آقا قافا کے گھر آگئے۔ لِونگ روم میں صرف نور اور آقاقافا موجود تھے ۔آقاقافا مجھے اور ورما کو بہت محبت کے ساتھ ملے ۔ ورما سے کہنے لگے ۔”ورما میرا تمہارے مشورہ ہے کہ تم نے آئندہ اپنے سادھوسے اجازت لئے بغیر میرے پاس نہیں آنا۔“

ورما نے آقا قافا کی طرف دیکھا پھر میری طرف اس طرح دیکھا جیسے یہ پوچھنا چاہ رہا ہو کہ کچھ بولوں یا نہیں۔ مجھے ورما کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہو گیا تھا اور سادھو کے ساتھ اس کی گفتگو سن کرمیں یہ بھی جان چکا تھا کہ ورما کے بارے میں میرا خیال غلط ہے، وہ مکمل طور پر اپنے مذہب کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ میں نے ورما سے کہا ۔” ورما اگر تم آقا قافا سے کچھ پوچھنا چاہتے ہو تو پوچھ لو یہاں ایک دنیا اسی مقصد کےلئے آتی ہے “۔

ورمانے آقا قافا کی طرف دیکھتے ہوئے احترام سے کہا ۔”میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکاآپ کچھ وضاحت کرنا پسند کریں گے“

آقا قافا نے کہا ۔”ہاںمیں یہ کہہ رہا تھا کہ تمہارے اندر تجسس کی جوشمع جل رہی ہے وہ تمہیں میرے پاس لے آئی ہے۔ یہی روشنی کا راستہ ہے میں جانتا ہوں کہ تم ہندو ماں باپ کے بیٹے ہواور ہندو مت سے بہت دور چلے گئے تھے مگر رام ورما یعنی تمہارے سادھوپھر تمہیں اپنے مذہب پر واپس لے آئے ہیں تمہیں یاد ہوگا جب تم پہلی بار رام ورما کے پاس گئے تھے“۔۔

ورما بولا ۔” جی یاد ہے “

آقا قافا بولے ۔” اس میں کوئی شک نہیں کہ رام ورما کے پاس جو طاقتیں ہیں وہ کم انسانوں کے پاس ہوتی ہیں مگران سے میرا اختلاف اُن طاقتوں کے سر چشمے کے حوالے سے ہے ۔تم جب پہلی بار وہاں گئے تھے تو تم نے دیکھا تھا کہ اس کمرے میں رکھے ہوئے تمام دیویوں اوردیوتاﺅں کے بت سرخ تھے اور سرخ رنگ کا سیال فرش تک پھیلا ہوا تھا۔ تم نے اس وقت سوچا تھا کہ شاید کسی جانور کی قربانی دی گئی ہے وہ کسی جانور کا خون نہیں انسانی خون تھا اور اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ جس شخص کا خون تھااس شخص کو کسی نے قربانی کےلئے مجبور نہیں کیا تھامگر خیر کے عمل میں کسی طرح کی خودکشی جائز نہیں ہو سکتی “

ورمانے بڑے احترام سے کہا ۔”کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ وہ شخص کون تھا اور اس کی لاش کا کیا کیا گیا تھا، وہ اس وقت کہاں تھی؟ “

آقا قافا بولے ۔”وہ بت اور وہ سادھو بابا جو تمہیں اس وقت نظر آرہے تھے وہ وہاں نہیں تھے وہ سب کچھ ہمالیہ کے ایک غار میں ہورہا تھا تم اس اصل کا ایک روپ دیکھ رہے تھے جو رام ورمانے پتہ نہیں کیوں اپنایا ہوا ہے “

ورما نے کہا ۔”یہ تو میں نے اور بھی کچھ لوگوں سے سنا ہے کہ اس مندر میں خود سادھو جی نہیں رہتے ےہاںان کا ایک روپ دکھائی دیتا ہے خود سادھو بابا ہمالیہ کے ایک غار میں پچھلے ستر برس سے بھگوان کی تپسیا کررہے ہیں مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ سادھو جی کا نام رام ورما ہے “

آقا قافا بولے ۔” وہ پہلی مرتبہ تمہاری طرف بھی اسی لئے متوجہ ہوئے تھے کہ تمہارا نام ورما ہے“

ورما نے کہا ۔” مگرمندر کے بڑے پنڈت بھی سادھو بابا کے خلاف ہیں ان کے خیال کے مطابق ان کی ذہنی حالت درست نہیں رہی۔ پنڈت بتا رہے تھے کہ وہ کہتے ہیں کہ انہیں زندگی کے کسی دوسرے جنم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ ہی انہیں کسی شے کی ضرورت ہے اور نہ اُن کی کوئی خواہش ہے حتیٰ کہ کبھی کبھی وہ پوچا پاٹ کو بھی لالچ اور خوف کا روپ کہہ کررد کر دیتے ہیں ۔وہ مندر کے ایک کمرے میں رہتے ہیں مگر اس حصے میں کبھی نہیں گئے جہاں پوجا ہوتی ہے ۔اس دن تو میں خود وہاں موجود تھا جب انہوں نے اپنے کمرے سے تمام دیویوں اوردیوتاﺅں کے بت اٹھوادئیے تھے “

آقا قافا نے کہا ۔” ہاں رام ورما جس منزل پر ہیں وہاں دیوتاﺅں کی پتھر اور مٹی کی شبہیں پیچھے رہ جاتی ہیں مگر رام ورما کی اپنی کہانی بھی بڑی حیرت انگیز ہے “

ورما نے پوچھا ۔”سادھو جی کی کوئی کہانی بھی ہے “

آقا قافا نے کہا ۔”ہر شخص کی ایک کہانی ہوتی ہے ، کچھ کہانیاں سیدھی سادی ہوتی ہیں اور کچھ پیچ دار ۔ہر لمحہ کوئی نیا موڑ کسی کی زندگی کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے“

لِونگ روم میں لوگ داخل ہونے لگے آقا قافا کی مجلس کا وقت ہوگیا تھا ۔چند لمحوں میں بیس پچیس لوگ جمع ہو گئے اورنماز کی تیاری ہونے لگی۔ آقا قافا اٹھ کر اندر چلے گئے ۔میں نے ورما سے کہا ”ورما تم اگر جانا چاہتے ہو تو چلے جاﺅ میں نور کے ساتھ آجاﺅ ںگا

ورما کا چہرہ بتا رہا تھا کہ آقا قافا نے اسے بہت زیادہ پریشان کردیا ہے ۔اس نے کہا ۔ ” نہیں آپ لوگ نماز پڑھ لیں میں انتظار کرتا ہوں ۔ میں نے آقا قافا کی مجلس میں شریک ہونا ہے“

زندگی ! ہم پہ سایہ فگن زندگی

(تُو ہی ذوالجلال اور بقاساز ہے)

نماز کے بعد آقا قافا نےاپنی گفتگو کا آغاز کیا

تم سب میرے بھائی ہومیرے جیسے ہو۔ میرے لئے اس کائنات میں کوئی بھی اجنبی نہیں ،میں نے کبھی زبانوں کے لفظی و معنوی اختلافات ،رنگ ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر خود سے اپنا کوئی بھائی جدا نہیں کیا،کائنات میرا وطن ہے، آدمیت میری قومیت ہے ،محبت میری زبان ہے اور انسانیت میرامذہب ہے اور حواس خمسہ یعنی علم کے پانچ دروازے میرے لئے سچائی کے پانچ راستے ہیں مگر میں چھٹے دروازے کی بھی بات کرتا ہوں۔۔ علم کا چھٹا دروازہ ہزاروں راتوں کی ریاضت کھولتا ہے ۔ایسی ہزاروں راتیں کہ جن کی ہر رات ہزار مہینوں پر بھاری ہوتی ہے ان راتوں کا قصہ میری سرگزشت ہے ۔تم مجھ سے میرے بارے میں پو چھتے تھے نا اور میں کہا کرتا تھا کہ مجھے کسی کا انتظار ہے ۔میرا انتظار مکمل ہو گیا ہے۔ جس نے آنا تھا وہ آچکا ہے ۔میں اب تمہیں اپنی کہانی ضرور سناﺅں گا مگر اسے جتنا آہستگی سے سنو گے اتنی دیر تمہارا اور میرا رابطہ بر قرار رہے گا کیونکہ اس کے بعد مجھے جانا ہو گا۔ وہیں جہاں سے میں آیا ہو ں“ ۔

ایک نوجوان نے اٹھ کر کہا

ہم ایسی کوئی کہانی نہیں سننا چاہتے جو ہمیں آپ سے جدا کردے “

آقا قافا بولے

تقدیر اٹل ہے اس میں کوئی ترمیم میرے جیسا ناموجود شخص نہیں کر سکتا “۔

میں نے اٹھ کر کہا

مجھے یقین ہے کہ آپ کو جس کا انتظار تھا وہ میں ہی ہوں مجھے آپ سے آپ کی کہانی نہیں پوچھنی صرف اتنی استدعا ہے کہ یہ بتا دیجئے کہ آپ کا مجھ سے کیا رشتہ ہے “

آقا قافا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی اور بولے

میں بائیں طرف سے آفاق ہوں تم دائیں طرف سے قافا ہو ۔تمہارے اور میرے درمیان صرف دائیں اور بائیں کا فرق ہے ۔لیکن مجھے اپنی کہانی سنانی ہے وگرنہ میری زندگی کا مقصد ادھورا رہ جائے گا ۔میں مکمل نہیں ہو سکوں گا۔چلو آج کا دن اور اسے سنائے بغیر گزار دیتے ہیں۔۔جدائی کا ایک دن اور سہی ۔۔۔آج کی مجلس ختم اب کل ملیں گے “

اسی لمحے ایک شخص اندر آیا اور کہا

حضور آپ کے شاعر دوست نومان قاصر اچانک انتقال کر گئے ہیں ۔“

آقا قافا اناللہ واناراجعون کہہ کر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بے خود ہو کرکہنے لگے

بریڈفورڈ کاایک شاعر مر گیا ہے ۔ ایک رات گئے تک جاگنے والے نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ہیں۔ اب کبھی بے وقت میرے گھر کی بیل نہیں بجے گی۔ اب مجھے کون دریا کی طرح بہتے ہوئے نغمے سنائے گا۔اب میں کس کی گفتگو سے دانش کے موتی چُنا کروں گا۔وہ رات کے دکھ بانٹنے والا ۔وہ صبح کا پر نورنواﺅں سے بھرا ہوا مسافر ۔وہ میرا شاعروہ میرا قاصر نجانے کس خوبصورت نظم کا تعاقب کرتے ہوئے کہیں بہت دور چلا گیا ہے وہاں چلا گیا ہے جہاں سے کوئی صدا پلٹ کر نہیں آتی ۔۔۔مجھے شاعری کا بدن تابوت میں لیٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

ہاں ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔موت بولائی ہوئی اونٹنی کی طرح زندگی کے تعاقب میں ہے۔ کوئی ہے جو اسے روک سکے۔ کوئی ہے جو اسے ٹوک سکے ۔مجھے کبھی کبھی کتابوں سے یہ آواز سنائی دیتی ہے۔۔ ۔ ہاں ! ہمارے اندر موتیوں کی طرح چنے ہوئے لفظ۔موت کے مد مقابل کھڑے ہیں۔ ان سے موت ٹکرا ٹکرا کر شرمندہ ہوتی رہتی ہے فنا ایک عریاں حقیقت سہی مگر یہ علم و قلم کی روشنی ۔ یہ زندگی پہ سایہ فگن روشنی ۔اس کی قسمت میں فتح و نصرت کا لمحہ ہی تحریر ہے کیونکہ آسمانوں سے آتی ہوئی یہی روشنی ذوالجلال اور بقا ساز ہے۔مگر موت موت ہے ہمیشہ کےلئے کسی کے بچھڑ جانے کا دکھ بہت سفاک ہے۔ کلیجہ چیر دیتا ہے وہ کل تک جس کی آواز۔۔جس کے انداز۔۔رنگ اور خوشبو کا جادو لئے ہوئے تھے آج صرف اس کی یاد کی کپکپاتی ہوئی لوکھڑکی سے اندر آر ہی ہے ۔اورمیں یہ بھی جانتا ہوں کہ وقت کی بے رحم ہواکا چلن بہت تیز ہے۔ محو ہوتی ہوئی انسانی یاداشت سے کوئی نہیں ٹکرا سکتا۔

اب پورے بریڈفورڈ میں کون رہ گیا ہے جس کے نواح میں اس خوشبوکی فراوانی ہے۔ اللہ مجھے ہمیشہ اس خوشبو سے سرشار رکھے۔۔۔ یہی خوشبو مجھے زندگی کا مرثیہ نہیں لکھنے دیتی میں جب بھی اس خوشبوسے کہتا ہوں کہ موت ایک آفاقی حقیقت ہے تو ادھرسے جواب آتا ہے ہمارا تو زندگی پر ایمان ہے۔ نیکیوں کے موسم میں گلابوں کی طرح مہکتی ہوئی زندگی پر۔۔۔

یہ الگ بات کہ مجھے توہمیشہ اس پار سے آتی ہوئی کشتیوں سے آنسوﺅں بھرے گیت سنائی دیتے ہیں ۔سنا ہے ان آنسوﺅں کے موتیوں میں کوئی جنت چھپی ہوئی ہے مگر اس جنت تک پہنچنے کے لئے آنکھ کے نمکین پانیوں کا سمندر عبور کرنا ضروری ہے (نومان قاصرزیادہ دیرتم جنت میں تنہائی نہیں محسوس کرو گے کیونکہ ہر شخص نے اپنی باری پر اس سمندر کو عبور کرنا ہے “

افسردہ و غمگین آقاقافا یہ گفتگوکر اندر چلے گئے ۔ ایسا لگتا تھا کہ انہیں اس شاعر دوست کی موت کا بہت دکھ ہوا ہے۔ نور،ورما اور میں بھی باہر آگئے ۔ہمارے درمیان کچھ زیادہ گفتگو نہیں ہوئی ۔نور کے پاس اسوقت اپنی کار نہیں تھی اس نے معمول کے مطابق ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ سنبھال لی ورما پیچھے بیٹھ گیا۔میں نے کار میں بیٹھتے ہی کہا

آج کے سائنسی دور میں یہ قصوں کہانیوں والی باتوں کو حقیقت تسلیم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اگرچہ ہم یہ آقا قافا کی کرشمہ سازی نہیں سمجھ پا رہے مگرمیں یہ ماننے کےلئے تیار نہیں ہوں کہ سادھو جی ہمالیہ کی غاروں میں بھی موجود ہوتا ہے اور ہزاروں میل دور یہاں برطانیہ میں ۔۔نہیں یہ ممکن نہیں ہو سکتا “

نور کہنے لگی ۔

کیوں نہیں ممکن ہو سکتا ۔ٹیلی ویژن کی نشریات دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھیجی جا سکتی ہیں۔پروجیکٹر سے ہم فضا میں چلتے پھرتے لوگ بنا سکتے ہیں ۔ دکھا سکتے ہیں تو یہ کیوں ممکن نہیں “

میں نے کہا ”

یہ سائنس ہے ۔اورہمیں معلوم ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے ۔مگر ایک سادھو اس طرح کے شعبدے کابغیر کسی سائنسی قوت سے اس سے کہیں زیادہ مکمل اور بھرپور اظہار کر سکتا ہے۔“

نور نے کہیں جانا تھاوہ ریستوران سے ٹیکسی لے کر چلی گئی ورماکومیں نے گھر چھوڑ دیا اور یونہی کار چلانی شروع کردی ۔مجھے کچھ خبر نہیں تھی کہاں جا رہا ہوں ۔میں مسلسل آقا قافا کے بارے میں سوچے جا رہا تھااچانک مجھے احساس ہوا کہ میری کار ایم سکس او سکس پر مڑ گئی ہے ۔اب مجھے ایم ون سے مڑ کر واپس آنا تھاایم سکس او سکس چار میل لمبا ایک موٹر وے ہے جسے بریڈ فورڈ کو ایم ون سے ملانے کےلئے بنایا گیا ہے ۔میں نے کار کی سپیڈ بڑھا دی۔مجھے کچھ یاد آگیا تھا

میں جلدی سے اپنے فلیٹ پر پہنچ گیا۔

نور نے جاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہاں سے جلد فارغ ہو گئی توتمہارے فلیٹ پرآجاﺅں گی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ نور ایک دو گھنٹوں کے اندراندر واپس آئے گی اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہاتھا کہ اسے مجھ سے جدا ہونااچھا نہیں لگ رہا مگر دنیا کے کام بھی ہوتے ہیں۔میں نے اپنے معمول کے مطابق نروان کی ذات میں پناہ لینا ہی مناسب سمجھا۔ میں جتنا زیادہ پریشان ہو رہا تھا اتنی دلچسپی کے ساتھ نروان کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ شاید وہ میرے لیے افیون بن گیا تھا ۔ ایک ایسا نشہ جس کے ملتے ہی میری روح کو فرحت کا احساس ہوتا تھا اور میں ایک اور ہی دنیا میں پہنچ جاتا تھا۔ میں نے کھانا فرج سے کل کا لایا ہوا چکن ڈونر نکال کرمائیکرووے میں گرم کیا اور کھالیا۔ ٹیلی ویژن آن کیا اس پر کوئی فلم چل رہی تھی مگر میں تو نروان کے پاس پہنچ چکا تھا۔

ایک خوشبو تھی اور بدن دو تھے

(حیرتیں ،حیرتوں سے ملتی تھیں )

قافلہ درختوں کے جھنڈ بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا اور اب اس کی رفتار بھی بہت تیز تھی میں نے نروان سے کہا ۔” مجھ سے اتنا تیز نہیں چلا جاتا “

وہ کہنے لگا ۔”صحرائی قزاقوں سے واسطہ پڑ گیا تو چلو گے نہیں دوڑو گے “

میں نے پوچھا۔”کیا ضروری ہے کہ اسی علاقے میں صحرائی قزاق ہوں وہ تو کہیں بھی ہمیں لوٹ سکتے ہیں “

نروان نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ یہاں قریب ان کی کچھ بستیاں ہیں۔ وہ صرف یہاں سے گزرنے والے قافلے ہی لوٹتے ہیں اور اسی لوٹ کے مال پر بسر اوقات کرتے ہیں۔میں نے کہا

قافلے والے لوگوں کے پاس بھی تو تلواریں موجود ہیں “

نروان بولا

دفاعی تلواریں جتنی بھی مضبوط ہوں۔ حملہ آوروں کی جارحیت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں کیونکہ ان میں جوش ، ولولہ اورکچھ حاصل کرنے کی لگن بھری ہوئی ہوتی ہے “۔

قافلہ اس غیر محفوط علاقے سے باہر نکل آیا اورسب کے چہروں پر اطمینان جھلکنے لگا ، قافلے کی رفتار بھی معمول پرآ گئی۔ اچانک میری نظر پڑی تو دور دوتین غزال کھڑے قافلے کی طرف دیکھ رہے تھے ۔میں نے نروان کو ان کی طرف متوجہ کیا ، نروان نے انہیں دیکھ کر کہا

یہ بارہ سنگھے ہیں ان کی کھال سے بنے ہوئے جوتے بہت نرم اور مضبوط ہوتے ہیں ان کے سینگھ جہاں ہوںوہاں صحرائی چڑیلیں نہیں آتیں “

میں نے نروان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا

اتنی عقل رکھنے کے باوجود بھی تم صحرائی چڑیلوں کے وجود پر یقین رکھتے ہو“

نروان بولا

ہاں اس لئے کہ صحرائی چڑیلوں کا وجود ہے۔ ان کے بارے میں میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے زندگی بھربدی کی طاقتیں حاصل کرنے کی تگ ودو کی ہے اورچڑیلوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی اس چشمہ حیات تک رسائی ہو گئی ہو جس کا پانی پی لینے کے بعد موت نہیں آتی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان پر بھی موت آتی ہواور یہ اپنی نسلیں آگے بڑھاتی ہوں۔ میں یقین سے کوئی بات نہیں کہہ سکتا مگر ان کے وجود سے اس لئے انکار نہیں کرتا کہ بچپن میں مجھے ایک صحرائی چڑیل اٹھا کر لے گئی تھی ۔میں اس وقت آٹھ سال کا تھا مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ ایک غار میں میری آنکھ کھلی تھی وہاں بہت ہی بدشکل عورت بالکل برہنہ حالت میں موجود تھی۔ اس کے لمبے لمبے دانت تھے اس نے بے ہوشی کی حالت میں میرے تمام کپڑے اتار دئیے تھے پتہ نہیں وہ میرے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتی تھی کہ بڑے مندرکا بڑا پنڈٹ میرے بابا کے ساتھ غار میں داخل ہوااور وہ چڑیل فوراً غائب ہو گئی۔ اس کے بعدبڑے پنڈٹ نے مجھ پر کچھ منتر پڑھے اور کہاکہ اس بچے کو وہ کچھ حاصل ہو گا جو مجھے اور اس صحرائی چڑیل کو نہیں مل سکاشاید میں اسی حاصل کی تلاش میں بھٹک رہا ہوں،شایدوہی کائنات کا سب سے عظیم دیوتا ہے باقی تمام دیوتا جس کی کسی نہ کسی صفت کا پرتو ہیں، شاید اسی کا نام روح ِ کل ہے“ ۔

اور میری روح اپنے کمرے میں واپس لوٹ آئی ۔ دروازے پر بِیل ہوئی کھولا تو نور کی بجائے ورما اپنی پریشان کن مسکراہٹ کے ساتھ کھڑاتھااس نے بیٹھتے ہی مجھے کہا

میں پھر سادھو جی کے پاس گیا تھا انہیں میرا آقا قافا کے پاس جانا بالکل اچھا نہیں لگا ۔انہوں نے اس کےلئے ایک پیغام دیا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو تمہیں مسلمان بنانے کی بجائے بتوں کو پوجنے والا بھی بنا سکتے تھے“

میں نے یہ جملہ سن کر کہا

یہ توخدائی کادعویٰ ہے “

ورما بولا

پریشانی کی بات یہ کہ بابا نے کہا ہے کہ میں فوری طور پر جاﺅں اور اسے یہ پیغام دے آﺅں “ ۔میں نے کہا

پتہ نہیں اس وقت ہمارا وہاں جانا مناسب ہے یا نہیں ویسے بھی آقا قافا آج بہت افسردہ تھے۔ ان کا شاعر دوست فوت ہو گیا ہے “

ورما بولا ۔ ” ہاں نومان قاصرفوت ہو گیا ہے وہ تو تمہارا بھی دوست تھا “

میں نے کہا

ہاں مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ نومان قاصرنے مجھ سے دنیا بھر کی باتیں کی مگر کبھی آقا قافا کا ذکر نہیں کیا۔افسوس جب میری آقا قافا کے ساتھ صنم ریستوران میں نومان قاصر سے ملاقات ہوئی تھی اس کے بعد میں ان سے مل ہی نہیں سکا کہ کچھ آقا قافاکے بارے میں معلوم کر سکوں

ورما بولا

یہ سوچو کہ مجھے ابھی پیغام پہنچانے کےلئے کہا ہے اورمیں حکم عدولی نہیں کر سکتا“ ۔

میں اٹھ کھڑا ہوا ہم دونوں گاڑی میں بیٹھے تو ادھر سے نور بھی آگئی ہمیں جاتے ہوئے دیکھ کر اس کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں جن کا مفہوم میں سمجھ رہا تھا۔ میں نے اسے کہا

اپنی کار یہیں پارک کردو اور اسی گاڑی میں آجاﺅ ہم دونوں آقا قافا کے پاس جارہے ہیں “

نور نے ورماکی کار میں بیٹھتے ہوئے پوچھا

کیوں کیا ہوا ہے؟“

میں نے اسے سادھو جی کے پیغام اور فوری طور پرپہنچانے کے بارے میں بتایا تو بولی

معاملات روز بروز الجھتے جارہے ہیں مگر ہندو مت کے ساتھ آقا قافا کا کوئی تعلق ضرور ہے۔ انہوں نے اپنے کتے کا نام بھی ”راون“ رکھا ہوا ہے ۔ یہ کتا وہ پچھلے دنوں نیپال سے لے کر آئے ہیں۔ آقا قافا کے پاس رات کے وقت کوئی نہیں جاتا ۔اسی خوفناک راون کے خوف سے۔ رات کو اس پیلس پر اسی کی حکمرانی ہوتی ہے ۔ وہ آقا قافاکے سوا کسی کو بھی اپنے قریب نہیں آنے دیتا“

میں نے حیرت اور تجسس سے کہا ۔” انہوں نے کتا بھی رکھا ہوا ہے۔ “

ورما نے پوچھا ۔” کونسی نسل کا ہے “

نور بولی ۔”ہے تو راٹ وائلر مگر عام راٹ وائلرز سے خاصا بڑا ہے ۔میں نے اتنا بڑااور خوفناک راٹ وائلر کہیں نہیں دیکھا۔ آقا قافا تمام دن اسے باندھ کر رکھتے ہیں ۔صرف رات کو کھولتے ہیں “

میں نے نورسے پوچھا ۔”آقا قافا کے گھر میں اور کون ہوتا ہے کوئی ملازم بھی ہے؟ “

نور بولی ۔’’نہیں اور توکوئی بھی نہیں وہاں ۔ وہ اتنے بڑے گھر میں بالکل اکیلے رہتے ہیں اپنے زیادہ تر کام خود ہی کرتے ہیں “۔

میں نے کہا

یہ ناممکن ہے اتنے بڑے محل میں آقا قافا اکیلے نہیں رہ سکتے۔اس کی تو صفائی کم از کم پانچ چھ ملازموں کی ضرورت پڑتی ہوگی“

نور بولی

ملازم دن کے وقت آتے ہیں ۔ رات کو راون کے سوا آقا قافا کے سوا کوئی نہیں ہوتا“

ہماری کارجیسے ہی آقا قافا کی ڈرائیو میں داخل ہوئی ایک کتا چیتے کی طرح بہت خوفناک آواز میں بھونکتا ہوا ہماری طرف لپکا۔بڑا قد آور کتا تھا۔بجری بھری راہداری سے چھلانگ لگا کر اس نے باڑ عبور کی اور ہمارے سامنے آگیااس کا بدن بڑا توانا اور مضبوط تھاسانولے رنگ کا چمکتا ہوامجسمہ دکھائی دے رہا تھا۔دم کٹی ہوئی تھی۔اس کے جسم کے ایک ایک حصے میں قوت بھری حرکت کا احساس موجود تھا۔وہ واقعی خوفناک کتا تھا۔ اسے دیکھ کرنور اور ورما نے تو کار سے نیچے اترنے سے بھی انکار کردیا۔مجبوراً مجھے ہی اترنا پڑا میں نے جیسے کار کا دروازہ کھول کر پہلا پاﺅں زمین پر رکھا اس کی غراہٹ کم ہو گئی ۔میں نے اس کی خوبصورت بھور ی آنکھوں میں غور سے دیکھاتو مجھے یوں احساس ہوا جیسے اس نے مجھے پہچان لیا ہو اور وہ بڑے پیار سے میری طرف منہ کر کے اپنی دُم ہلانے لگا۔میں نے دوسرا پاﺅں باہر رکھنے کےلئے آگے بڑھا ےا ہی تھا کہ پیچھے سے نورنے مجھے کھینچ لیااور کہا

یہ راٹ وائلر ہے انتہائی وفادار ڈاگ ہے یہ ۔کسی کو نہیں چھوڑتا ۔بہت بری طرح کاٹتا ہے“

مگر کتوں کا کچھ تجربہ مجھے بھی تھا۔ میں نے نورسے کہا

یہ مجھے نہیں کاٹے گا“

اور میں کار سے باہر نکل کر اس کی سمت بڑھنے لگا وہ بڑے پیار سے میرے قریب آگیا اور میرے پاﺅں چاٹنے لگا ۔میں نے اس کی ذرا سی کمر سہلائی اور نور اور ورما سے کہا

کار سے باہر آجاﺅ اب یہ تمہیں بھی کچھ نہیں کہے گا“

وہ دونوں بھی اتر آئے اور سہمی سہمی نظروں سے کتے کی طرف دیکھنے لگے مگر کتاان کی طرف متوجہ ہی نہیں ہواہم تینوں دروازے کی طرف چل پڑے کتا میرے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ ہم جیسے ہی دروازے پر پہنچے تو دوسری طرف سے آقا قافا نے دروازہ کھولا اور کہا

آئیے آئیے ۔سادھوجی بھی بادشاہ ہیں ۔بے وقت تم لوگوں کو تکلیف دی ہے۔ انہوں نے“

ہم جب لِونگ روم میں جا کر بیٹھ گئے توورما نے پوچھا

کیاآپ جانتے ہیں کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ “

آقا قافا بولے

ہاں یہی کہنے آئے ہو نا کہ ہم چاہتے تو تمہیں مسلمان بنانے کی بجائے بتوں کو پوجنے والا بھی بنا سکتے تھے “

ورما گھبرا کربولا

جی جی اور وہ۔۔۔“

آقا قافا

وہ بھی میں جانتا ہوں“ ۔

آقا قافا یہ کہہ کر اچانک اٹھے کہ راون دروازے پر کچھ دےنے آیا ہے اور دروازہ کھول دیا۔ باہر کتاکھڑا تھا جس کے منہ میں کوئی کپڑا تھاآقا قافا نے اس کے منہ سے وہ چھوٹا سا کپڑے کا ٹکرا لے لیا۔ کتا پلٹ گیا اور آقا قافا نے واپس آکر بیٹھتے ہوئے کہا

یہی نقش یہاں چھوڑنے آئے تھے نا “

ورمانے سہمی ہوئی نظر سے اس کپڑے کودیکھا جس پر کوئی الٹا سیدھا نقش بنا ہوا تھااور ہاں میں گردن ہلا دی آقا قافا نے کچھ دیر خاموشی سے ورما کی طرف دیکھا اورکہا

تم جاﺅ سادھو بابا سے میں خود بات کرلوں گا“۔

نور بولی

میں بھی ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں کہ آج آپ کے کتے کارویہ کیوں بدلا ہوا تھا ؟میرا پہلے بھی کئی بار اس سے واسطہ پڑ چکا ہے“

آقاقافا ہنس دئیے اورمیری طرف اشارہ کرکے بولے

ان کی وجہ سے “

نور نے حیرت سے پوچھا

اس کا ان سے کیا تعلق ہے“

آقا قافا بولے

وہی جو میرے ساتھ ہے ۔وقت آنے پر تمہیں سب معلوم ہو جائے گا اب جاﺅ “

اور ہم تینوں باہر آگئے ۔آقا قافا ہمیں کار تک چھوڑنے آئے۔ کار چلی تو نور بولی

میں مان ہی نہیں سکتی کہ اس کتے کے ساتھ آج تم پہلی بار مل رہے تھے۔ مجھے کتوں کا تم سے کہیں زیادہ تجربہ ہے ۔وہ اتنی محبت سے کبھی آقاقافا سے پیش نہیں آتا جتنی محبت سے تمہارے پاﺅں چاٹ رہا تھا۔یہ کتا یقیناً بہت عرصہ تمہارے ساتھ رہا ہے ۔۔“

میں نے کہا ۔”نہیں نور تمہاری قسم میں نے آج زندگی میں پہلی بار اسے دیکھا ہے“

نور بولی ۔”میں سوچ رہی ہوں کہ کہیں تمہارے اور آقا قافا کے جسم کی خوشبو بھی ایک جیسی تو نہیں“

میں نے کہا ۔” یہ بھی ممکن ہے۔مجھے تو ایسا لگا ہے جیسے راون میرا نفس ہو“

ہم نے اُس نقش کے سلسلے میں ورماسے کوئی بات نہیں کی ۔ ورماکار چلاتے ہوئے تھوڑی دیر کے بعد بولا ۔ ”میں شرمندہ ہوں میں نے تم کو اس نقش کے بارے میں نہیں بتایا تھا “

میں نے ہنس کرکہا ۔” چھوڑو ۔۔ٹھیک کیا ہے تم نے۔ آقاقافا اور سادھو جی دونوں مقابلے کی چیزیں ہیں۔ ہم عام سے لوگ ہیں سب کی مانتے رہو پرواہ مت کرو“

نور بولی ۔ ”مگر یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ سچ کیا ہے“۔

ورما نے ہمیں میرے فلیٹ کے باہر اتاردیااور خود یہ کہہ کر چلا گیا کہ میں نے سادھوجی کے پاس جانا ہے ۔ ورما کے جاتے ہی نور بولی ۔”میں بھی جارہی ہوں تم جانتے ہو میں کل رات بالکل نہیں سو سکی تھی اور صبح صبح اٹھ گئی تھی۔ مجھے بہت زیادہ نیند آئی ہوئی ہے “

آدمی کا ارتقاء پانی سے ہے

(آدم و حوا کےقصےکی نئی معنویت)

دونوں کے چلے جانے کے بعدروزمرہ کے کچھ کام جلدی میں نپٹا کر میں بھی بستر پر لیٹ گیا۔خواب گاہِ دماغ کی کھلی کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے باریک پردے ہوا کے زیر و بم کے ساتھ لہرا رہے تھے۔ کمرے میں اونگتی ہوئی ہلکی نیلی روشنی بکھر تی جارہی تھی۔صبحِ وصال کی شعاعیں پچھلی گلی سے نکل نکل دیواروں کے کینوس پرالٹی ترچھی لکیریں کھینچ رہی تھیں ۔ روح کی تقسیم کا عمل جاری تھا۔عدم سے کچھ وجود میں آرہا تھا۔خواب کی کار چل رہی تھی۔ خیال کے پائوں اٹھ رہے تھے۔آسمان پر کچھ لکھا جا رہا تھا۔میرے ارد گرد کوئی خوشنما کہانی بُنی جا رہی تھی۔کسی قبر سے زندگی کی کوپنل ابھر رہی تھی۔میں کچھ دیر اپنے اندر ہوتی ہوئی تبدیلیوں پر غور کرتا رہااور پھر نروان اور میں محوِگفتگو تھے ۔´ میں نے پوچھا

کیا تم ایک آدم کی آسمانوں سے آمد کو نہیں مانتے “

کہنے لگا۔

میں مانتا ہوں ۔ بڑے پنڈٹ کہا کرتے ہیں کہ دنیا کے پہلے شاعربابا آدم تھے۔کہیں کچھ چٹانوں پر آدم کاایک مرثیہ بھی درج ہے جو انہوں ہابیل کی موت پر کہا تھا کہ ”زمین نے گرد پہن لی ہے اور بدنمائی کو اپنے ماتھے پر سجالیا ہے۔ ہر رنگوں بھری ہوئی اور لطف و اکرام سے وابستہ شے نے اپنی آنکھیں بدل لی ہے چہروں کی بشاشت مٹی ہو گئی ہے۔قابیل نے کسی سفاک درندے کی طرح ہابیل کوموت کی وسعتوں میں اتار دیا ہے۔ اس کی اٹھتی ہوئی پُرثواب جوانی پر افسوس کا ایک دریائے بے کنارمگر میری آنکھوں کوکیا ہوا ہے ان سے آنسووں کی ندیاں کیوں رواں نہیں ہوئیں۔اس سے بڑا سانحہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ میرے خوش مزاج ہابیل کو مٹی نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے ۔“

میں نے پوچھا

کیا واقعی ایک عورت کےلئے قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا تھا“

نروان کہنے لگا

میرے نزدیک تو مرد کی عورت کے ساتھ ملاپ کی خواہش ہی زندگی کا سبب ہے“

میں نے کہا

میں نہیں سمجھا تمہاری بات “

کہنے لگا

جب سراندیپ کے جزیرے پر ۔جسمِ آدم میں لمسِ حواکے ۔۔خواب ہیجان بن کے لہرائے تھے، اسی وقت کوہ جودی پہ حوا کے بدن میں کسی پر جمال جذبے نے ایک مثبت سی آنچ سلگائی تھی ۔وصل کی بے پنہ کشش جاگی تھی اورزمین میں جسم کی خوشبوبے کراں تیزیوں سے ہم آغوش ہوکرایسے پھیلی کہ پھیلتی ہی چلی گئی تھی اسی خوشبو کے تعاقب میں دونوںایک دوجے کی سمت بڑھتے چلے گئے تھے ۔تقریباً چودہ ہزار میل کی وہ طویل ترین مسافت طے ہو ئی تھی یعنی اعجازِ جنس کے صدقے زندگانی وجود میں آئی ہے“

میں چائے کا ایک کپ بنانے کےلئے کچن میں گیا تو نروان نے میرے کان میں سرگوشی کی

تم جانتے ہو قافلے میں ایک لڑکی بھی شامل ہے اور اس نے مردوں والا بھیس بدل رکھا ہے“

میں نے حیرت سے پوچھا ۔”کون“

کہنے لگا ۔”وہ خوبصورت لڑکا ،لڑکا نہیں لڑکی ہے ۔“

میں نے تجسس سے پوچھا ۔”وہی لڑکا جس کے بارے میں میں نے تمہیں کہا تھا کہ یہ مجھے پہچانا پہچانا لگتا ہے مگرتمیں کیسے معلوم ہوا“

نروان بولا ۔”ہم جب سندھ کے پانی سے گزررہے تھے تودریا نے میرے ساتھ یہی سرگوشی کی تھی مگر میں نے اس وقت غور نہیں کیا تھا“

میں نے کہا ۔”میں سمجھا نہیں “

تو بولا ۔”تمہیں یاد ایک جگہ دریا کا پانی بہت گہرا ہوگیاتھاوہاں اس کے کپڑے پانی میں بہت زیادہ بھیگ گئے اور میرا ذہن میں لہرا یا تھا کہ یہ تو کوئی لڑکی ہے۔اور آج تو اس نے خود مجھے بتایا ہے ۔ وہ میری پاس آئی تھی ۔ کہ اسے کس مجبوری کی وجہ سے لہوارجانا تھا مگر لڑکی ہونے کی وجہ سے کوئی قافلہ اسے ساتھ لے جانے پر تیار نہیں تھا اس لئے اس نے لڑکے کا بھیس بدل لیا مگراب اس لئے مسئلہ ہو گیا ہے کہ وہ لڑکا اس قافلے کے سب سے بڑے تاجر کو پسند آگیا ہے وہ اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ رات اس کے ساتھ گزارے۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ وہ اپنی عزت کیسے بچائے۔ میرے پاس مدد کےلئے آئی تھی اور میں نے مدد کا وعدہ بھی کیا ہے ۔ اب بتاﺅ کیا کریںبڑے تاجر نے اسے آج رات کا وقت دیا کہ اگراس نے کہنا نہ مانا تو وہ زبردستی کرے گا۔ کیا کیا جائے ۔“

نروان کو اس پریشانی نے روحِ کل سے علیحد ہ کر رکھا تھا ۔اسے اس وقت کوئی فلسفہ کوئی حکمت کی بات یاد نہیں تھی وہ صرف ایک ہی بات سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی کی عزت کیسے بچائی جائے جس نے اتنے بڑے قافلے میں صرف اس پر اعتبار کیا ہے۔میں نے نروان سے پوچھا

اگر وہ اپنے آپ کولڑکی کی حیثیت سے ظاہر کردے تو کیا ہو گا“

نروان بولا ۔ ”وہی بڑا تاجر اسے ہمیشہ کےلئے اپنی لونڈی بنا کر رکھ لے گاکیونکہ وہ بہت خوبصورت ہے‘‘۔

میں نے کہا

اپنی روح کے بالائی حصے کو آواز دو ۔کوئی ماروائی طاقت ہی اس کی عزت بچاسکتی ہے“

اور نروان نے کہا

جب تک آدمی اپنے اندر ماروائی طاقتیں جمع نہیں کر لیتا اس وقت تک کوئی ماورائی طاقت مدد کےلئے نہیں آئی ۔۔۔(کچھ خاموش رہنے کے بعد )آﺅ میرے ساتھ“

اور خود دوڑ پڑامیں بھی اس کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا جب ہم قافلے سے آگے نکل گئے تو نروان نے ایک چھوٹے سے ٹیلے پر کھڑے ہو کر قافلے والوں کو روکا ۔ قافلہ رک گیا

نروان بولا

تم میں سے زیادہ لوگ مجھے جانتے ہیں میں اٹل کے علاقے کے سرداربلوٹ کا بیٹا نروان ہوں جس نے زندگی کی پندرہ بہاریں بڑے پنڈٹ کے قدموں میں گزاری ہیں ۔انہوں نے ابھی ابھی میرے کان میں سرگوشی فرمائی کہ افزانش و بہار کی دیوی تحوت تمہارے قافلے میں جلوہ افروز ہونے والی ہے اور اس نے اپنی جلوہ نمائی کےلئے نوجوان لڑکے کا بدن پسند کیا ہے ۔جس کا اظہار اس طرح ہوگا کہ وہ لڑکا لڑکی میں تبدیل ہو جائے گا“

اور پھر نروان تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا قافلے کی سمت بڑھنے لگا میں اس کے پیچھے پیچھے چل پڑاسب لوگوں کی نظریں ہمارے اوپر مرتکز ہو گئیں ۔ نروان چلتے چلتے اسی لڑکے کے پاس پہنچااور اس کے آگے سجدہ ریز ہوگیا۔لڑکی نے نروان کی چال سمجھ لی تھی اس نے اپنی ”پگ “کھول دی۔ اس کے لمبے لمبے بال نظر آنے لگے۔اس نے سامنے سے بھی اپنی قمیض کو کچھ اس طرح کھینچ لیا کہ اس کی چھاتیاں ابھرکر سامنے آگئیں اور تمام قافلے والے سجدہ میں گر پڑے ۔اس لڑکی کو دیکھتے ہی میرے منہ سے نکلا ’’اورا ‘‘ ۔یہ لڑکی بالکل اوراکی ہم شکل تھی ۔اورا جو ٹمپا سے آئی تھی، کتھیڈرلز پر ریسرچ کر رہی تھی اور ایک دن کی ملاقات میں مجھے پر گہرے نقوش چھوڑ گئی تھی ۔وہی جسے دیکھ کر میں نے سوچا تھا کہ میرے اندر کی کوئی کیفیت باہر نکل کر پیکر میں ڈھل گئی ہے ۔

نروان نے سجدے سے اٹھ کرقافلے والوں سے کہا

تحوت دیوی نے کہا ہے ”اس لڑکے نے اسے پکارا تھا کیونکہ قافلے کا سرداربڑا تاجر اسے اپنے ساتھ سلانے پربضد تھا۔دیوی نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ ابھی کچھ سال اسی لڑکے کے بدن میں قیام کرے گی۔مبارک ہو دیوی ناراض نہیں ہے یقینا قافلے پر رحمتوں کا نزول ہو گا۔“

ہوتاہےایک شخص کی روح سے مکالمہ

(ابھی جنت اور دوزخ خالی پڑے ہیں )

اور پھر فون کی گھنٹی اورنروان کی آواز ایک دوسرے میں گڈمڈ ہونے لگی ۔ میری آنکھ کھل گئی صبح میرے فلیٹ میں کافی دیر پہلے طلوع ہو چکی تھی ۔میں نے ریسور اٹھایاتوورما تھا۔کہنے لگا یار میں رات بہت پریشان رہا ہوں ۔ میرا خیال ہے ہم پیرس میں اپنا جو دفتر بنا رہے ہیں ۔وہاں فوری طور پرکام شروع کریں کچھ عرصہ کے لئے پیرس چلے جائیں۔ورنہ مجھے لگ رہا ہے سب کچھ تباہ ہو جائے گا ۔ میں نے اسے حوصلہ دیا کہ کچھ نہیں ہو گا ۔میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے ساتھ رہوں گا ۔آقا قافا جو کچھ بھی ہے وہ ہمارا دشمن نہیں ہے۔تم دفتر چلو میں آرہا ہوں وہیں بات کرتے ہیں۔

دفتر پہنچاتودفتر میں اتنے مسائل بکھرے ہوئے تھے کہ شام تک ورما سے اس موضوع پر بات نہیں ہو سکی حتیٰ کہ چاہنے کے باوجو د میں سہ پہر کونورکے ساتھ آقا قافا کے پاس بھی نہیں جا سکا۔اچانک اتنی زیادہ فائلیں اپنی میز پر دیکھ کر میں پریشان ہو گیا تھا ۔میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی تھی کہ کہیں ورما بزنس سے علیحدہ کرنے کے متعلق تو نہیں سوچ رہا۔میں نے سوچاکہ اسے سوچنا بھی چاہئے ۔واقعتا حالات بہت عجیب و غریب ہیں۔میں ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ ورما کہیں باہر سے اندر آیا اس کے ہاتھ میں کچھ اے تھری سائز کے کاغذ تھے وہ پنوں کی مدد سے انہیں دیواروں پر لگانے لگا۔میں نے غور سے دیکھا تو ان کے اوپر کوئی تعویز نما شے بنی ہوئی تھی۔ہر طرف سے سات خانے بنائے گئے تھے اور ان کے اندر بار بار سات کا عدد لکھا ہوا تھا میں نے ورما سے پوچھا

یہ کیا لگا رہے ہو“

ورما انہیں لگاتے ہوئے بولا ۔”یہ نقش مجھے کسی گیانی نے دئیے ہیں موجودہ صورت حال میں بہتری کےلئے “

میں نے پوچھا ۔”سادھو جی نے “

کہنے لگا ۔” نہیں میں ایک اور گیانی کے پاس گیا تھا وہ ہندو نہیں سکھ ہے ۔گلاسکو کے قریب رہتا ہے اس نے یہ دئیے ہیں “

میں نے پوچھا ۔ ”بائی پوسٹ بھیجے ہیں “

ورما بولا ۔ ”نہیں ۔۔میں خود لینے گیا تھا کل رات گیارہ گھر سے نکلا تھا اور ابھی واپس پہنچا ہوں پانچ سو میل گاڑی چلائی ہے“

مجھے ورما کی ذہنی حالت پر ہنسی بھی آئی اور میرے دل سے کچھ بوجھ بھی کم ہوا کہ ورماآج دفتر آیا ہی نہیں اس لئے مجھے اتنا کام کرنا پڑا پھر میں نے سوچا کہ میں غلط آدمی ہوں سارا دن میں نے کسی سے یہاں تک بھی نہیں پوچھا کہ ورما کہاں ہے۔ سارا کام میری ٹیبل پر کیوں آتا جا رہا ہے۔ الٹا یہ سوچتا رہا ہوں کہ ورما میری طرف بھیج رہا ہے۔ورما نے جب سات عدد والے پوسٹر لگا لیے تومیں نے کہا

سات کے ہندسے کے متعلق تم کیا جانتے ہو“

ورما بولا۔ ۔”یہی کہ یہ ایک لکی نمبر ہے“

میں نے کہا ۔”کچھ اور “

کہنے لگا ۔”بس ایک طاق عددہے۔کہتے ہیں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی عدد ہوتا ہے ۔ گیانی جی کے خیال میں میرا عدد بھی سات ہے اور ہمارے بزنس کا عدد بھی ساتھ ہے“

میں نے ہنس کر کہا ۔”چلو آج تمہیں تمہارے اس سات عدد کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں ۔قدیم زمانے کی ساری چیزیں سات ہوتی تھیں ۔انتہا ستر ہزار پر پہنچ کر ہو جاتی تھی ۔ یہ اس زمانے کی باتیں جب ابھی آٹھ کا عدد تخلیق نہیں ہوا تھا۔‘‘ فون کی بیل نے میرے جملے کو وہیں روک لیا ۔دوسری طرف نور تھی کہہ رہی تھی۔ ہم نے دس بجے ایک’میڈیم‘نورما کے پاس پہنچنا ہے ۔میں پارکنگ میں موجود ہوں سیدھے میری کار میں آجاﺅ ۔۔ میں نے دفتر کے گھڑیال پر نظر ڈالی تورات کے نو بج رہے تھے میں نے ورما سے کہا کہ اب باقی باتیں کل کریں گے اورمیں تیزی سے چلتا ہوا نور کی کار تک پہنچا اور کار میں بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔”میڈیم نورما کون ہے؟ ۔یہ نام مجھے کچھ سنا سنا لگ رہا ہے“

کہنے لگی

وہ ایک ایسی خاتون ہے جو ماورائی مخلوقات کے رابطے کی وساطت سے ماضی اور مستقبل میں جھانکنے کی قوت رکھنے کے بارے میں مشہور ہے ۔ممکن ہے آقا قافا کے حوالے سے وہ کسی بات پر روشنی ڈال سکے ۔ اس کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے ساتھ دس منت کی ملاقات کےلئے لوگوں کو مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے کسی منسوخ شدہ ملاقات کے وقت میں مجھے بہت مشکل سے آدھ گھنٹہ کا وقت ملا ہے “

میں نے کہا

ہاں میں اُس کے بارے میں جانتا ہوں۔اوراب یہ روحوں کی چکربازی کو بھی سمجھنا ضروری ہوگیا ہے

پھر ایک لمبی ڈرائیو کے بعد قدرے ویران اور نیم تاریک راستہ سے ہوتے ہوئے ہم ایک بڑی سی مینشن نما عمارت میں داخل ہوئے ۔ عمارت بظاہر کسی بھوت بنگلہ سے کم نہیں تھی ۔دیواروں پر جگہ جگہ کائی کی ہریالی تھی کسی کیتھیڈرل کی کھڑیوں کی طرح رنگین شیشوں سے صدیوں کے دبیزپردے جیسے کبھی اٹھائے ہی نہیں گئے تھے ، اندر سے کہیں دور کوئی شمع سی جلی محسوس ہو رہی تھی ، باہر کچھ اندھیرے سایوں کی وحشت ،کچھ درجہءحرارت کی کمی اور کچھ تیزہوا کی سائیں سائیں نے ماحول پر ایک ڈراونا ساہو کا عالم طاری کر رکھاتھا ۔ گاڑی ایک آہنی دروازے میں سے ایک کھلے اور روشن میدان میں عمارت کے استقبالیہ کے قریب کھڑی کرنے کے بعد جب ہم صدر دروازے کے قریب پہنچے تومیں نے پلٹ کر دیکھا ۔ یہ میدان دراصل عمارت کے سامنے ایک ایسے باغیچہ کا حصہ تھا جِس میں دور دور تک صرف جھاڑیاں یا سوکھے ہوئے پود ے اور درخت چیخ چیخ کر ان گنت محرومیوں کے موسموں کی داستان سنا رہے تھے ۔ کچھ خزاں تھی اور کچھ سناٹا تھا کہ پاﺅں میں سوکھے پتے حشر کا سماں الاپتے محسوس ہو رہے تھے ۔ نظر ایک لمحہ کا فاصلہ کئی برس میں طے کرتے ہوئے صدر دروازے پراٹک گئی ۔ رنگ اور وارنش سے بےنیاز بڑا سا پرانی لکڑی کا دروازہ جِس پر ایک بڑا سا زنگ آلودہ آہنیknocker اور چند ایک آرائشی بڑے بڑے کیلوں کے ابھرے ہوئے سربلب کی روشنی میں برسوں سے کسی نامعلوم آزمائِش میں گڑے ہوئے دِکھائی دیتے تھے ۔ نورکے دروازہ پر دستک دیتے ہی چھت کی منڈیر کے کسی ٹوٹے ہوئے بوسیدہ حصے میں چھپاہوا کوئی کبوترکسی بدروح کی طرح پھڑ پھڑاتے ہوئے ہوا میں غائب ہوگیا ۔ میرے بدن میں جھری جھری آئی اور میں نے سوالیہ انداز میں نور کی جانب اچٹتی سی نظر ڈالی ۔ وہ بولی

جن پرانی عمارتوں کے مالک موجود کو بھول کر گزری ہوئی روحوں میں زندگی گزارتے ہیں وہاں یہی کچھ ہوتا ہے “

میں نے کہا

آقا قافا بھی ایسی کوئی روح ہے مگر اس کا محل پوری زندہ و شاداب دکھائی دیتا ہے“۔

نور کہنے لگی

آقا قافابہت حیرت انگیز آدمی ہے“

اور ایک چڑچڑاتی ہوئی آواز کے ساتھ لکڑی کا پرانا دروازہ تھوڑا سا کھلا ۔ اس کے کھلنے کی آوازشاید سڑک تک سنائی دی ہو گی۔ سامنے ایک بڑی سی موم بتی والا لیمپ ہاتھ میں لئے ایک بوڑھی عورت کھڑی تھی جس کو دیکھتے ہی میری ذہن میں ننھے بہلول کو اغوا کرنے والی صحرائی چڑیل لہرا گئی ۔اس ن نے ہماری طرف سرسری نظرسے دیکھا اور سرجھکا کر ہمےں اندر آنے کا اشارہ دیا ، نور اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے ۔ایک طویل اور وسیع و عریض راہ داری سے گزر تے ہوئے ہم ایک کشادہ سے کمرہ میں آگئے جس میں کسی طرح کا کوئی فرنیچر موجود نہیں تھا۔ راہ داری میں البتہ خاص تزئین و آرائِش کا ثبوت ملتا تھا۔ دیواروں کا رنگ اور وال پیپر اگرچہ اپنی طبعی عمر عرصہ سے پوری کرچکنے کے بعد شاید دوسرے یا تیسرے جنم کے سلسلوں سے گزر رہا تھا مگر ہر دو تین فُٹ کے فاصلے پر بڑے بڑے لکڑی کے فریموں میں قدیم گرجوں ، حضر ت مریم اور حضرت عیسیٰ کی مصلوب حالتوں میں تصاویر آویزاں تھیں ۔ مختلف طاقوں میں موم بتیاں بھی روشن تھیں ۔ یہاں کمرہ میں صرف دیواروں کے ساتھ ساتھ کچھ فاصلوں پر صلیب کی شکل کے قدیم زنگ آلود آہنی کینڈل سٹینڈکھڑے تھے اور ہر ایک میں مومی شمع جل رہی تھی ۔ روشنی بہت کم تھی ۔ ہم اس کمرے میں سے گزر کر ایک اور قدرے چھوٹے کمرے میں داخل ہوئے ۔ درمیان میں لکڑی کادس بارہ انچ قطر کا ایک گول مینارہ ساتھا زمین سے تقریباً تین فٹ اونچا۔۔ اس کے اوپرلوہے کی ایک کڑاہی نما چیز فٹ تھی جسمیں ایک بڑی مشعل جل رہی تھی۔ایک طرف بیٹھنے کےلئے پرانے زمانے کا لکڑی کا ایک صوفہ بھی پڑا ہوا تھا۔ فضاءمیں ”ہوانا “سگار کی خوشبو رچی ہوئی تھی۔ یہاں پرسراریت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اس عورت نے ہمیں اشارہ سے وہیں بیٹھ جانے کےلئے کہا اور خودایک چھوٹے سے دروازے سے اندر کہیں چلی گئی میں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے نور سے کہا

یہ تو واقعی کوئی بدروحوں کا مسکن لگتا ہے مگر مجھے تو سگار کی خوشبو میں بھی کوئی راز پوشیدہ محسوس ہو رہا ہے۔ شاید روحیں بھی تمباکو نوش فرماتی ہوں“

اور ہم دونوں اپنی ہنسی دبانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہوگئے ۔۔اچانک اس کمرے میں ایک آواز گونجی یہ ایک ایسی آواز تھی جیسے بہت سی عورتیں بیک وقت بول رہی ہوں

تم لوگ کس کی روح کو بلانا چاہتے ہو“

نور بولی ”

ہم ایک زندہ شخص کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں وہ اسی شہر میں رہتا ہے اور آقا قافا اس کانام ہے“

آواز آئی

کیا جاننا چاہتے ہو”

نورنے کہا

یہی کہ وہ کون ہے کہاں سے آیا ہے اس کے اندر کوئی نیک روح ہے یا بری ؟“

دوسری طرف خاموشی ہو گئی۔ کافی دیر کے بعد پھر آواز آئی

وہ شخص اس وقت تیرے ساتھ بیٹھا ہواہے ،مجھے ایسا لگتا ہے تم لوگ میرا امتحان لینے آئے ہو اور یہ بہت بری بات ہے “

نور بولی

یہی ہمارا مسئلہ ہے کہ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے اس کا کیا تعلق ہے “

عورت کی آواز آئی

کیا تم مجھے اس کی آواز سنا سکتی ہو“

نوربولی

میں آپ کو اس کا فون نمبر دیتی ہوں آپ انہیں فون کرلیں “

اور پھر نورنے اس عورت کوآ قاقافا کا فون نمبر بتایا۔ اس نے فون نمبر ملایا۔شاید اس عورت نے فون بھی سپیکر کے ساتھ اٹیچ کیا ہوا تھاکیونکہ اس کے ڈائل ہونے کی آواز بھی سنائی دیتی تھی ۔پھر آقا قافا کی آواز سنائی دی انہوں نے کہا ”ہیلو“

تو عورت نے انگریزی زبان میں پوچھا

کیا میں” آقا قافا “سے بات کر سکتی ہوں“

دوسری طرف سے آقاقافا بہت ہی خوبصورت انگلش لہجے میں بولے ’

جی میں بول رہا ہوں“

عورت نے کہا

میں نے آپ کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے آپ سے ملاقات ممکن ہے “

آقا قافا بولے ’

میڈیم نورمامگر میں تو اس وقت آپ کے مینشن میں نورکے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں “

عورت نے حیرت سے کہا

پھر آپ اس نمبر پر کیسے بول رہے ہیں کیونکہ وہ میرے سامنے ہے اور خاموش بیٹھا ہوا ہے“

آقا قافا بولے

یہ سمجھنا اب آپ کا کام ہے “

اور فون بند کردیا۔۔کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی تقریباً دس منٹ کے بعد وہی عورت جو انہیں یہاں بٹھا گئی تھی کمرے میں داخل ہوئی اس نے ہم دونوں سے ہاتھ ملائے اور کہا

یہ میری زندگی کا سب سے حیران کن تجربہ ہے۔ میرا علم کہتا ہے کہ آپ اس وقت یہاں بھی موجود ہیں اور یہاں سے کہیں دور بھی ہیں جہاں سے ابھی آپ نے میرے ساتھ گفتگو کی تھی“

میں پہلی بار بولا

یہی تو سمجھنے کے لیے ہم آپ کے پاس آئے ہیں“

وہ بولی

یعنی آپ کواس بات کا احساس نہیں کہ آپ وہاں بھی موجود ہیں لیکن وہ جو کہیں اور ہیں انہیں اس بات کا احساس ہے “

میں نے کہا

جی“۔

عورت ہمیں اپنے ساتھ اندر لے گئی اس چھوٹے سے دروازے سے گزرتے ہی ہمیں احساس ہوا کہ ہم چرچ میں داخل ہو گئے ہیں ۔دیواروں پر صلیبیں ، عیسیٰ علیہ اسلام اور حضرت مریم کے بت لٹکے ہوئے تھے۔ وہاں ایک سنگل بیڈ پڑا ہوا تھا جس کے چاروں طرف لکڑی کا ایک باڈر لگا ہوا تھا اور اس پر بہت قریب قریب مومی شمعیں جل رہی تھیں ۔اس نے ایک طرف سے پکڑ کر اس باڈر کو کھول دیا شمعوں کی ایک لائن بیڈ سے ہٹ گئی اور مجھے کہا

یہاں لیٹ جاﺅ“

میں نے نور کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں بھی یہی تھا کہ میں لیٹ جاﺅں۔ میں لیٹ گیا اس نے قریب پڑے ہوئے ایک سٹول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نور سے کہا

تم یہاں بیٹھ جاﺅ“

اور اس کے بعد ایک بڑی شمع جو قریب میز پر جل رہی تھی اس نے پھونک مار کے اسے بجھا دیا ۔اب کمرے میں صرف انہی شمعوں کی روشنی تھی جو بیڈ کے ارد گرد تھیں۔ اس نے مجھے کہا

ذہن کو کھلا چھوڑدو سانس کھینچ لو اور آنکھیں بند کر دو“

میں نے اس کے کہنے پر عمل کیاوہ کچھ پڑھنے لگی ۔ مجھے وقت کا کوئی اندازہ نہیں مگر یوں لگ رہا تھا جیسے گزر ہی نہیں رہا کہ اچانک دور سے میڈیم نورما جیسی ہی ایک گونجتی ہوئی آواز سنائی دی

میں یہاں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتی ۔۔مجھے تمہارے گرد و نواح میں بہت تیز الوہی روشنی دکھائی دے رہی ہے۔ میں اگر تمہارے قریب آئی تو میں اس روشنی میں جل جاﺅں گی“

میڈیم نورما منمنائی

مجھے صرف اتنا بتا دو کہ اس شخص کی روح اورآقا قافا کی روح کا آپس میں کیا تعلق ہے؟“

کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد پھر وہی آواز سنائی دی

آئینہ اور اس کا عکس ۔۔۔۔برف کے بلند پہاڑوں پر کسی نا معلوم قوت کا اس عکس کو آئینہ بنانے کا عمل۔۔ان دونوں میں ایک صرف آئینہ ہے اور ایک آئینہ بھی اور عکس بھی۔۔۔اس کے سوا مجھے اور کچھ نہیں نظرآتا ۔ دونوں کے ارد گرد بڑی بڑی طاقتور روشنیوں کے ہالے ہیں جن سے گزرنا ممکن نہیں۔“ پھرخاموشی چھا گئی۔ میڈیم نورما کچھ دیر کچھ پڑھتی رہیں اور انہوں نے مجھے کہا

اب آپ اٹھ جائیے میرا علم بس یہیں تک تھالیکن میں چاہوں گی کہ آپ مجھ سے رابطہ رکھیں۔۔آپ اپنی روحانی قوتوں کا احوال تو سن چکے ہیں “

میں نے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے حیرت سے کہا

میری روحانی قوتیں ؟ مجھے ان کا کچھ علم نہیں “

وہ بولی

میری درخواست ہے کہ مجھے اپنے فیض سے بہرہ مند فرمائیے میں اس راستے کی ایک معمولی سی مسافر ہوں “۔

میں نے کہا۔ ’’آپ پہلے مجھے یہ بتائیے کہ بریڈفورڈکیتھیڈرل کے جس کمرے میں آپ اکثر راتیں گزارتی ہیں وہاں کیا ہے ‘‘

میڈیا نورما بولی ۔ ’’ میرے پاس جو کچھ ہے بس آپ کے سامنے رکھ دوں گی ۔آپ میرا ہاتھ پکڑ لیجئے ‘‘

نور بولی ۔ٹھیک ہے ہم آپ کے متعلق آقا قافا سے بات کریں گے ۔‘‘

میڈیا نورما سےجان چھڑانا مشکل ہوگیا تھا ۔ایسا لگتا ہے کہ اُس کے نزدیک مجھ سے اہم کوئی اور شے رہی نہیں ہے ۔آسیب کی طرح چمٹ گئی تھی ۔بہرحال ہم اس سے اجازت لینے میں کامیاب ہو گئے اس عمارت سے نکلتے ہی میں نے نور سے پوچھا ”یہ بتاﺅ جب اس روح کی آواز سنائی دے رہی تھی اس وقت میڈیم نورما کے ہونٹ تمہیں دکھائی دے رہے تھے ”

نورنے کہا

ہاں میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا تھا اس وقت اس کے ہونٹ بند تھے آنکھوں کی پتلیاں الٹ گئی تھیں اور اس کے ہاتھ بالکل سرخ ہو گئے تھے“۔

حیرت سرائے روح میں کیسے کروں قیام

(ماروائی طاقتوں کی تلاش)

ہم میڈیم نور ما کے بارے میں کافی دیر گفتگو کرتے رہے ۔ اپنے فلیٹ کے باہرنور کی کار سے اترتے ہوئے میں نے کہا

میں اس نتیجے پر پہنچا ہواکہ یہ میڈم بھی گلے پڑگئی ہے اب کل اسے آقا قافا سے ملانا ہے ہم اس کے ساتھ وعدہ کر کے آئے ہیں۔۔ دیکھتے ہیں کل وہ کیا فرماتے ہیں“

نور نے میری بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور چلی گئی وےسے بھی بہت دیر ہو گئی تھی۔ میڈیم نورما نے رات کا ایک بجا دیا تھالیکن میں کچھ نہ کچھ اس کی روحوں کا قائل ہو گیا تھا۔بستر پر لیٹتے ہی وہ روحِ کل کا پجاری میرے پاس آگیا ۔میں یہاں اپنے کمرے میں سو رہا تھا اور وہاں نروان مجھے صبح ہوجانے کی وجہ سے بیدار کر رہا تھامیں نے اٹھتے ہی نروان سے کہا

تم نے میری روح کونیچے کھینچ کر اچھا نہیں کیاوہ ساتویں آسمان سے واپس آئی ہے“

نروان ہنس کر بولا

جسم سے جدا ہونے کے بعدروح کی نہ کوئی زمین ہوتی ہے اور نہ آسمان۔ اس کا اظہار صرف جسم کے ساتھ وابستہ ہے مگر اسے فنانہیں، وہ ایک ایسے عمل کا نام ہے جو وجود ِ حقیقی سے جڑا ہوا ہے اور وجودِ حقیقی ہی تما م روحوں کا ماورائی ماخذ ہے “

میں نے نروان سے پوچھا

کیا کسی روح سے ہمکلام بھی ہوا جا سکتا ہے “

وہ بولا

ہاں یہ ممکن ہے دراصل کائنات کا ہر حصہ دوسرے حصے کے ساتھ اس طرح ملا ہوا ہے کہ اگر ایک حصے کے ساز کے تار کو چھیڑا جائے تو دوسرے حصے میں بھی ارتعاش پیدا ہوتا ہے ۔اسی طرح کئی مناجات کئی منتر کئی دعائیں ایسی ہیں کہ جن کے پڑھنے سے کسی دوسری روح کے تار میں ارتعاش جنم لیتا ہے اور ہم اس ارتعاش سے مفہوم اخذ کر سکتے ہیں “

میں نے کہا

یہ جو بڑے بڑے پنڈٹ ،جادو گر اور کاہن جن کا دعویٰ ہے کہ ان کے قبضہ ءقدرت میں روحیں ہیں کیا واقعی یہ روحوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں؟ “

تو کہنے لگا

کسی دوسری روح پر صرف وہی اثرانداز ہو سکتا ہے جس کی اپنی روح کا بالائی روح یعنی کائناتِ کل کی روح کے ساتھ رابطہ مضبوط تر ہوتا ہے اور جو اپنے اس الوہی رابطے کو اتنا مضبوط کر لیتا ہے وہ پھر عام روحوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتاکچھ شیطانی طاقتیں بھی ہوتی ہیں اور اپنے اصل سے کٹ جانے والی بدی پرست روحیں ان کا ساتھ بھی دیتی ہیں مگر یہ صبح صبح روحوں کی کہانی کیوں چھیڑ لی ہے سامنے افق کو دیکھو شاید کروٹیں لیتی ہوئی عظیم ترین آگ کی پہلی کرن تمہاری طرف چل پڑی ہے“

اور پھر پہلی کرن کی آمد کے ساتھ ہی قافلہ بھی چل پڑا نروان نے کہا

شاید ہم چند روز میں لہوارپہنچ جائیں گے وہاں صرف دو چیزوں کو اپنے ہونٹوں میں رکھنا ۔پہلی شے خاموشی ہے اور دوسری شے سوال اور ہاں یہ یاد رکھنا کہ سوال طویل ترین خاموشی کے تفکر سے جنم لیتا ہے سوال یہ نہیں کہ ایک روٹی کےلئے کتنی گندم چاہئے سوال یہ ہے کہ گندم کیا ہے۔ زمین کی تاریکی میں اسے کون پالتا ہے کیوں پالتا ہے کیسے پالتا ہے کیا سورج کی کرن اس لئے بنائی گئی ہے کہ جب وہ زمین کی تاریکی سے نکلے تو اس کی پرورش کرے یا یہ کوئی اتفاقی حادثہ ہے “

میں نے کہا

یہ سوالات تو ہمارے اعتقادات پر ضرب لگاتے ہیں“

کہنے لگا

سوال وہی ہوتا ہے جو مسلمات کو توڑنے کی قوت رکھتا ہو۔ سچائی کی کھوج میں نکلنے والے تلوار کی دھار پر اپنا سفر شروع کرتے ہیں اور کوئی کوئی منزل تک پہنچتا ہے ۔“

میں نے کہا

یعنی سوال سچائی کی تلاش کا کھوج کا نام ہے“

وہ بڑے گھمبیر لہجے میں بولا

ہاںسوال وہ اسم اعظم ہے جو علم کے درباز کرتا ہے ۔۔ وہ چراغ ہے جوباطن کی لامکانی میں مکان تعمیرکرتا ہے ۔ دیا سلائی کا وہ شعلہ ہے جس سے شمع منور ہوتی ہے۔میں سوال ہی کو تلاش ِ ذات کی پہلی منزل سمجھتا ہوں۔میں اس منزل سے گزر چکا ہوں یہ وہ مقام ہے جہاں میں نے تمام کائنات کو چھان ڈالا تھا۔ چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک کے دھڑکتے دِلوں کو ٹٹولا تھا اور پھِر آدم وحوا کی طرف متوجہ ہو کر ان نبضوں پر اپنی انگلیا ں رکھ دی تھیں مگر کہیں بھی مجھے اپنی تلاش کاثمرنہیں مل سکا تھالیکن جب میں نے اپنی تلاش اپنی ذات کے اندر شروع کردی تو میں فیروز مندیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہونے لگا“

میں نے اس کے لہجے کی بڑھتی ہوئی گھمبیرتا کودیکھ کر موضوع بدل دیا اور اس سے پوچھا

وہ تمہاری تخلیق کردہ دیوی کا کیا بنا ہوا ہے “

نروان ہنس کر کہنے لگا

اب کچھ عرصہ میں وہ سچ مچ کی دیوی بن جائے گی ۔ “

میں نے حیرت سے پوچھا

وہ کیسے “

تواس نے کہا

انسان دماغ شعاعیں خارج کرتے ہیں جو مختلف اوقات میں مختلف ہوتی ہیں ۔ اس لڑکی کو چونکہ لوگوں نے دیوی سمجھ لیا ہے اب جو بھی اس کے پاس جائے اس کے دماغ سے خوف ، احترام ،اور یقین کی شعاعیں نکلیں گی جو اس لڑکی کے ارد گرد جمع ہونے لگیں گی رفتہ رفتہ ان شعاعوں کو اتنا بڑا ہجوم ہوجائے کہ وہ ایک طاقت کا روپ دھار لیں گی پھر اس لڑکی کے گرد و نواح سے اسی طاقت کا اظہار ہونے لگے گا ۔ایک غیر مرئی طاقت کا ۔اور جب کسی کے پاس کوئی غیر مرئی طاقت آجاتی ہے تو وہ آدمی سے دیوتا بن جاتا ہے۔اب اسے تھوڑی سی تعلیم کی ضرورت ہے ۔ایک جنسیات کی تعلیم اور دوسری زمین اور زمین سے جو کچھ نکلتا ہے اس کی تعلیم ۔کیونکہ تحوت دیوی انہی دونوں قوتوں کی دیوی ہے ۔ابھی ایک آدھ دن کے بعد یہ پیشین گوئیاں کرنا شروع کردے گی کہ اتنے عرصہ بعد ایک سچا آدمی آئے گا جسے صلیب پر چڑھا دیا جائے گا “

کوئی بڑی تیز چکا چوند پیدا ہوئی اور میری آنکھ کھل گئی ۔ یہ بجلی کی چمک اور کڑک تھی جو بہت کم مغرب میں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے کیونکہ مغرب میں بادلوں کا اور خاندان آباد ہے اور مشرق میں اور۔۔۔میں جلدی جلدی تیار ہو کر دفترچلا گیا کیونکہ کچھ بہت ضروری میٹنگز تھیں۔دن بہت مصروف گزرا نور کا فون آیا کہ وہ میڈیم نورما کے ساتھ پارکنگ میں موجود ہے۔ میں نے ورما سے کہا

اب تم باقی معاملات سنبھال لینا میں جا رہاہوں آقا قافا کی طرف “

وہ بولا ۔ ”میں نے بھی آنا ہے“

میں نے اسے آج نہ آنے کا مشورہ دیا کہ کام بہت ہے اور خود نور اورمیڈیم نورما کے ساتھ آقا قافا کی طرف چل پڑا ۔ منیگھم روڈ پر ٹریفک بلاک ہو گئی۔ نہ آگے جا سکتے تھے اور نہ پیچھے مڑ سکتے تھے سوتقریباً ایک گھنٹہ لیٹ جب وہاں پہنچے تو آقا قافا مجلس ختم کر چکے تھے، لوگ جا رہے تھے ۔آقا قافا اندر جا چکے تھے ہم لوِنگ روم میں جا کر بیٹھ گئے کیونکہ ہم نے میڈیم نورما کو ان سے ملانا تھا۔تھوڑی دیر کے بعد آقا قافا آئے معمول کے مطابق بڑی محبت سے ملے اور ہنس کر میڈیم نورما سے کہنے لگے ۔”صرف ایک شخص کی بے احتیاطی کی وجہ سے کتنی دنیا کو پریشان ہونا پڑتا ہے لیکن یہ تو زندگی کامعمول ہے ٹریفک جام ہوتا رہتا ہے، آپ فرمائیے کیسے آنا ہوا “

میڈیم نورما بولی ۔ ”میں آپ سے کچھ سیکھنا چاہتی ہوں اس لئے جو قیمت آپ کہیں میں ادا کرنے پر تیارہوں“ ۔آقا قافا نے کہا ۔”آپ جو کچھ حاصل کرنا چاہتی ہیں اس کا تعلق آپ کی قوتِ ارادی کے ساتھ ہے میں آپ کی رہنمائی کے لئے تیا رہوں لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ راستہ کے امتحان سے گھبرا جائیں“

میڈیم نورما بولی ۔”میں جب آپ کے پاس آنے لگی تھی میں نے حساب کیا تھا جس میں یہ آیا تھا کہ آپ سے میں اسوقت کچھ سیکھ سکتی ہوں جب اپنا گھر اپنی تمام دولت کسی خیراتی ادارے کو دے کر، دو کمرے کے ایک چھوٹے سے مکان میں منتقل ہو جاﺅں۔کیا اس بات میں ترمیم نہیں ہو سکتی “

آقا قافا نے اسے بہت گہری نظروں سے دیکھا اور سوچتے ہوئے بولے ”

آپ کیا سیکھنا چاہتی ہیں ؟“

میڈیم نورما نے کہا ۔’’ایک آدمی بیک وقت دو مقامات پر کیسے ہو سکتا ہے؟“

آقا قافا ہنس پڑے اور کہنے لگے ۔’’ہاں اس میں یہی شرط ہے کہ کھدر کی ایک چادر کے سوا زندگی کی ہر شے کو تیاگ دی جائے“۔

اور پھر آقا قافا میری اور نور کی طرف دیکھتے ہوئے بولے

انہیں رام ورما سے ملا دیناوہ ممکن ہے انہیں کچھ سکھادیں “

میڈیم نورما بولی ۔ ”میں بڑے یقین سے آئی تھی کہ آپ مجھے کچھ سکھائیں گے“

آقا قافا بولے ۔”آپ نے زندگی سفلی عملوں میں گزاری ہے اور آپ ان سے باہربھی نہیں آنا چاہتیں اس لئے میں کوئی مدد نہیں کر سکتا“

وہ بولی ۔ ”آپ مجھے جس شخص کے پاس بھیج رہے ہیں کےاوہ سفلی علوم کا کوئی ماہر ہے؟ “

آقا قافا نے کہا ۔”نہیں۔۔۔ مگر سفلی علوم سے اسے نفرت بھی نہیں اس کامقصدِ حیات بھی تمہاری طرح نیکی اور بدی نہیں ماورائی طاقتوں کا حصول ہے“

وہ کچھ دیر چپ رہی اور پھر بولی ۔ ”ایک اور سوال کہ جو روشنی کا ہالہ آپ کے اور(میری طرف اشارہ کرکے) ان کے ارد گرد موجود رہتا ہے، وہ کیا ہے؟“

آقا قافا بولے ۔’ ’ وہ روح کلِ سے ہماری روح کا واسطہ ہے“

میڈیم نورما بولی ۔”کیا جو شیطانی ارواح ہیں ،وہ روح ِکل سے علیحدہ کوئی شے ہیں “

آقا قافا نے کہا ۔”نہیں مگر ان کا رابطہ روح ِکل سے کٹ کران بھٹکی ہوئی روحوں کے اجتماع سے ہے جس کا آغاز ابلیسِ لعین کی روح سے ہوا تھا“

میڈیم نورما نے پوچھا ۔ ” کیا میں ماورائی طاقتوں کے حصول میں کامیاب ہو جاﺅں گی“

آقا قافا بولے ۔ ”غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے آپ اور میں صرف وہی جانتے ہیں جو ہمارے لئے غیب نہیں رہتا جس طرح ایک سائنس دان کو علم ہوتا ہے کہ مٹی کے اس ذرے میں کتنی ایٹمی توانائی ہے مگر ہمارے نزدیک تو وہ ایک ذرہ ہی ہوتا ہے سو ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا ہمیں علم ہے جتنا ہم سیکھ سکے ہیں۔کل کیا ہونے والا ہے یہ صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات ہی جانتی ہے۔۔۔اور اب آپ لوگ جا سکتے ہیں “۔

میڈیم نورما جب ہم سے جدا ہونے لگیں تو میں نے انہیں کہا ۔ ”آپ جب کہیں گی آپ کو رام ورما کے ساتھ ملادیں گے“

وہ مسکرا کر بولی ۔ ”میرا خیال ہے اب میں انہیں خود ہی تلاش کر لوں گی“

گنبد کے ساتھ جھیل تھی

(اور میں فقیر تھا)

نور اور میں فلیٹ پر گئے۔ تھوڑی دیر بعد ورما آگیانور کچن میں چائے بنا رہی تھی میں نے اسے آواز دی ۔ ”ورما کےلئے بھی ایک کپ بنا لینا “ ۔وہ وہیں سے بولی ۔”سن لی ہے اس کی آواز“ ۔ورما نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا ۔ ”لگتا ہے دل کے معاملات میں بھی کافی پیش رفت ہے“ ۔میں نے بھی اسی طرح سرگوشی کی ۔”احتیاط ۔کیونکہ یہی تمہاری ہونے والی بھابھی ہے “ ۔اس نے ہنس کر کہا ۔ ”یہ جملہ میں پہلے بھی کئی لڑکیوں کے بارے میں سن چکاہوں “

میں نے کہا ۔ ”نہیں ورما میں بدل چکاہوں ۔۔شاید تمہارے سادھو جی ٹھیک کہتے تھے کہ میں وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔اب میرا کوئی غلط کام کرنے کو جی نہیں چاہتا“ورما بولا ”سادھو جی نے ایک اور ڈیوٹی لگا ئی ہے “ ۔میں نے پوچھا ۔ ”کیا“ کہنے لگا ۔ ” انہوں نے کالی ماتا کی ایک چھوٹی سی مورتی دی ہے اور کہا ہے کہ کل آقا قافا کی محفل میں جانا اور اس مورتی کو جیب میں رکھنا “ ۔میں نے اس سے پوچھا ” ۔تم نے سادھو بابا کو یہ نہیں بتایا کہ آقا قافا کو ہر بات علم ہو جاتا ہے “ ۔وہ کہنے لگا ۔ ”بتایا ہے وہ کہتے ہیں جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے یہ جو آقا قافا ہے یہ ہماری اپنی غلطیوں کی سزا ہے“ ۔میں نے ہنس کر کہا ۔ ”کل جیب میں ڈال کر آجانا دیکھیں گے کیا ہوتا ہے اور ہاں سادھو جی کو بتانا کہ ایک روحوں کا علم رکھنے والی انگریز خاتون میڈیم نورما ان کی تلاش میں ہے شاید وہ ان سے کچھ سیکھنا چاہتی ہے “ ۔نور چائے لے آئی اورہم تینوں چائے پینے لگے۔ نور نے ورما سے کہا ۔’‘سادھو جی نے تمہیں تنہائی میں تو آقا قافا کے بارے میں کچھ بتایا ہو گا ۔“ورما بولا۔ ’ ’ آقا قافا کے حوالے سے صرف ایک جملہ کہا ہے انہوں نے کہ بڑے سادھو نے اپنے تجربے کی کامیابی کےلئے اپنے دھرم کو قربان کردیاہے۔ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا کہ اس کا کیا مطلب ہے “۔ ”میری اپنی سمجھ میں کچھ نہیں رہا تمہیں کیا سمجھائوں ۔یہ دنیا ہے ۔دوڑتے ہوئے ڈالروں اور بھاگتے ہوئے پونڈوں کی دنیا۔۔یہاں لوگ صرف کار کا برانڈ اور نمبر نہیں دیکھتے۔اس بات پر بھی غور کرتے ہیں کہ تم نے جو جوتے پہن رکھے ہیں یہ کونسی کمپنی کے بنے ہوئے ہیں۔جوتوں کے اندر کوئی نہیں دیکھتا ۔آقاقافا کے اندر کیا ہے میں کیا کہہ سکتا ہوں“ ۔ اس موضوع پرکافی دیر کی گفتگو ہوئی پھر وہ دونوں اپنے اپنے گھروں چلے گئے

اگلے دن معمول کی مصروفیات کے بعدہم تینوں وقت پر آقا قافا کی مجلس میں پہنچ گئے وہ گفتگو شروع کرہے تھے ہمیں بیٹھتے ہوئے دیکھ کر رک گئے اور سب لوگوں سے بولے ۔”میں چند منٹ کے لئے اندر جارہا ہوں ابھی آتا ہوں “ ۔ وہ اندر چلے گئے اور ورما نے مجھ سے کہا ۔ ”میں جس وقت سے اس کمرے میں داخل ہوا ہوں،کالی ماتا کی مورتی میں لرزش ہونے لگی ہے “ ۔اتنی دیر میں آقاقافا باہر کے دروازے سے واپس آئے ہم اس دروازے کے بالکل سامنے بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے دروازے پر کھڑے ہوکر ورما کو بلایا۔ورما باہر گیا تو آقا قافا نے ورما کو سبز رنگ کا چھوٹا سا کپڑا دیتے ہوئے کہا ۔”کالی ماتا کو اس کپڑے میں لپیٹ لو“ ۔ورما نے اس سبزکپڑے میں مورتی کو لپیٹ لیا اور میرے پاس آکر بیٹھ گیا میں نے اس سے پوچھا ۔” کیا اب بھی اس میں لرزش ہے “ تو ورما بولا ۔ ”نہیں اب اس کی لرزش ختم ہو چکی ہے“

آقا قافا نے گفتگو شروع کی اور کہا ۔” آج سے میں اپنی کہانی سنانے کی ابتدا کرتا ہوں ۔جس کا تم سے ایک طویل عرصہ سے وعدہ ہے “ ۔ایک شخص نے اٹھ کرکہا ۔”آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آج ہماری مسجد کا وزٹ کریں گے“ ۔آقا قافا بولے ۔”کیا ابھی جانا ہے“ وہ آدمی کہنے لگا ۔”اگر آپ ابھی چلیں تو تمام احباب ساتھ آجائیں گے “ ۔آقا قافا نے دم بھر سوچا اور پھر کہا ۔ ”دوستو آﺅآج سبھی چلتے ہیں۔ یہ ایک مسجد کی تعمیرمیں اللہ کا ساتھ دے رہے ہیں اللہ تعالی ان کے خوابوں کی تعبیروں کی تعمیر میں ان کا ساتھ دے گا“ ۔اور پھر تمام لوگ اپنی اپنی کاروں میں بیٹھ کر ایک وسیع و عریض مسجد کے احاطے میں پہنچ گئے جس کا اسی فیصد کام مکمل ہو چکا تھا ۔وہاں نماز ادا کی گئی اور آقا قافا نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا۔”میں نے اپنے تعلیمی کریئر کے آغاز میں تقریباًدو سال میانوالی کے ایک مدرسے میں درس نظامی کی بھی تعلیم حاصل کی تھی،مسجد کے ساتھ ملحقہ اس مدرسے میںچھ کمرے میں تھے جن پر کھجور کی بنی ہوئی چٹائیاں بچھائی گئی تھیں، دیواروں کا پلستر اتنا پرانا تھا کہ اکثر اوقات ہاتھ لگنے سے اس کے ٹکڑے گر جاتے تھے۔ صرف اُس کمرے کی حالت بہتر تھی جِس میں مولانا میاں محمد صاحب بیٹھا کرتے تھے اور کتابوں کی الماریاں تھیں ۔ اگرچہ میانوالی میں ایک بہت بڑا مدرسہ جامعہ اکبریہ بھی تھا جو ہمارے گھر کے بالکل ساتھ تھا اور وہاںمولانا عبد المالک صاحب ہوا کرتے تھے جِن کے ساتھ ہمارے خاندانی مراسم بھی تھے مگرمجھے میاں محمد صاحب کے پاس اس لئے بھیجا گیا تھا کہ وہ شریعت کے ساتھ طریقت کی تعلیم بھی دیتے تھے جس کا پاکستان بھر کے مدارس میں کوئی رواج نہیں تھا اب تک نہیں ہے۔مدارس کی تعلیم صرف و نحو ، علم تجوید،منظق، فقہ ، اور دوسرے ظاہری علوم پر مشتمل ہے ، باطنی علوم کہیں نہیں سکھائے جاتے ، تصوف کی تعلیم کہیں نہیں دی جاتی ۔“

میں نے نور سے سر گوشی کی ۔ ”آقا قافا نے کہااس وقت جو بات کی ہے وہ ان کی نہیں میری ہے۔میاں محمد صاحب میرے استاد تھے جامعہ اکبریہ ہمارے گھر کے قریب ہے۔“

نور نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔”بعد میں بات کرتے ہیں “

وہاں موجودایک دینی شخصیت نے ہمیں زیر ِتعمیر مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسہ کی عمارت دکھائی جس پر اس وقت تک پانچ ملین پونڈ سے زائد رقم خرچ ہو چکی ہے اور تقریباً دو ملین پونڈ خرچ ہونے کی توقع ہے ۔ انہوں نے مسجدکا ہال دکھایا جس میں کم ازکم پانچ ہزار کے قریب لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں پھر اوپر کی منزل میں لے گئے جہاںایک پورے کالج کی ضرورت کے مطابق کلاس روم بنائے گئے تھے۔ وسیع و عریض لائبریری کی عمارت،کشادہ دفاتراورآرائش کےلئے فوارے تک بنائے جا رہے تھے۔ پتھروں کے اندر کھدائی سے لکھائی کاکام جاری تھا ۔مختلف رسم الخط میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی لکھے جارہے تھے ،لکھنے والے کاری گر ہندوستان سے بلائے گئے تھے ۔ عمارت پر وہی پتھر استعمال کیا جا رہا تھا جو لاہور کی بادشاہی مسجد کی تعمیر میں استعمال کیا گیا ہے۔ کلاس روم دکھاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس مدرسے میں ہم درس نظامی اورجدید تعلیم کے ساتھ تصوف کی تعلیم بھی دیں گے جس کا سلسلہ ابھی سے شروع ہے ۔ابھی ہماری کلاسیں صفتہ الاسلام کی پرانی عمارت کے علاوہ بریڈفورڈ کالج میں ہورہی ہیں جو اس ادارے کی تعمیر مکمل ہونے پر یہاں منتقل ہو جائیں گی۔آقا قافا کسی مدرسے میں تصوف کی تعلیم کے متعلق سن کر چونک پڑا۔ایک خوشگورا سا احساس ان کے چہرے پر نمودار ہوا اورکہنے لگے ۔”یقینا یہاں محی الدین ابن عربی اور حسین بن منصور حلاج کو پڑھا جائے گا، یہاں جنید بغدادی اور شمس تبریزی کی باتیں کانوں میں رس گھولیں گی۔ “

مسجد کی عمارت سے باہر بہت وسیع احاطہ موجود تھااسے دیکھتے ہوئے آقا قافا نے کہا ۔”یقینا یہاں خوبصورت لان بنائے جائیں گے“

احاطے کے ساتھ بہت وسےع گہری کھائی نظر آئی تو انہوں نے کہا ۔ ” یہاں ایک خوبصورت سی تالاب نماجھیل بنائی جا سکتی ہے۔ مجھے مولانا جلال الدین رومی یادآرہے ہیں وہ اسی طرح کی ایک تالاب نما جھیل کے کنارے بیٹھ کر کوئی علمی کام کر رہے تھے ان کے پاس بہت نایاب کتابیں رکھی ہوئی تھیں کہ وہاں سے شمس تبریزی کا گزر ہوا اور مولانا رومی کے ساتھ معمولی سے مکالمے کے بعد انہوں نے وہ کتابیں اٹھائیں اور جھیل نما تالاب میں پھےنک دیں جس پر مولانا رومی چیخ پڑے کہ تم نے یہ کیا قیامت کردی ہے۔ مولانا رومی کی بہت زیادہ پریشانی کو دیکھ کر شمس تبریزی نے پانی میں ہاتھ ڈالااور کتابیں نکال کر باہر رکھ دیں۔ مولانا رومی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ کتابیں بالکل خشک تھیں پانی نے انہیں چھوا بھی نہیں تھااور پھر وہ مقام آگیا کہ مولانا روم کو کہنا پڑا

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلام ِ شمس تبریزی نہ شد“

آقا قافا شعر پڑھ کر کچھ دیر کےلئے خاموش ہوگئے پھر اچانک ہنس پڑے۔ایک شخص نے بڑے ادب سے کہا ۔”جی کیامیں مسکراہٹ کا سبب پوچھ سکتا ہوں “

آقا قافا کہنے لگے ۔”میں یہ سوچ کر ہنس پڑا ہوں کہ ایک کھائی کے کنارے کھڑا ہوکر کیا شیخ چلی والی باتیں سوچ رہا ہوں کہ یہاں جھیل بنائی جائے گی جس کے کنارے آنے والے وقت کا کوئی رومی بیٹھا ہواہو گا اور کوئی نیا تبریز اس کی کتابیں اٹھا کر جھیل میں پھینک دے گاپھر خیال آیا کہ انہیں خشک نکال لینے کا فن سیکھنا تو آج کے دور میں وقت کا زیاں ہے ۔کہتے ہیں ایک بزرگ کسی دریاکو کہیں سے عبور کرنا چاہتے تھے ۔ملاح نے انہیں کہا کہ چار آنے دوگے تو دریا عبور کراﺅں گا ۔بزرگ کے پاس چار آنے نہیں تھے۔ سو ملاح نے انہیں دریا پار نہیں کرایا ۔بزرگ نے کئی سال ریا ضت کی اور پانی پر چلنے کا فن سیکھ لیا۔ آخرایک دن وہ پانی پر چل رہے تھے کہ وہی ملاح اپنی کشتی میں ان کے قریب سے گزرا اور اُس نے اُنہیں پانی پر چلتے ہوئے دیکھا۔ اُس نے اُن سے سوال کیا کہ آپ نے کتنے عرصہ میں پانی پر چلنا سیکھا ہے ۔ بزرگ بولے کہ بہت سال بڑی ریاضت کرنی پڑی ہے۔ ملاح کہنے لگا کہ یہ تو کوئی کمال نہیں کہ اِتنے برس ضائع کرنے کے بعد صرف چار آنے کا فن سیکھا جائے۔ “۔

ہم وہاں سے نکلے تو میں نے ورما سے پوچھا ۔”تمہارے مورتی کا کیا حال ہے۔آج تو وہ مسجد سے ہو آئی ہے “ ۔ورما نے کوٹ کے باہرکی جیب ٹٹولی اور پھر تیزی سے اندر ہاتھ ڈالا کوٹ کی جیب میں مورتی موجود نہیں تھی اس نے تمام جیبیں اس طرح ٹٹول کر دیکھیں جیسے وہ مورتی نہیں کوئی بہت ہی چھوٹی سی چیز تھی مگر اس کی ایک جیب سے سبز رنگ کا وہی کپڑا برامد ہوا جو اسے مورتی کو لپیٹنے کےلئے آقا قافا نے دیا تھا یہ وہی جیب تھی جس میں اس نے مورتی رکھی تھی ورما پریشانی کے عالم میں بولا ۔ ”وہ مورتی کہاں جا سکتی ہے ۔ ‘‘

نور کہنے لگی ۔ ”یہ بات یا تمہارا سادھو جی بتا سکتے ہیں یا پھر آقا قافا “ ۔ ورما کچھ سوچتے ہوئے بولا ۔” میں آقا قافا سے اس مورتی کا پوچھنا چاہتا ہوں کیونکہ میں انہی کے کہنے پر اسے اس سبز کپڑے میں لپیٹا تھا“ مسجد سے سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔میں نے کار موڑ لی اور اپنی کار آقا قافا کی کار پیچھے لگا دی ۔ایک بار پھرہم آقا قافا کے ساتھ ان کے لیونگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے آقا قافا کہہ رہے تھے۔ ”وہ مورتی ہمالیہ کے ایک غارمیں اس وقت تمہارے سادھو بابا کے سامنے رکھی ہوئی ہیں ۔انہیں پسند نہیں آیا کہ تم نے اسے اس سبز کپڑے میں لپیٹ دیاتھا اور پھر مسجد میں لے گئے تھے“ میں نے پو چھا ۔”یہ سبز کپڑا کیا ہے ۔“ آقا قافا نے کہا ۔”یہ ایک ایسا کپڑا ہے جس سے کسی طرح کی لہریں نہیں گزر سکتیں“ ورما اسے قریب پڑے ہوئے ٹیبل لیمپ کے بلب کے سامنے کیا تواسے احساس ہواجیسے روشنی اس کے ادرگرد سے ہو کر باہر نکل رہی ہے ۔ورما نے پوچھا ۔”کیا یہ کپڑا میں لے جا سکتا ہوں “ آقا قافا بولے ۔’ ’ہاں کیوں نہیں “

نورنے آقا قافا سے کہا ”منصور بہت پر یشان ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ اور وہ ایک استاد کے پاس ایک وقت میں پڑھتے ہوں۔ ایک جگہ آپ کا گھر ہو مگر آپ ایک دوسرے کو نہ جانتے ہوں “

آقا قافا ہنس کر کہنے لگے ۔”یہ مجھے نہ جانے مگر میں تو اسے جانتا ہوں اور ہاں یہ کہانی دو آدمیوں کی کہانی نہیں ایک آدمی کی کہانی ہے اب تم جا سکتے ہو“ ۔ورما سادھو جی کی طرف چلا گیا میں اور نور ایک ریستوران میں جا کر بیٹھ گئے ۔کھانا کھایا اور طے کیا کہ جس طرف حالات لے کر جا رہے ہیں اسی طرف بہتے جائیں ممکن ہے زندگی کی کشتی ہمیں اس مقام تک لے جائے جہاں تمام اسرارکھل جائیں۔میرا اور آقاقافا کا تعلق سمجھ میں آجائے۔میں نے نور سے یہ بھی کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہم فوری طور پر شادی کرلیں مگر یہ سوچ کر رک جاتا ہوں کہ کہیں تمہیں بعد میں افسوس نہ ہو ۔نورمیری اس بات پر خاموش رہی تھی ۔ہم وہاں اٹھے اور کچھ دیر کے بعد اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے ۔ میں بھی تھک گیا تھا جاتے ہی بستر پر ڈھیر ہو گیادوسرے دن دفتر کے ضروری کام کئے ۔ورما کہیں چلا گیا تھا ۔ نور آئی تو اس کے ساتھ ہی ورما بھی آگیا اورپھر ہم تینوں آقا قافا کی مجلس میں پہنچ گئے۔

یادیں مری ہیں اور سناناہےکوئی اور

(دو آدمیوں کا ایک ماضی)

مجھے ایسے لگا جیسے انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہاہے ’’میں اپنی کہانی شروع کر رہا ہوں ۔میں آقا قافامیانوالی کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا۔ابتدائی تعلیم مسجد سے حاصل کی ابھی میری عمر پندرہ سال تھی کہ میری زندگی میں ایک بھیانک واقعہ ہوامیری کہانی کا آ غاز اس واقعہ سے ہوتا ہے ۔ سردیوں کی ایک رات تھی بارہ بجے کے قریب وقت تھا میں میانوالی ریلوے اسٹیشن پر کندیاں جانے والی ریل گاڑی کا انتظار کر رہا تھا ۔کندیاں میانوالی سے دس میل دور ایک شہر ہے جہاں میں نے بہت سویرے اپنے دوستوں کے ساتھ مرغابیوں کے شکار پر جانا تھا ۔انتظار ختم ہو اریل گاڑی ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئی۔ گاڑی سواریوں سے اٹی ہوئی تھی میں ایک ڈبے میں داخل ہو نے میں کامیاب ہو ہی گیا اندر مسافر ڈبے کی سےٹوں سے فرش تک کیڑوں مکوڑوں کی طرح لیٹے ہوئے تھے مجھے بہر حال کھڑے ہو نے کی جگہ مل گئی میں نے ادھر ادھر دیکھا تمام مسافر سو رہے تھے۔ دروازے کے بالکل قریب کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر ایک سیاہ برقعہ پوش خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ چہرے سے نقاب ہٹایا ہوا تھا دیکھنے میں خاصی خوبصورت تھی ۔عمر میں کوئی پچیس چھبیس برس کی ہو گی۔ اس نے اپنے آگے اپنا بڑا سا بستر بند کھڑا کیا ہوا تھااور اپنی دونوں ٹانگیں اس کے اوپر لمبی کی ہوئی تھیں خاصی سردی تھی مگر اس کے پاﺅں میں جرابیں نہیں تھیں اور اس نے جوتے اتارے ہوئے تھے میں نے اچھی طرح اس کا جائزہ لیا آنکھیں بند ہونے کی وجہ سے مجھے پورا یقین تھاکہ وہ بھی سو رہی ہے میں نے اس کی طرف پشت کر لی اور دروازے کا ہینڈل سہارے کےلئے پکڑ کر کھڑا ہو گیا ۔ٹرین چلنے پر پہلے ہی دھچکے کے ساتھ میری کمر اس کے بستر بند سے جا لگی اور مجھے احساس ہوا کہ کھڑا ہونے کےلئے ایک سہارا بستر بند بھی ہو سکتا ہے چنانچہ میں نے بستر بند سے ٹیک لگا لی ابھی چند ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ اس خاتون نے اپنے دونوں پاﺅں اکٹھے میری پشت پر دے مارے میں غصے کے ساتھ پلٹاتو عورت نے اسی طرح پرسکون انداز میں آنکھیں بند کی ہوئی تھیں“

آقا قافا یہاں پہنچے تو انہوں نے میز سے پینے کے لئے پانی کا گلاس اٹھایا اور میں نے سائیکی سے کہا

اس سے آگے کا حصہ تو اس محفل میں سنانے کے قابل بھی نہیں ہے“

ابھی میں نے اپنی سرگوشی مکمل ہی نہیں کی تھی کہ آقا قافا بولے

ہاں منصور تم ٹھیک کہہ رہے ہو اس بات کا اگلا حصہ واقعی ایسا ہے کہ جسے محفل میں تو کجا کسی اکیلے دوست کو سناتے ہوئے بھی آدمی شرمندگی کے پسینے سے دھل جائے گا مگر جنسیات کوئی شجرِ ممنوعہ نہیں ۔خالقِ لطف و کیف نے اس میں بے شمار فوائد رکھے ہیں ۔نسل انسانی کی افزائش سے لے کرسرور و لذت کی جنتیں اسی کی کوکھ سے نکلتی ہیں۔جہاں تک اس کے ذکر کی بات ہے تو وہ الہامی کتابوں سے لے کر رومی کی مثنوی معنوی تک ہر جگہ اپنے تمام آسنوں کے ساتھ موجود ہے۔علم طب کی کتابیں اس کے ذکر بھری پڑی ہیں ۔ایسی تحریروں یا ایسی کتابوں سے حظ اٹھانے والوں کے خود اپنے دماغ گاڑھے نیم سیال لجلجے سے لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔انہیں تو عورت کی لاش بھی برہنہ نظر آئے تو آنکھوں سے مادہ منویہ ٹپکنے لگتا ہے۔

ہاں تو میں کہا نی سنا رہا تھامیں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کسی اور مسافر نے بھی یہ منظر دیکھا ہے یا نہیں مگر تمام لوگ سو رہے تھے۔ اس واردات کی کسی کو خبرہی نہیں ہوئی تھی اورعورت کا چہرہ اتنا پر سکون تھا کہ جیسے کوئی بات ہوئی ہی نہ ہو۔اس کی یہ بے نیازی دیکھ کر میرا غصہ اور بڑھنے لگاتھا میں پوری طرح عورت کی طرف مڑ گیا اس کے چہرے پر نظریں گاڑدیں اس نے ایک لمحہ آنکھیں کھولیں اور پھر اسی طرح بند کر لیں میں بستر بند سے بالکل چیک گیا مگر اس کے کوئی حرکت نہ کی میں نے بستر بند پر اپنا دباﺅ اور بڑھا یا۔ اب عورت کے پاﺅں میری رانوں سے لگنے لگے تھے۔ مگر اس نے پھر بھی اپنی آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔میں نے اسکی پاﺅں پر اپنی رانوں کا دباﺅ بڑھانا شروع کر دیاتو مجھے محسوس ہوا کہ عورت آہستہ آہستہ اپنے دونوں پاﺅں ایک دوسرے کی طرف سرکا رہی ہے اور اس کے اس عمل سے میرے اندر کوئی تبدیلی رونما ہو نے لگی ۔زندگی میں پہلی بار مجھے پگھلنے کےلئے ابھی چند پاﺅں کا فاصلہ باقی تھاکہ گاڑی کندیاں کے اسٹیشن پر رک چکی تھی ایک مسافر اندر داخل ہونا چاہ رہا تھا۔ مسافر کو دیکھتے ہی عورت نے اپنے پاﺅں پیچھے کھینچ لئے اور آہستہ سے بولی، ”بیٹھ جاﺅ بستر بند پر“ اور میں بیٹھ گیا۔ عورت نے پوچھا ”کہاں جا رہے ہوں“ میں نے کہا مجھے یہیں اترنا ہے “عورت کے چہرے پر افسردگی چھا گئی اور بڑی بیچارگی سے بولی ”تم میرے ساتھ نہیں چلے آتے“ میں نے پوچھا ”تم کہاں جا رہی ہو، کہنے لگی، ”بھکر“۔

بھکر“ کا نام سنتے ہی میں نے ہاں کر دی اور اس کے چہرے پر رونق لوٹ آئی۔ دراصل میں خود جانا چاہتا تھاا س کے ساتھ مگر بہت دور جانے سے خوفزدہ تھا۔ بھکر میانوالی سے کوئی ستر اسی میل دور ایک شہر ہے جہاں میرے بہت سے رشتہ دار بھی رہتے تھے اور ہمارا اپنا ایک مکان بھی تھا۔ جو کچھ عرصہ سے خالی پڑا ہوا تھا۔ دوبارہ کرائے پر دینے سے پہلے اس کی مرمت کرائی جا رہی تھی۔

اور پھر آقا قافا نے مجلس کے اختتام کا اعلان کر دیا ہم خاموشی سے با ہر آگئے۔آج بہت زیادہ پریشان تھا۔میں نے نور اور ورما سے کہا

میں تقریباً پاگل ہونے والا ہوں تم یقین کرو آقا قافا نے جو کہانی شروع کی ہے وہ لفظ بہ لفظ میری کہانی ہے۔ اس میں بہت سی ایسی باریک باتیں بھی شامل تھیں جو میرے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔ یہ کہانی آقا قافا کی کہانی کیسے ہو سکتی ہے۔

ورما نے کہا

نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ دو آدمیوں کی بالکل ایک جیسی کہانی نہیں ہو سکتی اور پھر آقا قافا نے اس کہانی کو اپنی کہانی کہا ہے کیا ہم آقا قافا اس سے بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے “

نور بولی ۔ ”ہرگز نہیں انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر تم یہی بات وہاں بیٹھے ہوئے مجھے سرگوشی میں بتا رہے تھے تو آقا قافا نے تمہاری کی تائید بھی کی تھی یعنی وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ تمہاری اور ان کی کہانی ایک ہی ہے“۔ میں نے ورما سے کہا ۔” تم مجھ سے جو چاہو قسم لے لو مگر اس بات کا یقین کرو کہ وہ کہانی میری کہانی ہے۔“

ورما بولا ۔ ”اگر یہ سچ ہے تو پھر میرا دماغ پھٹ جائے گا“

میں ہنس کر بولا ۔”تم صرف یہ سن کر اتنے پریشان ہوگئے ہو ۔ میرے بارے میں سوچو۔۔“

نور نے کچھ سوچنے کے بعد مجھ سے کہا ۔” تم اپنے دماغ پر زور دوشاید تمہیں کچھ یاد آجائے۔ آقا قافا اورتمہارے تعلق کا راز جب تک نہیں کھلے گا۔ ہماری حیرت ختم نہیں ہوگی۔“

ورما وہیں سے کہیں اور چلا گیا نور میرے ساتھ فلیٹ پر آگئی ۔میں نے پیزے کےلئے فون کیا

تو وہ براسا منہ بنا کر بولی ۔ ”میں اب گھر جا کر کھانا کھائوں گی “

میں نے حیرت سے پوچھا ’’تو پھر اندر آئی ہو ‘‘

بولی۔’’تمہیں ایک بات بتانا چاہتی تھی مگر ابھی نہیں ۔سوچتی ہوں کہیں تم زیادہ پریشان نہ ہو جائو ‘‘

میں نے کہا ’’ نہیں نہیں بتائو ۔ تم جانتی ہو میں کمزور اعصاب کا آدمی نہیں ہوں ‘‘

نور جاتے ہوئے بولی ۔’’ابھی نہیں ۔پھر کبھی‘‘

اور پھر تھوڑی دیرکے بعد میں اپنے بستر پر اکیلا سونے چکا تھا یقینا وہ بھی اپنے بیڈ پر اکیلی سو رہی ہو گی۔ مجھے اب یہ اکیکگی زخم محسوس ہونے لگی تھی مگرنروان اس زخم پر مرہم کی طرح تھا اورپھر میں نروان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا صحرا کی دھوپ میں پسینے سے شرابور۔میں نے نروان سے کہا

میں سوچتا ہوں یہ زندگی کیا ہمارے ادراک اور حواس کا نام ہے یا اس کا اپنا کوئی اٹل وجود ہے اور اس کا اپنا کوئی وجود ہے تو پھر دو لوگوں کے ادراک اور حواس ایک جیسے کیوں نہیں ہوتے ایک منظر کو ہر آنکھ مختلف انداز میں کیسے دیکھ لیتی ہے کیونکہ منظر تو ایک ہی ہوتا ہے ۔“

نروان سورج سے نکلتی ہوئی آگ کو دیکھتے ہوئے بولا ۔”یہ سورج جو اس وقت ہمیں جلا رہا ہے یہی زندگی ہے ۔یہ جو جھلساتی ہوئی ہوا چل رہی ہے اسے زندگی کہتے ہیں حواسِ خمسہ اور ذہن انسان کو اس لئے دئیے گئے ہیں کہ وہ اس زندگی سے اس کائنات ِ خارجی اور کائنات ِ باطنی سے توازن آمیز روابط اور مناسب مطابقت پیدا کرے تاکہ اپنے اندر اور اپنے باہر اپنی بقا اور اپنی خارجی و باطنی ضروریات کے حصول کی جنگ میں کامیاب رہے۔زندگی نہ حواس و ادراک کانام ہے اور نہ ہی جارجیت کا اپنا ذاتی وجود ہے ۔ خارج و باطن ،ادارک و حواس روح مطلق کے صفاتی منظر نامے ہیں۔جہاں تک ہر ادراک کی اپنی اپنی تفہیم کی بات ہے تووہ دراصل اس کی تخلیقی اپج ہے۔تجربے کی وسعت ہے ۔ادھورے اور مکمل مطالعے کی عکاس ہے۔ “

میں نے نروان کے جملے کو کاٹتے ہوئے کہا ۔”کیا دو مختلف حواس و ادارک کی ہر حرکت اورخارج کے ساتھ ہر تعلق ایک جیسا ہو سکتا ہے۔ “

نروان نے کہا ۔ ”نہیں یہ ممکن نہیں ۔دو شخص ایک جیسی زندگی نہیں بسر کر سکتے ۔ ان کی زندگی میں کہیں مماثلت تو ہو سکتی ہے مگر مکمل طور پر ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔“

پہلی آواز جوانی کی سنائی دی ہے

(ریل کے ڈبے میں آگ)

اور پھر جھلساتی ہوئی گرم ہوا کا ایک تیز جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا اور میری آنکھ گھل گئی ۔یہاں بریڈفورڈ میں بھی سورج نکلا ہوا تھا اور اس کی کرنیں کھڑکی سے گزر کر میرے چہرے پر پڑ رہی تھی خاصی صبح ہو چکی تھی میں جلدی جلدی تیار ہو کر دفتر پہنچ گیا ۔آج وہیں ناشتہ کیا اورسوچنے لگا کہ جس صورت حال سے میں دوچار ہوں اس میں ورما کتنی دیر میرے ساتھ چلے گا۔مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اسکے سادھو جی نے اسے کہہ دیا ہے کہ مجھ سے علیحدگی اختیار کر لے ۔آج سے میں نے اپنے بزنس کو اس انداز میں دیکھناشروع کر دیا تھا کہ اگرورما علیحدہ ہوجائے تو مجھے کیا کیا کرنا پڑے گا۔میرے دماغ میں یہ بات ایک بار پہلے بھی آئی تھی ۔مگرآج مجھے ورما کچھ زیادہ ہی کھچا کھچا سا لگا۔اس کا چہرہ ویران ویران لگ رہا تھا یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ تمام رات نہیں سو سکا ۔میں نے اس سے سادھو جی کے بارے میں بھی پوچھا تو اس نے کچھ صحیح جواب نہیں دیا تھا گول مول سی بات کہہ کر موضوع بدل دیا تھا۔ آج دفتر سے بھی ورما دوپہر کو ہی چلا گیا تھا یہ کہہ کرکہ میں نے کہیں جانا ہے بہر حال میں دفتر میں کام کرتا رہا ۔ پھر نور آگئی آقاقا فا کے پاس جانے کا وقت ہو گیا اور ہم وہاں پہنچ گئے ۔آقا قافا کی مجلس شروع ہوئی انہوں نے کل جہاں اپنی کہانی چھوڑی تھی وہیں سے آغاز کیا

کندیاں ریولے سٹیشن پر آدھا گھنٹہ گاڑی نے رکنا تھا کیونکہ وہاں گاڑی کا انجن تبدیل کیا جاتا ہے اور میں گاڑی سے نیچے نہیں اترنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ میرے دوست پلیٹ فارم پر موجود ہوں گے اور وہ مجھے اس عورت کے ساتھ بھکر نہیں جانے دیں گے۔ ادھر وہ عورت مجھے دو بار کہہ چکی تھی کہ جاﺅ نیچے سے چائے کے دو کپ لے آﺅ۔ اپنے پرس سے روپے نکال کر مجھے پکڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ عورت کو شاید احساس ہوگیا تھاکہ میں نیچے نہیں اترنا چاہتا، اس نے کہا کیا بات ہے پلیٹ فارم پر جانے سے گھبرا کیوں رہے ہو تو میں نے اسے کہا، پلیٹ فارم پر میرے دوست میراانتظار کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو مجھے تمہارے ساتھ نہیں جانے دیں گے۔

اللہ اللہ کر کے گاڑی چلی اور میری جان میں جان آئی کہ اب مجھے اس عورت کے ساتھ جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں بستر بند پر بیٹھ گیا اور عورت نے اپنی ٹانگیں اپنی سیٹ پر سمیٹ لیں، مجھے احساس ہوا کہ اسے بیٹھنے میں دقت ہو رہی ہے تو میں کھڑا ہوگیا اور کہا تم اپنی ٹانگیں لمبی کر لو۔ مگر جب اس نے انکار کر دیا، سو مجھے مجبوراً بستر پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑا۔ پونے تین گھنٹوں کے اس سفر میں ہم نے دنیا جہاں کی تمام باتیں کیں مگر ایک دوسرے کے بدن کو ہاتھ نہیں لگایا۔ شاید عورت کو احساس ہوگیا تھا کہ یہ بچہ ابھی جوان ہو رہا ہے۔ ممکن ہے اس سے برداشت نہ ہو۔ اس کا نام سائیکی تھا اور پھر آقا قافا نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’تمہاری سائیکی ‘‘وہ عورت میانوالی ضلع کی تحصیل عیسیٰ خیل کی رہنے والی تھی اور بھکر میں گرلز ہائی سکول میں ٹیچر تھی۔ چھٹیاں گزارنے کے بعد واپس ڈیوٹی پر جا رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ بھکر میں اکیلی رہتی ہے۔ اس نے کہا وہ لڑکیوں کے بورڈنگ ہاﺅس کی انچارج ہے اور خود بھی وہیں رہتی ہے، ہم بھکر اسٹیشن پر اترکر ٹانگے میں بیٹھے اور بورڈنگ ہاﺅس پہنچ گئے۔ چوکیدار نے دروازہ کھولا۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی کی حیثیت سے چوکیدار سے میرا تعارف کرایا اورکہا کہ اس کے کمرے میں ایک چارپائی اور لگا دے۔ بڑی بہن کے ساتھ چھوٹے بھائی کے رہنے پر اسے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ اس نے فوراً ایک چار پائی اس عورت کے کمرے میں لگا دی۔ میں عمر میں چھوٹا تھا مگر قد بت کے اعتبار سے اس وقت بھی جوان دکھائی دیتا تھا اورپھر اس نے کنڈی لگا دی اور لائٹ آف کر دی۔ ابھی ہم گناہ کے عمل کے رستے میں تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے آواز دے کر پوچھا کون ہے۔ مگر کوئی جواب نہیں۔ اس نے مجھے سرگوشی میں کہا تم چارپائی کے نیچے چلے جاﺅ۔ میں چارپائی کے نیچے گھس گیا اور اسی لمحے دروازے کی کنڈی پر باہر سے فائر ہوا۔ کنڈی ٹوٹ گئی دروازہ کھل گیا۔ دو فائر اور ہوئے میں نے اس عورت کی چیخ سنی اور پھر دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز۔ میں تھوڑی دیر کے بعد نیچے سے نکلا میں نے لائٹ آن کی تو دیکھا کہ اس عورت کی خون میں لتھڑی برہنہ لاش زمین پر پڑی ہے ۔سائیکی مر چکی تھی ( منصور آفاق تم ایک مردہ سائیکی کے ساتھ پھرتے ہو ) ۔مجھے کچھ سمجھ نہ آیا اور میں دوڑ پڑا۔ دوڑتا ہوا میں دروازے کی طرف آیا، دروازہ کھلا ہوا تھا میں گلی میں دوڑتا چلا گیا اور مجھے احساس ہوا کہ میں بالکل ننگا ہوں باہر بے پناہ سردی تھی مگر مسلسل دوڑنے کی وجہ سے یا خوف کی وجہ سے مجھے اس کا بالکل احساس نہیں ہوا۔ دوڑتے دوڑتے میں اپنے مکان پر پہنچ گیا مگر اس کو تالا لگا ہوا تھا دیوار پھلانگ کر اندر چلا گیا۔ مجھے کپڑوں کی تلاش تھی۔ ایک جگہ ایک رنگ سے بھرا ہوا جوڑا مل گیا۔ یہ شاید ان مزدوروں کا تھاجو مکان میں سفیدی کا کام کر رہے تھے۔ میں نے وہ کپڑے پہن لئے اور وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔ پاﺅں بھی ننگے تھے۔ بہرکیف بڑی مشکل سے اپنا ایک ماموں زاد بھائی جو میرا ہم عمر تھا اس تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا اور اسے کوئی الٹی سیدھی کہانی سنا کر مطمئن کر لیا۔ اس کے جوتے اور کپڑے پہن کر اور اسے میانوالی تک جانے کا کرایہ لے کر خاموشی سے میانوالی واپس آگیا۔ تمام دن یہی سوچتا رہا اس قتل کے کیس میں کہیں میرا نام نہ آ جائے۔ میں مطمئن تھا کہ میرے لباس میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے میری پہچان ہو سکے۔ سوائے اس چوکیدار کے۔ چوکیدار کو میرا چہرا ضرور یاد ہوگا۔“

جاں ستم سے کرم تلک پہنچی

(علاج بالمثل کی روشنی )

آقاقافا یہاں تک پہنچا تھا کہ ورما بھاگتا ہوا ور لیونگ روم داخل ہوا اور چیخ چیخ کر آقا قافا سے کہنے لگا

مجھے بچا لیجئے مجھے بچا لیجئے“ اور کارپٹ پر گرپڑا آقا قافا اس کے قریب آئے اس کے چاروں طرف انگلی سے ایک لکیر کھینچ دی لکیر مکمل ہوتے ہی ورما اٹھ کر بیٹھ گیا اور کارپٹ سے اٹھ کر کرسی پر بیٹھنے کےلئے کرسی کی طرف بڑھنے لگا ہی تھا تو آقا قافا نے کہا ”وہیں رہو کارپٹ پر بیٹھے رہو۔تمہیں سزا دی گئی ہے ۔کیا وہ سبز کپڑا تمہارے پاس ہے “

ورما نے کہا ۔ ”نہیں نہیں ہے“

آقا قافا یہ سن کر اندر چلا گیا اورایک مورتی لا کر ورما کو دیتے ہوئے کہا ۔” اس کو اپنے تمام بدن پر اچھی طرح پھیرتے رہوابھی سب اثر زائل ہوجائے گا۔“

ورما نے جیسے وہ مورتی بدن پر پھیرنی شروع کی اس کی حالت بہتر ہوتی گئی تھوڑی دیر بعد وہ ایک کرسی پر بیٹھ کر آقا قافا کو اپنی کہانی سنا رہا تھا مجلس ختم کردی گئی تھی ،وہاں صرف میں، نور اور آقاقافا موجود تھے ۔ورما کہہ رہا تھا

میں اسی رات یہاں سے سید ھا سادھو جی کے پاس گیا تھا انہوں نے جاتے ہی مجھ سے وہ سبز کپڑالے کر آگ میں پھینک دیا اور کہا ۔”یہ شہر چھوڑ دو اگر اب تم کبھی اپنے پارٹنر آقا قافا سے ملے تو میں تمہیں سزا سے نہیں بچاسکوں گا ۔میں نے رحم کی درخواست کی مگر وہ یہ جملہ کہتے ہی غائب ہو گئے ۔ آج صبح میری ملاقات جب منصور سے ہوئی تو مجھے خیال آیا کہ سادھوجی اسے ہی آقا قافا قرارد یتے ہیں اور میری تو اس سے ملاقات ہوگئی ہے ۔ میں پھر سادھو جی کے پاس چلا گیا وہ وہاں نہیں تھے میں ان کے انتظار میں کئی گھنٹے انہی کے کمرے میں بیٹھا رہا اور جیسے ہی مایوس ہو کر وہاں سے نکلا تو مجھے محسوس ہونے لگا کہ مجھے کچھ ہونے لگا ہے ۔میرے تمام جسم میں سوئیاں چبھ رہی ہیںاور مجھے سادھو جی کی آواز سنائی دی تم نے میرا کہنا نہیں مانا ۔اب میں تمہیں سزا نہیں بچا سکتا ۔میں نے یہ جملہ سنتے ہی کار آپ کے گھر کی طرف موڑدی ۔میں نہیں بتا سکتا کہ میں یہاں تک کیسے پہنچا ہوں۔ مگر مجھے اس بات پر بڑی حیرت ہوئی ہے کہ آپ مسلمان ہیں مگر آپ نے مجھے جسم پر پھیرنے کےلئے ایک مورتی دی جب کہ آپ کے نزدیک یہ شرک ہے “

آقا قافا بولے ۔’ ’وہ مورتی مٹی کی ایک مورتی ہے اس میں کوئی کمال موجود نہیں۔میں نے اس پر چند آیتیں پڑھ کر پھونکی ہیں اور اسے دوا کے طور پر استعمال کیا ہے بالکل اسی طرح جب جسم میں کہیں درد ہو تو کسی پتھر کو گرم کرکے اس سے لوگ ٹکور کرتے ہیں تو درد میں افاقہ ہو جاتا ہے ۔اس کے لیے مورتی کا استعمال اس لئے کیا ہے کہ تم نظریاتی اعتبار سے ہندو ہو اور علاج میں یقین کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔“

ورما نے پو چھا ۔” مگر اب کیا ہو گا“

آقا قافا بولے ۔ ”جب تک یہ مورتی تمہارے پاس رہے گی تمہارے سادھو جی کی روحانی قوتیں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی “

نور بولی ۔”کیا سادھو جی کی قوت کو بھی روحانی قوت کہیں گے۔“

آقا قافا کہنے لگے۔ ’ ’تمہارے لئے سادھو بابا کی قوت شیطانی قوت ہے مگر ورماکےلئے وہ روحانی قوت ہے ۔میں ذاتی طور پر خیر اور شرکے فرق کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتاکیونکہ دونوں کا بنیادی ماخذ ایک ہے اور میںاس ایک وحدت کا پجاری ہوں۔جس کے سوا اور کسی شے کاوجود نہیں ہے۔ اس وحدت کی کثرت میں خیر بھی ہے اور شر بھی ۔دوزخ اور جنت بھی ۔دن اور رات بھی ۔عدم اور وجود بھی ۔آدم اور ابلیس بھی ۔کوئی شے بھی اس وحدت سے الگ نہیں لیکن کثرت کے کسی جلوے کو اس وحدت کامکمل اظہار نہیں کہا جاسکتا۔اسی لئے ایک جلوے کی عبادت حرام قرار دی گئی ہے۔“

ورما نے پوچھا ۔”آپ کیسے سادھو جی کی قوتوں کو شیطانی ثابت کرتے ہیں میں اس بات کو سمجھنا چاہتا ہوں۔“

آقاقافا بولے ۔ ”سنو میں آج تمہیں تمہارے رام ورماکی کہانی سنا تا ہے ۔رام ورمابنیادی طور پر کان کن تھے نمک کی کان میں مزدوری کرتے تھے اور ایک شوہر کی طرح زندگی گزار رہے تھے ان کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن بیوی بہت زیادہ خوبصورت تھی اتنی خوبصورت کہ اس کے حسن کا دور دور تک چرچا تھا آج کے یہ سادھو بابا بھی اس سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے ان کی زندگی میں بس ایک شے تھی اور وہ ان کی بیوی تھی مگر افسوس کہ بدقسمتی ان کی بیوی کے چال چلن اچھے نہیں تھا اس نے کئی اور لوگوں کے ساتھ بھی ناجائز مراسم قائم کر رکھے تھے ۔ تمہارے رام ورما کے خیرخواہ اسے بناتے رہتے تھے مگر انہیں اپنی بیوی پر اندھا اعتقاد تھا وہ بتانے والے کے دشمن ہو جاتے تھے مگر بیوی کو کوئی بات نہیں کہتے تھے ایک دن اتفاق سے انہوں نے خود اپنی بیوی کو کسی اورکے ساتھ حالتِ مباشرت میں دیکھ لیا جس کا پتہ ان کی بیوی کو نہیں چل سکا تھا ۔انہوں نے ایک دو دن کچھ سوچا اور پھر بیوی کو کہا کہ آﺅ گھومنے پھرنے چلتے ہیں یہ لوگ دریا کے کنارے ایک قصبے میں رہتے تھے۔ نمک کی کانیں دریا کے دوسری سمت تھیں اور ادھر جانے کےلئے کشتی سے دریا عبور کرنا پڑتا تھا۔نمک لانے کےلئے دریا کے اوپر ”روب وے“ لگی ہوئی تھی۔وہ بیوی کو لے کر کشتی میں بیٹھ گئے ۔بیوی نے اسے کہا”کیا بات ہے آج یہ دریا بہت خاموش ہے“تو رام ورما کہنے لگے ’جب یہ بولتا ہے توپھر لیکھوں والے ہی دوسرے کنارے تک پہنچتے ہیں‘۔ بیوی نے کہا ” مجھے لگ رہا ہے یہ سورج نمک کی کان میں اتر جائے گا اسے بھی شاید نمک کی بھینٹ چڑھنے کےلئے اتارا جا رہاہے “ تو رام ورمانے حیرت اور پر یشانی سے کہا کہ ”تم کچھ پریشان لگتی ہو “ان کی بیوی بھی بڑی سمجھدار تھی کہنے لگی ”نہیں نہیں بس سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ نمک میں مٹھاس کس حدتک ہے“رام ورمانے حیرت سے پوچحا”نمک میں مٹھاس“وہ کہنے لگی ”ہاں نمک میں مٹھاس ۔۔ہڈیوں کو چاٹ جاتی ہے جس نمک کی مٹھاس ۔اور پھر وہ

دوسرے کنارے پر اتر گئے۔ شام کا وقت تھا سورج ڈوبنے والا تھا وہ اپنی بیوی کے ساتھ غار میں داخل ہوے ۔اورپھر بڑی محبت اور احتیاط سے بیوی کا دوپٹہ اس کے گلے میں ڈال کر اسے قتل کر دیا ۔یعنی دریا پار کرتے ہی بیوی زندگی کے اس پار چلی گئی رام ورماکافی دیر تک اس کی لاش سے وہیں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے ۔ رات ہوئی تو انہوں نے لاش کاندھے پر اٹھا ئی اور چلتے ہوئے نمک کے کان میں داخل ہوئے۔رات کے وقت وہاں کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔کسی کو خبر بھی نہ ہوئی اور وہ لاش اٹھا کر کان ایک ایسے حصے میں چلے گئے جہاںجانا ممنوع تھا اس جگہ پر باقاعدہ بورڈ آویزاں کیا ہوا تھا کہ کان کا وہ حصہ کسی وقت بھی گر سکتا ہے۔انہوں نے اندر جا کر لاش ایک جگہ پر لٹا دی اور پھر اس کے چاروں طرف شیشے کی طرح شفاف نمک کی پلیٹیں رکھ دیں اور اوپر سے بھی نمک کی ایک بالکل شفاف پلیٹ سے ڈھانپ دیا ۔اب تمہارے سادھو جی کا یہ معمول بن گیاکہ روز صبح آتے تھے اور کان کے اسی حصے میں چلے جاتے تھے ۔وہاں اپنی مقتول محبوبہ سے گھنٹوں باتیں کرتے رہتے تھے۔کوئی اور خوف کی وجہ سے ادھر جاتا نہیں تھا کیونکہ وہ حصہ واقعی بہت خطرناک تھے بہت سے دوستوں نے رام ورما کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ باز نہ آئے اور پھر ایک دن وہی ہوا جس کا ڈر تھا سادھو بابا اندر تھے اور کان گرپڑی کوشش کی گئی کہ کسی طرح اس جگہ کو دوبارہ کھود کر ان کی لاش نکالی جائے اس کوشش میں تقریبا اکتالیس دن صرف ہوئے ۔ کان کن جب حصے میں پہنچے تو انہوں یہ حیرت انگیز منظر دیکھاکہ تقریباً بارہ فٹ کا علاقہ بالکل محفوظ ہے نمک کے شیشے کے جار میں سادھو بابا کی بیوی لیٹی ہوئی بالکل اسی طرح جیسے ابھی ابھی سوئی ہو اور اس کے پاس سادھو بابا التی پالتی مار کر بیٹھے ہیں اور کچھ پڑھ رہے ہیں ۔ چالیس دن ہوا، پانی اور خوراک کے بغیر زندہ رہنے کی کرامت اتنی بڑی شے تھی کہ لوگ ان کی بیوی کی لاش کو بھول گئے اوررام ورما کو دیوتا قرار دیا گیا ۔پھر رام ورما سچ مچ دیوتا بننے کےلئے ہمالیہ کے ان پہاڑوں میں چلے گئے جہاں کچھ نسلیں صدیوں سے ہمیشہ زندہ رہنے کی کوشش کر رہی ہیں اور زیادہ سے زیادہ غیر مرئی قوتوں کا حصولان کی زندگی کا مرکز و محور بن گیا۔یہ ہے تیرے سادھو جی کی کہانی۔۔۔

ورما بولا ” ۔مگر انہوں نے اپنی بیوی قتل تو ٹھیک تھا وہ بری عورت تھی “

۔آقاقافا کہنے لگے ۔”یہ تواپنے اپنے حالات کے تناظر میں اپنے اپنے قوانین کی بات ہے مگر کہیں بھی فرد کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔“

ورمانے پوچھا ۔”یہ کہانی آپ کو خود سادھو جی نے سنائی ہے “

تو آقا قافا بولے ۔’نہیں کچھ سادھو بابا کے ایک پرانے دوست نے اور کچھ ان کی بیوی نے “

ورما نے حیرت سے کہا ۔”مرنے کے بعد “

توآقاقافا ہنس پڑے اور کہنے لگے ۔”یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم روحوں کو بلا کر ان سے گفتگو کرنے کے تجربے کیا کرتے تھے “

نور بولی ” ۔”آپ روحوں کو بھی بلا سکتے ہیں ؟ میری خواہش ہے کہ میں اپنے باپ کی روح سے بات کروں “

آقا قافا سنجیدگی سے کہنے لگے ۔” ان کے قتل کے متعلق تمہیں جو کچھ علم ہے وہی سچ ہے روحوں کو بلانا کوئی اچھا عمل نہیں“ ۔

ایک لڑکی جیسے حیرت کی کتاب

(ہر ورق اسرار بستہ زندگی )

وہاں سے نکلتے ہی میں نے نور سے پوچھا ۔”تمہارے باپ کو کسی نے قتل کیا تھا “

نور ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔”ہاں ان کے سگے بھائی نے “

میں نے حیرت سے پوچھا ۔”کیوں“

بولی ۔”بہت لمبی کہانی ہے چند جملوں میں مکمل نہیں ہو سکتی“

اب نور بھی مجھے پریشان کرنے لگی تھی ایک تو میں کئی دنوں سے یہ معلوم کرنا چاہ رہا تھا کہ آقا قافا کا یہ محل کہاں سے آیا ہے ۔وہ اس کے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں بجلی اور گیس بل کون دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔نور یہ تسلیم کرتی تھی کہ ان سب سوالوں کے جواب اس کے پاس ہیں مگر میں جب بھی پوچھتا تھا بات گول کر جاتی تھی آج اس کے متعلق ایک نئی بات کی خبر مجھے مجبوری کر رہی تھی کہ کہیں سے نور کی مکمل ہسٹری شیٹ حاصل کی جائے کہ یہ کیاچیز ہے مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ اس کے ماں باپ کے ساتھ جو فوت ہو چکے ہیں اس لئے اکیلی رہتی ہے اور ابھی تک اس نے شادی نہیں کی۔ میں نے نورسے کہا ۔” آج تمہیں بتاناہو گا کہ جس مینشن میں آقا فاقا رہتے ہیں ۔یہ کہاں سے آیا ہے ۔ان کے اخراجات کہاں سے آتے ہیں۔”

نور بولی ۔ ”بتاﺅں گی مگر پھر کسی وقت۔

میں نے بضد ہو کر کہا۔’’آج تم مجھے یہ بتائے بغیر یہاں سے جا نہیں سکتی“

نور ماتھے پر شکنیں ڈال کر کہنے لگی ۔”بڑی طویل کہانی ہے سنانی شروع کی تو ختم نہیں ہوگی“

میں نے کہا ۔”جو کچھ بھی ہے میں نے معلوم کرنا ہے ۔“

نوربولی ۔ ”وہ مینشن میرا ہے اور ان کے تمام اخراجات میں برداشت کرتی ہوں(میرا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا)۔اب یہ پوچھو کہ میں کون ہوں“

میں نے انتہائی پریشانی کے عالم میں کہا ۔”اب اگر تم اپنے بارے میں سب کچھ سچ سچ نہیں بتاﺅ گی تو ہمارے درمیان جواعتماد کی فضا ہے شاید وہ مجروح ہو جائے “

نور ہنس کربولی ۔ ”اتنا زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔ میرا خاندانی نام نور ہے اور میں نواب آف دھن کوٹ کی اکلوتی وارث ہوں“اور پھر بڑبڑاتے ہوئے ”پتہ نہیں تم سے کیا تعلق ہے نو ر بھی منصور کا ہی حصہ ہے“

میں نے کہا ۔”نوابزادی صاحبہ میں کسی مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں “

نور بولی ۔”میں جارہی ہوں جب تک مجھ پرآقا قافا اور تمہاری کہانی واضح نہیں ہوتی میں اپنے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی“

اورپھر نور چلی گئی میں نے کچھ دیر سوچا اور پھر اپنے دوست رضا ملال کو فون کیا ۔رضاملال نے جب مجھے لیڈز یونیورسٹی میں لیکچر کےلئے بلایا تھا تو وہاں نور سے پہلی ملاقات ہوئی تھی اور نور نے اس بات کا بھی اقرار کیا تھا کہ رضا ملال نے اس کے کہنے پر مجھے یونیورسٹی میں دعوت دی تھی میں نے رضا ملال سے پوچھا کہ نور کے ماضی کے متعلق مجھے کہاں تفصیل مل سکتی ہے تواس نے کہا ”میں نے نور کے بارے میں صرف جانتا ہوں کہ اس کا شمار برطانیہ کے امیر لوگوں میں ہوتا ہے “

پہلا مرشد بابا جیب تراش مرا

(اُس جیسا کوئی کہاں فنکار)

دفتر کے کام ختم کر کے جب آقا قافا کی مجلس میں پہنچاتوآ قافا کی مجلس شروع ہو چکی تھی ایک شخص ان سے سوال کر رہا تھا ” سوویت یونین کے ٹوٹنے کی وجہ آپ کے نزدیک کیا ہے۔ “

نور نے میری طرف دیکھا اور اشارہ سے کہا کہ اس کے پاس آکر بیٹھ جاﺅں ۔میں روز کی طرح نور کے پہلو میں جا کر بیٹھ گیاآقا قافا کہنے لگے۔ ”میرے نزدیک سوویت یونین کے ٹوٹنے کی وجہ سرخ رنگ ہے۔اس پر تفصیل سے کل بات کریں گے اور کسی اور بھی آنا ہے شاید اس کا موضوع بھی سرخ رنگ ہوگا۔میرا خیال ہے مجھے اپنی کہانی شروع کرنی چاہئے ۔ہاں تواس قتل کے واقعے کو بیس پچیس دن گزر گئے اور میں مکمل طور پر مطمئن ہوگیا تھا کہ اب مجھ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا کہ ایک دن اچانک پولیس آئی اور مجھے گرفتار کر کے لے گئی۔ پولیس مجھ تک اس ٹیلر ماسٹر کی وساطت سے پہنچ گئی۔ میں جس سے کپڑے سلوایا کر تا تھا۔ میں نے جو سوٹ وہاں اتارا تھا اس پر ٹیلر ماسٹر کی دکان کا مارک لگا ہوا تھا اور درزی کو جب وہ سوٹ دکھایا گیا تو اس نے فوراً پہچان لیا کیونکہ اس کا ڈیزائن میں نے خود اس ٹیلر ماسٹر کو سمجھایا تھا اور وہ مجھے بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ جو کچھ سچ تھا میں نے پولیس کو بتا دیا مگر پولیس نے میرا بارہ دن کا ریمانڈ لیا ہوا تھا۔ مجھے ایک دوست یہ جملہ بار بار یاد آتا تھا۔’’پولیس والے ایسی تفتیش کرتے ہیں کہ ہتھیلی پر حشیش اگا لیتے ہیں ‘‘۔میں ڈرا سہما تھانے میں پہنچ گیا۔مجھے بارہ دن تھانے کی حوالات میں گزارنے تھے۔جب مجھے حوالات میں بند گیا تو وہاں تین آدمی موجود تھے ۔ زمین پر چٹائی بچھی ہوئی تھی۔کھجور کے سخت پتوں سے بنی ہوئی چٹائی۔

تھانے کی حوالات میں ایک شخص مجھ سے پہلے قید تھا۔ دیکھنے میں وہ کوئی ولی اللہ معلوم ہوتا تھا۔ بڑی سفید ریشمی داڑھی تھی۔ لباس بھی صاف ستھرا پہنے ہوئے رہتا تھا۔ مجھے اس کی طرف دیکھتے ہوئے یوں لگتا تھا جیسے اس کے چہرے سے نور کی شعائیں خارج ہو رہی ہیں۔ وہ تمام رات عبادت کرتا رہتا تھا میں نے ایک دن اس سے سوال کیا۔ بابا آپ جیسے بزرگوں کا حوالا ت میں کیا کام۔ آپ کو یہاں کیوں قید کیا گیا ہے؟ تو اس نے کہا۔ بیٹے مجھے بابا جیب تراش کہتے ہیں اور میں دنیا کا سب سے بڑا جیب تراش ہوں۔ میں نے پریشانی سے کہا۔ نہیں آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ آپ جیب تراش نہیں ہو سکتے تو کہنے لگے میں تمہارے قریب تو نہیں آیا۔ میں نے تمہیں ہاتھ تو نہیں لگایا۔ اس کے باوجود بھی میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ تمہاری جیب میں کیا کچھ ہے۔ تمہاری جیب میں ساٹھ روپے اور پچاس پیسے ہیں اور میں نے اپنی جیب سے رقم نکال کر گنی وہ واقعی اتنی تھی اور خود مجھے بھی اندازہ نہیں تھا کہ میری جیب میں کتنے پیسے ہیں۔ میں نے بابا سے پوچھا کہ تمہیں اس کا علم کیسے ہوگیا تو اس نے کہا کہ ایک وقت آئے گا جب تمہیں خبر ہو جایا کرے گی۔ میں نے کہا نہیں بابا میں جیب تراش نہیں بن سکتاتو ہنس پڑے اور کہنے لگے۔بیٹے ساری دنیا جیب تراش ہے اور بڑی بڑی طاقتور قومیں چھوٹی چھوٹی اور پسماندہ قوموں کی جیبیں تراشتی ہیں۔ حکومتیں کرنے والے اپنی عوام کی جیب تراشتے ہیں۔سرمایہ دار مزدور کی جیب تراشتا ہے اور جاگیر دار اپنے مزارعے کی جیب تراشتا ہے۔ دنیا میں جسے دیکھو وہی جیب تراش ہے حتیٰ کہ مولوی تک مولوی جو مسجد کا امام ہے وہ اپنے نمازیوں کی جیبیں تراشتا ہے۔ مجھے تو بیٹا اپنے بابا کے جیب تراش ہونے پر فخر ہے۔ میں کچھ اور پوچھنا چاہ رہا تھا کہ انہوں نے کہا کہ میراا س حوالات سے جانے کا وقت ہو گیا ہے تمہاری اور میری ملاقات چند دن کے بعد ہوگی۔ پھر تمہیں سمجھاﺅں گا کہ جیب کس طرح تراشی جاتی ہے اور اسی لمحے حوالات کا دروازہ کھلا اور ایک سپاہی نے بابا جیب تراش کو باہر آنے کا کہا۔ بابا جیب تراش نے جاتے ہوئے میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور حوالات سے نکل گئے۔ میں حیران و پریشان انہیں سلاخوں سے باہر جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔ انہیں کی طرح کا ایک باریش آدمی ان کا انتظار کر رہا تھا اور پھر وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ میں نے حوالات میں دیکھا کہ جو جائے نماز وہ اپنے ساتھ لائے تھے وہ اٹھا کرنہیں لے گئے۔ میں نے سپاہی سے کہا میں وضو کرنا چاہتا ہوں۔ پھر جو دن میں نے اس حوالات میں گزارے اس میں اللہ کی عبادت ہی کرتا رہا۔ بابا کی طرح نماز یا نفل پڑھتا رہتا تھا یا قرآن حکیم کی تلاوت کرتا رہتا۔ابا جان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پولیس والوں نے مجھے کبھی تنگ نہیں کیا تھا۔ وہ اکثر اوقات میرے یہ مطالبات پورے کر دیتے تھے۔ بارہ دن کے بعد مجھے تھانے کی حوالات سے جیل کی حوالات میں منتقل کر دیا گیا“ اور آقا قافا کچھ دیر کیلئے خاموش ہوگئے اور پھر بولے

باقی حصہ اگلی مجلس میں۔ اب تم سب جاﺅ مجھے کچھ دیر تنہائی کی ضرورت ہے۔“

اس جملے پر سب نے آقا قافا کو حیرت سے دیکھا۔ انہوں نے اس طرح کی بات کبھی کسی سے نہیں کی تھی۔ سب لوگ خاموشی سے باہر آگئے۔ نور نے مجھ سے کہا۔

میرے لئے آقا قافا کا آخری جملہ حیرت انگیزہے۔ انہوں نے اس طرح کی بات کبھی نہیں کی۔ کبھی اپنی کسی ضرورت کا اظہار نہیں کیا ۔یہ ان کے مزاج میں ہی نہیں ہے ۔ کوئی خاص بات ضرور ہے

میں نے ہنس کرکہا

آقا قافا کو چھوڑو اپنے متعلق بات کرو “

نور بولی

صبر کرو ۔“

نور نے بھی کہیں جانا تھامجھے بھی دفترمیں ایک بڑا اہم کام تھا ۔مگر دفتر میں اس کام پر کچھ زیادہ وقت نہیں لگا۔ مجھے نور کا فون آیا کہ فوراً آقا قافا کے گھر پہنچو ۔ اندر نہ جانا میں باہر تمہارا انتظاکروں گی اور میں ہوا کی طرح اڑکر وہاں پہنچ گیا نور سڑک پر موجود تھیں میں نے کار ایک کھڑی کرتے ہوئے پوچھا

خیریت ہے“

نور بولی

کچھ لوگ آقا قافا کے پاس آئے ہوئے ہیں اور اسے مجبور کر رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ چلواور آقا قافا انکار کر رہے ہیں مگر وہ بضد ہیں ۔کہتے ہیں کہتے ہیں ہم تمہیں ساتھ لے کر جائیں گے“

میں نے پریشانی سے پوچھا

کون لوگ ہیں۔ کسی پولیس سے تعلق ہے “

نور کہنے لگی

نہیں کوئی سادھو ہیں ۔ میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا کہ مجھے کہیں کام جانا ہے تمہارے جانے کے بعد میں نے اپنے یہاں قریب ہالی لین کی پارکنگ میں کھڑی کی اور پیدل واپس محل میں چلی آئی ۔میں چھپ کر دیکھا کہ آقا قافا کیا کررہے ہیں تو مجھے ان کے کمرے میں تین آدمی دکھائی دئیے پھر میں نے ان کی گفتگو سنی ۔ آقا قافا ان کی وجہ سے مجھے خاصے پریشان دکھائی دئیے اس لئے میں نے تمہیں فون کیا ہے“

نور گفتگو کرتے ہوئے میرے ساتھ کار میں بیٹھ چکی تھی میں نے کار محل کے گیٹ کی طرف موڑ دی ۔نور نے پریشان ہو کر پوچھا

کیا کرنے لگے ہو“

میں نے کہا

اندر جانے لگا ہوں آقا قافا سے “

نور بولی

مگر انہوں نے کہا تھا مجھے تنہائی کی ضرورت ہے “

میں نے نور سے کہا

نور میرا دل کہہ ہے کہ اس وقت آقا قافا کو میری ضرورت ہے “

اور پھر ہم دونوں تھوڑی دیر میں لیونگ روم میں پہنچ چکے تھے ۔ میں نے نور سے کہا

مجھے آقا قافا کے کمرے میں لے چلو “

پھر نورکے پیچھے پیچھے محل کے اندر میں ایک دروازے تک پہنچ گیا ۔ نور نے اشارے سے بتایا کہ یہی آقا قافا کا کمرہ ہے میں اس پر ہلکی سے دستک دی اندر سے آقا قافا کی آواز آئی

دونوں اندر آجاﺅ“

ہم دونوں اندر داخل ہوئے کمرے میں آقا قافا کے علاوہ تین سادھو بھی موجود تھے ۔ انہوں نے ہمیں دیکھتے ہی آقا قافا سے کہا

تم نے کیوں بلا یا ہے، اسے “

آقا قافا بولے

میں نے نہیں بلایا یہ خود آیا ہے “

میرے ذہن میں فوراً آیا کہ معاملہ میرا ہی ہے۔ انہیں نور کے اندرآنے پر کوئی اعتراض نہیں یہ صرف میری بات کر رہے ہیں ۔ میں نے ذہنی طور پر اپنے مظہر قیوم صاحب کو آواز دی ۔ ہر مشکل مسئلہ میں مجھے وہی یاد آجاتے تھے۔ سادھو کچھ دیر میری طرف دیکھتے رہے پھر ایک سادھو نے آقا قافا سے کہا

اگر تم نے نہیں بلایا تو پھر اس کے آنے کی ہمیں خبر کیوں نہیں ہوئی ۔ہمیں یہ تو معلوم ہو رہا تھا کہ ایک لڑکی اندر آرہی ہے مگر یہ احساس نہیں ہورہا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی اور بھی ہے جب کہ تمہیں دونوں کی آمد کی خبر ہو رہی تھی“

آقا قافا بولے

اس کے پاس بھی کوئی روحانی شکتی موجود ہے۔دوسرا میں کچھ نہیں ہوں جو کچھ یہی ہے“

ایک سادھو جو مسلسل خاموش تھا اس نے کہا

تم جانتے ہو نروا رام مر چکا ہے اور مہا سادھو کا حکم ہے کہ تم نے اپنا علیحدہ وجو د برقراررکھنا ہے ۔ ہم جا رہے ہیں تم ہمارے ساتھ نہ آﺅ مگر تمہیں اپنا وجود ختم کرنے کی اجازت نہیں ہے اگر تم نے ایسا کیا تو پھر اسے بھی زمیں پر کہیں جگہ نہیں ملے گی“

اس جملے کے ساتھ تینوں سادھو یکدم غائب ہو گئے

میں نے آقا قافا سے کہا

یہ کیا معاملہ ہے کچھ مجھے بھی شریک کریں

آقا قافا بولے

ابھی تمہارے شریک ہونے کا وقت نہیں آیا۔ تمہیں یہاں نہیں آنا چاہئے تھے ۔ اب مجھے معاملہ کسی اور طرح دیکھنا پڑے گا ۔تم جاﺅ“

نور اورمیں خاموشی سے وہاںسے نکل آئے ۔ کار میں پہنچ کر نور نے مجھ سے کہا

میرے خیال میں ہم نے وہاں جا کر ٹھیک کیا ہے آج میں پہلی بار آقا قافا سے اختلاف کر رہی ہوں “

میں نے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ نور سے پوچھا

میرے اندر اگر کوئی روحانی طاقت ہے تو مجھے اس کا احساس کیوں نہیں “

نور بولی

آقا قافا کے سوا ہمیں کہیںسے کچھ پتہ نہیں چل سکتا ۔ویسے میں نے ایک شخص تلاش کیا ہے کالے علم کا ماہر ہے بنگالی ہے ۔میری اس سے بات بھی ہوئی تھی اس نے مجھے کہا تھا میں جس وقت چاہوں اس کے پاس آسکتی ہوں مگر میں نے اس سے ملنا مناسب نہیں سمجھا تھاچلو آج اس سے ملتے ہیں دیکھتے ہیں وہ کیا کہتا ہے “

میں نے نورکے کہنے پر گاڑی سکس او سکس کی طرف موڑ لی ہمیں ہڈرز فلیڈ جانا تھا ۔ یہ شہر بریڈفورڈ سے دس پندرہ میل کے فاصلے پر ہے ہم وہاں پہنچے ایک بنگالی نے ہمیں لیونگ روم میں بیٹھا یا اور تھوڑی دیر کے بعد آکر کہنے لگی

حضرت صاحب آپ سے نہیں مل سکتے ۔ وہ کہتے ہیں آپ دونوں کے علاوہ کوئی اور بھی ہے۔جس سے ان کا ملنا ٹھیک نہیں

نور نے حیرت سے پوچھا

یعنی ہم دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا بھی ہمارے ساتھ ہے “

عورت ہاں میں سر ہلا دیا اور کہا

آپ جتنا جلدی ہو سکے ہمارے گھر سے چلے جائیں ۔ آپ کی بہت مہربانی ہوگی“

میں اورنور کار میں آکر بیٹھے تو میں نے نور سے کہا

لعنت بھیجو سب پر چلو گھر چلتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور اپنے اللہ سے روشنی مانگتے ہیں

اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ہم اپنے گھروں میں تھے ۔ میں نے کھانا کھایا عشاءکی نماز پڑھی اور لیٹ گیا۔نیند آئی تو نروان ساتھ تھا۔مجھے کہہ رہا تھا

جلدی کرو ۔ دیوی کی عبادت شروع ہونے والی ہے یا آج اس نے تمام قافلے والوں کو اپنی عبادت میں شریک ہونے کی دعوت دی ہے ۔“

ہم خیمے سے نکلے تو ایک جگہ تمام قافلے والے دائرے میں بیٹھے ہوئے تھے اور دیوی ان کے درمیان رقص کر رہی تھی کتھک ناچ رہی تھی ۔ میں نے نروان سے کہا

یہ تو رقص کر رہی ہے ۔تم نے کہا تھا عبادت کا وقت ہو گیا ہے“

نروان کہنے لگا

یہ کتھک ناچ۔۔ ایک عبادت ہے اس کے ذریعے ناچنے والا تمام بدن کی حرکات سے منتر پڑھتا ہے ۔یہ بھگوان کا پسندیدہ ترین رقص ہے۔رقاص ناچتے ہوئے اس کے آگے اپنی کتھا بیان کر رہا ہوتا ہے ۔اسی کتھا سے کتھک نکلا ہے۔ یہ کتھا کہتا ہے اس لئے کتھک کہلاتا ہے۔موہنجو داڑو میں کتھک کے بڑے رقاص موجود ہیں ۔لوگ انہیں دیوتاﺅں کی طرح پوجتے ہیں۔کتھک ناچ میں ہرحرکت کا ایک مفہوم ہے ۔ اس ناچ میں بانوے ہزار حرکات موجود ہیں ۔کتھک زندگی کی بے مائیگی کا اظہار کرتا ہے، موت کا منظر پیش کرتا ہے ۔ فطری احساسات بیان کرنے کا وسیلہ ہے ۔کہانیاں سنانے کا جسمانی انداز ہے۔ کائناتی بکھراﺅ کے مکمل سمٹاﺅکھیل کا ہے ۔وحدت میں کثرت دکھاتا ہے اورکثرت میں وحدت ۔بھگوان اور زندگی کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے ۔کتھک کرنے والا موج کی طرح ہوتا ہے جو دریا مل کر دریا بن جاتی کی طلب میں مست ہوتی ہے“

کافی دیر ہم دیوی کا رقص دیکھتے رہے پھر وہ اپنے خیمے میں چلی گئی اور ہم اپنے خیمے میں آگئے ۔میں نے نروان سے پوچھا

کتھک کے علاوہ بھی بہت سے رقص ہیں ان کے متعلق کیا خیال ہے

نروان کہنے لگا

عورت ناچنے والی ہومجھے کتھک کلی، بھنگڑا،راس لیلی، بھرت ٹاٹیم،اوڑیہ اور گریا بہت اچھے لگتے ہیں۔مرد کا رقص ہو مجھے جھمر اور لڈی پسند ہیں۔ “

میں نے بڑی سنجیدگی سے سوال کیا

تمہیں یہ بدن کے مختلف اعضاءکو قوسوں میں بدلنے سے کیسا احساس ہوتا ہے بے شک یہ عمل خوبصورت ہے مگر انسان کو جنسیت کی طرف مائل کرتا ہےاور جنسیت کا کھلا اظہارقابل ستائش چیز نہیں “

نروان کہنے لگا

رقص تو دیوتائی عمل ہے۔تمام کائنات رقص میں ہے۔ ہر لمحہ زندگی کا رقص جاری ہے جب ہوا چلتی ہے تو درخت رقص کرتے ہیں ، جب موسم آتا ہے تو پرندے اور جانور بھی ناچتے ہیں۔ تم نے مور کا رقص کبھی نہیں دیکھا۔ میرا خیال میں انسان نے پہلی مرتبہ اپنی خوشی کا اظہارناچ کر کیا ہو گا“

بس اسی گفتگو میں نیند سےملاقات ہوئی ۔دو نوں مقامات پر۔۔۔صبح اٹھا تو جلدی جلدی دفتر آگیا۔دفتر میں کام بہت زیادہ تھا۔میں کام میں لگ گیا بڑی مشکل اس وقت کام ختم ہو ا جب آقا قافا کی مجلس میں جانے کا وقت ہواتوبھاگم بھاگ وہاں پہنچامجھے احساس ہوا ہے کہ جب تک میں مجلس میں نہیں پہنچتا آقا قافا اپنی کہانی نہیں شروع کرتے آج بھی انہوں نے میرے بیٹھ جانے کے بعداپنی کہانی وہیں سے شروع جہاں کل ختم کی تھی

مجھے میانوالی جیل کے منڈے خانے میں رکھا گیااس میں تقریباً تین سو سے زائد لڑکے قیدی تھے جو حوالدار مجھے منڈے خانے تک چھوڑنے آیا تھا اس نے منڈے خانے کے ایک لڑکے کو بلا کر کہا ”یہ جیلر کا آدمی ہے اس کے ساتھ کسی طرح کی شرارت آپ لوگوں کو بہت مہنگی پڑے گی اور اس کی دوستی میں بہت فائدہ ہو سکتا ہے“ سو اس لڑکے نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لے لیا چند لمحوں کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے تمام بارک میری غلام ہو چکی ہے۔ وہ لڑکا شیدا منڈے خانے کا سب سے بڑا بدمعاش تھا اس کے چار اور ساتھی بھی تھے اور انہوں نے منڈے خانے میں اپنی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ مجھے باقاعدہ مہمان کا درجہ دیا گیا اور کہا گیا کہ آپ جتنے دن یہاں ہیں آپ نے کوئی کام نہیں کرنا ۔یہ تمام لڑکے آپ کے حکم کے غلام ہیں۔ رات سونے کے وقت شیدے نے ایک لڑکے سے کہا آج رات تم نے مہمان کی خدمت کرنی ہے دیکھ گلہ نہیں آنا چاہیئے۔ میں نے غور سے اس لڑکے کو دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ ایک کیوٹ سا بہت خوبصورت لڑکا ہے۔ شیدا اسے میرے پاس چھوڑ کر چلا گیا اور وہ لڑکا پاﺅں کی طرف سے میرے کمبل کے اندر گھس کر بیٹھ گیا اور میرے پاﺅں دابنے لگا میں نے اسے منع کیا تو اس نے کہا ”جی آپ مجھے روکیں گے تو صبح شیدا مجھے مارے گا اور آپ سے بھی ناراض ہو جائے گا“ اس کی یہ منطق سن کر میں خاموش ہوگیا اور پھر وہ میرے جسم کو دابتے دابتے پوری طرح میرے کمبل کے اندر گھس آیا اور مجھے احساس ہوا کہ وہ ایک لڑکی کی طرح مجھے سے جسمانی مراسم قائم کرنا چاہ رہا ہے۔ میں نے غصہ کے ساتھ اسے اپنے کمبل سے نکال دیا ارد گرد سوئے ہوئے لڑکوں نے مجھ سے پوچھا کیوں کیا ہوا؟ اور مجھے یوں لگا کہ یہ سب اس انتظار میں تھے کہ ابھی اس کمبل میں کچھ ہوگا۔

صبح ہوئی شیدا آیا اور کہنے لگا ”کیوں رات ہماری مہمان نوازی پسند نہیں آئی“ میں نے کہا ”وہ بہت بڑا گناہ ہے۔ میں تم کو بھی منع کروں گا کہ ایسے کام مت کیا کر“ وہ حیرت سے بولا ”یہ کیا کہ رہے ہو یہ تو گناہ نہیں ہے میں نے خود مولوی صاحب سے سنا ہے (اپنے ساتھی سے مخاطب ہوکر) ادا کرو، مولوی کو بلا لا۔ ابھی پتہ چل جاتا ہے“ اور وہ ایک نوجوان کولے آتا ہے جس نے مولویوں کی طرح داڑھی رکھی ہوئی ہوتی ہے۔ عمر میں سترہ اٹھارہ سال کا لگ رہا ہوتا ہے ۔شیدا اسے کہتا ہے ”مولوی یہ بولتا ہے لڑکوں کے ساتھ ہم بستری گناہ ہے اسے سمجھا“ اور مولوی کہتا ہے ”اسلام نے تمام برائیوں کیلئے سزائیں تجویز کی ہیں۔ اس کام کیلئے کوئی سزا نہیں مقرر کی۔ میں نے سوچا اس مولوی پر ابھی اللہ کایقینا اس قہر نازل ہوگا اور اسی لمحے ادھر سے وہی حوالدار آگیا اور مجھ سے بولا ”آﺅ تمہارا بلاوا ہے“ اور اس کے ساتھ فوراً چل پڑا وہ مجھے ایک اور احاطے میں لے گیا وہاں جا کر مجھے حیرت ہوئی کہ بابا جیب تراش کے اردگرد بہت سے قیدی اس طرح بیٹھے ہوئے ہیں جیسے کسی پیر کی کوئی مجلس ہو۔ حوالدار نے وہاں جا کر بابا سے کہا حضور میں لے آیا ہوں۔ اسے بابا نے میری طرف دیکھا اور اٹھے اور مجھے گلے لگاتے ہوئے کہا ”تم بہت بڑے آدمی بنو گے۔ یہاں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی نا“ میں نے انہیں بتایا کہ اور تو کوئی پریشانی نہیں ہوئی مگر۔۔۔۔ اور پوری تفصیل بیان کر دی۔ بابا نے کہا ”اس بدبخت مولوی کو فوراً بلایا جائے۔ تھوڑی ہی دیر میں مولوی آگیا۔ بابا نے اس مولوی کی سرزش کی تومولوی کانپنے لگا۔میں نے بابا سے کہا ’’بابا جانے دو ‘‘۔

لہو سے بھرے ہوئے ہیں مذاہب کے مقبرے

(ہر مذہب حالتِ جنگ میں ہے)

آقا قافا نے یہاں پہنچ کر مجلس ختم کرنے کا اعلان کردیا اوراندر چلے گئے ۔ میں بھی سب لوگوں کے ساتھ باہر نکل آیا ۔میری بھی وہ شام اپنے معمول کے مطابق گزر گئی ۔نور کو کوئی کام تھایا پھر وہ ناراض پھرتی تھی ورما سہما ہوا تھا ۔میں نے نروان کے پاس جانا تھاسو بستر پر لیٹتے ہی ذہن نے چھلانگ لگائی اور نروان کا ہم رکاب ہو گیا ۔نروان چلچلاتی ہوئی صحرا کی دھوپ میں ایک اونٹ کی مہار پکڑ کر چل رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ۔دھکتی ہوئی ریت کی حدت جوتوں کے تلووں سے گزر کرپاﺅں کے تلووں کو جلا رہی تھی قافلے کے درمیان میں ایک بہت ہی سجے ہوئے اونٹ تحت دیوی بیٹھی تھی۔تاجر کے ساتھ ساتھ سر جھکائے ہوئے چل رہے تھے میں نے نروان سے سرگوشی کی۔”یہ تو آج سچ مچ دیوی لگ رہی ہے “ نروان بولا”اگر مجھ سے اسی طرح علم حاصل کرتی رہی تو یہ بہت بڑی دیوی ثابت ہو گی“

ہم کافی دیر چلے تو سامنے کسی شہر کے آثار دکھائی دینے لگے ۔شہر کو دیکھ کر قافلے کی رفتار خود بخود تھوری سی تیز هو گئی ۔پھر سوگیا سچ مچ سو گیاصبح دفتر میں ورما سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑے اچھے انداز میں ملا اس کے چہرے کی ویرانی تقریباً ختم ہو چکی تھی ۔میں نے ورما سے کہا ”مجھے لگتا ہے تمہارے سادھو اور آقا قافا کے درمیان کوئی جنگ چھیڑ چکی ہے ورما نے کہا ”میں اپنے اندر کسی تبدیلی کو محسوس کر رہا ہوں مجھے لگ رہا ہے جیسے آقا قافا سچائی پر ہیں مگر میں اپنے ماں باپ کو مذہب کیسے چھوڑ سکتا ہوں اور مجھے یہ بھی احساس ہو رہا ہے کہ سادھو بابا مجھ سے مایوس ہوگئے ہیں۔ شاید اسی لئے کالی ماتا کی مورتی غائب ہوگئی تھی ۔ دروازہ کھلا اورنور اندر داخل ہوئی ۔میں نے کہا ” خیریت تو ہے آج صبح صبح آگئی ہو “نور بولی ” میں سادھو جی سے ملنا چاہتی ہوں اسی لئے اس وقت یہاں تمہارے دفتر میں آئی ہوں ۔ورما نے میری طرف دیکھا ۔میں نے کہا ”چلو چلیں یقینا نور کوئی اہم بات کرنا چاہتی ہوگی ان سے “اور پھر میں نور ورما کی کار میں تھے اور کار مندر کی طرف جا رہی تھی۔ اور پھرہم تینوں اس وقت تک خاموش رہے جب تک مندر نہیں آگیا۔ ورما نے کار روکتے ہوئے کہا تم یہیں بیٹھو میں بابا سے پوچھ کر آتا ہوں ۔ انہوں نے کہا تو تمہیں بلا لوں گا۔ اور ورما کے جانے کے بعد میں نے نور سے کہا ورما سادھو بابا کے بارے میں کشمکش کا شکار ہے۔نور کہنے لگی”یہ سادھو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا میں نے نہیں دیکھاکہ آقا قافا کے پاس کوئی چند لمحے بیٹھا وہ اور پھر اسے چھوڑ گیا ہو میں تمہیں پورے یقین کے ساتھ کہتی ہوں۔ ورما کچھ دنوں کے بعد مسلمان ہو جائے گا“ اتنی دیر میں ورما واپس آگیا اور کار میں بیٹھتے ہوئے بولا ”بابا نور سے ملنے کےلئے بھی تیار نہیں “ میں نے نور سے کہا ” تم کیوں آئی تھی کوئی آقا قافا کا پیغام تھا “نور ” بولی ” ورما کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہورہا ۔ دونوں کے بیچ ۔۔ورما کہنے لگا ”میں ہارتا جا رہا ہوں۔ سادھو جی نے مجھے جو بات کہی ہے وہ مثبت نہیں منفی ہے“ میں نے پوچھا کہا کہا ہے ”کہنے لگا“ وہ کہتے ہیں تمہیں اس لڑکی سے جدا کروں اور پھر دو لڑکیاں بلواکر ہم دونوں شراب پیئں اور ان کے ساتھ سیکس کریں تو ہم سب آقا قافا کے حصار سے نکل جائیں گے۔ نور نے پوچھا ”کیا تمہارے مذہب میں بھی یہ باتیں گناہ سمجھی جاتی ہیں“ اور ورما نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ ہم واپس دفترپہنچے توآقا قافا کو اپنے دفترمیں بیٹھے ہوئے دیکھ کر حیران و پریشان ہوگئے میں نے حیرت سے کہا ”آپ“ تو آقا قافا بولے ”میں صرف ورما کیلئے آیا ہوں“ اور پھر ورما سے مخاطب ہوکر بولے ”سادھو بابا کسی مشکل میں ہیں ہمیں ان کی مدد کرنا چاہئے “ورما بولا” میں سمجھا نہیں ۔مجھے پورا یقین ہے کہ ابھی تم جس سادھوجی سے مل کر آیا ہو وہ کوئی بہروپیا ہے۔اس نے مجھ سے دوری کا جو طریقہ تمہیں سمجھایا ہے۔اس نے مجھے چونکا دیا ہے۔۔ورماکہنے لگا ” کیا آپ کومعلوم ہو گیا ہے کہ انہوں نے مجھے کیا مشورہ دیا ہے ۔ شاید آپ کو بھی یقین نہیں آ رہا کہ وہ یہ سب کچھ کہہ سکتے ہیں‘ آقا قافا بولے ”ان باتوں کا وقت نہیں رام ورما کسی مصیبت میں ہیں۔چلو انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے۔“ سب پھر کار میں بیٹھ گئے اور کار مندر کی طرف چل پڑی ۔آقا قافا ورما سے کہنے لگے” تم اس بات پر یقین رکھو میں نہ تم کو مسلمان کرنا چاتا ہوں اور نہ ہی رام ورما سے میری کوئی جنگ ہے۔ میں ان کا تم سے کہیں زیادہ احترام کرتا ہوںکچھ لوگوں نے میرے خلاف انہیں بھڑکایا ہے“ ورما نے کچھ دیر سوچا اور کہا ”آپ کی بات درست بھی ہو سکتی ہے۔ میں جب سادھو جی کے پاس گیا توکمرے میں کوئی نہیں تھا مجھے صرف آواز سنائی دی تھی ہو سکتا ہے۔ممکن ہے وہ آواز سادھو جی کی نہ ہو“

اور ہم ایک بار پھر واپس مندر پہنچ گئے۔ اس مرتبہ ورما اکیلا اندر نہیں گیا۔ ہم سب اس کے ساتھ سادھو جی کے کمرے میں گئے۔ کمرہ خالی تھی۔ آقا قافا نے کہا ”سادھو بابا موجود ہیں اور تکلیف کے عالم میں ہیں“ ورما نے کہا پوچھا ”کہاں ہیں کیا آپ کو نظر آرہے ہیں“ آقا قافا کچھ بولنے والے ہی تھے کہ مندر کا بڑا پنڈت کمرے میں داخل ہو اور ورما سے مخاطب ہو کر بولا ”تم نے ان مسلمانوں کو یہاں لا کر مندر کو پلید کر دیا ہے۔ انہیں فوراً یہاں سے لے جاﺅ“ ورما نے پنڈت سے کہا ”یہ سادھو جی کا کمرہ ہے اور سادھوجی نے دنیا کے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کو یہاں آنے کی اجازت دی ہوئی ہے“ پنڈت ماتھے پر شکنیں ڈال کر بولا ”تمہاراسادھو اب یہاں سے ہمیشہ کیلئے جا چکا ہے تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ انہیں یہاں سے لے کرفوراً چلے جاﺅ“ ورما نے پوچھا ”سادھو بابا کہاں چلے گئے ہیں“ تو پنڈت نے کہا ”ہمالیہ کے پہاڑوں پر“ آقا قافا جو اتنی دیر سے خاموشی سے پنڈت کی طرف دیکھ رہے تھے بڑے احترام سے بولے ”مہاراج جھوٹ بولنا آپ کو زیب نہیں دیتا ہمیں معلوم ہے آپ نے انہیں نیچے تہہ خانے میں قید کر رکھا ہے ہم تو اسلئے حاضر ہوئے ہیں کہ اگر آپ انہیں یہاں مندر میں نہیں رکھنا چاہتے تو ہمارے حوالے کر دیجئے ہم ان کا پورا پورا خیال رکھیں گے“ پنڈت نے غصہ اور پریشانی سے کہا ”لگتا ہے مجھے تم لوگوں کو یہاں سے نکالنے کیلئے پولیس کو فون کرنا پڑے گا۔ یہاں کوئی تہہ خانہ نہیں ہے“ آقا قافا بولے ”پولیس آئے گی تو آپ بھی سادھوجی کو حبس بے جا میں رکھنے کے جرم میں گرفتار ہونگے“ اور یہ کہتے ہوئے آقا قافا دیوار سے ابھرے ہوئے ایک کیل کو دبادیا جو کسی کپڑے وغیرہ کو لٹکانے کیلئے لگایا جاتا ہے ۔دیوار میں ایک در بن گیا ۔اس سے سیڑھیاں نیچے اتر رہی تھیں۔ پنڈت سیڑھیوں کا رستہ کھلنے پر جلدی سے باہر نکل گیا۔ہم چاروں نیچے تہہ خانے میں اتر گئے۔ تہ خانہ ایک بڑے حال پر مشتمل تھا ۔ ایک طرف سے سادھوجی بڑے ہوئے تھے ان کے ہاتھ پاﺅں بندھے ہوئے تھے ۔ منہ کے اندر کپڑا دے کر اس پر ٹیپ چپکا دی گئی تھی۔ آقا قافا ورما سے بولے ”سادھو جی کو کھلو“ میں ورما کی مدد کیلئے آگے بڑھا تو آقا قافا نے سر کے اشارے سے مجھے روک دیا۔ ورما نے منہ سے ٹیپ ہٹا دی۔ کپڑا نکال دیا۔ رسیاں کھول دیں۔ سادھو بابا اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور اپنے سر کا پیچے کا حصہ ٹٹولتے ہوئے بولا ”اس بدبخت نے پیچھے سے میرے سر پر کوئی چیز ماری تھی جس کی وجہ سے میں بے ہوش ہوگیا تھا ورنہ تمہیں یہاں آنے کی ضرورت نہ پڑتی ۔آقا قافانے کہا”مگر اس پنڈت کا آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے“ سادھو جی کہنے لگے۔” اس کے جرائم اس کا مسئلہ ہیں“۔ ورما نے کہا” وہ یہاں ہمارے لئے کوئی پرابلم بھی پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے بڑے لمبے ہاتھ ہیں“ سادھوجی ورما کی بات سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے” اگر وہ بے ہوش ہوجانے کے بعد میرے منہ میں کپڑا نہ دے دیتا تو کبھی کا انجام کو پہنچ چکا ہوتا چلو اسے بلا لیتے ہیں“ اور سادھو بابا کچھ پڑھنے لگ گیا ابھی اس کا وہ منتر شاید پورا نہیں ہوا ہوگا کہ پنڈت ہمیں سیڑھیوں سے اترتا ہوا دکھائی دیا اور اندر آکر ایک طرف خاموشی سے کھڑا ہوگیا۔ سادھو جی نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں وہ آقا قافا سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ”دیکھ قافا تو اپنی منزل کو پہنچنے والا ہے تیری تقسیم نروار رام نے تیری بہتری کیلئے کی گئی تھی مگر مہا سادھو اب کیوں نہیں چاہتے کہ تم تکمیل کو پہنچو“آقا قافا بولے ”میری اطلاع کے مطابق تو آپ نے شکایت کی ہے کہ میں ہندو کو مسلمان کرنے کی کوشش کررہا ہوں “سادھو جی بولے ”یہ بات تو درست ہے ”مجھے اچھا نہیں لگا کہ تم ورما کی طرف متوجہ ہونا۔ تم مسلمانوں کی یہ بہت بری عادت ہے کہ دوسروں کے مذاہب میں مداخلت کرتے ہو۔ کیا کبھی ہم نے کسی مسلمان کو ہندو بنانے کی کوشش کی ہے۔ تمہاری اپنی مثال تمہارے سامنے ہے کیا ہم چاہتے تو تیرا مذہب بدلنے کی کوشش کر سکتے تھے نا مگر تمہارے اندر کی شکتی کو تمہارے مذہب کے ساتھ پروان چڑھایا گیا ہے جب کہ تمہاری وجہ سے ایک بڑے سادھو کی زندگی بھر کی ریاضت بھی ضائع ہوئی مگرمہا سادھو نے ہرموڑ پر تیرا ساتھ دیاہے“ آقا قافا نے بڑے تحمل سے کہا” میں اگر دشمن ہوتا تو اس وقت یہاں موجود نہ ہوتا ۔میں نے اسے مسلمان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی یہ سامنے ہے پوچھ لو“ سادھو بابا کچھ دیر خاموش رہے اور کہنے لگے ”تو جانتا ہے سارے مذہب بنیادی طور پر نیکی کے پرچارک ہوتے ہیں۔ سچے ہوتے ہیں اور ہم جیسے لوگوں کو مذاہب سے کچھ لینا وینا نہیں ہوتا۔ روحانیت، شکتی اور نروان کا تعلق کسی مذہب سے نہیں یہ مذاہب تو راستے ہیں۔ شکتی کی منزل کی طرف جانے والے۔“اچانک ورما نے ہمت کی اور کہا کہ سادھو بابا ”کیا کچھ باتیں میں پوچھ سکتا ہوں “سادھو بابا نے کہا ”ہاں‘پوچھو‘ اور ورما بولا ”یہ جو ابھی مجھے آپ آواز میں ایک مشورہ دیا گیا تھا“سادھو بابا ہنس پڑے اور بولے ”میں نے تمہیں کوئی مشورہ نہیں دیا اس بدبخت نے میری آواز کی نقل اتاری تھی (پنڈت کی طرف اشارہ کر کے ) اور یہی نقل اس کی بربادی کا سبب بنی کیونکہ تمہاری وساطت سے یہ بات آقا قافا تک پہنچی اور اسے معلوم ہو گیا کہ میں کسی مصیبت میں ہوں “ورما بولا ”اور ایک بات بھی بتادیجئے

جس دن میں پہلی بار آپ کے پاس آیا تھا آپ دیوی جی کو خون سے غسل دے رہے تھے کیا وہ خون کسی انسان کا خون تھا ۔“سادھو جی بولے ”جہاں تک خون کی بات ہے تو وہ انسانی تھا مگر جس شخص کا خون تھا اسے کسی نے قتل نہیں کیا تھا اس نے ایک لازوال شکتی کیلئے خود اپنی جان کی قربانی دی تھی۔“اور پھر ہمیں مخاطب ہوکر کہا

اب تم لوگ جاﺅ میں نے آقا قافا سے کچھ ضروری گفتگو کرنی ہے“

ہم لوگ باہر جانے لگے تو آقا قافا نے کہا

تم لوگ اب چلے جاﺅ کل ملاقات ہوگی “اور ہم خاموشی سے واپس آگئے۔ کھانے کی میز پر ورما نے کہا ۔” مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی روحانی کلوننگ ہے۔“ میں نے کہا

کلوننگ میں تو دونوں شخصیتیں بالکل ہم شکل ہوتی ہیں“ ۔نور بولی

تم دونوں ہم شکل ہی تو ہو کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ آقا قافا نے منہ اور ناک کی پلاسٹک سرجری کرائی ہوئی ہے۔ تم جانتے تمہارے فنگر پرنٹ اور تمہیں آنکھیں اندر تک ایک جیسی ہیں مگر کلوننگ تو (سوچتے ہوئے )ہمارے مذہب میں جائز نہیں اور آقا قافا کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو مذہب میں جائز نہ ہو۔“ میں نے کہا

اسلام میں تو کلوننگ جائزہے۔ قرآن حکیم کی تفاسیر میں بتایا گیاہے کہ اماں حوا کو آدمؑ کی پسلی سے نکالا گیا تھا وہ کلوننگ ہی توتھی پھر حضرت مریم کا واقعہ بھی تو کلوننگ ہی ہے ورنہ بن باپ کے کوئی بچہ کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ انسان کو یہ باتیں اب معلوم ہو رہی ہیں مگر یہ تو ازل سے موجود ہیں“

۔ نوربولی ”میرے لئے تو سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ آقا قافاہمالیہ کے پہاڑوں میں سادھووں کے ساتھ جوان ہوئے ہیں۔ جب کہ تمہیں کوئی ایسی بات یاد نہیں“ میں نے کہا

میں نے تو صرف حسن کی چوٹیاں ہی سر کی ہیں پہاڑوں کی نہیں پتہ نہیں یہ کیا معاملہ ہے “ ورما بولا

جب اسکی اور تمہاری کہانی ایک ہے تو پھر ہمالیہ کے پہاڑوں پر گزرے ہوئے دن تمہیں کیوں یاد نہیں“ میں نے کہا ”یہاں بھی وہ ایک علیحدہ شخص کی حیثیت سے رکھتے ہیں مگر کچھ خبر نہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں مگر انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں“

نور اور ورما کو چھوڑ کر آقا قافا کی طرف چلے گئے ۔وقت سے بہت پہلے حیرت انگیز طور پرگھر کھلا ہوا تھامگر آقا قافا گھر پر موجود نہیں تھے نور نے بڑی حیرت سے کہا ”وہ جب بھی کہیں جاتے ہیں تو مجھے بتا کر جاتے ہیں اللہ خیر کرے ۔وہ اچانک کہاں چلے گئے ہیں۔باقی لوگ بھی مجلس میں شریک ہونے کےلئے آگئے ۔ نور اور میں نے سارے پیلس میں انہیں اچھی طرح تلاش کیا آج پہلی مجھے مکمل طور پر اس پیلس کو دیکھنے کا موقع ملا تھا یہ واقعہ بہت بڑا اور بہت خوبصورت محل تھا۔جب ہم تمام گھر میں گھوم پھیر کر واپس لیونگ روم میں آئے تو آقا قافا موجود تھے اور گفتگو کر رہے تھے۔کہہ رہے تھے”بڑے مکانوں کے مکین زیادہ تر چھوٹے لوگ ہوتے ہیں اور چھوٹے مکانوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جن کے حصے میں دکھ وافر مقدار میں آتے ہیں وہ بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہمیشہ بڑے لوگ ہی بڑے دکھوں کو برداشت کرتے ہیں۔میں اس وقت کہیں دور سے آیا ہوں کسی کام میں تھوڑا سا مصروف ہوں اس لئے آج کی مجلس بھی نہیں ہوگی۔ کل انشاللہ لمبی نشست کریں گے۔اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بوے”تم نے ابھی سارا مکان نہیں دیکھا اس میں ایک تہہ خانہ بھی ہے ۔اسے بھی ضرور دیکھنا۔ اور پھر وہ اندر چلے گئے۔“

بول کہانی کتنا پانی

(بول حقیقت، پائوں پائوں )

نور اپنے گھر چلی گئی میں اپنے گھر آگیا ۔ ٹیلی ویژن آن تھا چینل فورپر کوئی سیکس ایجوکیشن کا پروگرام آرہا تھا۔ایک طرف سکول کی پچاس ساٹھ لڑکیاں اور لڑکے بیٹھے تھے اوران کے سامنے موجود پانچ چھ ننگ دھڑنگ عورتیں اور مرد انہیں جنسی تعلیم دے رہے تھے۔ ایک لمحے کو میرے اندر کی مشرقیت جاگ اٹھی اور میں نے سوچا کہ بچوں کی معصومیت کو قتل کیا جارہا ہے پھر مجھے خیال آیا کہ اس معاشرہ میں جنسی تعلیم کتنی ضروری ہے اگر بچوں کو یہ تعلیم نہ دی جائے تو اس کے کتنے برے تنائج برامد ہوسکتے ہیں۔ پھر میں نے سوچا کہ کیا سکس یا یا سکس کا علم معصومیت کو قتل کر دیتا ہے تو میرے دماغ نے کہا ہاں مگر صرف ان معاشروں میں جہاںشادی سے پہلے سکس کرنا گناہ میں شمار ہوتا ہے پھرمیں نے ٹی وی آف کردیا اور بیڈ پر لیٹتے ہی نروان کے پاس پہنچ گیا

نروان اور خیمے میں لیٹے ہوئے تھے رات کا کوئی پہر تھا اچانک نروان نے مجھ سے پوچھا

کیا جاگ رہے ہو“

میں نے کہا ۔”ہاں ۔۔سوچ رہا ہوں کہ یہ جنسی ملاپ کیا شے ہے “

نروان نے ہنس کر کہا ۔”جنسی ملاپ دو طرح کے ہوتے ہیں کہ ایک انسان کا انسان کے ساتھ اور دوسرا حیوان کا انسان کا ساتھ ۔ انسانی ملاپ پیداواری ملاپ ہے عورت اور مرد کا ملاپ اور انسان کا جانوروں سے ملاپ صرف تلذذ کے لئے ہے مگراب تو لوگوں اسے بھی پیدواری ملاپ کا وسیلہ بنا لیا ہے “

میں نے حیرت سے پوچھا ۔”وہ کیسے “

تو نروان کہنے لگا ۔”ہڑپہ میں ایک مقدس بکرا ہے جس کی لوگ بہت زیادہ عزت کرتے ہیں ان کے عقیدہ میں یہ مقدس بکرا ہی پان دیوتااوتار ہے اس کا تقدس یہ رنگ لایا ہواہے کہ عورتیں اولاد حاصل کرنے کی خواہش میں اس کی خدمات سے فائدہ اٹھاتی ہیں“

میں نے پوچھا

پان دیوتا اوتار“

نروان کہنے لگا

یہ ایک یونانی دیوتا ہے جس کی رسائی کوہ سکیسر کی پہاڑوں تک ہے “

میں نے نروان سے پوچھا

کیا بکرے کے ساتھ عورتوں کا سکیس کرنا اچھا عمل نہیں ہے “

نروان برا سا منہ بناتے ہوئے کہنے لگا

برا عمل بھی نہیں ہے ویدوں میں لکھا ہے کہ پہلے ہرجاپتی اکیلا تھااس نے چاہاکہ دنیا کو پیدا کرے چنانچہ اس نے اگنی، داتو، آدتیہ وغیرہ دیو تاﺅں کو پیدا کیا بعد میں اس نے اپنے منہ کی پھونک سے گائے کو پیداکیا اگنی دیوتا نے جب گائے کو دیکھا تواس کا دل للچا گیااس نے چاہا کہ میں اس گائے سے جنسی تسکین کروں چنانچہ اس نے ایسا کر دیا۔۔۔۔۔(تھوڑی سوچتے ہوئے ) نہیں یہ اچھی بات نہیں ہے اس سے اور بھی مینو لور پیدا ہو سکتے ہیں “

میں نے تجسس سے پوچھا

مینو لور ‘‘ نروان کہنے لگا

مینا لور کی ماں نے ایک گھوڑے کے ساتھ اختلاط کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ پیدا ہوا ہے اس کا اوپر دھڑ گھوڑے کا تھا اور نچلا دھڑ انسان کا “

میں نے ہنس کر کہا ”مجھے تو یہ کوئی کہانی لگتی ہے“

نروان بولا ۔۔ ”ساری کہانیوں کے پس منظر میں حقیقتیں چھی ہوتی ہیں اور ساری حقیقتیں کہانیوں سے نکلتی ہیں “

مندر میں محراب درآئی

( چشمے مجھ کو وضو کرائیں )

اور پھر شاید دونوں بستروں پر سو گیا اچانک ڈوربیل چیخ اٹھی۔اٹھا کہ اتنی رات گئے کون آگیا ۔دروازے پر آقا قافا کھڑے تھے ۔میں انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔میں نے انہیں اندر آنے کےلئے کہا تو کہنے لگے” نہیں میں تمہیں لینے آیا ہوں ہم نے ایئر پورٹ جانا ہے ۔ “ میں نے کہا ”میں تیار ہوجاﺅں۔ بولے ” ہاں جلدی سے تیار ہوجائو اور پھر تقریباً دس بارہ گھنٹوں کے بعد میں آقا قافا کے ساتھ نیپال کے ایک غار کھڑاتھا جس میں ایک طرف آگ جل رہی ہوتی ہے قریب ایک سادھو التی پالتی مار کر بیٹھا ہوتا ہے ۔میں ادھر ادھر دیکھتا تو محسوس ہوا کہ وہاں آقا قافا موجود نہیں ۔غارکے دوسرے دھانے سے روشنی اندر آرہی ہوتی ہے ۔ میں نے سادھو کی طرف غور سے دیکھا وہ سانس روکے اپنے دھیان گیان میں تھے انہیں بالکل اس بات کا احسا س نہیں تھا کہ غار میں بھی موجود ہوں میں غار کے دوسرے دھانے کی طرف چل پڑا کہ شاید آقا قافا ادھر گئے ہوں ۔جیسا ہی دھانے سے باہر نکلا تو حیران پریشان ہو گیا میں ہزاروں فٹ بلند کسی غار کی چوٹی کے قریب کسی غار کے دھانے سے باہر نکل تھا ۔اس طرف سے غار سے نیچے اترنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔میں کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتا رہا مجھے ایسے لگتا تھا جیسے وقت یہاں رکا ہوا ہے ۔۔میں واپس غار میں چلا گیا ۔کچھ دیر کھڑا رہنے کے بعد میں پاﺅں زمین پر مارا تاکہ سادھو کو اپنی طرف متوجہ کروں مگر سادھو کے ارتکاز میں کوئی فرق نہ آیامیں تھک کر ایک طرف بیٹھ گیا۔اچانک سادھو کے ہونٹ کھلے اس نے کہا ”دائیں طرف چلے جاﺅ اور وضو کرکے شام کی نماز ادا کرو“میں کسی سحر زدہ شخص کی طرح اٹھا اور دائیں طرف اندھیرے میں بڑھنے لگا مجھے ایک محراب دارچوکھٹ سی دکھائی دی جس میں دروازہ نہیں لگا ہوا تھا میں اس کے اندر داخل ہوا تو وہاں روشنی تھی سامنے ایک پتھر سے پانی کی ایک دھار نکل رہی ہے نیچے ایک چھوٹا سا حوض بنا ہوا تھا میں نے وضو کرنے کےلئے بڑھایا تو پانی نیم گرم تھا میں نے وضو کیا واپس سادھو کے پاس آیا تو وہاں جائے نماز بچھی ہوئی تھی میں نے شام کی نماز ادا کی ۔اس کے بعد سادھو جس پتھر پر بیٹھا ہوا تھااس سے اٹھ گیا اور مجھے کہا ”یہاں آکر لیٹ جاﺅ ایک شخصیت تم سے ملنے آر ہی ہے میں جیسے ہی وہاں لیٹ گیا تومیں نے غاز میں بہت ہی نورانی شخص کو دیکھا اس کے اردگرد نور کا ہالہ تھا کہ وہ شخصیت جب قریب آئی تو میں نے فوراً پہچان لی ۔ یہ وہی مولوی صاحب تھے جنہوں نے مجھے مسلمان کیا تھا میں نے ان کے احترام میں اٹھنا چاہا تو انہوں نے اسی طرح دھیمے لہجے میں کہا ”نہیں بیٹے لیٹے رہواور الحمد شریف پڑھتے رہو۔اس کے بعد وہ میرے قریب آئے اور میرے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگے ۔ان کا ہاتھ جہاں جہاں سے گزرنے لگا مجھے وہ جگہ ہلکی پھلکی لگنے لگی۔ پھر مجھے مجھے کہا ”اٹھ کر بیٹھ جاﺅ اور میری آنکھوں میں دیکھو ۔۔میں نے ویسے ہی کیا۔ مجھے ان کی آنکھوں میں ایک لاہوتی فضا دکھائی دینے لگی ۔مجھے یوں لگا جیسے میری آنکھوں کے سامنے خانہ کعبہ آگیا ہومجھے روضہءرسول دکھائی دے رہا ہوپھر یک لخت اندھیرا چھا گیا۔ میں نے ابھی سوچا ہی تھا کہ یہ کیا ہوا تو میرے کانوں میں آقا قافا کی آواز گونجی ”آنکھیں کھول دو “میں نے آنکھیں کھولیں توغار میں خاصی روشنی تھی ۔مجھے اپنا وجود بہت ہلکا پھلکا محسوس ہوا۔مجھے ایسا لگا جیسے میں مکمل طور پر اندر اور باہر سے دھل چکا ہوں حیرت سے آقا قافا کی طرف دیکھا تو وہ بولے ۔’’آئو چلیں ‘‘میں اسی کیفیت میں آقا قافا کے ساتھ چلتا رہا۔ہم کھٹمنڈو ایئر پورٹ پہنچے ۔فلائٹ تیار تھی ۔آقاقافا میرے ساتھ میرے فلیٹ پر آئے ۔وہاں کچھ دیر بیٹھ کر کچھ پڑھتے رہے ۔پھر چاروں کی طرف کچھ پھونکا اور مجھے کہا’’ سونے سے پہلے عشا کی نماز ضرور پڑھ لینا۔اب میں جارہا ہوں اور آقا قافا دروازے باہر نکل گئے میں حیرت زدہ وہیں کھڑا رہا ۔اچانک میں ذہنی طور پر واپس آیا اور آقا قافا کو بلانے کےلئے دروازے سے باہر لپکا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔وہ جا چکے تھے ۔مجھے احساس ہو چکا تھا کہ مجھے پاک صاف کیا گیا ہے ۔ اور میرے ذہن میں خیال آیا کہ قدرت مجھ سے کوئی خاص کام لینا چاہتی ہے یقینا میں چنا گیا ہوں۔۔صبح دفتر میں میں نے ورما کو میں نے کچھ نہیں بتایا وہ پوچھتا رہا کہ میں دو دن کہاں تھا ۔نور آئی تو مجھے حیرت سے دیکھنے لگی ”میں نے پوچھا کیا دیکھ رہی ہو “کہنے لگی ”دو دنوں میں اتنی تبدیلی میں نے کہیں نہیں دیکھی۔تمہارے تو ساری شخصیت ہی بدل گئی ہے ۔۔یہی ایک فرق تم میں اور آقا قافا میں تھا وہ بھی ختم ہو گیا ہے ۔ میں نے حیرت سے کہا ”کیا کہہ رہی ہے میری شکل بدل گئی ہے “کہنے لگی ”نہیں آقا قافا کے چہرے میں جو ایک تقدس روحانیت کا احساس ہے وہ آج تم میں بھی در آگیا ہے۔کہاں تھے تم۔۔میری داستاں سن کر نور نے کہا ”اب نماز مت قضا کرنا ۔میں بھی کوشش کروں گی ۔اور پھر کہنے لگی۔حیران مت ہونا میں بھی اس مقام سے گزر چکی ہوں ۔میرے تجربے اور تمہارے تجربے میں ضرف اتنا فراق ہے کہ مرے جسم پر ہاتھ والی ایک بہت عظیم خاتون تھی مجھے اس کا نام لینے کی اجازت نہیں۔میں ذرا سا ناراض ہوتے کہا ”تم نے مجھے پہلے نہیں بتایا ۔“ نور کہنے لگی ”اور بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں جو میں نے تمہیں بتائیں ۔“ ورما کو دیکھ کرمجھے سادھو جی یاد آگئے میں نے اس سے کہا” وہ سادھو جی کا بھی پتہ کرنا ہے۔آج یہاں سے سیدھے سادھو جی کے پاس جائیں گے“ ورما بولا ”میں صبح دفتر آنے سے پہلے سادھو جی کے پاس گیا تھا وہاں تمام معاملات معمول کے مطابق تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے رات کو کچھ ہوا ہی نہیں۔ بڑے پنڈت سے بھی میرا آمنا سامنا ہوا مگر ان کے چہرے پر کوئی ایسا تاثر نہیں تھا کہ ان کا ہم سے ٹکراﺅ ہوا تھا۔ سادھوجی اپنے کمرے میں اسی طرح اپنی ذات کی پوجا کئے جا رہے تھے“ میں نے ورما سے کہا ” اپنی ذات کی پوجا“ تو ورما بولا ”ہاں جب سادھوجی نے اپنے کمرے سے تمام دیوی دیوتاﺅں کے بت اٹھوا دیئے تھے تو میں نے ان سے پوچھا تھا کہ بابا اب آپ کس کی پوجا کریں گے تو بابا نے کہاتھا اب میں اپنی پوجا کیاکروں گا کیونکہ اب یہ شریر میرا نہیں رہا بھگوان کا ہوگیا ہے“ میں نے ورما سے کہا ”ورما کبھی تم نے اس بات پر غوربھی کیا ہے کہ آدمی نے تمام دیوی دیوتا اپنی صورت پر تراشے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے ہی جذبے مختلف انداز میں پوجے جا رہے ہوں“ ورما نے کہا یہ بھی ہو سکتا ہے مگر سادھو بابا کی بات میں نے اپنے مذہب کے ایک عالم کو بتائی تو انہوں نے کہا تھا ”بہت صدیوں پہلے مسلمانوں کے ایک عالم منصور علاج نے بھی یہی کہا تھا کہ میں خدا ہوں اور مسلمانوں نے اسے سولی پر چڑھا دیا تھا مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ہم ایک پتھر کے بت میں بھگوان کی شکتی کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ ایک انسان میں بھگوان کی شکتی کو کیوں نہیں مانیں گے“

شکتی مجھ کو تکتی تھی

(میں عورت کے پہلو میں تھا )

پھر کام میں اتنے مصروف ہوگئے کہ وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔نور آئی تو پتہ چلا کہ آقا قافا کی مجلس کا وقت ہو گیا ہے ۔پھر کچھ دیر کے بعدہم تنیوں آقا قافا کے لیونگ روم کے ایک کونے میں بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔اور لوگ بھی آگئے تھے۔پھر آقا قافابھی آگئے ۔انہوںنے اپنی گفتگو کا آغاز کر دیا۔

ہاں تو میری کہانی جیل کی دیواروں میں کب تک قید رہتی آخر اسے باہر آنا ہی تھی۔ بارہ دن کے بعد میری ضمانت ہوگئی اور میں جیل سے باہر آگیا۔ جیل کے دروازے پر ایک سپاہی نے مجھے ایک لفافہ دیا اور کہا یہ جیب میں ڈال لو بابا نے دیا ہے اور میں جیب میں ڈال دیا۔ باہر ابو موجود تھے وہ مجھے گھر لے گئے گھر والوں نے مجھ سے اتنے سوالات کئے کہ میں پریشان ہوگیا اور میں نے کہا کہ اتنا پریشان تو مجھے پولیس والوں نے بھی نہیں کیا تھا اور میں سچ مچ سے رو پڑا۔ ابو نے سب بہن بھائیوں کو ڈانٹا اور میری جان چھوٹی میں نے باتھ روم میں جا کر وہ لفافہ کھولا تو اس میں سو سو روپے والے پانچ نوٹ تھے اور ایک خط تھا جس میں بابا جیب تراش نے لکھا تھا

بیٹے

تم نے ایک بڑا آدمی بننا ہے اس کیلئے کچھ قربانیاں ضرور دینی ہوں گی مگر وہ تمہارا مقدر ہے میں پرسوں رات آٹھ بجے بادشاہی مسجد کے اس دروازے پر تمہار اانتظار کروں گا جو ہیرا منڈی کی طرف کھلتا ہے۔ میانوالی سے لاہور تک کیلئے زاد راہ بھیج رہا ہوں۔۔۔۔ بابا جیب تراش

میں نے نوٹ شلوار کے نیفے میں ڈال لئے اورخط کو پرزے پرزے کر کے پانی میں بہا دیا۔ ب میں گومگو کی کیفیت میں تھا کہ میں بابا سے ملنے لاہور جاﺅں یا نہیں وہ دن بھی اسی طرح گزر گیا۔ رات کو میں نے طے کر لیا کہ میں لاہور نہیں جاﺅں گا مگر دوسرے دن شام کے چھ بجے میرے قدم خودبخود اسٹیشن کی طرف اٹھنے لگے اور میں بے خودی کے عالم میں میانوالی سے لاہور جانے والی ماڑی انڈس ریل میں سوار ہوگیا۔ ٹکٹ بھی میں نے راستے میں ٹکٹ چیکر سے لیا۔ ریل گاڑی صبح آٹھ بجے لاہور پہنچ گئی۔ مجھے بابا سے رات کے آٹھ بجے ملنا تھا۔ اس گاڑی میں میرے لاہور آنے کی وجہ تھی کہ وہ واحد ریل گاڑی تھی جو میانوالی سے لاہور جاتی تھی۔ میں نے دن بھر لاہور کی سڑکوں کی خاک چھانی۔ بادشاہی مسجد کا وہ دروازہ دوپہر کو ہی دیکھ لیا رات کو بابا سے ملنا تھا۔ ساڑھے چھ بجے پھر وہاں پہنچ گیا اردگر کی گلیاں میرے لئے حیرت انگیز تھیں۔ ان کے بارے میں نے سن تو بڑی تفصیل سے رکھا تھا مگر یہاں آیا آج پہلی مرتبہ تھا۔ ایک آدمی مجھ سے ملا اور کہا کہ ”تمہیں وہ اوپر بالا خانے میں لڑکی بلا رہی تھی۔ میں نے اوپر دیکھا تو وہ میری طرف اشارے کر رہی تھی۔ میرا دل تو بہت چاہا مگر کسی انجانے خوف نے مجھے اس طرف نہ جانے دیا۔ رات آٹھ بجے بابا سے ملاقات ہوئی تو میں نے پہلی شکایت یہی کی کہ بابا کہیں اور بلا لیا ہوتا یہاں کیوں بلایا ہے ۔ یہاں لڑکیاں مجھے اشارے کرتی ہیں یہ تو بہت برا علاقہ ہے اور بابا نے کہا تمہارا دل نہیں کرتا کسی لڑکی سے ملنے کیلئے میں نے کہا ”کرتا تو ہے مگر گناہ کا خیال آ جاتا ہے“ بابا بولا ”بیٹے ایک وقتی نکاح بھی ہوتا ہے جسے اسلام متعیٰ کہتے ہیں تو وہ کر لیا کرو تو گناہ سے بچ جاﺅ گے۔ متع اہل تشیع کی نزدیک جائز ہے۔ اہل سنت کے نزدیک نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اسلام میں جائز تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ پابندیاں اور بھی کئی چیزوں پر لگائی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے مگر انہیں ہم نہیں مانتے تو اس ایک پابندی کے نہ ماننے سے کافر نہیں ہوتے پھر اپنے ساتھ کھڑے ایک نوجوان سے کہا کہ اسے ساتھ لے جاﺅ نیلم کے پاس اور اسے متع کا طریقہ بھی سمجھانا میں رات کو گھر تمہارا انتظار کروں گا اور پھر مجھے کچھ کہنے کا موقع دیئے بغیر ایک طرف تیزی سے چل پڑے اور میرے ساتھ کھڑے نوجوان نے مجھ سے کہا میرا نام خورشید ہے اور پھر میں خورشید کے ساتھ نیلم کے گھر پہنچ گیا۔ متعیٰ کے تمام شرعی معاملات طے کرنے کے بعد میں نیلم کے ساتھ اس کی خواب گاہ میں پہنچ گیا۔ نیلم نے مجھے بے لباس ہونے کا حکم دیا اور خود بھی بے لباس ہو کر بیڈ پر لیٹ گئی اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے نورخون میں لتھڑی ہوئی پڑی ہے۔ نورکے نام پر ورما نے حیرت سے نورکی طرف دیکھا اور آقا قافا نے کہا ورما نوراس مقتولہ کا نام تھا جس کے نام پر میں نے نورکا نام نوررکھا تھا یہ بات سب لوگ جانتے ہیں۔

ہاں تو پھر میں خوفزدہ ہو کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہو۔ نیلم تیسری منزل کے ایک بالا خانے پر رہتی تھی۔ ہیرہ منڈی میں تمام پیشہ کرنے والی عورتیں اسی طرح بالا خانوں میں اپنا کاروبار کرتیں ہیں۔ یہاں بھی ساہو کے علاقے میں یہ گندا کاروبار ہوتا ہے وہاں بھی اسی طرح کے بالاخانے ہیں ۔ خیر میں جب بھاگا اور سیڑھیاں اترتے ہوئے دوسری منزل سے میرا پاﺅں پھسلا اور میرے سر پر چوٹ آئی۔ جس کی وجہ سے میں بے ہوش ہوگیا اور پھر آقا قافا مجھ سے براہ راست مخاطب ہوئے منصور آفاق یہاں تک تو یہ کہانی تمہیں یاد تھی اس کے بعد کیا ہوا تھا کیا تمہیں کچھ یاد ہے۔

میں نے کہا ”ہاں اس واقعہ کے تقریباً ایک ماہ بعد میں اپنے گھر والوں کو اپنے شہر میانوالی میں کہیں بے ہوش پڑا ملا تھا اور اس کے ایک ہفتہ بعد ہسپتال میں مجھے ہوش آیا تھا“ آقا قافا نے کہا وہی ایک ماہ تمہاری زندگی کا اہم ترین وقت ہے۔ ہاں تو میں اپنی کہانی سنا رہا تھا۔

مجھے وہاں سے اٹھا کر خورشید بابا جیب تراش کے پاس لے گیا وہاں بابا جیب تراش کا مرشد تھا۔ وہ آیا ہوا تھا آپ لوگوں کیلئے حیرت انگی بات یہ ہوگی کہ بابا جیب تراش مسلمان تھا مگر اس کا مرشد ایک ہندو سادھو تھا۔ وہ ہندو سادھو بابا کو روحانی علوم کا درس دیتا تھا لیکن انہیں کبھی ہندو ہو جانے کا مشورہ نہیں دیا تھا۔ اس عظیم سادھو کا یہ خیال تھا کہ عرفان، شکتی حاصل کرنے کیلئے مذہب کی تبدیلی ضروری نہیں ہوتی اس چی کا تعلق تمام مذاہب سے ہے اور یہ چیز تمام مذاہب سے ہے اور یہ چیز تمام مذاہب سے ماورآ بھی ہے کیونکہ مذاہب صرف اسلئے ہیں کہ انسان کو کیسے زندگی بسر کرنی چاہیئے جب کہ روحانی علوم کے حصول کا مقصد ذہنی ارتقا کے کمال تک پہنچنا ہے۔ اس سادھو نے مجھے دیکھا اور بابا جیب تراش سے کہا کہ یہ بچہ مجھے چاہیئے۔ بابا نے اس شرط پر مجھے ان کے حوالے کر دیا کہ میں ہمیشہ مسلمان رہوں گا اور وہ سادھو مجھے اپنے ساتھ کوہ ہمالیہ کی ایک غار میں لے گیا۔ اس حادثے کے تیسرے دن میری آنکھ اسی غار میں کھلی یہ تمام باتیں مجھے اسی سادھو نے بتائیں۔ سادھو نے مجھے کہا کہ تمہیں ہوش میں لانے کیلئے تمہارے دماغ کے سینکڑوں سوئے ہوئے خلیوں کو جگانا پڑ گیا ہے جس کی وجہ سے تمہاری شخصیت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس وقت تم آدھے ہو مگر جب تم مکمل ہو جاﺅ گے یعنی دونوں حصے ایک ہو جائیں گے تو تمہیں اتنی بڑی شکتی حاصل ہو جائے گی کہ جو دنیا میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی ہوگی۔ سو میں شکتی حاصل کرنے کے مراحل سے گزرنے لگا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ تمام مراحل اسلامی تھے جو مجھے منتریا دیوی دیوتاﺅں کی پوجا کا نہیں کہتے تھے بلکہ ایک خدا اور ایک رسول کے راستے سے شکتی کی منزل دکھاتے تھے۔ میں نے ایک دن سب سے بڑے سادھو (جو برسوں میں ایک بار بولتے تھے) سے سوال کیا کہ دنیا میں سب سے زیادہ شکتی حاصل کرنے والا شخص کون ہے تو اس نے کہا محمد کی ذات ذہنی ارتقاءکی معراج ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ذہنی ارتقاءکیا چیز ہے تو وہ بولے انسان بنیادی طور پرجمادات تھا۔ جمادات میں آخری شکل نیلم کے پتھر کی ہے۔ اس کے بعد نباتات میں ظہور ہوا۔ نباتات کی آخری شکل کھجور کی ہے۔ کھجور کے درخت کو اوپر سے کاٹ دیا جائے یعنی اس کا سر کاٹ دیا جائے تو وہ مر جاتا ہے اور اس کے بعد حیوانی ارتقاءشروع ہو جاتا ہے جو بن مانس پر ختم ہو تا ہے اور انسانی ارتقاءکی صورت نمودار ہوتی ہے انسان پر پہنچ کر جسمانی ارتقاءاپنی منزل کو پہنچ جاتا اور یہاں سے ذہنی ارتقا کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور ذہنی ارتقا کی آخری معراج محمد کی ذات ہے۔

اس سادھووں کے پیشوا کی یہ بات سن کر میں نے ان سے سوال کیا کہ ”آپ جب محمد کی ذات کو سچائی سمجھتے ہیں تو اس پر ایمان کیوں نہیں لے آتے۔ وہ بولے ہم محمد کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں مگر اس کے سوا جو سچائیاں دنیا پر موجود ہیں ان پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ تم جسے خود کاہتے ہو ہم اسے بھگوان کہتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ دونوں مختلف ز بانوں کے الفاظ ہیں۔ بھگوان نے جو شکتی محمد کی ذات کو عطا کی اسی نے اورلوگوں کو بھی شکتی دی اور وہ اور لوگ ہمارے زیادہ قریب ہیں یہ ہمارے دیوی دیوتا انہی کا روپ ہیں۔“

میں پیاز ایسی کوئی پرت نہیں چاہتا

(مجھے دیکھ چھلکا اتار کر)

آقا قافا نے اپنی کہانی ختم کرتے ہوئے کہا ”باقی کہانی کل اور منصور کے سوا کسی نے کوئی سوال پوچھنا ہے تو پوچھ لے“ نور بولی ”کیا میں یہ پوچھ سکتی ہوں کہ منصور پر سوال کرنے کی پابندی کیوں لگائی گئی ہے“ تو آقا قافا نے کہا صرف اس لیے کہ میں کہانی دوبارہ آج شروع نہیں کرنا چاہتا اور اس کے سوالات سے پھر کہانی چھڑ جائے گی۔نور بولی ”اگر انسانی وجود ایک ارتقائی سلسلے کا نام ہے تو پھر قرآن حکیم میں قصہ، ابلیس و آدم کیا ہے اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے“ آقا قافا بولے ”وہ ایک تمثیلی کہانی ہے جو عام لوگوں کو سمجھانے کیلئے بیان کی گئی ہے اور یہ بات میں خود نہیں کہہ رہا بلکہ مولانا روم نے اپنی اس کتاب ،جسے ہست قرآں در زبان پہلوی کہتے ہیں یعنی مثنوی معنوی اس میں لکھا ہے“ ورما نے اٹھ کر پوچھا ”آپ کے خیال میں جو طاقت سادھووں کے پاس ہوتی ہے وہ بھی وہی دیتا ہے جسے آپ اپنا رب کہتے ہیں۔ اگر وہ لوگ بھٹکے ہوئے ہوتے ہیں تو آپ کا بھگوان انہیں وہ شکتی کیوں عطا کرتا ہے“

آقا قافا بولے

کسی کو بھی قوت طاقت اور شکتی دینے کیلئے اللہ تعالی نے مسلمان ہونے کی کوئی پابندی نہیں لگائی ہوئی۔ وہ انسانی اعمال کو دیکھ کر اپنی نوازشیں بکھیرتا ہے۔ اگر آج امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف اس کا عمل ہے۔ اس کی مسلسل محنت اور کوشش ہے وہ کبھی اس قوم کی حالت نہیں تبدیل کرتا جو آپ اپنی حالت تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے۔عرفان اور شکتی کی قوتیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں اور وہ اپنی محنت سے مسلسل جدوجہد سے حاصل ہوتی ہیں“

آقا قافا کی مجلس ختم ہوگئی میں نور اور ورما وہاں سے نکل کر سادھو بابا کے پاس مندر کی طرف چل پڑے ۔ گاڑی میں نور نے مجھ سے پوچھا ”کیا خیال ہے تمہیں سیڑھیوں سے گرنے کے بعد کچھ یاد نہیں“ میں نے کہا ”نہیں مجھے یاد ہے مگر سیڑھیوں تک کہانی مجھے مکمل طور پر یاد تھی اور اس کے بعد ہسپتال میں میری جب آنکھ کھلی تھی وہ سب کچھ بھی مجھے یاد ہے لیکن اس کے درمیان وہ جو واقعات آقا قافا نے سنائے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب وہ سنا رہے تھے تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ ساری باتیں مجھ پر ہی گزری ہوں لیکن جہاں تک آقا قافا نے یہ بات سنائی صرف وہیں تک اس کے آگے بلیک آﺅٹ ہے۔ ورما نے کہا ”اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ حیرت انگیز ہے مگر اب میں نے بھی ٹھان لی ہے کہ میں ضرورسچائی تلاش کرکے رہوں گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ سادھوجی بھی سچ پرہوں اور آقا قافا بھی سچ پر ہو“ میں نے کہا ”ورما جستجو ہی انسانی زندگی کا حاصل ہے سچائی کی تلاش انسان کو اپنے اصل سے ملاتی ہے“ اور نور بولی

اب تو منصور تم نے گفتگو بھی آقا قافا کی طرح کرنا شروع کر دی ہے۔ لہجہ ویسے ہی تم دونوں کا ایک ہے۔ ابھی جب تم نے یہ جملے کہ تو یقین کرو مجھے ایسا لگا کہ میرے ساتھ آقا قافا بیٹھا ہوا ہے“

پھر تھوڑی دیر میں ہم سادھو بابا کے پاس پہنچ گئے۔ آج سادھو بابا نے ہمیں بیٹھے کو کہا اور پھر ورما سے مخاطب ہو کے بولے ”ورما بیٹے یہ جو سچائی ہوتی ہے نا اسکے اور جھوٹ کے درمیان ایک باریک پیازی پردہ ہوتا ہے جس طرح رات اور دن جب آپس میں ملتے ہیں توان میں کوئی حد فاصل قائم نہیں کی جا سکتی اور کبھی کبھی تو سچ کی مثال اس پیاز جیسی ہوتی ہے۔ جس کا ایک پرت اتارو تو دوسرا آ جاتا ہے۔ دوسرا پرت اتارو تو تیسرا آ جاتا ہے۔ تیسرا پرت اتاروتو چوتھا آ جاتا ہے اور جب تمام پرت اتر جاتے ہیں تو اندر سے کچھ نہیں نکلتا۔ میں تمہیں سچائی کی تلاش سے نہیں روکنا چاہتا لیکن صرف اتنا سمجھانا چاہتا ہوں کہ سچائی کسی ٹھوس حقیقت کا نام نہیں ہوتا۔ یہ ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے۔ مختلف حالات و واقعات میں سچائی کی شکلیں بدل جاتی ہیں کہیں جو سچائی ہوتی ہے وہ جھوٹ بن جاتی ہے اور کہیں جو جھوٹ ہوتا ہے وہ سچائی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ دیکھو اس سے بڑی سچائی تو اور کوئی نہیں کہ ہم موجود ہیں مگر ممکن ہے کہ کل ہمیں اس بات کا ادارک ہو کہ ہم موجود ہی نہیں تھے۔ ہمارا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اس وقت کمرے میں تمہارا سایہ موجود ہے نظر آ رہا ہے نا یہ اس لئے موجود ہے کہ روشنی تم پر ایک ایسے زاویے سے پڑ رہی ہے کہ سایہ بن رہا ہے مگر ابھی روشنی اگر ایسے زاویوں سے پڑنے لگے کہ سایہ ختم ہو جائے تو کیا کہا جائے گا کہ تھوڑی دیر پہلے سایہ ایک سچائی تھا مگر اب سایہ جھوٹ بن چکا ہے میرا تمہیں اتنا مشورہ ہے کہ سچائی کی تلاش کرتے ہوئے اس حقیقت کو ضرور دھیان میں رکھناورنہ ہو سکتاہے تم سچائی ڈھونڈتے ڈھونڈتے کہیں اندھیروں میں گم ہو جائے“ سادھو بابا نے کچھ دیر خاموش اختیار کی تو میں نے پوچھا ”بابا کوئی ایسا راستہ بھی ہے جس میں آقا قافا کے حصار سے نکل آﺅں ۔میں یہ اسرار بھری زندگی نہیں بسر کرنا چاہتا۔ ایک عام آدمی کی طرح زندہ رہنا چاہتا ہوں“ بابا نے میری طرف دیکھا اور کہا ”نہیں اب یہ ممکن نہیں کیونکہ تم ایک عام آدمی نہیں ہو۔ ہاں جب قافا اور تم ایک ہو جاﺅ گے تو پھر یہ تمہارے اختیار میں ہوگا کہ تم کس طرح کی زندگی بسر کروں گے۔ مگر مجھے نہیں لگتا کہ تم کبھی بھی ایک عام آدمی کی زندگی بسر کر سکو۔ تمہارے مقدر کی پوتھیوں میں حیرتوں کے خزانے لکھے ہیں۔

سادھو بابا سے ملاقات کے بعد ہم نے ورما کو آقا قافا کے مکان کے باہر اتارا، کیونکہ اسکی گاڑی وہیں کھڑی تھی ۔نور میرے ساتھ میرے فلیٹ پر آگئی، فلیٹ پرآتے ہی نور نے بڑی شدت کے ساتھ مطالبہ کیا کہ جہاں سے آقا قافا اور تمہاری کہانی جدا ہو رہی ہے وہاں سے تم مجھے اپنی کہانی سناﺅ، میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ میری کہانی اتنی خوب صورت نہیں کہ تم اسے سن کر میرے بارے میں اچھا سوچ سکو، اس لیے اسے مت سنو ۔وہ گناہوں سے لتھڑی ہوئی ایک ناپاک داستان ہے ، اسے ماضی کی مٹی میں ہی دبا رہنے دو مگر نور بضد رہی اس نے کہا ”یہ سمجھنا چاہتی ہوں کہ جب تم نے اس بازار کی نیلم کو برہنہ دیکھا تو تجھے وہ خون میں لتھڑی ہوئی مردہ عورت نظر دکھائی دینے لگی، جو تمہارے سامنے قتل ہوئی تھی۔ اس کے بعد تم کس طرح اپنے ذہن سے اس عورت کو کرچنے میں کامیاب ہوئے،“

میں نے نورسے کہا ”اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکے بعد میں جب کسی عورت کے پاس سیکس کرنے کیلئے گیا تو ناکام رہا اور مجھے ویسی ہی کیفیت سے گزرنا پڑا لیکن میں جب پہلی بار اس واقعہ کے تقریباًبارہ سال کے بعد اس ملک میں آیا تو یہاں میری ملاقات ایک ”بالی“ نام کی لڑکی سے ہوئی، میں اپنے ایک دوست کے ریستوران میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہ میرے دوست کے ساتھ آئی اور میری سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی، میرے دوست نے تعارف کرایا اور واپس کاﺅنٹر پر چلا گیا، اس نے مجھے سے پہلا سوال کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ تم نے زندگی بھر کسی کے ساتھ بھی سیکس نہیں کیا۔ میں نے اسکے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔ یقین کرو اس کے چہرے پر اتنی معصومیت تھی کہ اس جملے کے کہنے کے باوجود وہ مجھے کوئی پیشہ ور لڑکی نہیں لگتی تھی، میں نے ہاں میں سر ہلا دیا تو کہنے لگی ”کیا تم مجھے اس بات کا یقین دلا سکتے ہو“ مجھے اس کا یہ جملہ بہت عجیب لگا اور میں نے کہا ”مجھے کیا ضرورت ہے تمہیں اس بات کا یقین دلانے کی، یہ میری اپنی زندگی ہے، تم کون ہو مداخلت کرنے والی“ میں ذرا سا تلخ ہوگیا تھا مگر وہ ہنس پڑی اور بولی، ناراض نہیں ہونا میں تم سے ایک تفصیلی ملاقات کرنا چاہتی ہوں کیا شام میرے ساتھ گزارنا پسند کرو گے وہ اتنی معصوم لگتی تھی کہ انکار کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اس نے جانے کے بعد میں نے اپنے دوست سے اس کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ اس شہر کی ایک بہت پڑھی لڑکی ہے، انسانی حقوق کی ایک بڑی تنظیم کی اہم عہدہ دار ہے۔ میں بھی اس تنظیم کا ممبر ہوں، آج اس کا اجلاس تھا جس میں ایشائی معاشروں میں مرد کے جنسی استحصال پر گفتگو ہوئی اور ایک ریسرچ ایسی سامنے آئی جس کے مطابق ایشیائی معاشرت میں بے شمار مرد ایسے ہوتے ہیں جنہیں تیس تیس سال کی عمر تک عورت سے ملاپ کا موقع نہیں ملتا تو اس نے کہا کہ اگر مجھے کوئی ایسا شخص مل جائے تو میں انسانی ہمدردی کے طور پر اس کے سامنے اپنا جسم پیش کر دوں۔ میٹنگ کے اختتام پر میں نے اس سے کہا کہ ایک شخص میرا مہمان آیا ہوا ہے اور اس کے بارے میں مجھے پختہ یقین ہے کہ اس نے آج تک کسی عورت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اسے میری بات پر یقین نہیں آیا تھا وہ صرف اسے لیے تمہیں ملنے آئی تھی کہ کیا واقعی تم اتنے مظلوم ہو اور یہ جملہ کہتے ہوئے میرے دوست نے بہت زور دار قہقہ مارا تھا اور دیر تک ہنستا رہا تھا۔ مجھے آج بھی اس کی ہنسی کا کوئی مطلب سمجھ نہیں آتا، خیر شام کے وقت مجھے اس کے گھر لے گیا اور دروازے سے مجھے اس کے حوالے کر واپس چلا گیا، اپنے گھر میں وہ اکیلی تھی۔ لباس بھی اس نے بہت شہوت انگیز پہنا ہوا تھا۔ وہ ڈرائنگ روم میں بٹھانے کے بجائے مجھے بیڈ روم میں لے آئی جو بہت ہی خوبصورت تھا۔ ایک دفتر ایک چھوٹی سے ٹیبل کے اردگرد دو کرسیاں رکھی تھیں جس پر دو گلاس اور ایک وائن کی بوتل پڑی تھی، بیڈ روم میں روشنی خاصی تھی مگر اس میں نیلاہٹ کا بہت احساس شامل تھا، ہم دونوں اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور چند رسمی جمہوں کے بعد اس نے میرا انٹرویو کرنا شروع کر دیا۔ میں نے اسے اپنی تمام کہانی سنائی کہ میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے میں کیوں آج تک کسی عورت سے سیکس نہیں کر سکا تو اس نے مجھ سے کہا کہ تمہارے معاشرے میں ہم جنس پرستی بھی خاصی ہے ۔ کیا کبھی کسی لڑکے کے ساتھ بھی سیکس کرنے کا موقع نہیں ملا۔ میں نے اسے کہا ”نہیں چونکہ ہمارے مذہب میں یہ گناہ ناقابل معافی ہے شاید اسی لئے میں اس طرف راغب نہیں ہو سکا، ہاں ایک مشت زنی کے گناہ کا اقرار کر سکتا ہوں۔ اس کے علاوہ کسی طرح کے سیکس سے میری کوئی آشنائی نہیں۔۔

ہاں !عدم سے نہیں آیا ہوا میں

(میں کسی شخص کا ایک تجربہ ہوں )

یہاں تک پہنچا تو میں نے کہا اب میری کہانی ختم۔ تم اپنی شروع کرو اپنی کہانی“نور گھڑیال کی طرف دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی بہت وقت ہوگیا ہے کل ملیں گے۔میں نے کہا ”تم کیسے جاﺅ گی تمہاری گاڑی تو دفتر کی پارکنگ میں کھڑی ہے “وہ فلیٹ سے نکلتی ہوئی بولا ” میں کیپ لے لوں گی تم اب سو جاﺅ “میں تیزی سے اس کے پیچھے آیا مگر وہ سڑک پر ایک ٹیکسی کو روک چکی تھی۔مجھے بھی نیند آرہی تھی ۔

صبح میں معمول کے مطابق دفتر آگیا ۔سہ پہر کے وقت ورما، نور اور میں آقا قافا کے گھر آپہنچے ہوئے تھے۔ آقا قافا کی گفتگو شروع ہوئی۔ انہوں نے کہا ”جس سادھو بابا جس شخص میری تربیت کیلئے مقرر کیا گیاتھا۔ وہ بہت حیرت انگیز آدمی تھا، قرآن حکیم کا حافظ تھا اور دین اسلام کے متعلق اتنا کچھ جانتا تھا جتنا کوئی بڑا عالم دین جان سکتا ہے۔ انہوں نے جب مجھے قرآن حکیم پڑھانا شروع کیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ تو مسلمان ہیں آپ نے کیوں ان سادھووں جیسا روپ سروپ بنا رکھا ہے۔ تو کہنے لگا۔ میں تمام مذاہب کو مانتا ہوں اور میں نے تمام مذاہب کا علم حاصل کر رکھا ہے۔ میرے نزدیک تمام عقیدے ایک ہی سرچشمے کے دریا ہیں، ایک ہی منزل کے راستے ہیں۔ میں نے ان سے کہا ”بتوں کی پوجا کرنا اور ایک خدا کی عبادت کرنے میں بڑا فرق ہے، تو کہنے لگے۔ اس کائنات میں بھگوان کے سوا باقی تمام وجود موہوم ہیں کوئی بھی شے اسکے وجود سے جدا نہیں خواہ وہ پتھر کا بت ہو یا خانہ کعبہ کی عمارت کسی کی طرف بھی سجدہ شرک نہیں۔ شرک کا تعلق تو دماغوں میں سرسرانے والی نیتوں سے وابستہ ہے۔ آقا قافا نے یہاں پہنچ کر ذرا سا دم لیا اور نور نے کھڑے ہو کر سوال کیا ”کیا بتوں کے توڑنے والے اس بات کو نہیں جانتے“ آقا قافا نے مسکرا کر کہا یہ نظریات اس عظیم سادھو کے ہیں۔ میرے نہیں۔ ہاں تو اس نے مجھے نماز پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا، عشاءکی نماز میں ہر رکعت اتنی طویل ہوتی تھی کہ ختم ہوتے وقت تہجد کی نماز کا وقت ہو چکا تھا اور پھر تہجد کی نماز کی ہر رکعت کی طوالت اتنی ہوتی تھی کہ صبح کی نماز کا وقت ہو جاتا تھا، صبح کی نماز بہت مختصر ہوتی تھی اور اس کے ساتھ مجھے روزہ رکھنا ہوتا تھا۔ روزہ رکھنے کیلئے ہمالیہ کے اس غار میں کھجور کا ایک دانہ موجود ہوتا تھا اورپھر دن کو میری تعلیم کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا کہ ظہر کی نماز کا وقت ہو جاتا تھا، ظہر کی نماز سے عصر کی نماز تک کا وقت میری نیند کا تھا۔ اس کے بعد میں جاگتا تھا اور مجھے اس وقت برف کے سرد پانی میں نہانا پڑتا تھا پھر شام کی نماز کے وقت میں نمک کے ساتھ روزہ افطار کرتا تھا۔ اس عمل کے نتیجے میں چودہ دن گزرے تو میں اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ مجھے لگتا تھا کسی وقت بھی میری روح پرواز کر جائے گی مگر ان سادھوںنے مجھ پر شاید کوئی ایسا عمل کر رکھا تھا کہ میرے ارادوں میں کوئی لغرش نہیں آئی تھی۔ پندرہ دن کے بعدمیری حالت سنبھلنے لگی اور پھر چند ماہ کے بعد وہ کھجور کا دانہ اور وہ نمک کی افطاری میرے لئے بہت بڑی غذا بن گئی جو میری تمام ضرورتوں کو پورا کر لیتی تھی، ایک سال کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد مجھے چلہ کشی کیلئے پہاڑ پر بھیج دیا گیا، برف کے پہاڑ پر کھڑے ہو کر صرف اللہ کانام میں نے مسلسل چودہ دن تک پڑھنا تھا، تیسری رات مجھے یوں لگا کہ جیسے شاید میری زندگی کی آخری رات ہوگی کیونکہ برف کے طوفان نے مجھے مکمل طور پر ڈھانپ لیا تھا اور مجھے اپنی جگہ سے ہلنے کا حکم نہیں تھا، میں نے حکم کے مطابق چودہ دن تک اسی طرح برف کے اندر دفن ہو کر اللہ کے نام کا ورد کیا۔ چودھویں دن میرے اوپر سے برف ہٹائی گئی اور اسی عظیم مرتبت سادھو نے مجھے وہاں سے باہر نکالاور کہا کہ تم اپنے پہلے امتحان میںکامیاب ہوگئے ہو۔ میں نے تمہیں صرف سانس کھینچے کا طریقہ سکھایا تھا مگر تم سے امتحان سانس روکنے کا لیا گیا ہے اور یہ ہم نے نہیں یہ کسی الوہی طاقت نے لیا تمہاری یہ کامیابی پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہم زندگی بھر کی ریاضت کے باوجود جس مقام تک نہیں پہنچ سکے تم بہت کم عرصے میں پہنچ جاﺅ گے، میں غار کے اندر پہنچ گیا۔ مجھے کھانے اور پینے کے لئے کچھ نہیں دیا گیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا ابھی تک میرے کھانے اور پینے پر پابندی ہے تو اس نے مجھے کہا نہیں مگر ایک گھنٹے کے بعد شام کا وقت ہوگا اور تم اس وقت روزہ افطار کرو گے۔ روزہ افطاری کیلئے مجھے پانی کھجور کا دانہ اور نمک تینوں چیزیں دی گئیں اور اس کے بعد میں نے شام کی نماز پڑھی اور قرآن حکیم کھول کر اسکی تلاوت کرنے لگا۔ غار میں دیا جل رہا تھا، جو کچھ دیر کے بعد بجھ گیا مگر مجھے قرآن حکیم کی آیتیں نظر آتی رہیں اور میں انہیں پڑھتا رہا، تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد مجھے سے برگزیدہ سادھو کی آواز سنائی دی تھی وہ میرے استاد سے کہہ رہا تھا۔ یہ جو روشنی اس کے بدن سے پھوٹ رہی ہے اس کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ دراصل ہم نے جو اس نوجوان پر دماغ کا مردہ حصہ جگانے کا تجربہ کیا ہے، وہ پہلی مرتبہ کامیابی کے ساتھ ہوا ہے۔ اس لئے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اس کے اندر کیا کیا صلاحیتیں پیدا ہو رہی ہیں، لیکن پرانی پوتھیوں میں لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کے دماغ کا مردہ حصہ زندہ ہو جائے تو وہ پرندوں کی طرح فضا میں اڑنے پر قادر ہو جائے گا۔

میں نے ان کی یہ حیرت انگیز گفتگو سنی اور قرآن حکیم بند کرکے ایک طرف رکھا اور اپنے وجود کا جائزہ لینا شروع کیا کہ مجھ سے یہ روشنی کیسے خارج ہو رہی ہے مگر مجھے احساس ہوا کہ وہ روشنی مجھ سے نہیں پھوٹ رہی تھی وہ قرآن حکیم کا کرشمہ تھا۔ قرآن حکیم کے بند ہونے کے ساتھ ہی وہ روشنی بھی گل ہوگئی ہے مگر قرآن حکیم کے بند کرنے کے بعد بھی چند لمحوں تک میرے وجود کے اردگر ایک روشن ہالے کے طور پر موجود رہی ہے۔

اگلے روز مجھے ایک گرم پانی کی جھیل پر لایا گیا۔ میرے لئے وہ جھیل بھی حیرت انگیز تھی۔ ہر طرف برف پڑی ہوئی تھی اور ان کے درمیان ایک پانی کی چھوٹی سی جھیل جس سے مسلسل بخارات اٹھ رہے تھے جسے لگ رہا تھا کہ پانی بہت زیادہ گرم ہے، میں نے محسوس کیا کہ ہر طرف گندھک کی بو پھیلی ہوئی ہے ۔ مجھے اپنے استاد سادھو نے کہا کہ تمہیں جھیل کے اس کنارے سے اس کنارے تک پانی پر چلنا ہے، میں نے پوچھا اس جھیل کی کتنی گہرائی ہوگی تو اس نے کہا یہ جھیل ہزاروں فٹ گہری ہے۔ میں نے کہا اگر میں پانی پر چلنے میں کامیاب نہ ہوا تو ۔۔۔۔ استاد سادھو نے کہا ”تمہاری موت اور موت برحق ہے۔ نجانے میرے دل میں کیا بات آئی اور میں نے اللہ کا نام لیکر پانی پر پاﺅں رکھ دیا۔ مجھے بے پناہ حیرت ہوئی جب مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں نے پاﺅں پانی پر نہیں زمین پر رکھا ہے۔ میں اللہ کے نام کا ورد کرتا ہوا پانی پر چلتے ہوئے دوسرے کنارے پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ میرے پیچھے میرا استاد سادھو بھی پانی پر چلتا ہوا آرہا ہے، میں نے دوسرے کنارے پر اس سے پوچھا کہ یہ کس طرح ممکن ہو اہے تو وہ بولا ”تمہارا وجود اتنا ہلکا ہو چکا ہے کہ پانی اس کا بوجھ سہار سکتا ہے، بس اتنی سی بات ہے، اس واقعہ کے کچھ ماہ بعد جب میں بے شمار مراحل سے گزر چکا تھا تو میرا سب سے اہم امتحان کا دن آگیا اور مجھے ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے جایا گیا اور کہا گیا کہ یہاں تم نے اڑ کر نیچے تک پہنچنا ہے۔ میں نے نیچے جھانک کر دیکھا تو ہزاروں فٹ کی گہرائی نظر آئی مگر میں نے اللہ کا نام لے کر اڑنے کیلئے فضا میں چھلانگ لگا دی اور مجھے یوں لگا کہ اس مرتبہ میں امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکتا، اب میرے بچنے کا کوئی امکان نہیں میں نے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لانے کی کوشش کی مگر اس کے باوجود زمین پر منہ کے بل گرا اور میں نے اپنے خیال کے مطابق کلمہ پڑھ لیا تھا کہ اب بس موت آگئی ہے مگر چند گھنٹوں کے بعد میں ہوش میں آگیا۔ میں اسی اپنے غار میں موجود تھا اور وہ برگزیدہ سادھو اپنے ہاتھوں سے میرا چہرہ جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا مجھے احساس ہو رہا تھا کہ شاید میرا چہرہ اندر داخل ہوگیا ہے۔ وہ اسے باہر نکال رہا ہے تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے کہا ”تمہیں مبارک ہو تم اس امتحان میں بھی پاس ہوگئے ہو، میں نے بہت نحیف آواز میں جواب دیا تھا۔ مجھے اپنے جسم کی ایک ایک ہڈی ٹوٹی ہوئی محسوس ہو رہی ہے برگزیدہ سادھوبولے یہی بہت ہے کہ تم زندہ ہو یہ ہڈیاں ابھی درست ہو جاتی ہیں اور پھر اس نے میرے جسم پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔ وہ ہاتھ جہاں جہاں سے گزرتا چلا گیا مجھے سکون آتا گیا۔ اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد جب میں نے ایک آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھا تو اپنے آپ کو پہچان نہیں سکا۔ میں نے اپنے سادھو استاد سے اپنے چہرے کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا تمہارا چہرہ گرنے کے بعد بالکل سیدھے پتھر کی طرح ہوگیا تھا، بڑے سادھو نے اسے دوبارہ اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے شاید اس وجہ سے کچھ تبدیلیاں آگئی ہیں۔ یہاں پہنچ کر آقا قافا نے محفل کے برخاست ہونے کا اعلان کیا اور اندر چلے گئے۔

گنہ پیچھے سے باگیں کھنچتے ہیں

(گلے میں پڑا ہوا ماضی)

ہم تینوں باہر آئے تو نور کہنے لگی اب تو مجھے پورا یقین ہوگیا تھا کہ تمہارے اور آقا قافا کے چہرہ میں جو کچھ فرق ہے

وہ اسی وجہ سے ہے ورنہ تم دونوں میں کسی اعتبار سے بھی کوئی فرق نہیں۔ ورما بولا میں سوچ رہا ہوں کہ کسی میڈیکل سائنس کے بڑے ماہر سے ملاقات کی جائے اور اسے یہ تمام کہانی سنائی جائے ممکن ہے۔ وہاں سے کسی بات کی کوئی توجہ مل جائے۔ نور بولی میرا ایک جاننے والا پروفیسر ہے جو کلونگ پر ریسرچ کر رہا ہے۔ میں کل اس سے ٹائم لوں گی، اس کے پاس چلیں گے ممکن ہے کوئی ایسی بات معلوم ہو جائے جس سے کہانی کو کوئی سائنسی بنیاد مل سکے وگرنہ مجھے یہ ایک خیالی کہانی لگتی ہے اور اس پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا مگر کیا کیا جائے یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ میں نے کہا ”نور باقی باتیں بعد میں پہلے تم اپنی کہانی مکمل کرو۔نور ہنس کر بولی ”اچھا ۔اچھا۔ کہیں بھاگی نہیں جا رہی۔اور ورما ہم سے جدا ہو گیا ، نور کو میں نے اسے گھر چھوڑااور اپنے فلیٹ پر آگیا

موبائل فون کی گھنٹی بجی میری ایک بہت پرانی دوست کا فون تھا وہ فلیٹ رات گزارنے کےلئے آنا چاہتی تھی ۔ میں نے بہانہ بناتے ہوئے کہامیرے گھر میں کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں کہنے لگی کوئی فرق پڑتا ۔میں اور تم لیونگ روم میں سو جائیں گے۔اس کے ساتھ ڈوربیل کی بھی بجی۔میں نکی کو یہ سمجھاتے ہوئے دروازے تک آیاکہ آج رات ممکن نہیں ہے کہ میرے فلیٹ پر قیام کر سکو۔میں اسے یہ نہیں کہہ پا رہا تھا کہ اب میں پہلے والا منصور نہیں رہا۔ ادھرڈوربیل بھی مسلسل بجتی جا رہی تھی۔میں نے دروازہ کھولاتو سامنے نکی موبائل پر مجھ سے بات کررہی تھی۔مجھے بہت غصہ آیا مگر نکی نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی وہ اپنی دو ہم عمر لڑکیوں اور دو لڑکوں کے ساتھ دنداتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ جیسے یہ گھر میرا نہ ہو اس کا ہو۔اور لیونگ روم پر قبضہ کرتے ہوئے کہنے لگی۔تم چاہو تو لیونگ روم میں سو سکتے ہو مگر تمہارے مہمان ادھر نہیں آسکتے۔پھر اس نے سارے فلیٹ میں گھوم پھیر کر دیکھا اور پوچھا ”مہمان کہاں ہیں “۔میں نے کہا ”باہر گئے ہوئے ہیں ۔ ابھی آجائیں گے“نہیں اب نہیں آئےں گے تم اپنا موبائل فون بند کردو۔اور اس نے ٹیلی فون سیٹ کی تار جا کر پلگ سے نکال دی۔ پھر میرے ہاتھ سے موبائل فون لے کر اسے آف کر دیااور اپنے پرس میں ڈال لیا۔میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھاکہ میں کیا کروں۔تھوڑی دیر کے بعد لڑکیوں کے اپنے بیگ ریڈلیبل کی دو بوتلیں نکالی فرج سے برف باہر آگئی اور شراب نوشی کا دور شروع ہوگیا۔میں نے نکی سے کہا ” میں باہر تمہارے لئے کچھ کھانے کا لے آﺅں “نکی نے میرا راستہ روکتے ہوئے کہا ”نہیں تم باہر نہیں جا سکتے۔ہم کھانے کی چیزیں ساتھ لے آئے ہیں۔تمہارے چہرے سے لگ رہا ہے کہ تم بھاگنا چاہ رہے ہو۔میں رات بھر اکیلی نہیں رہ سکتی۔ لنڈا اور روزی کے ساتھ تو ان کے بوائے فرئیڈ ہیں ۔تم چلے گئے تو میں کس کے ساتھ سوﺅں گی۔میں اب سچ مچ پریشان ہوگیا تھا۔نکی میرے اندر ہونے والی تبدیلیوں سے واقف نہیں تھی۔وہ نہیں جانتی تھی کہ میں وہ نہیں رہا جو ہوا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ شراب لڑکیوں کے بدن میں گرمی پیدا کرتی چلی گئی اور ایک ایک ان کے کپڑے اترتے گئے ۔تین نیم برہنہ لڑکیاں لیونگ روم میں موجود تھی ۔میں لیونگ روم سے نکل کر کمرے میں جاتا تھا مگر نکی پھر کچھ کر لیونگ روم میں لے آتی تھی۔بار بارخواب کوآنکھ کی شیلف سے نکل جاتا تھا۔۔چمکتی دمکتی ہوئی بے شکل لڑکیاں میرے آئینہ خانے میں داخل ہونے لگی تھیں ۔ نرم و نازک بدن یاداشت کے گلاس سے طلوع ہونے لگے تھے۔دل کی دھڑکن ڈھولک کی تھاپ بننے کو تھی ۔ذہن میں میں لاشعور کی بھولی بھٹکی لہروں کی انگلیاں ہارمونیم پر چلنے لگی تھیں ۔حوا کیلئے لکھا ہوا آدم گیت حوروں کے بدن میں سرسرانے لگا تھا۔ہوس کی ہوا تیز ہونے لگی ۔میں نے محسوس کیا کہ گناہ میرے بہت قریب پہنچ چکا تھا تو میں تیزی سے بھاگا اپنے کمرے میں داخل ہوااور اندر سے کنڈی لگادی۔ نکی باہر سے دستک دینے لگی۔پھر مایوس ہو کر واپس لیونگ روم میں چلی گئی۔میں بیڈ روم کے ٹیلی فون کا ریسور اٹھایا تو نگی اس کا کنکشن بھی باہر نکال چکی تھی ۔نکی اس فلیٹ میرے ساتھ کئی رہ چکی تھی اس لئے اسے ہر بات معلوم تھی ۔ میں بیڈ پر لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگے مگر مجھے باہرسے ایسی جنسیت بھری آوازیںآنے لگیں ۔ جنہیں کوئی نوجوان نظر انداز کر سکتا۔ نکی مجھے با ہر نکالنے کےلئے ہر حربہ استعمال کرنے پر تلی ہوئی تھی۔میں بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ایک کتاب اٹھاکر اسے پڑھنے کی ناکام کوشش کی ۔پھر واک مین ڈھونڈنے لگا کہ اسے کانوں سے لگا کر کوئی گانا سننا جائے کہ ان آوازوں سے محفوظ رہ سکوں مگر واک مین نہیں ملا شاید دفتر میں کہیں رہ گیاتھا۔ میں ابھی چند روز پہلے بیڈ روم سے ٹی وی اٹھا کر کسی کو دے دیا تھاکہ لیونگ روم میں ایک ٹی وی بہت ہے۔اسے بھی دیکھنے کا مجھے وقت نہیں ملتا۔نکی آوازوں کا والیم بڑھانے کےلئے اپنے دوست جوڑوں کو میرے دروازے کے قریب لے آئی تھی۔میرے اندر سے آواز آئی کہ اس گناہ بھری آواز کا مقا بلہ صرف نماز کر سکتی ہے۔مگر نماز پڑھنے کےلئے وضو کرنا ضروری تھا اور برطانیہ بیڈومز کے ساٹھ اٹیچ باتھ رومز کا کوئی تصور نہیں۔میرے ذہن میں فوراً خیال آیا کہ تیمم کر کے بھی نماز پڑھی سکتی ہے اور میں نے روبی کے گلدانوں کو سامنے رکھ کر تیمم کیا ہے۔ اور نماز شروع کی پہلے عشاءکی نماز پڑھی پڑھی پھر نفل پڑھنے شروع کر دئیے تقریباًتین گھنٹوں کی عبادت کے بعد میں بیڈ پر آکر لیٹ گیامجھے اس وقت کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ اس وقت رات کے دوبج رہے تھے۔ نیند میری آنکھوں میں ابھی تک نہیں تھی۔لیکن نماز سے پہلے میں جس گو مگو کی کیفیت میں تھا اس سے باہر نکل آیا تھا۔میں نے دروازہ کھولا۔لیونگ روم میں آیا تو پانچوں افراد برہنہ مدہوش بلکہ بے ہوش پڑے تھے۔ میں نے سب سے پہلے ٹیلی فون کی تار واپس پلگ میں لگائی۔اور تین مرتبہ نو کاعدد ڈائل کردیا۔پانچ سات منٹ میں پولیس پہنچ گئی۔میں انہیں بڑی مشکل سمجھا سکا کہ میرا لوگوں کے ساتھ تعلق نہیں یہ زبردستی کے مہمان ہیں بہرحال پولیس والے اپنی گاڑیوں میں مدہوش افراد کو ڈال لے کر اس کے ساتھ ان کے چیزیں اور کپڑے بھی۔پولیس کو کاغذی کاروائی مکمل کرتے کرتے صبح کے پانچ بج گئے۔ میں نے صبح کی نماز پڑھی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے استقامت بخشی اور پھرمیں سوگیا۔

میں نے سانپ کو مارا اور آزاد ہوا

(پیتل سونا بن گیا)

نیند آتے ہی میں نروان کے پاس پہنچ گیا۔میں نروان کے خیمے میں داخل ہوا وہ اس وقت سو رہا تھا میں نے اسے جگانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا میں بھی وہیں لیٹ اور ایک بار پھر سوگیا ۔میں نے خواب میں دیکھا کہ میں محی الدین ابن عربی کے ساتھ ہوں وہ بھی اس وقت بیس سال کے نوجوان ہیں ہم دونوں اشبیلیہ کے شہر میں ہیں اور ایک وزیر کی دعوت پر اس کے گھر جا رہے ہیں ایک بڑی خوبصورت بگھی میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں جسے دو سفید گھوڑے چلا رہے ہیں ہم ایک محل کے دروازے پر پہنچے ہیں ایک بہت بڑا دروازہ ہمارے لئے کھولا گیا ہے ۔ بگھی اندر جا رہی ہے ایک جگہ ہماری بگھی ٹھہر گئی وہاں کچھ لڑکے د اور لڑکیاں ہمارے استقبال کےلئے موجود تھے ہم ان کے ساتھ محل کے اندر آگئے۔اندر جا کر بیٹھے تو اندر شراب کا دور چل رہا تھا ہمیں شراب پیش کی گئی میں نے محی الدین کی طرف دیکھا انہوں گلاس اٹھا لیا میں نے ابھی اپنا گلاس نہیں اٹھا یا مجھے ایک آواز سنائی دی۔شاید الفاط کچھ یوں تھے ”اے محمد تمہیں اسی لئے پیدا کیا گیا تھا ۔میں نے دیکھا محی الدین نے یہ آواز سن کر گلاس واپس رکھ دیا اور پریشان ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔باہر نکل آئے ۔سڑک پر چلتے گئے ۔راستے میں چرواہا مل گیا جو مٹی سے اٹا ہوا تھا۔محی الدین اس کے لباس کا تبادلہ کیا۔اور شہر سے باہر جنگل میں کل آیا۔ میں مسلسل اس کے ساتھ چل رہا تھا میرا تھکاوٹ سے برا حال ہو چکا تھا مگر وہ کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔کئی دنوں کے مسلسل سفر کے بعد ایک نہر کے کنارے ایک قبرستان میں آگر رک گئے۔پھر ایک ٹوٹی ہوئی قبر میں اتر گئے اور اللہ کی عبادت کرنے لگا۔ میں نے بار بار ان سے اپنے بارے میں پوچھا مگر انہوں کوئی جواب نہ دیا۔میں بھی قبر کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ خواب میں کئی مہینے گزر گئے مگر انہوں نے میرے ساتھ کوئی بات نہ کی ۔اور پھر ایک بہت خوفناک طوفان آیا اور ایک آژدھا اس قبر کے قریب آگیا جسے دیکھ میری چیخ نکل گئی۔اورمیں جاگ پڑا۔مجھے سوئے ہوئے ابھی صرف آدھا گھنٹا گزرا تھا۔ میں نے پھر سونے کی کوشش کی۔ مگر ایسا لگتا تھا جیسے آدھے میں نیند پوری ہو چکی ہے میں ذہنی سکون کےلئے نروان کی طرف چھلانگ لگائی اور اس کے خیمے میں پہنچ گیا وہاں آدھی رات کا وقت تھا نروان جاگ پڑا تھا اور بستر سے اٹھتا ہوا مجھ سے کہنے لگا ”آﺅ ذرا قطبی ستارے سے گپ شپ کرتے ہیں ۔ میں اس کے ساتھ خیمے سے باہر نکل آیا شمال کی طرف آسمان قطبی ستارے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ روشن تھا۔ نروان نے ستارے پر اپنی نظریں مرکوز کرتے ہوئے کہا ”مجھے شک ہے کہ یہ ایک ستارہ نہیں دو ستارے ہیں مگر ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں تین بھی ہو سکتے ہیں۔“ میں نے پوچھا ”یہ جو لوگ اس کی پرستش کرتے ہیں ان کا کیا خیال اس کے متعلق“

نروان کہنے لگا”ان کے خیال یہ ستارہ کائنات کا سب سے بڑا ستارہ سورج سے بھی کئی ہزار گناہ بڑا ہے۔مگر بہت زیادہ فاصلے پر ہونے کی وجہ سے زمیں پر صرف اپنی مثبت لہریں بھیجتا ہے۔ نفی لہریں سورج اور دوسرے ستاروں کی طرف بھیج دیتا ہے۔“میں نے حیرت سے پوچھا ”ستارہ شناسی کا علم تم نے کہاں سے حاصل کیا ہے “ نروان بولا۔ لکھن جو داڑو میں ستارہ شناسی پر بہت کام ہوا تھا “ میں نے حیرت سے پوچھا ”لکھن جو داڑو“ نروان کہنے لگا یہ پانچ ہزار سال پرانی ایک تہذیب تھی۔ یہاں لوگ بہت زیادہ علم رکھتے تھے ۔مٹی کی سلوں پر نقش و نگار بنانے کا کام انہی سے دنیا میں پھیلا ہے۔ہمارے دہن کوٹ میں ایک قبیلہ ہے جوو لاکھن سے ہجرت کرکے ہزاروں سال پہلے یہاں آباد ہوا تھا میں ستارہ شناسی اور کوزہ گری کا علم انہی سے سیکھا ہے “دہن کوٹ میں یہ جو مٹی کے سکوں سے کاروبارہوتا ہے۔ یہ انہوں نے ہی شروع کرایا تھا ۔مٹی کے سکے وہ خود دھالتے آرہے ہیں آج تک ان کی کوئی نقل نہیں بنا سکا۔اچانک ایک سانپ تیز سے میری جانب لیپا مگر میرے ہاتھ تک پہنچنے سے پہلے نروان کو ہاتھ سانپ کے پھن کو اپنی انگوٹھے اور انگلی کے پکڑے میں کا میاب ہو گیا ۔ سانپ نے نروان کے بازو کے اپنی لپٹ میں لینے کےلئے بل کانے لگا مگر نروان ایک زور دار جھٹکے ساتھ سانپ کو لمبا لٹکا لیا ۔ نروان نے ہنس کر کہا ”ایک ہی جھٹکے سے بیچارے کے بند بند جدا ہو گئے ہیں۔پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا یہ بڑا خطرناک سانپ ہے اسے شیش ناک کہتے ہیں ۔اس کی لبائی ابھی کم نہیں ۔ میں نے حیرت سے کہا ”ابھی کم یہ ہے اسکی لمبائی تقریبا! میرے قد کے برابر ہے “ نروان نے ہنس کر کہا ”یہ ابھی بچہ تھا جوان شیش ناک کی لمبائی دس سے بیس ہاتھ تک ہوتی ہے۔۔یہ وہ سانپ ہے سانپوں کو کھاتا ہے۔زہریلے سانپوں کو۔۔یہاں تک شاید یہ اپنی خوراک کی تلاش میں آیا ہے۔یہ اس کا علاقہ نہیں یہ پہاڑی علاقہ کا سانپ ہے۔بڑا جنگجو سانپ ہے۔یہ واحد سانپ ہے کو کبھی کبھار نیولے کو بھی مار لیتا ہے۔ نروان اسی طرح سانپ کو لٹکائے ہوئے دیوی کے خیمے کی طرف چل پرا۔ خیمے کے دروازے پر پہرے دار موجودتھا نروان اس کی نظر سے بچتا ہوا خیمے کی پچھلی طرف گیااور مرے ہوئے سانپ کو خیمےءکے اندرڈال دیا۔ پھر ہم گھول کر پہرے دار کے پاس آگئے۔نروان اسے کہا ”دیوی نے بلایا ہے ایک شیش ناک اس کے خیمے میں داخل ہو گیا تھا ۔ دیوی کی نظر پڑتے ہی اس کی موت واقع ہو گئی ہے دیوی نے کہا ہے کہ اس کی میت خیمے سے اٹھا لی جائے۔ پہرے دارنے پورے زورآواز دی ۔”دیوی جی نروان آیا ہے “ پہرے دار کی آواز دیوی جاگ پڑی ۔ اوراس نے اندر سے کہا ”آنے دو“ نروان اندر داخل ہوا اورکچھ دیر کے بعد مرے ہوئے سانپ کو اٹھا کر باہر نکل آیا سارا قافلہ جاگ پڑا دیوی کا معجزہ دیکھنے کےلئے ۔ایک دو بوڑھے تاجر شیش ناگ کو اچھی طرح دیکھنے لگے کہ اس کے جسم پر کسی چیز کے لگنے کا کوئی نشان ہے یا نہیں۔اور پھر بے نشان بدن کو دیکھ کر ایک شخص نے کہا ” یہ واقعی دیوی کی قوت سے مرا ہے۔لگتا ہے ناگ دیوتا کے ساتھ دیوی کی جنگ شروع ہونے والی ہے “اس کی یہ بات سن کر سب لوگ سہم گئے ۔میں نروان کے ساتھ وہاں سے واپس میں خیمے میں آگیا ۔ میں نے کہا ”یہی سانپ ناگ دیوتا کی نسل کا ہے نا“ نروان بولا ” اسی لئے تو اسے دیوی کا معجزہ قرار دلایا ہے “میں نے ہنس کر کہا” تم اس دیوی کا کیا بنانا چاہتے ہو۔ نروان کہنے لگا ”سچ مچ کی دیوی “میں نے کہا ”مگر جھوٹ سے سچ مچ کی دیوی نہیں بن سکتی “ نروان نے پوری سنجیدگی سے کہا ”میرے نزدیک دیوی اور دیوتا کی تمام تر طاقتیں ۔ ان کے ماننے والوں کی کثرت سے انہیں حاصل ہوتی ہیں ۔۔دیوتا اس لئے دیوتا ہوتا ہے کہ لوگ اسے دیوتا سمجھتے ہیں ۔ابھی تو میں ایک دیوی کی شان میںگیت لکھ رہا ہوں جو لہوار جا کر سامنے آئے گا۔یہ دیوتا ﺅں نے دیوی کی شان کہا ہے۔“ اس نے مجھ پتھر کی ایک باریک سے پلیٹ دکھائی جس پر کچھ تصویریں کندھا کی گئی تھیں۔پھر وہ چھینی لکھ کر اس پتھر کی پلیت پر کچھ اوربنانے لگا ۔ میں نے اس سے پوچھا یہ دائیں سے بائیں طرف کام کر رہے ہو اس کی کیا وجہ ہے ۔ بائیں سے دائیں بھی تو لکھ سکتے تھے ۔ نروان بولا ”یہ دراوڑی رسم الخط ہے دائیں سے بائیں طرف ہی لکھا جاتا ہے۔ میں نے کہا ”مجھے یہ گیت نہیں سناﺅ گے “ نروان بولا ”ابھی مکمل نہیں ہوا“

پھر اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا مجھے یوں لگا جیسے مجھ پرآخرکار روح کا درِ طلسم کھل گیا ہے۔حیرتوں کی راہداریوں میں فہم کے آدھے دھڑپتھرکے ہو نے لگے۔میں نے سگریٹ سلگایا اوتدماغ میں دھویں کے مرغولے انسانی بدن کی شکل میں لہرانے لگے ۔میرے اندرعدم آباد میں کہانیاں کروٹیں لینے لگیں۔عجیب و غریب احساسات وجود میں پھیلنے لگے ۔ یوں لگنے لگا جیسےوجدان تڑخ گیاہے۔گیان پیچھے رہ گیا ہے۔بے حد و بے کراں کائناتیں ایک عصبیے میں سمٹ آئی ہیں۔ازل اور ابد کاغذ پر کھینچی ہوئی لکیر کے دو نقطے بن گئے ہیں ۔وقت پلے سٹیشن فائیو کی گیم کی طرح بچوں کے اشاروں پر حرکت کرنے لگا ہے۔دیکھنے والے سکرین کے اندر داخل ہونے لگے ہیں ۔کہانی کار اور کہانی کے کردار آپس میں گتھم گتھا ہوگئے ہیں ۔وہ لفظ جو الف سے پہلے تھے اور وہ ہندے جو صفر سے پہلے تھے علم کے فٹ پاتھ پر چہل قدمی کرنے لگے ہیں ۔میں نے نئے آدم کا عصبیہ تخلیق کرلیاہے۔پھرایسے آدمی میرے اردگردچلتے پھرتے دکھائی دینے لگے تھے جو نسلِ آدم میں سے نہیں تھےاس کے ساتھ ڈور بیل بجی ۔ میں خیالوں کی دنیا سے نکل آیا۔

او پچھلے پہر رات کے جا نیند سے کہہ دے

(اب خواب میں بھی کوئی کسی سے نہیں ملتا )

دروازے پر گیا تو نور کھڑی تھی ۔ اس کے ہاتھ میں بریڈفورد کا لوکل نیوز پیپر ٹریلی گراف اینڈ آرگس تھا۔ اس نے اخبار میرے طرف برھاتے ہوئے کہا ”رات یہاں اتنا کچھ ہوا اور تم نے بتایا ہی نہیں ۔ ہم لیونگ روم میں آگئے میں اخبار میں دیکھا رات یہاں جو کچھ ہوا تھا اس کی ساری تفصیل تصویروں کے ساتھ چھپی ہوئی تھی۔میں اللہ کا شکر پڑھا کہ کم ازکم میری تصویر نہیں چھپی ہوئی مگر خبر میں میرے بارے میں تمام تفصیل موجود تھی۔ میں نے نورسے کہا ”پرانے گناہوں کو نئی نیکیوں میں بدلنے کی کوشش اتنی آسانی نہیں ہے۔ رات میں نے جس طرح گزاری ہے یہ میں ہی جانتا ہوں “نورزیادہ دیر نہیں بیٹھی اس نے کہیں جانا تھا وہ یہ کہہ کر چلی کہ آقا قافا کی مجلس میں ملاقات ہو گی ۔ میں نے دفتر جانے کا سوچا مگر دل نہیں مانا ناشتہ کیا۔ورما سے ٹیلی فون پر بات کی ۔تھوڑی دیر ٹیلی ویژن واچ کیا اور پھر تیار ہو کر گھر سے نکل پڑا وقت سے کافی پہلے آقا قافا کے پیلس میں پہنچ گیا۔ وہاں آقا قافا موجود نہیں تھے ۔ صرف ان کا کتا تھا ۔میں نے کتے سے پیار کیا ۔ وہ میرے ساتھ لان میں آگیا مجھے لان میں پڑی ہوئی ایک گیندکھائی دی ۔ میں اس کے ساتھ راون یعنی کتے سے کھیلنے لگا وہ کتا حیرت انگیز طور پر پھرتیلا تھا گیند میں چھلانگ لگا کر ہوا میں پکڑ لیتا تھاپھر مجلس میں شریک ہونے والے لوگ پہنچنے لگے۔ نور بھی آگئی۔ ہم سب لیونگ روم میں جا کر بیٹھ گئے لیکن آقا قافا تشریف نہیں لائے ۔ اتنی دیر میں نور کے موبائل فون کی گھنٹی بجی ۔ دوسری طرف آقا قافا تھے ۔ انہوں نے کہا کہ آج مجلس نہیں ہو گی ۔وہ ابھی واپس نہیں آسکتے۔ سب لوگ چلے گئے ۔ ۔میں اور نور وہاں نکل کر یونہی گھومتے پھرتے رہے۔ ایک جگہ سے غلط ٹرن لے لیا اور ایم ون چڑھ گئے۔ موٹر وے پر واپسی کےلئے تقریبا تیس میل سفر کرنا پڑ گیا۔میں نے نورسے کہا ”آج کل مجھے وہم پڑا ہوا ہے تم میرے ساتھ شادی سے انکار کردو گی “ ہنس کر بولی ”اگر آقا قافا درمیان نہ ہوتے تو شاید کبھی کا انکار ہو چکاہوتا۔ میں برا سامنہ بنا کر کہا ”کیا میں یہ سمجھوں کہ تم آقا قافا کی وجہ سے میرے ساتھ شادی کر رہی ہو“نور کہنے لگی

تم کچھ بھی سمجھو لیکن یہ بات طے ہے کہ تمہاری اور میری شادی ہونی ہے کیونکہ یہ بات آقا قافا نے کہی ہے ۔اور اس کی کہی ہوئی کوئی بات آج تک غلط نہیں ہوئی “ہم رات کا کھانا کھا کر جدا ہو گئے ۔میں اپنے گھر آگیا۔

نور کو سوچتے سوچتے نروان کے پاس پہنچ گیا نروان نے مجھے دیکھتے ہی کہا ”ا ب تم میرے ساتھ سفر نہیں کر سکتے ۔تم نے اب مستقبل میں سفر کرنا ہے ۔تمہیں کہیں اور جانا ہے کسی اگلے زمانے میں تمہارا انتظار ہو رہا ہے۔ اب تم کسی اور کے حوالے کئے جانے والے ہو۔جتنی روشنی جتنی خوشبو میرے پاس تھی وہ تمہاری آنکھوں اورتمہاری سانسوں میں گھل چکی ہے۔اس کے ساتھ نروان کا چہرہ وہ خیمے وہ صحرا سب کچھ کہیں غائب ہو گیااور میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا ۔ مجھے ایسا لگا کہ نروان سے میرا رابطہ ہمیشہ کےلئے منقطع ہو گیا ہے میں نے آنکھیں بند کیں اور نروان کو اپنے خیالوں میں آباد کرنے کی کوشش کی مگر میں ناکام رہا ۔تھک ہار کر سونے کی کوشش کی مگر نیند بھی نروان کے ساتھ غائب ہو گئی تھی ۔ اٹھ بیٹھا۔ چائے بتائی ۔ پی۔ گھر سے باہرنکل آیا کچھ دیر یونہی اپنے فلیٹ کے باہر کھڑا رہا۔ پھر سڑیٹ میں چلنے لگاچلتے چلتے وائٹ ابی روڈ پر آگیا۔گلی کے کونے والا پب بند ہوچکا تھا آخری شرابی جوڑے ایک دوسرے کوسنبھاتے لڑکھڑاتے سڑک پرچل رہے تھے۔میں انہی کے ساتھ چلنے لگا۔ایک شرابی میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ”بلیک ڈاگ نہیں پی مگر لہو میں کالے کتے بھونک رہے ہیں “میں نے کسی کی طرف توجہ نہیں دی ۔بس چلتا چلا گیا۔میری دائیں طرف بک سنٹر کی عمارت آگئی بند بک سنٹر کو میں کھڑا ہو کر دیکھنے لگابک سنٹر اردو کتابوں کی یورپ میںسب سے بڑی دکان ہے۔مجھے مرحوم جاوید علی یاد آگئے وہ اسی بک سنٹر میں کام کرتے تھے میر ا ن سے پہلا تعارف لاہور میں ہوا تھا۔مجھے کسی نے یہ واقعہ سنایا تھاکہ وہ بریڈفورڈ میں کسی ریستوران کے مالک کے مہمان تھے۔کسی سلسلے میں انہیں ریستوران کے کچن میں داخل ہونا پڑاتو وہاں ایک شخص تندور پر روٹیاں لگاتے ہوئے شیف سے مخاطب ہو کر کہہ رہا تھا کہ کسی قوم پر اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں کہ وہ عقل و خرد کی دشمن ہو جائے۔ ایک تندورچی کی زبان سے یہ جملہ سن کر میں مجبور ہوگیا کہ اس سے بات کروں اور پھر مجھے احساس ہوا کہ میرا میزبان تو خداجانے شاعر ہے یا نہیں مگر اس کے ریستوران میں کام کرنے والا تندورچی نہ صرف شاعر ہے بلکہ اس نے افلاطون اور ارسطو سے لے کرفرائیڈ اور ژنگ تک کو پڑھ رکھا ہے ۔ پھر میں نے سوچا ایسا صرف برطانیہ میں ہو سکتا ہے۔پھر میں بک سنٹر کے ساتھ والی گلی میں مڑ گیا وہ گلی مجھے اپنے ساتھ تھارٹن روڈ پر لے آئی۔ہر دو تین سو فٹ پر کھڑی ہوئی گوری دیکھ کر مجھے یادآیا کہ یہ علاقہ تو ریڈ لائٹ ایریا بن چکا ہے ۔ پہلے جہاں ریڈ لائٹ ایریا ہوا کرتی تھاوہاں پیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی نے رہائش رکھ لی تھی ۔ مسجد آباد ہوگئی تھیں ۔ سو پراسچوئیٹ کو وہ علاقہ چھوڑ نا پڑ گیاتھا۔لڑکیاں مجھے شکار سمجھ کر میرے قریب ہونے لگی ۔برنس کی آفر ہونے لگی ایک لڑکی تو سر ہوگئی ۔مسلسل میرے ساتھ چلتے ہوئے کہنے لگی ۔ بزنس کرو گے ۔ بزنس کرو گے۔ تنگ آکر میں نے کہا ”مائی ڈیئرمیں نے خسارے کا کاروبار کبھی نہیں کیااتنے میں ایک پولیس کار آگئی پراسیچوئیٹس اسے دیکھ کر ادھر ادھر ہوگئیں پولیس کار میرے پاس آکر اس میں دو نوجوان پولیس والے تھے ایک لڑکی اور ایک لڑکا تھا ۔لڑکی مجھ سے کہا ”دیکھنے میں شریف آدمی لگتے ہیں ۔ اس وقت اس جگہ تمہاری موجودگی تمہارے لئے مناسب نہیں۔میں نے کہا ” میں لیجٹ گرین جا رہا ہوں صنم ریستوان پر۔ لڑکی نے کہا ”آﺅ ہم چھوڑ دیتے ہیں “اور پھر چند لمحوں کے بعد میں صنم ریستوران پہنچ گیا تھا ۔ صنم ریستوران بریدفورڈ کے ان چند ریستورانوں میں سے ایک ہے جو رات تین بجے تک کھلے رہتے ہیں۔پولیس کار سے اترتے دیکھ کر صنم ریستوان کے مالک اے ڈی انجم نے مجھ سے پوچھا”خریت ہے “ میں نے ہنس کر انہیں سارا واقعہ سنایا۔ کہ پولیس والے اپنے طور پرمیری عزت بچا کر مجھے یہاں تک لے آئے ہیں۔ انجم صاحب نے مجھے ایک دس سال پرانا واقعہ یاد دلایا۔دس پہلے کی بات ہے پاکستان سے میرے پاس دو مہمان آئے ہوئے تھے ایک اس وقت کے وفاقی وزیر قانون تھے اور دوسرے پاکستان کے ایک بڑے رائٹر تھے۔ دونوںکے ساتھ ان کے بیٹے آئے ہوئے ایک شخصیت کا بیٹا سترہ سال کا تھا اور دوسری شخصیت کا بیٹا اٹھارہ سال کا تھارات دوبجے وہ یونہی میرے ساتھ گھومتے گھومتے ریڈلائٹ ایریا میں جا نکلے۔ اچانک میں دیکھا کہ ایک نوجوان رہ گیا ہے کسی کالی لڑکی کے ساتھ محو گفتگو ہے۔ اس نے ہمیں آواز دی ہم بھی اس کے پاس پہنچ گئے وہ اس کالی لڑکی ساتھ چل پڑا ساتھ ہی ایک مکان دونوں اس کے اندر داخل ہوئے ہم بھی پیچھے اندر چلے گئے اندر ایک بہت موٹی تازی گوری بھی موجود تھی پتہ چلا کہ اس نوجوان نے اس لڑکی کے ساتھ سودہ کیا ہے چالیس پونڈ میں تین آدمی سکیس کریں گے۔اور وہ دو ہونگی۔ ہم دونوں کے انکار کردیا اوروہ نوجوان اس کالی لڑکی کے ساتھ اوپر بیڈروم میں چلا گیاابھی گئے ہوئے پانچ سات منٹ ہی ہوئے کہ اوپر سے شور سنائی دیا۔ وہ نوجوان سڑیٹ گالیاں نکالتے ہوئے نیچے آرہا تھا وہ کالی لڑکی جو تھی بڑی پُرکشش۔اس کے ہاتھ لکڑی کا ٹکڑا تھا جو وہ اس کی پشت پر مارہی تھی۔ لڑکی اندھی کی طرح نیچے اترتی باہر والی دروازے سے گوری کو یہ کہتے ہوئے نکل گئی کہ انہیں نکلنے نہ دینا۔اس گوری نے فوراً اندر سے کنڈی لگادی اوردروازے کے آگے دونوں پھیلا کر کھڑی ہو گئی ۔ میں اسے نکلنے کےلئے سو پونڈ کی آفر دی پھر دو سوپونڈ کہا۔ مگر اس نے انکارکر دیا۔ میں نے ان دونوں میں سے جو ذرا مضبوط بدن کا تھا اس کو میانوالی کی زبان کہا کہ یہاں سے فوراً نکلنا ضروری ہے اس طرف اس عورت کو تم پکڑو اس طرف سے میں پکڑتا اور پھر چشم زدن میں ہم دونوں نےاس موٹی تازی گوری کو اٹھا کر صوفے کی طرف پھینکااور کنڈی کھول کر باہر نکلے جیسے ہی باہر نکلے پولیس گاریوں سائزن سنائی دینے لگے۔ ہم دونوں سے کہا اب بھاگو اور پھر ہم تینوں بھاگنے لگے زندگی میں اتنی تیز شاید اس پہلے میں یا اس کے بعد میں کبھی نہیں دوڑا ۔آخرکارہم فلیٹ تک پہنچ گئے دروازہ کھولا اندر داخل ہوئے اور تینوں گر پڑے۔ میرا مسئلہ یہ تھا کہ اگر پولیس نے پکڑ لیاتو میں ان دونوں کے والدین کو کیا منہ دکھاﺅں گا۔۔۔صنم ریستوران میں کافی دیر تک انجم صاحب سے گفتگو ہوتی رہی۔ رات تین بجے وہ مجھے اپنی گاڑی پر گھر چھوڑ گئے۔

ایک حیرت کدے میں حیرت تھی

(یہ میں ہوں کہ وہ )

صبح بیدار ہوا تو مجھے پھر نروان یاد آیامیں نے پھر اس کے ساتھ اسی قافلے میں شریک ہونے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ میں بستر پر پڑا رہا۔دفتر نہیں گیا سارا دن گھر میں نروان تک پہنچنے کی تگ و دو کرتا رہا۔ نور کا فون آیا اسے بھی بتایا کہ وہ نروان والی کیفیت خود بخود ختم ہو گئی ہے۔اسے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی ۔سہ پہر کو نور کے ساتھ آقا قافا کی مجلس میں پہنچ گیا انہوں نے مجھ سے ملتے ہوئے کہا ” نروان کا کام ختم ہو چکا ہے اب تمہیں محی الدین ابن عربی کے حوالے کر دیا گیا آج سے تم ان کے ساتھ رہا کرو گے “میں نے ان سے پوچھا کہ نروان تو میرے ساتھ اس وقت سے تھا جب میں آپ کو جانتا بھی نہیں “آقا قافا بولے ”مگر میں تو تمہیں جانتا تھا “

اس کے بعد آقا قافا نے اپنی کہانی کا آغاز کرتے ہوئے کہا ”میری کہانی اب اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے۔اور تم جانتے ہو کہ کہانی اختتام پرمیں تم سے ہمیشہ کےلئے جدا ہو جاﺅں گا اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی سوال جو تم پوچھنا چاہتے ہو مجھ سے پوچھ لو ”ایک شخص نے کہا ” کیا ایسا ممکن نہیں کہ کہانی کے اختتام پر آپ ہم سے جدا نہ ہوں “ آقا فابولے ”نہیں یہ ممکن نہیں ۔مجھے یہاں سے کہیں اور جانا ہو گا“ تمام لوگ بشمول میرے کہنے لگے ”ہم نے یہ کہانی نہیں سننی ۔ہم آپ سے جدا نہیں ہونا چاہتے “ آقا قافا نے ہنس کر مجھ سے کہا ” منصور تمہارا بھی یہی خیال ہے “ میں نے کہا ”ہاں ۔ میں اتنا سمجھ چکا ہوں کہ آپ سے میرا کوئی بہت گہرا رتعلق ہے لیکن اس تعلق کا اسرار سمجھنے کےلئے اتنی بڑی قربانی نہیں دے سکتا ۔ میں نے کہانی نہیں سننی “آقا قافا بولے ”لیکن مجھے حکم ہے کہ میں نے تمہیں کہانی سنانی ہے اور اس کے بعد یہاں سے چلا جانا ہے“میں نے اہل محفل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ” میں آپ کی محفل سے جا رہا ہے ۔میں نہیں ہونگا تو آقا قافا کو کہیں سے جو حکم ملا ہوا ہے وہ اسے پورا نہیں کر سکیں ۔ یہ کم از کم آپ سے تو یہ جدا نہیں ہونگے“ ۔ میں یہ کہہ کر باہر جانے لگاتو پیچھے سے آقافاقا نے مجھے آواز دے کر کہا”یہ امر ہے اسے پورا ہونا ہے آج نہیں تو کل۔۔یہ ہو کر رہے گا۔ اس لئے رک جاﺅ ۔۔میں بڑی مشکل سے تمہیں اس مقام تک لایا ہوں “ مگرمیں رکا نہیں ۔گاڑی میں بیٹھا اور فلیٹ پر آگیا۔لیونگ روم میں بیٹھ کر حالات کا تجزیہ کرنے لگا۔یہ سوچنا شروع کیا کہ جو کچھ میں نے آج آقاقافا کی محفل میں کیا ہے وہ درست تھا یا نہیں ۔کوئی مسلسل میرے دماغ کوقائل کرنے کی کوشش کرتا تھا کہ میں نے ٹھیک نہیں کیا ۔ مجھے آقا قافا کی کہانی سنی چاہئے تھی۔وہ کیسے گم ہو سکتے ہیں جہاں بھی جائیں گے ہم انہیں تلاش کرلیں گے۔اور پھر میں اس بات کا قائل ہو گیا جو ہو گا دیکھا جائے گا میں نے کار نکالی اور دوبارہ آقا قافا کی مجلس میں پہنچ گیا۔آقا قافا نے مجھے دیکھتے ہی اہل مجلس سے کہا ” میں نے کہا تھا نا وہ واپس آجائے گااور تم سب لوگ یہاں بیٹھ کر مجھ سے میری کہانی سنو گے ۔ میں اپنی کہانی آگے بڑھاتا ہوں ۔۔۔۔“ میں نے کہا ”ٹھہریے ”ہم آپ کی کہانی ضرور سنیں گے۔ میں چاہتاہوں کہ پہلے آپ ہمیں ہمارے سوالوں کے جواب دیں “وہ بولے آج مجلس برخواست کرتے ہیں ۔کل باتیں کریں گے“

وہاں سے نکلے تو میں نے نورسے کہا ”میں تم سے لمبی گفتگو کرنا چاہتا ہوں کسی ایسی جگہ چل کر بیٹھتے ہیں جہاں دیر بیٹھا جا سکے ۔نور مجھے شیڈو ایمپنی پیلس میں لے آئی۔ یہ کسی فرانسیسی بادشاہ کا محل ہوا کرتا تھا اب فرنچ گورنمنٹ نے اسے ہوٹل میں تبدیل کر دیا ہے ۔ یہ بہت خوبصورت جگہ تھی۔میں یہاں پہلی بار آیا تھا۔ہم برمنگھم سے ایم فائیو پر ویلز کی طرف نکلے تو ٓآٹھ دس میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاﺅں تھا اس ٹاون میں داخل ہونے سے پہلے ایک سڑک شیڈو ایمپنی پیلس کی طرف موڑی۔ قدیم زمانے کاایک شاندار محل ہمارے سامنے تھے ۔بڑے بڑے وسیع و ریض لان تھے ان کے درمیان سے سڑک مڑتی ہوئی محل کے پچھلے دروازے تک ہمیں لے آئی ۔ وہاں پارکنگ میں گاڑی پارک کی ۔ نورمحل اندر جانے لگی تو میں نے اسے کہا ”مجھے ذرا اس محل کو باہر دیکھ لینے دے ۔ بڑے دنوں کے بعد کسی اتنی خوبصورت جگہ پر آیا ہوں۔ہم وہاں سے چلتے ہوئے محل کے میں دروازے کے سامنے آگئے ۔دروازے کے باہر کم از کم دوسو فٹ چوڑا اور تین سو فٹ لمبا سنگِ زرد کا ایک تختہ تھا جس کی سڑھیاں نیچے لان میں اتر رہی تھیں ۔ ہم جیسے سیڑھیاں اترے تو ہمارے ایک اور دلفریب منظر تھا۔ سڑھیوں کے بالکل سامنے ایک بہت بڑا فوارہ بنا ہوا تھا۔فوارے کے حوض کے درمیان میں ستون تھا اس ستون کے چاراطراف میں بچوں کے چار بت لگے ہوئے تھے۔ ہر بچے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ موجود تھی۔اس ستون کے اوپر ایک بڑا سا گول تھا سجایا گیا تھایہ تھال کو چاروں اطراف سے انداز میں کاٹا ہوا تھا کہ چاروں طرف سے پانی گرتا ہوا معصوم بچوں کی مسکراہت میں شامل ہو جاتا تھافوارے پر بڑے حسین و جمیل نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ وارے کے دو طرف چبوترے تھے جس پر شیر بیٹھے ہوئے ہیں۔شیروں کے اتنے حقیقی بت میں نے کہیں کم دیکھے تھے۔تھوڑا سا آگے ہوا تو مجھے ہر طرف اسی طرح کے فوارے لگے ہوئے دکھائی دیا۔ سر سبز بڑے بڑے لانوں کو نرم و نارک پتھریلی پگڈنڈیاں آپس میں ملاتی تھیں ، دور ایک لان میں مجھے کچھ اسٹریلین نسل کی گائیں چرتی ہوئی نظر آئیں ۔ دوسرے لان میں بھیڑیں پھرتی تھیں ۔ ہم ایک پگڈنڈی پر آگئے پگڈنڈی چلتے چلتے لکڑی کے ایک پل پر پہنچ گئی۔جس کے نیچے سے ایک نہر گزاری گئی تھی وہ لکڑی کاپل کیا تھا آرٹ کا ایک شہکار تھا۔ باہر کے منظروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم محل کی طرف کی بڑھنے لگے۔ قریب آئے تو میں نے دیکھاکہ جھوکوں میں نیم برہنہ گوریوں کے بت سجائے گئے ہیںمجھے وہ بہت ہی خوبصورت لگے ۔ میں نے نور سے کہا ”آرٹ کے اصل شہکار تو بالکونیوں میں لگائے گئے ہیں “۔نور نے ہنس کر کہا ”ہاں مگر ان پتھروں کا سنگ تراش خدا ہے“۔میں نے نور کا جملہ سن کر اور غور سے ان بتوں کی طرف دیکھا تو ان میں زندگی موجود تھی مجھے بڑی شرم آئی۔میں نے بات کو پھیرتے ہوئے کہا”برطانیہ میں بھی کیسے کمال فنکار پیدا ہوئے ہیں ۔“ہم محل کے اند داخل ہوئے۔مجھے یوں لگا جیسے حیرت کدے میں آگیا ہوں۔دیواروں پر شیشے اور رنگ کی آمیزش سے ایسی مینا کاری کی گئی تھی کہ لگتا تھا ۔ہر طرف ہیرے جواہرات جڑے ہوئے ہیں ۔میں نے گور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ اس میں جدید دور کی لائٹس کا بھی کمال موجود ہے۔ڈائینگ ہال میں داخل ہوا تو لگا جیسے ابھی کسی فلم اکبر اعظم کا کوئی سیٹ لگا ہوا ہے اور ابھی بادشاہ سلامت کھانے کےلئے اس میں تشریف فرما ہونا ہے۔ہمیں ایک ٹیبل پر بیٹھا دیا گیا۔قدیم زمانے کے لباس میں ملبوس بیرے ہمارے ارد گرد چکرانے لگے مجھے ا س محل کی آرائش سے متاثر دیکھ کر نورنے کہا ”دہن کوٹ میں ہمارا محل اس کہیں بڑا اور خوبصورت ہے میں نے بے یقینی سے نور کی طرف دیکھا تو میری نظر اس کے پیچھے دیوار پر لگی ہوئی مونا لیزا کی تصویر کی طرف گئی جو خاصے بڑے سائز کی تھی۔ نورنے میری نظر کا پیچھے کرتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا۔اور پھر کہنے لگی” یہ تصویر اگرچہ مونا لیزا کی اصل پیٹنگ کی کاپی ہے مگر اس کے باوجود بے پناہ اہمیت کی حامل ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے ایک فرانسیسی مصورہ جولیانا پیٹر نے مونا لیزا کی تصویرکی پانچ کاپیاں بنائی تھیں۔ان میں سے ایک کاپی میرے دھن کوٹ والے محل میں بھی لگی ہوئی ہے۔۔ہمارے محل میں کئی کمرے ایسے ہیں جن کی دیواروں پر صادقین نے مہینوں کام کیا تھا“ میں نے کہا نور یہ جو مونا لیزا کی پیٹنگ کا خالق تھا لیونارڈو ڈونچی ۔۔ نور جملہ کاٹتی ہوئی بولی

تم نے مجھ سے لمبی گفتگو کرنی تھی۔ مجھے معلوم ہے تم کیا چاہتے ہو ۔تم میرے بارے میں جاننا چاہتے ہو۔میں نے آنکھوں سے اس کے اندازے کی داد دیتے ہوئے کہا ”تمہارا اندازہ درست ہے‘نور بولی ” ۔تمہیں حق ہے کہ میرے ماضی کے بارے میں جاننے کا ۔۔اور شاید ہم کسی نتیجے پر پہنچنے والے ہیں ۔ میں نہیں چاہتی کہ میرے ماضی کی کوئی بات تم سے چھپی ہوئی ہو۔میری کہانی کچھ زیادہ لمبی نہیں ۔ میں نے پوچھا ”کیا مجھ میں یہ تجسس نہیں ہونا چاہئے۔ اچھا آقا قافا کے بارے میں کوئی اور بات۔ جو تم نے مجھے نہ بتائی ہو“نور بولی”آقا قافا صرف ایک بار اس سارے عرصہ میں میری نظروں سے غائب ہوئے ہیں ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ میں نیپال جا رہا ہوں ایک ہفتے کےلئے۔میں صبح اٹھی تو گھر میں موجود نہیں تھے۔ دو تین کے بعد انہوں نے مجھے فون کیا”کہ وہ نیپال میں ہیں ۔ جس نمبر سے وہ فون آیا تھا میں نے اس کی تحقیق کی تھی وہ نمبرنیپال کا ہی تھا

آقا قافا کے پاس کوئی پاسپورٹ نہیں ہے کوئی شناختی کارڈ نہیں کچھ بھی نہیں ہے۔ یہاں قانونی طور پریا غیر قانونی طور پر ان کا کہیں کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ ایک بار کسی نے شکایت کر دی تھی کہ اس مینشن میں ایک آدمی غیر قانونی طور پر رہتا ہے پولیس آئی حیرت بات یہ ہے کہ آقا قافا مجھے تو اس وقت نظر آرہے تھے پولیس والوں کو دکھائی نہیں دیتے تھے۔میں نے کئی مرتبہ انہیں کہا ہے کہ انہیں بڑی آسانی سے یہاں کی شہریت مل سکتی ہے تو انہوں نے کہا”میرے پاس یہاں کی شہریت موجود ہے “اور میں اس بات پر ایمان رکھتی ہوں کہ انہوں نے جھوٹ کبھی نہیں بولا“

نور نے مجھ بازو سے پکڑ کر کہا ”آﺅ چلیں۔آج ہم نے کہیں جانا تھا ۔ لیٹ ہورہے ہیں ۔ “

میں نور کے ساتھ باہر آیا کار میں بیٹھتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا ”ہم نے کہاں جانا تھا “کہنے لگی” میں نے تمہیں بتایا تھا کلونگ پر ریسرچ کرنے والے پروفیسر کے بارے میں ۔ میں نے اسے ٹائم لے لیا ہوا ہے “

میں نےپوچھا ’’ اس سے ہم کیوں مل رہے ہیں ۔ نور بولی ۔وہ باتیں جو میں نے ابھی تک نہیں بتائیں وہاں اس پر کچھ گفتگو ہوگی ‘‘

میں نے حیرت سے کہا ۔’’وہ باتیں اسے بتائو گی مجھے نہیں ‘‘

نور بولی ۔ ’’قصہ یہ ہے ۔میرے اندر آقا قافا سے زیادہ تمہیں سمجھنے اور جاننے کا تجسس ہے یقین کرو جو چیز مجھے سب سے زیادہ تمہارے قریب لے آئی ہے وہ یہی تمہارے بارے میں جاننے کا تجسس ہے ۔میں جاننا چاہتی ہوں کہ آقا قافا کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے تمہاری آواز تمہارا لہجہ آقا قافا سے ملتا جلتا ہے تم دونوں کی تاریخ پیدائش ایک ہے۔ تمہارے قد ایک جتنے ہیں تم دونوں کی آنکھیں ایک جیسی ہیں میں نے تصویروں سے تم دونوں کی آنکھیں نکال کر ملائی ہیں یقین کرو ان میں ذرا بھر بھی کوئی فرق نہیں انسانی تاریخ کا حیرت انگیز واقعہ ہے کہ تم دونوں کے فنگر پرنٹس ایک جیسے ہیں ۔میں اگر یہ بات دنیا کو بتا دوں تو تم دونوں کو یہاں کے سائنس دان اٹھا کر اپنی تجربہ گاہوں میں لے جائیں گے “

میں نے پریشان ہوکر پوچھا ۔’’کیا واقعی ‘‘

وہ بولی ۔’’ ہاں ‘‘

میں نے کہا ’’ڈاکٹر شیکل کو جب یہ تمام باتیں بتائو گی تو کیا وہ اسے اپنے تک محدود رکھے گا ۔‘‘نور بولی ۔’’ ہم اسے یہ کہنے کسی اور کی کہہ کر سنائیں گے ‘‘

اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ہم پروفیسرکرسٹوفر شیکل کے لیونگ روم بیٹھے اسے اپنی کہانی سنا رہے تھے۔پروفیسر شیکل نے کہا ”پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس کہانی پر اعتبار نہیں آرہا اور اگر یہ درست ہے تو بہت زیادہ حیرت انگیز بات ہے کہ تمہارے خیال میں یہ روحانی سطح پر کوئی کلونگ کا تجربہ ہے۔میں یہاں تک بات کو تسلیم کر سکتا ہوں مگر کلون ہونے والے شخص کی یاداشت میری سمجھ سے بالاتر ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ جس شخص کے جینز سے اس جیسا آدمی کلون کیا گیا ہے اس پاس اس شخص کی یادشت بھی موجود ہو۔پھر یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ کلون ہونے کے بعد اس شخص کی زندگی کے بارے میں کچھ جان سکے۔ جو اس نے اس کے کلون ہو جانے کے بعد گزاری ہے۔میں نے پوچھا کیا ٹیلی پیتھی سے ایسا ممکن ہے تو پروفیسر کہنے لگا صرف کہانیوں کی کتابوں میں یا فلموں میں ۔۔حقیقی زندگی میں ایسا کچھ ممکن نہیں۔نور نے پوچھا ”آپ ہمیں اس سلسلے میں کوئی مشورہ دے سکتے ہیں “پروفیسر بولا ۔ میں اس بات یقین نہیں رکھتا کہ جو فنگر پرنٹ اور آنکھوں پرنٹ تم نے مجھے دئیے وہ دو مختلف لوگوں کے ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو پھریہ دو لوگ ایک عجوبہ ہیں کیا یہ ممکن ہے کہ تم لوگ اُن دونوں کو لے کر ہماری تجربہ گاہ آﺅ“میں نے کہا ” ہم کوشش کریں گے اگر انہوں نے مان لیا تو ضرور لے کر آئیں گے“پروفیسر شیکل کے گھر سے نکل کر میں نے نور کو ا س کے گھر پر اتارا اور خود اپنے فلیٹ پر آگیا بہت تھکاہوا تھا جلد سوگیا ۔

اگلے دن پھرنور سے میری ملاقات آقا قافا کی مجلس میں ہوئی ۔ مجلس اختتام پذیر ہوئی نور اور میں باہر نکلے میں نے کہا ”ورما کے گھر جانا ہے اس کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے آج وہ دفتر بھی نہیں آیا چلو گی ساتھ “کہنے لگی “کیوں نہیں “اور پھر ہم ورما کی خواب گاہ میں پہنچ گئے۔ورما سو رہا تھا اس کی بہن آشا نے بتایا کہ اس کی ذہنی حالت درست نہیں ہے اسے عجیب و غریب شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اسے شیزوفرینا ہو گیاہے ۔ بھگوان کرم کرے “۔اس نے ایک کا غذ دکھاکر کہا کہ ورما نے نیندکی حالت میں جوکہا ہے۔میں نے نوٹ کررکھاہے ۔ڈاکٹر دکھانے کےلئے ۔ میں نے وہ کا غذ دیکھے ان پر عجیب و غریب باتیں تحریر تھیں ۔ میں نے حیرت سے انہیں بڑھتا گیا ۔ لکھا تھا ۔ ’’دماغ کی ٹرین میں صدیوں کے مسافر جاگ اٹھے ہیں۔ بہتی ہوئی لکیر ٹھہر گئی ہے۔کھڑکیوں کے ساتھ چلتے ہوئے منظر رک گئے ہیں ۔لوگ بڑی بڑی عمارتوں کو تہہ کر پرس میں ڈال رہے ہیں ۔گمشدہ تہذیبوں میں سفر کرنے والی کار مستقبل میں پہنچ چکی ہے ۔بیس ہزاربیس دنیا سے ہمکلام ہے۔ انتہائی خوبصورت زندگی کا منظر آنکھوں کے سامنے ہے مگر درمیان میں کوئی قیامت حائل ہے۔

۔۔۔

نیند میں بدن پر چلتی ہوئی چیونٹی کے پائوں سے نکلے خوابوں اورآسمانوں سے اترے ہوئے سپنوں میں بہت باریک ساپیازی پردہ ہوتا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ کونسے خوا ب کی کوکھ میں تعبیرکے موتی جلوہ گرہیں اور کونساسیپ اپنے دامن میں دماغی الجھنوں کے کیڑوں مکوڑوں کی پرورش کر رہا ہے۔کوئی نہیں جانتا ۔کیا نیند ہے۔ کیا خواب ہے۔ کیا خیال ہے۔ کیاسوچ ہے۔ ذہن کی بیداری کیا ہے اور ذہن کا خلل کیا مگریہ طے ہے کہ کچھ ہے جو مسلسل ہو رہا ہے۔جوکبھی تصویر

کے اندر ہوتا ہے کبھی تصویر سے باہر

۔۔۔۔

پھر آگ گری باطن کے گلاس میں سمندر پڑے پڑے صحرا بن گیا۔ریت پرمچھلیاںسن باتھ کرنے لگیں۔ایک ایک کیکرکے درخت سے سوسو کچھوے لٹک گئے ۔صدیوں کے پیٹ سے ٹائی ٹینک نے نکل کرموٹیل کا روپ دھار لیا۔میں اس وقت موٹیل کے ڈانسنگ روم میں ہوں ۔ آژدھوں کا رقص جا ری ہے۔وہ سامنے ڈائننگ ٹیبل پر بھیڑیے بیٹھے ہوئے ہیں ۔روباہیں انسانی گوشت سرو کر رہی ہیں۔ بار روم میں اونٹ اونگھ رہے ہیں ۔جم میں غزال اپنی ٹانگوں کے مسل مضبوط کرنے میں لگے ہیں۔ہیر ڈریسر بلیاں کتوں کے بال کاٹ رہی ہیں۔ بیڈ روموں سے ہاتھیوں

کے خراٹے سنائی دے رہے ہیں۔پھر ان منظروں نے مل کر مجھے میرے اندر دفن کردیا

۔۔۔

کوئی وجدان کے تہہ خانے میں اترنے لگا۔ تازہ ہوا کے جھونکا میرے چہرے سے ٹکرانے لگے۔ وہ جیسے اگلی سیڑھی پر قدم رکھتا تھا میں اور معطر ہوجاتا تھا۔صدیوں کے حبس زدہ مقفل تہہ خانے میں پھول ہی پھول کھل اٹھے ۔بالکل تازہ پھول۔وہاںہر پھول کیلئے اس کے حصے کی روشنی اور ہوا

موجود تھی ۔جیسے جیسے وہ آگے آتا گیا ویسے ویسے اس کی وسعت بڑھتی گئی

۔۔۔۔

شہرمیں بھی وہی مناظر تھے جن سے بھاگتے بھاگتے میں باطن کی دنیا میں پہنچ گیا تھا۔وہی حمامِ سگاں تھے یعنی کتوں کے سوئمنگ پول۔وہی گرگِ بارہ دیدوں کی مجلس تھی یعنی بھیڑیوں کی قومی اسمبلی۔۔وہی ملبوس ناآشنا بدروحیں تھیں یعنی برہنہ عورتیں۔ہر گلی میں مجنون کے ہاتھوں لیلیٰ کی آبروریزی ہورہی تھی۔پھر وہی چودہ سالہ رضیہ کومنٹو کے محلے کے لڑکوں نے آنکھیں مار مار کر جوان کر دیا تھا۔

۔۔۔۔

سومجھے اپنے اندر ہی منہ چھپاکر رہنا پڑا۔اپنے باطن کی وہ کہانیاںپڑھنی پڑیں جنہیں ابھی تخلیق ہونا ہے ۔وہ خواب دیکھنے پڑے جن کی ابھی آنکھوں تک رسائی نہیں ہوئی ۔ان خیالات سے گفتگو کرنا پڑی جنہیں ابھی ہوا نے بھی نہیں چھوا ۔ان شہروں میں گھومنا پڑا جنہیں ابھی آباد ہونا ہے۔ان کائناتوں کی سیر کرنا پڑی جنہیں ابھی صدائے کن سے طلوع ہوناہے۔

۔۔۔

یہیں کہیں ایک دن کسی لڑکی سے کھیتوں میں ملاقات ہوئی۔صبح اٹھا تو خواب گاہ کے کارپٹ کے جوتوں کے نشان تھے جن کے تلوں پر کھیتوں کی مٹی بھی موجود تھی۔یہیں کہیں میں نے کسی سے لوح کاقلم مانگااس نے پارکر پین تھما دیا۔جب میں دفتر پہنچا تو وہ میری جیب میں تھا۔یہیں کہیں میں کسی لڑکی کے ساتھ سویا تھا جاگا تو وہ کچن میں ناشتہ بن رہی تھی۔ یہیں کہیں میں نے شراب و شہد کو ملاکر پیا تھا نشہ ابھی تک وجود میں ہے۔یہیں کہیں میں زندہ کیا گیا تھا اب مجھ پر موت آتی ہی نہیں ہے

۔۔۔

میں حیرت کدہ ء ذات کے اندرگھومتے گھومتے خود آپ سراپا حیرت بن گیا۔حیرتی آنکھیں مجھے حیرت سے دیکھنے لگیں۔حیرت کیا ہے ۔حیرت بچے کا کھلونا ہے جو اکثر ٹوٹ جاتا ہے ۔ حیرت بے یقینی کی ساعت ہے جو مسلسل یقین کی طرف گامزن رہتی ہے ۔حیرت آنکھ میں اترتی ہے اور دماغ میں پھیل جاتی ہے۔اور آنکھ بیچاری ۔حدود میں رکھی ہوئی آنکھ ۔سچ اور جھوٹ کا کہاں فیصلہ کرسکتی ہے۔ اوربیچارہ دماغ سچ تک پہنچ ہی نہیں سکتا کہ اس نے اپنی تفہم کی بنیاد آنکھ پر رکھی ہوئی ہے۔

۔۔۔۔

اسے کیا علم کہ جہاں کچھ بھی نہیں ہے وہاں بھی ایک جہان آباد ہے۔ ذرہ صرف زدہ نہیں ہزاروں ایٹموں کا اجتماع ہے آدمی صرف آدمی نہیں ایک کائنات ہے۔اس کے ہزاروں رنگ ہیں اورہررنگ میں لاکھوں شیڈہیں اور ہرشیڈ میں کروڑوں تصویریں پوشیدہ ہیں۔معاملہ صرف تلاش کا ہے اور تلاش کی کوئی انتہا نہیں یہ کن کے عمل جیسی ہے۔نہ تھکتی ہے نہ رکتی ہے بس چلتی رہتی

ہے۔

۔۔۔۔

(تلاش کے عمل میں قریہ ء ذات کی آبادیاں اور ویرانے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔وہاں آم کے پیٹر

پر ناشپاتیاںلگتی ہیں۔باداموںکے درختوں پر امردو وں بور آتا ہے۔وہاں کیکر کے درختوں سے لوگ اخروٹ اتارتے ہیں۔وہاں کہکشائیں جوتوں کے تلووں پر چپکائی جاتی ہیں۔ وہاں پانی بلندی کی سمت بہتے ہیں۔ وہاںبرف دھوپ سے نکلتی ہے۔وہاں سورج چھائوں دیتا ہے ۔وہاں چھتیں دیواروں کے بغیر ہوتی ہیں۔وہاںوہی عدم ہے جو وجود ہے اور وہی وجود ہے جو عدم ہے

اسی لئے آدمی کی اصل شکل صورت آدمی بہت کم لوگ اسے دیکھنے کی قوت رکھتے ہیں۔کیونکہ وہی نہاں خانہ ِذات میں جلوہ فگن ہوتی ہے۔وہ بدلتی ہے۔ڈھلتی بھی ہے۔ سندرتا بھی پہن لیتی ہے بد صورتی بھی اوڑھ لیتی ہے۔ اور اسکی یہ تبدیلیاں ظاہر سے جڑی ہوتی ہیں۔افعال سے مراسم رکھتی ہیں۔ حقیقی موت بھی وہیں واقع ہوتی ہے۔ چلتی پھرتی لاشوں کی کہیں بھی کوئی کمی نہیں ۔کل میں ایک مردہ لوگوں کی انجمن میں گیا تھا۔وہ مجھے ہاتھ لگا لگا کر ٹٹولتے تھے ۔میری روح کو بار بار چھوتے تھے اور حسرت سے اپنے باطن میں دیکھتے تھے

۔۔۔۔

(انہیں یہ معلوم تھاجسم کے اندر روح ہوتی ہے جو ان کے جسموں میں موجود نہیں ۔روح کیا ہے ۔روح ایک حکم ہے روحِ مطلق کا۔اس امر کی شکل و صورت کیسی ہے ۔اس کے اندرکیا ہوتا ہے۔کیاوجدان، سائیکی، باطن روح کے اندر ہوتے ہیں ۔جسم کے اندر تو نہیں ہوسکتے وگرنہ کب کے آپریشن تھیٹر کی میز پر پڑے ہوتے۔یہ ایک سوال بھی اسی روم میں لگے ہوئے ایک بورڈ لکھا ہے ۔کہ جسم کے اندر روح کا مسکن کہاں ہے

۔۔۔۔

(کیا روشنی اور حسن کا تعلق روح سے ہے یا یہ کوئی خارجی چیز ہے۔ داخلیت کا کمال ہے یا خارجیت کا جمال ۔اگرچہ سورج ہرصبح مغرب سے طلوع ہوتا ہے مگر میں اسے داخل کی کوئی شے سمجھتا ہوں۔اگرچہ قلوپطرہ دنیا کی حسین ترین عورت تھی مگر میں دیکھنے والی آنکھ کا داستان گو ہوں ۔اگرچہ تاج محل دنیا کی انتہائی خوبصورت عمارتوں میں سے ایک ہے مگرمیں پھر بھی اس بات پر بضد ہوں کہ روشنی اور حسن کی باہر کی نہیں اندر کی کوئی چیز ہے

۔۔۔

اس نے پوچھایہ کائنات کہاں سے آئی ہے میں نے کہا کونسی کائنات ۔خارجی یا باطنیکہنے لگ دونوں میں نے کہا خارجی کائنات باطنی کائنات سے نکلی ہے اور باطنی کائنات شاید میں ہوں اس نے کہا شاید کیوں میں نے کہا یقین کوئی شے نہیں۔ ایک انتہائی طاقتور وہم ہے ۔ایک سمجھ میں نہ آنے والا دھوکا ہےاس نے کہا پھر سچائی کیا ہے میں نے کہا بے یقینی کا دائرہ

اس نے کہادائرہ آدمی خود بناتا ہے۔چاہے یقین کا دائرہ بنائے چاہے بے یقینی کا۔ میں نے ہاں اور پھر عمر بھراسی دائرے گردش کرتارہتا ہے۔شاید دائرے کو انسانی سائیکی کہتے ہیں۔یہی دائرہ جب خول بن جاتا ہے تو اس سے نکلنا ممکن نہیں رہتا۔جالے بننا اور پھر جالوں میں دفن ہو جانا انسان کا مقدر ہے ۔ اس نے کہا نہیں کچھ لوگ دائروں باہر بھی ہوتے ہیں ۔جنہیں دکھ زخم نہیں لگاسکتے جنہیں دردکراہیں نہیں دے سکتے

۔۔۔۔

درد کا تعلق بھی روح سے ہے۔یہ مجھے روح کے سفر میں قدم قدم پر ملا۔ہر ٹھوکر پر اس نے میرے پائوں چوم لئے ۔ہر چوٹ پر اس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔یہ درد مجھے ذات سے کائنات تک پھیلا ہوا دکھائی دیا۔میں ہزاروں سالوں سے اس کا ہم سفر ہوں ۔میری طرح اسے بھی کوئی فنا نہیں۔ازل کا ہم نفس ہے اور ابد اس کے انتظار میں ہے۔ میں بھی پہچانا جائوں کی تمنا سے نکلا ہوا

ہے

۔۔۔۔۔

میری طرح درد بھی حواسِ خمسہ کے شہر سے باہر آباد ہے ۔ میں جب پہلی باردیارِ خواس سے باہر آیا تھاتو کچھ دور راستے پر ایک سایہ دار درخت تھا جس کے نیچے پانی کا چشمہ تھا اور اس کے اردگرد سنہری پھول کھلے ہوئے تھے ۔ میں جب وہاں گیا تو میری ملاقات ایک اور حس سے ہوئی تھی۔ میں پھر اسی حس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا وہ حس مجھے ایک اور وادی میں لے آئی جہاں ساتویں حس میری منتظر تھی ۔ پھرچھٹی حس وہیں وہ گئی اور میں ساتویں حس کے ساتھ آگے بڑھتا چلا گیاس بلندی کی طرف جو ساتویں آسمان سے شروع ہورہی تھی

۔۔۔

ساتویں آسماں کہیں آگے کی بات ہے۔میں کسی ملاقات کی جستجو میں میں جہاں داخل ہواوہاں میرے سوا کوئی نہیں تھا۔نہ کائناتیں تھیں نہ، حرکت تھی نہ سکوت تھانہ وجود،تھا نہ عدم موجود تھا۔ میں ایک ایسے دروازے میں داخل ہوگیا تھا۔جہاں زمان و مکاں تو کجا لامکاں بھی نہیں تھا۔۔مجھے کچھ یاد نہیں کہ میں نے کتنے ارب کروڑ نوری سال وہاں گزارے اور شاید اب بھی میں وہیں ہوں

۔۔۔

ایک بارشاخِ ذہن میں ہلکی سے لرزش ہوئی تھی۔قرن ہا قرن کے پرندے ذرا سے پر پھڑ پھڑائے تھے۔اپنی گردن کو کھینچ کرلمبا کیا تھا۔سر وںکے اوپر بنی ہوئی کلغیاںتن گئی تھیں۔پرندوں نے ہوا میں چھیلانگ لگا ئی تھی میںذرا سا ڈگمگایاتھامگر پھر آسمانوں کی طرف بڑھتا چلا گیااس کی اڑان بادنوں کی جانب تھی ۔کہکشائوں کو چیرتا ہوا سورج سے جا ملاتھا

۔۔۔

وہیں مجھے معلوم ہوا تھا کہ ایک انسان میں کتنی قوت ہے۔صاحبان ِ ہمت اب مقامات تک پہنچ جاتے ہیں جہاں طلسم خانہ وجود کی کائناتیںآباد ہیں۔جہاں فردوسِ گم گشتہ بھی ہیں۔اورجہنم کے وحشت زار بھی۔ جہا ں ہزاروں وقت چل رہے ہیں ۔ جن کے درمیان رنگ و نورکی ٹرینیں بھی چلتی ہیں۔ٹیلی فون بھی ہوتے ہیں ۔ای میلز بھی آتی جاتی ہیں

۔۔۔۔

میں نے وہاںگھومتی پھرتی ہوئی لاکھوں کہانیاں، کروڑوں فسانے اوراربوں قصوں سے گفتگو کی ۔مجھے وہ تمام پستیوں کی داستانیں دکھائی دیں میں نے پوچھا کہ میں تو بلندیوں کی طرف تھاانہوں نے کہا بلندیاں تو زمین کی طرف ہیں

۔۔۔

(پھر مجھے احساس ہوا کہ میں کیسے اتنی آسانی یہاں پہنچ گیا یقینا یہ نشیب ہے اسی لئے آتے ہوئے کوئی تکلیف نہیں ہوئی میں پانی کی طرح بہتا چلا آیا ہوں مگراب واپسی کا سفر بڑا کٹھن دکھائی دے رہا ہے ۔یقینا یہ بلندیوں کا سفر ہے۔باطن کی گہرائیوں میں اترتے وقت میں بھاگ رہا تھاگہرائیاں میرے پائوں اور تیز کرتی جلی جاتی تھیں مگراسوقت جب میں واپس آرہا ہوں تو میرا سانس پھولتا جارہاہے

۔۔

یاداشت کی سینماسکرین پر چلنے والی فلم کے سین میں فلم بین داخل ہو گئے ہیں۔بوٹوں کے تسمے اور سینڈلوں کے بکل کھل رہے ہیں ۔ غیر پسندیدہ کرداروں کے چہروں پر ان کےنشان ہیں ۔بیگ گراونڈ میوزک میں گالیوں بھرے تبصرے ۔ شر کے شاٹ میں خیر کی جیپ دوڑنے رہی ہے ۔۔جسموں پر ٹائروں کے نقش ۔معاملہ الٹ چکا ہے ۔سکرین سے دیکھنے والوں کے ساتھ کردار بھی باہر نکل آئے ہیں ۔ ایک تیز رفتار ٹریلاسکرین سے نکلا ہےاور ڈرائنگ روم کو گراتا ہوا سڑک پر آگیا ہےاُس کے پیچھے پولیس کی ہوٹر بچاتی ہوئی گاڑیاں دوڑرہی ہیں ۔ٹریلے نے اڑان بھری ہے دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ۔وہاں پہنچ گیا جہاںرام چند کے عجائب گھر ہیں ۔جہاں سیتا کے منہ می گائے ماتا کے تھن ہیں ۔بیچارہ رام اکیلا پہاڑوں میں پڑتی ہوئی دراڑوں کو دھاگوں سے جوڑرہا ہے

۔۔۔

اس کاکوئی دل ہے توکوئی اس کی روح ہے ۔کوئی نفس ہے تو کوئی اُس کا ضمیر۔ کوئی کردار اس کی سائیکی ہے تو کوئی فکر رسا۔کوئی خیال ہے تو کوئی خواب ۔ کوئی اُس کی وحشت ،تو کوئی شعور ۔کوئی لاشعوہے تو کوئی ، تحت الشعور ۔ کوئی اُس کا ہیجان ہے تو کوئی ڈپریشن ۔ کوئی اس کا حوصلہ ہے تو کوئی سوچ ۔ کوئی کردارنفس لوامہ تو کوئی نفس مطمئنہ اور کوئی نفس ِ امارہ ۔ یہ سب کیا ہے ۔فریب ہے ۔ طلسم ہے ۔ فسوں ہے ۔

۔۔۔

میں یہ سارے کا غذ پڑھے اور کہا کہ نہ تو یہ ورما کی زبان ہے نہ ہی یہ ایسی باتیں ہیں جو ورما کر سکتا ہو ۔ یہ تو لکھ کیسے لیں ۔ ورما کی بہن بولی ۔’’ میں نے اپنے موبائل فون میں یہ سب باتیں ریکارڈ کی ہیں یہ تو ڈاکٹر کے کہنے پر میں کا غذ پر اتار لی ہیں ۔مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ورما کے اندر کوئی بدروح داخل ہو گئی ہے اور یہ ورما کی زبان سے وہ بولتی ہے ۔‘‘

میں نے کہا ۔ ’’ایسی گفتگو ایک تجربہ مجھے پہلے بھی ہے ۔ میری چچی ہوا کرتی تھی جس پر ’’جن ‘‘ تھا ۔’’جن ‘‘ جب آتا تھا تو میری چچی جو بالکل ان پڑھ تھی وہ انگریزی بولنے لگتی تھی ۔لوگ کہتے تھے کہ یہ کوئی انگریز ’’جن ‘‘ ہے۔ایک دن جب چچی پر ’’جن ‘‘ آیا تو میں نے ریکارڈنگ کرلی ۔پھر وہ ساری انگریزی کی گفتگو اپنے انگلش کے پروفیسر کے پاس لے آیا ۔انہوں نے وہ یکارڈنگ سن کرکہا ۔ یہ بالکل انگلش لہجے میں ملٹن کی مشہور ایپک paradise lost کے کچھ حصے پڑھ رہی ہے ۔جب میں نے اس موضوع پر ایک ماہرِ نفسیات سے بات کی تو اس نے پوچھا کہ آپ کی چچی کبھی انگریزوں کے ساتھ رہی ہے تو میں نے جب میرے حسن آباد کیڈٹ کالج میں ہوتے تھے تو اس وقت انگیریزوں سے میل ملاقات رہتی تھی ۔ماہر نفیسات نے بتایا کہ مجھے لگتا ہے تمہاری چچی ہسٹریا کا مرض ہے اور جب دورہ پڑتا ہے تودماغ کا وہ حصہ جاگ اٹھتا ہے جس میں اس نے یہ paradise lost کی لائنیں کہیں سے سنی تھیں ۔‘‘

ورما کی بہن بولی ۔ ’’یعنی یہ باتیں یا تحریر کہیں سے ورما نے سنی ہے جو بے ہوشی کے عالم میں اس کا دماغ اگل رہا ہے ۔ ‘‘

میں نے کہا ۔’’ہاں لگتا تو ایسا ہی ہے ‘‘

نورنے وہیں سے آقا قافا کو فون کیا اور ورما کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگے ۔میں نے مورتی دم کر کے ورما کو دی تھی اگر وہ مل جائے تو اسے اس کے بدن پر پھیرو۔اس کی بہن سے میں نے اس مورتی کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ ورما خود بھی اس مورتی کو ڈھونڈتا رہا ہے ایسا لگتا ہے وہ کوئی گھر سے چوری کر کے لے گیا ہے میں آقا قافا فون پر ساری بات بتائی توانہوں نے کہا کہ دوچار دن میں ٹھیک ہو جائے گا فکر نہ کرو میرا خیال ہے ۔مجھے معلوم ہو گیاہے کہ اسے کیا ہو گیا ہے ۔۔۔۔ہم ورما کی بہن کو تسلی دے کر وہاں سے نکل آئے۔

ابنِ عربی کی بزم میں کچھ دیر

(روشنی اور خوشبو کا امتحان )

میں نور کو اس کے فلیٹ پر چھوڑ کر گھر آیا اور سوگیاآنکھ لگتے ہی مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں بہت بڑے ہال میں کھڑا ہوں۔ڈیڑھ دو سو لوگ سامنے بیٹھے تھے۔جنہوں نے قدیم زمانے کا لباس پہن رکھا ہتھا۔محی الدین ابن عربی تقریر کررہے تھے۔ بالکل کسی تاریخی فلم کے سیٹ جیسا ماحول تھا۔سٹیج کے بالکل سامنے والابڑا دروازہ تھوڑا سا کھلا۔ایک پُر وقار شخص اندرداخل ہوا۔اسے دیکھ کرابن عربی نے اپنی تقریر روک دی اور اسے مخاطب ہو کرکہا

جعفر بن یحییٰ اب جب میں تمہارے اس سوال کا جواب دینے کے قابل ہوں جوتم نے آج سے تیس سال پہلے مجھ سے پوچھا تھا تو تمہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ تیس سال پہلے جعفر کو میری ضرورت نہیں تھی ،کیا اب بھی اسے میری ضرورت نہیں ہے ؟ جس سبز جبہ پوش نے تیس سال پہلے تمہاری تلاش میں کسی کمی کا تذکرہ کیا تھا وہ کمی وقت اور جگہ کے تعین کی تھی جعفر بن یحییٰ میرے پاس آکر کھڑے ہو گئے ۔ جب ابن عربی تقریر ختم ہوئی تولوگوں نے جعفرسے پوچھا

کہ شیخ الاکبر آپ سے مخاطب تھے تو انہوں نے اپنی کہانی سنائی کہ کوئی تقریباًتیس سال پہلے جب میں اپنے زمانے کے استاد کی تلاش میں سپین سے مکہ پہنچا تھاتو وہاں ایک سبز جبہ پوش اجنبی مجھے ملا ۔اس نے میرے کچھ کہنے سے پہلے مجھے کہا ” تم جس شیخ کی تلاش میں مشرق میں آئے ہو وہ زمانے کا استاد تو مغرب میں موجود ہے مگر ابھی تمہاری تلاش میں ایک کمی ہے جہاں سے آئے وہاں واپس چلے جاﺅ۔ وہ وہیں ہے۔ حاتم طائی کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے ۔العربی کا بیٹا ہے اور اس کا نام محی الدین ہے “ میں نے جبہ پوش کی بات سن کر واپسی کا سفر اختیار کرلیا ۔ طائی قبیلہ سے محی الدین کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اسے ڈھونڈ تے ڈھونڈتے ایک درسگاہ میں پہنچا اور وہاں موجود ایک شخص سے محی الدین کا پوچھا تو اس نے ایک طالب علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ” وہ محی الدین ہے “ وہ طالب علم درسگاہ کے ایک کمرے سے عجلت میں نکل رہا تھا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ میں نے اس نوجوان کو حیرت سے دیکھا اور روک کر پوچھا ” اس زمانے کا سب سے بڑا استاد کون ہے “ تو محی الدین نے کہا ” مجھے اس سوال کا جواب دینے کیلئے کچھ وقت چاہئے ” میں نے اس سے پوچھا ” تم ہی طائی قبیلے کے العربی کے بیٹے محی الدین ہو “ تو اس نے کہا ” ہاں میں ہی ہوں “ تو میں نے کہا ۔پھرمجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے ۔ اس وقت انہوں نے میری اس بات کا جواب دیا ہے۔یقینا اس وقت مجھے ان کی ضرورت ہے“

اس کے بعد میں شیح اکبر سے ملا انہوں نے میرے ماتھے پر بوسہ دیا اورتم منصور آفاق رہو یا آقا قافا مجھے دونوں صورتوں میں قبول ہو ۔ میں نے ان سے کہا ”میں چاہتا ہوں کہ آپ میری رہنمائی فرمائیں تو کہنے لگے۔’’پہلے امتحان ہوگا۔یہ بتائو کہ جب وجود حدود کے اندرہےتو حدود کے باہر کوئی وجود کیسے ہو سکتاہے؟“

میں نے کہا ۔’’ سائنس دا ن ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں وہ بگ بینگ کے 10 ـ43 سیکنڈ (یعنی ایک سیکنڈ کے ایک ارب ارب ارب اربواں حصے کے بھی دس لاکھویں حصے) بعد تک کی سائنسی تشریح کر سکتے ہیں لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ اس انفجار عظیم سے پہلے کے لمحےکی حالت کیا تھی۔علم کی اسی خاموش نے شاید انہیں مجبور کردیا ہے کہ وہ ساعت ِ صفر کے لمحے کو وحدانیت کے نام سے پکاریں ۔وہ نہیں جانتے کہ کائنات کی ہر حقیقت اپنے وجود میں حقیقت ِمحدود ہے ۔وہ سبب اور شرط کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔اشیاء کا وجود صرف حد کے اندر ہے ، باہر نہیں۔۔ لامحدود صرف وہی ہے ۔بے حد و حساب ہےصرف وہی ہے ۔حدود سے صرف وہی باہر ہے ۔وہی حقیقت مطلق ھے ۔وہی زمان و مکان کی قید سے ماورآ ہے بلکہ زماں مکان اسی کی تخلیق ہیں اس لئے اس کی ذات کے ساتھ کسی سبب اور شرط کا ارتباط ممکن ہی نہیں۔ اس کی وحدانیت کو کائنات کے مقام ِ صفر سے کیسے ناپ سکتے ہیں ۔وہ جو واحد بھی ہے اور احد بھی۔۔وحدتِ مطلق یعنی روح ِ کل حدودکے دامن میں کیسے سما سکتی ہے۔کیونکہ حدود کے تو باہر بھی کچھ ہونا چاہئے ۔یعنی اصل وجود ہے ہی وہی جو حدود سے ماورآ ہے‘‘مجھے ایسا لگا جیسے کوئی تیز دستک مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہو اور پھر میری آنکھ کھل گئی ۔کوئی فلیٹ کے دروازے پر روز روز سے دستک دے رہا تھا ۔ ساتھ ڈوربیل بھی بج رہی تھی۔ میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور دروازہ پر آیا کھلا تو پریشان ہو گیا ۔ سامنے میڈم نورما کھڑی تھی ۔اس کے ساتھ کوئی گورا بھی تھا ۔نورمانے کہا ۔’’سوری ہم نے تمہیں آدھی رات کو ڈسٹرب کیا ہے۔۔ میں انہیں اندر لایا ۔ لیونگ روم میں داخل ہوتے ہی نورما نے کہا ۔ ’’فلپ ہیں اور بہت زیادہ تکلیف میں ہیں ان کو اپنی جسم میں سوئیاں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔ان پر کسی نے کوئی جادو کیا ہے۔ڈاکٹرز کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا ۔ میں انہیں لے کر آقا فاقا کے گھر گئی تھی مگر وہ وہاں موجود نہیں تھے ۔ تم ہی کچھ مدد کرو۔کیونکہ میں اتنا تو جان چکی ہوں کہ تم دونوں ایک روح کے دو جسم ہو ‘‘

میں نے نورما سے پوچھا ۔ ’’صلیب ہے آپ کے پاس ۔تو مجھے دو ‘‘

نورما نے اپنے گلے میں پہنا ہوا لاکٹ اتارا اور مجھے دیتے ہوئے کہا ۔’’یہ ہے ‘‘ یہ سونے کی زنجیری میں ایک ہیروں سے سجی ہوئی چھوٹی سی صلیب تھی ۔ میں نے اسے ہاتھ لیا ۔اللہ کا نام لیا ۔آقاقافا کو تصور میں لاتے ہوئےدل میں کہا کہ اگر واقعی مجھ میں کچھ ہوا تو یہ ٹھیک ہوجائے اور پھر میں وہ صلیب اس کے بدن پر پھیرنی شروع کردی ۔جیسے ہی صلیب اس کے بدن پر پھیری شروع کی اس کے چہرے سے تکلیف کے اثرات کم ہونے لگے ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بالکل ایک نارمل آدمی تھا ۔

۔ اس نے مجھ سے کہا ۔ ’’میں اس آدمی کا احسان کیسے اتار سکتا ہوں ‘‘۔نورما بولی ۔’] یہ بہت سرمایہ دار ہیں ۔‘‘میں نے ہنس کر کہا ۔’’آپ نے جو دینا ہو میڈیم نورما کو دے دیجئے گا۔‘‘وہ جاتے ہوئے زبردستی ایک بلینک چیک میز پر چھوڑ کر جانے لگاجو میں نے اٹھا کرمیڈم نورما کو دے دیا ۔تو میڈم نورما نے مجھ سے کہا۔’’آپ اگر مجھ پر اتنے ہی مہربان ہیں ۔تو مجھے بھی بتا دیجئے ‘‘ میں نے کہا ۔’’ کیا پوچھنا چاہتی ہیں آپ ۔‘‘ بولی۔’’میری قسمت میں کیا لکھا ہوا ہے؟۔میں نے کہا ۔’’وہ جوتحریرابھی
تم نے لکھی نہیں ،میں اسے کیسے پڑھ سکتا ہوں۔‘‘وہ بولی ۔’’مگر میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی ہوں۔‘‘میں نے پوچھا۔’’اپنے خوش قسمت ہونے کی کیا دلیل ہے تمہارے پاس‘‘۔کہنے لگی۔’’میں اس لئے خوش قسمت ہوں کہ اپنی قسمت پر خوش ہوں‘‘۔میں نے کہا ۔’’ممکن ہے اپنی قسمت پر خوش رہنے والا خوش قسمت ہو۔مگر میرے نزدیک تو خوش قسمت وہ ناراض آدمی ہے
جسے راضی کرنے کے لئےقسمت سرگرداں پھرتی ہے‘‘اس نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھا ۔وہ دونوں چلے گئے ۔میری نیند اڑ چکی تھی ۔ میں نے کھڑی کی طرف دیکھا تو صبح کے پانچ بج رہے تھے ۔ میں نے دوبارہ سونے کا پروگرام منسوخ کردیا ۔میں بہت خوش تھا۔ایک تو مجھے محی الدین ابن عربی کا قرب نصیب ہونے کی خوشی تھی ۔دوسرا فلپ جس طرح میرے ہاتھوں صحت مند ہوا تھا یہ مجھے اپنے اندر کسی غیبی قوت کی خبر دے رہا تھا ۔ مجھے لگ رہا تھا کہ آقا قافا میری زندگی میں روشنی لے کر آیا ہے۔ پھول لے کر آیا ہوں ۔ دونوں جہانوں کی سرخروئی لے کر آیا ہے۔صبح نور سے ملاقات ہوئی تو میں نے اسے اپنے اندر پیدا ہونے والی اس تبدیلی کے متعلق کچھ نہیں بتایا ۔میں اسے بتانا چاہتا تھا مگر مجھے ایسا جیسے کوئی غیبی طاقت مجھے روک رہی ہے ۔ خیرنور اور میں وقت مقررہ آقا قافا کے پاس پہنچ گئے

آقا قافا نے ہمیں دیکھتے ہی کہا ۔’’آج محفل نہیں ہو گی ۔ تم نے اپنا امتحان ادھورا چھوڑ دیا ہے ۔ابھی شیخ الاکبر تم سے مطمئن نہیں ۔جائو پہلے ان کے سوالات کا جواب دو ۔‘‘

میں نے پوچھا ۔ ’’اب اُن سے ملاقات کہا ں ہو گی ‘‘ تو آقا قافا نے کہا ۔ ’’ وہیں جہاں نروان سے ہوتی تھی ۔‘‘

مطلق قدیم ہے کوئی چہرہ ثبات کا

(حادث حدود اور تغیر میں قید ہے)

نور نے مجھے اپنے فلیٹ پر چھوڑ دیا کہ تمہیں تنہائی کی ضرورت ہے ۔میں فلیٹ پر گیا تو سب سے پہلے میں نے وضو کیا ۔ نئے کپڑے پہنے ۔ عصر کی نماز ادا کی اور پھر صوفہ بیٹھ گیا اور جس طرح نروان کے بارے میں سوچتا تھا اسی طرح ابن عربی کے متعلق سوچنے لگا ۔اگلے ہی لمحے میں ان کی بارگاہ میں تھا۔وہ مجھ دیکھ کر کہنے لگے ۔’’امتحان آدھا چھوڑ کر چکے گئے تھے ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ جی وہ کوئی دروازہ پر دستک دے رہا تھا ‘‘۔ شیخ الاکبر بولے ۔ ’’ پتہ ہے مجھے ۔ خوشی ہوئی کہ تم نے نیکی کی قیمت وصول نہیں کی ۔ اچھا تو پھر تمہارا شروع کریں ‘‘۔ میں سر جھکائے کھڑا رہا ۔ وہ مجھے دیکھتے رہے اور پھر بولے ۔ ’’کیا حادث کو بھی ثبات ہے قدیم کی طرح‘‘

میں نےجواب دیا۔’’اشیاء حادث ہیں اور ہر شے کو فنا ہے۔ کسی شے کو ثبات نہیں۔ہوا ، پانی ، آگ ، چاند ، سورج اور سیارے کوئی ایسی چیزموجود نہیں جن میں ہمیشگی ہو ۔مظاہرقدیم نہیں یعنی نہ ہمیشہ سے ہیں اور نہ ہمیشہ رہ سکتےہیں ۔ہرشے میں حرکت موجود ہے اور حرکت تغیرکی علامت ہے ۔تغیراسبابِ زوال میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔زوال صرف اسی کو نہیں جس کی نہ کوئی ابتداء ہے نہ انتہا۔ جس کا نہ کوئی ازل ہے اور نہ کوئی ابد۔جہا ں عدم کا گمان ممکن نہ ہووہی قدیم ہےکیونکہ جسے حادث کہتے ہیں وہ عدم سے وجود میں آتا ہے ۔مگر جہاں وجود میں عدم کا شائبہ تک نہ ہووہاں اس وجود قدیم ماننا پڑتا ہے۔حضورسرورِ کائنات ۖ نے عیسائیوں سے ایک مناظرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔

’’تم لوگ کہتے ہو کہ خداوندقدیم اپنے بیٹے حضرت عیسیٰ مسیح کے ساتھ متحد ہے، اس عقیدہ سے تمہاری مرادکیا ہے؟کیا تم لوگوںکی مراد یہ ہے کہ خدانے اپنے قدیم ہونے سے تنزل کرلیا ہے۔ یا حضرت عیسیٰ جو ایک حادث اور محدود ہیں انھوں نے ترقی کی اوروہ خداوندقدیم کے ساتھ متحد ہوگئے ہیں، یا اتحاد سے تمہارا مقصد صرف حضرت عیسیٰ کا احترام اور شرافت ہے؟!اگر تم لوگ پہلی بات کو قبول کرتے ہو یعنی قدیم وجود حادث وجود میں تبدیل ہوگیا تو یہ چیز عقلی لحاظ سے محال ہے کہ ایک ازلی و لامحدود چیز، حادث اور محدود ہوجائے‘‘

شیخ الاکبر نے اگلا سوال کیا’’کیا قادر بھی حادث ہوسکتا ہے ‘‘۔ میں نے کہا۔’’ قادریت اللہ کی صفت ہے۔ وہی ہر شے پر قادر ہے کہیں بے بس نہیں ۔کسی امر میں بھی عاجز نہیں ۔وہ کامل ہے اور کامل میں نقص نہیں ہو سکتا ۔وہ ایسا قادرکہ جس کی قدرت کہیں کوئی کمی نہیں۔کوئی محال اس کی قدرت میں داخل نہیں مگر کچھ محال ایسے ہیں جنہیں اللہ کی قدرت کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا مثال کے طوراللہ تعالی کیلئے عاجزی محال ہے ۔ اسی طرح قدوس ذوالجلال کا حادث ہونا محال ہے اگر حادث ہونے پر قدرت تسلیم کی جائے تو یہ ممکنات میں آجائے گااور جس کا حادث ہونا ممکن ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا۔ محال و ناممکن پر اللہ تعالی کی قدرت ماننا ایک طرح انکارِ ذات ہے۔پس وہی اللہ ہے جو قادر ہے۔وہ جسے چاہے زندگی سے نوازدے اورجسے چاہے اسے موت کے تلخ ذائقہ سے آشنا کردے ۔وہ جسے چاہے عزت وآبروعطاکرے اور جسے چاہے ذلیل و رسواکردے، وہ کسی کامحتاج نہیں عالم تمام اس کے محتاج ہیں ، وہ جو چاہے اور جیساچاہے کرے اسے کوئی روک نہیں سکتا ، سب اس کے قبضہء قدرت میں ہے‘‘ ۔

شیخ الاکبر نے اگلا سوال کیا ۔ ’’ تقدیر کیا ہے ‘‘ ۔میں نے کہا ۔ ’’ اللہ کی ایک صفت اس کے خداوندِ عالم ہونے کی بھی ہے یعنی وہ ھر شے کا جاننے والا ہے ہر چیز اور ہر بات خدا وند عالم کے علم میں ہے۔ یعنی وہ حاضر و ناظر ہے۔ اْس کے علم میں کبھی تغیرپذیر نہیں ہوتا اور یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی امر کو کسی بات کسی کام کوپہلے سے نہ جانتا ہو ۔اس کا علم ہر شے پرمحیط ہے اس کے جاننے کی کوئی انتہا نہیں ، ا اس سے ہماری نیتیں اور خیال بھی پوشیدہ نہیں ہو سکتے ، ہر شے بدل سکتی ہے مگر اس کا علم نہیں بدل سکتا۔اس نے لوح پر سب کچھ لکھ دیا وہ تمام جو ازل سے پہلے اور ابد کے بعد بھی ہونے والا ہے جوہم اپنے ارادے اور اختیار سے کرنے والے ہیں اور وہ اس لکھے ہوئے کوبدل بھی سکتا ہے مگر یہ اس کے علم ہے کہ کس نے اپنی تقدیراپنے عمل سے بدل دینی ہے اوریہی عقیدہ تقدیر ہے۔علمائے دین ِ اسلام نے تقدیر کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں پہلی قسم کو قضائے مبرم حقیقی کہا جاتا ہے۔یہ وہ تقدیر ہے جو لوح محفوظ میں تحریر ہے اس کا بدلنا کا کوئی امکان نہیں ہے۔دوسری تقدیر کی قسمقضائے معلقکہتے ہیں ۔یہ انسانی اعمال سے، دعائوں سے نیکیوں سے برائیوں سے برے اعمال تبدیل ہو سکتی ہے تقدیر کی تیسری قسمقضائے مبرم غیر حقیقیہے حضور سروکائنات، انبیاء کرام علیہم السلام ، بعض مقرب اولیاکی پر خلوص دعائیں اس تک رسائی رکھتی ہیں ۔حضرت خضر علیہ اسلام جیسے اولیاء کرام اس قضائے مبرم کو بدل سکتے ہیں۔ سرکار غوث اعظم سیدنا عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا بھی اس سلسلے میں ایک فرمان بہت مشہور ہے کہ میں قضائے مبرم کو رد کردیتا ہوں۔ احادیث میں بھی یہ بات موجود کہ دعا قضائے مبرم ٹال دیتی ہے ۔انسانی زندگی کے کم ہونے یا بڑھ جانے کے سلسلے میں اس کا اظہار بہت زیادہ دکھائی دیتا ہے ۔ فرشتوں کی لکھی ہوئی عمر صاحبان دعا اپنی دعائوں سے بدلتے رہتے ہیں،مگر اس تبدیلی کا علم بھی اللہ ہمیشہ سے رکھتا

‘‘ہے۔

انہوں نے مجھے بھری نظر دیکھا اور پوچھا ۔’’تم وحدت الوجود کا کیا مفہوم لیتے ہو ۔’’

وہی جو آپ نے اپنی کتاب فصوص الحکم میں لکھا ہے ۔’’اگرچہ مخلوق خالق سے الگ ہے لیکن باعتبار حقیقت ایسا نہیں ۔ حقیقت میں خالق ہی مخلوق اور مخلوق ہی خالق ہے۔ سب کی حقیقت وہی حقیقت واحدہ اور وہی سب حقائق میں نمایاں ہے ‘‘۔

شیخ الاکبر بولے ۔ ’’ لفظ اللہ سے کیا ہے‘‘۔ میں نے کہا ۔’’اللہ ربِ کائنات کا ذاتی نام ہے۔اسم ذات ہے ۔ اس میں اس کی وحدانیت کے جلوے ہیں ۔ اسم اللہ سے الف علیحدہ کر دیجئے ہر طرف سے احد و واحد صدائیں سنائی دیں گی ۔الف میں بھی ایک یکتائی اور تنہائی موجود ہے یہ وہ حرف جس کے پیچھے کچھ نہیں ہے نہ کوئی عدم ہے اور نہ کوئی وجود نہ حرف ہے اور نہ کسی حرف کا خیال بالکل جیسے خدا کی ذات سے پہلے کچھ بھی نہیں پہلے صرف خدا موجود ہے ۔یعنی الف سے پہلے بھی الف ہی ہو

سکتا ہے‘‘۔

انہوں نے مجھے سینے لگا اور کہا ۔’’تم امتحان میں کامیاب ہو گئے ہو۔ جائو اور آقا قافا مبارک باد دو ۔ وہ تمہاری وجہ سے پریشان ہے ۔مگر پہلے داتاگنج بخش کے پائے اقدس چھونے کی سعادت حاصل کرلو ‘‘

میں نے دیکھا کہ انہوں نے اس سمت میں اشارہ کیا ہے جس طرح وسیع و عریض سیڑھیاں ہیں ۔ میں وہ سیڑھیاں چلنے لگا ۔ میرے سامنے ایک بہت بڑی محفل جمی ہوئی تھی ۔سیکڑوں لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔درمیان داتا گنج بخش تشریف فرما تھے ۔میں ان کے پاس گیا ان کے پائوں چھوئے تو انہوں نے میری کمر تھپتھپا کر کہا ۔ ’’ گجر خان میں میرا ایک مرید احمد رفیق اختر ہیں ۔ تمہیں اس کے حوالے کررہا ہوں ۔اس کے ساتھ ہی یکدم میں اُس ماحول سے باہر آگیا ۔میں وہیں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔میں ابھی پوری طرح اس کیفیت سے باہر نہیں آیا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔فون پاکستان سے تھا ۔ مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ میرے قریبی دوست یاسر حفیظ کو دہشت گردوں نے قتل کردیا ہے۔ یاسر قتل ایک مکمل صوفی تھا اس کا قتل اس کے نظریات کی وجہ سے کیا گیا۔ہائے ہائے
وہ بھی یک مقدس دیوانہ تھامگر اس کا روحانی راستے پر الوہی سفرظاہری اور مروجہ رویوں سے مختلف تھا۔شاید وہ خود ملامتی میں اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔اس کی زندگی کا اولین مقصد اپنی ذات کو فنا کر نا تھاکیونکہ اس کے نزدیک جب تک میں مکمل طور پر اپنی نفی نہیں کر لیتااس وقت تک اثبات کی اس منزل تک نہیں پہنچ سکتاجو راہِ سلوک کے ہر مسافر کا مقصدِحیات ہوتی ہے۔اس راستے پر اس کےساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا ۔سو ہو گیا مگر تاریخ نے ہمیشہ یہی ثابت کیا ہےکہ بادشاہوں اور فقیہوں کے فیصلے غلط تھے۔۔معاملہ چاہے منصور حلاج کا ہو یا سرمد کا۔۔ تاریخ چیخ چچیخ کر کہہ رہی ہے کہوہ بھی اس کی طرح سچائی پر تھے۔اس جیسے لوگ جب کسی تہذیب میں قتل ہوتے ہیں

تو پھر وہ تہذیبیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔مغل تہذیب جو اپنے دور میں ایک بڑی تہذیب گردانی جاتی تھی ۔سرمد کے قتل کے بعد کتنی کم مدت میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ختم ہو گئی تھی۔مجھے خوف محسوس ہو رہا ہےہماری تہذیب کے خون سے لتھڑے ہوئے ہاتھ اسے ایسے ہی خوفناک انجام سے دوچار نہ کر دیں۔

قافا مرے وجود میں آفاق ہو گیا

(ہمزاد ہم بدن ہوا)

جب میں اور نور اگلے دن آقا قافا کے پاس پہنچے تو انہوں نے اٹھ کر مجھے سینے لگا اوراپنی کہانی شروع کر دی۔وہ کہنے لگے

اس نے بعدمجھے کچھ اور مشقیں سکھائی گئیں ۔یہ جسم کے بغیر پرواز کی مشقیں تھیں ۔ میں اپنے جسم سے باہر نکل کر فضا میں اڑنے لگا۔سادھو کے خیال میں پرواز کرنے والی شے روح ہوتی ہے آدمی اپنے اتنی قوت حاصل کر لیتا ہے کہ اپنی روح اپنے جسم سے علیحدہ کر لیتا ہے تقریباً تم سادھو یہ فن جانتے تھے۔ میں نے جب یہ فن سیکھ تو بڑے سادھو سے پوچھا کہ جب روح بدن سے نکل کر پرواز کرنے لگتا ہے تو اس جسم کو مردہ ہوجانا چاہئے مگر ایسا نہیں ہوتا “ بڑے سادھو نے کہا جب تمہارے پرواز کر رہی ہوتی تمہیں جسم کا احوال کیسے معلوم ہے کہ ،مردہ ہے یا نہیں ۔میں نے بڑے سادھو سے کہا میں نے کوشش کی ہے کہ میں اس بات سمجھ سکوں جب آپ جب کرن داس سادھو جی کا تعاقب کیا تھا جب ان کی روح بدن کو چھوڑ کر کہیں اور چلی گئی تو میں ان کے جسم کو چھوا تھا ان کے سینے کان لگا یا ان کی نبض دیکھی تھی تو بظاہر سب کچھ رکا ہوا تھا مگر دماغ زندہ تھا۔اورموت پر وارد ہوتی ہے۔ اس لئے میرا خیال کہ جسم کو چھوڑ کر جو پرواز کرتی ہے وہ روح نہیںوہ آدمی کا وجدان ہے آدمی کی دماغی توانائی ہے جس نے پرندے کا روپ دھار لیا ہے۔بڑے سادھو نے میری بات سے اتفاق کیا تھا اور کہاتھاتم ٹھیک کہتے ہو۔ مگر میں اس دماغی تونائی کو روح کا ایک حصہ سمجھتا ہوں۔ قدیم زمانے کے لوگ اس فن میں بہت ماہر تھے ۔ خاص طور براعظم امریکا میں ایک علاقہ ایسا تھا کہ ہر شخص اس فن میں مہارت رکھتا تھا۔وہ اڑتے ہوئے زمین پر موجود لوگوں سے رابطے بھی برقرار رکھتے تھے ۔ اس زمانے میں جو میلوں لمبی جوڑی تصویریں بنائی گئیں وہ آج تک سائنس دانوں کےلئے حیرت کا سبب ہیں ۔سائنس دان انہیں خطوطِ نازکا کے نام سے پکارتے ہیں۔اور اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی خلائی مخلوق کا کام ہے کیونکہ پانچ سات سو قبل مسیح انسان فضامیں اڑنے کا سوچ سکتا تھا مگر سائنسی طور پر قعطاً ممکن نہیں تھا۔ بڑے سادھو کی یہ سن کر میں نے پرواز کیاور پیرو پہنچ گیا ۔ اپنی آنکھوں سے میں نے وہ تمام تصویریں دیکھیں جو زمین پر چلنے پھرنے والوں کی لمبی لمبی لکیروں کے سوا کچھ نہیں ۔ “

ایک شخص نے اٹھ کر کہا

جی میں نے بھی وہ لائنیں دیکھی ہیں ۔ مگر وہ رن وے وہ وہ انسان نما جہازوں کی تصویریں ۔“

آقا قافا کہنے لگے ۔

وہ لوگ بھی جسم کے ساتھ پروزکرنے کی خواہش رکھتے تھے ۔ اور اسی تگ و دو میں لگے رہتے تھے ۔ یہ تصویریں ان کی دھانت کی علامت ہیں کہ وہ ہزاروں سال پہلے بھی اڑنے کےلئے وہی طریقہ کار سوچتے تھے جو آج کے انسان نے استعمال کیا ہے۔

پھر ایک دن ایک سادھو نے مجھے کہا کہ بڑے سادھو نے تمہارا دل رکھنے کےلئے تمہارے جسم کے پرواز کے تجربے کو کامیاب تھا تم اس ناکام ہو گئے تھے۔اس بات کا بڑے سادھو بڑا افسوس ہے ۔سادھو نے کہا کہ ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ کہیں موجود ہیں اور ہمارا پرتو کہیں موجود ہے مگر ہم اس منزل نہیں پہنچ سکے کہ پلک چھپکتے خود ہی ہزاروں میل آگئے ہیں وہ تمہارے اسی تجربے کا ایک حصہ تھی۔ مجھے اس بات بہت دکھ ہوا اور میں نے باقی مشقیں چھور کر اسی کی مشقیں شروع کردیں۔تقریبا ایک سال کے بعد میں نے بڑے سادھو سے کہا ۔ میں پرواز کا پھر تجربہ کرنا چاہتا ہوں پھر میں اسی جگہ سے چھلانگ لگائی ہزاروں فٹ نیچے اور پھر جھپکتے دوبارہ واپس اپنے سادھو کے پاس نہیں پہنچ سکا۔پھر یوں ہوا کہ سادھو بابا مجھے ایک دن تیاگ ماڑی لے گئے وہاں بڑے بڑے سادھو جمع تھے ۔کچھ سادھووں کو ایک مسلمان کی اس محفل میں اترنے پر بہت غصہ آیا ہوا تھا۔ایک سادھو جو سب سے زیادہ غصے میں تھا مہا سادھو نے اسے میرے ساتھ مقابلہ کی دعوت دی جس میں وہ ہار گیا مہاسادھو خوش ہوکر اس کی تمام شکتیاں مجھے عطا کردیں ۔پھر مجھے کسی اور شکتی کی ضرورت نہ رہی۔

میری ذات کا دوسرحصہ منصور آفاق ہے۔نہیں یہ سچ نہیں ۔سچ یہ ہے کہ میں منصور کی ذات کا حصہ ہوں ۔میں اس کا عکس ہوں۔اس کا پرتو ہوں ۔سچ وہی ہے ۔میں جھوٹ ہوںمیری تخلیق غیر فطری طور کی گئی ہے۔میرا وجودبالکل اسی طرح ہے جیسے روشنیوں کی مدد سے کوئی حرکت کرتی ہوئی تصویر بنا لی جائے۔جیسے کلوننگ کرکے کسی وجود کا کوئی فوٹو کاپی تیار کر لی جائے یعنی کہ میں منصور آفاق کی فوٹوسیٹ کاپی ہوں۔اس کا ہمزاد ہوںاور میری تکمیل منصور آفاق سے وصال میں ہے

پھر مجھے مخاطب کرکے آقا قافانے کہا

منصور یہاں آﺅ ۔“

میں آقا قافا کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ تو وہ بولے

الحمداللہ میرے مکمل ہونے کا وقت آگیا ہے ۔روشنی اور اس کا عکس ایک ہونے والے ہیں۔شعر اور شاعر اتصال ہورہا ہے ۔خوشبو کے نصیب میںپھول کی پتیوں پلٹ جانے کی سعادت لکھ دی گئی ہے انسانی تاریخ کا پہلا اور آخری وصال کا واقعہ وقوع پذیر ہونے والا ہے ۔حقیقت اور خواب ایک ہونے والے ہیں۔فلم اپنے آخری سین تک پہنچ چکی ہے ۔۔۔۔ پھر میں نے دیکھا کہ آقا قافامیرے طرف پڑھ رہے ہیں ۔ وہ میرے قریب تر آتے جارہے ہیں ۔ وہ اتنے قریب آگئے ہیں میرا بازو ان کے بازو کو چھورہا ہے مگر چھونے کا کوئی احساس نہیں ہوا ۔۔ پھر میں حیرت زدہ ہوگیا آقا قافا کا آدھا جسم میرے جسم میں شامل ہو چکا تھا ۔پھر وہ مکمل طور پر میرے جسم میں گم ہو گئے۔حیرت کے سوا کسی طرح کا احساس مجھے نہیں ہوا۔ میں نے سامنے موجود لوگوں کی طرف دیکھا۔نور چلتی ہوئی سٹیج پر آئی اور وہ بھی آقا قافا کی طرح مجھ میں گم ہو گئی ۔ مجھے خوف محسوس ہونے لگا میں دیکھا کہ پھر ورما سٹیج پر آیا ہے اور مجھ میں کہیں گم ہو گیا ہے پھر رفتہ رفتہ وہاں موجود سارے کردار میرے بدن میں گم ہوتے گئے۔۔پھر اس لیونگ روم کافرنیچر ۔ تصویریں ۔۔پھر کھڑکیاں دروازے دیواریں سب مجھ میں اترنے لگیں ۔مجھے ایسا لگا جیسے میرےخانہ ء لاشعور میں کھڑکیاں بج رہی ہیں۔چمکتی بجلیوں میں کوئی صوراسرافیل پھونک رہا ہے۔بادلوں میں روشنیوں کی رقاصہ آخری کتھک ناچ رہی ہے۔بھادوں بھری شام کے سرمئی سیال میں زمین ڈوبتی چلی جا رہی ہے۔پگھلا ہوا سیسہ سماعت کا حصہ بن گیا ہے۔مرتے ہوئے سورج کی چتا میں ڈوبتے ہوئے درخت چیخ رہے ہیں۔پرندوں کے پروں سے آگ نکل رہی ہے۔ٹوٹتے تاروں کے مشکی گھوڑوں کی ایڑیوں سے اٹھتی ہوئی کالک زدہ دھول میں ہر چیزگم ہوچکی ہے۔سائے دیواروں کو چاٹ چکے ہیں۔آسماں گیر عمارتیں مقام ِ صفر سے مل چکی ہیں۔انڈر گراونڈٹرینوں کی طرح بہتا ہوا لاوہ سرنگوں میں دوڑ رہا ہے۔چٹانوں کے ٹکڑے نرم نرم ریشوں میں ڈھل رہے ہیں۔آہنی چیزوں میں کپاس کے پھولوں کا گداز در آیا ہے۔کُن کا عمل وقت سے کئی لاکھ گنا زیادہ تیزہو چکا ہے۔

میرے چاروں طرف دھند سی چھا گئی مجھے ایسا جیسے ساری کائنات میرے اندر گم ہوتی چلی جارہی ہے۔میں جو ہمیشہ محسوس کرتا تھا کہ میں خدا اور کائنات ایک ساتھ چل رہے ہیں ۔آج مجھ لگ رہا تھا بس میں ہی رہ گیا ہوں اور کہیں کچھ بھی نہیں رہا۔ہوا نے آخری ہچکی لی اوراچانک شعور کے بیڈروم میں میری آنکھ کھل گئی۔یعنی کچھ دیر کے بعد یہ دھند چھٹی تو میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر میں ہوں۔ وہی لکھنے والے کمرہ ہے۔وہی ٹیبل سامنے ہے جس پر بیٹھ کر روز لکھنے کا کام کرتا ہوں اوراس وقت ناول کا آخری جملہ لکھ رہا ہوں ۔

پس ِ منظر

’’دوستو میری سرگزشت ختم ہوچکی ہے ۔اب اس کاپس منظر بیان کررہا ہوں ۔یہ سارے واقعات بھی کہیں میرے باطن میں سرزد ہوئے ہیں ۔پچھلی کہانی باطنی شعور تک محدود تھی یہ پس منظر باطنی لاشعور سے متعلق ہے‘‘

یہ ایک عجیب و غریب غار تھا۔سفید اور سبزی مائل قدرتی طور پر تراشے ہوئے سنگ مرمرکی ایک راہداری سی تھی جو تیس چالیس فٹ کے بعد کسی ہال کمرے کی صورت اختیار کرلی تھی ۔شایدیہ غار کئی صدیوں سے آباد تھی۔ کیونکہ کہیں کہیں دیواروں پر ویسی ہی تصویریں تھیں جیسی ایلورا کے غاروں میں موجود ہیں۔ایک تناسب کے پورے غار میں ہر دس بارہ فٹ کے فاصلے پرکالے رنگ کے پتھر خاصے ابھرے ہوئے تھے ۔جن کے اندر کے حصہ دئیوں کی طرح خالی تھے۔ ان میں سرسوں کاتیل پڑا تھا۔تیل میں سوت کی لپیٹی ہوئی بتی چل رہی تھی۔بالکل ایسا لگتا تھا جیسے پتھر سے آگ نکل رہی ہو ۔ان پتھروں نے غار کے ہر گوشے کو روشن کر رکھا تھا ۔غار کے درمیان ایک تراشی ہوئی چٹان تھی بالکل کسی پلنگ کی طرح مگر برہنہ تھی یعنی بچھا ہوا کچھ نہیں تھا اس پر ایک نوجوان کی لاش پڑی تھی ۔لاش نے صرف لنگوٹی پہن رکھی تھی ۔چہرے پر ایسی داڑھی تھی جیسے برسوں سے شیو نہ کی ہو۔ ایک بہت ہی خوفناک لمبے لمبے سیاہ بالوں والاکتالاش کے پاس زمین پر بیٹھا تھا۔تین آدمی غار میں داخل ہوئے ۔کتے نے چونک کر گردن گھمائی اور حملے کے لیے تیار ہوگیا مگر جیسے وہ قریب آئے ۔کتے نے اٹھی ہوئی گردن گرا دی ۔وہ پہلی جیسی پوزیشن میں آ گیا۔آنے والوں کے بدن پر بھی صرف لنگوٹیاں تھیں ان کی بھی داڑھیاں بے ترتیب اور بے ہنگم تھیں۔ بال بھی بڑے ہوئے تھی ۔ایک آگے چل رہا تھا دو اس کے پیچھے۔ یہ تینوں سادھو تھے۔آگے والے کے گلے میں تسبیح نما مالا تھی جس کے موتیوں سے روشنی نکل رہی تھی ۔ دو نوں چیلے پیچھے بہت مودب تھے ۔تینوں کا جسم تابنے کی طرح چمک رہا تھا ۔ چیلوں کے ماتھوں کے درمیان سفید رنگ کی عمودی لکیر بھی تھی جب کہ بڑے سادھوکا ماتھا بالکل صاف تھا ۔وہ لاش کے قریب آیا۔اس نے لاش کے ماتھے پر چند لمحے ایسے ہاتھ رکھاجیسے ڈاکٹر کسی مریض کے بخار کا اندازہ کرنے کے لیے رکھتے ہیں اورپھر اپنے ساتھ آئے ہوئے سادھووں سے پوچھا ”یہ کتنے دنوں سے اِسی حالت میں ہے “ ایک سادھو بولا ”تیسرا دن ہے جی اس کی روح واپس نہیں آئی ۔میں روز یہاں راون کو کھانا دینے آتاہوں۔“ بڑے سادھو نے کچھ پڑھنا شروع کیا اوررفتہ رفتہ وہ لاش زندہ ہوتی گئی ۔لاش نے آنکھیں گھمائیں اور بڑے سادھو کو دیکھ کرتیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔جیسے ان کی موجودگی میں لیٹنا کسی گناہِ کبیریا سے کم نہ ہو ۔بڑے سادھو نے اس کی آنکھوں میں تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔”تم تین دن سے واپس نہیں آئے تھے آقا قافا ۔بڑے بڑے سادھو وں کی روحیں دو دن سے زیادہ اپنے جسموں سے باہر نہیں رہ سکیں اور کئی سادھووں کی روحیں اِسی دورانیے کو بڑھانے کی کوشش میں ہمیشہ کے لیے بھی پرواز کر گئیں ۔کیا تمہیں کسی مشکل کا احساس نہیں ہوا“

آقا قافا بولا”نہیں سادھو بابا “اور پھر کتے سے مخاطب ہو کر کہا ”راون چل اپنی جگہ پر “اور کتا وہاں سے اٹھ کر کونے میں پڑے ہوئے گدے پر بیٹھا۔آقا قافا کہنے لگا’‘میں اِس سے پہلے ایک بار پانچ دن کے بعد بھی جسم میں واپس آیا ہوں ۔ “بڑے سادھو نے کہا ”واقعی ۔یہ حیرت انگیز ہے مگر تم اتنے اتنے دن کہاں پھرتے رہتے ہو“آقا قافا بولا ”بابا ایک منظر پسند آگیا ہے۔ اسی کو آنکھوں میں جمع کرتا رہتاہوں “۔

کیا ہے اس منظر میں“

ایک لڑکی ہے سادھو بابا “اوربڑے سادھو نے پریشان ہو کر کہا

کیسی لڑکی “

جیسی ہوتی ہے لڑکی “آقا قافانے دبے لہجے میں کہا”سادھو بابا آگے بڑھے اور آقا قافا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولے”تمہیں معلوم ہے تم ایک محدود عرصے کےلئے ہو اور عورت تمہارے لئے تائپان کے زہر سے کم نہیں ‘

آقا قافا نے آنکھیں جھکا لیں اور کہا”میں اُسے صرف دیکھتا ہوں بابا “

تمہیں کسی صورت میں بھی عورت کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی “

آقا قافانے بڑے اعتماد سے کہا ”سادھو بابا مجھ پر اعتبار کیجئے ۔کیا پہلے کہیں میرے قدم ڈگمگائے ہیں۔کیاکبھی کسی امتحان میں ناکام ہوا ہوں ۔“

مجھے تم پر اعتبار ہے مگر عورت زاد پر نہیں ۔تم نہیں جانتے بھگوان نے عورت سے زیادہ سحر انگیز اور کوئی چیزنہیں بنائی ۔ میرابھگوان تمہاری حفاطت کرے ۔ تمہارا اللہ تمہارا نگہبان ہو۔یہ یاد رکھنا ۔یہ بات کبھی مت بھولنا۔ یہ پتھر پر لکیر ہے کہ ملاپ تمہاری موت ہے“

یہ کہہ کربڑا سادھواپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس مڑگیا ۔ آقا قافا بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ ۔بڑا سادھو جیسے جیسے قدم رکھتا تھاتوتھوڑے تھوڑے فاصلے پرپتھرکے دئیوں سے نکلتے ہوئے شعلے کچھ اور بلندہوجاتے تھے۔غار اس جگہ پرروشنی بڑھ جاتی تھی ۔غار کے دھانے پررک کر بڑے سادھو نے کہا ”یہ بات بھی اچھی نہیں کہ تم کئی کئی دن پڑھنے بھی نہیں آتے ہو“

جی آئندہ ناغہ نہیں کروں گا“

آقا قافا یہ کہہ کر دھانے پررگ گیا۔سادھو پٹ سن کی موٹی موٹی طنابوں سے بُنے ہوئے باریک پل پر آگے بڑھتے چلے گئے ۔پل کے نیچے ہزاروں فٹ گہری سفیدی تھی ۔ہر طرف برف بچھی تھی۔سادھووں کے چلنے سے رسوں کے اردگرد لپٹی ہوئی برف گررہی تھی مگر زمین تک پہنچنے سے پہلے کہیں دھند میں گم ہوجاتی تھی ۔یہ غار کوہ ہمالیہ کی ایک بلند ترین چوٹی پر واقع تھا۔اس کے اردگرد اور بھی غار تھے یہ دراصل چالیس پچاس غاروں کی ایک غیر اعلانیہ بستی تھی ۔یہاں کوئی عورت نہیں تھی ۔یہاں کوئی بچہ نہیں تھا ۔یہاں صرف سادھو رہتے تھے ۔یہاں عام کاآدمی پہنچنا تقریباً ناممکن تھا ۔آقا قافا انہیں جاتے ہوئے دیکھتا رہا ۔پل عبور کرنے کے بعد وہ ایک برف بھری پہاڑی پگڈنڈی پر مڑے اور آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ۔اگرچہ مصروفیت کاعالم ایسا تھاکہ سادھووں کے پاس ایک دوسرے سے بات کرنے کابھی وقت نہیں تھا۔وہ سب دن رات اپنی مشقوں اور اپنے مراقبوں میں غرق رہتے تھے ۔مگر ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے ۔وہاں نوجوان صرف آقا قافا تھا۔باقی تمام لوگوں کی عمر پچاس سال سے زائد تھی ۔وہاںسب کی منزل بھی ایک تھی ۔سبھی ایک دوسرے سے بڑھ کر بھگوان کے قریب ہونا چاہتے تھے ۔یعنی سب ایک دوسرے کے رقیب تھے مگر دلداررقابت تھی کہ اس پر محبت قربان کی جاسکتی تھی۔آقا قافا انہیں دیکھ کر اکثر سوچتا تھاکہ یہ بھی عجیب عشق ہے جو رقیب ہیں وہ رفیق کی طرح عزیز ہیں

آقا قافا غار کے اندر آیا اور اپنی چٹان پر بیٹھ گیا ۔

تھوڑی دیر یونہی بیٹھا رہا بالکل ایسے جیسے کوئی شخص خالی الذہن ہو کر کہیں بیٹھ گیا ہو ۔پھر اٹھا غار سے باہر نکل آیا اور ایک پہاڑی پگڈنڈی پر بلندی کی سمت جانے لگا۔یہ پگڈنڈی برف پر پائوں کے نشانات نے بنائی ہوئی تھی ۔پگڈنڈی ایک تراشی ہوئی چٹان کے سامنے جاکر ختم ہوگئی ۔چٹان کے ساتھ ایک چھوٹا سا درخت بھی تھا جس پر برف کےپات لگے ہوئے تھے ۔اس نے برف کی چٹان کو دھکا دیا اور اس میں ایک دروازہ کھلا اور اندر داخل ہوا۔اندر بہت زیادہ روشنی تھی چٹانوں خوبصورتی سے تراش کر ایک بہت ہال کی صورت دل گئی تھی جس میں ہر طرف الماریاں ہی الماریاں تھیں کتابوں سے بھری ہوئی الماریاں ۔سامنے کسی سائن کی طرف ’’شاردا یونیورسٹی لکھا ہوا چمک رہا تھا ۔ایک پختہ عمر کے سادھو اس کا استقبال کیا اور کہا ’’کہیں گئے ہوئے تھے تین دن ہوگئے ہیں نظر نہیں آئے ہو ‘‘ آقا قافا بولا ۔’’ہاں میں یونیورسٹی میں موجود نہیں تھا وہ سادھو جو شاید وہاں لائبریرین تھا کہنے لگا ’’ میں یہیں سوچ رہا تھا کہ تمہیں کہیں جائو نہ جائو ۔ یونیورسٹی میں ہوتے ہو تو لائبریری میں ضرورت آتے ہو۔‘‘ آقا قافا نے پوچھا ’’ کوئی نئی کتاب آئی ہے ‘‘لائبریرین بولا ’’ہاں فزکس کی کچھ کتابیں آئی ہیں ۔تم اُس دن’’کواٹم الجھن ‘‘ کے موضوع پر کسی کتاب کی تلاش میں تھے نا۔ اس موضوع پر کتاب آئی ہے ۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ الماری کی طرف بڑھا اور اسے ۔۔۔۔۔۔۔نام کی کتاب نکل کر تھمادی ۔‘‘آقا قافا بولا ۔’’یہ بڑا زبردست کام ہوا ہے ‘‘لائبریرین نے کہا ’’کچھ مجھے بھی سمجھائو گے اس کے بارے میں یہ کواٹم کیا بلا ہے ۔میں نے کتاب پڑھ کے سمجھنے کی کوشش کی ہے مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا۔آقا قافا کہنے لگا ’’کواٹم الجھائو دراصل اس صورت حال کو کہتے ہیں جب کسی چیز کو جسمانی طور پر دو حصوں میں تقسیم کردیا ان کے درمیان ہزاروں میلوں کا فاصلہ رکھ دیا اس کے باوجود بھی دونوں ایک تعلق موجود رہے ۔

آقا قافا تقریباً ایک گھنٹہ وہیں بیٹھ کر اُس کتاب کی ورق گردانی کرتا رہاپھر وہاں سے اٹھا اور چلتا ہوا ایک اور دروازہ کے پاس اسے کھولا تو سامنے ایک عجیب منظر تھا ہر طرف برف پڑی ہوئی تھی اور اس کے درمیان پہاڑی نالہ رواں دواں تھا۔جس سے بھاپ اٹھ رہی تھی ۔ہر طرف گندھک کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔وہ آگے بڑھا اور گرم پانی اس نالے میں اتر گیا ۔وہ خاصی دیر اس ندی میں نہاتا رہا یعنی اشنان کرتا رہا اس کے بعد نالے کے دوسری جانب سے باہر نکلا وہاں برف بھری سیڑھیاں تھیں وہ ان پر چڑھتا ہوا ایک مندر تک گیا جس میں کئی نوجوان سادھو موجود تھے ۔‘ ٹمپل ایک پہاڑی تراش کر بتایا گیا تھا اس کے بڑے برامدے کے اوپر شاردا دیوی کا بت تھا‘ جو کم از کم ساٹھ اونچا تھا۔برف کی وجہ وہ بت بالکل سفید دکھائی دے رہا تھا۔وہ کبھی اس مندر کے اندر نہیں گیا تھا مگر اسے اُس کے نوجوان دوست رامو نے بتایا تھا کہ مندر میں شاردا دیوی کا جو بت ہے وہ ہوا میں معلق ہے اور چاند راتوں میں اکثر گھومنے لگتا ہے اوراُس عالم میں اگرکوئی بھی شخص شاردا دیوی کو ہاتھ لگا لےتوپسینے میں شرابور ہو جاتا ہے

آقا قافا شاید رامو سے ملنے ہی وہاں آیا تھا وہ چندلمحے وہاں رکا تو رامو مندر سے باہر آیا اور آقا قافا نے اسے لگالایا اور کہا ’’تم آج کل کچھ زیادہ ہی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہو ‘‘رامو بولا ’’ نہیں یارروانہ ادب طب‘ فلکیات‘ ہیت‘ نجوم اور فلسفے کی کلاسیں لینا میرے ضروری قرار دیا گیا ہے ۔اور تم جانتے ہو کہ مجھے تمام مضامین سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ان مضامین میں میرے انتہائی نالائق ہونے کی وجہ سے بڑے سادھو نے میرے روانہ دو گھنٹے شاردا دیوی کی پوجا کا حکم دیا ہے کہ علم و حکمت کی دیوی مجھ پر مہربان ہوجائے مگر لگتاہے دیوی چہروں کے موسم دیکھ کردیکھ کر علم و حکمت کی بارش کرتی ہے ۔‘‘وہ دونوں چلتے ہوئے ایک بہت بڑے غار میں داخل ہوئے جہاں بہت سے بوڑھے تپسیا میں مصروف تھے‘ کئی لوگ دم سادھ کر بیٹھے ہوئےتھے۔ایسا لگتا تھا جیسے مٹی سے بنائے ہوئے بت ہیں ۔آقا قافا کے اشارہ کرنے پر رامو التی پالتی مار کر ایک بوڑھے سادھو کے سامنے بیٹھ گیا۔ سادھونے آنکھیں کھولیں اور رامو کی طرف دیکھنے کی بجائے کھڑے ہوئے آقاقافا کی طرف دیکھا اور کہا ’’اب کیا ہے ‘‘آقا قابولا ۔’’ اس کے دماغ کی گرہیں نہیں کھول رہیں ‘‘ بوڑھے سادھو نے رامو کی آنکھوں میں جھانکا اور کہا ’’اس کو یہیں چھوڑ جائو اور تم جائو ۔ سادھو غار میں ایک مسلے کی آمد بہت مضطرب ہو رہے ہیں ‘‘آقا قافا بولا ’’یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی ایک طرف سادھو بابا اتنے بڑے دل والے ہیں کہ ایک مسلمان کا بیٹا ہونے پر انہوں نے مجھے مسلمان کی حیثیت سے بڑا کیا ہے ۔ دوسرے یہ کچھ سادھو ایسے جو مجھے دیکھتے ہیں تو ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔‘‘ بوڑھا بولا ۔’’ تمہارے سادھو بابا تم نے پر کوئی احسان نہیں کیا ۔وہ جس سلطان باہو کی تم بہت کتابوں پڑھتے ہو ۔وہ شروع دن سے تمہارا ساتھ ہے ۔ تمہارا سادھو بابا تم سے جو کچھ چاہتا تھا وہ تمہیں مسلمان رکھے بغیر حاصل نہیں کر سکتا تھا ‘‘ آقا قافا بولا ۔’’آپ ویسے میرے سادھو بابا کے خلاف ہیں ۔ مجھے جتنی شکتیاں بھی مل جائیں ان سے سادھو بابا کو کیا حاصل ہونا ہے ‘‘بوڑھے کے چہرے پر تبسم سا آیا اور بولا ۔’’وہی کچھ جو ایک فنکار کو شاہکار تخلیق کر کے ملتا ہے ۔ بس اب تم جائو ‘‘ اور آقا قافا تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا واپس اپنی غار میں پہنچ گیا اس نے تھوڑی دیر اپنے کتے راون کے ساتھ پیار کیا اور پھر اسی چٹان پر لیٹ گیا ۔ چند لمحوں کے بعد جسم سے باہر آگیا۔ اس نے پرواز کی اورپل بھر میں ہزاروں میل دور دریائے سندھ کے کنارے ایک خوبصورت محل کی خوبصورت تر خواب گاہ میں ایک خوبصورت ترین لڑکی کے پاس موجود تھا۔آقا قافا کو اس لڑکی سے محبت ہوگئی تھی ۔وہ بس وہاں بیٹھ کر اسے دیکھتا رہتا تھا۔وہ لڑکی بھی حسن کا شاہکار تھی۔قدرت نے اسے پوری توجہ سے بنایا تھا۔پہلی بار جب آقا قافا کی نظراس پڑی تھی اسے ایسا لگا تھا جیسے آنکھوں میں بجلی چمکی ہو۔

خواب گاہ میں نورموجود تھی۔نور جہاں رہتی تھی محل کے اُس بلاک میں چار کمرے تھے ۔ایک ڈرائنگ روم تھا ایک بیڈروم تھا اور تیسرے کمرے میں نور نے اپنا وارڈ روب بنایا ہوا تھا۔اسی کے ساتھ ایک وسیع و عریض باتھ روم تھا۔کمپیوٹر اس نے بیڈروم میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کمپیوٹر ٹیبل پر بیٹھی تھی ۔اس کی خوابناک آنکھیں مانیٹر پر مرتکز تھیں جہاں ناصر کرکٹ کھیلتا ہوا نظر آرہا تھا۔ناصرنے ایک زور دار چھکا مار ا اورنور کھکھلا اٹھی۔ ناصرنے ایک اور چھکا مارا اورگیند سٹیدیم کی دیواروں سے باہراچھال دی۔ نورنے کمپیوٹر کو کوئی کمانڈ دی اور سکرین پر چھکے والا شاٹ بار بارچلنے لگا۔نور بہت خوش نظر آ رہی تھی۔نارو کمرے کے اندر داخل ہوئی ۔چلتی ہوئی نور کی بیک پر آ کھڑی ہوگئی

اورپھر مانیٹرمیں دیکھتی ہوئی بولی۔

چھوٹی مالکن۔ آپ یہ چھکے والا شارٹ باربار کیوں دیکھتی ہیں؟۔اس میں کوئی خاص بات ہے“

دیکھتی نہیں ہو۔گیند سٹیڈیم کی اتنی اونچی فصیلوں سے باہر جا گرا ہے۔“

:” ہاں چھوٹی مالکن۔ اونچی فصیلوں سے باہر نکلنا کوئی آسان کام تو نہیں۔“

فصیلیں جتنی بھی اونچی ہوں صفیہ ۔ارادوں سے اونچی تو نہیں ہو سکتیں۔“

مگر وہ بھی تو فصیلیں اور اونچی کرتی جا رہے ہیں۔“

اسی لیے تو مجھے یقین ہوتا جا رہا ہے٬ مرے باپ کا قاتل۔۔۔نواب منورمان ہے“

بھائی کو بھائی کیسے مار سکتا ہے؟ چھوٹی مالکن“

اقتدار کے لیے آدمی کچھ بھی کر سکتا ہے۔“

بھائی کو بھی مار سکتا ہے؟“

نارو نور کی ملازمہ ہی نہیں تھی سہیلی بھی تھی ۔دونوں ہم عمر تھیں اور ایک ساتھ جوان ہوئی تھیں نور نے نارو سے کہا

بابا کہا کرتے تھے زن زر اور زمین کے لیے قتل کر نا ہماری روایت میں شامل ہے ۔آج دیکھ لو ساری جاگیرپر کس کا قبضہ ہے؟“

کمپوٹر پر ویڈیو چیٹ کا میسج جلتا بجھتادیکھ کرنور نے ناروسے کہا ”تم جاﺅ“

اور پھر ناصر اور نور میں گفتگو ہونے لگی

آقا قافا کوناصرسے رقابت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ نور کے حالات بھی آقا قافا کے سامنے تھے ،اسے کسی دوست کی ضروری تھی۔۔آقا قافا نے سوچا کہ چلو نواب منور کو دیکھا جائے جس کے بارے میں نور کو یقین تھا کہ اس کے باپ کا قاتل وہی ہے۔آقاقافا نور کے کمرے سے باہر آیا ۔اس نے بلندی پر جا کر ماحول کا جائزہ لیا۔ایک طرف ایک اڑھائی فٹ کی ریلوے لائن پر چھوٹی ریل گاڑی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ ریل گاڑی کے ڈبے مسافروں سے بھرے ہوئے تھے ۔اس ریل گاڑی کو دریا سندھ کے ایک پل سے گزرنا تھا ۔اس پل سے ریل گاڑی بھی گزرتی تھی اور دوسری ٹریفک یعنی کاریں اور بسیں بھی گزرتی تھیں جیسے ہی ریل گاڑی پل کے قریب پہنچتی تو دھن کوٹ اسٹیٹ کے سپاہی نے ریل گاڑی کو سرخ جھنڈی لہرا کر روک دیا ۔ ڈرائیور ریل گاڑی روک کر نیچے اتر آیا اور کہنے لگا” پل تو خالی پڑا ہے “سپاہی نے کہا” نواب صاحب کی گاڑی آنے والی ہے ۔تمہیں دریا چلتے ہوئے دئیے دکھائی نہیں دیتے۔نواب صاحب دئیوں والے میلے کا افتتاح کرکے آرہے ہیں“ٹرین کے ڈرائیور نے دریا کی طرف دیکھاتو لکڑی کے چھوٹے چھوٹے تختوں پر مٹی کے دئیے دریا میں بہہ رہے تھے۔ پورادریا قمقموں سے بھر ا تھا۔شام کے گہرے گہرے سایوں کو ان بہتے ہوئے چراغوں نے کچھ پراسرار بنا دیاتھا

ڈرائیورنے چپ سادھ لی۔ چند منٹوں بعد نواب صاحب کی لینڈکروز آئی اُس کے آگے بھی دھن کوٹ اسٹیٹ کی دو جیپیں سپاہیوں سے بھری ہوئی تھیںاور دوجیپیں پیچھے بھی ۔جب یہ کارواں گزرگیا تو ریل گاڑی پل سے گزرنے کی اجازت ملی۔آقا قافا کی روح بھی اسی قافلے ساتھ ساتھ سفر کرنے لگی۔ دریا ئے سندھ کے کنارے پرکئی فرلانگ تک پھیلا ہوا پوری جاگ چکا تھا۔دیواروں پر بجلی کی مشعلیں روشن تھیں۔درختوں کو برقی قمقوں سے بھردیا گیا تھا۔شاید دھن کوٹ اسٹیٹ کی کوئی خاص رات تھی۔ محل کے مین گیٹ کے باہربھی بیئرر لگا ہوا تھا۔ بہت سے سپاہی کلاشن کوفیں اٹھائے ہوئے کھڑے تھے۔ نواب صاحب کی لینڈ کروزر گیٹ کے اندر داخل ہو ئی لینڈ کروز کے باہرایک طرف پوری سائیڈ پرانگریزی زبان میں لکھا تھا ۔سٹیٹ آف دھن کوٹ۔سپاہیوں کی وردی پر بھی سیٹیٹ آف دھن کو ٹ پرنٹ موجود تھے۔ ہر سپاہی کے کندھے پرا سٹیٹ کا مخصوص بیج بھی لگاتھا۔ لینڈ کروزر کے پچھلی سیٹ پر نواب مان منور بیٹھا ہوا تھا ۔ گیٹ کے اندربھی ہر چھ فٹ کے فاصلے پر ایک کلاشن کوف بردار موجود تھا ۔لینڈ کروز رمحل کے اندر کافی دیر تک چلنے کے بعد ایک جگہ رکی۔سٹیٹ کے منیجرنے تیزی سے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا نواب منورنے بڑے وقار سے نیچے پاﺅں رکھا۔نیچے ریڈ کارپٹ بچھا تھا۔ نواب صاحب اس پر چلتے ہوئے محل کی عمارت کی طرف بڑھنے لگے۔وہ ایک دروازے تک پہنچے تو دو سپاہیوں نے دروازے کے کواڑ کھولے۔ وہ داخل ہوا اور پھردروازہ بند ہوگیا۔ کمرے کے اند راسٹیج تھا جس پر تحتِ طاﺅس جیسی کرسی پڑی تھی۔ نواب منور کرسی پر بیٹھ گیا۔بیٹھتے ہی اس نے کرسی کے بازﺅوں کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا۔گرفت اتنی سخت تھی کہ ہاتھوں کی رگیں بھر آئی ابھی بیٹھے ہوئے زیادہ نہیں ہوئی تھی ۔ منیجر سامنے سر جھکائے کھڑا تھا کہ ایک ملازمہ اند ر داخل ہوئی۔ سر جھکا کر سلام کیا اور کہا ”چھوٹی مالکن آپ باہر موجودہیں“

نواب منور کے ماتھے پرموجودشکنیں کچھ اورپھیل گئیں۔ ہاتھوں کی گرفت میں کچھ اورسختی آ گئی۔ ملازمہ نے دروازہ کھول پیچھے ہٹتے ہوئے اشارے سے دروازے سے ادھر کھڑی ہوئی نور کو احترام سے اندر آنے کاکہا۔نور اندر داخل ہوئی اور ملازمہ باہر نکل گئی اور دروازہ بند ہو گیا۔نواب منورنے ترچھی اور سوالیہ نظروں سے نور کو دیکھا۔نور بولی

:”میں اپنے بابا کی قبر پر جانا چاہتی ہوں۔“

: ”قبر پر جانے کی اجازت ہے، کل چلی جانا۔“

نور بڑی بے خوفی سے بولی

: ”آج کیوں نہیں؟“

کہہ جو دیا ہے، کل چلی جانا“

میں یہ پوچھ سکتی ہوں ، مجھ پر پابندیاں کیوں بڑھا دی گئی ہیں ، بابا نے زندگی بھر محل سے باہر قدم نہیں رکھنے دیا اور آپ بابا کی قبر تک نہیں جانے دیتے۔“

میں نے تم سے کہا ہے ، تم مرے بیٹے سے شادی کر لو۔ نواب زادہ انورمان سے شادی کے بعد سب پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔“

نوربولی

میں پہلے کہہ چکی ہوں ، میرے لئے یہ ممکن نہیں۔“

تم جانتی ہو کہ نواب آف دھن کوٹ کا حکم نہ مانناکتنا بڑا جرم ہے“

دھن کوٹ کی روایات کے مطابق آپ کسی کو بھی ایسا حکم نہیں دے سکتے

نواب منور یک لخت غصے میں آگیا اور بولا

تم مجھ سے زیادہ جانتی ہو دھن کوٹ کی روایات ۔گستاخ لڑکی ۔نکل جاﺅ کمرے سے۔کہیں ہمارا قہر نہ جاگ اٹھے“

اور نور خاموشی سے دروازے کی طرف مڑ گئی۔نواب منور مان سے اسے جاتے ہوئے ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے ابھی حکم دیں گے کہ اسے گولی مار دو۔آقا قافا کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی ۔اسے خیال آیا کہ نورکا دل تو کہیں سات سمندر پار اٹکا ہوا ہے، وہ ناصر کے عشق میں گرفتار ہے ۔وہ اسے یہاں سے کیسے نکال کر لے جا سکتا ہے اور آقا قافا نے پرواز کی۔اگلے لمحے وہ برطانیہ کے شہر لیڈز میں ناصر کے بنگلہ میںموجود تھا۔ناصر اس وقت اپنے سٹڈی روم میں تھا کمرے میںایک طرف ایک چاندی جیسے رنگ کی ایک شیلف پڑی تھی جس میں کتابیں تھیں۔اس کے ساتھ اسی رنگ کی مہیں سی کمپیوٹر ٹیبل پڑی تھی جو تقریباً اسی فیصد بلور کی بنی ہوئی تھی۔اس کے اوپر ایپل کا نفیس ساکمپیو ٹربڑی نفاست سے سجا ہوا تھا۔ ساتھ والی دیوار پر ایک لائن میں سات تکونی فریم لگے ہوئے تھے ۔پہلے فریم میں ناصر عمران خان کے ساتھ کھڑا تھا دوسرے فریم میں وسیم اکرم کے ساتھ اس کی تصویر تھی۔ تیسرے فریم میں جاوید میاں داد کے ساتھ موجود تھا۔ چوتھے فریم میں ٹنڈولکر کے ساتھ تھا ۔چھٹے فریم میں شین وارن اور ناصرکی تصویر تھی۔ ساتویں فریم میں بیٹنگ کرتے ہوئے ناصرنظرآرہا تھا۔اس کے سامنے والی دیوار پر تقریباًاٹھ فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑا پین بورڈ لگا ہوا تھا۔اس پر لگے ہوئے کپڑے کا رنگ دیواروں کے کلر کی مناسبت سے گہرا نیلا تھا۔اس بورڈ پر ایک ہی لڑکی بے شمار تصویریں پنوں کے ساتھ چسپاں تھیں۔ناصر کمپیوٹر ٹیبل کے سامنے پڑی ہوئی بغیر بازووں والی وائٹ چیئر پر بیٹھا تھااورپرنٹر سے نور کی تصویر کا پرنٹ نکال رہا تھا۔تصویر پرنٹ ہوتی تھی اور ناصراٹھ کر بورڈ پرلگادیتا تھا۔اس نے نور بہت سی تصویریں بورڈ آویزاں کیں ۔ بورڈ بھر گیا۔ایک تصویررہ گئی۔ناصرنے اسے ایک کے شیشے پربڑی صفائی کے ساتھ لگادیا۔پھر سیڑھی اٹھا لایاچھت پر چھ لائنٹس کا ایک گول پینل لگا تھا۔ہر لائٹ مختلف کلر کی تھی اورہر لائٹ کو کسی نہ کسی کی سمت پر مرکوز کیا گیا تھا۔ناصر نے نیلے رنگ والی لائٹ کو گھما کر کھڑکی والی تصویرکی طرف کردیا۔یکدم وہ تصویر ایسے نکھر آئی جیسے شیشے سے باہر آرہی ہو۔ویسے نور بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی اور فوٹوجینک بھی بلا کی تھی ۔اس کی ہر تصویر دیکھنے والے کے دل پر ہاتھ ڈالتی ہے ۔ ان تصویروں سے کمرے کی رومانوی فضا اوردلربا ہوگئی تھی ۔کمرے کے ایک کونے میں گٹار بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ناصرنے گٹار اٹھالیا۔ اُس پر سمفنی کی ایک ملول سی دھن چھیڑدی۔ کھڑکی کے باہربرف میں دریا بہہ رہا تھا ۔اس نے گٹار سے الیکٹرک کے تار علیحدہ کئے اور گٹار لے کر گھر سے باہردریا کے پاس آگیا۔ دریا کی چوڑائی بیس بائیس فٹ سے زیادہ نہیں تھی اس کاپانی کہیں کہیں سے جم چکا تھا۔ناصر پانی کے قریب ایک خزاں زدہ درخت کے پاس کھڑا ہو کر گٹا ر بجانے لگا۔آقا قافا نے ناصر کا اچھی طرح جائزہ لے لیا تھا ۔اسے ناصر کی ذات میں پھیلی ہوئی محبت کی مستی پسندآئی ۔اس کی تہذیب ، اس کا رکھ رکھاﺅ ،اس کا مزاج اچھا لگا۔

آقا قافا واپس نور کے پاس آگیا۔نور محل کے اندر گھوم رہی تھی ۔افسردہ افسردہ ۔اس وقت وہ بڑی فصیل کی طرف دیکھتے ہوئے چل رہی تھی۔بڑے بڑے دروازوں میں پڑے ہوئے بڑے بڑے تالوں کوٹھہر ٹھہر کر دیکھتی تھی۔ ڈیوٹی دینے سپاہی اسے سلام کر کے ایک طرف ہو تے جاتے تھے۔وہ چلتی ہوئی دوسری منزل پر آگئی ۔دور دور تک پھیلی ہوئی خوبصورت پہاڑیوں پر نظر ڈالتی ہوئی ایک جگہ رک گئی اور فصیلوں کے اوپر کھڑے پہرے داروں کو دیکھنے لگی۔وہ فصیل کے ساتھ چلتے چلتے دریا کے کنارے پر آگئی۔دریا کی لہریں پتھروں سے سر ٹکراتی آگے بڑھ رہی تھیں۔کبھی کبھی کوئی مچھلی لہر کے ساتھ اچھلتی تھی اور پھر دریا میں گم جاتی تھی۔ اس محل کے تین طرف دیواریں تھیں اور ایک طرف دریا ۔۔محل بناتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ دریا بھی فصیل کا کام دے ۔نورنے وہاں موجود سیڑھیوں سے بھاری بھاری قدم اٹھاتے ہوئے نیچے اترنا شروع کیا ایسے لگ رہا تھا جیسے پاتال میں اتر رہی ہو۔دریا کے کنارے پر بہت خوبصورت لان بنا ہوا تھا کرسیاں بھی بڑی تھیں۔جن کا ڈیزائن مور کے کھلے ہوئے پروں جیسا تھا۔لان میں خود مور بھی گھوم پھر رہے تھے۔ لان جہان ختم ہوتا تھا وہاںبھی سیڑھیاں تھیں جو دریا اتر رہی تھیں۔دریا میں ایک طرف تین لانچیں بھی کھڑی تھیں ۔ پہرے دار بھی موجود تھے ۔ہر طرف اداسی پھیلی ہوئی تھی۔کہیں بھی مسکراہٹ نہیں تھی۔درختوں سے پہرے داروں تک غم بکھرا ہوا تھا۔شام کی آنکھوںمیں ہلکے ہلکے آنسو تھے۔بادل بھی تھے اور سورج بھی موجود تھا۔نور چلتی ہوئی دریا کے کنارے پر آکھڑی ہوئی اور دریا میں ڈوبتے ہوئے سورج کی آخری لہو رنگ شعاعوں کو دیکھنے لگی ۔شعاعیں اڑتی ہوئی سفیدکونجوں کو نارنجی بنارہی تھیں۔نور نے موروں کی توجہ دی اسٹریلین نسل کے سفید مور اورسیاہ رنگ کے دھن کوٹی مور اسے اپنے جیسے لگے ۔وہ کچھ دیر وہاں گھوم پھر کر واپس اپنے کمرے میں آگئی۔نور کی اداسی روز بہ روز بڑھتی جارہی تھی ۔آج تو آقا قافا کو ایسا محسوس ہوا جیسے اداسی کمپیوٹر کے سامنے پڑی ہوئی کرسی پرڈھیر ہوگئی ہے۔ وہ نور کےلئے کچھ کرنا چاہتا تھا مگر ابھی اس کےلئے یہ سب کچھ ممکن نہیں تھا

نورکا بے جان ہاتھ دھیرے دھیرے موس کی طرف گیا ۔اس نے اسی طرح پڑے پڑے کمپیوٹر آن کیا۔۔ مانیٹر پر ایک بندکھڑکی نظر آئی۔ یہ کھڑکی محل کی کھڑکیوں کی طرح تھی۔ سکرین پر اُس کھڑکی کے در آہستہ آہستہ کھلنے لگے اور نور کے مرجھائے ہوئے چہرے پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ نمودار ہونے لگی۔پھر سکرین پرناصرچھکا مارتے ہوئے نظر آیا نور کے چہرے پر تھوڑی سی رونق بحال ہوئی۔ پھرسکرین پر سٹیڈیم کی فصیلوں سے اوپر جاتی ہوئی گیند کا شارٹ آیا ۔ہوا میں اڑتی ہوئی گیند آقا قافا نے دیکھی اور ناصر کی طرف پرواز کی اسے خیال آیا کہ ناصر ہی اسے اس قید سے رہائی دلا سکتا ہے۔

آقا قافا نے دیکھا تو اڑتی ہوئی گیند نٹ میں جا کر لگی۔لیڈز کرکٹ گراونڈمیں ناصر پریکٹس کر رہا تھا۔ایک کار گراونڈ کے بالکل ساتھ وہیں آکر رکی جہاں نٹ لگا تھا۔ناصر نے کار کی طرف دیکھا اور پھر کھیلنے لگا۔کار میں بیٹھی ہوئی ارم کچھ دیر کے بعداپنی گھڑی پر ٹائم دیکھنے لگی۔ناصر کھیلتا رہا اور ارم کی جھنجھلا ہٹ بڑھنے لگی۔ جھنجھلاہٹ اور بڑھی اور وہ کار کا دروازے کھول باہر نکل آئی۔ ناصر نے اسے کار سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ کرکھیل چھوڑ دیا۔ارم واپس کار کے اندر بیٹھ گئی۔ناصر آیا اور وہ بھی کارمیں بیٹھ گیا ۔ارم نے ناراض نظروں ذرا سا ناصر کی طرف دیکھا۔اور ناصر بڑے میٹھے لہجے میں ارم سے کہا۔

:”آپ کا چہرہ مجھے بتا رہا ہے۔I am only 3 minute late

آپ لوگ کس قدر ٹائم کا نسش ہو، مجھے تو یوں لگتا ہے، جیسے ہر انگریز کے چہرے پر ایک ٹائم پیس لگی ہوئی ہے۔ جو وقت بتاتی رہتی ہے۔“

تم تھری نہیں ٬ پورے فائیو منٹس لیٹ ہو۔“ ارم ذرا سے تیز لہجے میں کہا۔

ناصر ،ہنس دیا۔

نو۔۔اونلی ٹو منٹس“

ٹو منٹس لیٹ ہونے سے آدمی صدیوں پیچھے رہ سکتا ہے۔“ارم نے یہ کہتے ہوئے کار آگے بڑھا دی۔ارم شیشے میں پیچھے پڑی ہوئی خالی سڑک کودیکھنے لگی ۔ناصر بولا

پیچھے کیا دیکھ کر رہی ہو۔ آگے دیکھو“

تم جانتے ہو میں مشرق کے فلاسفی آف لو پر تھیسز لکھ رہی ہوں، تم دو منٹ کی بات کر رہے ہو نا۔مجھے بتاﺅ اگرہیر دو منٹ لیٹ پہنچتی تو رانجھا جا چکا ہوتا اور انکی ملاقات کبھی نہ ہوتی تو آج رومانی داستانوں میں ہیر رانجھے کا کوئی قصہ نہ ہوتا۔تم دو منٹ کی بات کرتے ہونا٬ تو یہ بتاﺅ٬ سوہنی کے کچے گھڑے کو ٹوٹنے میں کتنے منٹ لگے تھے٬ دو ہی منٹ لگے تھے نا؟“

تمہارے گرینڈ ڈیڈ پتہ نہیں کیا کیا الٹی باتیں تمہیں بتا تے رہتے ہیں“

الٹی نہیں وہ صرف سیدھی باتیں بتاتے ہیں۔ اس سڑک کی طرح سیدھی“

کار کچھ دیر چلنے کے بعدآہستہ ہوئی ایک موڑ مڑی اور پھر کسی پارکنگ میں رک گئی ۔ناصر بولا

تمہیں پتہ ہے میں اس کلب میں نہیں جایا کرتا۔بہتر ہے تم مجھے گھر اتار دو“

ارم ناصر کو گھور نے لگی ناصر خاموش رہا۔ ارم نے پھر کار چلا دی۔

آقا قافا کو یاد آگیا اس سادھو بابانے وعدہ کیا تھا کہ وہ کلاس روزانہ کلاس اٹینڈ کرے گا۔وہ فوراً جسم میں واپس آیا ۔اور اپنی غار سے نکل کر سادھو بابا کی غار میں پہنچ گیا وہاں اٹھارہ طالب علم موجود تھے ۔آقا قافا کا نمبر انیسواں تھا ۔سب ایک دائرے میں بیٹھے تھے آقا قافا کی جگہ خالی پڑی تھی آقا قافا اپنی جگہ پر جا کر بیٹھا تو سادھو نے کہا

ہم طبیعات کا سبق مکمل کر چکے ہیں آج ہم مابعد الطبیعات پر بحث کریں گے۔ مابعد الطبیعات کی بنیاد ان سوالوں پر رکھی ہے جن کا جواب طبیعات کے موجود نہیں ۔مثال کے طور پرطبیعات میںپانی دو ہواﺅں کا مرکب ہے جب ہم تناسب سے ہائیڈوجن اور آکسیجن کو آپس میں ملاتے ہیں تو پانی بن جاتا ہے۔مگر اہل ِطبیعات کے بعد خاموش ہیں کہ یہ یہ قانون کس نے بنایا۔کیوں بنایا ۔ کس طرح سوچا۔پھر کیسے معلوم کیا کہ پانی سے مخلوق پیدا کی جاسکتی ہے ۔یہاں سے مابعد الطبیعات شروع ہوتی ہے ۔اس کے آگے دو حصے ہیں ۔ایک حصہ موجود حقیقتوں پر بحث کرتا ہے اور ایک غیر موجود حقیقتوں پر ۔موجود حقیقتیں یہ ہیں مثلاًہم ایک طبی قانون کے تحت مردہ وجود کوایک لمحے ہزاروں میل دور منتقل کرسکتے ہیں ۔یہ قانون اپنے پس منظرمیں جتنے سوال رکھتا ہے۔اس سے بحث موجود حقیقتوں کے دائرہ میں آتی ہے۔دوسرا اور اہم حصہ ہے غیر موجود حقیقتوں پر تحقیق ہے۔مثال کے طور زندہ وجود ایک لمحے کیسے ہزاروں میل دورپہنچ سکتا ہے۔چونکہ طبیعات ابھی تک اس عمل کا مشاہدہ کرنے میں ناکام ہے اس لئے اسے غیرموجود حقیقت قرار دیا گیا ہے ۔مذاہب ان دونوں حقیقتوں کو صدیوں سے مانتے آرہے ہیں ۔طبیعات نے ابھی تک مردہ وجود کی منتقلی کو تسلیم کیا ہے ۔عین ممکن ہے کسی وقت زندہ وجود منتقلی پر بھی بحث کرنے لگے ۔بڑے سادھو نے اس سلسلے میں اپنی مذہبی کتابوں سے حوالے دئیے وہا ںقر آن حکیم سے خضرعلیہ اسلام واقعہ بھی سنایا ۔تحت ِ بلقیس کے بارے میں بتایا کہ صاحب ِ علم نے اسے ہزاروں سے پلک جھپکنے سے پہلے کیسے ٹرانسفر کرلیا تھا۔ اس کے بعد اسی موضوع پر خاصی دیر سوال و جواب ہوتے رہے۔آخر میں بڑے سادھو نے کہا کہ کل آقا قافا اور میں نے تیاگ ماڑی جانا ہے اس لئے کل چھٹی ہوگی۔آقا قافا کو تیاگ ماڑی جانے پر تمام سادھووں نے مبارک باد دی ۔آقا قافا وہاں سے سیدھااپنی غار میں آیا ۔غار کی ایک طرف کی دیوار پرمدہم مدہم الماریوں کے خدوخال تھے ۔جیسے آقا قافا ایک الماری کے خدو خال کے قریب ہاتھ لے کر گیا تو دوطاق کھل گئے اور اندر کتابیں ہی کتابیں دکھائی دیں ۔کافی تگ و دو کے بعد آقا قافا ”تیاگ ماڑی “کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کر سکا۔

تیاگ ماڑی“کی ”مہا سادھو“کے دربار کا نام تھا۔جس سادھو کو وہاں تک رسائی مل جاتی ہے، وہ نروان کی منزل پر پہنچ جاتا ہے ۔آقا قافا نے عشاءکی نماز ادا کی اور”ذکرِ ہو“کا ورد شروع کیا صبح کی نماز تک آقا قافا یہی ورد کرتے رہے۔پھر نماز پڑھی ۔دوتین گھنٹے آرام کیا اور پھرجسم کو وہیں چھوڑ کر پرواز کی اور نور کے پاس پہنچ گیا۔نور ابھی تک سو رہی تھی ۔آقا قافا نے سوچا کہ واپس جاکر تیاری کرنا چاہئے ۔پتہ نہیں تیاگ ماڑی میں مجھے کیا کرنا پڑے۔ آقا قافا واپس آگیا اور چٹان پر التی پالتی مار کر بیٹھ گیااور تصور اسم اللہ ذات میں رفتہ رفتہ گم ہوتا چلا گیااور پھر کئی گھنٹوں بعداسے احساس لگا کہ نور کے دریا سے نکال کر کسی نے اسے ساحل پر پھینک دیاہے ۔آقا قافا نے آنکھیں کھولیںتو اسے غار میں داخل ہوتے بڑے سادھو دکھائی دئیے ۔آقا قافا چٹان پر ان کے احترام میں کھڑا ہو گیا۔بڑے سادھو نے آقا قافا سے کہا”میرے ہاتھ پکڑ لے اور آنکھیں بند کرلے “آقا قافا نے ایسا ہی کیا ۔اسے یوں لگا جیسے کوئی تیز ہوا کا جھونکا اس کے چہرے کو چھو کر گزرا ہو۔اس نے بڑے سادھو کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی اور بڑے سادھو نے آہستہ سے کہا ”آنکھیں کھول دو“آقا قافا نے آنکھیں تو وہ ایک بہت بڑے ہال میں کھڑے تھے ۔آقا قافا نے ماحول کو سمجھنے کے لیے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔یہ گول ہال تھا۔اس میں دیواروں کے بالکل ساتھ ساتھ گول گول چبوترے بنے ہوئے تھے اور ان پر سادھے بیٹھے تھے۔دوچبوترے خالی دکھائی دئیے ۔وہ ان چبوتروں پر بیٹھ گئے ۔مہا بڑا سادھو درمیان والے چبوترے پر بیٹھا تھا۔وہیں روشنی نکل کرہر طرف پھیل رہی تھی۔مہا سادھو نے گائے تری منتر پڑھنا شروع کیا۔ایسا لگا جیسے لفظ پتھروں میں اترتے چلے جا رہے ہیں۔

اوم بھور بھوہ سوہ۔تت سویتر ورینئم ۔بھرگو دیوسیہ دھی مہی ۔دھیو یونہ پرچودیات

(ہستی میں مٹی میں جہان میں تمام کائناتوں میں ایک ہی وجود ہے۔عبادت کے لیے۔اے خداہمارے ذہن کو ایسی طاقت عطاکر کہ ہم سیدھے راستے پر چلنے کے قائل ہوجائیں ہماری تیری عبادت کرتے ہیںاور تُو میرے دماغ کو روشن کرنے والا ہے۔)

آقا قافاکا ذہن پھر اس منتر میں الجھ گیا ۔وہ اس منتر کے حروف کی ترتیب سمجھنا چاہتا تھا مگرابھی تک معلوم نہیں کرسکا تھاکہ ان کے لفظ کیوں دل و دماغ پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔وہ اس کھوج میں بھی تھا کہ رگ وید کے دس ہزار منتروں میں سے کیوں اسی منتر کو مہا منتر سمجھا جاتا ہے۔ ،چاروں ویدوں میں اسے کلام الہی کا درجہ کیوں دیا گیا ہے۔ اس منتر میں 24 حروف ہیں۔ اس میں آٹھ آٹھ حرفوں کے تین چرن ہیں لیکن براہمن گرنتھوں میں اور بعد کی کتابوں میں ان سے پہلے بھو، بھور، سواہا کا اضافہ کیاگیا اور اس کا آغاز ”اوم“ سے کیا گیا۔اوم کی حیثیت ہندو مت بسم اللہ جیسی ہے ۔ہر وید اسی سے شروع ہوئی اور اسی پرختم ہوئی ۔ہندو مت ،جین مت اور بدھ مت تینون مذاہب میں یہ لفظ عدم اور وجود دونوں کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی ۔تخلیق اسی سے ممکن ہوئی ۔سادھو با با کے خیال میں مسلمان جسے صدائے کن فیکون کہتے ہیں ۔وہ یہی ہے ۔انہوں نے ایک بار کلاس میں اس لفظ کا مفہوم بتاتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اس میں اللہ کا الف بھی ہے اور محمد کی میم بھی ۔

اور پھر سادھو بابا کے منہ سے یہ نام سن کر آقا فا چونک گیا ۔مہا سادھو کے دائیں طرف والے چبوترے پر بیٹھا ہوا سادھو کہہ رہا تھا”نرواررام ۔(نرواررام اُس بڑے سادھو کا نام تھا جس کے ساتھ آقا قافا آیا تھا )تم نے ایک مسلمان کو اِ س پوترچبوترے پر بیٹھا دیا ہے۔مہاسادھو پوچھتے ہیں کیا اس جرم میں تمہارے شکتیاں تم سے واپس نہ لے لی جائیں “

نرواررام بڑے سکون سے بولا ”مہا سادھو نے خودمجھے وہاں تک پہنچایا ہے جہاں تمام مذاہب نیچے رہ جاتے ہیں ۔انہوں نے ہی مجھے یہ تعلیم دی ہے کہ نظریوں اور عقیدوں کی بنا پر کسی سے نفرت نہیں کرنی ۔یہ لافانی الفاظ انہی کے ہیں جنہیں میں نے ہمالہ کی ہر چٹان میں اتار دیا ہے کہ اس کائنات میں ہر شخص میرا ہے مجھ جیسا ہے بلکہ مجھ سے بہتر ہے ۔“

ایک اور چبوترے سے کسی نے کہا ”یہ محبت اور نفرت کا معاملہ نہیں ۔تم نے مسلے کو شکتی دی ہے ۔اسے پوتر منتر اورالہامی اشلوک سکھائے ہیں ۔تم دوشی ہو “

نروار رام نے پھر اسی تحمل سے کہا ”نہیں میں نے اسے اشکوک اور منتر نہیں سکھائے۔ اس نے تمام تر شکتیاں اپنے قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کر حاصل کی ہیں ۔ہاں میں نے طریقہ کار ضرور بتایا ہے ۔تربیت ضرور کی ہے ۔جہاں تک ممکن تھا اسے مسلمان رکھتے ہوئے اس کا بھرپور ساتھ دیا ہے “

ایک چبوترے سے کسی نے کہا”کیا تم یہ کہنا چاہتے کہ جو کرشمہ منتروں میں ہے، وہی قرآن کی آیتوں میں بھی موجود ہے “

ایک اور چبوترے سے آواز آئی ” نروار!تم نے بڑا ظلم کیا ہے ۔اپنے اوپر اور اپنے ماننے والوں کے اوپر ۔تم جانتے ہو کہ ہمارے مذہب کو معین الدین چشتی ،علی ہجویری اور نوشہ میاں نے کتنا نقصان پہنچایا تھا صرف اس لئے کہ وہ یہی شکتیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔“

نروار رام نے کہا ”اس مسلمان کے بارے میں یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے کہ یہ”جثہ ہمجات “ (ہمزاد کا جسم )ہے ۔ جس کی ایک مخصوص عمر ہوا کرتی ہے۔میں نے اس کی عمر بڑھانے کاکامیاب تجربہ کیاہے۔میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ مسلمان ہندومت کو کوئی ایسا نقصان نہیں پہنچائے گا جس سے بھگوان کو تکلیف ہو “

ایک اور سادھو نے سخت آواز میں کہا ”ہم اِس دربار میں کسی مسلے کو برداشت نہیں کرسکتے ۔اسے اس ”پوتر منترالی “سے فوراً نکالا جائے “ مہاسادھو کے چبوترے سے آواز آئی ۔اگر تم سچ پر ہو تمہارے پاس سچ کی شکتیاں ہیں۔توتمہیں اجازت ہے اس لڑکے کو اپنی سچائی پر لے آﺅ۔ “

اورپھرہوا میں بالکل ایک اکھاڑا سا بن گیا اور اس سے لمبی لمبی راہداری نکلیں اور دو چبوتروں سے پیوست ہوگئیں ۔نروار رام نے آہستہ سے آقا قافا کو کہا ”ذہن کو صرف اسم اللہ ذات پر مرتکز رکھنا“اور پھر ہاتھ اشارے سے رنگ میں جانے کا حکم دیا ۔آقا قافا اپنے چبوترے سے اٹھا اور رنگ میں جا کر کھڑا ہوگیا ۔دوسری طرف سے وہی سادھوآیا جس نے کہا تھا کہ پوتر منترالی میں کسے مسلے کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

اس نے بہت منتر پڑھے آقا قافا کی طرف کئی گولے ،کئی سانپ ، کئی بجلیاں پھینکیں ۔ایک قیامت سی آقا قافا کے ارد گرد پھیلی رہی مگر کوئی بھی شے آقا قافا کے قریب نہ پہنچ سکی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے اردگرد کوئی روحانی دائرہ کھینچ دیا گیا ہے ۔سادھو جب روحانی لڑائی میں ناکام ہوا تو اس نے جسمانی لڑائی شرو ع کی ۔آگے بڑھا اور آقا قافا کو گردن سے پکڑنے کی کوشش کی مگر آقا قافانے تیزی کے ساتھ اسے اٹھایااور رنگ سے باہر پھینک دیا مگرسادھو زمین پر گرنے کی بجائے وہاں پہنچ گیا جہاں بیٹھا تھا۔مہا سادھو نے پوچھا ”کوئی اور مقابلہ کرے گا “بڑے سادھو کے بائیں ہاتھ بیٹھے ہوئے سادھو نے کہا ” میں مقابلہ کرنا چاہتا ہوں مگر اس سے پہلے مجھے مونارام سے ایک سوال پوچھنے کی اجازت دی جائے۔“

مہا سادھو بولا ”تم یہی پوچھنا چاہتے ہونا کہ آگے کیا چیز ہے جو اس تک نہیں پہنچنے دیتی تو میں بتا دیتا ہوں اس نے اسم اللہ ذات پر ارتکاز کیا ہوا ہے ۔ایسا ارتکاز کہ وہاں اس کی اپنی ذات موجود نہیں صرف اسم اللہ ذات کا دائرہ موجودہے ۔ کیا تم اس دائرے کو توڑ سکتے ہو“

خاموشی چھا گئی ۔سناٹوں کی کئی ساعتیں گزریں اور پھر بڑے سادھو کی آواز گونجی ۔”رام تجھے اپنے تجربے کی اجازت ہے ۔تقدیر کا لکھا ہوا اٹل ہے ۔ میں اِس نوجوان کو انعام میں مونارام کی تمام شکتیاں دے رہا ہے ۔“ پھر آقا قافا نے دیکھا کہ کوئی روشنی اس کی وجودکی طرف آئی ہے اور اس میں گم ہوگئی ہے اور اپنے چبوترے پر بیٹھا ہوا موہن داس وہیں گر پڑا ہے۔آقا قافا نے مہا سادھو کے چبوترے کی طرف دیکھا تو وہ خالی ہوچکا تھا یعنی بڑا سادھو چلا گیا تھا ۔اس کے ساتھ دائیں طرف چبوترے سے پوتر منترالی کے اختتام کا اعلان کردیا گیا۔

رام نے آقا قافا کو گلے لگاتے ہوئے مبارک باد ۔باقی سادھو وں نے مبارک بادیں دیں اور پھر واپسی سفر شروع ہوا اس مرتبہ آقا قافا کو نہ آنکھیں بند پڑیں اور نہ ہی اپنے سادھو باباکا ہاتھ تھامنا پڑا۔اس نے اپنی غار کاتصور کیا اور آنکھ جھپکنے سے پہلے غار میں موجود تھے ۔اس نے دیکھا سادھوبابابھی غار میں موجود تھے ۔سادھو بابانے آقا قافاسے کہا دیکھو تمہیں جو شکتیاں ملی ہیں مجھے ان کی مکمل تفصیل نہیں معلوم لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ تم پلک جھپکنے سے پہلے وہاں جسم کے ساتھ موجود ہوسکتے جہاں جانا چاہو ۔اِس شکتی کا ایک استعمال اور بھی ہے۔تم اسی غار میں کھڑکیاں کھولتے جاﺅ ۔ہر کھڑکی جو تم چاہو وہی نظر آئے ۔“آقا قافا نے پوچھا ” کھڑکی کیسے کھولو ں۔“اس نے کہا ”انگلی سے ہوا میں کھڑکی بناﺅ اور پھر اس میں ”یا بصیراً پڑھ کر پھونک دو ۔تم جو تصور کرکے پھونکو گے وہی کھڑکی میں دکھائی دے ۔آقا قافا نے نور کا تصور کیا ۔یا بصیراً پڑھا اور انگلی سے ہوا میں لائنیں کھینچ کر اس میں پھونک دیا کھڑکی نور کی بیدروم میں کھلی ۔بڑے سادھو نے ہاتھ کے اشارے سے آقا قافا کو الوداع کہا ۔آقا فاقافا کچھ کہنے لگا تو بڑے سادھو نے ہونٹوں پر انگلی لگاکر اسے نور کی طرف متوجہ کیا کہ وہ سورہی ہے ۔آقا قافا سادھو کے پیچھے پیچھے چل پڑا غار کے دھانے پہنچ کر آقا قافا نے پوچھا۔ ”کیا میری آواز کھڑکی کے پار سنائی دے گی “ بڑے سادھو نے کہا ”ہاں اور تم بھی وہاں موجود ہو سکتے ہو۔ جیسے پوتر منترالی سے یہاں سے آئے ہو ۔ “یہ کہہ سادھوبابا چلا گیا ۔ آقا قافا واپس اپنی چٹان پر آکرالتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔اب نوراس کے سامنے بستر پر سوئی تھی۔آقا قافا نے کھڑکی بند کردی اور عبادت میں مشغول ہوگیا ۔ اگلی صبح اس نے نور کی کھڑکی کھولی مگر نور اب تک سو رہی تھی۔

آقا قافا نے ناصر کا تصور کیا اور یا بصیراً پڑھ کر ایک اور کھڑکی کھولی۔کھڑکی میں ناصر دکھائی دیا وہ کمپوٹر کے سامنے بیٹھا تھا۔ کمپوٹر کے ڈیسک ٹاپ پر نورکی تصویر پھیلی ہوئی تھی ۔سکائپ پر اس نے نور کو کال کی ۔آقا قافا نے دوسر ی کھڑکی میں دیکھا تو نور کے بیڈ روم میں پڑے ہوئے کمپیوٹر کی سکرین پرناصر کی تصویرکے ساتھ کال ٹون آرہی تھی۔نور گھنٹی کی آواز پر جاگ پڑی اور کمپوٹر کے سامنے آکر بیٹھ گئی اس نے کہیں کلک کیا اور کہا

ناصر“

ناصر کی آواز آئی ” میں کافی دیر سے کوشش کررہا ہوں تم شاید کمرے میں نہیں تھی “ نور بولی ۔” نہیں ذرا آنکھ لگ گئی تھی

ناصر بولا” میں نے اپنے کمرے میں تمہاری تصویریں لگائی ہیں اورپھر کیمرہ گھما کر ناصر نے نورکو وہ بورڈ دکھایا جس پر اس نے نور کی تصاویر کے پرنٹ لگائے تھے ۔پھر وہ کھڑکی دکھائی۔ نور خاموش رہی ۔ اس کے چہرے اور لہجے میں کوئی تاثر نہیں تھا ۔ناصر بولا ۔میں نے تمام تصویریں یو ایس پی میں سیو کرلی ہے ۔ کل ان کے شاپ سے پرنٹ نکلوا لاﺅںگا بڑے بڑے “نور نے اپنی دلکش نسوانی آوازکو تھوڑا سا ملائم کرتے ہوئے کہا

تصویر یں مجھے اچھی نہیں لگتیں ٬ سوائے اس تصویر کے جس میں تم ایک گیند کو اپنے بازﺅوں سے اونچی اونچی فصیلوں سے باہر پھینک دیتے ہو۔“

اسی گنبد کی طرح ایک دن تم انہی بازﺅوں کی طاقت سے اونچی اونچی فصیلوں سے اڑ کر مرے پاس پہنچ جاﺅ گی۔“

میں خواب نہیں دیکھتی“

میں تو خواب ہی دیکھتا ہوں۔ تمہارے خواب۔“

میں دیواریں دیکھتی ہوں بند دروازے ، اونچی فصیلیں، اندھیرے ،پہرے دار، کڑی نگرانی، بھلا خواب کیسے تعبیر کی گلی کی طرف جا سکتے ، تم دیکھ رہے ہو ،کہیں کوئی درز ٬ کوئی روشن دان٬ کوئی کھڑکی ٬ کوئی دروازہ بلکہ بابا کی قبر تک۔۔۔۔“

نورکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور ناصر بولا

دیکھنانور میرے ہوتے ہوئے یہ آنسو آنکھ سے گر نہ پڑے“

نور نے آنکھوں کو دوپٹے سے پونجھتے ہوئے کمپیوٹر آف کر دیااور بیڈ پر آکر لیٹ گئی۔

آقا قافا نے ناصر کی کھڑکی میں دیکھا ۔تو وہ نور کوآوازیں دے رہا ہے پھر مایوس ہوکر دوسرے کمرے میں آگیا جہاں اس کا دوست ممنون بیٹھا ہوا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔اس نے ناصر کو دیکھ کر کہا

میں تمہیں ملنے تھامرے دوست مگرتم کہیں اور تھے لگتا ہے تم جاگتے میںخواب دیکھتے ہو۔ ۔پلیز صرف سوتے ہوئے خواب دیکھا کرو۔ورنہ برباد ہو جاﺅ گے“ناصر بولا

میں برباد ہو چکا ہوں ۔مجھے ہزاروں میل دور بیٹھی ہوئی ایک لڑکی نے برباد کر دیا ہے، اب نہ میں سو سکتا ہوں اور نہ جاگ سکتا ہوں۔ بس ایک ہی چہرہ نظرآتا ہے۔ ہر چہرے میں بس ایک وہی چہرہ ہے اور بس وہی آواز سنائی دیتی ہے ہر آواز میں“

اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔You must see Dr“

ممنون نے ناصر کو ایک تھپکی دی اورکمرے سے نکل گیا۔

آقا قافا نے نور والی کھڑکی پر نظر ڈالی تو اسے نارو کمرے میں داخل ہوتی ہوئی دکھائی دی۔اس نے کہا

وہ آپ سے ملنے آئے ہیں “

کون “

جی نوابزادہ مصورمان “

ہونہہ “ کہہ کر نور اٹھی اس نے آئینہ کے سامنے اپنے چہرہ درست کیا اور اپنے لیونگ روم میں آگئی جہاں نوابزادہ مصور مان بیٹھا ہوا تھا وہ نور دیکھ کر اٹھ کھڑاہوا اور کہنے لگا

بابا نے کہا ہے!“

نورنوابزادہ کا جملہ کاٹتے ہوئے کہا

یہی نا کہ آپ مجھے مرے بابا کی قبر تک لے جائیں۔“

آپ کی ذہانت کا تو میں ہمیشہ سے قائل ہوں۔“

نور نے غصہ بھری نظروں سے عامر کو دیکھ کر کہا

آپ بھی کبھی ذہانت سے کام لے لیا کریں“

میں آپ کو لینے آیا تھا۔“

میں آپ کے ساتھ نہیں جاﺅں گی۔“

میں دروازہ کھلا چھوڑ کر جا رہا ہوں۔“

اورنواب زادہ یہ کہہ کر موڑ گیا وہ آہستہ آہستہ چل رہا تھا اور نور بھی آہستہ آہستہ اس کے پیچھے چلتی ہوئی دروازے کے پاس آئی اور پھردروازے کواندر سے بند کر دیا۔

آقا قافا کو نواب منور مان یاد آیا اس نے ایک اور کھڑکی کھولی۔سامنے نواب منور مان اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا ٬ فون کی گھنٹی بجی۔ نواب منور مان نے فون کا رسیور اٹھایا۔دوسری طر ف سے آواز آئی

مری آواز شاید اس وقت آپ نہ پہچان سکیں لیکن میرا نام آپ بھول نہیں سکتے ٬ سردار قراقرم بول رہا ہوں

نواب منور مان نے کہا ” لگتا ہے تمہارے آدمیوں نے تمہیں پورا واقعہ نہیں سنایا ان کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وگرنہ تمہیں“

سردار قراقرم نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا

میں نے اسی لیے فون کیا ہے کہ میرے آدمیوں کو کس جرم کی سزا دی گئی ہے۔ میں نے تو اپنے بیٹے کے لئے تمہاری بھتیجی نور کا رشتہ مانگا ہے تاکہ ہمارے درمیان تعلق اور زیادہ مضبوط ہو۔“

اپنی گندی زبان سے میرے خاندان کی کسی بچی کا نہ لو۔ تمہیں ۔۔“

پھرسردار قراقرم نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا

نواب منور مان پوری دنیا میں صرف میں ایک چشم دید گواہ ہوں ۔وہ تمہاری بھائی کی گولیوں سے چھلنی لاش۔۔۔۔۔

اب ایک نہیں گولیوں سے چھلنی دو لاشیں٬ تمہاری بیوی اپنے سہاگ کا ہی نہیں٬ اپنی جوان اولاد کا بھی ماتم کرے گی۔“

نواب منور نے غصہ میں رسیور سیٹ پر زورسے دے مارا۔

آقا قافا نے فوراً ایک نئی کھڑکی کھولی اور سردار قراقرم کی آواز کے وساطت سے اس کا تصور کیا اس نے دیکھا کہ سردار قراقرم نے اپنے بیٹے ارقم کو آواز دی ۔وہ آیا تو سردارقراقر م نے اس سے کہا

آج میں نے تم سے ایک بہت اہم بات کرنا ہے بیٹے۔

بیٹاسوالیہ نظروں سے باپ کو دیکھنے لگا۔قراقرم بولا

محبت کا جواب نفرت سے دیا گیا ہے،دوستی دشمنی میں بدل گئی ہے۔“

میں سمجھا نہیں بابا“

میں نے تمہارے لئے نواب منورمان کی بھتیجی نور کا رشتہ مانگا تھا“

بابا آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ نواب منور مان اپنی بھتیجی کا رشتہ آپ کے بیٹے کو دے دے گا۔“

نور کے باپ نواب انور مان کا قاتل خود نواب منور مان ہے اور میں اس وقوعہ کاواحدچشم دید گواہ ہوں۔“

بابا تمہاری زندگی خطرے میں ہے۔“

میری نہیں بیٹا، تمہاری زندگی خطرے میں ہے۔ میرے ساتھ آﺅ۔“

دونوں باپ بیٹا چلتے ہوئے ایک کمرے میں گئے ۔سردار قراقرم نے وہاں پڑی ہوئی تجوری کھولی۔ اس میں سے کچھ رقم نکالی اور اپنے بیٹے کودیتے ہوئے کہا

تم فوراً یہ ملک چھوڑ دو٬ تمہاری زندگی خطرے مےں ہے۔“

بابا آپ کی زندگی بھی۔۔۔“

یہ مرا حکم ہے۔“

آقا قافا نے تیزی سے کھڑکیوں کی طرف ہاتھ کیا یہ سوچتے ہوئے کہ اب انہیں ختم ہو جانا چاہئے اور کھڑکیاں غائب ہوگئیں۔ اس کے دماغ کے گھڑیال نے گھنٹی بجادی تھی کہ کلاس میں جانے کا وقت ہوگیا وہ سادھو بابا کی غار میں پہنچ گیا۔ کلاس شروع ہوئی ۔سادھو نے کہا”آج ہم اس موضوع پر بحث کریں گے کہ روح کیا ہے ؟۔کہاں سے آتی ہے اور کہاں چلی جاتی ہے۔اس کی ماہیت کیسی ہے ۔ روح فانی ہے یا غیر فانی ۔روح کی معرفت تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے ۔جسم اور روح کا تعلق کیسا ہے ۔کیا ارواح میں کوئی وحدت بھی موجود ہے ۔

روح حرکت کاآغاز ہے۔زندگی کا احساس ہے۔بھگوان کی حکمیہ آواز ہے ۔ایک مسلسل عمل ہے۔روحِ کل کی جھلک ہے ۔ایک خدائی قانون ہے ایک غیر کائناتی اصول ہے ۔اس کا ماخذ روحِ کل ہے ۔وہ اپنے ماخذ سے مکمل طور پر جدا ہونے کے باوجود اس سے الگ نہیں۔ہاں اپنے ماخذ اس کے تعلق کی کئی سطحیں ہیں ۔جو روح کی بالیدگی اور پاکیزگی سے بنتی اور بگڑتی ہیں ۔جسم کے نکلنے کے بعداپنے ماخذ میں لوٹنے کا تعلق بھی روح کی انہی سطحوں سے ہے ۔روح کی موجود گی کا سب سے بڑا ثبوت لوگوں کا مختلف ہو نا ہے ۔تنوع کا ہونا ہے ۔ایک مادے کے اندر حرکات کا تنوع کسی غیر مادی شے کی موجودگی کا ثبوت ہے ۔اور اسی کو روح کہتے ہیں

اب آتے ہیں روح کی ماہیت پر ۔ روح ایک غیر مادی چیز ہے ۔غیرمادی چیز تقسیم سے مبرا ہوتی ہے۔غیر مادی چیز کےلئے زمانی اور مکانی فاصلے نہیں ہوتے۔اسے قید نہیں کیا جاسکتا۔اسے استحکام کےلئے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔وہ ازلی طور پر تقسیم شدہ ہے اور اپنے اصل سے جڑی ہوئی بھی ہے۔روح کی تقسیم اس طرح ہے کہ وہ ہر قبول کرنے والے مادی چیز سے تعلق رکھتی ہے اور غیر منقسم اس طرح ہے کہ ہرشے کے کل اور جزو پر حاکمیت رکھتی ہے۔اس کا حجم نہیں بھی ہے اور ہے بھی۔وہن تنہا بے حجم ہے مگرکسی کے ساتھ اس کے حجم کے مطابق ہے ۔وہ زمیں پر بھی ہے اور آسمان پر ۔وہ تخلیق کے ساتھ بھی ہے اور خالق کے ساتھ بھی۔تخلیق کے ساتھ اسکا تعلق ٹوٹنے والا ہے خالق کے ساٹھ ان ٹوٹ ہے۔وہ وحدت میں ہے اور کثرت میں بھی۔

اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ روح پرموت ہے یانہیں ۔روح فنا نہیں ہوتی ۔اس اعتبار سے انسان بھی غیر فانی ہے ۔موت صرف جسم پر واقع ہوتی ہے۔حرکت کا احساس روح سے ہے ۔مادے کو حرکت روح سے ملتی ہے ۔تمام کائنات میں ایک روح کار فرما ہے جو اپنے طے شدہ قانون کے مطابق عمل رکھتی ہے ۔

ہم روح کی معرفت کیسے حاصل کر سکتے ہیں ۔اس کےلئے ہمیں دو سوالوں پر غور کرنا ہوگا ایک تو یہ روح کا حقیقی وطن کیا ہے

روح کا حقیقی وطن ہے جہاں سے وہ آتی ہے ۔یقینا جسم سے جدا کے بعد اس نے وہیں لوٹ جانا ہوتا ہے ۔دوسرا اس کا ظہور کس طرح ہوتا ہے ۔روح جب مادے کو اشکال سے آراستہ کرتی ہے تو اس کا اظہار ہوتا ہے۔

ایک سوال یہ بھی بہت اہم ہے کہ روح جب روح کل میں شامل ہوجاتی ہے تو اس ایک اکیلا وجود کیسے برقرار رہتا ہے۔ اس کا صرف جواب میرے نزدیک یہ ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی روح روحِ کل سے مل کر ابدیت کے مقام ِ مسرت پر پہنچ جاتی ہیں لیکن روحیں جنہیں روحِ کل قبول نہیں کرتی وہ زمین پر مختلف شکلوںمیں واپس بھیج دیا جاتی ہیں۔“

اور پھر سادھو بابا نے کہا ”اب آپ سوال کر سکتے ہیں “آقا قانا نے سوال کیا

مقامِ مسرت کیا ہے “

جسے آپ مسلمان ”جنت کہتے ہیں“

کیا یہ ممکن ہے کہ جو ارواح مقام ِ مسرت میں ہے وہ کسی روز جسم کے ساتھ اٹھائی جائیں۔“

ہاں کیوں نہیں ۔جو بھگوان ایک بار زندگی دیتا ہے ۔وہ دوسری بار بھی دے سکتا ہے ۔دیکھوآقا قافا ۔میں تمہیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ تم نے وہی عقائد رکھنے ہیں جو ایک مسلمان ہوتے ہیں ۔اسی لئے تمہیں مکمل طور پر اسلام کی تعلیم دلائی ہے ۔باقی تمام مذاہب کا بھی تم نے اپنے شوق سے مطالعہ کیا ہے ۔ یہاں میں جو تعلیم میں تمہیں دیتا ہوں اس کا تعلق قطعا ً ہندو مت یاکسی مخصوص مذہب سے نہیں ہوتا ۔ یہاں صرف میں وہی باتیں کرتا ہوں جن کو میری عقل نے درست سمجھاہے۔“پھر سادھو نے جلد کلاس ختم کردی ۔آقا قافا غار میں واپس آیا تو خیال آیا کہ نماز رعشاءکا وقت ہورہا ہے ۔ وہ نماز کےلئے کھڑا ہوا۔چار سنتیں پڑھیں تو خیال ہے کہ اب تو وہ مکہ مکرمہ اور مدنیہ منورہ بھی جاکر عبادت کرسکتا ہے ۔ اسکی روح تو ان دونوں مقامات سے سینکڑوں بار ہوکر آچکی تھی اور پھر وہ جسم کے ساتھ کعبة اللہ کے صحن میں تھا ۔اس نے نماز مکمل کی اور طوائف کرنے لگا۔سات طواف کر لینے کے بعد اس نے ایک کونے کو اپنے لئے منتخب کیا اور وہاں کھڑا ہو کر عبادت میں مصروف ہوگیا۔کئی گھنٹوں کے بعد اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے ساتھ بیٹھا ہواآدمی مسلسل اسے دیکھ رہا ہے ۔ آقا قافا نے سلام پھیرا تو اس بوڑھے آدمی نے آگے بڑھ کر آقا قافا کے ہاتھ چوم لئے ۔ آقاقافا نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے پوچھا ”تم کون ہو اور میرے ہاتھ کیوں چوم رہے ہو“اس ساٹھ ستر سالہ بزرگ نے کہا”میں پچھلے چار گھنٹوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تم رکوع و سجود میں مسلسل مصروف ہو۔اس جوانی میں ایسی عبادت شاید ہی کسی کو عطا کی گئی ہو ۔اللہ کے حضور میں تمہاری بلندیاں دیکھ کر تمہارا ہاتھ چومنے کو دل کیا اور کوئی بات نہیں۔آقا قافا نے شرمندہ ہوکر کہا ”میں اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا آپ بھی میرے لئے دعا کیجئے گا“بزرگ بولے ”میں اب مدنیہ کےلئے نکل رہا ہوں ۔ صبح کی نماز وہاں جا کر ادا کروںگا۔ اگر تم ہمارے ساتھ ساتھ آناچاہوتو مجھے بڑی خوشی ہوگی ۔“پھر اس نے ساتھ بیٹھی عورت کی طرف اشارہ کرکے کہا ” یہ میری بیوی ہے ۔“آقا قافا نے اٹھتے ہوئے کہا ”میں نے ادھر ہی جانا ہے “انہوں نے ایک کار ہائر کی ہوتی تھی ۔دونوں میاں بیوی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور آقا قافا اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گیا۔اُس بزرگ نے ڈرائیو سے فرمائش کی ہم صبح کی نماز مدنیہ جاکر پڑھنا چاہتے ہیں ۔اس نے انکار میں سرہلاتے ہوئے کہا ” پانچ گھنٹوں کا سفر ہے ۔ایک سو بیس کلو میٹر سے زیادہ گاڑی چلانا جرم ہے ۔جگہ جگہ سپیڈ کیمرے لگے ہوئے ہیںاور کم سے کم جرمانہ چار سو ریال ہے “بزرگ مایوس سا ہواتو آقافا بولا ” انشاللہ ہم صبح کی نماز دربارِ رسالت میں ادا کریں گے ۔ کار چل پڑی ۔تقریباً اڑھائی گھنٹے کار چلی تو ڈرائیونے ہڑ بڑاکر کار موٹر وے پر ایک طرف کرتے ہوئے روک دی اور کہنے لگا ”اللہ نے بچالیا ہے ۔ میں سو گیا تھا میری اب آنکھ کھلی ہے ۔“

وہ کار سے اترا اس نے ڈکی کھولی اس میں سے پانی کی بوتل نکالی اپنے چہرے پانی پھینکا اور پھر کار چل دی مگر جیسے موٹر وے پر پہلا سائن بورڈ اسے نظر آیا تو اس نے کہا ” ہم مدنیہ پہنچ گئے ہیں ۔“اور کار میں لگی ہوئی کھڑی کی طرف دیکھا تو وہاں ساڑھے چار بج رہے تھے۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ خراب ہوگئی ہے اور پوچھا ” کیا وقت ہورہا ہے ابھی اتنا اندھیرا کیوں ہے ۔ صبح ہوجانی چاہئے تھی ۔ بزرگ نے کہا ”ابھی تو ساڑھے چار ہوئے ہیں ۔“ اس نے سوچا کہ شاید پچھلا سائن بورڈ اس نے درست طرح نہیںدیکھا تھامگر اگلے سائن بورڈ سے تو اسے مدنیہ کےلئے موٹر وے سے اترنے کے اشارے مل رہے تھے ۔وہ بہت پریشان ہو کر بزرگ کو شیشہ سے دیکھنے لگا ۔ مسجد نبوی کے باہر اس نے کار روکی ۔جب بزرگ نے اسے طے شدہ رقم دینا چاہی اس نے انکار کرتے ہوئے کہا ”میرے لئے یہی اعزاز بہت ہے کہ آپ نے میری کار میں سفر کیا ہے ۔ آپ بس میرے لئے دعاکردیجئے ۔آقا قافا یہ گفتگو سن کرجلدی سے ایک طرف چل پڑا اور ان کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔بزرگ نے حیرت سے ڈرائیو سے کہا ”تمہیں کیا ہوگیا ہے “تو وہ بولا ” جناب اڑھائی گھنٹوں میں کوئی کار مکہ سے مدنیہ نہیں پہنچ سکتی ۔ بس میرے لئے دعا کیجئے گا۔یہ کہہ کر ڈرائیو کار میں بیٹھ کر چلا گیا دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے ۔بات ان کی سمجھ میں آگئی تھی کہ یہ اسی نوجوان کی کرامت تھی انہوں نے اسے تلاش کرنا شروع کیا مگر آقا قافا کہیں نظر نہ آیا۔

آقا قافا تھوڑی دیر ادھر ادھر گھوم کر مسجد میں داخل ہوا ۔جاکر وضو کیا ۔ویسے اسے وضو کی ضرورت نہیں تھی اسے تو اس شہر میں داخل ہوتے ہی جس پاکیزگی کا احساس ہوا تھااس میں وضووغیرہ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ۔فجر کی اذاں ہوئی اور آقا قافا نے اللہ کے گھر کی طرف نگاہ اٹھائی۔ اللہ کا ایک گھر تو مکہ میں ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے آباد کیا تھامگر اللہ کا ایک گھر مدنیہ الرسول میں بھی ہے جسے محمد ِ عر بی نے آباد کیا تھا ۔آقا قافا اللہ کے اسی گھر یعنی مسجدِ نبوی میں نمازِ فجر کے لئے داخل ہوا تھا۔ابھی روشنی کم تھی ۔ فضامیں تقدس بھرا، مدہم مدہم اجالا تھاہر طرف نور کے دریا بہہ رہے تھے دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے دریا ۔اپنے سمندر میں گرنے کےلئے اس لازوال سمندر میں گرنے کےلئے جہاں ہر شے کو ابدیت حاصل ہے ۔ وہ دریا ۔۔ وہ لوگوں کے ہجوم روضہ ءرسول کی طرف بڑھتے ہوئے ہجوم ۔

آقا قافا کے قدم چشمہ ءحیات یعنی آب زم زم کی طرف یہ سوچتے ہوئے اٹھے کہ وہ آب حیات جسے پی کر خضر علیہ اسلام عمرِ دوام پا گئے جسے سکندر ذولقرنین نے ہاتھوں میں اٹھا کر چھوڑ دیا تھا وہ یہی آب زم زم تھا ۔ جو لوگ یہ آب زمزم پی لیتے ہیں وہ کبھی نہیں مرتے ۔کیونکہ اسی کو پی لینے کے بعد وہ امت ِ محمدیہ کے دائرے میں آکھڑے ہوتے ہیں اورمحمد کی امت میں شمار ہو جانے والوں پر فنا پرلاحق نہیں ہوتی ۔وہ موت کا تلخ ذائقہ ضرور چکھتے ہیں مگر یہ تلخ ذائقہ تو اس ابدی وصال کا نام ہے جو عمل ِ کن فیکون سے بھی پہلے کا ہے اور اس کے بعد بھی رہے گا

کن تے کل دی گل ہے اساں پہلاں پریت لگائی

آقا قافا کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ دریا کی لہروں میں گھل رہاہے۔ اس کامطمح نظر بھی یہی تھا وہ اپنے مرکز کے جتنے قریب تر ہو سکے اتنا قریب ہو جائے ۔وہاں تمام موجیں تمام لہریں اسی جستجو میں تھیں اِسی کوشش میںتھیں سو آقا قافاجہاں تک پہنچ سکا وہیں رک گیااس کے اندر اور آگے بڑھنے کی ہمت نہیں تھی اپنی تمام تر شکتیوں کے باوجود وہ کانپ رہا تھا ۔رو رہا تھا نماز کا وقت ہو گیا تھابارگاہ ِ قدوسِ ذوالجلال میں حاضری کی ساعتیں آگئی تھیں ۔قلب و جاں میں ایک عجیب کیفیت تھی رواں رواں خیال و خواب ِ محمد سے لبریز تھا اوروہ اللہ کی بارگاہ میں کھڑا تھا یقینا وہ اس کے کرم کا سزاوار تھا کہ اس کے محبوب کی محبت سے سرشار تھاوہ کائنات کا عظیم ترین رقیب اپنے محبوب سے محبت کرنے والوں کو بھی محبوب رکھتا ہے ۔نماز ادا ہوئی ۔ایک انتہائی سریلی آوازمیں امام ِ مسجد نبوی نے قرآت کی ۔دل میں گداز اور بڑھ گیا۔رگوں میں روشنی دوڑنے لگی۔ رکوع و سجدوں کے بعد ذکرمحمد ہوا، نماز خیال ِ محمد سے معطر ہوئی۔ نماز کے بعد تلاوتِ قرآن حکیم کا آغاز کیا تھا اس نیت کے ساتھ کہ اللہ کا یہ وہ پاکیزہ کلام ہے جو محمد کے برگزیدہ ہونٹوں سے طلوع ہواتھا۔دل و دماغ کاماحول تلاوت ِ قرآن کے بعدکچھ اور روشن ہو گیا تھا۔اس کے بعدآقا قافا نے شکرانے کے نفل پڑھے اور پھر عبادت شروع کردی اس وقت اللہ کی بارگاہ میں حمد وثنا کرتا رہاجب تک حمد وثنا کی اجازت تھی اس کے بعد اس قطار میں لگ گیا وہ قطارجو چشمہ ءکوثر کے باہر لگی ہوئی تھی ۔ وہ قطار جس میں کھڑے ہوئے لوگ ساقی ءکوثر کی طرف جا رہے تھے یعنی روضہ ءرسول کی طرف جاتی ہوئی قطار جہاں دورغے بھی موجود تھے ۔ جالیاں چھو لینے پر شرک کے نعرے بلند کرنے لگتے تھے ۔آقا قافا نے دل نے کہا کہ وہ انہیں کہہ دے کہ اے عقل کے اندھوں تم طاقت کے آگے سر بسجود ہوتے ہو تو شرک نہیں ہوتا ہم چارہ سازِ بیکساں کے مزار کی جالیاں چھو لیں تو مشرک ہو جاتے ہیں ۔آقا قافا کوروضہ ءرسول کے قریب سے گزرنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔اس نے دعا مانگتے ہوئے اپنے ہاتھوں کا رخ روضہ ءرسول کی طرف رکھے اور سپاہی انہیں پکڑ کر ان کا رخ دوسری طرف کرتے رہے یعنی خانہ کعبہ کی سمت موڑ تے رہے آقا قافا نے ان سے پوچھنا چاہا کہ پتھر کے اُس کمرے میں جسے ابراہیم علیہ اسلام نے بنایا تھا وہاں تو خدا موجود ہے لیکن جہاں اس کا محبوب سو رہا ہے، وہاں نہیں ہے مگر کسی غیبی طاقت نے اسے روک دیا۔اچانک آقا قافا کو محسوس ہوا کہ کوئی اس کے پاﺅں سے چمٹ رہا ہے ۔ آقا قافا نے نیچے دیکھا تو وہی بزرگ تھا۔ آقا قافا نے اسے اٹھایا اور اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ”تو نے مجھے تباہ کردیا ۔اس درباراقدس و اعظم میں تو مجھ کو حاجت روا جان رہا ہے ۔افسوس ہے تیری تربیت کرنے والے پر۔“وہ بزرگ بہت لجاکر اور رو کر بولا” میں تو تم سے اس دربار میں اپنی سفارش کرانا چاہتا ہوں۔ “ آقا قافا نے ٹھنڈی سانس لی اور اسے کہا”بابا میں اس قابل نہیں ہوں۔میری اتنی اوقات کہاں ۔ ذاتی طور پر تیری جو مدد کر سکا کر دیتا ہوں ۔“ یہ کہہ کر آقا قافا اسے باہر لے آیا اور پوچھا ”کیا چاہتے ہو“بزرگ بولا ”میں ایک اکلوتے بیٹے کا باپ ہوں اور اسے کینسر ہے ۔ڈاکٹروں نے کہہ دیا ہے کہ چند دن کا مہمان ہے۔“

آقا قافا نے پوچھا ”کہاں ہے تمہارا بیٹا“

لاہور میں “ وہ بولا

اچھا وہاں اپنے کسی عزیز کو فون کردیجئے کہ داتا دربار چلا جائے وہاں سونے کے دروازے کے پاس ایک سبز پوش بیٹھا ہوگا ۔اس کے سامنے آپ کا نام لے ۔تو وہ اسے ایک دوائی دے گا۔وہ دوائی بیٹے کو کھلا دیجئے “اللہ تعالی کرم فرمائے گا۔وہ بزرگ وہیں کھڑا آقا قاقافا کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا ۔ آقا قافا بولے ”جا ئیے جلدی کیجئے “بزرگ جیسے جانے کے لیے مڑا ۔آقا قافا اپنی غار میں آگیا۔ وہاں اس نے ایک دیوار کی طرف ہاتھ کیا تو دیوار الماری کی طرح کھل گئی اس میں کئی چیزیں پڑی تھیں ۔آقا قافا نے ایک پتھر نما سبز رنگ کا خاصا موٹا روڑا اٹھا یا وہ نرم ساتھا ۔آقا قافا نے اسے ذرا سا توڑا پھر الماری سے ایک کاغذ سا اٹھا کر ایک پڑیا سی بنا لی ۔یہ سادھو باباکی دی ہوئی دوائی تھی ۔جسے کچھ دن خود آقا قافا نے استعمال کیا تھا جب وہ جسمانی طور پر بیمار پڑ گیا تھا۔ سادھو بابانے کہا تھا کہ یہ ہر بیماری کا علاج ہے ۔آقا قافا وہاں سے سیدھا داتادربار آیا ۔داتا کے مزار پر پائے اقدس کی طرف سے کھڑکی کو بوسہ دیا اور پھر جاکر سونے کے دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔اسے یاد آیا کہ اس نے بزرگ کو کہا تھا کہ وہاں سبز پوش بیٹھا ہوگا اس نے اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا تو وہ سفید تھے ۔ آقا قافا نے سوچا کہ انہیں سبز ہوجانا چاہئے اور وہ پھر وہ سبز ہوگئے ۔آقا قافا نے کچھ دیر ادھر ادھر دیکھا اور پھر مراقبے میں چلا گیا خاصی دیر کے بعد کسی نے اسے ہاتھ لگایا آقا قافا نے آنکھیں کھولیں تو ایک شخص اسے کہہ رہا تھا مجھے مدنیہ سے فون آیا ہے “آقا قافا نے جیب سے پڑیا نکالی اور اسے دیتے ہوئے کہا ”مریض سے کہنا کہ سات مرتبہ بسم اللہ شریف پڑھے ۔گنبدِخضراکو تصور میں لائے اور یہ کھا لے۔ اللہ نے چاہا تو کرم ہوجائے گا۔“

اُس شخص کے جاتے ہی آقا قافا واپس غار میں آگیا اسی طرح التی پالتی مار کر سوگیا۔آقا قافانے لیٹ کر سونا چھوڑ دیا تھا وہ صرف بیٹھ کر سویا کرتا تھا۔یعنی وہ یوگا کی حالت میں اپنی نیند پوری کرنے پر قادر ہوچکا تھا۔تقریباً ایک گھنٹے بعد اس کی آنکھ کھلی اسے مریض یاد آیا اس نے سوچا کہ دیکھوں بڑے سادھو کی دوائی نے کینسر کے ساتھ کیا ہے ۔اس نے انگلی کھڑکی بنائی اس شخص کا تصور کیا اور یا بصیراً پڑھ کر پھونک دیا کھڑکی میں ایک ہسپتال کے کمرے میں مریض کے ارد گرد تین لوگ کھڑے تھے۔دو ڈاکٹر ہیں اور ایک وہی آدمی ہے جو پڑیا لے گیا تھا۔بیمار بیٹھا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا۔ ”مجھے کسی طرح کی کسی تکلیف کا احساس نہیں ہورہا میں اپنے آپ کو بالکل صحت مند محسوس کر رہا ہوں۔ایک ڈاکٹرنے دوسرے سے کہا ۔سر میں مکمل طور پر چیک کر چکا ہوں یہ اسوقت بالکل نارمل ہے۔میں نے ٹیسٹوں کےلئے خون بھجوادیا ہے ۔ایسا میری زندگی میں تو کبھی نہیں ہوا۔سینئر ڈاکٹر بھی اسے چیک کرنے لگا اور پھردونوں پریشان حال اپنے دفتر میں آگئے انہوں نے دو ڈاکٹر اور بھی بلا لئے ۔ خون کا ریزلٹ کا آگیا ۔آپس کی بحث کے بعد سنیئر ڈاکٹر نے اس شخص سے پوچھاکہ مریض کو کوئی اور دوائی بھی دی تھی تم نے لوگوں نے ”وہ شخص بولا ”جی مٹی تھی تھوڑی سی ایک پڑیا میں ۔داتا دربار پر ایک سبز پوش بزرگ نے مجھے دی تھی ۔وہی صبح کھلائی تھی ۔ڈاکٹر نے پوچھا وہ کاغذ کہاںہے جن میں مٹی تھی اُس شخص نے جیب سے نکال کر ڈاکٹر کویہ کہہ کردیا کہ میں نے اسے تبرک کے طور سنبھال لیا ہے۔ڈاکٹر نے عدسے کی مدد سے اُس کاغذ پر مٹی کے ذرات تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔۔۔؛آقا قافانے اس کھڑکی ختم کردیااسے نور یاد آگئی تھی اس نے نئی کھڑکی کھولی اور نور کو دیکھنے لگا

نور محل مےں کسی بلندجگہ پر کھڑی افسردگی سے دریا میں ڈولتے ہوئے سورج کو دیکھ رہی تھی۔ نارو اس کے قریب آکر کھڑی ہوئی اور بولی

ایک خبر ہے“

نور نے کہا ”یقینا : بری خبر ہوگی اچھی خبر کے آنے کا تو یہاں کوئی راستہ نہیں۔“

سردارقراقرم نے اپنے بیٹے کے لیے تمہارا رشتہ مانگا ہے۔“

یہ خبر بری سے زیادہ حیرت انگیز ہے،سردار قراقرم جیسے معمولی سردار کو یہ جرات کیسے ہوئی‘

ہاں چھوٹی مالکن ہے تویہ سوچنے والی بات۔“

کھوج لگانے کی کوشش کروکہ اس نے اتنی جرات کیسے کر لی۔“

کھوجی تو آپ کے پاس ہے “

آﺅ چلتے ہیں منشی کے پاس “۔

دونوں چلتی ہوئی ایک کمرے میں گئیںجس مےںبے شمار رجسٹر پڑے تھے۔ایک منشی نما آدمی ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھااور رجسٹر پر کچھ لکھ رہا تھا۔ نورکو دیکھ کر فوراًکھڑا ہوگیااور بولا

چھوٹی مالکن ،آپ۔۔ خیریت ہے نا “

سردارقراقرم“

منشی منہ پر انگلی رکھنے کا اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی میں بولا

مجھے معلوم ہے آپ بے فکر رہیں۔دراصل سردارقراقرم کا نواب منور مان سے ٹکراﺅ ہوگیا ہے ۔کیا آپ چاہتی ہیںمیں اس سے بات کروں “

نہیں ،وہ کمزور آدمی ہے۔میں تو صرف یہ معلوم کرنا چاہتی ہو اس نے اتنی جرات کیوں کی ہے “

میں بھی اسی بات پر حیران تھا“

آقا قافا نے ایک اور کھڑکی کھولی اور ناصر کو دیکھا وہ اپنے بنگلہ میں داخل ہورہا تھا

اور پھرآقا قافا نے نور کی کھڑکی میں دیکھانور اپنے کمرے میں واپس پہنچ چکی تھی اور نارو سے کہہ رہی تھی ”پتہ نہیں ناصر کہاں چلا گیا ہے ۔“

آقا قافا نے پھر ناصر کی کھڑکی میں دیکھا تووہ کمپوٹر کے سامنے بیٹھا تھا اور اس کی ڈور بیل بج رہی تھی ناصر نے اٹھ کر دروزہ کھولاسامنے مسٹر کے کے کھڑا تھااس نے کہا

گد ایوننگ مسٹر ناصر“

گڈ ایوننگ مسٹر کے کے۔۔“ناصرنے برا سا منہ بنا کر کہا

سوری آنے سے پہلے فون اس لےے نہیں کیا کہ آپ کہیں ملنے سے انکار نہ کر دیں۔اور یہ بھی جانتا ہوں آپ جیسا خوش ذوق آدمی دروازے پر آئے ہوئے مہمان کو(اور پھر اپنا جملہ خود ہی کاٹتے ہوئے )میں حیران ہوں آپ نے ابھی تک اندر آنے کے لیے نہےں کہا؟“

ناصر نے پورا دروازہ کھول کر بڑے احترام سے ہاتھ کے اشارے سے مسٹر کے کے کو اندر آنے کی دعوت دی۔ مسٹر کے کے اندر داخل ہوا اور ناصرنے دروازہ بند کردیا۔مسٹر کے کے ناصر کے پیچھے چلتے ہوئے کمپوٹر روم میں آگیا اور خود صوفے پر بیٹھ گیا۔ کمپیوٹر سے رنگ ہورہی تھی۔ناصر مسٹر کے کے کو بھول کر تیزی سے کمپیوٹر کی طرف بڑھ گیا مگر کال نہ مل سکی٬ناصر نے تین ٬ چار بار کوشش کی مگر ناکامی نے اسکے چہرے کی جھنجھلاہٹ بڑھا دی۔ مانیٹر پر پھیلی ہوئی نور کی تصویر کو دیکھتے ہوئے ناصر نے ذرا سے تلخ لہجے میں کہا۔

جی فرمائیے“

آپ فارغ ہو لیں۔آپ مصروف ہیں اگر میں غلط نہیں تو آپ پریشان بھی ہیں۔میرا خیال ہے آپ ایک اور کوشش کرلیں٬ ممکن ہے کال مل جائے۔مجھے کوئی جلدی نہیں ۔ آپ کے کسی دوست نے بتایا ہے کہ آج کل آپ کی زندگی میں کسی دور سے آتی ہوئی آواز کا بڑا عمل دخل ہے۔

تھینک یو“

ناصرنے دوبارہ کال ملانے کی ٹرائی کی اور کال مل گئی۔ ناصر بولا

کیا بات ہے آج آپ کافی دیر کال اٹینڈ نہیں کر رہیں؟

میں ذرا پریشان تھی کسی بات پر۔“نور بولی

خیریت تو ہے نا ۔کس چیز نے پریشان کیا ہے“

کوئی نئی چیز نہیں وہی پرانی چیزوہی الجھی ہوئی لکیریں وہی اندھیرے وہی دیواریں ہیں وہی بند دروازے۔بس کبھی کبھی پریشان ہوجاتی ہوں “

مسٹر کے کے صوفے سے اٹھا اور ناصر کے قریب آکر بولا

میں آپ کی پراویسی میں مخل ہو رہا ہوں٬ ایک لفافہ چھوڑ کر جا رہا ہوں٬۔دیکھ لیجئے گا“

وہ ایک لفافہ میز پر رکھ کر کمرے سے نکل گیااور ناصر پیچھے سے بولا

اوکے بائے “

اچانک آقا قافا کووہ لڑکی یاد آئی جو ناصر کو کلب لے گئی تھی۔ آقا قافا نے سوچا کہ وہ لڑکی بھی تو ناصر کی زندگی میں موجود ہے ۔نور اس بات کا بھی پتہ ہونا چاہئے اور پھر اسی لڑکی کو تصور میں لاتے ہوئے آقا قافا نے ایک کھڑکی اور کھول دی ۔

ایک خوبصورت اور بڑا ڈرائنگ روم میں نظر آیاجس میں ارم اور اسکا دادا مسٹر ران موجود تھے۔دادا کہہ رہا تھا

: اٹ از گریٹ سرپرائز“

آپ کے زور دار لافٹر سے تو میں یہ سمجھی

اٹ از ا ے گریٹ جوک“

: لگتا تو مجھے یہ جوک ہی ہے،لیکن اس میں سرپرائز بھی ہے٬ میرے دوست کا فون آیاہے٬ میں نے تمہیں اپنے دوست سردار قراقرم“

ارم نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا

یس گرینڈ ڈیڈ٬ ناٹ ونس بٹ ہنڈرڈ آف ٹائمز لیکن ایک بات سوچتی ہوں ٬ اس رات سردار قراقرم اگر ٹو منٹس لیٹ پہنچتا ٬ تو نہ وہ آپ کی جان بچا سکتا اور نہ آج میں ہوتی

تمہاری ٹو منٹس فلاسفی از آ گریٹ ہومر۔ تمہاری ایڈین گرینی ٹو منٹس لیٹ ہوتی۔(مسٹر ران کا بھرپور قہقہہ)تو تمہارا باپ پیدا نہ ہوتا ، ایک گورا کا کالا بیٹا (اور پھر مسٹر ران کا قہقہہ) اور اگر تمہاری پاکستانی ماں کی فلائٹ ٹو منٹس لیٹ ہو جاتی تو آج ایک کالے انگریز کی گوری بیٹی مرے سامنے کھڑی نہ ہوتی۔(اور پھر دونوں کا بھرپور قہقہہ)

میرا خیال ہے٬میں اپنے دوست کے بیٹے کے ویزے کا بندوبست کردوں کہیں وہ ٹو منٹس لیٹ نہ ہو جائے۔“یہ کہتے ہوئے مسٹر ران اٹھ کھڑا ہوااور بولا” پاسیبلی آنیو ہسٹری از ان دی میکنگ“اور پھر دونوں کے قہقہے بلند ہونے لگے

آقا قافا سردار قراقرم کے نام پرچونک گیا تھا اس نے فوراً ایک نئی کھڑکی کھولی اور نواب منور مان کو دیکھنے لگا۔اسے وہاں نور بھی دکھائی دی ۔آقا قافا کی ساری توجہ ادھر مبذول ہوگئی۔نواب منور مان کے ہاتھ کرسی کے بازﺅوں کو سختی سے پکڑ ے ہوئے تھے اور نور کہہ رہی تھی

میں بابا کی قبر پر جانے کے لیے ایک بار پھر آپ سے اجازت مانگنے آئی ہوں۔‘ نواب منور مان کرسی کے بازﺅوں کوکچھ اور مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا

ایک سوال بار بار کرنے سے اس کا جواب نہیں بدل جاتا“

میں بابا کی قبر پر جانے کی اجازت چاہتی ہوں۔“

میں نے کہہ دیا ہے نا کہ نوابزادہ مصور کے ساتھ چلی جانا۔“ غصے کے ساتھ نواب منور بولا

: اکیلی جانا چاہتی ہوں۔“ نواب منور مان غضبناک نظروں سے نور کی طرف دیکھنے لگااورنور نواب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی

کیا آپ کبھی میرے بابا کی قبر پر گئے ہیں؟“

: دھن کوٹ اسٹیٹ کی تاریخ میں آج تک کسی عورت کو اتنی گستاخی کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔“

بابا کی قبرتک جانے سے اگر دھن کوٹ اسٹیٹ کی تاریخ بدلتی ہے تو اسے بدل دینا چائیے۔“

کیاجاننا چاہتی ہو؟“

میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیا کبھی آپ نے اپنے بڑے بھائی کی قبرپر فاتحہ پڑھی ہے؟“

کھل کر بات کرو کیا جاننا چاہتی ہو؟“

میں مصورکے ساتھ نہیں ، آپکے ساتھ باباکی قبر پر جانا چاہتی ہوں۔“

دھن کوٹ اسٹیٹ کے نواب مرنے کے بعد قبرستان جایا کرتے ہیں“

یہ کہہ نواب غصے کے عالم میں باہر نکلا اورراہداری میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا٬ غصہ سے بھرا ہو ا٬ پاﺅں ایک کمرے میں دا خل ہوا نوابزادہ مصوراور اس کا دوست شطرنج کھیل رہے تھے ۔ دونو ں کھڑے ہو گئے۔ مصور کا دوست نواب منور کا چہرہ دیکھتے ہی جھک کر سلام کرتا ہوباہر نکل گیا۔نواب نے اپنے بیٹے مصور سے کہا

معاملہ میری برداشت سے باہر ہوگیا ہے۔میں او رانتظار نہیں کر سکتا۔“

بابا آپ اسکے باپ کی قبر پر جانے کی اجازت نہیں دیتے اور چاہتے ہیں وہ مرے ساتھ شادی کر لے۔“

وہ تمہارے ساتھ کیوں نہیں باپ کی قبرپر جا سکتی؟“

وہ یہ سمجھتی ہے آپ اس پر اعتماد نہیں کرتے ،آپ کا خیال ہے کہ وہ کہیں فرار ہو جائے گی۔“

تم اسے نہیں جانتے،اس سے کسی بھی بات کی توقع کی جاسکتی ہے۔“

مگر ابھی میں نے دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے“

صرف دروازہ کھلا رکھنے سے کوئی اندرنہیں آ جاتا ٬ میں صرف یہی پوچھنے آیا تھا٬ مجھے اور کتنا انتظار کرنا ہے؟اس کے تیوربہت خراب ہیں اور تم جانتے ہو میرا غصہ اس سے کہیں زیادہ“

آقا قافانے تمام کھڑکیاں ختم کر دیں اور مراقبے میں چلا گیا مگر زیادہ دیر مراقبہ میں نہ رہ سکا کیونکہ کلاس میں جانا تھا اور آقا قافا اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ سادھو بابا کے غار میں تھے ۔کلاس شروع ہوچکی تھی ۔انیس بوڑھوں میں ایک نوجوان طالب علم تھا۔ سادھو بابا کہہ رہا تھا

تم پوچھتے ہو ۔ہندوستان میں ہزاروں سادھو چلم پیتے ہیں ہمارے لئے کیوں ممنوع ہے ۔چلم میں تمباکو یا گانجا ہوتا ہے ۔یا کوئی اور نشہ اور شے ۔یہ تمام چیزیں ارتکازِذہن کےلئے مددگار ثابت ہوتی ہیں۔مگر سچے سادھوکا ارتکاز سہارے کے بغیر ہوتا ہے ۔وہی ارتکازمنزل کی سمت لے کرجاتا ہے جو اپنی لگن سے نمودار ہوتا ہے ۔ہاں تو آج کس موضوع پر بات کی جائے “آقا قافا بولا” سادھو بابا حسن کیا شے ہے “

ہاں تمہارے لئے حسن کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔حسن کی چار اقسام ہیں ۔پہلی چشم و گوش سے متعلق ہے ۔دوسری کا تعلق کردار و عمل سے ہے ۔تیسری خیر اور سچائی سے عبارت ہے ۔چوتھی قسم حسن ِمطلق کے مادی اور غیر مادی ظہورکی سرگزشت ہے۔وہی حسن حقیقی ہے۔وہی جاوداں ہے۔وہی ازل سے پہلے سے ہے اور ابد کے بعد بھی رہے گا ۔حسن کی پہلی تینوں قسمیں اِسی حسن کا پرتو ہیں ۔عکس ہیں ۔“

آقا قافا نے پھر سوال کیا۔کیا توازن اور تناسب حسن کا سبب نہیں ہیں اور اگر ہیں تو پھر کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حسن مطلق توازن اور تناسب رکھتا ہے “

سادھو بابا بولے”تمہیں کس نے کہا بد صورت چیزوں میں توازن اور تناسب نہیں ہوتا۔میرے خیال ہے تمہیں حسن کو سمجھنے کےلئے کچھ اور تصورِاسم اللہ ذات میں گم رہنے کی ضرورت ہے ۔حقیقت میں کارخانہ ءحسن دراصل عکسِ روحِ کائنات ہے اور انسانی روح نے زمین پر آنے پہلے اس کا جیسا جیسا مشاہدہ کیاتھاتو اشیائے ہستی کی کو دیکھ کر کر اسی یاد کے نقش مختلف اانداز سے ابھرنے لگتے ہیں۔“پھر سادھو بابا نے تمام کلاس سے پوچھا ”حسن کے بارے میں کسی نے کچھ بولنا ہے “ایک سادھو بولا ”اجازت ہو تو میں ایک نظم سنا نا چاہتا ہوں

اجازت ہے “

اور پھراس نے نظم شروع کی

حسن بے شکل ہے ۔مگر دیکھنے والی آنکھ کہے تمام شکلیں حسن کی ہیں۔

حسن بے آواز ہے مگر سننے والے کان کہیں تمام آوازیں حسن کی ہیں

حسن کا کوئی موسم نہیں مگر سارے موسم حسن کے ہیں

حسن نہ ظاہر میں ہے نہ باطن میں ۔حسن کا نہ اول ہے نہ آخرہے ۔حسن اک گورکھ دھندہ ہے

ہم حسن سے نہیں مل سکتے جب تک وہ خود نہ چاہے

ہم حسن کا ذکر نہیں کرسکتے ۔وہ خودہماری زبان سے اپنا ذکر کراتا ہے

حسن ایک سفاک ، ہولناک اور خطرناک طاقت ہے

وہ جس وقت چاہے پاﺅں کے نیچے سے زمین کھینچ لے ۔جس وقت چاہے سر سے آسمان اتار لے

حسن کے کروڑ ہا رنگ ہیں۔جو دیکھنے والے کی کیفیت کے ساتھ بدلتے ہیں“

سادھو بابا آقا قافا سے کہنے لگے ”تمہارے خیال میں حسن کیا ہے“آقا قافابولا۔اگر مجھے ذرا سی لمبی بات کرنے کی اجازت دی جائے تو ممکن ہے میں اس کی وضاحت کر سکوں “

اجازت “

ایک انگریز بزرگ نے کئی صدیوں پہلے کہا تھا۔اگر مجھ سے یہ سوال نہ کیاجائے کہ جمالیات کیا ہے تو کہہ سکتا ہوں کہ میں جانتا ہوں جمالیات کیا ہے لیکن اگر مجھ سے یہ سوال کیاجائے تو میں کہوں گا میں نہیں جانتا ۔اس لئے کہ میں جمالیات کی کسی مروجہ تعریف کو نہیں مانتا ۔ میرے نزدیک جمالیات اس تخیل ا ور حقیقت کا حصہ ہے جو عدم سے وجودمیں آتی ہے ۔جو مظاہر سے بھی متعلق ہے اور روحِ مظاہر سے بھی ۔اس حسنِ مطلق کا نام ہے جو فروغ کن کے عمل میں جاری و ساری ہے۔جو دکھائی نہیں دیتا مگر اس کے تاثرسے عالم محسوسات میں لطف و کیف کے فردوس آباد رہتے ہیں ۔وہ جمال صرف جنت میں نہیں دوزخ میں بھی دیکھا جاسکتااس کی جھلک خیر سے ہی نہیں شر کے جھروکے سے بھی دکھائی دے جاتی ہے۔جو احساسات کے دائرے میں بھی ہے اور اس سے باہر بھی۔میرے نزدیک سوال صرف یہی نہیں کہ جمال کا اصل کیا ہے اور انسانی جمالیاتی تجربے یعنی وجدان واحساسِ جمال سے علیحدہ اس کی کیا حقیقت ہے۔نہ مجھے قدیم جمالیات کی اس گفتگو سے کوئی شغف ہے جس میں دواطراف سے جمال کی موضوعیت اور معروضیت کے جملے آپس میں دست و گریباں نظر آتے ہیں اور نہ میں قدیم فلاسفہ جمالیات کی طرح انسانی تجربے کی اہمیت سے صرفِ نظر کر سکتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں جمالی تصورات کی معروضیت کے حصار سے بھی نہیں نکل سکتاکیونکہ میرے خیال میں کوئی تصور کوئی تخیل اپنی اصل میں مجرد نہیں ہوتا۔ہمارے حواسِ خمسہ کی بے بضاعتی اسے مجرد بناتی ہے۔انسانی احساسات کی کج فہمی ایک مسلمہ حیثیت رکھتی ہے حسِ بصارت افق پر زمین و آسمان کے ملنے کی خبر دیتی ہے مگرحقیقت میں دیکھنے والے کو ایک سراب میں مبتلا کر رہی ہوتی ہے۔شاہدِ دیدہ جمال سے جو لطف و کیف اٹھاتا ہے اس کی سچائی پر یقین رکھا ہی نہیں جا سکتااس لئے احساسِ جمال یا جمالیاتی تجربے کی حیثیت بھی کسی طرح فلسفہ جمالیات میں مرکزی قرار نہیں دی جا سکتی ۔یہ وہ مقام ہے جہاں جدید فلسفہ جمالیات کی بنیاد میں بھونچال آنے لگتا ہے۔اصل میں قصہ یہ ہے کہ جرمن فلسفی بام گارٹن (Baum Garten)نے زندگی بھر یہی کوشش کی کہ وہ جمالیات کو ایسی بنیادیں فراہم کر جائے کہ جمالیات کا شمار سائنس میں ہونے لگے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسی کے کام کے بعد جمالیات نے ایک مستقل شعبہ علم کی حیثیت اختیار کی لیکن جمالیات کو سائنس نہیں بنایا جا سکتا جمالیات کافروغ تو اس باطنی کیفیت سے ہو رہا ہے جو نغمہ شعور کے سکوت سے شروع ہوتی ہے ۔اس لئے جمالیاتی تجربے کے نفسیاتی تجزیوں کی تفصیلیں مجھے چڑیا خانے کی حکایات لگتی ہیں ۔میں جمالیات کے باب میں انفرادی ذوق(Taste) کو بھی نہیں مانتاکیونکہ جمالیات تو اجتماعی آنکھ کا ایساغیر مبہم مشاہدہ ہے جسے تجسیم نہیں کیا سکتا ، جس کے خدو خال کا بیان ممکن نہیں

۔تصورِجمال کیلئے کسی تعلیم و تربیت کی ضرورت نہیں اس باب میں شبانی سے کلیمی تک پہنچنے کیلئے کوئی شعیب نہیں چاہئے اور نہ کسی ماحول کی کوئی اہمیت ہے۔جمال دکھائی دے یا نہ دے ،کوئی اس سے لطف و کیف اٹھا سکے یا نہ اٹھا سکے ،کوئی اس کی روشنی اور خوشبوسے واقف ہو یانہ ہو، وہ موجود ہے۔ ایک ازلی سچائی کی طرح ۔وہ ایک جوئے رواں ہے جو ازل سے ابد تک بہتی جا رہی ہے ۔جمال چونکہ ہر شے میں ہو سکتا ہے ۔ وہ جلال میں بھی موجود ہوتاہے ۔دکھ میں بھی دکھائی دیتا ہے ۔آگ سے بھی ابھرنے لگتا ہے ۔موت کے تابوت سے نکل آتا ہے۔ذراتابوت سے نکلتا ہواجمال دیکھئے

موت ملائم ریشم جیسی اور سبک ہے اتنی

جیسے مرغابی کے پر

جیون کاٹھ کباڑ مکاں کا اور دکھوں کا گھر

موت ملائم ریشم جیسی اور سبک ہے اتنی

جیسے خوشبوں کا کھوج

جیون ایک پہاڑ سے بوجھل کون اٹھائے بوجھ

موت ملائم ریشم جیسی اور سبک ہے اتنی

یعنی ہر شے سے جمالیاتی تجربہ نکالا جا سکتاہے اس صورت حال میں جمال کی ہمہ گیریت صرف کائناتوں پر نہیں ان سے باہر بھی جو کچھ ہے اسے بھی اپنے محیط میں لے لیتی ہے ۔تخیل کی پرواز جہاں تک جا سکتی ہے وہاں تک تو جمالیاتی تجربہ ممکن ہے لیکن جمال اس سے آگے بھی موجود ہے جمال کے اول و آخر ہونے کے خیال کا تو ذہن انسانی احاطہ کر سکتا ہے لیکن جہاں دماغ کے کمپیوٹرمیں ڈالی گئی چپس کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں جمال کے وہاں ہونے کا بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ جمال اگر اپنی پوری شان و شوکت اور شکوہ کے ساتھ یہاں موجود ہے تو وہاں کیسے نہیں ہو سکتا۔“

سادھواوما رام بولا ” وہ بات جو سادھو بابا نے چار لفظوں کی تھی تم نے وہی چار سو لفظوں میں کی ہے ۔“اس کے لہجے میں معمول کے مطابق نفرت موجود تھی۔آقا قافا سادھو بابا سے اس کی کئی بار شکایت کرچکا تھا مگر وہ کہتے تھے ،نظر انداز کردیا کرو۔ہم اس کی فطرت نہیں بدل سکتے ۔

سادھو بابا فوراًبولے”مگر اس کی بات زیادہ خوبصورت تھی“اور پھر کلاس اختتام کو پہنچ گئی۔آقا قافا غار میں پہنچاراون اس کے استقبال کےلئے موجود تھا۔ آقا قافا نے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور اپنی چٹان پر التی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔

بیٹھتے ہی اس نے پھر نور کی کھڑکی کھولی۔

شام کی گہری گہری رنگت میں ہوا دھیمے دھیمے بھیرویں کررہی تھی۔ نور اور نارو دریا کے ساتھ چل رہی تھیں۔لہروں کے سرگم بھی ڈوبتے الاپوں جیسے تھے ۔سورج ڈوب چکا تھا۔محل کی لائٹس آن ہوچکی تھیں۔نور نارو پوچھ رہی تھی

نارو کیا تم موت سے ڈرتی ہو؟“

نارو خوف زدہ ہوکر سینے پر ہاتھ رکھ کر بولی

ہائے چھوٹی مالکن؟“اور نور نے کہا

میں موت نہیں ڈرتی مگر آج تمہارا نواب منور مان موت کے ڈر سے ساری رات جاگتا رہے گا۔ مو ت کا خوف سب سے زیادہ قاتلوں کو ہوا کرتا ہے“

