مذہباں دے دروازے اچے . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

مذہباں دے دروازے اچے

مذہباں دے دروازے اچے

پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر جو دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہے اس کا مداوا صرف صوفیا ئے کرام کی فکر سے ہی ہوسکتا ہے پاکستان جہاں لوگ سنسان مقبروں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ شہر ویران مسجدوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔ ہر شخص خوف کی حالت میں ہے ۔ سنا ہے کچھ لوگ اپنے جسموں سے بارود کے ڈھیر باندھ کر گھروں سے نکل آئے ہیں ۔شمال جہاں برف پگھلتی تھی اور ٹھنڈے پانی کی بل کھاتی ہوئی زندگی کو سیراب کیا کرتی تھی وہاں آگ کے دریا بہنے لگے ہیں، ہر لمحہ میری گلیوں کی آنچ کی شدت بڑھتی جارہی ہے ۔مذہب کے نام پرموت کا کھیل جاری ہے ۔فتح کیلئے ہر ناجائز عمل جائز قرار دے دیا گیاہے۔ کچھ لوگ ہر حال میں جینا چاہتے ہیں۔ہارنے کا حوصلہ کسی میں بھی نہیں ۔ میاں محمد بخش کا ایک مصرعہ یاد آیا گیا۔

جیتن جیتن ہر کوئی کھیڈے، ہارن کھیڈ فقیرا

یہ تو فقیروں کی باتیں ہیں۔ مگر اب تو فقیر بھی کم کم دکھائی دیتے ہیں۔وہ اور لوگ ہوتے تھے جو بادشاہ وقت کو کاغذ کے پرزے پر لکھ کر بھیج دیا کرتے تھے ۔ کہ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم دلی کا تخت کسی اور کے حوالے کر دیں ۔ تخت دلی کا ہویا اسلام آباد کا ، قاضی القضاہ چاہے امام ابو یوسف ہوں یا افتخار محمد چوہدری ،سچائی کی عالمگیر جنگ تاریخ کے ایوانوں میں کبھی رکی نہیں ۔ تلوار یں بجتی رہیں، ڈھالیں ٹوٹتی رہیں ۔ نیز کی انیوں پر سر بلند ہوتے رہے ۔ فقیری اور بادشاہی میں بھی تو بڑا باریک سا پردہ ہوتا ہے ۔ بادشاہ کے فقیر ہونے میں اور فقیر کے بادشاہ ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ فقیر تو مزاجاً ہوتے ہی بادشاہ ہیں اور بادشاہ بھی اگر اپنے اندر کے فقیر کو مار ڈالیں تو چنگیز اور ہلا کو بن جاتے ہیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فقیرکئی بار بادشاہ بن گئے اورکئی بار بادشاہوں کو فقیری نے اپنے دامن میں پناہ دے دی ۔ فقیر کے تکیے اور بادشاہ کے تخت میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں جو بھی شخص بادشاہ بنتا ہے وہ اپنے اندر کے فقیر کو مارڈالتا ہے ۔وہ اپنے آپ کو صرف ”اونچے اونچے دروازوں “ کیلئے مختص کر لیتا ہے ۔ موریوں سے گزرنا بھول جاتا ہے ۔ان ”موریوں “ سے جن کے بارے میں سلطان باہو نے کہا تھا

مذہباں دے دروازے اُچے، راہ ربانا موری ہو

(یعنی مذاہب کے دروازے اونچے ہیں اور اللہ کا راستہ ”موری“یعنی عام لوگوں کے گزرنے والا چھوٹا سا در ہے )میرا خیال موری کی کچھ اور وضاحت بھی ضروری ہے شاہ حسین نے جب مجذوبیت اختیار کی تھی اور ملامتی صوفیوں میں شامل ہوگیا تھا اور اس نے شہر کے بڑے دروازوں سے گزرنا چھوڑ دیا ۔ وہ ایک بہت بڑا علم دین تھا۔اس کے شہر سے باہر آنے جانے کے لیے باقاعدہ بڑے دروازے کھولے جاتے تھے۔مگر اس نے اپنی سب بڑائیں تج دیں۔ اور شہر پناہ کے بڑے دروازوں کے ساتھ عام لوگوں کے گزرنے کے لیے جو چھوٹی چھوٹی موریاں اور ہوتی تھیں،ان سے گزرنا شروع کر دیا اور یوں پکار اٹھا۔

سجناں اساں موریوں لنگھ گیوسے

بھلا ہویا گڑ مکھیاں کھادا

اساں بھڑ بھڑ تو چھٹوسے

ڈھنڈ پرائی کتیاں لکی

اساں پر نہ منہ دھتوسے

کہے حسین فقیر نمانڑاں

اساں ٹپن ٹپ نکلوسے

سرائیکی کے معروف شاعر افضل عاجز نے اسی خیال کواس طرح ادا کیا ہے۔

اے لمبا چوڑا مہاٹا تاں وڈیراں کون ہیں

اپنی وستی دی حویلی وچ کوئی موری رکھوں

سو اس وقت مسئلہ مذاہب کے اونچے دروازوں سے گزرنے والوں کا ہے جو اپنے مذاہب کو محبت سے نہیں بارود سے پھیلانے چاہتے ہیں ۔پتہ نہیں یہ کیوں یاد نہیں آتا کہ آج سے 14 سو سال پہلے محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”جو تمہاری راہ میں کانٹے بچھاتے ہیں تم ان کی راہ میں کانٹے نہ بچھاوٴ اس طرح تو دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی اور کانٹوں میں جینا مشکل ہے اگر ہو سکے تو ان کی راہ میں پھول بچھاوٴ کہ پھولوں کے جمال میں کھو کر وہ اپنی پرانی عادت بھول جائیں “

بہرحال میں تو اتنا چانتا ہوں کہ میں انسان ہوں ۔ میرے لئے اس کائنات میں کوئی اجنبی نہیں ۔سب میرے بھائی ہیں۔ میں دنیا بھر میں طیاروں سے نکلنے والی ہلاکت پر نوحہ خواں ہوں چاہے وہ ہلاکت ڈرون طیاروں سے گرتے ہوئے بموں سے نکل رہی ہو۔یا مسافر طیاروں کے کاروباری میناروں سے ٹکرانے پرنمودار ہو رہی ہو۔ مجھے جسموں کے ساتھ بارود باندھ کر اپنے گرد و نواح کو لوتھڑوں میں بدلنے والوں کا غم ہے ۔مجھے انسان کا غم ہے۔ یعنی اپنا غم ہے میں جس کا وطن کائنات ہے ۔ جس کی قومیت آدمیت ہے۔ جس کا مذہب انسانیت ہے۔ جس کی زبان محبت ہے ۔ میں ایک انسان ہوں ۔صرف انسان۔ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں اور ہر شخص کو زندہ دیکھنا چاہتا ہوں ۔ پرویز مشرف کو بھی زندہ دیکھنا چاہتا ہوں اور نواز شریف کو بھی ۔مگر افسوس کہ مجھے دور تک بارود میں ڈھلتی ہوئی جمہوریت دکھائی دے رہی ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے