جب چڑیاں چگ گئیں کھیت . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

میں جب نومبر 2012میں برطانیہ سے پاکستان آیا تو معروف کالم نگار یاسر پیرزادہ نے مجھے اپنے گھر کھانے پر بلا یا اس کھانے میں یاسر ابو عطاالحق قاسمی ،سہیل ورائچ ،مظہر برلاس ،ندیم بھابھا،قمر رضا شہزادکے علاوہ اور بھی بہت سے احباب بھی شریک ہوئے ، کھانے کے بعد معمول کے مطابق سیاست پر گفتگو و شنید شروع ہوئی اور میں نے کہا کہ آئندہ حکومت عمران خان کی ہوگی اور اپنی دعویٰ کے حق میں دلائل دئیے تو میں نے دیکھاکہ ایک آدھ دوست کے سوا تمام دوستوں نے یک ز بان ہوکر میرا مذاق اڑارہے ہیں جیسے میں نے کوئی انتہائی بے وقوفانہ بات کر دی ہے مجھے توپاکستان کی سیاست کی الف بے کابھی پتہ نہیں ،اس عشائیے میں شریک زیادہ تر دوستوں کا یہی خیال تھا کہ عمران خان کے صرف اتنے ایم این اے ہونگے کہ ایک ٹانگے میں پورے آجائیں گے،آئندہ میں نو ن لیگ دو تھائی اکثریت حاصل کرے گی وغیرہ وغیرہ ۔ہماری بحث کا اختتام اس شرط پر ہوا کہ اگر عمران خان کی نشستیں نون لیگ سے زیادہ ہوئیں تو یاسر پیرزادہ کسی اچھے ر یستوران میں ایک سودوستوں کو کھانا کھلائیں گے اور نون لیگ کی نشستیں زیادہ ہوئیں تو یہ کھانا راقم الحروف کو کھلانا پڑے گااس کے اگلے روز میں لاہور سے جب میانوالی سے پہنچا تو امجد خان سے ملاقات ہوئی تو میں نے اسے بتایا کہ یاسر کے ساتھ یہ شرط لگا کر آرہا ہوں۔یاسر پیرزادہ اور امجد خان ( جو اس وقت میانوالی این اے72پر تحریک انصاف کے امیدوار ہیں) بہت پرانے دوست ہیں ۔ان کی دوستی کاایک پرانا واقعہ یاد آرہا ہے ۔ سن لیجئے ۔

1994میں امجد خان ، ان کے ابو ڈاکٹر شیرافگن خان ، یاسر پیرزادہ اور ان کے ابو عطاالحق قاسمی اور میں اکھٹے انگلیڈ گئے ۔اس وقت امجد خان اور یاسر پیرزادہ کی عمرسترہ اٹھارہ سال سے زیادہ نہیں تھی، بریڈفورڈ میں ہمارا قیام تھا،وہاں ہم حضرت شاہ کے مہمان تھے۔حضرت شاہ نے ڈاکٹر شیر افگن اور عطاالحق قاسمی کسی اور جگہ ٹھہرایا تھا اور امجد خان ، یاسر پیرزادہ اور مجھے کسی اور مکان میں ، ہم تینوں رات کے وقت بریڈفورڈ میں گھومنے نکلے ،ہفتے کی رات تھی اچانک میں نے دیکھاکسی پولیس مین کے ساتھ دونوں نوجوانوں کایعنی امجد اور یاسر کا کچھ معاملہ ہوگیاشایدانہوں نے اس کے ساتھ وہی سلوک کیاتھا جو پاکستان میں نوجوان کسی اکیلے پولیس والے ساتھ کرتے ہیں ، جیسے ہی مجھے حالات کی سنگینی کا احساس ہوا تو میں نے ان دونوں کوبھاگنے پر مجبور کیا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ہم تینوں بریڈ فورڈ کی گلیوں میں بھاگ رہے تھے اور پولیس کی ہوٹر بجاتی گاڑیاں ہمارے پیچھے دوڑ رہی تھیں ۔قسمت اچھی تھی کہ ہم جلدہی اس مکان میں داخل میں کامیاب ہوگئے جہاں ہمارا قیام تھا۔یوں ہم تینوں برطانوی پولیس بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئے مگر جب سانس بحال تو میں نے سوچا کہ منصور آفاق یہ کیا حرکت کی ہے تم نے ،بھاگنے کی کیاضرورت ہے انہوں نے کونسا کوئی جرم کیا تھا۔بہرحال یہ واقعی یونہی یاداشت سے باہر آگیاہے۔

میں نے جب امجد خان کو یاسر پیرزادہ کے ساتھ لگائی ہوئی شرط کے متعلق بتایا تو اس کے ساتھ اسے بھی مشورہ دیاکہ وہ بھی تحریک انصاف میں شامل ہوجائے ۔امجد خان اس وقت اپنے مرحوم ابوڈاکٹر شیر افگن والی نشست پر ایم این اے کا آزاد امیدوار تھا۔امجد خان نے کہا ” اس میں کوئی شک نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان جو مسائلستان بن چکا ہے اسے ان مسائل سے عمران خان ہی نکال سکتا ہے۔اس وقت وہی ایک ایسی قیادت ہے جو اس ملک کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنار پر لا سکتی ہے ۔لیکن میں نے سوچا ہے کہ مجھے تحریک انصاف الیکشن جینے کے بعد شامل ہونا چاہئے“۔میں نے حیرت سے کہا ” وہ کیوں“ تو امجد خان کہنے لگا”چونکہ یہاں عمران خان کے عزیر رشتہ دار بہت ہیں ۔ وہ اسے اپنے مفادات کے تحت عمران خان کو مجبور کریں گے کہ عمران خان تحریک انصاف کا ٹکٹ مجھے نہ دیں۔اس لئے میرا خیال ہے کہ میرے لئے اس وقت تحریک انصاف میں شامل ہونا بہتر نہیں ہوگا۔“ میں نے امجد خان سے کہا”میرے خیال میں عمران خان ایک لیڈر ہیں اور بہت دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ یقینا تمہیں ہی ایم این اے کا ٹکٹ دیں گے اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ عمران خان نوجوان قیادت کو سامنے لانا چاہتے ہیں اور تم نوجوان آدمی ہودوسرا میانوالی میں تمہارا تحریک انصاف شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پورا وتہ خیل قبیلہ جس کا تیس ہزار سے زائد ووٹ ہے وہ تحریک انصاف میں شامل ہوگیا ۔عمران خان جیسے ذہین لیڈر ہیں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں مجبور ہوکر تمہیں ایم این اے کا ٹکٹ نہ دیں اور پھر وہی ہوا امجد خان جیسے ہی تحریک انصاف شامل ہوا عمران خان نے اسے ایم این اے کا ٹکٹ دے دیا۔

بات شروع کی تھی یاسر پیرزادہ کے کھانے سے ۔ہاں تو اب جب میں الیکشن میں ووٹ ڈالنے کیلئے پاکستان آیا ہوں تو مجھے یاسر پیرزادہ کے ساتھ لگائی ہوئی شرط یاد تھی ۔اور میرا خیال تھا کہ چونکہ لاہور نواز شریف کا شہر ہے اور اس میں شہباز شریف نے پورے پنجاب کے فنڈ خرچ کر دئیے ہیں اس لئے یاسر پیرزادہ کوابھی تک اپنے گرد و نواح میں نون لیگ ہی جیتی ہوئی نظر آرہی ہوگی۔میں پاکستان آکر زیادہ دن پنجاب کے اندرونی علاقوں میں گھومتا رہا اور بحیثیت کالم نگار یہی سمجھتارہاکہ تحریک انصاف انہی علاقوں سے ستر اسی نشستیں جیت جائے گی جب کہ نون لیگ کو لاہور اور اس کے اردگرد سے نشستیں حاصل ہونگی اور پورے ملک سے مل ملا کر ساٹھ کے قریب نشستیں حاصل کر لے گی ۔مگر کچھ روزپہلے جب مجھے لاہور آنے کا اتفاق ہوا تو میں حیران پریشان ہو گیا کہ نواز شریف تو اپنے حلقے میں ہار رہے ہیں۔لاہور کی زیادہ تر نشستیں تحریک انصاف جیت رہی ہے اور وہ دوست جو اس رات یاسر پیرزادہ کے کھانے میں شامل تھے اور جنہوں نے میرا تجزیے کا مذاق اڑایا تھا انہوں نے مجھے مبارک دیتے ہوئے کہا کہ تم سچ کہتے تھے ۔ تم شرط جیت گئے ہو ۔یاسر ہار گیا ہے۔ میں نے ایک دوست سے پوچھاکہ تم تو ماڈل ٹاؤن میں رہتے ہو نواز شریف کے گھر کے قریب ۔تمہیں تو ابھی تک حوصلے میں ہونا چاہئے تھا تو اس نے کہا ” میں کیا کروں میرے گھر کے دونوں طرف جو مکان ہیں ان پر تحریک انصاف کے جھنڈے لہرا رہے ہیں ۔البتہ یاسر پیرزادہ سے ملاقات تو نہ ہوسکی مگر ٹیلی فون پر ضرور بات ہوئی ۔گفتگو سے اندازہ ہوا کہ یاسرنے ابھی تک شکست تسلیم نہیں کی ۔شاید وہ بھی شریف برداران کی طرح کسی معجزے کے انتظار میں ہے۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے