
آدھا مجذوب
آدھا مجذوب
گذشتہ روز مجھے سانحہ ءماڈل ٹاﺅن میں شہید ہونے والے مجذوب کا احوال اس کے ایک دوست سنایا۔عجیب کہانی تھی سو میںکافی دیر پریشان رہا ۔مجھے سرمد یاد آگئے جو مذہبی حاکمیت اور شہنشاہیت کے لئے قابلِ قبول نہیں تھے ۔ اپنے زمانے میں لوگ انہیں خرد مند مجذوب کی حیثیت سے یاد کرتے تھے اور جب انہیں شہید کر دیا گیا تو دنیا انہیں ایک باغی مجذوب کی حیثیت سے جاننے لگی ۔
سرمد کے آبا اجداد کا تعلق آرمینہ سے تھا اور وہ مسلمان ہونے سے پہلے ےہودی تھے ۔ سرمدگوالیار میں رہتے تھے مغل بادشاہ شاہجہان کے بیٹے دارا شکوہ کے ساتھ ان کی بہت دوستی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دارا شکوہ اور ان میں نظریاتی ہم آہنگی بھی بہت تھی۔ اورنگ زیب نے اپنے دورِ اقتدار میںانہیں مسجد میں آکر نماز پڑھنے کی درخواست کی تھی۔ اس زمانے میں ہر مسلمان پر فرض تھا کہ وہ حکومت کی تسلیم شدہ مساجد میں آکر نماز ادا کرے۔ سرمد اپنی دنیامیں مست اےک اےسے مجذوب آدمی تھے جن کا ہر لمحہ عبادتِ الٰہی میں گزرتا تھا۔ان کے نزدیک وہ کسی خاص وقت اور خاص جگہ پر عبادت کے پابند نہےں تھے۔ وےسے بھی ان کا ہر لمحہ ، ہر سانس، ہر مقام پرعبادت اور رےاضت سے سرشار رہتاتھا سووہ شاید بادشاہ کے فرمان کو بھول گئے یا شایدانہوں نے مسجد میں آکر نماز پڑھنے سے انکار کردیا۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں جاں سے گزرنا پڑااور اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمد جےسے لوگوں کےلئے دنےاوی قوانین بازیچہ ءاطفال سے زیادہ نہیں ہوتے ۔کہتے ہیں کہ جب ان کی گردن جسم سے جدا ہوگئی تھی تو اس وقت بھی ان کی انگلی اپنے لہو مےں ڈوب کراللہ کا نام لکھتی چلی جارہی تھی۔ ان کا سرکے بغےر دھڑکئی قدم چلا تو ان کے مرشد جنہیں وہ”ہرے بھرے صاحب“ کہتے تھے انہوں نے سرمد سے کہا ”اپنے راز کو فاش مت کر“تو ان کا سربریدہ بدن مردہ حالت میں زمیں پر گر پڑا۔اس بات کی حقانیت ثابت کرنے والے اس حوالے سے یہ کہتے ہیں کہ جسم ، احساس اور دماغ کے علاوہ ایک اور چیز روح بھی ہے جس پر کبھی موت واقع نہیں ہوتی۔اور اس کا تعلق وحدت ِ کل سے ہے، خدا کی ذات میں اپنی ذات کو فنا کر دینے والی روحیں خدا کے ساتھ اپنے تعلق کواتنا زیادہ مضبوط کرلیتی ہیںکہ خدا خود ان کے ہاتھ پاﺅں بن جاتا ہے ۔وہ دلیل کے طور پر قرآن حکیم کی وہ آیات پیش کرتے ہیں جن کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ وہ زمینوں اور آسمانوںکا نور ہے جس طرح طاق میں چراغ ۔۔اور چراغ میں شیشہ ۔۔اتنا چمک دارجیسے ستارہ اور یہ روشن ہے زیتون کے تیل سے جو کہ نہ مشرق کا ہے اور نہ مغرب کااور جو بے پناہ روشن ہے روشن در روشن ہے مگر اسے آگ چھو کر نہیں گزری اور خدا اپنی اس روشنی تک ان لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے جنہیں چاہتا ہے۔ سرمد نے اپنی شاعری میں بھی اسی بات پر زور دےاہے کہ خدا انسان کو اپنا آپ دے دیتا ہے ۔جس پر وقت کے علمائے کرام نے سر مد کے خلاف فتوے بھی دےئے تھے۔ بعض صوفےاءنے اس بات کی وضاحت کچھ یوں کی ہے کہ فرض کرو کہ کوئی شخص کہیں چھپا ہوا ہے مگر وہ حرکت کر رہا ہے اور اس کی حرکت اس کے ہونے کی خبر دے رہی ہے کہ وہ کہاں ہے، خدا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ کوئی شخص کبھی خدا تک نہیں پہنچ سکتا خود خدا انسان تک پہنچتا ہے۔
