تبدیلی کے نمونے . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

تبدیلی کے نمونے

تبدیلی کے نمونے

تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ دیا تھا۔مکمل طور پر نہ سہی جزوی طور پر تحریک انصاف ملک بھر میں ضرور کامیاب ہوئی ہے ۔سو تھوڑی بہت تبدیلی کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں جو مستقبل میں(ن) لیگ کیلئے خاصی پریشان کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پرصوبہ پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے جو پہلی تقریر کی اس سے ان کے خوفناک عزائم ابھر کر سامنے آئے ۔انہوں نے کہا ”کہ آج کے بعد کہیں سے رشوت یا ظلم کی خبر ملی تو ایسی سزا دیں گے کہ نسلیں یاد رکھیں گی ،تمام ہسپتالوں کی انتظامیہ کوصفائی اور حاضری سو فیصدبنانے کیلئے دو دن کی مہلت دیتا ہوں پھر نہ کہنا خبر نہ تھی ۔“معاملہ صرف بیانات تک محدود نہیں ۔یہ خبر دیکھئے ”وی آئی پی کلچر کے خاتمے اور کفایت شعاری کی پالیسی پر سب سے پہلے عمل کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ بغیر پروٹوکول کے اپنی گاڑی میں لاہور آئے۔ ان کے ہمراہ صرف ایک پی اے اور ڈرائیور تھا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے مہیا کی گئی پروٹوکول کی گاڑیاں بھی انہوں نے واپس کردیں۔ تمام راستے وہ ٹریفک اشاروں کی مکمل پاسداری کرتے رہے اور اسی طرح بغیر پروٹوکول اور سکواڈ کے وہ واپس پشاور روانہ ہوئے۔

پرویزخٹک نے یہ قدم اٹھا کر ان لوگوں کے منہ پر تھپڑ مارا ہے جو دو دو گھنٹے راستے بند کر کے رکھتے ہیں .“یقینا ایسا وزیر اعلیٰ باقی صوبوں کے چیف منسٹرز کیلئے پریشان کن صورتحال پیدا کرنے والا ہے ۔خاص طور پر شہباز شریف کو اس حوالے سے سوچنا ہوگا کیونکہ وہ بھی خود عوامی وزیر اعلی سمجھتے ہیں اور اس مرتبہ انقلاب کا نعرہ لگاکر واپس آئے ہیں اور آتے ہی حکومت پنجاب کی طرف سے نئے آنے والے صوبائی وزرا،پارلیمانی سیکرٹریز، سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمینوں و ممبران کیلیے 70 نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ان گاڑیوں کی خریداری سے سرکاری خزانے کو 11 کروڑ 98 لاکھ روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ایک خبر اور دیکھئے ۔جس پر یقین کرنا مشکل ہورہا ہے ۔شاید یہی تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہے ۔”میانوالی کے نومنتخب ممبر قومی اسمبلی امجد علی خان نے نادرا آفس میانوالی میں شناختی کارڈ بنوانے کے لئے لوگ لائنوں میں کھڑا دیکھ کر خود بھی لائن میں کھڑے ہوگئے۔ نادرا کے حکام نے کوشش کی ایم این اے دفتر کے اندر آکر اپنا کام کروائیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا“اگر تحریک انصاف کے ایم این ایز اور ایم پی ایز نے ایسے کلچر کو فروغ دینا شروع کردیا تویقینا باقی پارٹیوں کے ممبرانِ اسمبلی کیلئے بھی خاصی دشوارکن کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ایک اور خبرپڑھ کر ذوالفقار علی بھٹو کا 1970ء کا الیکشن یاد آگیا ہے ۔تقریباً چالیس، پینتالیس سال کے بعد ایسی خبر سنائی دی ہے ”تحریک انصاف کے غریب ترین ایم پی اے فرید خان کے حالات کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں پلاسٹک کی چپل پہن کر شریک ہوئے۔ ان کے اثاثوں میں ایک موٹر سائیکل اور ایک چھوٹا ساگھر ہے ۔ایک ایسی مثال (ن) لیگ کے ایک ایم پی کی بھی سامنے آئی ہے ۔ضلع ناروال سے مولانا غیاث الدین بھی اپنے بیٹے کی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر افتتاحی اجلاس میں شریک ہوئے جسے تمام ٹی وی چینلز نے دکھایا ۔میرے نزدیک یہ منظر بھی کچھ لوگوں کیلئے بہت تکلیف دہ ہے مگر وہ اس یقین کے ساتھ ان مناظرسے صرفِ نظر کر گئے ہونگے کہ پانچ سال میں ہم انہیں بھی اپنے جیسا بنالیں گے ۔

یقینا یہ لوگ سوال کریں گے ۔اور سوال انگارے کی طرح ہوتا ہے ۔ گزشتہ پانچ سال میں جو لوٹ مار ہوئی اس پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔کیوں ۔زر بابا اور چالیس چوروں کے نعرے کہاں چلے گئے ۔ (ن) لیگ پر پیپلز پارٹی کے ساتھ خفیہ مفاہمت کا جو الزام میں الیکشن میں لگایا گیا تھا کیا اس وقت وہ سچ ثابت ہورہا ہے یا نہیں ۔بہت سے سوال ہیں ۔اور اب میڈیا کا دور ہے جو جو وعدے جس جس پارٹی نے کئے تھے وہ ریکارڈ ہوگئے ہیں ۔ٹی وی چینلز اب انہیں بار بار چلائیں گے ۔اور سوال اٹھائیں گے ۔یقینا یہ سوال تبدیلی کا راستہ ہیں ۔اب آنے والوں کو کچھ کرنا ہوگا ۔میں بحیثیت شاعر صرف یہی اپیل کر سکتا ہوں
پھر وہی صبح قیامت بھری خبروں والی
پھر وہی یاد سفیدی پھری قبروں والی
پھر وہی دھوپ کے خیمے ہیں وہی رات کی شال
پھر وہی زندگی سادات کی ، صبروں والی
پھر وہی خون بھرے ہاتھ کسی لشکر کے
پھر وہی خوف زدہ لوگ کسی منظر کے
پھر وہی پیاس ، وہی مرتے ہوئے بچے ہیں
پھر وہی زہر بھرے بین ہیں چشمِ تر کے
پھر وہی درد کی تہذیب ، تمدن غم کا
پھر وہی جلتا ہوا دل ، وہی ایندھن غم کا
ایک سیلاب ہے اشکوں کا جہاں تک دیکھوں
بس مسلط ہے مرے دیس پہ ساون غم کا
پھر وہی ترسے بدن ہیں ، وہی ماتم کا لباس
پھر وہی بھوک بھری آنکھ ، وہی غم کا لباس
چند ہاتھوں میں ہوئی ، پھر وہی زر کی گردش
کیوں بدلتا ہی نہیں شاخ پہ موسم کا لباس
المیے پھرتے ہیں گلیوں میں اٹھا کر مرے خواب
بے کسی تاپتی ہے ہاتھ ، جلا کر مرے خواب
آنکھ میں ریت ، زباں گنگ ، سماعت مردہ
بجھ گئی ہے کوئی آواز ، بجھا کر مرے خواب
صبح ِ آسودہ کی مسکان پہ گرتے پڑتے
کیسے جائیں کسی امکان پہ گرتے پڑتے
گہری تاریکی میں تنہائی میں سناٹے میں
چل رہے ہیں کسی ڈھلوان پہ گرتے پڑتے
ایک رستے کی تگ و دو بھی بہت کی ہم نے
جتنی ممکن تھی بہاروں کی ، بنت کی ہم نے
اک خزاں پھر بھی رہی اپنے گلی کوچوں میں
صرف تقسیمِ زر و مال غلط کی ہم نے
آئیے ایک نئی ، دیس میں تقسیم کریں
اپنے بے مہر شب و روز میں ترمیم کریں
چھین کر چند گھرانوں سے ہم اپنا جیون
اک نئی مملکتِ خواب کی تجسیم کریں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے