
کیئر ٹیکر یا شیئر ٹیکر
کیئر ٹیکر یا شیئر ٹیکر
لگتاہے نگرانوں کی نگرانی کیلئے کچھ اور نگرانوں کی ضرورت ہے ۔یہ کیئر ٹیکر کم اور شیئر ٹیکر زیادہ ثابت ہورہے ہیں ۔چند بچوں کے ہاتھ بہت ہی قیمتی کھلونا آگیاہے اور انہیں معلوم بھی ہے کہ چند دنوں کے بعدیہ کھلونا ان سے چھین لیا جائے گا۔سو جو حشر وہ اس کا کر سکتے ہیں کئے جارہے ہیں ۔ سچ مچ ایسا لگ رہا ہے کہ بچہ سقہ کی حکومت آگئی ہے ۔وہی کام جاری ہے جو بچہ سقہ نے کیا تھا کہ ایک دن کی بادشاہی میں اس نے چمڑے کے سکے چلادئیے تھے اور انہی چمڑے کے سکو ں کی بدولت ہندوستان کے امیرترین افرادمیں شامل ہوگیا تھا۔اس وقت پاکستان پر بھی کئی ”سقوں کی حکومت ہے ان میں زیادہ تروہ ہیں جنہوں نے صدر زرداری اور نواز شریف کو کسی مشکل کے وقت دریا پار کرایاتھااور اس وقت انہی دونوں کی دریا دلی کے سبب اپنے چمڑے کے سکے چلائے جارہے ہیں۔ان سقوں کی حکمرانی کے رہ تو دس، بارہ دن گئے ہیں مگرایسی کہانیاں پیچھے چھوڑے جا رہے ہیں کہ بچہ سقہ کی طرح ان کا نام بھی تاریخ کی کتابوں سے کبھی محو نہیں کیا جا سکے گااس وقت کے صاحبِ اقتدار سقے دو طرح کے ہیں ایک حکومت چلا رہے ہیں دوسرے سقے الیکشن کرا رہے ہیں ۔بچہ سقہ اور ان میں ایک فرق ضرور ہے کہ اِن دونوں سقوں کے سربراہ ”بچے سقے“ نہیں” بوڑھے سقے“ ہیں بلکہ بوڑھے ترین سقے ہیں۔اس میں بھی شک نہیں کہ ان سے پہلے جو حکمران تھے وہ بھی بچے سقے ہی تھے اگرچہ وہ بچہ سقہ کی طرح ایک دن کیلئے حکمران نہیں بنائے گئے تھے ۔انہیں پورے پانچ سال دئیے تھے مگر انہوں نے بھی ہر دن بچہ سقہ کی حکمرانی کی طرح گزارا کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ پتہ نہیں صبح جب نیند سے بیدار ہونگے تو ان کی حکومت ہو گی یا نہیں لیکن اس وقت میرا موضوع ایک ماہ کے بچہ سقہ کی حکمرانی ہے۔اورمیں صرف ایک وزیر کے متعلق بات کررہا ہوں یہ موصوف نیشنل فوڈ سیکورٹی کے منسٹر ہیں اس کے علاوہ بھی کئی وزارتیں ان کے پاس ہیں انہوں نے تمام پراجیکٹس اور محکمہ جات سے لاتعداد گاڑیاں منگواکر آدھی گاڑیاں اپنے آبائی گاؤں سبی بھجوا دی ہیں اور آدھی گاڑیاں اپنے دوستوں اور منطورِ نظر احباب میں تقسیم کر دی ہیں ان تما م گاڑیوں کا ڈیزل اور پٹرول بھی پراجیکٹس اور محکمہ جات کے ذمہ ہے۔
ہر گاڑی کی مد میں روزانہ سات سوکلومیٹرسفر کیلئے ڈیزل اور پٹرول جاری ہوتا ہے اورمنظورِ نظر حضرات یہ پٹرول متعلقہ پٹرول پمپس پر ہی رعایتی نرخوں پر فروخت کر دیتے ہیں ۔ایک منسٹر نے اپنے گھرکے کچن کیلئے جو سامان اپنے پراجیکٹ مینجر سے منگوایا ہے اس کی فہرست یہ ہے ۔توا روٹی کیلئے ایک عدد،پتیلے چار عدد،ٹپ آٹے کیلئے ایک عدد، پرات ایک عدد، ساس پین چائے والے دو عدد، فرائی پین دو عدد، سالن والے چمچ چار عدد، کیٹنگ بورڈ ایک عدد، سٹاف کیلئے پلیٹیں اور جگ گلاس چوبیس چوبیس عدد، پریشر ککر ایک عدد، جوسر مشین ایک عدد، مائیکروویو اوون ایک عدد، بیلن اور ہاٹ پاٹ ایک عدد،چمٹا روٹی کیلئے ایک عدد، روٹی کے کپڑے اور ڈسٹر سات سات عدد، ویم ،سرف،لیمن مکس ایک ایک عدد ،صابن ، تولیاایک عدد ،کڑائیاں دو عدد ،برتن دھونے والی جالی ایک عدد ،ہلدی ایک ڈبیا، چاول دس کلو، لال مرچ ایک ڈبیا،ماچسں ایک پیکٹ، ثابت دھنیہ ، دھنیہ پورڈ سفید زیرہ ،گرم مسالہ ، دال مسالہ،آٹا پاکیزہ مل والا، چائے لپٹن والی دودھ ، آئل، کیچپ ،بریانی مسالہ ،تمام دالیں سبز الائچی ،ماکھی، آٹے کی چھاننی ،قورمہ مسالہ ، املی ،سرکا،انڈے۔ایسی عجیب و غریب فہرستیں دیکھ کر محکمے کے افسران پریشان ہیں کہ یا اللہ یہ منسٹر کی اپنے محکمے سے ڈیمانڈز ہیں یا بیوی نے شوہر کو گھر کے سازو سامان کی لسٹ بنا کر دی ہے اور یہ تو متعلقہ وزیر کے اپنے محکمے سے تحریری مطالبات ہیں ،زبانی کیا کیا ہونگے اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں ۔ذرا غور کریں یہ مطالبات اس وزیر کے ہیں جسے اس ایک ماہ میں پندرہ سے بیس لاکھ روپے مختلف مراعات کے عوض ملیں گے ۔ہر وزیر کوصرف تنخواہ اور الاؤنسزکی مد میں تقریباًماہانہ دولاکھ روپے ملتے ہیں۔
چلیں تھوڑی سی بات وزیر داخلہ کی بھی کر لیتے ہیں انہوں نے نواز شریف کے تعلق میں جو محبت نامہ میڈیا کے سامنے پیش کیا تھا وہ تو سب لوگ پڑھ چکے ہیں مگر کارکردگی کیا ہے اس کا اندازہ کرنے کیلئے کراچی ہی کافی ہے ویسے تو پورا ملک ہی جل رہا ہے مگر وزیر موصوف ستو پی کر سوئے ہوئے ہیں ۔انہیں پروا ہی نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے صرف ایک عارف نظامی کے علاوہ کوئی وزیر ایسا نہیں جو کوئی کام کر رہا ہو۔تمام وزیرصرف اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ان چند دنوں کی حکمرانی سے زیادہ سے زیادہ مال کیسے کشید کیا جا سکتا ہے ۔ اور زیادہ تر وزیر تو اس اہل بھی نہیں ہیں کہ انہیں وزیر بنایا جاتا ۔نگران حکومت کیلئے تو ضروری ہوتا ہے کہ ایک دو ماہ کیلئے بننے والے یہ وزراء ٹیکنو کریٹ ہوں تاکہ حکومت کا نظام بہتر انداز میں چلتا رہے ۔مگر یہاں لگتا ہے کہ بنانے والوں نے اپنے کچھ چہیتوں کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ بھی اسی عرصہ میں جو کچھ کر سکتے ہیں کر لیں ۔
ایک اور صاحب جو وفاقی وزیر ہیں وہ سابقہ حکومت ختم ہونے سے پہلے وزیر اعظم کے ایڈوائزر تھے یعنی بنیاد ہی غلط رکھی ہے کہ وہی لوگ جو پہلے تھے انہی کو یا ان کے عزیزوں، رشتہ داروں کو وزیر بنادیا گیا ہے ۔فیض احمد فیض کی ایک بیٹی کو بھی پنجاب میں وزیر بنایا گیاہے ۔ مگر شاعروں اور ادیبوں کیلئے اطلاع ہے کہ یہ احسان فیض صاحب کی وجہ سے نہیں کیا گیا بلکہ اس لئے کیا گیا کہ وہ سابق مرحوم گورنر کی خالہ زاد بہن ہیں اور ایک صوبے کے نگراں وزیر اعلیٰ کی غیر جانب داری کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ ملک کی اعلیٰ شخصیت کے منہ بولے بھائی کے بزنس پارنٹر رہے ہیں۔ منہ بولے بھائی مظفر حسین کے صاحبزادہ ہیں اور مظفر حسین کراچی کے مشہور سینما کے جنرل مینجر ہوا کرتے تھے اور سینما کے مالک تھے اعلیٰ شخصیت کے والد صاحب۔اورمجھے پچھلے پانچ سال سے وہی سینما پورے پاکستان پر محیط ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔ اللہ پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھے۔
mansoor afaq

