
عمران خان جنوبی پنجاب کا صوبہ کیوں نہیں بنایا
پنجاب کی تقسیم کا خواب دیکھتے دیکھتے بال سفید ہو گئے ہیں ۔یہ خواب ہم تھل کی تپتی جلتی ریتوں پر ننگے پائوں چلنے والوں اورپیرفرید کی روہی میں ’’پیلو چننے والوں نے دیکھااورپنجابی ہونے کا انکار کیا : میں تسا ،میڈی دھرتی تسی ،تسی روہی جائی ، میکوں آکھ نہ پنج دریائی ۔(میں پیاسا، میری دھرتی پیاسی ، پیاسی روہی میری ماں ،مجھے پانچ دریائی مت کہہ )۔ تخت ِلاہور کی قید سے آزادی کا یہ خواب ، رفتہ رفتہ اتنا توانا ہواکہ سرائیکی علاقہ کی لیڈر شپ اِسی وعدے پرپی ٹی آئی میں شامل ہوئی ۔پہلے سو دنوں میں صوبہ بنانے کا اعلان کیا گیا۔
اس بات پرکسی نے غور نہیں کیا کہ سرائیکی لوگ پنجاب کی تقسیم پر کیوں بضد ہیں ۔انہیں کیا تکلیف ہے۔ وہاں ’’پنجابی سامراج ‘‘جیسی اصطلاحیں کیوں سامنے آئیں۔عمران خان نے اس بات پر دھیان دیا۔غورکیا کہ پنجاب نے پچھلے ستر بہتر سال سے سرائیکی علاقہ کا کیا ، کیوں اور کیسے استحصال کیا ۔پتہ چلا کہ بنیادی معاملہ معاشیات کا ہے ۔پنجاب کے بجٹ کا نوےفیصد حصہ لاہور ، فیصل آباد ، گوجرانوالہ ، سیالکوٹ اور اس کے گرد و نواح میں خرچ کیا گیاکیونکہ زیادہ تر چیف منسٹرزکا تعلق پنجاب سے تھا۔زیادہ تر بیورو کریسی بھی اِسی علاقہ سے تھی ۔کیا ستم ہے کہ 2008میں شہباز شریف بھکر سے ایم پی اےمنتخب ہوئے مگر پانچ سال تک اُس پسماندہ ضلع میں چکر لگانا تک پسند نہیں کیا ۔
شاید اسی لئے عمران خان نے جنوبی پنجاب کے پسماندہ ترین علاقہ سے وزیر اعلی کا انتخاب کیا ۔دانشِ پنجاب کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی ۔عثمان بزدار کو ہٹانے کےلئے پنجاب کا زیادہ تر میڈیاحرکت میں آگیا۔اُن کی خلاف سازشیں تیار گئیں ، ایسے الزامات لگائے گئے جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا مگرعمران خان بھی اپنے فیصلے پرڈٹ گئے ۔انہوں نے اس مخالفانہ شور و غل کی طرف کان ہی نہیں دھرے اور کہاکہ کم ازکم پانچ سال تواس علاقہ کا شخص پنجاب کا وزیر اعلی رہے جہاں محرومیاں ہی محرومیاں ہیں ۔ عثمان بزدار انےپنجاب کا بجٹ کا 35 فیصد حصہ جنوبی پنجاب کےلئے مختص کردیا ۔پنجاب کے دیہی علاقوں میں سچ مچ تبدیلی کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔جن لوگوں کو میری پر یقین نہیں آرہا کہ وہ پنجاب گورنمنٹ کی شائع شدہ ایک کتاب ’’پنجاب بن رہا ہے ‘‘ اٹھا کر ایک نظر دیکھ لیں ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی ۔