چھوٹی مالکن ۔ مجھے توموت سے بہت ڈر لگتا ہے“

نارو میں موت کے قریب کھڑی ہوں لیکن میری ماں نے اس قید خانے مےں میرے لیے ایک کھڑکی کھولی دی تھی۔

کھڑکی کونسی کھڑکی چھوٹی مالکن؟“

کمپوٹر کی کھڑکی ۔ونڈو۔: تمہیں پتہ ہے نارو؟ کمپوٹر نے مجھے کیا کیاسکھا یا ہے؟وہ بڑی زبردست چیز ہے۔ اسی نے مجھے ذہنی طور پر ہر لمحہ چاک و چوبند رہناسکھایا ہے۔ رات کے اندھیرے میں اس محل کی دیواروں اور فصیلوں پر اڑتے ہوئے پرندوں کے پروں کی آواز اس کھڑکی سے مجھے سنائی دیتی ہے۔“

چھوٹی مالکن بڑی بیگم تو اس طرح نہیں سوچتی تھی؟۔

اندر چلتے ہیں“

جی ممکن ہے کھڑکی پر ٹک ٹک ہورہی ہو“وہ دونوں کمرے میں آئیں تو واقعی کمپوٹر پر کال آرہی تھی

نارو بولی”میں نے ٹھیک کہا تھا ناکھڑکی پر دستک ہو رہی ہے۔“

میں ابھی کھڑکی کھولتی ہوں“نور نے ہنستے ہوئے کہا

نور نے جاکر کال ریسو کی ۔دوسری طرف ناصر تھا نور بولی

ہاں ناصر کہو“

میں تم سے ایک مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔“

کھلی ہواﺅں میں اڑنے والا پرندہ مجھ سے مشورہ کرناچاہتا ہے؟ ایک قیدی سے ؟“

میرے ہاتھ میں ایک بلینک چیک ہے ،اسکی قیمت مجھے میچ ہارکر ادا کرنا ہے۔“

اس کا مطلب ہے٬ کہ تمہاری گیند اس مرتبہ سٹیڈیم کی اونچی فصیلوں سے باہر نہیں جائے گی؟“

اور کیا کروں؟“

میں تمہاری جگہ ہوتی تو اس بلینک چیک کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے دینے والے کے منہ پر دی مارتی۔“

مسٹر کے کے لفافے میں بند کر کے چھوڑ گئے تھے ۔میں نے اس وقت دیکھا ہوتا تو فوراً واپس کردیتا “

آقا قافانے فوراً نئی کھڑکی کھولی اور مسٹر کے کے کا تصور کیا ۔

یہ بکی مسٹر کے کے کا آفس تھا ۔مسٹر کے کے ، جمی اور مسٹر پیٹل بیٹھے ہوئے تھے۔دفتر میں مختلف کمپیوٹر اورٹیلی ویژن آن تھے جن کے اوپر مختلف کرکٹ اور فٹبال کے میچ چل رہے تھے ۔مسٹر کے کے ایک بڑی آفس ٹیبل کے پیچھے بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے آٹھ دس فون پڑے تھے۔ اس نے ایک فون ایک کان سی لگا رکھا تھا اوردوسرا فون دوسرے کان سے۔مسٹر پٹیل بولا

مسٹر کے کے تم نے پھر ہاف ملین آف پونڈ کی انوسٹمنٹ کر ا دی ہے؟اور تمہارے ناصر نے ابھی تک بنک سے چیک کیش نہیں کرایا۔“

توقع تو یہی ہے کہ مسٹر ناصر پرانی غلطی نہیں کریں گے۔ ہر شے کی آخرایک قیمت ہوتی ہے۔“

آقا قافا نے دونوں کھڑکیاں بند کردیں ۔اس کی نظر راون پڑی تھی جو غار میں بے چین پھر رہا تھا ۔آقا قافا اٹھا اور اس نے راون کی کمر تھپتھپائی اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ بات ہے۔اچانک راون تیزی ایک طرف لپکا آقا قافا اس سمت ایک سوراخ سے سانپ کو نکلتے دیکھا ۔آقا قافا نے زورسے کہا”راون ٹھہرو“کتا رک گیا ۔آقا قافا آگے بڑھا اک کوبرا ناگ اور آقا قافا آمنے سامنے تھے۔کوبرا پھن پھیلا کر کھڑا ہوگیا مگر آقا قافا کے آگے بڑھتے قدم دیکھ کر پیچھے کی طرف جانے لگا ۔اور پھر غار سے باہر نکل گیا ۔آقا قافا نے اچھی طرح اس سوراخ بند کیا جس سے سانپ بر آمد ہوا تھا ۔اورپھر اونچی آواز میں آیت الکرسی پڑھ پڑھ کر غار میں ہر طرف پھونکیں مارنے لگا ۔اس نے جب پوری غار میں اچھی طرح سے پھونکیں مار لیں توراون چین سے اپنے گدے پر جا بیٹھا۔آقا قافا کے ذہن میں یہ خیال لہرایا کہ مجھے اس غار میں کئی سال ہوگئے مگر آج تک یہاں کوئی سانپ نہیں آیا تھا یہ آج کیا ہوا ہے ۔آقا قافا نے اوما رام کا تصور کیا اور کھڑکی کھولی ۔ اوما اپنی غار میں تنہا نہیں تھا اس کے پاس ایک اورسادھو بھی موجود تھا ۔آقا قافا نے غور کیا تو یہ وہی مونا رام تھا جس نے تیاگ ماڑی میں اس کے ساتھ مقابلہ کیا تھا ”اوما اس سے کہہ رہا تھا

کوبرا پلٹ آیا ہے “

ہاں دیکھ رہا ہوں “

کیا کوئی ایسی صورت نہیں کہ اسے مارے بغیر تمہاری شکتیاں تمہیں واپس مل جائیں “

نہیں ۔۔ اس مسلے کی موت کے بغیر مجھے میری شکتی واپس مل سکتی ہے “

اسے مارنا آسان نہیں ہوگا ۔پتہ نہیں سادھوبابااسے کیا کیا سکھا رہا ہے۔“

اس سے کہیں زیادہ خطرناک میری شکتیاں ہیں۔جو مہا سادھو نے اسے بخش دی ہیں۔میں چاہتاہوں کہ اسے ان شکتیوں کا علم ہونے سے پہلے مار دیا جائے “

یہ تم کیسے کہہ سکتے ہوکہ اسے ان شکتیوں کا ابھی علم نہیں ہوا ہوگا“

وہ ساری شکتیاں منتروں سے ظاہر ہوتی ہیں اور نروار روام نے اسے منتر نہیں سکھائے “

اس نے کتابوں سے خود پڑھ لئے ہیں “

کیا مطلب “

وہ ہندو مت کے متعلق ہم سے زیادہ جانتا ہے “

آقا قافا نے وہ کھڑکی بند کی اورسادھو بابا کے پاس پہنچ گیا۔انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو آقا قافا بولا ”اومارام کے غار میں مونا رام موجود ہے اور دونوں مجھے قتل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ایک کوبرا میرے غار میں پہنچ گیا تھا مگر راون کی بے چینی کی سبب اس سے بچ گیا“

سادھو بابا اٹھا اور کہا ”آﺅ“وہ دونوں اوما رام کے غار میں داخل ہوئے۔سادھو بابا مونارام سے بڑی محبت سے ملے اور کہا

مجھے تمہاری آمد کا سبب معلوم ہوچکا ہے۔آقا قافا تمہیں اپنی شکتیاں واپس دینے کےلئے تیار ہے ۔اسے ان کی کوئی ضرورت نہیں “

مونا رام بولا ” نروار رام شکتیاں دو طرح ہوتی ہیں۔اپنی کوشش اور ہمت حاصل کی ہوئی اور دوسری کسی کی عطا کی ہوئی ۔یہ اپنی مرضی سے مجھے صرف وہ شکتیاں واپس کر سکتا ہے جو اپنی ریاضت سے حاصل کی تھیں ۔تمہیں حیرت ہوگئی کہ میں نے شکتیاں صرف دو دن میں دوبارہ حاصل کرلی ہیں مگر کسی کی عطا کی شکتیاں یہ مجھے خود بھی واپس نہیں کر سکتا وہ صرف اسی صورت میں مجھے مل سکتی ہیں کہ اس کی روح اس کے جسم سے ہمیشہ کے لیے پرواز کرجائے “

سادھو بابا خاموش ہوگئے اوما رام آہستہ آہستہ چلتا ہوا آقا قافا اور سادھو بابا کے پیچھے آکھڑا ہوا۔سادھو بابا بولے ”تم مہا سادھو کو راضی کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ۔“

کی تھی مگر انہوں نے دھتکار دیا“

ہمیں یہاں نہیں آنا چاہئے تھا ۔“سادھو بابا نے یہ جملہ کہا اور تیزی سے اپنا آقا قافا کے پیچھے کیا ۔اوما رام جو خنجر آقا قافا کی پشت میں اتارنا چاہ رہا تھا وہ سادھو بابا کے ہاتھ میں پیوست ہوا۔اوما رام کی طرف بھاگا ۔آقا قافا اس کے پیچھے لپکا مگر سادھو بابا نے قدم نے روک دئیے ”اسے جانے دو“

خنجر زمین پر گر چکا تھا خون سادھو بابا کے ہاتھ سے گر رہا تھا انہوں نے اسی طرح بغیر کسی تاثر کے مونا رام سے کہا ”اب اگر کبھی اس علاقے میں دکھائی دئیے تو تم اپنی موت کے ذمہ دار خود ہوگے“اور پھر آقا قافاسے مخاطب ہوئے ”آﺅ چلیں“تھوڑی دیر بعد وہ دونوں سادھو کی غار میں تھے ۔ سادھو بابانے ایک مرہم اور پٹی آقا قافا کہیں سے نکال کردی آقا قافا نے اچھی طرح ان کے ہاتھ مرہم لگا کر اوپر پٹی باندھ دی ۔سادھو بابا بولے

اب تم جاﺅ “

ایک سوال بابا اوما رام نے مونا رام کا اس قدر ساتھ کیوں دیا “

وہ اسی کا چیلا تھا اسی کی سفارش پر میں نے درس میں اسے شامل کیا تھا“

اور پھر واپس اپنی غار میں آگیا۔رات خاصی ہوچکی تھی ۔

اس کی عبادت کا وقت ہوگیا تھا اس نے وہی جائے نماز بجھائی اور رکوع و سجود میں مصروف ہوگیا۔دو تین گھنٹوں کی عبادت کے بعد اس نے جائے نماز لپیٹ دی اور غار سے باہر نکل آیا ۔برف باری ختم ہوچکی تھی آسمان صاف تھا۔ چاندکی کرنیں برفیلے پہاڑوں پر پھیلی ہوئی تھیں ۔منظر جتنا خوبصورت تھا آقا قافا نے اپنی اندر اتنی اداسی محسوس کی ۔وہ واپس غار میں آیا۔نور کی کھڑکی کھولی کہ دیکھوں وہ آرام سے سو رہی ہے یا نہیں۔

یہاں رات خاصی بھیگی ہوئی تھی۔ تیز ہوائیں چل رہی تھی پردے ہل رہے تھے ۔کھڑکیاں بج رہی تھیں۔سوئی ہوئی نور اٹھ کر کھڑی تھی ۔اسے قدموں کی آواز بھی سنائی دی رہی تھیں ۔اس نے اپنے سرھانے کے نیچے بتیس بور کا خوبصورت سا پستول نکالا اس میں گولیاں چیک کی ۔پھر پستول ہاتھ میں پکڑ کر بڑے دھیان سے کھلی ہوئی کھڑکی کے پاس آئی اسے بند کیاپھر دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔باہرتیز ہوا کے سوا کوئی نہیں تھا۔اس نے دروازہ بند کیا۔وہ دروازہ اور بستر پر آکر بیٹھ گئی ۔شاید اس کے دماغ میں سے یہ الجھن نہیں نکل رہی تھی کہ کھڑکی کیسے کھلی رہ گئی تھی۔

آقا قافا نے نواب منور مان کا تصور کیا اور ایک اور کھڑکی کھولی ۔ نواب میں خواب گاہ میں بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ایک کنیز اس کے پاﺅں دبا رہی تھی۔سٹیٹ کا مینیجر خواب گاہ اندر داخل ہوااور نواب نے کنیز سے کہا

بس اب تم چلی جاﺅ“

کنیز کے نکلتے ہی منیجر بولا

حضور منشی امان علی نے پوچھ گچھ کے دوران خود کشی کر لی ہے۔صرف اتنا معلوم ہو سکا ہے کہ چھوٹی مالکن نے اسے سردار قراقرم کی پاس بھیجا تھا۔

نواب غصہ کے عالم میں اٹھ کھڑا ہوا اور خواب گاہ چلنے لگا۔پھر کچھ سوچنے کے بعد نواب بولا

بلالاﺅ اسے“

حضور آدھی رات ہورہی ہے ۔وہ سوئی ہوئی ہوں گی“

میں نے کہا ہے نا۔”اسے جگاﺅ اور یہاں لے آﺅ

مینیجرکے نکل جانے کے بعدنواب خود کلامی کی

اس سے پہلے کہ کوئی بڑا فتنہ جنم لے ۔ اسے مر جانا چائیے“

آقا قافا نے نور والی کھڑکی پر ذہن مرتکز کیا تو وہاں دستک ہورہی تھی ۔نور اٹھ کر دروازے پہ آئی ۔پستول اس کے ہاتھ میں تھا اس نے پوچھا ”کون ہے “منیجر کی آوازآئی ”جی نواب صاحب نے بلایا ہے آپ کو “

اس وقت ۔اتنی رات گئے “

جی حکم تو یہی ہوا ہے “

اچھامیں آرہی ہوں “

نور نے بڑی چادر اپنے اوپر لپیٹ لی پستول اندر میں چھپ گیا اور پھر دروازہ کھول کر باہر نکلی ۔منیجر پیچھے ہٹ گیا ۔نور چلنے لگی ۔منیجر پیچھے پیچھے بڑے احترام سے چل پڑا۔نور چلتی ہوئی نواب منور مان کی خوابگاہ میںداخل ہوئی نواب کی پشت نور کی طرف تھی۔اور وہ ٹہلنے کے انداز میں آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ نور نے کہا

اتنی رات گئے مجھے بلایا ہے آپ نے۔ خیریت تو ہے“

نواب نے چہرہ موڑ کرکے نور کی طرف دیکھااور پھر آگے بڑھ گیا۔ دو قدم آگے جا کر پھرمڑاور نور کی طرف بڑھنے لگا اس کے چہرے پر غصہ کے تاثرات بہت واضح تھے۔وہ چلتا ہوا نور کے پاس آیا اور نور کی آنکھوں میں تیز نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔

تم نے منشی امان علی کوقراقرم کے پاس بھیجا تھا ؟“

نور اسی طرح نواب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی

ہاں ۔۔۔۔بھیجا تھا۔“

کیوں بھیجا تھا۔۔۔۔کیا واسطہ ہے تمہارا سردارقراقرم سے“

میں یہ جا ننا چا ہتی تھی کہ قراقرم جیسے معمولی سردارنے اپنے بیٹے کے لئے ،نواب انورمان کی بیٹی کا رشتہ مانگنے کی

جرا ت کیوں کی“

صرف یہی جاننا چاہتی تھی“

نہیں میں یہ بھی جاننا چاہتی ہوں وہ اتنی بڑی جرات کے باوجود ابھی تک زندہ کیوں ہے“

اس کی قبر کا چوکھٹا بن چکاہے‘کسی وقت بھی تصویر سجا دی جائے گی۔لیکن یہ بھی تمہیں معلوم ہے دہن کو ٹ اسٹیٹ میں اکثرقبروں کے چو کھٹے بنتے رہتے ہیں۔اپنی تصویر کا خیال رکھو نور “

قبریں تو مجھے بہت اچھی لگتی ہے ،مگر آپ بابا کی قبر پرجا نے ہی نہیں دیتے“

بابا کی قبرکے ذکر پر نواب ذرا سا پیچھے ہٹ گیا اور بھیانک نظروں سے دیکھتا ہوا بولا

تم جا سکتی ہو“‘

بابا کی قبر پریا اپنے کمر ے میں“

ابھی کمرے میں“

نورجیسے ہی کمرے سے نکلی منیجر اندر داخل ہوا ۔نواب نے کہا

منان کو میرے پاس بھیج دو اور تم اب چلے جاو “

منیجر باہر نکلا دروازے پر موجود پہرہ داراور نواب صاحب کے خادم خصوصی سے کہا ”

نواب صاحب بلا رہے ہیں “

منان اندر داخل ہوا ۔ نواب نے سو چتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا اور کہا

آگ سراپا آگ بن چکی ہے تمہاری چھوٹی مالکن منان علی٬ اس سے پہلے کہ وہ دھن کوٹ کے پہاڑوں کو جھلسا دے اس کے لئے زمین میں کوئی ٹھنڈی سی آرام گاہ بنا دو۔باپ کی قبر کے ساتھ

منان نواب کے قدموں بیٹھتا چلا گیا اور ان کے پاوں دابتے ہوئے کہنے لگا‘

حکم کی تعمیل ہوگی سرکار ۔۔۔۔۔مگر وہ اپنے نواب زادہ مصور مان۔۔۔“

وہ ابھی بچہ ہے اور اگر بچے کا ایک کھلونا ٹوٹ جائے تو دوسرا لا دیا جاتا ہے“

جی میں سمجھ گیا سرکار۔۔۔ ٹھیک ہے سرکار۔۔۔۔ سرکار ۔۔۔۔۔ کچھ دوست نما دشمن اس واقعے کو اچھالیں گے بہت“

میں ان باتوں کو تم سے بہتر جانتا ہوں، بس یہ خیال رہے الزام مجھ پر نہیں آنا چاہئے“

حضور کونسا طریقہ مناسب رہے گا “

زہر دے دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ اس نے خود کشی کرلی ہے“

حضور کا کیا خیال ہے۔ اس کام کے لئے یہ وقت مناسب ہے “

وقت تو مناسب نہیں مگر مجھے اس سے خوف آنے لگا ہے۔۔۔۔ اس کے عزائم سے۔۔۔“

حضور ایک نہتی اور کم زور لڑکی کے کیا عزائم ہو سکتے ہیں آپ جس وقت کہیں گے اس کے عزائم اس سے چھین لئے جائیں گے“

تو تمہارا کیا مشورہ ہے کہ ابھی صبر سے کام لیا جائے“

حضور حالات کا اچھی طرح جائزہ لے لیں۔ تمام سرداروں سے ملاقات مکمل کر لیں۔۔اس کے بعد اس کام میں کتنی دیر لگنی ہے“

آقا قافا نور کی کھڑکی میں دیکھتا ہے تو نور اندھیرے میں چلتی ہوئی کہیں جارہی ہوتی ہے۔پھر وہ ایک دروازہ پر دستک دے کرزور سے بولی” نارو“

نارو دروازہ کھول کر باہر نکلی آئی اور پریشانی بولی

آپ اس وقت اور یہاں “

نورنے ا س کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا

منشی امان علی “۔

جی ۔شاید انہیں مار دیا گیا ہے “

نور واپسی کےلئے مڑتے ہوئے بڑے سرد لہجے میں بولی

ظالم مظلوموں کو مار دینے کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں مگر نارو۔ ظالم اور مظلوم میں بہت کم فرق ہوتا ہے ۔وقت کے بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے“۔

پیچھے چلتی ہوئی نارو آہستہ سے بولی ”چھوٹی مالکن ۔۔ ۔وہ آ پکے وفا دا روں کوچن چن کر مار رہے ہیں ۔“

ہاں مجھے خبر ہے۔ مرا وجود ان دنوں قربان گاہ بنا ہوا ہے۔مرے ہر وفا دار کی موت خنجر کی طرح دل میں پیوست ہو رہی ہے۔مگر میں اپنے زخم سنبھال کر رکھنا چاہتی ہوں “۔

چھوٹی مالکن‘ سردار قراقرم سے ملنا اتنا بڑا جرم تو نہیں تھا‘ جس کی سزا موت ہوتی“۔

مجھے لگتا ہے سردار قراقرم کے پاس نواب منور مان کاکوئی راز موجودہے اور تمہارا نواب نہیں چاہتا کہ راز مجھ تک پہنچے“

نارو نے نور کومحل کی عمارت کی چھت پر موجودمحافظ ہاتھ میں دور بین کی طرف متوجہ کیا نور بولی

ہو نہہ۔۔ایک لڑکی سے ڈرا ہوا دھن کو ٹ کا نواب محافظوں کی آنکھ سے مجھے دیکھ رہا ہے۔مری نقل و حرکت کا جائزہ لینے کے لیے محل کی چھت پر ایک دور بین والے کی بھی ڈیوٹی لگادی ہے“۔

نور کے اپنی خواب گاہ میں داخل ہوتے ہی آقا قافا نے ہاتھ کے اشارے سے کھڑکی کو ختم کر دیااور معمول کے مطابق التی پالتی مار تصورِ اسم اللہ ذات میں گم ہوگیا۔

کچھ ایسا ہوا کہ وہ رات بھی تمام ہوگئی پھر اگلا دن بھی گزر گیا اس کے اگلی رات بھی بیت گئی۔صبح ہوئی آقا قافا تصورِ اسم اللہ ذات سے باہر آیا جیسے ہی باہر نکلا آقا قافا کی غارمیں ایک سادھو داخل ہوا۔ایک سادھو نے کہا”اب تم نے کہیں نہیں جانا سادھو بابا تم سے ملنے آرہے ہیں اور پھر بڑا سادھو بھی غار میں داخل ہواآقا قافا نے اٹھ کر استقبال کیا۔ انہوں نے آقا قافا کے قریب آکر پوچھا ”پچھلے دو دن میں کیاتم کسی نئے عمل سے گزرے ہو“ آقا قافا بولا ” نہیں کیوں کیا ہوا ہے “

پچھلے دو دن سے کوئی بھی غار میں داخل نہیں ہوسکا حتی کہ میں نے بھی کوشش کی تھی ،تمہیں یہ سوچنا چاہئے کہ تمہارے علاوہ میں جاندار موجود ہے ۔جسے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ۔“

آقا قافا نے راون کی طرف دیکھا ۔راون اپنے گدے پر بیٹھا تھا۔سادھو کے ساتھ آیا ہوا چیلا اس کے سامنے کھانے کی کوئی چیز رکھ رہا تھا۔آقا قافا نے کہا

میں نے کوئی نیا عمل نہیں کیابابا۔وہی جو آپ نے کہا تھا تصورِ اسم اللہ ذات۔جس کی اجازت حضور سلطان باہو نے عطا فرمائی تھی اس میں گم رہا “

اس کامطلب یہ ہواکہ اس کا دائرہ بڑھ رہا ہے ۔پہلے وہ دائرہ صرف تمہاری ذات کے اردگرد بنتا ہے ۔ اب پورے غار میں اپنی لیپٹ میں لینے لگ گیا ہے “

یقینایہی بات ہے “آقا قافا بولا

بڑے سادھو کے ساتھ جو دو اور سادھو تھے ان میں سے ایک پوچھا”یہ تصورِ اسم اللہ ذات کیا ہے “

آقا فاقا نے بڑے سادھو کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا کہ کیا مجھے جواب دینے کی اجازت ہے یا نہیں ۔بڑے سادھو نے کہا ”ہاں ہاں انہیں بتاﺅ کہ تصورِ اسم اللہ ذات کیا ہے“

آقا قافا بولا ” تصورِ اسم اللہ ذات“دھیان کاوہ عمل ہے جواپنے آغاز سے ہی گیان کے ساتھ جڑاہوا ہے ۔اس میں ضروری ہے کہ سانس کے ساتھ اللہ کے شبدکو دل اور زبان سے مسلسل ادا کرتے رہنااوردھیان کی آنکھ کو اللہ کے پرایسے مرکوز رکھناکہ اپنی ذات کا وجود نہ رہے ۔“

دوسرے سادھو نے پوچھا ”کیا اس کا ذکر مسلمانوں کی الہامی کتاب میں موجود ہے “

آقا قافا بولا ”جی سورة مزمل میں اللہ حکم دیتا ہے کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم (یہ کہتے ہوئے آقا قافاہاتھوں کے دونوں انگھوٹھوں کے ناخنوں کو چوم کر آنکھوں سے لگاتا ہے )اپنے رب کے نام یعنی اسم اللہ کا ذکر کرواور سب سے ٹوٹ کر اسی کی طرف متوجہ ہوجاﺅ “

پہلا سادھو نے بڑے سادھو سے پوچھا”یہ آقا قافا نے اتنا علم کہاں سے حاصل کیا ہے “بڑا سادھو بولا ”پہلے دو سال اس نے صرف کتابیں پڑھی ہیں اور زبانیں سیکھی ہیں ۔“

آقا قافا بولا ” میرے مرشد کا فرمان ہے ”تصور ِ اسم اللہ ذات سے دل اس طرح زندہ ہوجاتا ہے جیسے بارش سے مردہ زمین “

اور پھر سادھوبابا اپنے چیلوں سمیت چلے گئے ۔ آقا قافاکو نور کی یاد آئی اس نے کھڑکی کھولی تو نور ابھی سو رہی تھی ۔اس نے دوسری کھڑکی کھولی اور ناصر کو دیکھا ”وہ گراونڈ میں نٹ پریکٹس کر رہا تھا ۔ آقا قافا کو ارم یاد آئی جس کے دادا نے سردار قراقرم کے بیٹے کا ذکر کیا تھا ۔اس نے ارم کا تصور کرکے کھڑ کی کھولی تو ایئر پورٹ کا منظر تھا۔ارم اور مسٹر ران ‘ ائیر پورٹ پرموجود تھے۔مسافر آرہے تھے۔ارم آگے بڑھ گئی جہاں بہت سے لوگ انہیں رسیو کرنے کے لیے کھڑے تھے‘کچھ لوگوں نے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے ۔ارقم بھی مسا فروں کے درمیان ارم سے بالکل قریب سے گزرگیا ‘ارم نے جو کارڈ اٹھا رکھا تھا اس پر لکھا ہوا ہے ،ویل کم مسٹرارقم‘مگرارقم کے چہرے پر کو تاثر نہیں ابھرا تھا اور وہ چلتا ہوا مسا فروں سے آگے لابی میں ایک جگہ جا کرکھڑا ہوگیاجہاں مسٹرران کھڑا تھا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ اسے رسیو کرنے وا لاکون ہے ۔ اسی وقت مسٹرران ‘ نے ارقم سے کہا)

ہیلو ینگ مین ‘تم یقینا سردارقراقرم کے بیٹے ارقم ہو،مجھے ران کہتے ہیں۔“

اور اسے گلے سے لگا لیااور قہقہہ مار کر بولا

یہ ران انگلش والا ہے اردو والی ران نہیں“

آپ نے مجھے پہچان کیسے لیا“

تم بالکل اپنے ڈیڈی کی ہو بہو کاپی ہو، (قہقہہ) فوٹو سٹیٹ کاپی“

اور پھرارم کی طرف اشارہ کر کے کہا( جس کے ہاتھ میں کارڈ بھی ہے۔)

یہ میری پوتی ارم ران“۔

گڈ مارننگ “۔ارقم بولا

ارم نے ہینڈ شیک کے لیے ہاتھ بڑھایااوربوکھلا کرارم کے ہاتھ کی طرف دیکھنے لگا ۔ جس پرارم کے چہرے پر شرمندگی کا تاثر ابھرامگر مسٹر ران کے بھرپور قہقہہ میں دم توڑ گیا، مسٹر ران قہقہہ لگا کر بولے

ویل ڈن نیگ بوائے،ویل ڈن۔تم ایسٹ کے صحیح نمائندے ہو۔“

گرینڈ ڈیڈ ۔ میں بڑی انسلٹ فیل کر ر ہی ہوں ، یہ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے۔“ارم بولی

ارقم نے عجیب سی نظروں سے ارم کو دیکھا اور اسے سمجھنے کی کوشش کی۔ مسٹرران نے پھر ایک بھر پور قہقہہ لگایا اور کہا

نونو۔ یو آر ٹو منٹس لیٹ۔یہ تو میں یہاں نہ کھڑا ہوتا تو تمہار ی نیو ہسٹری از فنشڈ“اور پھر قہقہہ

گرینڈڈیڈ۔ یہ تو مجھے پاگل لگتا ہے۔ میں ادھر کارڈ اٹھائے کھڑی تھی اور یہ ادھر آگیا ہے۔

معافی چاہتا ہوں، دراصل مجھے انگریزی زبان نہیں آتی۔ارقم بولا۔ارم نے اس بات کرنے کی جائے اپنے دادا سے کہا!

گرینڈ ڈیڈ۔ اسے تو اتنی انگلش بھی نہیں آتی کہ اپنا نام پڑھ سکے ‘ یہ یہاں کیا کرے گا ۔“

ٹو گریٹسٹ آ نیو ہسٹری اف لو“(اور پھر قہقہہ)

اور مسٹر ران سامان والی ٹرالی کو دھکا دینے لگا اور پھر تینوں باہر کی طرف چل پڑے۔

آقا قافانے یہ کھڑکی بھی بند کر دی ۔پھراٹھااور پتھر کی دیوار پر ہاتھ مارا،وہ الماری کی طرح کھل گئی ۔اس میں ایک مٹی کا برتن نکالا اور ایک شیشے کا مرتبان جس میں گہرے سبز رنگ کی کوئی چیز تھی ۔اس کے ساتھ پڑے ہوئے لکڑی کے چھوٹے سے چمچ کو اٹھا لیا ۔ مرتبان اور چمچ اس نے چٹان پر رکھ دئیے اور مٹی کا خالی برتن لے کر وہ غار کے دھانے پر آیا اس مٹی کے برتن میں برف بھری اور اندر اس مٹی کے برتن کو اس پتھر پر رکھ دیا جس سے مسلسل آگ نکلتی رہتی تھی اور غار روشن رہتا تھا۔آقا قافا نے مرتبان کھولا اور اس سبز خوراک کے جو گودے کی طرح تھی چار چمچ کھائے ۔پھر اٹھا اتنی دیر وہ برف پانی بن چکی تھی ۔آقا قافا نے وہ پانی پیا اور پھر تینوں چیز یں واپس الماری رکھ دیں اور پھر چٹان پر التی پالتی مار کر بیٹھ گیا ۔

اس نے پھر نور کا تصور کر کے کھڑکی کھولی۔

نور اپنے کمپیوٹر پر بیٹھی ہوئی ناصر سے گفتگو کررہی تھی

ناصر کی آواز آئی

میں نے اس چیک کے بے شمار ٹکڑے کیے اور پھر انہیں مسٹر کے کے کے منہ پر دے مارا، نور ایسے کرتے ہوئے مجھے بڑا مزا آیا۔“

یہ اختیار کا مزا ہے، اسی مزے کے لیے تو لوگ اقتدار حاصل کرتے ہیں۔“

ایک اختیار کسی چاہنے والی کا بھی اپنے چاہنے والے پر ہوتا ہے۔“

یہ محبت کا جذبہ میری سمجھ سے بھی بالا تر ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی تم سے محبت کرتا ہے۔ تو تم بھی اس سے محبت کرنے لگو،میرے خیال میں لوگوں نے اپنی خواہشوں ،غرضوں اور حسرتوں کا نام محبت رکھا ہوا ہے۔“

بات تو تمہاری ٹھیک ہے مگر محبت وہاں جنم لیتی ہے ، جہاں دونوں طرف سے خواہش ایک ہوجائیں، جب مجھے تمہارے ہاتھوں سچ مچ آﺅٹ ہوجانے پر خوشی ہوئی تھی تویقیناً تمہیں بھی مجھے کیچ کرنے کی خوشی ہوئی ہو گی۔“

تم پھر خوابوں کی دنیا میں چلے گئے ہو،دیکھو ناصرمجھے چلتے پھرتے اور کھیلتے ہوئے خواب دیکھنا اچھا نہیں لگتا“

خواب نہیں، میں بہت جلد وہ چھکا مارنے والا ہوں جو تمہیں اس محل کی اونچی فصیلوں کے اندر سے اڑاتے ہوئے مجھ تک لے آئے گا۔“

آقا قافا نے کھڑکی بند کردی اسے شاید دونوں کے درمیان ایسی گفتگو اچھی نہیں تھی ۔ ذہن ارم کی طرف گیا۔آقا قافا کو اس کا دادا مسٹرران بھی اچھا لگا تھا ۔ارم کا تصور کیا اور کھڑکی کھول دی ۔ ارم اور ارقم کار میں کہیں جا رہے تھے۔ارم ڈرائیونگ کرتے ہوئے بولی۔

کیا تمہارے علاقے میں مرد عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتے؟“

ملاتے ہےں۔“

پھر تم نے مجھ سے ہاتھ کیوں نہیں ملایاتھا؟“ ارم نے پوچھا

میں کسی لڑکی کو اچھی طرح سمجھے اور پرکھے بغیر کس طرح اس سے ہاتھ ملا سکتا ہوں؟“

یہ کیا بات ہوئی؟“

ہمارے علاقہ میں لوگ جس لڑکی سے ایک بار ہاتھ ملا لیتے ہیں پھر اسی لڑکی سے ہاتھ ملاتے ہیں، اور لڑکی بھی ساری زندگی صرف ایک ہی مرد سے ہاتھ ملاتی ہے۔“

تم تو مجھے پاگل بنا کر رکھ دو گے، ہاتھ ملانا کوئی شادی کرنا تھوڑا ہوتا ہے۔“

شادی سے پہلے بھلا لڑکا لڑکی سے کس طرح ہاتھ ملا سکتا ہے۔“

حیرت ہے، یہ جو سسی پنوں، ہیر رانجھا،اور سوہنی مہینوال تھے، انہوں نے ساری زندگی ایک دوسرے سے ہاتھ تک نہیں ملایا تھا۔“

میرا خیال ہے نہیں ملایا ہوگا۔“

ارم نے کسی پارکنگ میں کار روک دی۔ دونوں کار سے اترآئے اور ایک کلب کے دروازے کی طرف چل پڑے ۔ارم نے کہا

یہ وہ جگہ ہے ، جہاں لڑکیاں اور لڑکے شادی سے پہلے ایک دوسرے کو تھام کر رقص کرتے ہیں، کرو گے مرے ساتھ رقص؟“

: تمہارے دادا مسٹرران کواگر پتہ چل گیا تو“۔۔۔۔

انہیں ہم دونوں کے اکٹھے رقص کرنے پر کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا؟۔ہماری تہذیب میں یہ کوئی بری بات نہیں“

کلب کے اندر داخل ہونے سے پہلے پہلے آقا قافا نے یہ کھڑکی بھی بند کردی۔اسے نوابزادہ مصورمان یاد آیا اس نے اس کی طرف دھیان کیا اور کھڑکی کھولی

مصور مان اپنے کتے کے ساتھ جاگنگ کرتا ہوا آرہا تھا۔ وہ ایک خوبصورت سے بینچ پر بیٹھ کر اپنے کتے کی بیٹھ سہلانے لگا نازو آئی اور اس نے کہا

جی چھوٹے نواب “مصور مان بولا

اس پتھر کی چٹان میں کوئی دراڑ پڑی یا نہیں “

میں نے جی بہت سمجھایا ہے کہ آپ اس کے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں مگر وہ کہتی ہیں محبت کرنے والے زبردستی نہیں کرتے۔اگر وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو محبت کا ثبوت فراہم کریں ۔ ممکن ہے میرے دل میں ان کے لیے کوئی جذبہ پیدا ہوجائے “

دنیا میں میں نے صرف دو لوگوں سے محبت کی ہے(اپنے کتے سے پیارا کرتے ہوئے ) ایک یہ میرا پیاراجانی ہے اور دوسری تمہاری چھوٹی مالکن ہے۔دیکھ میں سارا دن اپنے اسی” جانی “ کے ساتھ ہوتا ہوں “

چھوٹے مالک انسان اور کتے میں بڑا فرق ہوتا ہے “

ہوتا ہو گا فرق مجھے تو کچھ خاص نہیں لگتا۔صرف یہی ہے کہ جانی کی زبان صرف میں سمجھتا ہوں اور کوئی نہیں سمجھتا۔لیکن تمہاری مالکن کی زبان تو مجھے بھی سمجھ نہیں آتی۔ کسی اورکو کیا آتی ہوگی“

آپ نواب صاحب سے کہیں نا کہ وہ چھوٹی مالکن پر پابندیاں ختم کردیں “

میرا خیال ہے لان میں گھاس بہت بڑھ گئی ہے ۔اب اسے کاٹنا ہو گا

جی بابا کہا کرتا تھا گھاس بہت بڑھ جائے تو راستے مٹ جاتے ہیں “

آقا قافا نے یہ کھڑکی بھی بند کردی ۔اس کی عبادت کا وقت ہوگیا تھا۔اس نے سوچا کہ کئی دن ہوگئے ہیں میں اپنے مرشد کے دربار نہیں گیا ۔سو اس نے آنکھیں بند کیں اورکھولیں تو وہ سلطان باہو کے دربار کے سامنے کھڑا تھا اس نے سب سے پہلے دربار کے دروازے کی چوکھٹ کو چوما اور پھر اندر داخل ہوا ۔قبر پاﺅں کی جانب سے بوسہ دیا اور پھر دربار سے نکل کر احاطے میں رکوع و سجود میں مصروف ہوگیا۔عبادت کرتے ہوئے جب شام کاوقت ہوا تو ایک شخص نے آکر کہا

آئیے آپ کا انتظار ہورہا ہے “

آقا قافا اس شخص کے پیچھے پیچھے چل پڑا ایک کمرے میں کئی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں کچھ ملنگ تھے ایک دو مجذوب تھے ۔دو آدمی کلین شیو تھے ۔ سامنے دسترخوان بچھا ہوا تھا ۔اس پر کھانا لگا دیا گیا تھا۔ وہ سب آقا قافا سے ملے اور پھر خاموشی سے سب لوگ کھانے کھانے لگے ۔کھانے کھا لینے کے بعد سب لوگ اٹھے اور کمرے سے نکلنے لگے ۔ کمرے سے نکلتے ہوئے ایک کلین شیو آدمی نے آقا قافا کے کان میں کہا ”میں نے کہا ہے کہ آپ نے آقا قافا کو ہندو سادھووں کے پاس کیوں رکھا ہوا اپنے پاس کیوں نہیں بلا لیتے تو انہوں نے کہا ۔وہ ادھورا ہے ۔جب تک وہ مکمل نہیں ہوتا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا “

آقا قافا وہاں سے نکلا تو سیدھا غار میں آگیا۔ اس کے دماغ میں یہ جملہ گونج رہاتھا ”وہ ادھورا ہے ۔“ اس نے پھر آنکھیں بند کیں اور بڑے سادھو کی غار میں پہنچ گیا ۔بڑا سادھو ایک چٹان پرالتی پالتی مار کر بیٹھا تھا ۔سانس نہیں آرہی تھی ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے مہاتما بدھ کا بت رکھا ہوا ہے ۔آقا قافا چٹان کے نیچے بڑے سادھو کے سامنے التی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔کافی دیر خاموشی رہی پھر غار میں بڑے سادھو آواز گونجی مگر ان کے لب نہیں ہلے”کیا بات ہے “آقا قافا بولا

سادھو بابا میں ادھورا ہوں “

کیا یہ بات تیرے اندر سے ابھری ہے “

نہیں کسی نے کہا ہے “

فکر نہ کر تُو جلدی مکمل ہوجائے ۔کچھ عرصہ کے بعد تجھے سات سمندر پارجانا ہے ۔تم نے وہیں مکمل ہونا ہے مگر بابا کی یہ بات یاد رکھنا کہ تیرے لیے ادھورا پن زندگی ہے “

یعنی مجھے مکمل نہیں ہونا چاہئے“

مگرمکمل ہونا تیری قسمت میں لکھا ہواہے ۔“

بابا قسمت بدلی بھی تو جاسکتی ہے۔“

میری یہی اکھشا ہے کہ تُو اتنا اونچا ہوجائے کہ جب چاہے پرت پر لکھے شبد مٹادے“

بابا اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا “

جتنا کچھ میں جانتا تھا اتنا کچھ تُو حاصل کر چکا ہے مگر وہ منزل مجھے دکھائی دیتی ہے لیکن میں اُس کے پاس نہیں جاسکتا“ بھگوان نے چاہا تو تُو ضرور پہنچ جائے گااُس منزل تک “

آقا قافا اٹھ کھڑا ہوا چلتا ہوا غار کے دھانے پر آیا ۔پھر وہاں اپنی غار کے دھانے پر آکر کھڑا ہوگیا۔رات ہو چکی تھی چاندنی آج بھی پھیلی ہوئی تھی ۔برف کی رنگت ہلکی ہلکی سنہری ہورہی تھی ۔وہ اس بات پر حیران تھا کہ اس نے سات سمندر پار جانا ہے اور وہیں مکمل ہونا ہے پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا غار کے اندر اپنی چٹان تک آیا اور سوچنے لگا کہ اس میں کیسا ادھورا پن ہے۔بظاہر تو اسے اپنی ہر شے مکمل دکھائی دیتی تھی ۔ظاہر اور باطن دونوں ۔

اس نے ناصر کا تصور کیا اور کھڑکی کھولی ۔سات سمندر پار کے ایک کسینو کا منظر سامنے آگیا۔ناصریک کسینو میں رولٹ ٹیبل پر کھڑا تھا ۔اسے وہاں مسٹر ران بھی دکھائی دیا ۔ مسٹر ران جیتنے والے ٹوکن اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔مسٹرران کی نظر ناصر پر پڑی تواس نے حیرت سے چونک کر ناصر کو دیکھا اور بولا

مسٹرناصر تم؟ تم بھی؟“ اور پھر ایک بھرپور قہقہہ مارا

مجھے گیمبلنگ کا کوئی شوق نہیں میں تو آپ سے ملنے یہاں آیا تھا۔“

اوکے اوکے

اور مسٹر ران نے اپنے ٹوکن اٹھا ئے اور جیبوں میں بھر لیے پھر دونوں چلتے ہوئے کلب کے اندر ایک صو فے پر آکر بیٹھ گئے اورمسٹر ران نے ناصر سے کہا۔

اچھا ہوا تم مل گئے۔ وہ ارم نے تمہیں ارقم سے ملانا تھا“

ارقم؟“

تم نہیں جانتے ، تمہیں وہ سردار قراقرم کی کہانی سنائی تو تھی میں نے ۔ارقم اسی کا بیٹا ہے۔میری جان بچانے کے صلہ میں اس نے مجھ سے کچھ نہیں لیا تھامگر اب۔ (قہقہہ) وقت بیچارہ، وقت۔ میری مٹھی میں سمٹ آیا ہے،(قہقہہ)“

ناصر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا

میں اسی سردار قراقرم کے سلسلہ میں توآپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔“

کرو“

دراصل مجھے اس کی مدد کی ضرورت ہے

(حیرت سے سوچتے ہوئے سوالیہ انداز میں)اس کی مدد کی ضرورت ہے تمہیں ؟(کچھ وقفہ دے کر)اگر اس کے لیے ممکن ہوا تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔تم کل لنچ پر میرے ہاں آجانا پہلے اس کے بیٹے سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا وہ تمہاری مدد کر بھی سکتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ان پتھروں میں تمہیں کیا کام پڑ گیا ہے “

میری زندگی وہیں کسی پہاڑی چٹان کے نیچے کراہ رہی ہے۔

ایک بھرپور قہقہے کے ساتھ”یہ تو کوئی سنگین معاملہ لگتا ہے۔تم یہاں ہو اور تمہاری زندگی وہاں ہے۔ یہ تو لگتا ہے محبت کی کوئی نئی داستان لکھی جارہی ہے “

آپ تو سمجھتے ہیں کہ محبت کیا ہوتی ہے“

ہاں جانتا ہوں مشرقی محبت رولٹ کی میز ہوتی ہے جہاں کبھی کوئی جیت نہیں جا سکتا“

مسٹرران ہر مشرقی محبت تو ناکام نہیں ہوتی “

مشرق میں محبت میں کامیاب ہونے والے کو عاشق نہیں شوہر کہتے ہیں (ایک بھرپور قہقہ)

مسٹرران آپ نے خود بھی ہندوستانی لڑکی سے شادی کی تھی ۔پھر اپنے بیٹے کی شادی بھی لاہور کی کسی لڑکی کے ساتھ کی اور زیادہ تر آپ کی دوستیاں بھی برصغیر کے لوگوں سے ہیں “

میں نسلاً انگلش ہوں مگر میری روح انگریز نہیں “اور پھر ایک بھرپور قہقہہ

آقا قافا کو کھڑکی میں ممنون نظر آیا جو مسٹر ران سے ہاتھ ملا کر ناصر سے یہ کہتا ہوا آگے نکل گیا ۔”جانا نہیں میں ابھی آرہا ہوں “

آقا قافا نے اپنا دھیان دانیال کی طرف مرکوز کیا اور اسے دوسری سمت جاتے ہوئے دیکھا ۔آقا قافا نے دیکھا کہ ممنون اسی مسٹر کے کے سے ہاتھ ملارہا ہے جس کے چہر ے پر ناصر نے چیک ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینکا تھا

وہ دونوں ایک میز بیٹھ گئے ۔ممنون نے میزپر بیٹھتے ہوئے مسٹر کے کے کے کسی سوال کے جواب میں کہا

ناصرشاید محبت کی کوئی نئی تاریخ لکھ رہا ہے“

ایسا لگتاہے وہ کہیں پاسٹ میں رہ رہا ہے ۔

۔”دراصل پاسٹ اور پریزنٹ کوآپس میں جوڑتے ہوئے ذہنی طور پر الجھ گیا ہے۔“

کیا اُس لڑکی کے بارے میں کچھ پتہ چل سکتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔“

””وہ لڑکی ہزاروںمیل دور کہیں اونچی فصیلوں میں قید ہے اور ان فصیلوں میں اس کے لیے کھلی ہوئی صرف ایک ونڈو ہے اوروہ ہے انٹر نیٹ ۔“

حیرت ہے ‘جس لڑکی کے پاس انٹر نیٹ کی سہولت موجود ہے‘ وہ قید کیسے ہے۔“

آزادی اور قید کے ان معاملات کا تعلق وہاں کے اندھے رواجوں سے ہے۔ ناصر بھی حریت پسندی اور قدامت پرستی کے اسی دوراہے پر کھڑا ایب نارمل ہوتا چلاجارہا ہے ۔“

میرا مسئلہ صرف اس لڑکی تک پہنچنا ہے ۔ کوئی رابطہ کر سکیں گے آپ“اور ممنون نے کہا

کہ آپ کو اس کا ای میل ایڈریس مل جائے گا۔“

آقا قافا کے لیے نور ایک مسئلہ بنتی جارہی تھی وہ دیکھ رہا تھا کہ ہر طرف اسی کا سلسلہ چل رہا ہے ۔آقا قافاکو اس بات کا احساس ہوچکا تھا کہ وہ شدت سے اس کے عشق میں گرفتار ہے ۔ آقا قافا نے سوچا کہ چلیں اس کے چچا کو دیکھیں کہ اس وقت وہ کیا چاہ رہا ہے ۔آقا قافا نے وہ کھڑکی ختم کی اور نواب منور کو دھیان میں رکھ کر نئی کھڑی کھول لی ۔یہاں نواب منور مان کی اپنے مصور مان سے گفتگو چل رہی تھی۔مصور مان اپنے باپ سے کہہ رہا تھا

بابا میں کچھ نہیں جانتا ، آپ نور پر عائد کردہ تمام پابندیاں ا ٹھا لیں

اگر وہ کہیں نکل گئی تو بڑی شرمندگی ہوگی۔ تم جانتے ہو کہ ان دنوں دارالحکومت میں بھی اپنے مراسم بہتر نہیں ہیں“

وہ کہیں نہیں جائے گی“

اگرتمہیں اتنا یقین ہے تو میں تو سوچتا ہوں۔۔۔۔۔اور ہاںوہ یاد آیا کہ پرسوں صبح میری دارالحکومت میں سکریٹری داخلہ کے ساتھ میٹنگ ہے میں نہیں جا سکتا میری جگہ تم چلے جاﺅ ۔کل صبح ہی چلے جاو

بابا آپ فکر نہ کریںمیں کل کسی وقت شام کو نکل جاﺅ ں گا“مگر آپ پابندیاں ختم کردیں

صبح میں خودہی اس کے پاس جاﺅں گا اور بتادو ںگاکہ مصور کے کہنے پرتم پر لگی ہوئی تمام پابندیاں ختم کردی گئی ہیں۔“مصور خوش ہو کر باپ کے کمرے باہر نکلاتونواب منور نے آواز دے اپنے خادم خصوصی منان کو بلا کر کہا

کل جیسے ہی مصور دارالحکومت کے لیے نکلے۔ اس کے بعد کسی بھی کھانے والی شے میں ملا کر نور کو زہر دے دینا“منان کچھ کہنا چاہتا تھا مگرنواب نے ہاتھ سے روک کراسے کہا ”بس یہی فائنل ہے “اور منان خاموشی سے باہر نکل آیا۔

آقا قافا نے سر جھٹکااور نور کی کھڑکی کھولی ۔وہ سو چکی تھی ۔آقا قافا کچھ دیر پریشان رہا اور کھڑکی ختم کردی اور اونچی آواز میں کہا ”سلطان العارفین نور کی حفاظت کرنا “یہ جملہ کہہ کر آقا قافا اس طرح مطمئن ہوگیا ۔جیسے واقعتا نور محفوظ ہوگئی ہو اور گہرے مراقبے میں چلا گیا ۔تقریباً بارہ گھنٹے بعدآقا قافا اپنے مراقبے سے نکلا ۔اس نے فورا کھڑکی کھولی ۔ نور اپنے بیڈ روم میں موجود تھی ۔ آقا قافا نے دوسری کھولی تو مصور مان ایک کار میں سفر کررہا تھا۔وہ ایک پہاڑی سڑک تھی ۔آقا قافا فوراً غار سے نکلا اور اس سڑک پرکار سے کافی آگے پہنچ گیا اور پھر اس نے بڑی سی چٹان کو دھکا کر سڑک پر لڑھکا دیا یہ چٹان اتنی بڑی تھی کہ بیس آدمی مل کر بھی اسے نہ ہلا سکتے ۔ راستہ بند ہوگیا ۔ نوابزادہ مصور مان کی کار وہاں آکر رک گئی ۔ اس کے ڈرائیور نے نیچے اتر کر چٹان کو دیکھا پھر نوابزادہ بھی اتر آیا ۔یہی طے پا یا کہ کرین کے بغیر یہ چٹان نہیں ہٹ سکتی ۔اس نے ڈرائیو رسے کہاواپس چلو اور سوچا کہ بابا نور کو بتا چکے ہونگے کہ تم پر پابندیاں ختم ہوچکی ہیں ۔ چل کر اس سے ملتا ہوں اسے ہٹانے میں دوچار گھنٹے لگ جائیں گے ۔

آقا قافا نے نور کی کھڑکی کی طرف دیکھاتو نارو ہاتھوں میں ایک بڑا تھال لئے اندر داخل ہوئی۔تھال میز پر رکھا ۔اس میں کھانا سجا ہوا تھااس نے رو دینے والی آواز میںکہا

کھانے میں زہر ملا ہوا ہے “

تمہیں کس نے بتایا ہے “

باروچی نے “

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک اور جانثار مجھ پر قربان ہو گیا ہے “

کس چیز میں زہر ہے “

سالن میں “

جاﺅ اور اسے کہو کہ فوراًغائب ہو جائے ۔اس سے پہلے کہ منور مان کے کتے اس تک پہنچ سکیں “

نارو کمرے سے نکلی تو ادھر مصور مان اپنے کتے کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔نور نے تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا

آپ جانتے ہیں میں پسند نہیں کرتی کہ بغیر اجازت کوئی میرے کمرے میں آئے“

دروازہ کھلا ہوا تھاسو جسارت کرلی ۔ معافی چاہتا ہوں “

کہیے کیسے آنا ہوا“

آپ کو یہ بتانا تھا کہ بابانے آپ سے تمام پابندیاں اٹھا لی ہیں “

ہاںمجھے علم ہے کہ انہوں ہر طرح کی قید سے رہائی کا حکم دے دیا ہے میرے لئے “

میں سمجھا نہیں “

چھوڑئیے اس بات کو ۔کھانا کھائیں گے“

مصور مان کے چہرے پر خوشی بکھر بکھر گئی اوراُس نے لہک کر کہا

کھانا اور پھر آپ کے ساتھ۔اسی دن کے تو میں انتظار میں تھا“

نور نے کھانا کا تھال مصورمان کے آگے کردیا اور کہا

لیجئے شروع کیجئے“

مصور مان روٹی کا نوالہ توڑا سالن میں ڈالا اور پھر منہ کی طرف لے جانے لگا تونور مصور مان کا ہاتھ پکڑ لیا

نہیں نہیں ۔ لقمہ نیچے رکھ دو“

مصور مان نے حیرت سے نور کی طرف دیکھا اور لقمہ تھال میں رکھ دیا۔ نور نے سالن سے ایک بوٹی اٹھائی اور مصور کے کتے کی طرف پھینک دی۔مصور نے پوچھا

ٹھیک ہیں نا آپ “

اور پھر اپنے کتے کی طرف دیکھ کر بولا

یہ جانی کیا ہو رہا ہے“شاید کھانے میں زہر ہے۔“

کتے کے منہ سے خون بہتا ہے اور وہ دم توڑ دیتا تھا

کوئی بہت ہی تیزی سے اثر کرنے والا زہر تھا“

مصورمان مکمل طور بات سمجھ چکا ہوتا تھا ۔اس نے خاموشی سے مردہ کتے کو ہاتھوں پر اٹھایا اوریہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا

یہ جو زندگی تم نے مجھے خیرات دی ہے۔یہ کتنی ہولناک ہوگی۔ اس کا اندازہ مجھے ہورہا ہے ۔ کاش میں نے وہ نوالہ کھالیا ہوتا“

آقا قافا نے سوچا کہ اب اس محل سے نور کو نکالنا ضروری ہوگیا ہے اور یہ کام ناصر ہی کرسکتا ہے۔ سو اس نے ناصر کی کھڑکی کھول لی۔ناصر اس وقت مسٹرران کے گھرمیں تھا اورناصر سے مسٹر ران کہہ رہاتھا

یہ مسٹر ارقم ہیں میرے دوست سردار قراقرم کے بیٹے “

تم تو جانتے ہو نگے ۔ یہ کرکٹ کے بہت بڑے کھلاڑی ناصر ہیں ۔“مسٹرران نے ارقم سے کہا

جی میں جانتا ہوں“

ان کا تمہارے باپ سے کوئی کام ہے ۔“

جی ممکن ہوا توابا حضور ضرور کریں گے “

لیکن انہیں کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے“مسٹرران نے ایک بھرپور قہقہے کے ساتھ کہا

جی وہ اس زمانے لوگ ہیں جب لوگ کرکٹ نہیں ”اٹی ڈنڈا “ کھیلا کرتے تھے “

ارقم نے ناصر سے پوچھا”کیاآپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کا کیا کام ہے “

میں نے وہاں سے ایک قیدی لڑکی کو نکلوانا ہے “

قیدی لڑکی ۔۔۔اور ہمارے علاقے میں ۔یہ ممکن نہیں ہم عورتوں کو اغوا کر کے قید نہیں کیا کرتے “

وہ دھن کوٹ کے نواب انور مان کی بیٹی ہے۔ نور اس کا نام ہے ۔ “

ارقم حیرت سے ناصر کو دیکھنے لگا اور پھر بے چینی سے اٹھ کر یہ کہتے ہوئے لیونگ روم سے نکل گیا

نہیں میرے خیال میں اباحضور اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔“

مجھے تو یوں لگا ہے جیسے تم نے مسٹر ارقم کی کسی سلگتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے “مسٹرران بولا

ناصر نے کہا”مجھے بھی حیرت ہوئی ہے ۔ لگتا ہے اس معاملہ سے اس نوجوان کا بھی کوئی گہرا تعلق ہے “

میں کسی وقت اکیلے میں کریدنے کی کوشش کروں گا“

مسٹرران اس کے لیے میں لاکھوں پونڈ بھی خرچ کر سکتا ہوں پلیز میری مدد کریں ۔ کوئی ایسا شخص تلاش کریں جو اس کام کی اہلیت رکھتا ہو“

ایک شخص ہے میری نظر میں ۔ میں اس سے بات کر کے تمہیں بتاﺅں گا“مسٹرران نے کہا

آقا قافا کے لیے بھی ارقم کا رویہ حیرت انگیز تھا ۔ آقا قافا نے اس پر توجہ دی۔ وہ گھرسے باہر سڑک کے کنارے پر ایک بنیچ پر بیٹھا ہوا تھا۔ایک کار اس کے پاس آکر رکی ۔ اس میں سے ارم اتری اور اس نے پوچھا

تم یہاں کیا کر رہے ہو“

ارقم بولا” درختوں سے گرتے ہوئے پتے گن رہا ہوں “

تمہارا چہرہ کہہ رہا ہے کہ تمہیں کوئی پریشانی ہے “

” ”نہیں تو ۔ بس ذراتازہ ہوا کے لیے باہر نکل آیا تھا“

کوئی تو بات ہوئی ہے کہ تمہیں گھر کے اندر گھٹن محسوس ہونے لگی ہے ۔ ہاں یاد آیا وہ ناصر نے آنا تھا“

وہ آکر جا بھی چکا ہے “

آﺅ اندر چلتے ہیں “اور ارقم کار میں بیٹھ گیا

کیا کام تھا ناصر کا “

وہ کسی لڑکی کو اغوا کرانا چاہتا ہے “

ارم نے حیرت سے کہا۔ ”ناصر اغوا کرانا چاہتا ہے۔ نہیںوہ ایسا نہیں ہے یقینا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے“

ہو سکتا ہے مگر بابا اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتے اس سلسلے میں “اورکار پورچ میں پارک ہو چکی تھی۔

آقا قافا کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ نور کے سلسلے میں کیا کرے۔کیسے کرے ۔آقا فاقافا نے پھر مصورمان کا تصور کیا اور کھڑکی کھولی۔نوابزادہ مصور مان دروازے سے کان لگائے کھڑا تھا اس کے اردگرد پہردار بھی موجود تھے ۔وہ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔اس کے کانوں میں منان کی آواز آئی

موت کی خبر پہنچنے ہی والی ہے۔“

نوابزادہ چلا گیا ہے نا ؟“

جی آپ کے حکم کے مطابق ناشتہ میں بھی نشہ آور دوا ملا دی تھی۔ نواب زادہ صاحب گاڑی میں بھی سوتے ہوئے جائیں گے وہاں بھی باورچی کی ڈیوٹی لگادی ہے۔وہ ایک دودن دارالحکومت میں آرام سے سوتے رہیں گے۔

مصور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔نواب منور مان نے اسے دیکھ کر حیرت اور پریشانی سے کہا

تم ۔تم گئے نہیں“مصور بولا۔”باباحضور ! اب جانے کی ضرورت نہیں رہی ۔نشہ آور نیند نے تو میری آنکھیں کھول دی ہیں۔“

کھل کر بات کرو“

نور کے کھانے میں زہر کس کے حکم سے ملایا گیا ؟“

کیا ؟ زہر کھایا ہے اس نے ۔ خود کشی کر لی ہے ؟“

نہیں بابا حضور ۔ وہ ابھی زندہ ہے۔ زہر ملا کھانا نور نے نہیں میرے کتے نے کھالیا ہے اور وہ مر گیا ہے۔

مجھے تمہارے کتے کی موت کا افسوس ہے۔“

بابا نور اور کتے میں بڑا فرق ہے۔ میں نورجہاں سے محبت کرتا ہوں یا نہیں مگر میں اسے زندہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ بابا حضور میں صرف یہ کہنے آیا ہوں ۔ نور کی موت صرف آپ کے اکلوتے بیٹے کی موت نہیں ۔ دھن کوٹ کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔“

یہ کہہ کر مصورمان کمرے سے نکل گیا ۔نواب منور مان نے منان سے پوچھا

نور کو کیسے پتہ چلاکہ کھانے میں زہر ملا ہوا ہے۔“

منان نے کانپتے ہوئے کہا”حضور شایدباورچی نے دیکھ لیا ہو مجھے زہر ملاتے ہوئے۔

باورچی ۔۔۔۔ پکڑ لاﺅ اسے۔“

اور منان تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔آقا قافا نے نور کی کھڑکی میں دیکھا تو مصور مان اندر داخل ہواتھا۔نورنے سوالیہ نظرون سے دیکھتے ہوئے مصور سے کہا

مجھے یقین ہے کہ اب آپ یہ کہنے آئے ہیں کہ کھانے میں زہر ملانے کا حکم آپ کے باپ نے نہیں دیا تھا۔“

نہیں ۔۔ مجھے علم ہو چکا ہے ۔ بابا آپ کی جان کے دشمن ہو گئے ہیں۔ مگر وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔ میں آپ سے وجہ پوچھنے آیا ہوں۔“

وجہ ؟ ۔۔ وجہ صرف تم ہو اور یہ دھن کوٹ کی جاگیر ہے۔“

کیا میں اتنا برا ہوں کہ آپ موت قبول کرنے پر تیا ر ہیں مگر میرے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتی۔“

ہاںکچھ ایسی ہی بات ہے “

مجھ سے اتنی نفرت کی یقیناکوئی وجہ ہوگی آپ کے پاس۔

ہاں وجہ ہے ۔ سننا چاہتے ہیں آپ ؟“

میں تمہاری محبت میں پاگل ہوتا جا رہا ہوں۔تمہیں کیسے یقین دلاﺅں ۔ اپنی محبت کا تجھے ۔کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ اگر تمہاری کوئی شرط ہے تو بتاﺅ۔میں تمہارے لئے کچھ بھی کر سکتا ہوں

کیا اپنے باپ کو قتل کرسکتے ہو“

مصور مان نے حیرت اور پریشانی سے کہا ”یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟کبھی کسی بیٹے نے بھی اپنے باپ کو قتل کیا“

اگر بھائی بھائی کا قتل کرسکتا ہے تو بیٹا باپ کو کیوں نہیں؟“

میں سمجھا نہیں۔“

تمہارے باپ منور مان نے دھن کوٹ اسٹیٹ کے اقتدار کی خاطر اپنی بھائی اور میرے باپ نواب انورمان کا قتل کیاہے۔کیا تم مجھے اور اقتدار دونوں کے لےے میرے باپ کے قاتل کو قتل نہیں کرسکتے؟“

مصور مان یہ فقرہ بے یقینی کے عالم میںسنااس کے چہرے پر کئی رنگ آئے کئی گئے اور پھر وہ خاموشی کے ساتھ کمرے سے نکل گیا

مصورمان نے باپ کو جو دھمکی دی تھی۔اس سے آقا قافا کچھ مطمئن ہوگیا تھا کہ اب کچھ دنوں کےلئے نور کی محفوظ ہوگئی ہے

آقا قافا نے ناصر کی کھڑکی کھولی کہ دیکھو ں وہ کچھ کررہا ہے یا نہیں۔ناصر اپنے دوست ممنون کے ساتھ تھا۔اوراس سے کہہ رہا تھا ۔

لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں‘ کیا کسی نے دیکھا ہے خدا کو۔ میں نے تو نور کو دیکھا ہے۔ اس سے گفتگو کی ہے“

پتہ نہیں یہ نور تمہارے کمپیوٹر میں کہاں سے درآئی ہے“۔ممنون بولا

میں تو صرف اتنا جانتا ہوںکہ اُس نے خوابوں میں کہیں مجھے کہا میں آگئی ہوں۔ محبت کی ایک نئی بنیاد رکھنے کے لیے

حیرت ہے تم پر‘ تم نے بیسویں صدی میں یورپ میں جنم لیا ہے‘ مگر تمہارا محبت کافلسفہ سن کر لگتا ہے‘ جسے تم قبل مسیح کے زمانے میں جی رہے ہو‘ شاید محبت کا یہ فلسفہ اس سے بھی پرانا ہو۔“ممنون نے کہا

کار رکی‘ دونوں اترے ناصر نے کار کا دروازہ لاک کرتے ہوئے کہا

محبت نہ تو قدیم ہوتی ہے‘ اور نہ جدید۔“

تو پھر کیا ہوتی ہے؟“

بنگلو کے دروازے کا لاک کھولتے ہوئے ناصر نے کہا

محبت تو ایسی کیفیت کا نام ہے ۔ جو ہوا کی طرح ازل سے سفر میں ہے۔“

دونوں اندر داخل ہوئے ‘ ممنون بولا

تم سچ مچ ایب نارمل ہوتے جارہے ہو‘ ‘

کمپیوٹر پر رنگ آرہی تھی، ناصر یہ کہتے ہوئے کمپوٹر کی طرف لپکا

وہ مجھے محبت پکار رہی ہے۔“

ہیلو نور

ہاں ناصر ‘ کیسے ہو؟

مجھ سے نہ پوچھو ‘ ہجر کے قصے ‘ اپنی کہو ‘ تم کیسی ہو؟“

تمہاری کوششیں کہاں تک پہنچیں؟

میں نے مسٹر جوزف کو تمہارا تیار کردہ پلان دے دیا ہے‘ وہ بہت پر امید ہے‘ ایک ذرا سا مسئلہ ہے‘ ہو جائے گا حل وہ بھی“

کیسا مسئلہ ہے؟“

بس تم اسے رہنے دو۔“

نہیں مجھے بتاﺅ۔“

: کوئی مسئلہ نہیں۔“

تم تو بہت غصہ والی ہو‘ اللہ خیر کرے‘ ‘

مسئلہ بتاﺅ“

: اس سلسلے میں مسٹر جوزف کودو لاکھ پو نڈ ادا کرنے ہیں ‘ ہو جائے گا بندوبست‘ پریشان نہیں ہونا۔ تم دھن کوٹ میں رہتی ہو‘ مگر میں جہاںہوں ‘ یہ اصلی دھن کوٹ ہے۔ یہاں زندگی پونڈز یعنی دھن کی گردش سے شروع ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔

دو لاکھ پونڈ کے بندوبست کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟“

تقریبا ایک ہفتہ۔“

نہیں ناصر‘ میں یہاں ایک ہفتہ زندہ نہیں رہ سکتی“

کیا کہہ رہی ہو؟“ناصر نے حیرت اور پریشانی سے کہا

تمہیں میں نے نہیں بتایا مجھے زہر دینے کی کوشش کی گئی ہے‘ جو اللہ کرم سے ناکام ہوگئی‘ مگر دشمن کچھ بھی کر سکتا ہے۔“

: تم حوصلے کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش کرو ‘ یاد رکھنا نور ‘ تم نے ہر حال میں زندہ رہنا ہے‘ مےں جا رہاہوں مسٹر جوزف کی طرف۔

ناصراٹھا اورممنون کو کہا” تم بیٹھو میں آرہاہوں“کار اسٹارٹ کی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ مسٹر جوزف کے پاس موجود تھا۔ناصرنے اسے بتایا کہ صورت حال بہت نازک ہے ۔ مجھے فوری طور پر نورکو وہاں سے نکالنا ہے۔ میں نے اپنی ایک پراپرٹی فروخت کر دی ہے مگر اس کی رقم مجھے ایک ہفتے کے بعد ملے گی۔مگر مسٹر جوزف نے انکار کردیاکہ یہ رقم پہلے وصول کئے بغیر نہیں ہوسکتا۔آپ جا سکتے ہیں۔ پریشان حال ناصرکمرے سے نکلااور واپس اپنے گھر آگیا اورممنون سے کہنے لگا۔

مجھے کل صبح دو لاکھ پونڈز ضرورت ہیں۔کسی قیمت پر بھی “

اور بیل بجی ۔ ناصر نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو باہر مسٹر کے کے کھڑا تھااس نے ناصر سے کہا

مجھے مسٹر جوزف نے بھیجا ہے کہ تمہیں میری مدد کی ضرورت ہے “

ناصر کچھ دیر اسے دیکھتا رہااور بولا

ڈیل منظور ہے‘ مجھے نور چاہئےے۔ زندہ نور ۔“

مسٹر ناصر‘ آپ کی تمام پریشانیاں دورہو جائیں گی ۔آپ کی نور ‘ دو دن کے بعد آپ کے پاس ہوگی۔ میچ ختم ہونے سے پہلے پہلے ۔وہ آپ کی نظروںکے سامنے ہوگی‘ یہ میرا وعدہ ہے‘ بلکہ آپ کے آﺅٹ ہونے سے پہلے۔آپ مسٹر جوزف سے کنفرم کر سکتے ہیں۔“اور مسٹر کے کے وہیں کھڑے کھڑے ناصر سے ہاتھ ملایا اور چلا گیا۔

ناصر لیونگ روم میں آیا تو ممنون نے پوچھا ”کون تھا “

ناصر ہنس پڑا اور اس نے کہا ”نور تھی“

ممنون اٹھتے ہوئے

مجھے لگتا ہے تمہاری ذہنی حالت خاصی خراب ہوگئی ہے ۔“میں جارہا ہوں “ناصر نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی اور دروازہ بند ہوتے ہی مسٹر جوزف سے فون ملانے لگا۔

ہیلو میں ناصر بول رہا ہوں ۔میرے مسٹر کے کے کے ساتھ معاملات طے ہوگئے ہیں“

ادھر سے آواز آئی ”ایک گھنٹے کے بعد تمہیں فائنل پلان بھیج دیا جائے گا“

کتنی جلدی ہوسکے “

مسٹر ناصر صرف دو دن “

آج کے دن کے ساتھ دو دن “

نہیں مسٹر اب تو شام ہونے والی ہے “

ناصر فون بند کر کے کمپیوٹر کی طرف آیا اور نور سے سکائپ پر کال ملائی

ہیلو نور“

ہاںکیا ہوا؟“

تم دو دن کے بعد یہاں پر پہنچ جاﺅ گی۔“

ترسوں ٹھیک آٹھ بجے اگر ہیلی کاپٹر محل کی چھت پر پہنچ جائے‘ تومیں وہاں موجود ہو سکتی ہوں۔“

اس پروگرام میں کوئی تبدیلی ہوئی تو میں تمہیں بتا دوں گا۔ انشاءاللہ سب کچھ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہو جائے گا۔جیسے فائنل پروگرام کی تفصیل مجھے ملے گی میں وہی ای میل تمہیں فاروڈ کر دوں گا“

میں ای میل کا انتظار کر رہی ہوں اوکے ناصر“

او کے نور“

نور اٹھی اس نے پستول بھی آج کل ہاتھ میں رکھنا شروع کردیا تھا ۔ اس نے چادر لپیٹ لی تاکہ پستول دکھائی نہ دے دروازہ کھول کر باہر نکلی تو باہرمصور مان کھڑا تھا نور نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا ۔نورکے چہرے پر اس وقت کسی طرح کا کوئی تاثر موجود نہیں تھا۔ چند لمحے خاموشی رہی اور پھر نور نے کہا ”

یہاں کیوں کھڑے ہو “

میری مرضی “

نور ہنس پڑی اور بولی ” تم میری حفاظت کے لیے یہاں کھڑے ہو ۔مگر میں ابھی اپنی حفاطت خود کر سکتی ہوں۔باقی اپنی شرط میں نے تمہیں بتادی ہے“

: نہیں‘مجھ میں اتنی ہمت نہیں‘ کہ میں اپنے باپ کو قتل کر سکوں،نور“

چھوٹی چھوٹی ہمدردیاں مجھے بھی نہیں چاہئیں“

نور میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا بہت بری چیز ہے ۔بہت ناپاک ہے۔آﺅ اس ظالم دنیا سے ۔کہیں بہت دور چلے جائیں ‘ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے‘ بھاگ جاتے ہیں دھن کوٹ سے۔“

میں آپ کی اس آفر پر بھی غور کروں گی مگر جب تک میںتجھے بلاﺅں نہ۔۔ اس وقت تک یہاں مت آنا“

مصور کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔وہ پیچھے مڑااور ایک طرف چلا دیا۔نور شاید کہیں جانے کے لیے باہر نکلی تھی مگر اس نے اپنا ارادہ تبدیل کردیا اور واپس کمرے میں چلی گئی ۔

آقا قافا نے سو چا کہ مصور کے باپ کو دیکھا جائے کہ وہ اب کیا سوچ رہا ہے ۔کھڑکی کھولی تو وہاں بہت بزرگ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص کہہ رہا تھا

نواب صاحب‘ اس وقت حاضر ہونے کی وجہ وہ افواہیں ہیں‘ جن کی وجہ سے آپ کی شخصیت بہت متاثر ہو رہی ہے۔“

میں سمجھا نہیں۔#´“

ایک بزرگ نے کہا

سنا ہے نواب انور مان کی بیٹی کو کسی نے زہر دینے کی کوشش کی ہے؟“

ہاں یہ وقوعہ ہوا ہے اور مجرم فرار ہو گیا ہے‘ اس لیے یہ علم نہیں ہو سکا کہ سازش کے پیچھے کون بد بخت ہے؟“

اور بزرگ بولا”:دھن کوٹ کے لوگ اور تمام سردار چھوٹی مالکن کے حوالے سے بہت پریشان ہےں۔ وہ آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ انکی مرضی کے بغیر کوئی بات ان پر زبردستی مسلط نہیں کریں گے۔“

یہ آپ کیسی باتیں کرنے لگے ہیں؟ ‘ وہ مرے بھائی کی بیٹی ہے ۔‘ میری عزت ہے‘ اور یہ مرے گھر کا معاملہ ہے۔“

نواب صاحب ہم بھی اسی گھر کے فردہیں‘ اب دھن کوٹ ایک گھر ہی تو ہے ‘ آپ ہمارے سربراہ ہیں‘ مگرکچھ حیثیت ہماری بھی ہے۔مصورمان ہمارا بھی بیٹا ہے‘ مگر زبردستی۔۔ ٹھیک نہیں ہوتی۔“

ایک اور بزرگ جو مسلسل خاموش تھا اس نے کہا۔” آپ ہماری درخواست سمجھ گئے ہونگے‘ ہمیں اب اجازت دیں۔“

وہ سب اٹھے نواب صاحب انہیں باہر تک الوداع کہنے آئے۔جیسے ہی وہ گاڑیوں میں بیٹھے تو نواب صاحب نے ملازم سے پوچھا ۔”مصور کہاں ہے “

: شکار گاہ کی طرف گیا ہے جی “

اس وقت “

جی ابھی یہی کہہ کر نکلا ہے ۔گھوڑے پر گیا ہے جی“

اچھا جیپ نکالو ۔وہیں چل کر اس سے بات کرتے ہیں “

نواب جیپ خود ڈرائیو کرتا ہوا شکارگاہ میں اپنے لکڑی کے کاٹج کے باہر پہنچا تو مصور مان جیپ کی آواز سن کر باہر نکلا

نواب منور نے جیپ سے اترتے ہی مصور سے کہا

میں نے تو تم سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہوئی ہیں بیٹے‘ تم ایک لڑکی کے لئے سب کچھ بربادکرنے پر تلے ہوئے ہو؟ پتہ ہے آج سردار وزیر خان اور ابراہیم خان آئے تھے‘ اور مجھے دھمکی دے کر گئے ہےں کہ نواب انور مان کی بیٹی کوکچھ ہوا تو ہمارے مجرم آپ ہونگے۔

ہونہہ“

نورکا معاملہ بہت خراب ہو گیا ہے‘ اب ہمیں نور کو ہر صورت میں شادی کے لیے رضا مند کرنا ہوگا۔“

یہ ممکن نہیں بابا حضور۔

نواب منور تیز لہجے میں بولے ” کیوں ممکن نہیں؟

ایک بیٹی اپنے باپ کے قاتل کے بیٹے سے کس طرح شادی کر سکتی ہے؟“

کیا بکواس کررہے ہو؟“

آپ کے بھائی نواب انور مان کا قاتل کون ہے؟“

تمہیں کس نے کہا ہے کہ اس کا قاتل میں ہوں؟“

آپ کے رویے نے ‘ آپ نے آج تک چچا حضور کے قتل کے سلسلہ میں کوئی اقدام نہیں کیا‘ حتی کہ قاتلوں کی تلاش کے لئے بھی حکم جاری نہیں کیا؟“

نہیں‘ صرف یہ بات نہیں‘ تمہیں کیا کہا ہے کسی نے؟‘ تمہیں بتانا ہوگا مجھے ‘ ۔۔کیا نور نے کہا ہے؟“

مصور خاموش رہا۔نواب منور نے خود کلامی سی کی ”اب اسے زندہ نہیں چھوڑ ا جا سکتا‘ اب یہ ناگن کسی لمحے بھی ڈس سکتی ہے۔“

اس نے جیپ واپس موڑی‘ اور مصور مان اپنے گھوڑا کی طرف لپکا۔تھوڑی دیر بعد گھوڑاجیپ کے پیچھے تیزی سی دوڑرہا تھا۔نواب منور اپنے کمرے میں چلا گیااور مصور مان نے نور کے دروازے پر دستک دی ۔نور نے پوچھا ”کون “مصور نے کہا ” تمہاری زندگی خطرے میں ہے‘ کسی وقت بھی کوئی گولی آپ کو چاٹ سکتی ہے۔ جب تک میں نہ کہوں نہ دروازہ کھولنا ہے اور نہ باہر نکلنا ہے “

یہ کہہ کر ناصر تیزی سے منیجر کے دفتر میں داخل ہوا۔منیجر اٹھ کھڑا ہوا ۔ مصور نے کہا ”منان کو بلاﺅ ۔منیجر باہر نکل گیا ۔ مصور مان کمرے میں بے چینی سے ٹہلنے لگا۔ منیجر منان کے ساتھ اندر داخل ہوا۔مصور مان نے کہا ”میری بات کان کھول سن لو۔میرے بوڑھے باپ نے نجانے کتنے دن اور زندہ رہنا ہے‘ مگر اس کے بعد اس اسٹیٹ کا وارث مےںہوں ‘ تم یہ جانتے ہو؟

منیجرنے کہا ”چھوٹے سرکار‘ کوئی غلطی ہوگئی؟

بولومت‘ میری بات سنواور اسے قرآن کا حرف سمجھواگر نور کو کچھ ہو گیا تو تم دونوںکو میں اپنے ہاتھ سے قتل کردوں گا‘ اور اس کی خبر بابا حضور تک نہیں پہنچنی چاہیے۔منان مجھے علم ہے کہ نور کے کھانے میں زہر تم نے ملایا تھا۔میں کچھ نہیںجانتا ۔بس اتنا یاد رکھناکہ نور کی موت تم دونوں کی موت ہوگی“

یہ کہہ کر مصور مان کمرے سے نکل گیا

آقا قافا نے نواب منور کی کھڑکی کھولی کہ وہ کیا کرنے لگا ہے ۔نواب منور ایک شخص سے کہہ رہا تھا

میں کوئی رسک نہیں سکتا‘ اسکی لاش یوں غائب ہوجانی چاہیے جیسے دنیا میں موجود ہی نہیں تھی‘ خون کا کوئی داغ کوئی دھبہ نظر نہیں آنا چائےےے۔ اگر کوئی سراغ رہ گیا تو پھر لوگ میری اس کہانی پر یقین نہیں کریں گے کہ نور محل سے فرار ہو گئی ہے۔

حضور اگر اتنی احتیاط کا معاملہ ہے تو پھر آج رات اس کے لیے موزوں نہیںہے۔“

کیوں؟

حضور: پوری پلاننگ کرنی پَڑے گی۔کم ازکم مجھے کمرے سے خون صاف کرنے کے لئے اور لاش غائب کرنے کے لئے دو آدمی بھی چاہیئں۔قابل اعتماد آدمی۔“

وہ بھی تمہیں مل جائیں گے۔“

: حضور میں پوری طرح مطمئن ہو کر واردات کرنا چاہتا ہوں ۔ محل میں چھوٹی مالکن کے بہت وفادار موجود ہےں۔

چلو کوئی بات نہیں‘ ایک رات اور سہی ‘یہ سچ ہے جو جتنی زندگی لے کر آتا ہے‘ دنیا مےں اتنی ہی گزار کر جاتا ہے۔“

آقا قافا واپس اپنی غار میں آگیا۔کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر اپنی غار سے نکل کر بڑے سادھو کے غار کی طرف گیا ۔بڑا سادھو کے باہر موجود تھا آقا قافا نے کہا

وہ جس لڑکی کا میں نے ذکر کیا تھا اس کی زندگی میں خطرے میں ہے ۔ میں معاملات میں مداخلت کی اجازت مانگتے آیا ہوں “

نہیں۔تم صرف اسے دیکھ سکتے ہو ۔ اسے کوئی چیز کوئی پیغام بھیج سکتے ہو۔اس سے زیادہ آگے جانے کی تمہیں قطعاً اجازت نہیں دی جاسکتی“

بابا میں بہت مجبور ہوں “

سادھو بابا چند لمحے سوچتے رہے اور پھر بولے ۔”لڑکی کو کچھ نہیں ہوگا ۔یہ میرا تمہارے ساتھ وعدہ ہے “

آقا قافا وہاں سے بھی مطمئن ہوکر واپس آگیا ویسے اسے یہ بھی معلوم تھا کہ نور پرقاتلانہ حملہ کل رات کیا جائے گا ۔اس نے سوچا کہ پیر و مرشد کے دربار پر حاضری دی جائے ۔آقا قافا وہیں سے سلطان باہو کے دربارپر آگیا۔چونکہ رات کے وقت مزار شریف بند کر دیتے ہیں اس لئے وہ مزار کے دروازے کے سامنے ہی بیٹھ کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگیا۔کوئی تین چار گھنٹے گزرے ہونگے آقا قافا کے جی میں آیا کہ کچھ کھایا جائے۔آقا قافا فوراً اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا اور مراقبے میں چلا گیا ۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ کسی نے اس کا کندھا پکڑ کر ہلایا اور بڑی تلخی سے کہا”تُو رات کو کھانا نہیں مانگ سکتا تھا ۔ مجھے سوئے اٹھا یا گیا ہے۔“آقا قافانے کہا ” بھیا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے ۔ میں نے نہیں مانگا کھانا “ اس نے بڑ بڑاتے ہوئے اور بازو سے پکڑ کر زبردستی اٹھاتے ہوئے کہا ”چل اٹھ ۔تو نے نہیں مانگا کھانا ۔مجھے خواب میں باقاعدہ تیرا چہرہ دکھایا ہے کہ اسے جاکر کھانا کھلاﺅ“ خواب کا ذکر سُن کر آقا قافا خاموشی اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔وہ اسے ایک کمرے میں لے گیا جہاں باقاعدہ کھانا لگاہوا تھا ۔آقا قافا نے وہاں بیٹھ کر خاموشی سے کھا لیا ۔ اٹھ کر جب باہر جانے لگا تو اسے احساس ہوا کہ اس آدمی نے جاتے ہوئے باہر سے کنڈی لگادی ہے۔ آقا قافا نے اندر سے دستک دی تو وہی آدمی باہر بولا ”اب اسی کمرے میں سو جاﺅ “مجھے پیر صاحب کا حکم ہے کہ جب بھی تم نظر آﺅ تمہیں جانے نہ دیا جائے۔اب تم صبح ہی یہاں سے نکل سکتے ہو ۔پیر صاحب کی آمد کے بعد “آقا قافا بولا ”تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے “میں پیر صاحب کو نہیں جانتا اور وہ بھی مجھے نہیں جانتے۔انہوں نے تمہیں کسی اور آدمی کے بارے کہا ہوگا “وہ بولا ”تمہیں یہاں سب جانتے ہیں ۔تمہارے اچانک غائب ہوجانے کی وجہ سے ۔کسی کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ تم کہاں سے اچانک دربار پر آجاتے ہو اور پھر اچانک غائب ہوجاتے ہو۔اسی لیے پیرفرقان صاحب نے یہ حکم دیا ہے کہ جیسے ہی تم نظر آﺅ تمہیں ان سے ملایا جائے ۔اس وقت وہ سو رہے ہیں ۔اس لئے اب صبح تک تم بھی سو جاﺅ“

آقا قافا بولا۔” اچھا۔ ٹھیک ہے میں پیر صاحب سے صبح ضرور ملوں گا ۔خدا حافظ “آقا قافا نے اندر سے کنڈی لگائی اور واپس اپنی غار میں آگیا۔کچھ دیر آرام کیا ۔صبح کی نماز وقت جاگا ۔ نماز سلطان باہو کے دربار با جماعت پڑھی اور پھر اسی کمرے میں آگیا جس میں بند کیا گیا تھا۔ کنڈی کھول دی اور درود شریف پڑھنا شروع کریا ۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی ۔پیر صاحب نے دروازہ کھولا ان کے پیچھے مریدوں کا ہجوم بھی تھا ۔آقاقافا اٹھ کر کھڑا ہو گیااس نے پیر صاحب سے بڑی عزت کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ پیر صاحب نے بھی بڑے احترام سے کہا ”تشریف رکھیں ۔“

اور آقا قافا کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا ”میں نے سوچا آج ناشتہ آپ کے ساتھ کیا جائے “

ان کے مریدین بھی آکر ادھر ادھر بیٹھ گئے ۔پیر صاحب کچھ دیر خاموش رہے کہ شاید آقا قافا کوئی بات کہے اور پھر کہا ”آپ ابھی آئے ہیں اس کمرے میں ۔میں صبح کی نماز سے پہلے یہاں آیا تھامگر یہ خالی تھا ۔پھر پچھلی دیوار میں الماری کے ساتھ ایک چھوٹے دروازے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ”میں اس طرف سے آیا تھا۔اس دروازے کی اندر سے کنڈی ہے ہی نہیں کہ کوئی لگا سکے “

آقا قافا نے اندازہ کرلیا تھاکہ پوری پھنس گیا ہوں ۔پیر صاحب اس کے بارے میں بہت کچھ جان چکے ہیں۔وہ خاموش رہا ۔پیر صاحب نے کہا ”آپ بولتے کیوں نہیں“

آقا قافا نے کہا ”جی بس ناشتہ کا انتظار کررہا ہوں “پیر صاحب نے پوچھا ”یہ روحانی مقام تمہیں کیسے ملا “آقا قافابولا ”جی میں سگِ سلطان باہو ہوں “پیر صاحب نے مریدوں سے کہا ”تم سب باہر جاﺅ اور دروازہ بند کردو“ جب تمام مریدین باہر نکل گئے تو پیر صاحب بولے ”کچھ کرم نوازی اِس غریب پر بھی کیجئے “آقا قافا بولا ”سگِ سلطان باہو بن جائیے ان کے دربارپر آنے والوں کے پاﺅں چاٹنے شروع کردیجئے ۔آپ بھی ہوا میں اڑنے لگ جائیں گے “پیر صاحب بولے ” مجھے مرید اپنے پاﺅں نہیں چاٹنے دیں گے ۔کوئی اس سے آسان راستہ۔“آقا قافا بولا ”اپنی ساری جائیداد ، ساری دولت ، سارے ملبوسات ان دو کپڑوں کے سوا ہر چیز غریبوں میں بانٹ دیجئے ۔اپنی بیوی اولاد کو بتادیجئے کہ میں آج تک جو کچھ تمہیں حلال کھلایاہے وہ میری محنت کا کمایا ہوا نہیںتھا اس لئے تم پر حلال نہیں تھا۔ان حرام کے لقموں کے لیے مجھے معاف کردو اور پھر مزار پر آکر بیٹھ جائیے ۔سلطان العارفین تو ایک لمحے میں اپنے طالب کو عارفوں کا عارف بنا دیتے ہیں “

پیر صاحب کہنے لگے ” یہ بھی بہت مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ۔“ایک مرید نے دروازہ تھوڑا سا کھول پوچھا ”ناشتہ لگا دوجی “آقا قافا بولا ”نہیں اب پیر صاحب اپنے دولت کدے پر ناشتہ کریں گے اور اٹھتے ہوئے پیر صاحب سے آہستہ سے کہا ”میں کل پھر آﺅں گا آپ آرام سے سوچیے گا۔“آقا قافا نے جوتے پہنے دروازہ کھولا اور باہر نکل آیا ۔پیر صاحب اسے جاتے ہوئے دیکھتے رہے اور پھر چند لمحوںبعد آقا قاقا اپنی غار میں موجود تھا۔

اس نے سوچا کہ دیکھوں نواب منور مان کیا کررہا ہے ۔ اس نے کھڑکی کھولی تونواب منور مان کے پاس منیجر اور منان دونوں موجود تھے، اسے بتا رہے تھے کہ نوابزادہ مصور مان نے ہمیں کیا دھمکی دی ہے۔ نواب منورمان نے انہیں کہا

مجھے احساس ہوگیا ہے کہ میں غلطی پر تھا۔مصورمان تم نے جو کچھ کہا ہے ۔وہی درست بات ہے “

دونوں حیرت زدہ نظروں سے نواب صاحب کو دیکھتے ہیں۔ نواب منور بولا ”بس جاﺅ تم دونوں “

دونوں باہر نکلے تو منان نے منیجر سے کہا” مجھے کچھ دال میں کالا لگتا ہے “

منیجر آہستہ سے بولا ”ساری دال ہی کالی ہے “

آقا قافا نے نور کی کھڑکی تو اس کے بیڈ پر اسلحہ پڑاتھا ۔نورایک کلاشن کوف کو اٹھا کر اسے چیک کررہی تھی ۔نارو نے کہا”یہ کلاشن کوف نوابزادہ مصور مان نے بھجوائی ہے “

نور نے کہا ۔ ”یہ رائفل اور پستول “

یہ منیجر نے دئیے ہیں ۔ “

نور نے حیرت سے کہا ”منیجر نے“

جی۔ساتھ یہ کہا ہے میرا نام آئے وگرنہ نواب صاحب مجھے بھی مروا دیں گے“

اور موبائل فون “

یہ لیجئے نارو نے کہا “اس نے موبائل فون اپنے دوپٹے میں باندھا ہوا تھا

آقا قافا نے ایک نئی کھڑکی کھولی اور ناصر کو دیکھنے لگا۔ناصر ایک لیونگ روم میں بیٹھا تھا وہاںارم اور ارقم اور مسٹرران موجود تھے ۔ناصر کہہ رہا تھا

میں آج صرف آپ کے مہمان سے معذرت کرنے آیا ہوں اس دن انہیں میری بات ناگوار گزری تھی“

ارقم بولا”نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ۔دراصل نور ہمارے لئے بہت زیادہ قابل عزت ہے “

مسٹر ران نے کہا ”ہاں ناصر تمہارے کام کیا ہوا“

ہوگیا۔نور ایک دن بعد یہاں پہنچ جائےگی“

ارقم بولا ”یہ آپ کی غلط فہمی ہے

ممکن ہے میری غلط فہمی ہو ۔مگر اس کا فیصلہ تو ایک دن کے بعد ہوگا“

نور کو وہاں سے نکالنا آسان کام نہیں۔“

ناصر نے اٹھتے ہوئے کہا ” میرا خیال ہے کہ اب مجھے جانا چاہئے ۔نور کے پہنچنے سے پہلے میں نے بہت کام کرنے ہیں‘ ‘ ناصر سب سے ہاتھ ملاکر لیونگ روم سے نکل گیا ۔ارم بولی

تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ ناصر اسے یہاں منگوانے میں ناکام رہے گا“

شیر کی کچھارسے کچھ اٹھا لانا آسان نہیں ہوتا“

اگر وہ یہاں پہنچ گئی “

تو ناصر جیسے معمولی شخص سے ہرگز شادی نہیں کرے گی۔“

ناصر کوئی معمولی شخص نہیں ۔

معروف کھلاڑی ہونا‘ نور کے لئے کوئی بڑ ی بات نہیں ہو سکتی‘ اس کے لیے سب سے اہم ناصر کا خاندانی پس منظر اور اسکی مالی حیثیت ہے اور ان حوالوں سے میرا خیال ہے ،ناصر ایک معمولی آدمی ہی لگتا ہے“۔

مگر وہ اس کے لیے اتنا کچھ کر رہا ہے؟“

نور اس کی قیمت ادا کردےگی۔ ایسے بے شمار لوگ اسکے باپ دادا سے ان کے پاس ملازم چلے آرہے ہےں‘ جو ان کے ایک اشارے پر جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔ یہ نواب لو گ صرف جان کی قیمت ادا کرتے ہیں۔“

تم نے تو نور کا بہت خوفناک نقشہ کھنچا ہے۔“ارم نے کہا

مسٹر ران تھوڑی دیر کے بعد بولا”

ایک اچھی خبر یہ ہے کہ میچ فکس ہو ہی گیا ہے۔ اس مرتبہ گیمبلنگ کا مزا آ ئے گا۔

ارقم نے کہا: مسٹرران آپ بھی جوا کھیلتے ہیں؟“

مسٹر ران نے ایک بھرپور قہقہہ لگا کر کہا ”نیگ مین‘ رسک ہی تو لائف ہے۔“

ارم نے پوچھا”میچ فکس ہونے آپ کا کیسے یقین ہے“

مجھے پتہ چلا ہے کہ ناصر مسٹرجوزف کے آفس میں دیکھا گیا ہے اورجوزف اینڈکے کے۔ناٹ ٹو پرسن۔

گرینڈ ڈیڈ۔ناصر ایسا نہیں ۔ میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں“

مسٹر ران بولا ”آئی سی ناصر آئیز۔وہ اپنی محبت کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔“ارقم نے اٹھتے ہوئے

میں آتا ہوں “

اور گھر سے باہر نکل کر موبائل سے کال کرنے لگا ۔اس نے اپنے باپ سے کہا!

یہاں کسی کو یقین ہے کہ ایک دن بعد نوریہاں پہنچ جائے گی“

بیٹے فکر نہ کرو ۔ تمہاری پہلی اطلاع پر میں نے اپنے آدمی ہر طرف پھیلا دئیے ہیں ۔اگر وہ محل سے نکلی تو پھر سمجھو کہ ہمارے پاس پہنچ گئی ۔“

آقا قافانے اسی کھڑکی میں ارقم کو چھوڑ کر اس باپ سردار قراقرم پر اپنی توجہ مبذول کردیں۔ وہاں ایک شخص نے سردار قرارم سے کہا

: سردار تمام لوگ پہنچ گئے ہیں۔ بس آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔“

: کسی کا تعاقب تو نہیں کیا گیا؟“

: نہیں سرکار ۔۔ دور دور تک کسی پرندے کے پیچھے کوئی گدھ نظر نہیں آیا۔“

سردار قراقرم اٹھا پتھروں سے بنی ہوئی ایک راہداری تنگ سی راہداری سے جھک کر گزرتا ہوا ایک پہاڑی درے میں داخل ہو ا اور پھر درے کے قریب ایک مکان کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ مکان کے صحن میں چار پائیوں پر بہت سے محافظ بیٹھے تھے۔ سردار کو دیکھ کر سب کھڑے ہوگئے۔سردار قراقرم سب کوبیٹھنے کا اشارہ کیااورایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگا

ساتھیو ! کیسا ہیں میرے شیروں کا حوصلہ“

ایک محافظ نے کہا

سردار ۔۔ اس وقت تک توپتھروں کو نچوڑتے رہیں گے جب تک ان میں سے پانی نہیں بہہ نکلے ۔نور اگرساتھ دے جاتی تو ہمارا کام بہت آسان ہوجاتا۔“

میں کہا تھا اسے دوبارہ میری طرف پیغام بجھوا دو۔“

ادھر کوئی مثبت جواب نہیں آرہا سردار۔“

اچھا میری بات غور سے سنو۔ مگر کچھ لوگ ہمارے راستے سے کانٹے چن رہے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ وہ کون ہیں۔ وہ نور کو اغوا کرنا چاہتے ہیں۔محل سے نکلنے والے ہر راستے پرتم موجود رہو۔وہ نورکو لے کر جدھر سے بھی گزریں تم آگے موجود ہو“

آقا قافا ان کی قسمت پرہنس پڑا اور وہ کھڑکی ختم کردی ۔اور نوابزادہ مصور مان کا تصور کرکے کھڑکی کھولی ۔وہ اپنے بیڈ روم بہت اداس اور غمگین تھا ۔اکیلا اور اقبال باہو کی آواز سلطان باہو یہ دوہڑا سن رہا تھا

ایہہ دنیا زن حیض پلیتی ، ہرگز پاک نہ تھیوے ہو

جیں فقر گھر دنیا ہووے،لعنت اُس دے جیوے ہو

حب دنیا دی رب تون موڑے،ویلے فکر کیچوے ہو

سہہ طلاق دنیا نوں دئیے باہو جیکر سچ پچھوئے ہو“

آج نوابزادہ مصور مان آقا قافا کو اچھا لگا ۔آقا فا نے یہ کھڑکی بند کردی اور پھر گہرے مراقبے میں اتر گیا۔کئی گھنٹوں کے بعدآدھی رات کو اچانک اسے محسوس ہوا کہ نور نے اسے آواز دی ہے ۔آقا قافا مراقبہ سے باہر آگیا ۔کھڑکی کھولی تو نور پستول ہاتھ میں پکڑ کر کھڑی تھی ۔ناروبھی اس کے پاس موجود تھی اس کے ہاتھ میںبھی پستول تھا۔وہ دونوں دیکھ رہی تھیں ۔ڈریسنگ روم میں روشندان سے ایک شخص اتر رہا ہے۔وہ دونوں پردے کے پیچھے تھیں ۔جگوآگے بڑھا اس کے ہاتھ میں پستول تھا ۔ نور نے کہا

پستول پھینک دے ۔تُونشانے پر ہے “

جگو کے آواز کی سمت فائر کردیاجواباً نور کے پستول سے نکلی ہوئی گولی اس کی پیشانی میں پیوست ہوگئی ۔جگو کا کیا ہوا فائر نور اور نارو کے درمیان میں دیوار پر لگا تھا ۔ایک اور نور کا وفادار ملازم ارمان علی جو لیونگ روم میں رائفل اٹھائے پہرہ دے رہا تھا۔وہ تیزی سے اندرآیا اس نے جگو کی لاش کو دیکھتے ہوئے کہا

میرا خیال ہے چھوٹی مالکن اب آپ کا اس کمرے میں رہنا ٹھیک نہیں‘ ‘

تم لاش ٹھکانے لگا دو۔ میں ابھی یہیں ٹھیک ہوں۔

ارمان جائزہ لینے کےلئے باہر کا دروازہ کھولا تو پھر باہر دو آدمی کھڑے تھے۔ اندر داخل ہونے کےلئے بالکل تیار۔انہوں نے جیسے ہی ارمان علی کو دیکھاتوبوکھلاکر پوچھا ”فائروں کی آواز آئی ہے ۔چھوٹی مالکن ٹھیک ہے نا“

ہاں ٹھیک ہے ۔مگر تم اب یہاں نظر نہ آﺅ“

اور تیزی سے مڑ گئے ارمان علی نے دروازہ بند کیاتو نور نے پوچھا

کوئی تھا“

نواب صاحب کے دوکتے ادھر بھی موجود تھے “

تم ٹھیک ہو اب اس کمرے میں رہنا خطرناک ہے“

پھرتینوں وہاں سے نکل پڑے۔‘ کافی عجیب و غریب اور پراسرار راستوں سے گزر کر ایک تہ خانے کی سیڑھیاں اترنے لگے‘ تہہ خانے میں پہنچ کرارمان علی سے کہا

تمہیں پورا یقین ہے کہ اس تہہ خانے کے بارے مےں نواب منور کچھ نہیں جانتا؟“

جی چھوٹی مالکن آپ جانتی میں آپ ابا حضور کا خاص خادم تھا ‘ آپ کے بابا حضور نے خود مجھے کہا تھا تمہارے اور میرے علاوہ اس تہہ خانے کا کسی کو علم نہیں۔“

چلیں اگر پتہ ہوا بھی تو دیکھیں گے ۔

چھوٹی مالکن جو خزانہ ‘ ہیرے اور جواہرات یہاں پڑے ہوئے ہےں‘ اگر نواب منور کو اس کا علم ہوتا تو انہیں کبھی کا نکال کر لے جا چکے ہوتے۔“نور نے نارو اورارمان سے کہا

تم دونوںجاﺅ‘

نارو بولی ”

نہیں چھوٹی مالکن میں نہیں جاﺅں گی ۔اور پھرارمان سے نارو نے کہا ”تم جاﺅ کہیں کسی کو تم پر شک نہ ہوجائے “

نور خاموشی رہی اور ملازم تہہ خانے کی سیڑھیاں واپس اوپر چڑھنے لگا۔تو نور نے پیچھے سے آواز دی ۔

مت جاﺅ ۔ تمہیں وہاں وہ دو لوگ دیکھ چکے ہیں “ملازم نے پلٹتے ہوئے کہا

جی چھوٹی مالکن میرا باہر جانا درست نہیں ۔ چھوٹی مالکن اس تہہ سے ایک راستہ محل سے باہر بھی نکلتا ہے ۔ آپ فکر نہ کریں ۔“

آﺅ مجھے دکھاﺅ“

وہ تینوں ایک سمت بڑھنے لگے ۔وہاں الماری تھی ۔ ملازم نے الماری کو کھولا الماری خالی تھی اس کے اندر لگی ہوئی ایک میخ کو باہر کے سمت کھینچا تو الماری کا پچھلا حصہ ہٹتا چلا گیا ۔یہ ایک سرنگ سی تھی ۔اندھیری ڈوبی ہوئی سرنگ ۔ملازم نے سرنگ کے آغاز میں بنے ہوئے خانے سے ایک بڑی سی ٹارچ اٹھائی اسے جلایا اور پھر تینوں چل پڑے۔ خاصا فاصلہ طے کرنے کے بعدآگے سرنگ بند دکھائی دی ملازم نے پھر ویسے ہی وہاں لگی ہوئی میخ کو کھینچا تواتنی جگہ بن کے ایک آدمی گزر کے باہر جاسکتا تھا نور باہر نکلی پھر ملازم اور نارو بھی باہر نکلے ۔نور نے چاروں طرف دیکھا اسے معلوم ہوگیا کہ محل کے قریب جوچھوٹی سی کنول جھیل ہے وہ اس وقت اس کے کنارے پر کھڑے ہیں نور نے پوچھا ”یہ بند کیسے ہوتا ہے دروازہ “ ملازم نے ایک ابھرے پتھر کو دبایا تو دروازہ بند ہوگیا ۔ دروازے بالکل ایسا رنگ تھا جیسے وہ چٹان ہی ہو“نور نے کہا ”اب کھولو“ ملازم نے اب اس سے نیچے والے پتھر کو دبایا تو دروازہ کھل گیا وہ واپس تہہ خانے میں آگئے ۔آقا قافا نے مصور مان کا تصور کرکے کھڑکی کھولی ۔وہ اس وقت نور کے بیڈروم میں کھڑا تھا ۔جگو کی لاش کے پاس ۔ منان اور منیجر بھی موجود تھے۔ مصور نے کہا

میں نے دو فائر کی آواز سنی ہے“

منان دیوار میں لگی ہوئی گولی دکھاتے ہوئے

میرے خیال پہلے جگو نے فائر کیا ہے ۔ پھر چھوٹی مالکن نے اسے ماراہے ۔یہاں جگو کی گولی لگی ہے۔“

مگروہ خود کہاں ہے اس وقت“

میں جب یہاں آیا تو کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ صرف جگو کی لاش پڑی ہے۔میرا خیال ہے نواب صاحب کو وقوعہ کی اطلاع دینی چاہئے“

حیرت ہے ان فائروں پر ان کی آنکھ نہیں کھلی ۔ان کی نیند تو بہت کچی ہے ۔ ذرا سی آہٹ پر جاگ پڑتے ہیں“ مصور بولا۔منیجر اور منان علی نے یہ جملہ سن کرسر جھکا دئیے۔پھر تینوں چلتے ہوئے نواب منورمان کی خواب گاہ کے باہر پہنچ گئے ۔مصور نے ہلکی سے دستک دے کر کہا ”بابا حضور آپ جاگ رہے ہیں “

ہاں آجاﺅ “

تینوں اندر داخل ہوگئے ۔ نواب منور مان کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے ۔بستر بتارہا تھا کہ ابھی تک کوئی اس کے پاس نہیں آیا نواب منور مان نے کہا

بیٹے خیریت ہے نا، وہ فائر کیسے تھے“

منان بولا ”جگو مارا گیا ہے۔“

منورمان کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے

یہ کیسے ہو ا“مصور مان بولا

ہاں، بابا حضور وہ تو کسی کو مارنے گیا تھا، خود کیسے مارا گیا“

تم نے قتل کیا ہے جگو کو؟“نواب منور نے مصور سے پوچھا

نہیں۔شاید اسے خود نور نے گولی ماری ہے۔“

وہ تنہا جگو کو قتل نہیں کر سکتی ، یقیناً یہ تمہارا ہی کارنامہ ہے۔“

آپ کی مرضی بابا حضور، ویسے میں اسکا قاتل نہیں ہوں۔“

منور مان نے منیجر سے کہا

نور کو فوری طور پرمیرے سامنے پیش کیا جائے۔“

منان بولا” وہ کمرے میں نہیں ہیں، کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ چھوٹی مالکن کہاں ہےں۔“

جاﺅ،اور سارے محل کی تلاشی لو ۔لائٹس آن کردو ۔ پہرداروں کو کہہ دو کہ کوئی محل سے نکلنے کی کوشش کرے۔ اسے گولی مار دی جائے ۔۔ جاﺅمجرم جہاں بھی اسے یہاں لے آﺅ۔“

منیجر اور منان کمرے سے نکل گئے تو مصور نے کہا

بابا وہ مجرم کیسے بن گئی۔ اس نے یقیناً اپنی جان بچانے کے لیے جگو کو قتل کیا ہے۔“

تم میرے قہر کو آواز دے رہے ہو، مصور مان، میں تمہیں سمجھا چکا ہوں٬ کہ مجھے اولاد سے زیادہ دھن کوٹ عزیز ہے۔“

مگر بابا، آپ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔“

پاگل ہو گئے ہو، کیوں مرے ہاتھوں مرنا چاہتے ہو؟“

آپ مجھے ماریں گے بابا حضور؟“

کیوں؟کیا میں تمہیں نہیں مار سکتا“

ایک تو میں آپ کا بیٹا ہوں اور دوسرے اکلوتا بیٹا ہوں۔ اگر میں مر گیا ،تو آپ بھی میرے ساتھ مر جائیں گے۔دنیا مےں آپ کا نام میری وجہ سے رہ سکتا ہے۔ صرف مجھ سے آپ کی نسل چل سکتی ہے۔“

تم اتنی بڑی سچائی جاننے کے باوجود اپنے باپ سے ٹکرانے کی کوشش کر رہے ہو؟“

بابا حضور، میں بھی آپ کا بیٹا ہوں،میری رگوں میں بھی آپ کا خون دوڑ رہا ہے۔“

ایک بار پھر تمہیں میں معاف کر رہا ہوں، مگر یہ یاد رکھنا، دھن کوٹ کے نواب رحم سے عاری ہوا کرتے ہیں۔“

آقا قافا نے نور والی کھڑکی میں دیکھا۔نورتہہ خانے میں موجود بیڈ پر بیٹھی تھی اور ارمان علی بتا رہا تھا

میں نے یہاں پانی کاکولراور کھانا وغیرہ بھی لا کر رکھا ہوا ہے ۔جو کم از کم دو دن تک ہم تینوں کے لیے بہت ہے “

میں کل شام آٹھ بجے محل سے نکل جاﺅں گی۔ اس وقت تک تم لوگوں نے مری حفاظت کرنی ہے۔ کل شام آٹھ بجے مرا محل کی چھت پر ہو نا ضروری ہے۔اس وقت محل کی چھت سے پہرہ داروں کوکسی طرح ہٹاناپڑے گا“

چھت سے آپ کیسے جائیں گی “

ہیلی کاپٹر سے اور ہاں مجھے کسی پہرے دار کی وردی بھی چاہئے

سب کچھ ہوجائے ۔ مگر آج رات اس تہہ خانے سے نکلنا ، خطرناک ہو سکتا ہے۔“

نہیں نہیں ۔اب نہیں صبح نکلنا“

نور نے موبائل فون نکالا اور ناصر کو فون کیا ”ناصر کے پاس صبح کا وقت تھا ۔ بیل بجی ۔ناصر نے فون اٹھایا ”ہیلو ناصرمیں نور بول رہی ہوں۔ میں اپنے کمرے سے نکل آئی ہو ۔ جیسے ہیلی کوپٹرکے چھت پر پہنچنے سے دس منٹ پہلے مجھے اسی فون اطلاع کردینا“

شکر ہے تم موبائل حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہو “

بس اب کل بات ہوگی “

ملازم تہہ خانے میں کچھ ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ ایک الماری سے کچھ بارودی بم نکال کر نور کے پاس لے آیا اور کہنے لگا ”اگر ”میں ان سے محل کی دیوار کے پاس دھماکہ کروں تو سارے پہرے دار ادھر بھاگ پڑیں گے“

لیکن تم واپس تہہ خانے میں کیسے پہنچو گے ۔“

جیسے آپ ہیلی کاپٹرمیں پہنچیں گی“

نور نے نارو سے مخاطب کر کہا

تم دونوں تہہ خانے سے نکل کر شہر چلے جاﺅگے ۔ میں تمہیں خاصی رقم دے جاﺅں گی اور یہ موبائل بھی تمہارے پاس ہوگی اسے گم نہیں ہونا چاہئے کیونکہ صرف نمبر ہمارے درمیان کا وسیلہ رہ جائے گا۔

چھوٹی مالکن آپ بے فکر رہیں۔“

نور اٹھی اس نے تمام ہیرے جواہرات دیکھے وہ خاصی بڑی تعداد تھے ۔نور بولی ”ان کے لیے بیگ چاہئے ایسا بیگ جو میں اپنی پشت پر باندھ سکوں۔“ملازم بولا ۔ میرے بھتیجے کا بستہ آپ کے کام آسکتا ہے ۔“

ہاں ویسا ہی بیگ چاہئے“

اور پھر نور تہہ خانے کی تلاش لینے لگی اس تلاشی میں اس کے ہاتھ اپنے باپ کی ایک ڈائری لگی ۔نور اُس ڈائری کو پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔ آقا قافا نے نواب منور مان کی کھڑکی پر توجہ دی۔منیجر کہہ رہا تھا

حضور ہم نے رات محل کا کونہ کونہ چھان مارا ہے مگر چھوٹی مالکن کا کچھ پتہ نہیں چلا۔

نوابزادہ مصور مان کے کمرے کی تلاشی بھی لی ہے؟“

جی حضور“

وہ کوئی جن بھوت تو ہے نہیں کہ نظر نہ آئے میں کیسے مان لوں کہ وہ ہوا بن کر محل سے نکل گئی ہے“

حضور ،کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔“

تمام ملازموں کو اطلاع دو کہ نور کی خبر دینے والے کو اتنا بڑا انعام دیا جائے گا۔ جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔“

ابھی سب کو بتادیتاہوں جی۔“

وہ محل کے اندر ہے اور جس نے اسے چھپنے میں مدد دی ہوگی اسکی موت یقینی ہوگی۔ میں کسی غدار کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔“

یہ تو میں نے پہلے ہی سب کو کہہ دیا تھا۔

نارو کو ٹٹولو۔ وہ صرف اسکی ملازمہ ہی نہیں سہیلی بھی ہے۔“

جی وہ بھی نہیں مل رہی “

اس کی ماں کو بلا لاﺅاورچھوٹے نواب پر بھی نظر رکھو٬ اسے بھی علم ہو سکتا ہے۔“

منیجر احکامات سن کر چلا گیا اور منان اندر داخل ہوا۔نواب صاحب نے پوچھا

ہاں تیرے پاس کیا اطلاع ہے “

حضور ایسا لگتا ہے کہ سارا محل نور کا ساتھ دے رہا ہے ۔‘

یہ تمہیں کیسے محسوس ہوا ہے “

نور کے کمرے سے ایک کلاشن کوف ،ایک رائفل اور بہت سی گولیاں ملی ہیں ۔یہ چیزیں اس کے پاس کیسے پہنچ سکتی ہیں۔“

اس کے علاوہ“

محل میں ہر شخص خوش دکھائی دیتا ہے کہ نور نکل جانے میں کامیاب ہوگئی ہے “

نہیں ۔وہ محل کے اندر موجود ہے ۔ میں نے کوئی ایسا رخنہ نہیں رہنے دیا جہاں سے وہ نکل سکے “

منیجر کے ساتھ نارو کی ماں اندر داخل ہوئی ۔جھک کر نواب صاحب کو سلام کیا اور نواب منور بولا

تم نارو اور اپنی چھوٹی مالکن کا پتہ بتا دو ۔ جو مانگو گی تمہیں دوں گا۔وگرنہ دوسری صورت میں تمہیں میرے قہر کا اندازہ ہے“

حضور کنیز کو صرف اتنا علم ہے کہ وہ جو کمپیوٹر چھوٹی مالکن کی کمرے میں پڑا ہے چھوٹی مالکن اور نارو اسی کے ذریعہ محل سے باہر نکل گئی ہےں۔“

وہ کمپیوٹر ہے کوئی جادو کا اڑن کھٹولا نہیں“

جی چھوٹی مالکن کہا کرتی تھیںمیرے پاس یہ جو کمپیوٹر کی کھڑکی ہے میں اس میں سے کسی وقت بھی محل سے فرار ہو سکتی ہوں۔وہ اس کھڑکی سے لوگوں سے باتیں بھی کیا کرتی تھیں۔“

نور سے تو تمام فون لے لئے گئے تھے ۔نواب صاحب منیجر سے مخاطب ہوئے

منیجر بولا ”جی اس کے پاس نہ ٹیلی فون رہنے دیا گیا تھا نہ موبائل فون“

وہ کمپوٹر کیسا ہے، جو اس کے کمرے میں ہے“

حضور وہاں جو کمپیوٹر پڑے ہیںمیں ان کے متعلق بھی کچھ نہیں جانتاوہ تو نواب انورمان کے دور سے چلتے آرہے ہیں۔البتہ اس کمپیوٹر کا ہر مہینے بل ضرور آتا ہے۔“

کمپیوٹر کا بل کیسے آ سکتاہے؟“ نواب نے غصے سے کہا

یہ تو کوئی کمپیوٹر انجینئر ہی بتا سکتا ہے جی “

آقا قافا نے معمول کے مطابق سادھو باباکے پاس کلاس میں جانا تھا ۔وہ وہاں پہنچ گیا۔سادھو بابا نے آقا قافا سے کہا ”آج تمہارے ہم جماعت لوگ تم سے کچھ سوال کرنا چاہتے ہیں اسلام کے بارے میں ۔آج میں صرف سنوں گا۔ان کے سوال اور تمہارے جواب “آقا قافابولا ”جی جتنا جانتا ہوں اتنا بتا سکتا ہوں “

پہلے سادھو نے سوال کیاخضر نے بچے کو قتل کردیا تھا کہ یہ بڑا ہوکر قاتل بنے گا ۔کیا جرم کرنے سے پہلے کسی کو سزا دی جاسکتی ہے اور پھر بچے کا قتل تو بہت ہی خوفناک بات ہے “آقا قافا بولا

ایسی بات نہیں ہے یہ غلط تراجم کی بناپر ابہام پیدا ہوا ہے۔ قرآن حکیم میں غلام کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ غلام کا مطلب جوان لڑکا ہوتا ہے اور اسے قتل اس لیے کیا گیا کہ وہ پہلے قاتل تھا۔اس پر اب بہت تحقیق ہوچکی ہے “

دوسرے سادھو نے کہا

ایک حدیث میں ہے کہ سورج رات کوعرش کے نیچے اتر جاتا ہے اور صبح فرشتے اسے دھکے دے کر باہر نکالتے ہیں سورج تو غروب ہی نہیں ہوتا “

آقا قافا بولا”آپ کو سورج کے بارے میں غلط فہمی ہے ۔سائنس کے تحت سور ج کی تین گردشیں ہیں ۔

سورج اپنی ایک گردش اٹھارہ کروڑ سال میں کہکشاں کی طرف مکمل کرتا ہےدوسری گردش ایک سو پچاس میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سولر ایپک کی طرف ہے ،جسے عرش کہتے ہیں اور سورج کی تیسری حرکت وہ ہے جس کا ہم شب و روز دیکھتے ہیں – “

تیسرا سادھو بولا

اسلام میں زکوٰة ادا کرنے کا جو نصاب ہے ،اس کے مطابق گھر میں 53تولے چاندی جو چند ہزار روپے کی بنتی ہے اور ہو تو زکوٰة دینا پڑتی ہے ۔لیکن اگر سات تولے سونا جو کئی لاکھ روپے کا بنتا ہے وہ گھر میں پڑا ہو تو زکات نہیں لگتی ۔یہ کیسا نصاب ہے “

آقا قافا نے جواب دیا

یہ مرد کا نہیں عورت کا نصاب ہے کہ وہ ساڑھے باون تولے چاندی اور ساڑھے سونا رکھ سکتی ہے۔ اپنے پاس اپنی زیبائش کے لیے ۔مرد تو ایک تولہ بھی رکھے تو اسے اس پر زکات دینا ہوگی“

چوتھے سادھو نے سوال کیا

قرآن حکیم میں آیا ہے حضرت یعقوب جو اللہ کے پیغمبر تھے ۔وہ اٹھارہ سال اپنے بیٹے کے غم میں روتے رہے اور آنکھیں بھی ضائع کردیں ۔کیا پیغمبر کی یہ شان ہو سکتی ہے “

آقا قافا نے کہا

وہ جس بیٹے کے غم میں اٹھارہ سال روتے رہے وہ حضرت یوسف علیہ اسلام تھے ان کے چہرے میں نورِ محمدی تھا وہ دراصل اسی نور کے بچھڑنے کے غم میں روتے روتے آنکھیں بھی گنوا بیٹھے “

اب سادھو بابا بول پڑے

میرا خیال ہے سوال و جواب کا یہ سلسلہ اب ختم کیا جائے۔ آقا قافا کے اندر میں بڑی بے چینی دیکھ رہا ہوں ۔آج کی کلاس ختم ہوئی اورپھر آقا قافا فوراًاپنی غار میں پہنچ گیا ۔نورکا دھیان میں لایا اور کھڑکی کھول دی ۔نور تیار ہوچکی تھی ۔اس نے ایک پہرے دار کا لباس پہن رکھا تھا۔ہیروں سے بھرا بیگ وہ پشت پر باندھ رہی تھی ۔اس کے باپ کا ملازم ِ خصوصی اندر آیا اور اس نے کہا کہ وہ بم لگاآیا ہے ۔میں آٹھ بجنے سے پانچ منٹ پہلے دھماکہ کروں گا جیسے پہرے دار چھت سے اتر کر ادھر آئیں گے ۔آپ سڑھیوں سے اوپر چلی جائیں گی۔پھر تھوڑی دیر تینوں نے وہیں انتظار کیا۔وقت ہوگیا ہے ۔ملازم نکل گیا ۔نور نے نارو کو گلے لگایا اورکہا

میں کہیں بھی ہوں تمہیں بھولوں گی نہیں ۔کوشش کروں گی کہ تم جلد میرے پاس پہنچ جاﺅ“

نارو کی آنکھوں میں آنسوآگئے اور پھر دھماکہ ہوا۔پہرے داراُس طرف بھاگ پڑے جہاں دھماکہ ہوا تھا ۔چھت پر موجود پہرے دار بھی بھاگتے ہوئے سیڑھیوں سے اترے اور اُسی سمت چلے گئے جس طرف سے دھماکہ کی آواز آئی تھی ۔نور تہہ خانے سے نکلی مختلف سنسان راہداریوں سے گزرتی ہوئی چھت کی سڑھیوں کی طرف جانے لگی ۔ نوابزادہ مصور مان بھی کمرے سے نکلا یہ دیکھنے کےلئے کہ کیسا دھماکہ ہوا ہے ۔اچانک اس کی نظر نور پر پڑی مصور مان تیزی سے ایک طرف ہوگیا کہ کہیں نور اسے دیکھ نہ لے اورنور جیسا ہی سڑھیوں کی سمت گئی وہ بھی آہستہ آہستہ سڑھیوں کی طرف بڑھنے لگا نورجب سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر پہنچی تو مصور بھی دبے قدموں سے سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔چھت پر کوئی پہرے دار موجود نہیں تھا۔نور چھت کے درمیان میں کھڑی آسمان کی طرف دیکھنے لگی ۔مصور نے چھت پر پہنچ کیا نور اسے دیکھتے ہی کہا

’’مصور آگے بڑھنا ۔ میں فائر کردوں گی‘‘

مصور مان رک گیا اور کہنے لگا ’’جو پہلے سے مر چکے ہیں انہیں کیا مارو گی مگر تم چھت پر کیوں آگئی ہو ۔یہاں تو ابھی پہرے دار لوٹ آئیں گے ‘‘

نور بولی ’’میں ان کے آنے سے پہلے جا چکی ہوں گی ‘‘مصور مان ہنس کر پوچھا

’’کیا آسمان کی طرف پرواز کرنی ہے ‘‘نور بولی

’’ہاں کئی نئے آسماں میرے منتظر ہیں ۔ میں تمہاری دنیا چھوڑ کر کسی اور دنیا میں جارہی ہو ۔آزاد اور خود مختار دنیا میں ۔‘‘مصور مان بولا

’’دنیا چھوڑنے کا میں بھی سوچتا ہوں مگر کہتے ہیں خود کشی ہمارے مذہب میں حرام ہے ‘‘

اچانک ہیلی کاپٹر کی آواز آئی ۔ مصور مان اسے محل کی طرف آتے ہوئے دیکھا اور حیرت سے پوچھا

’’کیا یہ تمہیں لینے آرہا ہے ‘‘نور بولی

’’ہاں یہی سب سے محفوظ طریقہ تھا یہاں سے نکلنے کا‘‘اور ہیلی کاپٹرچھت کے اوپر پہنچ گیا اس سے سیڑھی لٹکائی جانے لگی ۔نور کبھی اوپر کی طرف دیکھتی تھی جہاں آہستہ آہستہ سیڑھی نیچے آرہی تھی اور مصور مان کی طرف ۔جیسے ہی سیڑھی نیچے پہنچی نور نے سیڑھی کوپکڑااور اس پر چڑھنے لگی۔ پہرے دار ہیلی کاٹر کو دیکھ کر چھت کی طرف بھاگے ۔انہوں نے نور کو سیڑھی چڑھتے ہوئے دیکھاتھا۔انہوں نے فائر کرنے کےلئے رائفلز سیدھی کیں تو مصورمان نے زور سے کہا ”کوئی فائر نہیں کرے گا“

اتنی دیر میں کچھ پہرے داروں کے ساتھ نواب منورمان خود سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگئے ۔اور پہردے داروں سے کہنے لگے

فائر کرو اس پر“

پہرے داروں نے رحم بھری نظر وں سے نوابزادہ مصور مان کی طرف دیکھا مصور مان بولا

ادھر رائفلیں مجھے دے دو “اور آگے بڑھ کر پہرے داروں سے رائفلیں لینے لگے ۔ منور مان نے ایک پہرے دار سے رائفل کی اور خود فائر کرنے لگا تومصور مان اپنے باپ کی رائفل کو پکڑ کر نیچے کرتے بولا ”بابا حضور عقل سے کام لیجئے ،یہ ہیلی کاپٹر دارالحکومت کے سوا کہیں سے نہیں آسکتاہے ۔آپ کا اقتدار خطرے میں ہے۔‘‘اور اتنی دیرنور ہیلی کاپڑ کے اندر پہنچ چکی تھی ۔“

منورر مان رائفل چھٹکا دے کر کہا ”ہٹ جاﺅ آگے سے“ مصور مان بولا

بابا حضور جانے دیں اسے“ نواب منور مان نے کہا

بے غیرت، اپنے عزت ، اپنی منگیتر کو کسی کے ساتھ بھیج رہا ہے، تُومیری اولادنہیں ہو سکتا ۔“

مصور مان بولا

آپ مجھے اپنا بیٹا تسلیم کریں یا نہ کریں نور تک پہنچنے کے لئے آپ کو میری لاش پر سے گزرنا ہوگابابا۔ میرے جیتے جی آپ نور کو قتل نہیں کرسکتے ‘‘

نواب منور نے غصہ کے عالم میں کہا ’’تم نور بچاتے رہو ۔ اقتدار میرا نہیں تمہارا ہونے والا ہے ۔ میرا کیا ہے میں زندگی گزار چکا ہوں ۔میرے بعد تم نے اور تمہاری نسلوں حکمرانی تھی ۔ اب اگر دارالحکومت میں پہنچ کر اس نے ہمارے خلاف وراثت کا مقدمہ دائر کردیا ۔ جو وہ یقیناً کرے گی۔ اور لوگ جو اسے نکال کر لے گئے ہیں وہ کوئی چھوٹے موٹے لوگ نہیں ہوسکتے ۔اس ملک میں ہیلی کاپٹر تک رسائی آسان نہیں۔‘‘مصور مان بولا

’’بابا مجھے یقین ہے وہ آپ کے خلاف کچھ نہیں کرے گی ‘‘نواب منور مان کہنے لگا

’’تم اندھے ہوچکی ہو وہ ناگن سے زیادہ خطرناک ہے ۔اسے جیسے ہی موقع ملاوہ سب سے پہلے مجھے ڈنگ مارے گی ‘‘ مصور کہنے لگا

’’بابا کیا واقعی چچا کو آپ نے قتل کرایا تھا ‘‘ نواب منور مان انتہائی غصہ کے عالم چیخا ’’بکواس بند کرو ۔دور ہوجائو میری نظروں سے ۔الو کے پٹھے‘‘اور مصور مان سر چھکائے سڑھیوں کی طرف بڑھ گیا اور نواب منور مان نے اپنے موبائل فون پر کسی کا نمبر ڈائل کر کے کہا

’’نواب منور مان بول رہا ہوں ۔کرنل راشد ‘‘

کرنل راشد بولا ۔’’جی نواب صاحب ۔ کیسے مزاج ہیں بڑے دنوں کے بعد یاد کیا ہے ۔ ‘‘

نواب منور مان کہنے لگا ۔’’اس وقت ایک ایمر یجنسی ہے ۔ مجھے فوری طور پر کچھ معلومات درکار ہیں ‘‘

کرنل راشد نے کہا ۔’’جی بتائیے ‘‘نواب منور مان بولا ’’تقریبا ً تین منٹ ہوئے ایک ہیلی کاپڑ میرے محل کی چھت سے سیڑھی کے ذریعے میرے کسی مجرم کو بھگا لے گیا ہے ۔ مجھے پتہ کرانا ہے کہ وہ ہیلی کاپٹر کس کا تھا کہاں لینڈہوا وغیرہ وغیرہ ‘‘

کرنل راشد ۔’’کیا اُس شخص کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گےجسے وہ لے گیا ہے ‘‘

نواب منور بولا ۔’’وہ لمبی بات ہے ملاقات پر بتائوں ابھی یہ کام کرو‘‘

کرنل راشد نے کہا ’’ جی ہوجاتا ہے ‘‘

آقا قافا نے نور کی طرف توجہ دی ۔نور ہیلی کاپٹر میں بیٹھ چکی تھی اس نے بیگ پشت سے اتار کر ساتھ سیٹ رکھ دیا تھا بیلٹ باندھ لی تھی ۔ ہیلی کاپٹر میں پائلٹ کے علاوہ ایک اور آدمی اور تھا وہ نورسے کہہ رہا تھا

ابھی ڈیڑھ گھنٹے میں اسلام آباد لینڈ کریں گے ۔وہاں سے گیارہ بجے آپ نے پی آئی اے فلائٹ پر مانچسٹر روانہ ہوجائیں گی ۔ یہ آپ پاسپورٹ ہے اور یہ آپ کا ٹکٹ۔“

نور نے اپنا پاسپورٹ کھول کر دیکھا ۔اس میں تصویر نور کی تھی مگر وہ پاسپورٹ کسی روزنیہ انجم کا تھا ۔نور نے کہا

تو اب میرا نام روزنیہ انجم ہے “

آدمی بولا ”جی آپ نے اسی نام سے سفر کرنا ہے ۔اگر آپ کے بیگ میں کوئی اور لباس موجود ہے تو آپ ایئر پورٹ پرکپڑے تبدیل کرسکتی ہیں ۔وگرنہ اس وقت آپ کے لیے لباس فراہم مشکل ہوجائے گا “

نہیں کپڑے میں نے پہنے ہوئے ہیں ۔ یہ پہرے داروں کی وردی میں نے لباس کے اوپر پہنی ہوئی ہے ۔جیسے ہی ہیلی کاپٹر لینڈ کرے گا میں اسے اتار دوں گی “

اور پھر دیڑھ گھنٹے کے بعد ہیلی کاپٹر اسلام آباد ایئرپورٹ کے ہی ایک حصے میں اترا۔ نور نے پہرے داروں والی وردی ہیلی کاپٹر میں اتار دی اور اپنا بیگ اٹھا کرباہر آگئی ۔وہ آدمی اسے وی آئی پی لاونج لے آیا۔نور سب سے پہلے اپنے بیگ سیمت باتھ روم میں گئی ۔ بال وغیرہ درست کئے ۔ہونٹوں پر لپ ا سٹک لگائی اور پھر بڑے وقار سے باہر آکر بیٹھ گئی ۔تھوڑی دیر کے بعد اسی آدمی نے اسے بورڈنگ کارڈ لا دیا اورپاسپورٹ اور ٹکٹ بھی دیااور کہا ”اس میں واپسی ٹکٹ بھی موجود ہے ممکن ہے مانچسٹر ایئرپورٹ آپ کو اس کی ضرورت پڑے ۔ کبھی کبھی وہ پوچھ لیتے ہیں کہ آپ کا واپسی ٹکٹ کہاں ہے “

تھوڑی دیر بعد مسافروں کے جہاز پر جانے کا اعلان ہوا۔نور نے اپنا سکریننگ کرنے والی مشین پر رکھا اور جب دوسری طرف سے اٹھایا توکسٹم کا ایک آدمی تیزی سے نور کے پاس آیا اور کہا

جی میں چاہتا ہوں کہ اس بیگ کو کھول کر دیکھاجائے مگر فوراً پیچھے سے اسکا آفسر آیا اور بولا ”۔نہیں نہیں۔ آپ تشریف لے جائیے ۔یہ آپ کو نہیں پہچانتا تھا“

اور نور بیگ سمیت آگے بڑھ گئی ۔وہ شخص جو بیگ کھولنا چاہتا تھا ۔اس نے اپنے بڑے آفسر کے کان میں کہا ”بیگ ہیرے جواہرات سے بھرا ہواہے “

وہ آفسر اس کی بات سن کر اس آدمی کی طرف گیا جس کے ساتھ نور آئی تھی اور اس سے کہا ”اس کا بیگ ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے “وہ آدمی بولا ”بس تم اسے یہاں سے خیر خیریت سے نکال دو اور پھر موبائل پر اس نے کسی سے کہا ۔اس کا بیگ ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ادھر سے آواز آئی ۔”اوکے فکر مت کرو ۔تمہارا حصہ تمہیں مل جائے گا “ آقا قافا نے اس آوازکا تصور کیا اور ایک نئی کھڑکی کھول دی ۔ایک کمرے میں آدمی بیٹھے ہوئے تھے ۔ایک کہہ رہا تھا

اس مطلب ہے کہ خزانہ آرہا ہے “

مگر یہ بات ہم دونوں تک محدود رہنی چاہئے ۔“

بیگ گم ہونے کا مسٹر جوزف کو جب پتہ چلے گا تو پھر کیا کہیں گے۔انہیں پتہ چل جائے گا کہ بیگ ہم نے غائب کیا ہے۔

اسے تم مجھ پر چھوڑ دو۔اب طے یہ ہوا کہ میں ریسو کروں گا تو یقینا بیگ میرے ہاتھ میں ہوگا ۔تم اچانک آنا اور میرے سے ہاتھ بیگ جھپٹ کر غائب ہوجانا۔اگر اس کے ہاتھ میں ہوا تو بس ایک جھپٹا مارنا اور غائب ہوجانا “

آقا قافانے نور کی کھڑکی طرف توجہ دی تو اس کا جہاز نے ٹیک آف کر رہا تھا۔ آقا قافا نے سوچا ابھی آٹھ گھنٹے ہیں ۔انہیں بھی دیکھ لوں گا۔پھرآقا قافاکو یاد آیا کہ اس نے پیر صاحب سے کہا تھا کہ میں اسے کل ملوں گا ۔اس نے سوچا رات کے گیارہ بج رہے ہیں ۔اس وقت تو یقیناً پیر صاحب سو رہے ہونگے ۔آقاقافا نے پیر صاحب کاتصور کیا اور کھڑکی کھولی “پیر صاحب دربار شریف ہی ایک میں جائے نماز پر بیٹھے تھے اور کچھ پڑھ رہے تھے ۔آقا قافا بھی دربار شریف میں پہنچ گیا ۔سلطان باہو کے مزار کے دروازے کو بوسہ دیا اور اس کمرے کی طرف چل پڑا جہاں پیر صاحب موجود تھے ۔کمرے کے دروازے پر مریدین کھڑے تھے آقا قافا آگے بڑھتا چلاگیا۔ مریدین نے اسے راستہ دیا۔دروازے پر پہنچ کر آقا قافا نے دستک دی اندر سے آواز آئی ”آجاﺅ “آقا قافا داخل ہوا۔پیر صاحب اٹھ کھڑے ہوئے آقا قافا کو گلے لگایا اور پاس بٹھا کر بولے

اس وقت اس خانقاہی نظام کو کسی تمہارے نوجوان کی اشد ضرورت تھی۔“آقا قافا بولا ”

تو آپ نے اس راستے پر چلنے کا پرگروام ملتوی کردیا ہے“

جی تو بہت چاہتا ہے مگرممکن نہیں لگتا۔میں نے اپنی بیگم صاحبہ سے مشورہ کیا تھا کہ میں اپنا سب کچھ اللہ کی راہ دینے کے بارے میں سوچ رہا ہوں ۔تمہارا کیا خیال ہے ۔اس نے جاکر بیٹوں کو بتادیا۔وہ چاروں میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا ”ابا جان آپ کی ذہنی حالت خاصی تشویشناک ہے ۔آج سے آپ دربار کے احاطے سے باہر نہیں جا سکتے اور اگر جانا چاہتے ہیں تو ساری جائیداد پہلے ہمارے نام منتقل کردیں ۔اس وقت بھی ان کے لوگ میرے ارد گرد پہرہ دے رہے ہیں۔ایسی صورت حال میں بتاﺅ ۔میں کیا کرسکتا ہوں “

آپ کے یہ مریدین “

یہ بہت کمزور لوگ ہیں ۔ غریب لوگ ہیں ۔ یہ کچھ نہیں کر سکتے “

چلئے آج رات میرے ساتھ گزارئیے ۔مجھے مہمان نوازی کا موقع دیجئے “یہ کہتے ہوئے آقا قافا نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا پیر صاحب اٹھ کھڑے ہوئے آقا قافا نے کہا ”آنکھیں بند کر لیجئے“۔پیر صاحب نے آنکھیں بند کیں تو آقا قافا بولا ”آنکھیں کھول دیجئے “

پیر صاحب نے آنکھیں کھولیں اور پریشان ہو کر ادھر ادھر دیکھا اور پوچھا

ہم کہاں ہیں “

ہمالیہ کے ایک غار میں ۔آپ ذرا ادھراس چٹان پر بیٹھیں ۔ میں آپ کے بستر کو بندو بست کرلوں “

اور پھر چٹان کے دھانے کی طرف بڑھنے لگا۔ دھانے پر آکر اس نے سوچا کہ پیر صاحب کا اپنا بستر ہی یہاں لے آیا جائے ۔آقا قافا اسی پیر صاحب کے بیڈروم میں داخل ہوااور وہاں سے ان کا پورا بیڈ روم اٹھا یا اور غار میں آکر رکھ دیا۔پیر صاحب حیرت سے غار کے ایک حصے میں اپنے بیڈروم کو دیکھنے لگے ۔آقا قافا بولا

یہ لیجئے جب تک جی چاہے یہ یہاں قیام فرمائیے ۔آپ یہاں کسی چیز کی کمی محسوس نہیں کریں گے ۔ دیکھتے ہیں آپ کے بیٹے کیا کرتے ہیں“

پیر صاحب نے پوچھا ”آپ کہاں آرام کرتے ہیں “

اِسی چٹان پر جہاں آپ بیٹھے ہوئے ہیں “

کیا یہاں آپ کو نیند آجاتی ہے “

نیند کے بارے میں میرا رویہ تھوڑا مختلف ہے ۔میں اپنی نیند چلتے پھرتے ہوئے بھی پوری کر لیتا ہوں “

پیر صاحب وہاں سے اٹھے۔ انہوں نے نیچے سے ایک چھوٹا سا پتھر اٹھایا اور اپنے پشت پردے مارا ۔آقا قافا حیرت سے آگے بڑھا اوران کے ہاتھ دیکھتا ہوا بولا ”آپ نے یہ کیا ہے “ان کے ہاتھ خون نکل رہا تھا۔آقا قافا نے دیوار کھولی اور اس میں ایک مرہم نکالی اور اس زخم پر لگادی اور پھر پوچھا ”کچھ بتائیے یہ آپ نے کیا کیا ہے “تو پیر صاحب بولے ”میں صرف یہ یقین کرنا چاہ رہا تھا کہ میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ “

میرا خیال ہے۔ اب آپ آرام سے سو جائیے “آقا قافا نے پیر صاحب کو جاکر اپنے بیڈ پر لٹادیا اور خود اسی چٹان پر التی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور پھر چند لمحوں بعد گہرے مراقبے میں چلا گیا لیکن زیادہ دیر مراقبے میں نہیں رہ سکا ۔اسے احساس ہوا کہ کوئی غار میں چل رہا ہے۔ آقا قافا نے آنکھیں کھولیں تو پیر صاحب غار کے دھانے کی طرف جارہے تھے ۔ راون ان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔پیر صاحب غار سے باہر نکلے چاندنی رات تھی برف تھی اور بلند و بالا پہاڑ اور لہو کو جما دینے والی سرد ہوا۔پیر صاحب فوراً غار کے اندر آگئے اور چلتے ہوئے دوبارہ اپنے بستر کے پاس جانے لگے۔ میری آنکھیں کھلی دیکھ کر میرے پاس آئے اور بولے ”مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تم ہندو سادھو کی طرح زندگی گزار رہے ہو “آقا قافابولا

جی میں مسلمان سادھو ہوں ۔مگر مجھے اس منزل تک گیتا کو ماننے والے سادھو وںپہنچایا ہے۔ جہاں تک ہندو ہونے کا تعلق ہے تو ہندو تو ہم سب ہیں جو برصغیر میں رہتے ہیں ۔ ہند کوئی منزل نہیں برصغیر کا قدیم جغرافیائی نام ۔اسے انگزیزوں نے اپنے دور میں ان لوگوں کے مخصوص کیا یعنی ہندوازم کی اصطلاح نکال لی “

اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سب روحانیت نہیں ایک فریب ہے ۔ہزاروں خداﺅں کوپوچنے سے جو چیز حاصل ہوتی ہے ۔وہ کافری ہی ہے ۔“

میں نے جس سادھو سے تعلیم حاصل کی وہ ایک بھگوان کو مانتا ہے کیونکہ ان کی تمام کتابوں میں یہی درج ہے کہ بھگوان صرف ایک ہے “

کیا مطلب ۔تم یہ کہنا چاہتے کہ ویدوں میں صرف ایک بھگوان کا ذکر آیا ہے “

جی رگ وید میںلکھا ہوا ہے کہ بھگوان ایک ہے ۔نہ اسے کسی نے جنا ہے اور نہ اس نے کسی کوجنا ہے اور اس کی کوئی شکل نہیں ۔ویدوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لوگ اندھیرے میں داخل ہورہے ہیں جو مظاہرِ فطرت کی پوجا کرتے ہیں اور جو ہاتھ سے بنائی چیزوں کی پوجا کرتے ہیں اور گھور اندھیروں میں داخل ہو رہے ہیں۔“

پیر صاحب بولے ”میں تمہارے بارے میں تشکیک کا شکار ہوگیا ہوں“آقا قافا نے کہا ”ابھی آپ سوجائیں صبح کی نماز کے بعد اس موضوع پر بات کریں گے “اور پھر پیر صاحب اپنے بیڈ کی طرف گئے اور اس پر لیٹ گئے ۔ انہیںسچ مچ نیند آگئی ۔ابھی سوئے ہوئے انہیں زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ آقا قافا نے انہیں جگایا اورکہا”اٹھیے صبح کی نمازپڑھنے کےلئے“۔پیر صاحب نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا” ابھی صبح کی نماز میں تین گھنٹے رہتے ہیں“آقا قافا بولا ”آئیے تو سہی ابھی وقت بدل جائے گا “پیر اٹھے اور آقا قافا کے ساتھ ساتھ چلنے لگے آقا قافا بولا”آنکھیں بند کر لیجئے“ابھی پیر صاحب دو قدم ہی چلے تھے آنکھیں بند کر لیں کہ انہیں آقا قافا نے کہا”آپ یہاں وضو وغیرہ کرلیں “۔پیر صاحب نے آنکھیں کھولیں تو وہ حرم شریف میں کھڑے تھے ۔پیر صاحب کچھ کہنے لگے تو آقا قافا نے انہیں روکتے ہوئے کہا ”جلدی جلدی وضو کرلیں وگرنہ نماز نکل جائے گی“اور پھر تھوڑی دیر بعد دونوں حرم شریف باجماعت نماز پڑھ رہے تھے۔نماز ختم کرنے بعد اچانک دو لوگ پیر صاحب کے جاننے والے انہیں مل گئے اور مجبور کرنے لگے کہ ہمارے ساتھ چلیے ۔پیر صاحب بھی پریشان ہوگئے۔ آقا قافا کو بھی معاملہ نازک محسوس ہوا کہ اگر پیر صاحب یہاں سے اچانک غائب ہوگئے توایک کہانی اور بن جائے گی ۔ آقا قافا نے پیر صاحب سے کہا ”کوئی بات نہیں آپ ان کے ساتھ چلے جائیے ۔ شام کی نماز پر پھر یہیں ملاقات ہوگی ۔ایک آدمی بولا”آپ بھی ساتھ چلئے “آقا قافا ”میرا کوئی ضروری کام ہے “دوسرے آدمی نے کہا ”آپ ہمیں اپنا پتہ بتا دیجئے ۔ہم خود پیر صاحب کو آپ کے پاس لے آئیں گے “پیر صاحب بولے ”نہیں نہیں ۔ انہیں جانے دیجئے ۔بس شام کی نماز کے وقت مجھے یہیں پہنچا دیجئے گا“اور آقا قافا تینوں سے مل کر ایک طرف چل پڑا اور جیسے ہی اوٹ ہوا ،واپس اپنی غار میں آگیا ۔اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور پیر صاحب کا بیڈروم غائب ہوگیا پھر وہ اسی طرح التی پالتی مار کر اپنی چٹان پر بیٹھ گیا۔اس نے کھڑکی کھولی اور نور کو دیکھنے لگا ۔نور جہاز کی سیٹ پرسو رہی تھی ۔جہاز کی لائٹس آف تھیں۔زیادہ ترلوگ سو رہے تھے۔ نور کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پربیٹھی تھی اور اس کے ساتھ والی سیٹ پر ایک بوڑھی عورت بیٹھی ہوئی تھی ۔وہ جاگ رہی تھی ۔پیچھے والی دونوں سیٹیں بھی خالی تھیں ۔اچانک آقا قافا پیچھے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔اس نے اگلی سیٹ کی پشت پر بنے ہوئے خانے میں کوئی صاف کاغذ ڈھونڈنے کی کوشش کی ۔اسے ایک لفافہ مل گیا آقا قافا اسے لفافے کو کھول کر کاغذ کی طرح سیدھا گیا۔پھر درمیانی راہداری سے دوسری طرف بیٹھے ہوئے آدمی کی طرف دیکھا اس کے جیب میں پین موجود تھا ۔آقا قافا نے اس سے پین مانگا تو اس نے دے دیا۔ آقا قافا نے اس کاغذ لکھا۔

نور۔۔

تمہارے ریسو کرنے والوں کوعلم ہوچکا ہے کہ تمہارے بیگ میں ہیرے جواہرات ہیں ۔انہوں نے ایئرپورٹ سے نکلتے ہی تم سے تمہارا بیگ چھین لینے کا منصوبہ بنا رکھا ہے ۔میں تمہارے ساتھ موجود ہوں مگر ابھی تمہاری سامنے آکر مدد نہیں کر سکتا۔واسلام ۔آقا قافا“

آقا قا فا نے خط کو تہہ کیا اور نور کے ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون سے کہا ”یہ جب جاگیں یہ خط انہیں دے دیجئے گا “ خاتون نے خط ہاتھ میں لیا نور شاید جاگ رہی تھی اس نے آنکھیں کھولیں اور خاتون کی طرف دیکھا خاتون نے خط نور کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ ”اِنہوں نے یہ خط تمہارے لئے دیا ہے “نور ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا ”کس نے “ عورت نے مڑ کے دیکھا اور کہا ”ایک لمحے پہلے تو یہیں تھا“۔ نور نے تہہ کیا ہواخط کھولا۔اسے پڑھا اور پھر اٹھ کر اپنے بھاری بھرکم بیگ نیچے اتارا۔تمام چیزیں درست تھیں ۔اس نے وہ خط بھی اسی میں رکھ دیا۔اب نورمسلسل جاگ رہی تھی کہ کہیں جہاز میں کوئی اس کا بیگ نہ اٹھا کرلے جائے ۔تھوڑی دیر کے بعد اس نے اپنا پاسپورٹ نکالا ۔ اس سے اپنی تصویر اتاری پھر چادر کے نیچے پاسپورٹ کے ٹکڑے کرنے شروع کئے تاکہ ساتھ بیٹھی ہوئی عورت کو معلوم نہ ہوسکے کہ وہ کیا کررہی ہے وہ سارے ٹکڑے اس نے چادر کے پلو سے باندھ لئے اور اٹھ کر ٹائلٹ کی طرف چل گئی جب واپس آئی تو چادر کے پلو کے ساتھ کچھ بندھا ہوا نہیں تھا۔ یہ چادرپی آئی اے کی طرف سے دی گئی تھی جو تمام مسافروں کو جہاز کا درجہ ءحرارت کم ہونے پر جاتی ہیں ۔آخرکار جہاز لینڈ کر گیا نور اپنا بیگ اٹھائے ہوئے باہر نکلی چلتے چلتے آگے دو لائنیں بن گئیں ۔ایک برٹش پاسپورٹ رکھنے والی کی اور دوسری غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والوں کی۔نور برٹش پاسپورٹ رکھنے والی لائن میں کھڑی ہو گئی جب اس کا نمبر آیا تو نورنے بالکل انگلش سٹائل میں انگریزی بولتے ہوئے کہا ”کہ اس کا پاسپورٹ گم ہوچکا ہے “فوراً سیکورٹی دو لوگ پہنچ گئے اور نور کو ایک کمرے میں لے گئے ۔نور کا انٹرویو شروع ہوگیا

تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم برٹش ہو ۔

نورنے بیگ سے ایک کاغذنکا ل کر انہیں دیا اور کہا۔یہ میرے میرے ابو کے اور میری امی کے پاسپورٹ کی تفصیلات ہیں ۔انٹر ویو لینے والا وہ کاغذ لے کر باہر چلا گیاتقریباً آدھے گھنٹے بعد واپس آیا اور کہنے لگا”تمہاری جو تصویر ہمارے ریکارڈ میں ہے وہ دس سال پرانی ہے ۔اس تصویر سے تجھے پہچاننا مشکل ہے ۔ ہمیں تمہارے انگلیوں کے نشان چاہئیں اور پھر اس نے نور سے اس کی انگلیوں کے نشانات لیے اور باہر چلاگیا۔ ایک گھنٹے کے بعد واپس آیا اور کہنے لگا کہ”یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ تم برٹش ہو لیکن تم نے غیر قانونی طور پرپاسپورٹ کے بغیر سفر کرنے کا جرم کیا ہے ۔اس کے سلسلے میں تمہارے اوپر مقدمہ درج ہوسکتا ہے ۔اگر تم اس سلسلے میں کوئی بہتر دلیل دے سکتی ہو تویہ میرے اختیار میں ہے کہ مقدمہ درج کیا جائے یا نہیں “

نور بولی ”مجھے آپ کو اپنی کہانی سنانے پڑے گی ۔جس کی تصدیق ممکن ہے “وہ بولا ”سنائیے“نور کہنے لگی ۔میری ماں انگلش خاتون تھی۔ وہ میرے باپ نواب انور مان کے ساتھ آکسفورڈ میں پڑھتی تھی۔وہیں دونوں شادی کرلی ۔میں بھی یہیں پیدا ہوئی ۔تقریباً چار سال کے بعد جب تعلیم کرلی تو ہم لوگ اپنی ریاست ”دھن کوٹ چلے گئے ۔ہمارے وہاں پہنچتے ہی میرے دادا کا انتقال ہو گیا اور میرے باپ کو دھن کوٹ کا سربراہ بنادیا گیا ۔پھر میں امی اور ابو کے ساتھ تقریباً ہرسال یہاں آیا کرتی تھی ۔میں جب چودہ سال کی ہوئی تو میری امی بیمار ہوکر فوت ہوگئیں۔اس کے بعد میں برطانیہ نہیں آئی ۔تقریبا چھ ماہ پہلے میرے باپ کو قتل کردیا گیا اور یہ راز مجھے معلوم ہے کہ ان کا قتل ان کے سگے بھائی نے کیا جو اس وقت دھن کوٹ اسٹیٹ کو سربراہ ہے ۔وہ چاہتا تھا کہ میں اس کے بیٹے سے شادی کرلوں مگر جب میں نے انکار تو اس نے مجھے قتل کرانے کی کوشش کی ۔میں خوش قسمتی سے بچ گئی اور اپنے کچھ ہمدردوں کی مدد سے اس وقت یہاں موجود ہوں۔“

اس نے پوچھا ” تم اس وقت کہاں جاﺅ گی “

نور نے کہا ” لیڈز میں میرا ایک دوست ہے ۔ معروف کرکٹر ہے ناصر“

ہاں میں اسے جانتا ہوں “

میں نے اسی کے پاس جانا ہے ، کیا فون پر اس سے میری بات کراسکتے ہیں “

نمبر ہے تمہارے پاس“

نور کوناصر کا نمبر زبانی یاد تھا ۔نور نے نمبر بتادیا اس نے ڈائل کیا اورپوچھا کہ ”کیا آپ مسٹر ناصر بول رہے ہیں “

ناصر نے یس کہا تو اس نے پوچھا ”کیا آپ کسی نور نام کی لڑکی کا انتظار کر رہے ہیں “ تو ناصر بولا” بڑی بے چینی سے “اس نے کہالیجئے ”بات کیجئے “

ناصر نے پوچھا ”تم اس وقت کہاں ہو “ نور بولی

تمہیں علم نہیں

نہیں میرے ساتھ یہ طے ہے کہ ان لوگوں نے آج شام تک تمہیں میرے پاس پہنچا دیناہے “

نور بولی ” میں اس وقت مانچسٹر ائیر پورٹ پرہوں اور میری اطلاعات کے مطابق مجھے ریسو کرنے والے مجھے لوٹنے کا پروگرام بنا کر بیٹھے ہیں “

ناصرنے کہا ”تم جہاں ہو وہیں انتظار کرو۔ میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کے درمیان تمہارے پاس ہونگا“

نور نے فون بندکر اس سے پوچھا ” کیا میں یہاں ایک گھنٹہ ناصر کا انتظار کر سکتی ہوں۔اس انگریز نے اردو میں کہا ”جو تمہیں لوٹنا چاہتے ہیں ۔تم اگر ہماری مدد کرو تو ہم انہیں گرفتار کر سکتے ہیں “

نور بولی ”پہلی خوشی تو آپ کے اردو بولنے پر ہوئی ہے ۔دوسری خوشی اس بات پر ہے کہ وہ لوگ اپنے انجام کو پہنچیں گے “اور پھر تھوڑی دیربعد وہاں پورا جال بچھا دیا گیا جیسے ہی نور باہر آئی تو ایک آدمی ”نور“ کے نام بورڈ اٹھائے کھڑا تھا ۔اس کے پاس گئی اس نے بیگ کی طرف بڑھایانور بولی ”نہیں میرے پاس رہنے دو“نور اُس آدمی کے ساتھ تھوڑا سا چلی تھی کہ پیچھے سے بندہ تیزی سے آیا نور بیگ پر جھپٹا مارا اور آگے کو نکل گیامگر آگے تیار کھڑے تین لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور پھر نور کو ریسو کرنے والے کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔جیسے یہ تمام معاملات مکمل ہوئے تو نور نے دیکھا کہ ناصر بھاگتا ہوا آرہا ہے ۔نور نے ناصر کو گلے لگایا ۔ناصر نے بیگ اٹھا لئے ۔اس اردو بولنے والے انگریز سے نور نے ناصر کا تعارف کرایا اور پھر اس نے نور ایک لیٹر دیا کہ آپ اس لیٹر کے ساتھ اپنا پاسپورٹ اپلائی کریں گی تو فوراً بن جائےگا۔

نور ناصر کی گاڑی میں بیٹھ گئی کار چل پڑی۔ ناصر بولا ”میں آج بہت خوش ہوں نور“نور بولی

تم واقعی عظیم بلے باز ہو۔ تم نے ایسا چھکا مارا ہے کہ خود دھن کوٹ سٹیٹ کی اونچی فصیلوں سے اڑتی ہوئی گیند سات سمندر پار یہاں آگری ہے۔“

نور تم خوش ہو نا“

ہاں میں خوش ہوں اور ایک دن تمہارا احسان ضرور اتاروں گی۔ ہمارے خاندان کی روایت ہے کہ جس نے ہمیں پانی پلایا ہم نے اس کے لیے دودھ کی نہریں بہا دی ہیں“

احسان کیسا۔میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔میری وساطت سے ان فصیلوں سے باہر نکل آئی ہو۔ تم یہ کام میرے بجائے کسی اور سے بھی لے سکتی تھی۔ میں یہ جانتا ہوں۔ تم انٹر نیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی اور ساری دنیا تمہارے سامنے تھی“

یہ کس طرح کی گفتگو شروع کر دی ہے تم نے“

تم نے شروع کی ہے “

اچھا ناصر ۔میں کسی ہوٹل میں ٹھہرنا پسند کروں گی “

ناصر نے حیرت اور پریشانی سے کہا ”کیوں جب میرا گھر موجود ہے تو“

نہیں تم وہاں اکیلے رہتے ہو ۔اگر تمہاری فیملی بھی ساتھ رہتی ہوتی تو اور بات تھی“

خواب خواب ہوتے ہیں آنکھ کھلتی ہے تو ٹوٹ جاتے ہیں “

یہ نہیں ہوسکتا ۔تمہیں میرے ساتھ رہنا ہوگا “

اچھا دیکھتے ہیں تم پہلے کسی ایچ ایس بی سی بنک کے باہر گاڑی روکو“

وہاں کیا کرنا ہے “

بنکوں میں لوگ کیا کرتے ہیں “

اس میں تمہارا اکاونٹ ہے “

ہاں ہے “

یہ کیسے ممکن ہے “

دیکھو تم نے ابھی تک صرف مجھے کمپوٹر کی مانیٹر میں دیکھا ہے ۔ ابھی مجھے سمجھنے کے لیے تمہارا تھوڑا وقت درکار ہے “

نور دیکھ رہی تھی کہ ناصر موبائل فون کی گھنٹی بجتی تھی اور وہ اسے بند کردیتا تھا یہ واقعہ اس تھوڑے سے ٹائم میں کئی مرتبہ ہوچکا تھا نور نے آخر پوچھ لیا“

کیا بات ہے فون کیوں نہیں سنتے “

آج ایک بہت اہم میج ہے ۔جو اس وقت شروع ہونے والا ہے ۔مگر میں وہاںنہیں پہنچ سکتا ۔اس لئے فون سننے کا کیا فائدہ “

کار ایم 62سے اتری اور لیڈز میں داخل ہوگئی ۔تھوڑی دیر کے بعد ایچ ایس بی سی بنک کی ایک برانچ دکھائی دی ناصر نے گاڑی آہستہ کی تو نور نے کہا ”یہاں نہیں۔ کسی بڑی برانچ میں جانا ہے “

ناصر کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہا اسے نوراس کی توقعات کے برعکس ثابت ہورہی تھی ۔کچھ دیر کے بعد ناصر نے ایچ ایس بی سی بنک کی مین برائچ کے باہر کار روکی اور اور نیچے اترنے لگا تو نور کہا ”تم کار میں بیٹھو میں ابھی آئی ۔“نور نے پچھلی سیٹ سے بیگ اٹھایا اور بنک کی عمارت میں داخل ہوگئی ۔ناصر اسے حیرت اور پریشانی سے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔

نور نے اندر جاکر کہا کہ” میں بنک منیجر سے ملنا چاہتی ہوں یا کسی بہت ذمہ دار فرد سے “

اسے ایک اسسٹنٹ منیجر سے ملادیا گیا ۔ نورنے اسے بتایا کہ یہ اس کے اکاونٹ نمبر ہے۔ بچپن میں میرے ماں باپ نے کھلوایا تھااور اس میں خاصی بڑی رقم جمع کرائی تھی ۔بنک منیجر نے اکاونٹ چیک کیا اور پوچھا”آپ کے ماں باپ اس وقت کہاں ہیں “نور نے کہا ”دونوں فوت ہوچکے ہیں ۔“بنک منیجر بولا ”اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ان کے اکاونٹس کی وارث بھی آپ ہیں ۔ میرے ساتھ آئیے ۔“وہ منیجر کے پاس لے گیا ”اور اسے بتانے لگا کہ اس کے اپنے اکاونٹ کے علاوہ اس کے ماں باپ کے اکاونٹس ملینز پونڈ پڑے ہیں “ منیجر بولا۔”اس کا اپنا اکا ونٹ ری اوپن کردو ماں باپ کے اکاونٹس کےلئے انہیں کورٹ جانا پڑےگا ۔“ نور بولی ” میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ میرے بہت ہی قیمتی ہیرے جواہرات ہیں، مجھے انہیں رکھنے کےلئے فوری طور پر ایک لاکر چاہئے ۔“اور پھر آدھے گھنٹے میں نور کے پاس موجود ہیرے جواہرات ایک بڑے لاکر میں منتقل ہوچکے تھے ۔ چند ہیرے نور نے اپنے پاس رکھ لئے تھے ۔ نور جب بنک سے باہر نکلی تو اس نے دیکھا کہ ناصر کار کے پاس کھڑا ہے اور اس چہرے پر غصہ اور پریشانی پھیلے ہوئے ہیں ۔کار میں بیٹھتے ہی ناصر نے کہا ” میں نے سوچا ہے ”تمہیں ہوٹل میں ہی ٹھہرنا چاہئے “ نوربولی ”تھینکس ناصر “تم نے کتنی بڑی پریشانی ختم کردی ہے “

لیکن نور میں اتنا امیر آدمی نہیں کہ تمہیں مسلسل کسی ہوٹل میں ٹھہرا سکوں “ نور بولی ”پیسوں کی پروا مت کر ”میرے اکاونٹ میں ملین پونڈ موجود ہیں ۔ میں نے وہاں تمہارا ایڈریس دیا ہے ۔کارڈ وغیرہ اور بنک سٹیٹمنٹ وہیں آئیں گی ۔ اور ہاںمیں تمہیں آسانی ہاف ملین پونڈدے سکتی ہوں “

تمہارے بیگ میں واقعی ہیرے جواہرات تھے “

ہاں میں وہ بنک کے لاکر میں رکھ آئی ہوں “

میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس میں تمہارا اکاونٹ کیسے کھل سکتا ہے “

ناصر اِس موضوع پر بھی شاید ہمارے درمیان کبھی بات نہیں ہوئی کہ میں ڈوئل نیشنلٹی رکھتی ہوں ۔ میں برٹش ہوں “

مجھے تمہارے بارے میں پھر سے غور کرنا پڑے گا “

اسی لئے میں تمہیں کہا تھا کہ مجھے سمجھنے کےلئے تمہیں تھوڑا وقت چاہیے “

چلو پہلے گھر چلتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کونسا ہوٹل تمہارے لئے موزوں ہے “

اور پھر کچھ دیر کے بعد دونوں ناصر کے بنگلو میں موجود تھے۔ناصرنے نور کی آمد پر اسے بہت خوبصورتی سجایا تھا ۔اس نے نور کو اس کا بیڈروم دکھائے ہوئے کہا ”یہ میں نے خود تمہارے لئے سیٹ کیا ہے ۔“

تمہارے ذوق کی داد دینا پڑے گی“

یہ الماری کھول کر دیکھو“

اوہ تو تم نے میرے کپڑے بھی خرید رکھے ہیں “

میں نے تمہارے ساتھ زندگی گزارنے کی پلانگ کر رکھی ہے“

یہیں مسئلہ خراب ہوجاتا ہے ۔دیکھو ناصر ہم بہت اچھے دوست ہیں۔ رہیں گے مگر میں تمہارے ساتھ شادی نہیں کروں گی “

ناصر بولا ”اللہ نے چاہا تو ایک دن تم خود کہو گی کہ میں نے تمہارے ساتھ شادی کرنی ہے“

چلو دیکھتے ہیں اللہ کیا چاہتا ہے ۔اچھا اس بیڈ کو دیکھ کر مجھے نیند آنے لگی ہے ۔میں دو راتوں کی جاگی ہوئی ہوں ۔ اب تم جاﺅ میں کچھ دیر سولوں “

کچھ کھالو “

نہیں سو کر اٹھوں گی تو دیکھوں گی “

ناصر کمرے سے نکل آیا ۔نور نے دروازہ لاک کیا اور گھوڑے بیچ کر سو گئی ۔آقا قافا نے کھڑکی ختم کردی اور اٹھ کر غار میں چہل قدمی کرنے لگا ۔نور کو مطمئن دیکھ کر آقا قافا بہت خوش تھا ۔آقا قافا کا آج اپنی غار میں دل نہیں لگ رہا تھا ۔مگر اس وقت کلاس میں جانے کا وقت ہو چکا تھا۔بلکہ وہ لیٹ ہو چکا تھا جیسے ہی کلاس پہنچا تو ایک سادھو بڑے سادھو سے پوچھ رہا تھا ’’روح کیا ہے ‘‘ بڑا سادھو بولا ۔’’میرا خیال ہے یہ بات آقافاقا پوچھتے ہیں اور پھر آقا قافا یوں گویا ہوئے ۔

’’یہ بہت بڑا موضوع ہے میں اسلامی نقطہ ء نظر سے روح پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ قرانِ حکیم میں آیا ہے کہ۔’’اے محبوب ! یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ روح کیا ہےتو کہہ دیجئیے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے ‘‘

دو سو بیس قبل میسح کا ایک فلسفی ہے ۔فلوطینس ۔اُس کی فلاسفی کی بنیادپرعیسائیت کی عمارت ابھی تک اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ فلوطینس نے روح کے بارے میں کہا تھاکہ انسانی روح ، روح کل کا زیریں حصہ ہے ۔اس کا تعلق اپنے بالائی حصے کے ساتھ جتنا مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے ، روح اتنی توانا ہوتی چلتی جاتی ہے ۔

یعنی ماضی میں انسانی روح کو واضح طور روح ِ کل کا حصہ سمجھا جاتا تھا ۔اسلام نے اس فلسفے کی مطلقاً نفی کی نہیں ۔بلکہ صاحبانِ عرفان نے اس فلسفے کی تائید فرمائی اور روح کو ایک علحیدہ مخلوق کے طور دیکھا گیا ۔ حضرت علی علیہ اسلام سے جب پوچھا گیا کہ کیا جبرئیل روح ہے تو انہوں نے فرمایا’’نہیں یہ جبرئیل اور میکائیل سے عظیم تر ایک مخلوق ہے‘‘

حدیثِ قدسی میں آتا ہےکہ میں ایک مخفی خزانہ تھا میں نے چاہا کہ پہچاناجائوں پس میں مخلو ق کو پیدا کیا۔اور اس کے بعد نور کے پردےسے قدرت کےدو ہاتھ ظاہر ہوئے۔دایاں ہاتھ اور بایاں ہاتھ۔اللہ تعالی نے باِئَیں ہاتھ کی طرف جلال اور قہربھری نگاہ ڈالی تو اس طرف شیطان کی آگ کی نےجنم لیاپھر بائیں ہاتھ کی طرف اللہ تعالی نے لطف وکرم ، رحمت و شفت اورجمعیت و التفات بھری نگاہ کی تو رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نورِ مقدس ظاہر ہوا۔جو سورج سے کہیں زیادہ روشن تھا۔اس کے بعد اللہ تعالی نے کُن کہا کن کہتے ہی کل اور جزو۔تمام موجودات ومخلوقات کی روحیں درجہ بہ درجہ گروہ در گروہ صف بہ صف اللہ کے حکم سے اسی جانب متوجہ ہوکراپنی جگہ پر ادب کےساتھ کھڑی ہوگئیں۔کیونکہ روح امرحکم ہے۔اس کے بعد اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا۔کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو تمام بہتر و کہتر روحوں نے یک زبان ہو کر کہا۔ہاں بےشک تُو ہمارا رب ہے۔بعض روحوں نے اپنے اس اقرار سے دل میں انکار کیا اور پشیمان ہوئیں۔یہ کافروں کی روحیں تھیں ، مشرکین کی ارواح تھیں۔منافقوں اور جھوٹ لولنے والوں کی روحیں تھیں اور بعض روحیں آوازِالست سن کر خوش اور مسرور ہوئیں۔اس کے بعداللہ تعالی نے فرمایا۔اے روحو۔جو کچھ چاہتی ہو مجھ سے مانگ لو۔میں تمہیں دے دوں گا۔تمام روحوں نے کہا۔اے خداوند ہم تجھ سے تجھ ہی کو مانگتی ہیں اس کے بعد ذاتِ باری تعالی نے بائیں جان سےکافروں کی روحوں کے سامنے دنیا دکھائی۔دولت کی چکاچونداور زینت و آرائش کا دنیاوی تماشا دکھایا تو سب سے پہلے شیطان نفس امارہ کی توفیق سےدنیا اور اس کی نمائش گاہِ میں داخل ہوا۔ وہ جب دنیا میں داخل ہوا تو اس نے سب سے پہلے چوبیس بلند آواز میں بانگیں دیں۔شیطان کی بانگیں اتنی بلند اور اتنی خوش آواز تھیں کہ انہیں ارواح کے نو حصے اس کی طرف چلے گئےاور سلسلہ ء شیطانیت میں داخل ہوگئے۔‘‘

اہل علم سمجھتے ہیں ’’بصیرت روح کی آنکھ ہے ‘‘ اب اس جملے سے روح میں ایک اورحیثیت سامنے آتی ہےکہ وہ جان جو انسان بھی ہوتی ہے اور حیوان میں بھی وہ روح نہیں ہے بلکہ روح وہ ہےجو علم و آگہی سے لبریز ہے ۔ جس کے وجود کی آنکھ انسانی بصیرت ہے۔یہی وہ روح ہے جو اللہ ہے وگرنہ تو باقی اشیاء بھی اللہ کے حکم سے وجود میں آئی ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ ’’روح مخلوقاتِ خدا میں سے ہے ۔روح کی ماہیت کو سمجھنے کےلئے دیکھنا ہوگاکہ کیا روح کسی لحاظ سے تقسیم ہوسکتی ہے۔کیا روح کےلئے مکانی یا زمانی فاصلے کی حیثیت ہے۔کیا روح کو مکان یعنی جسم کی ضرورت ہے

کیا روح منتشر ہو یا یکجا وہ کسی اور چیز میں قید ہو سکتی ہے۔کیا اس کے استحکام کےلئے کسی مادی بنیاد کی ضرورت ہے ۔کیا وہ ہمیشہ سے غیر تقسیم شدہ ہے اورتمام متعلقہ ہستیوں میں مشترک ہے

لغت کے اعتبارسے ”روح“ کے معنی دیکھے جائیں تو ”روح“ ”نفس“ اور ”دوڑنے“ کے مفہوم میں ہے، بعض لغات میں یہ بھی کہا گیا ہے ”روح“ اور ”ریح“ (ہوا) ایک ہی معنی سے مشتق ہیں اور روح ِ انسان جو مستقل اور مجرد گوہر ہے اسے یہ نام سے اس لئے دیاکیا گیا کہ یہ تحرک، حیات آفرینی اور ظاہر نہ ہونے کے لحاظ سے نفس اور ہوا جیسی ہے۔مگر مفہوم کے اعتبار سے نفس اور روح آپس میں متضاد ہیں

روح زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے ۔خلقتِ آدم سے متعلق آیات میں بیان ہوا ہے

اس کے بعد اسے برابر کرکے اس میں اپنی روح پھونک دی ہے“۔

اس سے مراد یہ ہے کہ خدا نے انسانوں کو ایک عظیم اور الٰہی مقدس روح بخشی ہےکہ یہ وہی عظیم روح ہےجو انسان کو حیوانات سے جُدا کرتی ہے

مادہ پرست روح کو مادی اور دماغ کے مادی خواص اور نسوں کے خلیے (Nerve Calls) میں سمجھتے ہیں اس کے علاوہ ان کی نظر میں روح کچھ نہیں ہے، ہم یہاں زیادہ تر اسی نکتے پر بحث کریں گے بقائے روح کی بحث اور تجرد کامل یا تجرد مکتبی کی گفتگو کا انحصار اسی مسئلے پر ہے، لیکن پہلے اس نکتہ کا ذکر ضروری ہے کہ انسانی بدن سے روح کا تعلق ایسا نہیں ہے جیسا کہ بعض نے گمان کررکھا ہے، روح نے بدن میں حلول نہیں کررکھا ہے اور نہ یہ مشک میں ہوا کی طرح انسانی جسم میں موجود ہے بلکہ بدن اور روح کے مابین ایک قسم کا ارتباط ہے اور یہ ارتباط روح کی بدن پر حاکمیت، تصرف اور اس کی تدبیر کی بنیاد پر ہے، بعض افراد نے اس ارتباط کو لفظ اور معنی کے مابین تعلق سے تشبیہ دی ہے، جبکہ ہم استقلال روح کے مسئلہ میں بحث کریں گے تو یہ بات بھی واضح ہوجائے گی۔ مگر میرے نزدیک روح ازورائے عقل و نقل بے مثل و بے مانند اور بے نظیر و بے نمونہ ہے۔ ‘‘

اور بڑے سادھو نے کلاس کے اختتام کا اعلان کردیا ۔ آقا قافا واپس اپنی غار میں آگیا

غار میں داخل ہوتے ہی اسے نور یاد آگئی ۔ نور اسے بھولتی ہی نہیں تھی۔وہ بار بار سوچتا تھا کہ دیکھے کہ نور سے تعلق رکھنے والے لوگ اب کیا کر رہے ہیں۔اس نے سوچا کہ نواب منور خان کو دیکھا جائے ۔پھر مصور مان کا خیال آیا ۔پھر اسے نارو اور اسکا ساتھی ملازم بھی یاد آئے ۔پھر وہ سردار قراقرم کے بارے سوچنے لگا۔پھر ذہن میں کرکٹ میچ لہرا گیا ۔مسٹر کے کے یاد آیا ۔پھر ارم ،ارقم اور مسٹرران کا خیال آیا۔اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے یہ سارے کردار اس کی زندگی کا حصہ ہیں۔اسے دنیا اچھی لگنے لگی تھی۔

آقا قافا جاکر چٹان پر بیٹھ گیا اور لائن میں کھڑکیاں کھولتا چلا گیا ۔

پہلی کھڑکی میں اس نے دیکھا ارم اور ارقم اپنے لیونگ روم میں تھے ارقم کہہ رہا تھا

ارم ناصرسے نہ ملا جائے “

مل لیتے ہیں۔ تم تونور سے ملنا چاہتے ہونا‘

نور سے ملنا نہیں چاہتا ، اسے بس دیکھنا چاھتا ہوں“

دیکھنا چاہتے ہو میںسمجھی نہیں“

میں نے اسے نہیں دیکھا ہوا۔ جو باتیں میں نے تمھیں اس کے متعلق بتائی ہیں،وہ ساری سنی ہوئی تھیں“

ایک جگہ پر رہ کربھی تم نے اسے نہیں دیکھا“

وہاں کی اپنی روایات ہیں کوئی غیر مرد وہاں کسی عورت کو نہیں دیکھ سکتا ، عورتیں پردہ کرتی ہیں“

پھر تو نور سے تمہاری ملاقات دلچسپ ہوگی’“

اتنے میں مسٹرران داخل ہوئے اوروہی بھرپور قہقہہ لگا کر کہا)

میں سوچ رہا ہوںنور اور ناصر کی دعوت کی جائے۔ آخران دونوں کی وجہ سے مجھے لاکھوں پونڈ جیتنے کا موقع ملا ہے“

لیکن وہ میچ کھیلنے ہی نہیں گیا “ارم نے کہا

اس کا نہ کھیلنا ہی تو اس کی ٹیم کے ہارنے کاسبب بنا ہے “

آپ نے میچ پر کتنے پونڈ لگائے تھے “ارقم نے پوچھا

جب تم گیمبلنگ شروع کرو گے تو بتاﺅں گا“

ارم بولی” گرینڈ ڈیڈہم ادھر جانے کا پروگرام بنا رہے ہےں آپ چلنا چاہیں تو چلیں ہمارے ساتھ “

نہیں۔ تم لوگ دعوت دو۔۔ بل میں ادا کروں گا (قہقہہ) سناہے پرسوںدونوں کی انگیجمنٹ سرمنی ہے۔“

آقا قافا نے نواب منور مان کی کھڑکی کی طرف دھیان دیا

نواب منور مان کوملازم کہہ رہا تھا

حضور ۔ چھوٹے سرکار قید خانے سے فرار ہو گئے ہیں۔

کس نے غداری کی ہے“

ارشاد نے جی اور وہ بھی ان کے ساتھ بھاگ گیا ہے“

تلاش کرو نوابزادہ مصور کواور اسے پیغام دوکہ اس کے باپ نے اسے ۔ معاف کر دیا ہے۔ وہ واپس آجائے۔۔ اسکی ہر بات مان لی جائے گی۔“

آقا قافا نے مصور مان کی کھڑکی پر غور کیا تو وہ اس وقت کسی بزرگ کی درگاہ کے باہر بیٹھا ہوا تھااور ایک آدمی سے کہہ رہا تھا

یہ دو لاکھ اٹھا لو اور جہاں جی چاہے چلے جاﺅ۔بس مجھے اب تنہا چھوڑ دو۔“

نہیں چھوٹے سرکار، آپ مجھ پر اتنا ظلم مت کیجیے، مجھے خود سے دور مت کیجیے۔ مجھے نہیں چاہیے یہ دو لاکھ روپے۔“

تم مرے ساتھ کہاں دھکے کھاتے پھرو گے؟“

اللہ نہ کرے آپ دھکے کھائیں۔ آپ جہاں جائیں گے مےں آپ کے ساتھ جاﺅں گا ۔ اب میری زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں رہا۔“

میں انسانوں میں نہیں رہنا چاہتا۔ میں جنگلوں کی راہ لینا چاہتا ہوں۔مجھے سکون کی تلاش ہے،میں خدا کو ڈھونڈنا چاہتا ہوں۔ اس سفر میں پتہ نہیں میں اپنا بوجھ بھی سہار سکوں یا نہیں ، تمہارابوجھ کیسے اٹھاﺅں گا؟“

حضور میں دھن کوٹ وہاں واپس نہیں جا سکتا ۔ نواب صاحب مجھے گولی مروا دیں گے ۔اب اس دنیا میں آپ کے سوا میرا کون ہے؟ میں آپ کے ساتھ ہوں۔“

تم میرے ساتھ بھٹکو گے۔“

اب جینا یا مرنا آپ کے لیے چھوٹے سرکار۔“

مت کہو مجھے چھوٹے سرکار، میرا نام مصور ہے، اگر مرے ساتھ رہنا ہے تو پھر تم مجھے مصور ہی کہو گے۔

اپ اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دیں،آپ جو کہیں گے وہیں کروں گا“

ٹھیک ہے ، آئندہ مجھے آپ نہیں کہنا تم نے تم کہہ کر مخاطب کرنا ہے۔“

: بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے آپ نے ، تم نے۔“

رفتہ رفتہ عادت پڑ جائے گی،جاﺅ سب سے پہلے یہ دو لاکھ روپے غریبوں میں تقسیم کرکے آﺅ۔“

اچھا جی“

اور ہاں باقی بنک میں باقی جتنے پیسے بچے ہےں وہ بھی نکلوا کر غریبوں میں تقسیم کر دو۔ تا کہ اس گندگی سے جان چھوٹ جائے لاﺅ چیک بک ۔میںدستخط کردوں۔“

مصورنے اس سے چیک بک لے کرایک چیک پر دستخط کر کے اسے دے دئیے۔ وہ دو لاکھ روپے اٹھا کر چلا گیا۔مصور اس فقیر کی طرف متوجہ ہوگیا جو تمبورے پر گا رہا تھا۔

سجنا اساں موریوں لنگھ پیوسے

بھلا ہویا گڑ مکھیاں کھادا اساں بھن بھن توں چھٹیوسے

ڈھنڈ پرائی کتیاں لکی، اساں سر نہ منہ دھتوسے

کہے حسین فقیر نمانڑاںاساں ٹپن ٹپ نکلو سے

سجناں اساں موریوں لنگھ پیوسے

آقا قافا کو آج مصور مان بہت اچھا لگا اس نے سوچا کہ اس راستے پر اس کی مدد کرنی چاہئے اور پھر آقا قافاارقم کی کھڑکی کی طرف توجہ د ی ۔ارم اور ارقم ایک کار میں جا رہے تھے ارم نے کار چلاتے ہوئے ارقم سے پوچھا

٬ اب کیا خیال ہے تمہارا ، نور تو ناصر کے ساتھ شادی کر رہاہے“

جب شادی ہو جائےگی پھر میں مانوں گا“

”’تم سن نہیں رہے تھے گرینڈ ڈیڈ کہ رہے تھے کہ پرسوں ان دونوں کی انگیجمنٹ سرمنی ہے۔“

انگیجمنٹ سر۔۔۔منی بھلا کیا ہوا“

””منگنی کی تقریب ۔۔ یہ بتاﺅ۔میں تمہیں کیسی لگتی ہوں“

منگنی کی تقریب سے بات تم تک کیسے آگئی“

منگنی “ کا تعلق ایک دوسرے کے چاہنے اور لگنے سے ہوتا ہے“

تم مجھے اچھی لگتی ہو“

تم بھی مجھے اچھے لگتے ہو“

تو بتاو۔۔۔ پھر کیا کیا جائے“

(قہقہہ لگا کر)”انگیجمنٹ سرمنی“

اور ارقم شرما گیا۔ارم نے کار ناصر کے بنگلو کے سامنے روکی ۔دونوں اترے ،ارم نے بیل بجائی مگر جواب ندارد۔دو تین مرتبہ بیل کی مگر کوئی جواب نہ آیا۔ارم بولی

میرا خیال ہے گھر پر نہیں ہیں “

دونوں واپس کار میں بیٹھنے لگے تو نیند سے جاگی ہوئی نور نے دروازہ کھولا۔ارم بولی

سوری ہم نے آپ کو ڈسٹرب کیا ہے ۔“نور نے کہا

ناصرصاحب موجود نہیں ہیں“

آپ نور ہیں نا“

جی مجھے نو ر کہتے ہیں“

میں ارم ہوں اور یہ ارقم ہیں ہم آپ سے ملنے آئے ہیں“

آجائیے اندر“

مسٹر ناصر ہمارے بہت اچھے فیملی فرینڈ ہیں، ایک عرصہ سے ہم ان سے آپ کا ذکر سنتے چلے آرہے ہیں۔ آپ سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا “

آپ دونوں“

ارم نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا ”ابھی صرف دوست ہیں۔سردار ارقم کا تعلق بھی آپ کے علا قہ سے ہے“

آپ کہاں کے رہنے والے ہیں“

دھن کوٹ کا‘

کس کے بیٹے ہیں“

قراقرم خان“

نورنے عجیب نظروں سے ارقم کو دیکھاتوارم بولی

آپ شاید پریشان ہو گئی ہیں۔۔ مسٹر ارقم بڑے اچھے نوجوان ہیں“

مجھے افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ میں انہیں اچھا نہیں سمجھتی ۔۔۔ آپ انہیں لے جائیے یہاں سے“

ارقم کہنے لگا”چھوٹی مالکن۔۔ میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں۔ جہاںتک رشتہ مانگنے کی بات ہے۔تو اس میں میری کوئی خواہش نہیں تھی ،وہ بابا کی خواہش تھی۔ میں تو ارم کے ساتھ بہت جلد شادی کرنے والا ہوں“

چلیں بیٹھیں۔آپ لوگ کیا پئیں گے“نور نے رویہ بدلتے ہوئے کہا

دونوں بیٹھ گئے تو نور نے ارقم سے پوچھا

کیا تم میرے یہاں آنے کی اطلاع اپنے ابوکو دے چکے ہو “

نہیں ابھی نہیں بتایا ۔میں نے سوچا تھا کہ اگر آپ نے اجازت دی تو انہیں بتادوں گا“

یہ اچھا کیا ہے ۔ابھی کچھ دن میں نہیں چاہتی کہ وہاں کسی کو اس بات کا علم ہو کہ میں برطانیہ پہنچ گئی ہوں “

اتنی دیر میں ناصر بھی آگیا ۔کہنے لگا

اچھا ہوا تم لوگ آگئے ۔“

ارم بولی ”ہم تو رات کے ڈنر کی دعوت دینے آئے ہیں۔ وہ گرینڈ ڈیڈ کہ رہے تھے کہ پرسوں فنکشن ہے

نور بولی ”کیسا فنکشن“ناصر بولا

میں نے تمہاری آمد پر ایک تقریب رکھی تھی مگر اب اسے ملتوی کردیاہے “

آقاقافا نے یک دم ساری کھڑکیاں ختم کردیں اور پھر چٹان پر التی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور مراقبے میں جانے کا سوچا مگر اس نے اپنے اندر بے چینی سی محسوس کی اسے یاد آیا کہ وہ پیر صاحب کو مکہ چھوڑ آیا تھا ۔اس نے کھڑکی کھولی تو پیر صاحب ایک کمرے میں نماز جائے نماز بیٹھے ہوئے تھے اور کوئی نہیں تھا۔آقا قافا فوراً وہاں پہنچ گیا۔ پیر صاحب اٹھے آقا قافا نے کہا ”آنکھیں بند کیجئے “اور پھر جب پیر صاحب نے آنکھیں کھولیںتو وہ اپنے بیڈروم میں تھے ۔آقا قافا نے ان سے اجازت مانگی تو پیر صاحب نے کہا

اتنا تو بتاتے جاﺅ یہ سب کیا تھا “

کیا کیا تھا “

یہ میرا بیڈ روم تمہاری غار میں کیسے پہنچ گیا تھا“

جیسے تختِ بلقیس سلیمان علیہ اسلام کے دربار میں پہنچ گیا تھا پلک جھپکنے سے پہلے “

پیر صاحب کچھ اور پوچھنے لگے تھے مگر آقا قافا نے انہیں بات کرنے کا موقع نہ دیا اور کہا ”ابھی میں ذرا جلدی میں ہوں اللہ نے چاہاتو آپ سے دوبارہ ملاقات ہوگی “ اوروہ واپس غار میں آگیا۔کلاس کا وقت ہوگیا تھا آقا قافا بڑے سادھو کے پاس پہنچ گیا۔بڑے سادھو کی گفتگو شروع ہوچکی تھی آج اس کا موضوع کیمسٹری اور فزکس تھا ۔جب سادھو بابا کی گفتگو مکمل ہوئی تو آقا قافا نے کہا’’سادھو بابا سائنس اس وقت اسے کہیں آگے بڑ ھ چکی ہے ۔خاص طور پر فزکس میں ‘‘سادھو بابا نے کہا ’’مجھے بہت خوشی ہوگی تم میری معلومات میں اضافہ کرو ۔آقاقافا نے گفتگو شروع کی اور سادھووں سے مخاطب ہوا ۔اس نے اس طرح طاہر کیا جیسے سادھو بابا سے کچھ نہیں رہا ۔

’’کبھی تم نے کوانٹم انٹینگلمنٹ کانام سنا ہے۔یقینانہیں سنا ہوگا۔کوانٹم میکانکس میں کوانٹم انٹینگلمنٹ اس صورت حال کو كہتے ہیں جب دو پارٹیکلز ایک دوسرے کے ساتھ ایسا جسمانی جوڑا بنا لیں کہ ان کو الگ کرنے پر بھی ان دونوں کی صورت میں ایک کوانٹم تعلق برقرار رہے. اگر ان میں سے ایک پارٹیکل کی کسی كوانٹم خصوصیت کو بدلا جائے تو دوسری چیز عین اسی لمحے اس سے برعکس خصوصیت اختیار کر لیتی ہے. مثلا اگر دو الیكٹرانوں میں کوانٹم انٹینگلمنٹ پیدا کر کے انہیں ایک دوسرے سے ميلوں دور کر دیا جائے اور پھر ان میں سے ایک کو ایک رخ پر گھمایا جائے تو دوسرے کا گھماؤ عین اسی لمحے اس کے برعکس ہو جائے گا

سائنس یہ ثابت کر چکی ہے کے کسی الیکٹران میں اس وقت تک سپن یقینی نہیں ہوتا جب تک اس کا مشاہدہ نہ کیا جائے. اس کا مطلب یہ ہوا کے کسی نامعلوم عمل کے ذریعہ دوسرے الیکٹران کو معلوم ہو جاتا ہے کہ پہلے الیکٹران پر اسپن کا مشاہدہ کیا گیا ہے.

یعنی کسی تیسرے کردار کے دیکھتے سے دو کردار میں عمل شروع ہوتا ہے۔مثال طور پرمیں الیکڑان بھی ہوں پروٹان بھی ہوں نیوٹران بھی ہوں اورتین سمتوں میں رواں رواں بھی ہوں ۔ موجودگی اور غیر موجودگی کے ہر شعبہ میں مسلسل چل رہا ہوں اور شاید ہمیشہ چلتا رہوں گا۔‘‘

آقا قافا نے بڑی سادھو سے مخاطب ہوکر کہا ’’بابایہ صرف کچھ میں نے اپنے کھوجنے کے دوران پڑھا ہے ۔‘‘سادھو بابا نے پریشان ہو کرکہا’’۔تجھے اس بات کا کیسے احساس ہوا کہ تیرا کوئی اور حصہ بھی ہے ‘‘ آقافاقا بولا ۔’’بابا مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسےمیں مثلث ہوں ۔جوتخلیقِ آدم سے پہلے وجود میں آئی تھی ۔یعنی خدا ، ابلیس اورمیں ۔یہ مثلث کہاں نہیں موجود۔حتیٰ کہ عدم اور وجود کے درمیان بھی ایک تیسری شے کا گمان موجود ہے ۔یہ تیسری چیزایک باریک سے پیازی پردہ ہے جو عدم کو وجودآمیز عدم میں تبدیل کرتا ہے اور وجود کوعدم آمیز وجود میں بدلتا ہے بالکل اسی طرح کا پیازی پردہ جو روشنی اور اندھیرے کے درمیان ہوا کرتا ہے جس سے تاریکی، روشن تاریکی میں بدلتی ہے اور روشنی، تاریکی آمیزروشنی میں تبدیل ہوتی ہے۔ایک مثلث جہانِ فانی ،موت اور جہانِ جادوانی کی بھی ہے۔جنت اور دوزخ کے درمیان ایک تیسرے مقام کی موجودگی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ، ایک تثلیث کائناتِ خارجی ، کائنات ِ باطنی اور آدمی کے درمیان بھی موجود ہے ،ہندو مت میں تری مورتی کے بھی تین جزو ہیں براھما،وشنو اور شو۔براھما تخلیق کا خدا ہے ، وشنوربوبیت اوررحمت کی صفات رکھتا ہے اور شوجبروتی اور قہاری صفات کا حامل ہے اور یوم آخرت کا مالک ہے ۔شو کی بھی آگے تین شکلیں بیان کی جاتی ہیںگنیش،کالی اور بھولے ناتھ۔اسی طرح عیسائیت بھی نظریہ تثلیت پر قائم ہے۔ایک مثلث بحر اوقیانوس میں بھی ہے، جس کے اسرار کو ابھی سائنس نہیں جان سکی یہ ایک مقام ہے جہاں بے شمار بحری اور فضائی جہاز غائب ہو چکے ہیں اسے مثلث برمودا کہتے ہیں ۔بہت سی مثلیں اور بھی ایسی موجود ہیں جنہیں ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہیں سمجھ سکتے ۔زندگی مثلثوں کی ایک بستی ہے جہاں ہر مکان کے تین کواڑ ہوتے ہیں ،

مجھے لگتا ہے کہ میں زندگی کے ادھورے سچ کو پوری طرح بیان کرنے کی ایک سائینسی کوشش ہوں۔ میں سچ ہوں اور نہیں بھی ہوں۔میں موجود بھی ہوں اور نہیں بھی ہوں ۔میں ایک تاریخ بھی ہے اور حال کی سرگزشت بھی ہے مستقبل کا ایک قصہ بھی ہے میرے متعلق کوئی بات بھی حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی کیونکہ میں زندگی ہوں اورزندگی شے ہی ایسی ہے ممکن ہیں ہم وجود رکھتے ہیں اور ممکن ہے یہ صرف ایک خواب ہوجس میں ہم رہ رہے ہیں۔کیا خبر کہ یہ کائنات ایک ساحراعظم کا کوئی معمولی سا کرشمہ ہے یا واقعی ایک ہمیشہ رہنے والی حقیقت۔

میرےہزاروں کردار ہیں ۔ان کی تعداد اتنی زیادہ اس لیے ہے کہ میں نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے ۔ ہزاروں کرداروں میں سانس لیا ہے ۔وہ کردار جو صدیوں پہلے مر گئے تھے وہ بھی میرے ہی کردار تھے ۔میں زندہ ہوں تو وہ بھی زندہ ہیں ۔۔ہاں! زندگی کی شکلیں بدلتی رہتی ہے۔فنا دراصل شکل بدلنے کو کہتے ہیں ۔موت یا فنا عدم کا نام نہیں ۔ ‘‘

آقا قافاکی گفتگو جیسے جیسے لمبی ہوتی گئی ۔سادھو بابا مطمئن ہوتے گئے۔ اور انہوں نے کہا ’’ میرا خیال ہے وہ وقت آگیا ہے ۔جب تمہیں اپنے دوسری پارٹیکل کی طرف روانہ ہونا ہے ۔تم نے اس دن کہا تھا کہ نا میری دلچسپی دنیا سے بڑھتی جارہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے جب تمہیں دنیا میں رہنا ہے ‘‘سادھو بابا یہ کہہ کر خاموش ہو گیااس نے اپنےسامنے رکھی ہوئی کتاب کھولی ۔اسے دیکھتا رہا۔کچھ دیر کے بعد بڑا سادھو اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے ایک طرف دیوار پر ہاتھ ماراتو ایک تابوت جتنی چٹان باہر آگئی جو اندر سے خالی تھی ۔ بڑے سادھونے آقا قافا سے کہا ”اس میں لیٹ جاﺅ اور سانس روک لو۔دنیا میں جانے سے پہلے ضروری ہے کہ تم نے حبس دم کی لمبی مشق مکمل کر لی ہو“آقا قافا کسی روبوٹ کی طرح چلتا ہواچٹان پرلیٹ گیا۔چٹان والا تابوت پھر غار کی دیوار میں چلا گیا۔کئی گھنٹے آقا قافا سانس روک کر وہاں پڑا رہا۔ پھر اس نے کوشش کی کہ جسم کو یہیں چھوڑ کر میں باہر نکل جاﺅںمگر ناکام رہا۔ پھر اس نے جسم سمیت کہیں اور جانے کی کوشش کی مگروہ بارور ثابت نہ ہوئی ۔آقا قافانے اسمِ اللہ کا ورد شروع کردیا اور ذہن کو اسم اللہ ذات پر مرتکز کردیا ۔رفتہ رفتہ پتھر کے تابوت میں اجالا پھیلنے لگا پھر اجالا اتنا بڑھا کہ تابوت گم ہوگیا ۔آہستہ آہستہ ایک ایسا وقت آیا کہ آقا قافا کو یوں محسوس ہونے لگا کہ وہ نور کے بےکران میدان موجود ہے اور خود بھی نور ہے ۔اب اس کے پاس وقت کا تصور ختم ہوچکا تھا ۔پتہ نہیں کتنا عرصہ گزر گیا تو اسے ایک آواز سنائی دے اور خیال آیا کہ یہ آواز سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ کی ہے ۔انہوں نے کہا ”جا تجھے بلایا جارہا ہے “

اور پھر آہستہ آہستہ نور ختم ہوتا گیا گہری تاریکی میں اسی تابوت کا احساس ہونے لگا۔پھر آقا قافا نے محسوس کیا کہ تابوت حرکت کر رہا ہے اورتابوت دیوار سے باہر آگیا تھا۔آقا قافا کی نظر بڑے سادھو پر پڑی ۔وہ تابوت کے قریب آئے اور آقا قافا کواٹھانے کےلئے تابوت پر جھکے تو آقا قافا بولا”سادھو بابا ”میں خود اٹھ جاتا ہوں “ اور آقا قافا اٹھ کر تابوت سے باہر آگیا ۔باہر کچھ اور سادھو بھی موجود تھے۔ سادھو باباسمیت تمام سادھو بڑی حیرت اور پریشانی سے آقا قافا کودیکھ رہے تھے۔آقا قافا نے بڑے سادھو سے پوچھا ”میں نے اس تابوت میں کتنا عرصہ گزارا ہے “وہ بولے ”چالیس دن “

ٓایک سادھو نے آکر آقا قافا کی جلد کو ہاتھ لگا کر دیکھا۔پھر اس کے ناخنوں کو غور سے دیکھااور کہا

یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے چالیس دن اس دیوار میں گزارے ہیں نہ تو اس کی جلد کی نرمی میں کوئی فرق آیا ہے نہ ہی اس کے ناخن بڑے ہوئے ہیں ۔“

بڑا سادھو بولا ” میں خود حیران ہوں “

آقا قافا نے دیکھا کہ غار میں ایک چٹان میز کی طرح ابھری ہوئی تھی۔اس کے اردگرد زخموں پر لگانے والی مرہم ایک برتن میں پڑی تھی۔بڑے سادھو نے آقا قافا سے کہا ” پہلی بار چالیس دن تک حبس دم کا مظاہرہ کرنے والوں کو جب باہر نکالنے کے بعد اپنے پاﺅں پرکھڑا کرنے کےلئے کئی دن تک ان کے جسموں پرہری بوٹی کی مرہم کا لگانانا پڑتا ہے۔تمام جسم پر شیر کی چربی کے تیل سے مالشیں کرنا پڑتی ہے مگرتم بالکل ایسے باہر آئے ہو جیسے ابھی اندر گئے تھے ۔اس کی وجہ بتا سکتے ہو“

آقا قافابولا ”میں نے ذہن کو صرف اسم اللہ ذات پر مرتکز رکھا ہے ۔“

سادھو بابانے آقا قافا سے کہا ”جو کچھ ممکن تھا میرے لئے وہ میںنے تمہارے لئے کیا ہے ۔اب تمہارے زندگی دوسرا دور شروع ہورہا ہے ۔اس کےلئے میں سات سمندر پاربھیج رہا ہوں ۔تمہارا اصل موجود ہے ۔جس سے مل کر تم نے مکمل ہونا ہے ۔۔بہر حال یہ یاد رکھنا کہ یہ غار تمہاری واپسی کا انتظار کریں گے “

میں وہاں کہاں جاﺅں گا“

تم برطانیہ جاﺅ گے ۔وہاںمان رام تمہارے میزبان ہونگے۔“

اس کے بعد بڑے سادھو نے کوئی خاص قسم کی غذاآقا قافا کو کھلائی اور مشروب پلایا۔باقی تمام سادھو چلے گئے ۔کچھ دیر کے بعد آقا قافا سادھو باباکے ساتھ لندن کے بہت بڑے محل میں مان رام کے پاس موجود تھے ۔ سادھوبابا نے مان رام سے کہا ”یہ آقا قافا ہے یہ سمجھ لو کہ میں تمہارے پاس اپنے بیٹے کو چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔اسے وہ تمام سہولیات حاصل ہونے چاہئیں جو تمہارے بیٹوں کو حاصل ہیں ۔مان رام بولا ”میں بڑی شدت سے آپ کی ضرورت محسوس کر رہا تھا بھگوان کا شکر ہے کہ آپ آگئے ۔میرے لئے یہی بہت بڑی بات ہے ۔ٹھہرئیے۔پہلے میں آقا قافا کو صنم کے حوالے کردوں ، مان رام نے بٹن دبایا ایک بہت خوبصورت لڑکی اندر داخل ہوئی ۔ مان رام نے آقا قافا سے کہا ”یہ صنم ہے میری سیکریٹر ی ہے ۔ “اور پھر صنم سے بولا ”یہ آقا قافا ہے ۔میں تیسرا بیٹا۔اسے ساتھ لے جاﺅ۔ہماری ملاقات رات کے کھانے پر ہوگی۔ اس وقت یہ ہمارے جیسا ہو جانا چاہئے ۔یہ اب تمہاری ذمہ داری ہے ۔“آقا قافا صنم کے ساتھ کمرے سے باہر آگیا۔پھر چند گھنٹوں بعد آقا قافا برطانوی باشندہ لگ رہا تھا۔آقا قافا نے پہلی شیو کرائی ۔داڑھی کے بغیر اسے اپنا چہرہ اجنبی اجنبی لگ رہا تھا ۔ مونچھیں اس نے نہیں کاٹنے دی تھیں ۔ اس نے آرمانی کا سوٹ پہن رکھا تھا۔مہنگی ترین ٹائی لگا رکھی تھی۔انتہائی قیمتی گھڑی باندھی ہوئی تھی ۔اسے گوچی کی عینک پسند آئی تھی ۔اس کےلئے صنم نے ہیرالڈ میںیوں شاپنگ کی تھی جیسے آقا قافا کوئی عرب شہزادہ ہو۔ایک انتہائی مہنگا موبائل فون اس کے ہاتھ میں تھا ۔جس میں صنم نے تمام ضروری نمبرز فیڈ کردئیے تھے آقا قافا آئینہ کے سامنے کھڑا ہو کر خود کو دیکھ رہا تھا ۔اسے اپنا آپ اچھا لگ رہا تھا اس کے جی میں آیا کہ میںنور کے سامنے جاﺅں۔پھر خیال آیا کہ چالیس دن گزار چکے ہیں پتہ نہیں نور کن حالات میں ہوگی ۔اس نے صنم سے پوچھا

میں نے قیام کہاں کرنا ہے ۔میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں ۔ اب تم میرے لئے باقی خریداری خود کرتی رہنا “

وہ مجھے ہائیڈپارک کے پاس مینڈرن اورینٹل ہوٹل کے ایک سویٹ میں لے گئی ۔آقا قافا کو وہ سوویٹ دیکھ کر خیال آیا کہ یہاں یقینا بادشاہ قیام کرتے ہونگے ۔اس نے صنم سے پوچھا

کیامیں نے یہیں قیام کرنا ہے “

یہ آپ کی اپنی پسند ہے ۔ہمارے پاس رہائش کےلئے سب بہتر جگہ یہی ہے “

صنم آقا قافا کو وہاں چھوڑ کر چلی گئی ۔ آقا قافا نے نور کا تصور کیا اور کھڑکی کھولی۔

نور اور ناصر دکھائی دئیے ۔ نور کہہ رہی تھی

میں یہ زیورات نہیں پہنتی ۔ مجھے یہ اچھے نہیں لگتے۔“

اب تو میں لے آیا ہوں ۔ اب انہیں رکھ لو“

رکھنے کا کیا فائدہ۔ جب انہیں پہننا ہی نہیں ہیں“

بس آج شام والی تقریب میں پہن لینا “

اسی لمحے وہاں ارم ارقم بھی آگئے ۔ارم نے ہنس کر کہا

اس تقریب کےلئے میں اسے خود تیار کروں گی“

اتنی کیا اہمیت ہے اس تقریب کی “

ناصر بولا ”آخر تمہارے اعزاز میں ہورہی ہے “

ارم کے موبائل کی گھنٹی بجی ۔”اس نے ہیلو کہا اور پھرناصر سے پوچھا۔“اُس جگہ کا ایڈریس کیا ہے جہاں تقریب ہے “ ۔ ناصر نے ایڈریس بتایا اور ارم موبائل پر کسی کو بتانے لگے ۔ایڈریس آقا قافا نے بھی نوٹ کرلیا۔آقا قافا کے جی میں آیا کہ آج اسے بھی اس تقریب جانا چاہئے “اس نے موبائل سے صنم سے کال ملائی اور کہا ”مجھے لیڈز پہنچا ہے ۔ کوئی اچھی کار بھی چاہئے “

صنم بولی ”لیموزین “

نہیں فراری “ میں نے خود ڈرائیو کرنا ہے “

آپ وہاں کتنے بجے پہنچنا چاہتے ہیں ۔“

پانچ بجے

بریڈ فورڈمیں مان ہاﺅس ہے، وہاں فراری بھی موجود ہے ۔بریڈفورڈ سے لیڈز سے دس پندرہ منٹ کی ڈرائیو ہے مگر اس وقت تین بج رہے ہیں۔پلین یا ہیلی کاپٹر سے پانچ بجے سے پہلے پہنچا جاسکتا ہے “

آقا قافاکہنے لگا تھاکہ میں وہاں پہنچ جاﺅںگا مگرپھر خیال ہے کہ اس طرح تو اس کی شخصیت پہلے دن ہی پراسرار بن جائے گی ۔آقا قافا بولا ” جیسے تم بہتر سمجھو“

صنم بولی ”اچھا میں آرہی ہوں ۔آپ تیار رہیے بس ابھی نکلنا ہوگا “

پھر تھوڑی کے بعد آقا قافا صنم کے ساتھ ایک ہیلی پیڈ پر پہنچا وہاں سے دونوں ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے۔تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہیلی کاپٹر ایک بڑے محل نما مکان کے ہیلی پیڈ پر اترا ۔پھر وہ صنم کے ساتھ مکان کے اندر آگیا ۔ صنم نے فوری طور پر ملازموں کو فراری نکالنے کا حکم دیا اور آقا قافا سے پوچھا ”آپ نے جہاں پہنچنا ہے اس جگہ کا ایڈریس کیا ہے ۔“آقا قافا نے ایڈریس والا کاغذ اس کی طرف بڑھا دیا ۔ پھر دونوں کار میں آکر بیٹھ گئے ۔آقا قافا ڈرائیو سیٹ پر بیٹھااورصنم نے نیوی گیشن سسٹم میں ایڈریس فیڈ کردیا اور کہا ”پندرہ منٹ کا فاصلہ ہے ۔ کیا آپ اکیلے جائیں گے “ آقا قافا بولا ۔تم لوگ انتظار کرو میں دوتین گھنٹوں میں واپس آجاﺅں گا ممکن ہے اس سے بھی جلدی آجاﺅں ۔“صنم کار سے اتری اور آقا قافا نے کار آگے بڑھا دی ۔آقا قافا کئی سال کے بعد گاڑی چلا رہا تھا۔ پندرہ منٹ کے بعد آقاقافا کی کار اسی ریستوران کی پارکنگ میں کھڑی تھی جس میں فنکشن تھا۔

آقا قافا نے کار کے اندر بیٹھے ہوئے نور کا تصور کیا اور کھڑکی کھول لی ۔بہت سے لوگ اپنی اپنی کرسیوں پر تھے۔ ناصر نور کا ہاتھ پکڑ کر اسے سٹیج پر جارہا تھا ۔نور بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ناصر نے سٹیج پر جاکر مائیک اپنے ہاتھ میں ہاتھ لیا اور کہا

دوستو وہ لمحے آگیاہے جس کا آپ سب کو انتظار تھا۔یہ نور ہےں میری ہونے والی وائف اور آج کی یہ تقریب ہماری انگیجمنٹ سرمنی کی تقریب ہے۔“

پورے ہال میں تالیاں بجنے لگیں نور کا چہرہ لال سرخ ہو گیا۔اس نے ناصرکے ہاتھ سے مائیک لے لیا اور جیسے ہی تا لیاں ختم ہوئیں تو اس نے کہا

ٍ” معزز خواتین و حضرات مےں مسٹرناصرکے ساتھ شادی نہیں کررہی مسٹر ناصرکسی غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے اس بات کا علم ہوتا تو میں کبھی اس تقریب میں شرکت ہی نہ کرتی۔ میں کسی اور خیال سے تقریب میں شریک ہوئی تھی۔ مسٹر ناصرمیں آپ سے بھی سوری کرتی ہوں اور آپ سب لوگوں سے بھی۔“

یہ کہہ کے نورنے مائیک ایک طرف رکھ دیا اور تیزی سے سٹیج سے اتر کر باہر نکلتی چلی گئی ۔ہال میں سناٹا چھا گئی مسٹرناصر کچھ دیر تو حیران و پریشان اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہااور پھر مائیک اٹھا کربولا

دوستو یہ میری پہلی محبت تھی جس نے مجھے ٹھکرادیا ہے ۔مگر اس ہال میں میری دوسری محبت بھی موجود ہے۔دیکھتے ہیں وہ میرے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔”وہ ہے ارم ران “ارم کا چہرہ خوشی سے کھل جاتا ہے اور اس نے پاس بیٹھے ہوئے ارقم سے کہا”سوری ارقم یہ میری زندگی کی سب بڑی خواہش تھی “اور اٹھ کر سٹیج پر آگئی ۔آقا قافا نے نور کی طرف توجہ دی وہ سڑک پر چلتی جارہی تھی۔ آقا قافانے تیزی سے کار نکالی اور نور کے پاس پہنچ کر کہا

آئیے گاڑی میں تشریف رکھیے ۔مجھے آقا قافا کہتے ہیں

نور نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا

کون آقا قافا “

وہی جس نے جہاز میں آپ کو ایک خط بھیجا تھا جس خط کو آپ نے ہیروں کے ساتھ بنک کے لاکر میں رکھ دیا ہے “نور خاموشی سے کار میں بیٹھی گئی۔اس نے دراصل آقا قافا کی آنکھوں میںدیکھاتھا او سحرزدہ سی ہوگئی تھی۔کار آگے بڑھ گئی چند لمحے بالکل خاموشی رہی۔پھر نور نے پوچھا ”آپ کون ہیں “آپ کو کیسے علم ہوا کہ میں نے وہ خط بھی لاکر میں رکھ دیا تھا “مجھے تو یہاں تک معلوم ہے کہ تہہ خانے میں ہیرے جواہرات کے ساتھ جو آپ کو اپنے ابو نواب انور مان کی ڈائری ملی تھی وہ بھی آپ نے اسی لاکر رکھ دی ہے حالانکہ اس کی آپ کو یہاں ضرورت ہے “

نور بولی ” آپ کہاں جا رہے ہیں “

جہاں آپ کہیں گی “

اب میری کوئی منزل نہیں ۔میں وہاں واپس نہیں جانا چاہتی جہاں رہ رہی تھی “

آپ کے لیے میرے پاس خبر بھی ہے “

نور کیا“

جیسے ہی ہال سے نکلیں تو ناصر کہا کہ یہ میری پہلی محبت تھی جس نے مجھے ٹھکرادیا ہے مگر ہال میں میری دوسری محبت بھی موجود ہے اور اس نے ارم کے ساتھ منگنی کرلی ہے “

نور بولی ”چلو میرے ذہن سے ایک بڑا بوجھ اتر گیا مگر بیچارہ ارقم “

آقا قافا نے کار ایک طرف روک کر صنم کو فون کیا اور اس سے ایڈریس پوچھاکر نیوی گیشن میں فیڈ کیا اور پھر پندرہ منٹ کے بعد فراری وہیں پہنچ گئی جہاں سے چلی تھی ۔صنم استقبال کےلئے باہر موجود تھی۔آقا قافا نے نور سے تعارف کراتے ہوئے کہ ”یہ صنم ہیں ۔میرے میزبان کی سیکریٹری ہیں اور یہ پرنسس نور ہیں ۔“نور واقعی شہزادی لگ رہی تھی ۔ صنم نے کہا ” کیا ممکن ہے کہ ہم ابھی لندن چلے جائیں ۔کچھ دیر میںموسم خراب ہونے کا خدشہ ہے “آقا قافا بولا ”چلو ابھی نکل پڑتے ہیں ۔وہ تینوں باہر آگئے۔ نور سحر زدہ سی ساتھ ساتھ چلتی ہوئی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ گئی ۔ پھر کچھ دیر کے بعد دونوں اسی ہوٹل کے سویٹ موجود تھے ۔جہاں آقا قافا کا ٹھہرایا گیا تھا ۔آقا قافانے صنم سے کہا ”پرنسس کی رہائش کا بندوبست کیا جائے۔فوری طور پرپرنسس کوتمام ضروری سامان بھی فراہم کیا جائے ۔صنم نے نور سے کہا” آئیے پرنسس“۔آقا قافانے نور کو مخاطب ہوکرکہا ”ڈنر پر ملاقات ہوگئی“ اورپھر صنم سے کہا” ہاں اپنے باس کو بتادیجئے گا کہ ان کے ساتھ میںہم کل لنچ کریں گے “

آقا قافا قالین پر التی پالتی مار کے بیٹھ گیا اس نے سوچا کہ مرشد کے دربار پر حاضری دینی چاہئے۔یہ سارا اسی کا کرم ہے کہ آج میں نور سے ہمکلام ہوا ہوں ۔وہ سلطان باہو کے دربار پر پہنچ گیا ۔ مزار پر حاضری دی اور پھر باہر آکر بیٹھ گیا

اچانک اس کی نظر مصورمان پر پڑی وہ بھی دربار پر ایک طرف سر جھکائے بیٹھا تھا۔ آقا قافا کو یاد آیا کہ اس نے سوچا تھا کہ روحانیت کے راستے پر اس کی ضرور رہنمائی کروں گا ۔آقا قافا اٹھ کر اس کے قریب جا بیٹھا ۔مصور مان کی آنکھیں بند تھیں ۔اس نے دیوار سے ٹیک لگا رکھی تھی ایک ملنگ اس کے پاس سے گزرا اور کہنے لگا

اٹھ جاگ گراڑنے مالی نئیں ایک دو پل تینوں دکار نئیں

تیں سیتا عمراں لنگھائی دے۔ ایہ سونڑا ں تیر اشعار نئیں

مصور نے آنکھیں اوربولا” بابا کچھ بتاﺅ ، کہاں جاﺅں“

اتھے جا جتھے بولن کھاون سوون تینوں کم نہ ہوند ے ہون“

ملنگ یہ کہہ آگے بڑھ گیا۔اتنی دیر میں تین چار لوگ مصور مان کے آس پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ ان میں سے ایک بولا”چھوٹے سرکار، نواب صاحب آپ کو لینے کے لیے ہمیں بھیجا ہے۔“

زبردستی“

: نہیں چھوٹے سرکار ، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اگر آپ خود ہمارے ساتھ آنا چاہیں تو تشریف لے آئیں ورنہ آپ کو ان کا پیغام پہنچا دینا ہے انہوں نے کہا ہے کہ میرے بیٹے کہنا ۔دھن کوٹ کا نواب نہیں ایک باپ بیٹے کو بلا رہا ہے “

بابا حضور سے کہناکہ مصوراللہ سے معافی مانگنے نکلا ہوا ہے۔ اگر اللہ نے معاف کر دیا توضرور آپ سے ملے گا۔“

حضور نواب صاحب ، آپ کے لیے بہت پریشان ہیں۔“

کون پریشان نہیں ہے بھیا“

جی آپ نے مجھے بھیا کہا ہے؟“

ہاں، کیوں کیا تم میرے بھائی نہیں ہو، تم سب میرے بھائی ہو۔ہم سب ایک آدم کی اولاد ہیں، کوئی بڑا کوئی چھوٹا نہیں،سب برابر ہیں،کوئی چھوٹا بڑا ہے تو اللہ کے نزدیک ہے۔ جاﺅ میرے بھائیو ،بابا کو بولو وہ لمبے سفر پر نکل گیا ہے۔ روشنی کے سفر خوشبو کے سفر۔۔“وہ لوگ چلے جاتے ہیں تومصور سے ایک ملنگ نے پوچھا ”تم نواب منور مان کے بیٹے ہو “ مصور نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ ملنگ بولا

کونسی شے تمہیں ہماری دنیا میں کھینچ لائی ہے؟“

ملنگ بابا،،، سکون کی تلاش میں ہوں۔“

سکون تو موت کا نام ہے بیٹے“

پھر شاید میں موت کی تلاش میں نکلا ہواہوں

کیا چاہتے ہو؟“

شاید کچھ بھی ، صرف اللہ کی رضا۔“

بیٹے ایک مشورہ دوں اگر برانہ مانو تو؟“

کہو ملنگ بابا“

لوٹ جا،جدھر سے آیا ہے ادھر لوٹ جا

نہیں بابا،واپسی کا کوئی راستہ موجود نہےں۔۔۔۔واپسی کا راستہ۔۔۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوتے ہوئے دیکھاہے۔نہیں بابا جس دنیا میں بھائی کو بھائی قتل کردے میںاُس دنیا میں واپس نہیں جاسکتا۔“

آقا قافا نے اس سے بات کرنے کا ارادہ ترک کردیا ۔سوچا کہ ٹھیک جگہ پر پہنچ چکا ہے اور واپس کمرے میں آگیااور مراقبے میں چلا گیا

کچھ دیر دروازہ پر کسی نے ہلکی سی دستک دی ۔آقا قافا نے دروازہ کھولا تو سامنے نور اور صنم موجود تھیں ۔صنم بولی

ڈنر کا وقت ہوگیا ہے“

آپ لوگ تشریف رکھیں ۔میں تیار ہوکر آتا ہوں “

اور پھر آقا قافا باتھ روم چل گیا ۔تھوڑی دیر کے بعدایک ٹیبل پر آقا قافا اور نور اپنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ۔صنم اجازت لے کرجا چکی تھی ۔ ویٹر کھانا لگا رہا تھا ۔نور نے آہستہ پوچھا “آپ آج اس ملک میں آئے ہیں“

لگتا ہے صنم سے میرے بارے میں پورا انٹرویو کرچکی ہیںآپ “

مگر وہ تو آپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی “

آپ کیا جاننا چاہتی ہیں“

میرا دل کیوں چاہتا ہے کہ میں آپ پر مکمل اعتماد کرسکتی ہوں ۔ آپ کا میری زندگی سے کیا تعلق ہے “

افسوس ان سوالوں کا ابھی میرے پاس جواب نہیںہیں “

پھر بھی اپنے بارے میں کچھ بتائیے تو سہی “

میں ایک روحانی آدمی ہوں۔کچھ روحانی لوگوں نے مجھے یہاں روحانیت کی ترویج کے لیے بھیجا ہے “

مگر اس روحانیت میں میں آکہاں سے آگئی ہوں “

تمہارے اندر بھی کوئی ایسی روحانیت ضرور ہے جس کا علم شاید ابھی تمہیں نہیں ہے “

کیا آپ نے صنم کو یہ بتایا تھا کہ میرا تعلق دھن کوٹ سے ہے “

نہیں قطعاً نہیں ۔ کیوں اس نے کوئی ایسی بات کی ہے “

ہاں ابھی جب آئی ہے تو پوچھتی تھی کہ آپ دھن کوٹ کی پرنسز نور ہیں “

حیرت انگیز۔ان لوگوں کو بھی دیکھنا پڑے گا ۔چلیں کھانا کھائیں “آقا قافا بولا۔اور پھر دونوں خاموشی کھانا کھانے لگے ۔کھانا ابھی ختم ہوا تھا کہ نور کے موبائل کی گھنٹی بجی ۔دوسری طر ف سے ارم تھی اس نے کہا

نور میں ارم بول رہی ہوں “

انگیجمنٹ کی مبارک ہو“نور نے فوراً کہا

تھینکس ۔ ناصر کو بھی مبارک دے دو “

ناصر کی آواز آئی ”ہیلو نور “

ہاں ناصر سچ مچ تمہیں بھی مبارک ہو۔ تم نہیں سوچ سکتے کہ اس خبر سے مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے اور ہاں اٹھو۔اٹھونا اور میرے کمرے میں جاﺅ ۔“

جارہا ہوں“

پہنچ گئے۔ “

ہاں پہنچ گیا ہوں “

شیلف کی آخری دراز کھولو “

کھول لی ہے “

یہ نیلی کی رنگ ڈبیا نظر آرہی ہے ۔اسے اٹھا ﺅ اورواپس چلو۔ ارم کے پاس “

یہ وہی چار ہیرے ہیں “

ہاں یہ ارم کو دے دو۔ اور اسے موبائل دو“

مگر نور یہ ہیرے دو ملین پونڈ کے ہیں “

میں نے کہا ہے نا۔ارم سے بات کراﺅ“

ہیلوارم ۔ایک چھوٹا سا تحفہ پیش کررہی ہوں ۔امید ہے تم قبول کرو گی “

میرے لیے اعزاز کی بات ہے نورکہ آپ نے مجھے تحفہ دیا “

اچھا ہاں اب میرا کام بھی کرنا ہے ۔ کل میرا تمام سامان پیک کرکے اس ایڈریس پربھجوا دینا ہے “

پھر نورنے ارم کو ہوٹل کا ایڈریس لکھوایا تو صوفیہ نے حیرانگی سے پوچھا

تم لندن پہنچ گئی ہو“

ہاں لندن میں ہوں ۔اچھا خدا حافظ ۔ ناصر کا خیال رکھنا “

آقا قافااور نور پھر ہوٹل سے نکلے اور سڑک پر چلنے لگے ۔تقریباً دو گھنٹے گھومتے رہے ۔جتنی باتیں ممکن تھیں ایک دوسرے سے کیں اور پھر نور اپنے سویٹ میں چلی گئی اور آقا قافا اپنے سویٹ میں آگیااور بہت دیر پانی کے ٹب میں لیٹا رہا۔ پھر التی پالتی مار کر قالین پر بیٹھ گیا ۔مصور مان کا تصور کیا اور کھڑکی کھول لی ۔آقا قافا سچ مچ اس کی مدد کرنا چاہتا تھا ۔

مصور مان اس وقت کسی اور درگاہ پر موجود تھا۔ایک ملنگ اسے کہہ رہا تھا

چل آ قوالی سنتے ہیں “۔ مصور ، ملنگ کے ساتھ چل پڑا۔آدھی رات کا وقت تھا۔کچھ دور قوالی ہورہی تھی ۔قوال گا رہے تھے ۔ان کے سامنے ‘ ایک بہت ہی خوبصورت لڑکا مسلسل ناچ رہا تھا۔درگاہ پر آئے ہوئے بہت سے لوگ قوالی سن رہے تھے۔ مصور قوالی سے زیادہ اُس لڑکے کودیکھ رہا تھا جب لڑکا ناچ ناچ کر تھک کر ایک طرف بیٹھ گیا تو مصور اس کے پاس گیا اور کہا

کیا تمہیں ناچنے سے سکون ملتا ہے؟“

ہاں مجھے ناچنا بہت اچھا لگتا ہے“

کیا محسوس کرتے ہو، ناچتے ہوئے؟“

مےں صرف اسی وقت ناچتا ہوں جب میرامن ناچ رہا ہواور جب من ناچتا ہے‘ تو ساری دنیا ناچتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔“

مجھے بھی یہ ناچنا سکھا دو

تم ناچ سیکھنا چاہتے ہو؟ کیا کرو گے ناچ سیکھ کر؟“

ناچنے سے سکون تو مل جائے گا؟“

میں تمہیں کہیں لے جاﺅں گا‘ وہاں تم خود ناچنے لگو گے۔ تمہیں سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

کب لے جاﺅ گے؟“

ابھی جاتے ہیں ساتھ ہی ہے۔وہاں صبح کی نماز سے پہلے محفل لگتی ہے ۔ تمہارا نام کیا ہے؟“

مصور:۔ اور تمہارا؟“

مجھے قیس“ کہتے ہیں

وہ وہاں سے نکلے اور قریب کی ایک مسجد میں داخل ہوگئے ۔مسجد کے ہال میں ”اللہ ہو“ کا ورد جاری تھا۔چار آدمی ایک لائن میںبیٹھے ہوئے تھے اور ان کے سامنے بہت سارے لوگ بیٹھے تھے۔ وہ ان پر اپنے ہاتھوں کی حرکت سے نوازشات بکھیر رہے تھے ۔قلب جاری کیے جارہے تھے ۔کچھ لوگ حال میں آئے تھے ‘ تڑپ رہے تھے۔ ایک عجیب و غریب کیفیت جاری تھی۔ مصور نے قیس سے کہا

مجھے تو کچھ نہیں ہو رہا“

ٍ”میں بھی کافی عرصہ سے آ رہا ہوں مجھ پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ مجھے لگتا ہے ہمارے اندر کالے ہیں۔ گناہوں سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ “

اندر کو پاک کیسے کیا جاتا ہے؟“

بابا کہا کرتے تھے‘ اندر کی غلاظتیں آنسووں سے ‘ ندامت کے آنسووں سے دھل جاتی ہیں۔“

مگر رونا تو مرد کی شان نہیں۔ یہ تو عورتوں کا کام ہے“

کہتے تو تم بھی ٹھیک ہو‘ میرا خیال ہے جہاں جس کو سکون ملے ۔ اس کے لیے وہی عمل بہتر ہے“

میرا خیال ہے تمہیں ناچنا چاہیے‘ کیونکہ تمہیں ناچنے سے سکون ملتا ہے اور مجھے ‘ مجھے ابھی بھٹکنا چاہئے ۔شاید یہی بھٹکنا میری منزل ہے “

آﺅ کہیں اور جاتے ہیں۔ وہ وہاں آگئے جہاں کچھ ملنگ بھنگ پی رہے تھے۔رات بھر کی جلی ہوئی شمع بجھنے والی تھی بس دوتین ملنگ ہوش میں تھے باقی سب ادھر ادھر سو چکے تھے۔ قیس نے مصور سے پوچھا ”چرس یا بھنگ پیو گے؟

نہیں قیس ‘ نشہ حرام ہے“

تو پھر یہ ملنگ کیوں پیتے ہیں؟“

دکھوں کی آگ بجھانے کاسب سے آسان راستہ یہی ہے قیس اور میں آسانیوں سے منہ موڑ کر ادھر آگیا۔“

ساتھ ہی کوئی ملنگنی کے گانے کی آواز آنے لگی تھی۔

مائے نی میں کنوں آکھاں‘ درد وچھوڑے دا حال“

مصور گیت سننے لگ گیا۔اسکی آنکھو ں میں آنسو بھر آئے جنہیں دیکھ کر قیس نے کہا

تمہاری آنکھ میں آنسوہیں“

مجھے لگ رہا ہے کہ رفتہ رفتہ مجھے اندر سے کوئی پگھلا رہا ہے “

تم تو کہتے تھے رونا عورتوں کا کام ہے“

ہاں کمزور ہوتی ہیں مجبور ہوتی ہیں جلد روپڑتی ہیں

کیا عورت کمزور ہوتی ہے؟“

ہاں ‘ اگر وہ نور نہ ہو تو“

نور ؟“

ایک سنگ دل تھی۔ موت کے سامنے بھی میں نے اسکی آنکھ میں آنسو نہیں دیکھا ۔“

مرگئی “

میرے لئے “

اچانک قیس کی نظر ایک ملنگنی پر پڑتی ہے ۔قیس نے مصور سے کہا ”تم یہی بیٹھو میں ابھی آیا“ قیس ادھر ہی چل پڑا جدھروہ ملنگنی گئی تھی۔مزارکے پچھلی طرف ایک خیمہ لگا ہوا تھا۔ اس میں کچھ ملنگ سو رہے تھے اوروہ ملنگنی شاید ابھی جاگی تھی۔ قیس نے خیمے مےں داخل ہو کراسے کہا

ادھر آ میری بات سن ۔ میں تجھے ڈھونڈتا پھرتاہوں

کیا بات ہے ۔ خیریت تو ہے۔اتنی صبح “

مری علیحدگی میں بات سن“

وہ قیس کے ساتھ خیمے سے باہر آگئی۔ قیس نے اسے کہا

ایک نواب کا بیٹا میرا یار بن گیا ہے۔ محبت مےں ناکام ہوا ہے اور دنیا چھوڑ دی ہے۔ تو اگر اسے پھانس لے تو وارے نیارے ہو جائےں گے“

دیکھ کسی ایسے ویسے چکر میں نہ ڈال دینا“

میں تم سے کیوں جھوٹ بولوں گا۔ مگر بالی یاد رکھنا مجھے بھولنا نہیں اور وہاں اسے یہ معلوم نہیں کہ مجھے پتہ ہے ۔وہ کسی نواب کا بیٹا ہے۔“

تجھے کیسے پتہ چلا“

اسکی تلاش میں کچھ لوگ آئے ہوئے تھے۔ میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔

کہاں ہے دکھا تو سہی“

تو ان ملنگوں کو خیمے سے نکل‘ میں اسے لے کر آتا ہوں“

اور پھر تھوڑی دیر قیس مصور کے ساتھ اس خیمے میں داخل ہوا ۔وہاں اکیلی بالی موجود تھی۔ قیس نے بالی کی طرف اشارہ کرکے کہا

یہ بالی ہے جوانی میں میں اللہ لوگ ہوگئی ہے۔ اللہ کا بھی اس پر بڑا کرم ہے ‘ اس کے آس پاس سکون ہی سکون ہوتا ہے۔

اور پھر قیس نے بالی کو مخاطب کرکے کہا

بالی جی۔یہ مصور ہے‘ سکون کی تلاش میں بھٹکتا پھرتا ہے۔“

سکون‘ یہ تو وہ نعمت ہے ‘ جو اللہ جسے چاہتا ہے۔ اسے عطا کرتا ہے۔ آ مرے پاس آکر بیٹھ جا۔ اللہ تجھ پر بھی کرم کر دے گا۔ میں دم پڑھتی ہوں“

مصور آہستہ آہستہ اسکے بہت قریب ہوگیا تھا۔بالی نے اس کی کمرپر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا تھا۔اچانک مصور وہاں سے ہٹ کر دوسری طرف ہوگیا اور بولا

بالی جی بے شک سکون تو آرہا ہے مگر آپ ایک غیر محرم کوہاتھ لگا رہی ہیں ۔ ہم دونوں گناہ گار ہو رہے ہیں۔

محرم اور غیر محرم ان کے لےے ہوتے ہیں مصور۔ جن کے دل روشن نہیں ہوتے ۔ وہ آنکھیں سینے سے پارنہیں دیکھ سکتیں۔ میں تو دیکھ رہی ہوں کہ اس وقت میرے سامنے کوئی نواب زادہ بیٹھا ہوا ہے ۔جسے محبت نے فقیر بنادیا ہے ۔“

مصور اسے عقیدت اورحیرت سے دیکھنے لگا ‘ اورپھر اس کے قریب ہوگیا ۔وہ بولی ”آمیرے زانو پر سر رکھ کے لیٹ جا ۔آتجھے سکون سے بھر دوں“مصور اس کے زانو پر لیٹنے والا ہی تھے کہ آقا قافا خیمے میں داخل ہوااور کہنے لگا

مصور مان ۔یہ عورت فراڈہے ۔یہ لڑکا قیس بھی فراڈ ہے۔ قیس نے تجھے لوٹنے کے لیے بالی کے ساتھ پروگرام ترتیب دیا ہے ۔مصورنے پلٹ کر قیس کو دیکھاتو اس نے آنکھیں جھکا لیں ۔مصور مان تجھے اگر سچ مچ حق کی تلاش ہے ۔سلطان باہو کے دربار پرواپس جا۔وہیں ڈیرے ڈال ۔مگر حق کی تلاش میں نکلنے سے پہلے علم کے رختِ سفر کو پشت پر ضرور باندھ لے وگرنہ عمر بھر بھٹکتا پھرے گا۔یاد رکھ قدرت تجھے تیرے باپ کے گناہوں کی سزا نہیں دے گی ۔پرنسس نور نے تو تجھے جدائی کا غم دیا ہے مگروہ اللہ تعالی ہے ۔وہ تیرادامن اپنی رحمتوں سے بھردے گا۔اور یہ بھی یاد رکھ کہ جو روحانیت دنیا میں سچائی پر قائم رہنے سے حاصل ہوتی ہے وہ جنگلوں اور پہاڑوں کی بھٹکنے سے نہیں ملتی۔جا دھن کوٹ واپس جا اور اپنے باپ کا مردانہ وار مقابلہ کر۔پھر اپنے چاروں طرف لیلیٰ القدر کی روشنیاں بکھرتے دیکھ۔“

آقا قافا یہ کہہ کر وہاں سے واپس اپنے کمرے میں آگیا اور کھڑکی کھول کر مصور مان کو دیکھنے لگا۔آقا قافا کے یوں آنے اور چلے جانے پر مصور حیرا ن تو مگروہ اسے اپنے لیے غیبی امداد سمجھ رہا تھا۔آقا قافا کے نکلنے کے بعد مصور مان نے بالی اور قیس کی طرف دیکھا بھی نہیں اور چلتے ہوا قریب کی دکانوں کے پاس پہنچ گیا۔اس نے ایک دکاندار سے کہا میں نے ایک فون کرنا ہے ۔صرف ایک منٹ کا پلیز ذرا اپنا موبائل دیجئے “دکاندار نے موبائل مصور کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔مصور نے فون کیا اور اپنے پتہ بتاتے ہوئے کہا”یہاں گاڑی بھیج دو“۔ادھر سے جواب ملا۔ جی آپ کے محافظ آپ کے اردگرد موجود ہیں ۔ صرف پانچ منٹ انتظار کیجئے اور پھر پانچ منٹ میں محافظ گاڑی سمیت پہنچ چکے تھے ۔ مصور مان نے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا ”اس دکاندار کو بیس ہزار روپے دو اور کہو کہ کوئی اچھا سا موبائل خرید لے ۔کیا خبر کس وقت کون مانگ لے “

آقا قافا نے مصور مان کی کھڑکی ختم کی اور کچھ دیر کے لیے بستر پر آکر سوگیا۔دستک پر آنکھ کھلی اٹھا تو گیارہ بج رہے تھے ۔دروازے پر نور تھی وہ دروازے ہی سے یہ کہہ کر پلٹ گئی”صنم پورے بارہ بجے ہمیں لینے آئے گی ۔میں نے سوچا کہ آپ کو جگادوں ۔جلدی سے تیار ہوجائیے “

اور پھر بارہ بجے نور اور آقا قافا لیموزین میں بیٹھ کر جارہے تھے ۔ٹھیک ساڑھے بارہ وہ مان رام کے آفس میں پہنچ گئے ۔مان رام نے دفتر سے باہر آکر ان کاستقبال کیا۔اس نے آقا قافا سے ہاتھ ملاتے ہوئے آقا قافا کے ہاتھ پر بڑے احترام سے بوسہ دیا ۔وہ ایک کانفرنس میں آگئے ۔جہاں مان رام دو بیٹے اور دو وکیل موجود تھے۔

مان رام نے گفتگو شروع کی اور کہا

آقا قافا بڑے سادھوکی روحانی اولاد ہیں اوردنیا بھرمیں میرا اور میرے بیٹیوں کا جوکچھ ہے ۔وہ سب بڑے سادھو کی عطا ہے ۔یہ انہی کا ہے ۔سو یہ سب کچھ آقا قافا کا ہے ۔ایک اور حیرت انگیزبات میں آپ کو ضرور بتانا چاہوں گاکہ آقا قافا ہندو نہیں مسلمان ہیں۔یہ کیا راز ہے۔ یہ بھگوان ہی جانتا ہو گا یا بڑے سادھو جانتے ہیں ۔

اور یہ پرنسز آف دھن کوٹ پرنسز نور ہیں ۔ہم پچھلے کئی ہفتوں سے جن کی تلاش میں تھے ۔ یہ بات یقینا پرنسز کےلئے باعث ،حیرت ہوگی۔ میں پرنسز کو ایک اچھی خبر یہ دینا چاہ رہا ہوں کہ ان کے نانا سر جان ڈکن اور ان کی نانی پرنسزمارتھا کی تمام جائیداد کی وارث ان کی وصیت کے مطابق پرنسز نور ہیں۔ان کے وکیل یہاں موجود ہیں ۔خاص طور پر پرنسز سے ملنے آئے ہیں اور اب ہم پرنسز کو کیوں تلاش کررہے تھے ۔ہم نے سنٹرل لندن ایک عمارت کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا۔ اس کے ساتھ والی بلڈنگ کے نیچے گہرے تہہ خانوں کے سبب کام روک دینا پڑا ۔ہمارے لئے ساتھ والی بلڈنگ کو خریدنا ہمارے لئے انتہائی ضروری ہوگیاہے ۔اس بلڈنگ کی مارکیٹ ویلیو پچاس ملین کے قریب ہیں ،ہم اس کے ساٹھ ملین پونڈ بھی دینے پر تیار ہیں۔اگر پرنسز نور ہماری آفر تسلیم کرلیں کیونکہ اس بلڈنگ کی مالک پرنسز نورہیں۔“

نور کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ابھرا ۔نورنے آقا قافا کی طرف دیکھا اور کہا ”دنیا بھر میں میری جتنی بھی جائیداد ہے حتیٰ کہ پوری دھن کوٹ اسٹیٹ تک ۔میں سمجھتی ہوں کہ ان سب کے مالک آقا قافا ہیں ۔اس لئے جب دونوں طرف سارا کچھ آقا قافا کا ہے تو پھرلین دین کی تو کوئی بات رہتی ہی نہیں ۔ہاں میری ایک چھوٹی سی شرط ہے کہ میری نانا اور نانی کی جو جائیداد اور جوبزنسز مجھے ورثے میں ملے ہیں۔وہ تمام آج سے آپ ہی کی کمپنی رن کرے گی اور اس کام کے سلسلے میں جو مناسب سمجھے گی فیس وہ بھی وصول کرے گی “

مان رام نے کہا ”اس بات کی مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتیں کہ آپ بھی آقا قافا کو اسی نگاہ سے دیکھتی ہیں جس طرح میں دیکھتا ہوں۔میری آقا قافا سے ایک چھوٹی سی فرمائش ہے میں اور میرے دوست ان سے کچھ من کی باتیں سننا چاہتے ہیں“آقا قافا بولا ”کب “

جب آپ مناسب سمجھیں “

کل کسی وقت “

کل رات کیا مناسب رہے گی “

آقا قافا نے اٹھتے ہوئے کہا ”تو پھر ہمیں اجازت دیجئے ۔کل رات کو ملاقات ہوگی“

چلتے ہوئے نور نے ایک ٹیلی فون نمبر مان رام کو دیتے ہوئے کہا ”اس نمبر پر پاکستان میں میرے دو ملازم موجود ہیں ۔میں چاہتی ہوں وہ یہاں آجائیں “

مان رام بولا ”بس سمجھ لیجئے کہ پہنچ گئے “

واپسی پر نور نے پوچھا ”کل آپ کیا گفتگو کریں گے “

جو پوچھیں گے اس کا جواب ذہن میں آیا بول دوں گا “

مجھے لگتا ہے کل وہاں خاصے لوگ ہونگے “

سننے والا ایک آدمی ہو یا ہزار ہوں ۔بات تو ایک نے ہی کرنی ہوتی ہے “

نور نے کمرے میں داخل ہوتے ہی فون ملایا دوسری طرف نارو تھی

جی چھوٹی مالکن ۔“

کیا حالات ہیں “

جی ابھی تک انہیں ہمارا سراغ نہیں مل سکا “

اچھا ۔اسی نمبر پر تمہارے ساتھ کوئی رابطہ کرے گا اور پھرتم دونوں میرے پاس پہنچ جاﺅ گے ۔“

ٹھیک ہے چھوٹی مالکن ۔اگر کوئی مسئلہ ہوا تو آپ نے اپنا جو نمبر دیا تھا میں اس پر فون کرلوں گی “

اگلے دن شام مان رام انہیں لے کر ایک داخل ہوا ہے۔یہ بہت شاندار اوروسیع و عریض تھا کم ازکم پانچ سو لوگ سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔آقا قافا کاکوئی تعارف کرائے بغیر انہیں سٹیج پر کھڑا کردیا گیا۔نور سامنے والی نشستوں پر مان رام کے بالکل ساتھ بٹھائی گئی ۔آقا قافانے کہا

مجھے نہیں معلوم کہ آپ لوگ کیا سننا چاہتے ہیں ۔ برائے مہربانی بتا دیجئے کہ مجھے کس موضوع پر بات کرنا ہے “

مان رام نے اٹھ کر کہا ”ہمیں بتائیے کہ ہم اپنے من کیسے شانت کریں “

من کیسے شانت کیا جائے ۔پہلے تو یہ دیکھئے کہ من کیا ہے ۔من دل ہے ، من باطن ہے من اندرہے ،من لاشعورہے ، ۔من روح بھی ہے من نفس بھی ،من ضمیر بھی ہے اور سائیکی بھی ۔

من کے دریا سمندروں سے بھی گہرے ہیں ۔ان کی وسعتیں کوئی نہیں جانتا۔ہر شے اس کے اندر ہے۔چودہ طبق اس میں کسی شامیانے کی طرح ہیں ۔جو من کا محرم بن گیا اس نے بھگوان پالیا ۔ایشور سے تعلق جوڑلیا ۔اللہ کو پہچان لیا۔

آئیے من کی طرف چلتے ہیں۔اُس رستے پر قدم رکھتے ہیں جو باطن کی گہرائیوں کی طرف رواں دواں ہے ۔دیکھئے اردگرد کیا کیا موجود ہے ۔پہلے موڑپرپچھلے ایک سال میں جتنی باتیں جتنے دکھ جتنی حسرتیں جتنی نارضگیاں،جتنی مسرتیں ،جتنے خواب، جتنے خیال، جتنی آرزویں، جتنی تمنائیں، جتنے منظر ،جتنی فلمیں، جتنی کتابیں آ پ کی ہم سفر ہوئیں سب نظر آرہی ہونگی ۔وہ چیزیں جنہیں آپ بھلا چکے ہیں یا نظرا نداز کرچکے ہیں۔جن کی موجودگی غیر موجودگی میں بدل چکی ہے۔وہ سب دکھائی دیں گی

اُس ایک بات کو دیکھئے ، یہ بات بیس تیس سال پہلے ہوئی تھی ،پھر کبھی یاد ہی نہیں آئی ۔اس کی طرف دھیان ہی نہیں گیا ۔وہ بھی پڑی ہے ۔اِس راستے پر تھوڑا سا اور آگے چلئے ،بس چلتے جائیے ،ارد گرد دیکھتے جائیے ۔زندگی کے تمام سالوں کی تمام بھولی ہوئی مردہ باتیں یہاں زندہ ہیں ۔ان میں سے کچھ پھول بن کر کھل رہی ہیں ، کئی عفریت بن چکی ہیں ۔اُدھر دیکھئے من میں آپ کو آتے ہوئے دیکھ کر کئی ڈائینو سار جاگ پڑے ہیں ۔کئی عفریت اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔کئی کھلتی ہوئی کلیوں کو روندتے ہوئے آپ پر حملہ آور ہونے والے ہیں آگے سے کئی بھوت کئی چڑیلیں آپ کی طرف بڑھنے لگی ہیں ،۔آپ نے پیچھے کی طرف دوڑ لگادی ہے ۔

ابھی تم باطن کی میں داخل نہیں ہوئے تھے ۔ابھی تم من کے لاہوت کے دروازے تک بھی نہیں پہنچے تھے ۔یہ من کی کائنات کے باہر کا منظر تھا۔میں سمجھتا ہوں باطن کی وسعت کے سامنے یہ کائنات جس میں ہم رہتے ہیں کچھ بھی نہیں ہے

چلیں ہم نے ہمت کی ،باطن کی طرف بڑھے ۔راستے میں پھرتے ہوئے ناسوروں اور حسرتوں کے عفریتوں کو ہلاک کیا۔گناہوں کی خندقیں عبور کیں ۔گھپ اندھیرے میں دامن ِ عمرسے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر نیکیوں کے لالٹین جلائے اورمن کے دروازے تک پہنچ گئے ۔من کے شہر کادروازہ بند ہے مگر دروازے کے باہر بے پناہ سکون ہے ۔شانتی ہی شانتی ہے ۔آپ نے وہیں ڈیرے ڈال دئیے ۔مگر یہ شانتی اس وقت تک رہتی جب تک کوئی حادثہ نہیں ہوتا ۔کوئی دکھ جنم ہیں لیتا ۔کوئی تکلیف پیدانہیں ہوتی ۔کوئی نقصان نہیں ہوتا۔کوئی روگ نہیں لگتا ۔جیسے ہی کچھ ہوتا ہے ۔عفریت پھر زندہ ہوجاتے ہیں۔پھر اپنی جان بچانے کےلئے آپ کو وہاں سے بھاگ کر واپس آنا پڑتا ہے ۔

یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے ،اس کا سبب صرف اتنا ہے کہ آپ من کوجانتے ہی نہیں ۔باطن سے کبھی ملے ہی نہیں ۔اندر کی طرف کبھی گئے ہی نہیں۔سوچئیے کہ آپ نے کبھی خود سے ملاقات کی ہے ۔اپنے آپ سے ملے ہیں ۔ نہیں کبھی نہیں۔آپ نے اپنی ذات کے ساتھ کبھی وقت نہیں گزارا۔کبھی تنہائی میسر آبھی جائے تو آپ منتر کو جاپنے لگتے ہیں ۔کسی آیت کا ورد کرنے لگتے ہیں ۔بھگوان کی پوجا ہونے لگتی ہے۔ نمازیں ادا کرنے لگتے ہیں۔چرچ میں چلے جاتے ہیں ۔ مناجات میں دل لگالیتے ہیں ۔کسی مقدس شجر پر آنسوئوں کے ستارے ٹانکنے ہیں۔آپ نے ہر اچھی بری شے کے ساتھ وقت گزارا ہوگا۔اپنے ساتھ نہیں ۔نہ کبھی اپنے ساتھ سوئے ہونگے نہ کبھی اپنے ساتھ جاگے ہونگے ۔ہم دراصل ایک طے شدہ معاشرت میں جسم کے طے شدہ اصولوں کے ساتھ رہتے ہیں۔جو ہماری زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کردیتے ہیں ، ایک حصہ ہم نے سو کر گزارنا ہونا ہے ۔دوسری حصہ میں ضروریاتِ زندگی کی تلاش پر مبنی ہے ۔تیسرا حصہ اپنی فیملی اپنے دوستوں ،اپنی مسرتوںاور دکھوں میں گزارتے ہیں ۔ہمارے پاس اپنے ساتھ گزارنے کےلئے کوئی وقت ہے ہی نہیں ۔

ہم سے کچھ لوگ من میں اترنے کےلئے اپنے مرشد اپنے گرو کا سہارا لیتے ہیں ۔میں اُس سہارے کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا ۔ مگر مرشد یا گرو سے تھوڑی دیر کی ملاقات گرو یا مرشد کے ظاہر ی اعمال سے ہوتی ہے ۔اس سے بھی ذرا سا سکون مل جاتا ہے مگرباطن میں اترنے کےلئے توآپ نے مرشد یا گروکے وجدان میں جھانکنا ہے ۔یہ وہ ملاقات ہے یہ گرو کا وہ دیدار ہے جس کے بارے میں میرے مرشد کا فرمان ہے کہ مرشدکادیدار میرے لئے کئی لاکھ کروڑ حج کرنے کے برابر ہے ۔آپ کو یہ تو اندازہ ہوگا کہ باطن کے راستے میں کون حائل ہے ۔ سب سے بڑی رکاوٹ کون ہے ۔اصل قصہ یہ ہے کہ وہ رکاوٹ ہمیں اتنی اچھی لگتی ہے اتنی پسند ہے کہ ہم اس سے منہ نہیں موڑ سکتے ۔ وہی ہماری محبوبہ ہے ۔وہی ہمیں سب سے عزیز تر ہے ۔ہم اسی کے ساتھ زندہ رہتے ہیں اور اسی کے ساتھ مرجاتے ہیں ۔ہماری اُس محبوبہ کا نام دنیا ہے ۔میرے مرشد کا کہا تھا کہ آدھی لعنت دنیا پر اور ساری لعنت دنیاداروں پر ۔ہم سب دنیا دار ہیں ۔ہم اپنے باطن میں کیسے داخل ہوسکتے ہیں ۔یہ دنیاماہواری کے مردہ خون کی طرح ہے جو پاک نہیں ہوسکتامگر ہم اسے دھونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔اسے پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور تو اور ہم عبادت بھی دنیا کےلئے کرتے ہیں ،پوجا بھی دنیا کےلئے کرتے ہیں ۔لکشمی دیوی کے پاس جاتے ہیں کہ دولت ملےگی ۔داتا دربار پر جاتے ہیں کہ علی ہجویری اللہ سے ہماری سفارش کرے گا اور ہمارے گھر کے حالات بدل جائیں گے ۔ہمارے دکھ ختم ہوجائیں گے ہمیں سکھ ملے گا ہمیں خوشی نصیب ہوگی ۔ہم مکہ اور مدنیہ جا کر دنیا میں بہتری کی دعائیں مانگتے ہیں ہم کاشی اوردُرگاہ بھی اپنی خواہشوں کی تکمیل کےلئے جاتے ہیں ۔ہم مندروں ، مسجدوں ، سیناگاگوں ، کلیسائوں میں بھگوان ،اللہ یاگارڈ کےلئے نہیں اپنے لئے جاتے ہیں۔دنیا کےلئے جاتے ہیں۔ہمیں صرف اپنے سکھ سے مطلب ہے ۔ہمیں صرف اس دنیا کی خوبصورت زندگی چاہئے ۔

آپ نے مجھ سے من کی شانتی کا پوچھا ہے ۔من کو کیسے شانتی ملے ،من کے ساتھ رابطہ ،کوئی واسطہ کوئی تعلق ،کچھ بھی نہیں ، آپ من کبھی اترے ہی نہیں ،آپ نے ہمیشہ اپنے من میں بری بری چیزیں پھینکی ہیں ، جو کچھ آپ کرتے ہیں اُس من کو شانتی نہیں مل سکتی ،باطن پُرسکون نہیں ہوسکتا ۔من کی شانت کرنے کےلئے ہمیں من کے شہر کا بند دروازہ کھولنے کی ضرورت ہے ۔یہ دروازہ کھولنے کےلئے دوچیزیں تیاگنی انتہائی ضروری ہیں۔ ایک لالچ اور دوسرا خوف ۔کچھ حاصل کرنے کا لالچ اور کچھ چھن کا خوف ختم ۔جب نہیں ہونگی یہ دونوں چیزیں ختم ہوں گی آپ کو وہ کوڈ وہ اسم اعظم نہیں ملے گا جس سے من کے شہر کا دروازہ کھلتا ۔اس تیاگ کے بعد دنیا کے معاملات تو بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ جنت و دوزخ کا لالچ اور خوف بھی ختم ہوجاتا ہے ۔

یقینا آپ سوچ رہے ہونگے کہ باطن کے شہر میں کیاہے ۔جس کے حصول کےلئے جنت بھی کوئی شے نہیں۔ یقینا وہ جنت سے کئی کروڑ گنا زیادہ خوبصورت ہے ۔جو جمال وہاں ہے اس کا انسانی ذہن تصور نہیں کرسکتا۔

باطن کا دروازہ کھولنے میں جب ہم کامیاب ہوجاتے ہیں ۔تو ہمیں وہ باتیں یاد آجاتی ہیں جو ہم نے ماں کے پیٹ میں سنی تھیں ۔ہم جیسے جیسے باطن میں آگے بڑھتے ہیں ہم اپنے ماں باپ کی گزاران سے آگاہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔اب یہ صرف ہمارا باطن نہیں ہوتا اس سے کروڑوں باطن بھی جڑے ہوتے ہیں۔یعنی ہم اجتماعی لاشعور میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ یہ سفر ہمیں ہزاروں سال پیچھے لے جاسکتا ہے ۔جب ہم اس سفر کی انتہا تک پہنچتے ہیں تو ہم روحِ کل میں شامل ہوچکے ہوتے ہیں اور یہ وہ لازوال مسرت ہے جو ازل سے پہلے تھی اور ابد کے بعد بھی موجود رہے گی ۔

میں جانتا ہوں باطن کی شانتی کا یہ سفر آپ لوگوں کے لیے ممکن نہیں ۔آپ نے سادھو نہیں بننا ۔آپ ولایت کے منصب فائز نہیں ہونا چاہتے۔آپ کو تو ایسی شانتی چاہئے جس دنیا وی فائدہ ہو۔جس سے آپ کے کام کرنے کی صلاحیت بہتر ہو ۔جو آپ کو اچھی اور گہری نیند سلا سکے ۔جو آپ کو ڈپریشن کے تاریکیوں میں اترنے سے محفوظ رکھے ۔اس سکون کے لیے اس شانتی کےلئے میرے نزدیک سب سے بہتر راستہ اپنے مرشد یااپنے گرو کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں ۔

ایہہ تن میرا چشماں ہو وے مرشد ویکھ نہ رجاں ہو

لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشماں ہِک کھولاں ہِک کجاں ہو

اِتئیاں ڈِٹھیاں صبر نہ آوے ہور کِتے ول بھجاں ہو

مرشد دا دیدار ہے باہو لکھ کروڑاں حجاں ہو

آقا قافا نے گفتگو ختم کی تو ایک شخص نے اٹھ کر کہا

’’مجھے فاروق منور کہتے ہیں میرا سوال ہے کہ ہماری جدید تہذیب آپ کیسے دیکھتے ہیں ۔ہماری یہ تہذیب جو اِس وقت پوری دنیا پر حکمران ہے ۔‘‘

آقاقافا بولے ’’یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب سرمایہ دارانہ تہذیب نےاپنے چہرے پر نئی پلاسٹک سرجری کرائی تھی اور نئے خدو خال کے ساتھ تاریخ کے سکرین پر نمودار ہوئی تھی۔ بڑے عظیم اور دانشورانہ دعوےتھے۔یقیناًوہ اس یقین کے ساتھ زیرو گراونڈ پر آئی تھی کہ انسانیت کے تمام زخموں کی بیڈج اس کے پاس ہے وہ ہر درد کی چارہ گری کرے گی۔اس نے ہر کرب کی مسیحائی سیکھ لی ہے۔وہ انسان کے سینے میں طمانیت بھر دے گی۔پریشان حال ذہن کو امن وسکوں سے ہمکنار کر دیگی۔ دنیاکی خوبصورتی کواپنے خوبصورت تر عمل سے
خوبصورت ترین بنادے گی۔ انسان کی اجتماعی سوچ نے گڈمارننگ کہتے ہوئے اس تہذیب سے مصافحہ کیا۔بے شک اس تہذیب کے ماتھے پربے مثال مادی ترقی کی صبحیں درج تھیں اور اس کا اعلان تھا کہ عالمِ انسانی میں اب رات کی سپرمیسی ختم ہوجائے گی۔اندھیرا کہیں نہیں رہیگا ہر طرف لائٹس ہوگی ، نور ہوگا اور انسان رو شنیوں کا سفر شروع کر یگااور اس کے ہر قدم پر ایک کہکشاں ہوگی مگر ہم نے دیکھ لیا کہ اس تہذیب نے ایک ہی صدی میں انسانیت کو دوعالمی جنگوں کے دوزخ میں جھونک دیا ، اس کے بعد بھی اسکی قہرمانی ختم نہ ہوئی اور آج تک کسی نہ کسی زمین پرجہنم کے شعلے انسانی آبادیوں کو راکھ کرتے چلے آرہے ہیں۔درد کی یہ مسلسل فلم بڑی خوفناک ہے۔ہیروشیما اور ناگاساکی سے لے کر ہولوکاسٹ کے ایپی اسوڈ تک اس میں ایسے ایسے سین موجود ہیں جنہیں ایک بار بھی دیکھا نہیں جا سکتا۔اس
تہذیب نے بلا شبہ اْس سائنس کو بھی رواج دیا جس نے شہر جگمگا دئیے۔فاصلوں کو کھینچ لیا۔دنیا مٹھی میں سمیٹ دی۔عمر میں اضافہ کیا۔ بیماریوں کے علاج دریافت کئے۔ انسان کو آسانیاں اور سہولیات عطا کیں۔ مشینوں نے قوتِ کار میں بے پناہ اضافہ کیا زرعی پیداوار اور صنعتی پیداوار کے اضافے نے زمانہ بدل دیالیکن دوسری طرف اسی سائنس نے ہلاکت خیزیوں میں بھی بے پناہ اضافہ کیا۔ انتہائی خطرناک جنگی سامان بنا یاگیا، ہائیڈروجن بم اور ایٹم بم جیسی اندھی قوتوں کا رواج ہوا اور آدمی آدمی کے شکار میں بہت زیادہ بے باک ہوتا گیا۔ اکیسویں صدی کا آغاز بڑی روشن امیدوں کے ساتھ ہوا تھا انسان کا خواب تھا کہ اب بہت زیادہ حکمت و دانش آگئی ہےقومیں تعلیم یافتہ ہوگئی ہیں پہلے کی سی جہالت اور ہوس زرگری کے مظاہرے نہیں ہونگے مگر اسکی ابتداء ہی بڑے خونی حادثات سے ہوئی دہشت گردی عام ہوئی ، ورلڈ ٹریڈ سنٹر ہی پر موقوف نہیں دنیا کے ہر گوشے میں تباہی کا بازار گرم ہواامریکہ جیسے انتہائی مہذب اور ترقی یافتہ ملک نے یوروپ اور باقی دنیا کی قوموں کو پکارا اور سب غیظ و غضب میں بےسوچے سمجھے افغانستان اور عراق پر ٹوٹ پڑے اور جو حشرسامان ہلاکت خیزیاں ہوئیں یا ہورہی ہیں ان کا کیا ذکر کروں کیونکہ یہ تو روزمرہ کا معمول ہیں کوئی آدمی اپنے گھر بیٹھ کر بھی کسی لمحے اپنے آپ کو محفوظ خیال نہیں کرتا۔ٹیلی ویژن کی شریانون سے لہو بہہ کر ڈرائنگ روم کے کارپٹ کا سیاناس کردیتا ہے ۔ ان ہلاکت خیزیوں کے اسباب کچھ بھی ہوں ایک چیز سےانکار نہیں کیا جاسکتا کہ کہیں کوئی بنیادی خرابی رہ گئی ہے ،اس تہذیب کے قصر کی اساس میں کوئی اینٹ ٹیڑھی رکھدی گئی ہے کہ عمارت ثریا تک پہنچ گئی مگر اسکی کجی ہر دیکھنے والی آنکھ کو چبھ رہی ہے ۔‘‘

ایک اور شخص نے اٹھ کر سوال کیا ’’کیا میں آپ سے آپ کی قومیت اور مذہب کے متعلق پوچھ سکتا ہوں ‘‘

آقاقافا بولے ۔’’کیوں نہیں ،میراوطن کائنات ہے ۔ میری قومیت آدمیت ہے۔ میرا مذہب انسانیت ہے۔میری زبان محبت ہے ۔۔ میں ایک انسان ہوں ۔صرف انسان اور ہرانسان کو آسودہ دیکھنا چاہتا ہوں

تقریب کے اختتام پر دونوں واپس ہوٹل میں پہنچ گئے ۔نور ابھی آقا قافا کے کمرے میں کچھ دیر اور بیٹھنا چاہتی تھی مگر آقا قافا نے یہ کہہ کر اسے اپنے کمرے میں بھیج دیا کہ میں تھوڑی سی عبادت کرلوں۔وہ کمرے سے نکلی ۔آقا قافا نے لاک لگایا اور آقا قافا التی پالتی مار کر بیٹھ گیا ابھی چند ہی لمحے گزرے تھے کہ خود بخود دروازہ کھلا اور سادھو بابا کمرے میں آگئے ۔آقا قافا اٹھ کھڑا ہوا ۔سادھو بابا اس کی کمر تھپتھاتے ہوئے بولے ”بہت اچھے بولے ہو “

آپ بھی سن رہے تھے “

ہاں میں وہاں موجود تھا ۔اچھا سنو ۔آج کی رات تمہاری زندگی کی اہم ترین رات ہے ۔آج میں نے تمہارے دماغ میں پڑی ہوئی تمام گرہیں کھولنی ہیں۔آج سے خود بخود ان تمام سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔جو تم مجھ سے اکثر پوچھا کرتے ہوکہ میرے ماں باپ کون ہیں، کہاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔پیدائش لے کر آج تک۔ہروہ عمل جس میں سے تم گزرے وہ تمہیں یاد آجائے گا۔میں چاہوں گا کہ میرے جانے کے بعد تم ایک طویل عرصہ اپنے ساتھ گزارو ۔اپنے اندر ایک بار کھوجو۔تاکہ تمہارے یادداشت تازہ ہو ۔پھر تم نے اپنے اصل سے ملنا ہے۔وہ یہیں ہے اور ایک مخصوص وقت تک اس سے جدا رہنا ہے پھر اسی میں مل کراس تجربے کو کامیاب کرنا ہے جس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں۔ تمہارا اصل کا نام منصور آفاق ہے ۔وہ بریڈفورڈ میں مقیم ہے ۔“اور پھر سادھو بابانے ایک کھڑکی کھولی ۔جس میں ایک نوجوان لیونگ روم میں بیٹھا ہوا ٹیلی ویژن پر کچھ دیکھ رہا تھا ۔وہ میں تھا۔سادھو بابا نے آقا قافا سے کہا ”اسے غور سے دیکھ لو تاکہ تمہیں پہچاننے میں دقت نہ ہو “آقا قافا بولا ”اب یہ چہرہ مجھے نہیں بھول سکتا “سادھو بابا نے وہ کھڑکی ختم کردی اور آقا قافا سے کہا ”یہاں لیٹ جاﺅ۔“آقا قافا قالین پر لیٹ گیا ۔سادھو بابا نے ہاتھ کی انگلی اس کے اردگرد کچھ پڑھتے ہوئے سات دائرے بنائے پھراس کی طرف پھونک ماری ۔اور کہا ”تم سو رہے ہو “تم گہری نیند میں چلے گئے ہو ۔تقریباً ایک گھنٹہ سادھو بابا سوئے ہوئے آقا قافا پر مختلف عمل کرتا رہا ۔پھر اسے ہاتھوں پر اٹھا کر بیڈ پر لٹا دیا اور اس کے ماتھے پر الوداعی بوسہ دے کر کمرے سے نکل گیا۔

دروازے پر بہت تیز دستک نے آقا قافا کی نیند میں خلل ڈالا ۔ آقا قافا اٹھا اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا سامنے نور کھڑکی تھی ۔نور بولی ۔”میں صبح سے تیسری بار دستک رہی ہوں آج آپ لگتا ہے ۔ وہ بہت گہری سو ئے تھے ۔ “آقا قافا نے پوچھا”کیا ٹائم ہو گیا ہے ۔ “نور بولی ”ایک بج رہا ہے ۔آپ نے ناشتہ نہیں کیا ۔چلیں چل کر لنچ تو کرلیں “آقا قافا نے کہا ”آپ بیٹھیں میں بس تیارہوا“اور وہ باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔

لنچ کرتے وقت صنم بھی پہنچ گئی اور اسے کہا ”میں چاہتا ہوں کہ نور اور میں بریڈفورڈ میںرہیں ۔وہی مکان جس میں گئے تھے ۔اسی میںہمارا قیام مناسب رہے گا۔ تم نور کو ساتھ لے کر بریڈفورڈ چلی جاﺅ میں ایک دو دن تک تمہارے پاس پہنچ جاﺅں گا “ نور نے پوچھا ”آپ کہاں جارہے ہیں “آقا قافا بولا ”میں تھوڑا سا وقت اپنے ساتھ گزارنا چاہ رہا ہوں “

وہ ڈائینگ ہال سے اٹھے۔ صنم نور کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی گئی آقا قافا اپنے کمرے میں داخل ہوا اور پھر اگلے لمحے وہ ہمالہ کے پہاڑوں میں اپنی غارکے اندر موجود تھا۔اس نے کچھ راون کو پیار کیا اور پھر اسی چٹان پر التی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور اپنے ماضی پر غور کرنے لگا ۔وہ باتیں جن پر غور کرتے ہوئے پہلے ذہن میں سناٹے گونجنے لگتے تھے۔ آج اسے وہ سب مناظر آئے ۔ماں باپ بہن بھائی ، بچپن کے سب واقعات ایک ایک کر کے آنکھوںسے گزرنے لگے ۔اسے آج پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اس کا نام آقا قافا نہیں منصور آفاق ہے ۔ آقا قافا اس کا نام سادھو بابا نے رکھا تھا۔آقا قافا کئی گھنٹے اپنے ماضی کو دیکھتا اور سوچتا رہا ۔پھر اس نے پرواز کی اور میانوالی پہنچ گیا۔سب سے پہلے قبرستان میں جا کر اس نے اپنی والدہ ،والد ایک بھائی اور ایک بہن کی قبر پر فاختہ پڑھی اور پھران قبروں کے قریب سلطان ذکریا کے مزار چلا گیا کافی دیر مزار کے اندر رہا ۔اس مزار میں ایک لمبی قبر تھی اس کی لمبائی تقریباً پچیس تیس فٹ ضرور ہوگی ۔پھر آقا قافا اس قبر کے اوپر لیٹ گیا اور اس نے دعوت پڑھنے کا عمل کیا ۔یہ عمل کشف القبور میں صاحب ِ قبر کے ساتھ ہمکلام ہونے کے لیے پڑھا جاتا ہے ۔یکایک آقا قافا کی آنکھیں چندھیا گئیں وہ ایک ایسی جگہ آگیا جہاں روشنی ہی روشنی تھی ۔نور ہی نور تھا ۔اسے ایک بزرگ دکھائی دیا۔بزرگ آقا قافا سے کہا ”ہاں بچے کیسے آئے ہو “آقا قافا بولا ”آپ کی قبر دیکھ کر میں تجسس میں مبتلا ہوگیا تھا کہ یہ اتنی لمبی کیوں ہے ۔“بزرگ بولے ”میرے ساتھ میرے نیزے کو بھی دفن کیا گیا تھا “آقا قافا نے کہا ”مگر آپ تو ایک فقیر تھے فقیروں کا نیزوں سے کیا واسطہ “

جو مجاہد نہیں ہوتا وہ فقیر نہیں ہوسکتا ۔فقیر صرف اپنے اندر مجاہدہ نہیں کرتا اسے اپنے باہر بھی مجاہدہ کرنا ہوتا ہے “

مگرزیادہ تر فقیروں نے صرف محبت کی زبان سے سچائی پھیلائی ہے “

بنیادی مقصد سچائی کافروغ ہے اور اس کے لیے محبت کی زبان سب سے بڑا ہتھیار ہے لیکن کچھ ابوجہل بھی ہوتے ہیں جن کے لیے تیزوں اور تلواروں کی ضرورت پڑتی ہے “بزرگ کی یہ بات سن کر آقا قافا نے کہا ”مجھے کوئی نصیحت کیجئے “ بزرگ بولے”اپنے مرشد سلطان باہو سے اجازت لئے بغیر آئندہ کسی مزار پر دعوت مت پڑھنا۔میں نے تمہاری والدہ اور تمہارے بھائی کے سبب تمہیں ملاقات کا وقت دیا ہے ۔تمہاری والدہ بڑی نیک خاتون تھیں ۔بارگاہ ایزدی میں انہیں بڑے بلند درجات حاصل ہیں اور تمہارا بھی بڑا صاحبِ مرتبہ نوجوان تھا اس سے میری اکثر ملاقات رہتی ہے “

آقا قافا مزار سے باہر نکل آیا اس کے چاروں طرف قبریں ہی قبریں تھیں ۔تھوڑا سا شہر کی طرف چلا تو اس کی نظر ایک قبر کے کتبے پر پڑی اس پر لکھا ہوا تھا ”حضرت عطامحمد (مجذوب )اور اسے عطو مجذوب یاد آگیا ”اس کے ہونٹوں میں خود بخود وہ گیت گونجنے لگا جو عطو مجذوب سڑکوں چلتے ہوئے زور زور سے گایا کرتا تھا۔

لوک کریندن اللہ اللہ

میں آکھاں میاں محمد بخش

یا میاں محمد بخش یا میاں محمد بخش

پھر اسے یاد آیا اس مشرکانہ گیت پر اسے کتنی تکلیف ہوتی تھی ۔وہ سوچتا تھا کہ قیامت کے روز بارگارہ ایزدی میں اس گیت کے سبب عطو مجذوب کو تو جو سزا ملے گی ملے گی ۔میاں محمد بخش بھی اللہ کے حضور اسی گیت کی وجہ سے شرمندہ ہونگے ۔جب مجھے پہلی محبت میں ناکامی ہوئی تو ایک دوست کے کہنے پر عطو مجذوب کے پاس دعا کےلئے گیا تو وہ اس کی کار میں بیٹھ گیا اور کہا”چل مجھے کھڑی شریف لے جا “پانچ گھنٹوں کے مسلسل سفر کے بعد آقا قافا کی کار میاں محمد بخش کے دربار پر پہنچی ۔ ابھی جا کر مزارات پر دعا مانگی تھی کہ عطو نے کہا ”چل واپس چلیں “آقا قافا نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ رات ہوچکی ہے ۔میں بہت تھک چکا ہوں ۔ کوئی سونے کی جگہ ڈھونڈتے ہیں ۔کل واپس جائیں گے ۔مگر وہ آکر کار میں بیٹھ گیا اور سختی کے ساتھ کہا کہ گاڑی چلاﺅ ۔آقا قافا نے کار اسٹارٹ کی اور اس نے قرآن حکیم کی تلاوت شروع کردی۔وہ اتنی خوش الحانی سے سورة رحمان کی تلاوت کرنے لگا کہ آقا قافابس تلاوت میں گم ہو کر رہ گیا تقریباً ایک گھنٹہ تک اسے صرف تلاوت سنائی اور دکھائی دیتی رہی ۔اچانک عطونے تلاوت ختم کی اور آقا قافا کویاد آیا کہ وہ تو کار چلا رہا ہے اس نے سڑک کی طرف دیکھا اپنے ارد گرد نظر ڈالی تو پریشان ہوگیا کیونکہ وہ میانوالی پہنچ چکا تھا۔یہ عطو مجذوب کی ایک ایسی کرامت تھی جس نے اس کے بارے میں مشہور تمام حکایاتوں کی تصدیق کردی کہ لوگ جو کہتے ہیں وہ کہانیاں نہیں حقیقت ہے ۔عطو مجذوب نے پھرہی گیت گانا شروع کردیا تھا۔لوک کریندن اللہ اللہ ۔میں آکھاں میاں محمد بخش ۔

آقا قافا نے اسے بڑے احترام کے ساتھ کہا ”یہ جوآپ گیت کاتے ہیں یہ بڑا مشرکانہ ہے تو وہ آہستہ بولا ”تم نہیں جانتے یا محمد بخش یا ہو یا خدا ہے یا محمد ہے یا علی ہے یا حسین ہے “آقا قافا اورپریشان ہو گیا اور اس نے کہا ”آپ نعوذباللہ میاں محمد بخش کو خدا کہہ رہے ہیں رسول کہہ رہے ہیں ۔علی مرتضیٰ قرار دے رہے ہیں انہیں امام حسین کہہ رہے ہیں ۔عطو نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے غصے سے کہا ”گاڑی روکو “اس نے بریک لگائی عطو نے فوراً دروازہ کھولا اور باہر نکل کر قریب کی ایک گلی میں مڑ گیا ۔

آقا قافا گھر گیا اور اپنے بڑے بھائی کو یہ سارا قصہ سنایا یہ وہی بھائی مرحوم بھائی تھے جن کاذکر ابھی سلطان ذکریا نے کیا تھا ۔اس کے بھائی نے اس کی بات سنی ان سنی کردی اور کہا میں اس پر پہلے غور کرچکا ہوں کہ اس گیت کا مفہوم کیا ہے ۔ تم علم اعداد کے بارے میں جانتے ہونا یہ سارا علم اعداد کا چکر ہے ۔علم اعداد کی رو سے میاںعدد بھی گیارہ ہیں محمد عدد بھی گیارہ ہیں بخش کے عدد بھی گیارہ ہیں یا کے عدد بھی گیارہ ہیں علی کے عدد بھی گیارہ حسین کے عدد بھی گیارہ ہیں ہو کے عدد بھی گیارہ ہیں ۔ غور کر میاں کے عدد ایک سو ایک بنتے ہیں یعنی گیارہ۔ محمد کے عدد بانوے ہیں یعنی نو اور دو گیارہ ۔بخش کے عدد نو سے دو بنتے ہیں یعنی وہی گیارہ ۔یا میاں محمد بخش میں چار مرتبہ گیارہ آتا ہے ۔گیارہ کے عدد کی جلوہ گری میں محمد اور علی کے تعلق پر غور کرو محمد کے عدد بانوے یعنی گیارہ علی کے عدد ایک سو دس یعنی گیارہ ۔محمد کی میم اور علی کی عین کا ملایا جائے تو پھر ایک سو دس بن جاتے ہیں یعنی گیارہ حمد اور لی کو ملایا جائے تو پھر بانوے بن جاتے ہیں وہی گیارہ۔یوں یا میاں بخش میں یا محمد بھی آتا ہے یعنی علی ۔ہو کے عدد بھی گیارہ ہیں اس لئے یاہو بھی شامل ہے۔ خدا کے عدد بھی گیارہ ہیں ۔ خالق کے عدد بھی گیارہ ہیں ۔رزاق کے عدد بھی گیارہ ہیں۔ مکہ کے عدد بھی گیارہ ہیں کرسی کے عدد بھی گیارہ ہیں قل ہواللہ احد میں دو مرتبہ گیارہ آتا ہے ۔اس آیت کے حروف بھی گیارہ ہیں۔آقا قافا خیالوں کی دنیا سے نکل آیا اس نے عطو مجذوب کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور آگے بڑھ گیا۔تھوڑا سا چلا تو ایک چوک آگیا ایک کونے مویشیوں کا میلہ لگا ہوا تھا ۔سامنے سیدھی سڑک بازار کی طرف جاررہی تھی ۔وہ وہاں بائیں طرف مڑ گیا ۔اسے یاد تھا کہ یہ سڑک گھر کی طرف جاتی ہے ۔تھوڑ سا چلا تو پھر ایک چوک آگیا دائیں طرف والے دوسرے کونے پر عید گاہ کی عمارت تھی جس میں خاصی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں ۔وہ وہاں سے دائیں طرف مڑا اور پھر چلتے چلتے اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا ۔اسے سامنے جامعہ مسجد کا اکلوتا اونچا مینار دکھائی دے رہا تھا۔

آقا قافا نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دے دی ۔بڑے بھائی نے دروازہ کھولا اور پوچھا ”جی کس سے ملنا ہے “آقا قافا کو فوراًخیال آیا شکل و صورت میں تو وہ منصور آفاق جیسا نہیں اس لئے گھر والے اسے کیسے پہچان سکتے ہیں اس نے کہا ”مجھے منصور آفاق سے ملنا ہے “تو بڑے بھائی بولے ”آپ کون ہیں کیا آپ کو علم نہیں کہ وہ برطانیہ میں مقیم ہیں ۔آقا قافا بولا ”سوری دراصل بہت عرصہ پہلے امریکہ چلا گیا ہے ابھی واپس آیا ہوں ۔ منصور میرا دوست ہوا کرتا تھا ۔میں نے سوچا اس کا پتہ کروں ۔کیا مجھے اس کا فون نمبر مل سکتا ہے “بڑے بھائی اسے بیٹھک میں بٹھا یا ۔زبردستی چائے پلائی کہ تم منصور دوست ہو اور پھر یوکے کا فون نمبر بھی دے دیا۔

آقا قافاکی کیفیت بڑی عجیب تھی وہ جس جگہ بیٹھا تھا وہیں وہ بڑا ہوا تھا اسی بیٹھک میں اس نے سینکڑوں رات دوستوں کے ساتھ جاگ کر گزاری تھیں ۔اس نے دیوار پر لگی ہوئی اپنے ابو کی تصویر دیکھی اس کا جی چاہا کہ جا کر اس تصویر کو چوم لوں مگر رک گیا کہ بھائی جان کیا کہیں گے ۔اسے ہر شے سے اپنی خوشبو آرہی تھی ۔وہی فرنیچر تھا۔ وہی کتابیں شیلف میں پڑی تھیں ۔حتی کہ دس سال پرانا وہی نمک کا بنا ہوا ایش ٹرے میز پر پڑا تھا جسے وہ کالاباغ سے خرید کر لایا تھا۔اس بیٹھک میں زندگی رکی ہوئی تھی ۔یعنی کوئی تبدیلی نہیں آتی تھی ۔

وہ بہت افسردہ بہت غمگین گھر سے نکلا۔اور بلو خیل روڈ پر چلنے لگا۔ عصر کی نماز کا وقت ہورہا تھ وہ جامع مسجد میں داخل ہوا با جماعت نماز پڑھی۔بہت سے جانے پہچانے چہرے دکھائی دئیے مگر آقا قافا سب کےلئے اجنبی تھا۔کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی ۔وہ مسجد سے نکلا اسے دائیں طرف گرلز ہائی سکول دکھائی دیا ۔جہاں اس کی امی ٹیچر تھیں ۔قدموں کے ساتھ ساتھ یادوں کی فلم بھی چل رہی تھی ۔چلتے چلتے وہ کمیٹی چوک میں پہنچ گیا۔ وہاں وہ پھر رک گیا اس کی نظر ٹاون ہال کی طرف اٹھی ۔وہ چلتا ہوا ہال کے دروازے کے پاس آکھڑا ہوا۔اسے بیڈمینٹن کورٹ دکھائی دیا۔یہاں وہ بیڈمینٹن کھیلا کرتا تھا۔کمیٹی چوک سے وہ دائیں طرف ریلوے روڈ پر چلنے لگا۔ ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گیا۔وہ بھی ویسا ہی تھا۔شاید ماڑی انڈیس ٹرین گزر چکی تھی ۔اس لئے ویران ہو چکا تھا ۔پلیٹ فارم پرایک سکوت مضمحل پھیلا ہوا تھا ۔آقا قافا پلیٹ فارم کے ایک بنچ پر بیٹھ گیا،آج پہلی بار اسے اپنا ادھورا لگ رہا تھا۔