سر مدکو اپنے زمانے کے لوگ اتنا زیادہ مانتے تھے کہ جب انہیں شہید کردیا گیا تو ہر شخص کی زبان پریہی آیا کہ اب مغلیہ خاندان کا اقتدار زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا ۔ اس وقت مغلیہ سلطنت اپنے عروج پر تھی اور بظاہر کہیں اس کے زوال کا کوئی جواز نظر نہےں آتا تھا ۔ سرمد کے ماننے والے اس وقت بھی ےہی کہتے تھے اور آج بھی یہی کہتے ہیں کہ مغلوں کے زوال کا پہلاسبب سرمد کا قتل ہے ۔روحانی بادشاہت کے مالک مرنے کے بعد بھی زمینی بادشاہت کو الٹ دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ سرمد کی قبر آج بھی سرخ ہے ان کے ماننے والوں نے علامت کے طور پر اس قبر کارنگ سرخ رکھا ہوا ہے۔ سرمد کی قبر کے ساتھ ایک سبز رنگ کی قبر ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سرمد کے مرشد کی قبر ہے جسے وہ” ہرے بھرے صاحب“کے نام سے یاد کرتے تھے اور کچھ لوگوں کے خیال میں وہ ایک صوفی بزرگ کمالی ہے جو ایک اور صوفی بزرگ جمالی کے ہمزاد تھے ۔جمالی کی قبر بھی وہیںموجود ہے،
دراصل جولوگ روحانی طور پر اس باطنی دنیا سے آشنا نہیںجہاںزماں ومکاں کے اسرار گردش میں ہوتے ہیںانہیں ایسے اشخاص کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتاجو روحانی طور پر بلندیوں پر پہنچ چکے ہوتے ہیں۔اِن مقدس دیوانوں کا روحانی راستے پر الوہی سفر اکثرظاہری اور مروجہ رویوں سے متضاد ہوتاہے اور ان کی مقدس زندگی کو عام اقدار اور حقیقت پسند رویوں کی شدید مخالفت کا کچھ احساس نہیں ہوتا ۔ وہ خود ملامتی میں اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں ان کی زندگی کا اولین مقصد اپنی ذات کو فنا کرنا ہوتا ہے کیونکہ جب تک کوئی مکمل طور پر اپنی نفی نہیں کرلیتا وہ اس وقت تک اثبات کی اس منزل تک نہیں پہنچ سکتا جو راہِ سلوک کے ہر مسافر کا مقصدِ حیات ہوتی ہے اورتارےخ نے ہمیشہ یہی ثابت کیا ہے کہ بادشاہوں اور فقےہوںکے فیصلے غلط تھے۔۔ معاملہ چاہے منصور حلاج کا ہویا سرمد کا۔۔تاریخ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ وہ سچائی پر تھے۔
آج پھر اسی دوست سے ملاقات ہوئی تو میں نے اسے کہادرودی مجذوب کی ہلاکت کا جوواقعہ تم نے کل سنایا تھا ۔اس نے مجھے بہت پریشان کیا ہوا ہے ۔ میں ساری رات سونہیں سکا کیونکہ جب اس طرح کے لوگ کسی تہذیب میں قتل ہوتے ہیں تو پھر وہ تہذیبیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔ مغل تہذیب جو اپنے دور میں ایک بہت بڑی تہذیب گردانی جاتی تھی ۔ سرمد کے قتل کے بعد کتنی کم مدت میںٹکڑے ٹکڑے ہو کر ختم ہو گئی۔ مجھے ےہ بات کہتے ہوئے خوف محسوس رہا ہے کہ کہےں ہماری تہذےب کے خون سے لتھڑے ہوئے ہاتھ ہمےں بھی کسی اےسے ہی خوفناک انجام سے دوچار نہ کردےں ۔
میری باتیں سن کر وہ ہنس پڑااور کہنا لگا ”کچھ نہیں ہوتایار۔ وہ چودہ اگر مجذوب تھے تویہ بھی مجذوبوں کی حکومت ہے ۔چلی تو چلی وگرنہ یہ بھی درویش کی طرح کمبل کندھے پر ڈالیں گے اور مکہ مکرمہ چلے جائیں گے ۔ پیچھے ۔راحیل شریف زندہ باد۔“میں نے حیران ہو کر پوچھا ”کیا تم مستقبل کے منظر نامہ میں کوئی مارشل لاءدیکھ رہے ہو “۔ کہنے لگا ”نہیں ہرگز نہیں ۔میں تو آئین کی بحالی کا منظر دیکھ رہا ہوں ۔مجھے یقین ہے ۔نئے چیف جسٹس کے ستائیس دن پاکستانی آئین کی بحالی کے ستائیس دن ہوں گے۔اب میں ہنس پڑا اور میں نے کہا ”تم بھی تو آدھے مجذوب ہو“

