توسیع . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

توسیع

توسیع

بیچاری خوفزدہ پیپلز پارٹی نے کسی باضابطہ تجویز سے پہلے ہی کہہ دیاہے کہ ہم بھئی مخالفت ہیں۔ چیف جسٹس کی مدت ِملازمت میں متوقع توسیع غیر آئینی اقدامات میں شمار ہو گی ۔مانااسے مخالفت کا پورا پورا حق ہے۔ دیارِ عدل سے اس کے پاس کبھی کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ،بے نظیر بھٹو کیلئے جسٹس قیوم کا انصاف، آٹھ دس سال تک آصف زرداری کی درخواست ِ ضمانت کا مسلسل مسترد ہوتے رہنا، یوسف رضا گیلانی کی حکومت کا خاتمہ وغیرہ واقعی ایسی باتیں ہیں جنہیں پیپلز پارٹی سہولت سے نہیں بھول سکتی مگر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت میں توسیع غیر آئینی ہے۔ کیا اٹھارہویں ترمیم میں کہیں یہ بھی درج کر دیا گیا ہے کہ چیف جسٹس کو اپنی مقررہ مدت میں ہی ریٹائرڈ ہونا ہو گا۔ عجیب منطق ہے جو فیصلہ نہ آئے اسے غیر آئینی قرار دے دیا جائے۔اگر آرمی چیف کی ملازمت کا دورانیہ تین سال تک بڑھایا جا سکتا ہے تو چیف جسٹس کا کیوں نہیں۔ کیا صرف اس لئے کہ انہوں نے عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑی ہے۔کیا صرف اس لئے کہ انہوں نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف اعلان ِ بغاوت کیا تھا۔ چلیں مدت ِ ملازمت میں توسیع نہ کریں مگرصعوبت کا وہ عرصہ تو لوٹا دیں جب انہیں اپنے بچوں سمیت غیر قانونی طور پر نظر بند کیا گیا تھا ۔ملازمت کا وہ دورانیہ وزیراعظم پاکستان کیوں نہیں لوٹا سکتا۔اس میں تو کوئی غیر آئینی بات موجود نہیں۔ کیا عدلیہ کو آزادی دلانے والی شخصیت کا اتنا بھی حق نہیں۔ کیا ہم پاکستانی اپنے ہیروز کے صرف مزار تعمیر کرتے رہیں گے۔

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

یقینا ان اٹھارہ ماہ پر چیف جسٹس کا حق ہے اور نون لیگ میں بہت سے لوگ اس خیال کے بہت حامی بھی ہیں کہ کسی نئے تجربے سے بہتر ہے کہ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دی جائے مگر کچھ صاحبان ِ اقتدار میں خاصا تذبذب بھی پایا جاتا ہے ۔کچھ لوگوں کو اصغر خان کیس کے سبب تحفظات ہیں۔ کچھ آئینی ماہرین فرماتے ہیں کہ ایسا کرنے کے بعد حکومت کو دوسرے کئی ججز کی مدت ملازمت میں بھی توسیع کرنا پڑے گی جو معطل رہے اور اس وقت ریٹائر ہو چکے ہیں۔ یہ قدم سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں کی خلاف ورزی بھی ہو گا۔ ایک نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا ۔یہ حوالہ بھی دیا جارہا ہے کہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے سرکاری ملازمین کے ایک اور مقدمے کی سماعت میں یہ ریمارکس دیئے تھے کہ کسی افسر کی معطلی کے عرصے کے بدلے انہیں ملازمت میں توسیع نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے کہا تھا کہ” پرویز مشرف نے ان سمیت کئی ججوں کو ہٹایا تھا، کیا ہم بھی اس کے بدلے دو سال اضافی سروس لے لیں“۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام جج صاحبان کو اضافی سروس ملنی چاہئے۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ جب کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو اس کی تلافی کی جائے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک درخواست امتیاز قریشی کی طرف سے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف نے چونکہ غیر آئینی طور پرچیف جسٹس کو اپنے عہدے سے معزول کرکے قید میں رکھا تھا اس لئے یہ مدت ان کے میعادِ عہدہ میں شامل ہونی چاہئے یہ درخواست شاید کچھ اعتراض کے ساتھ واپس کی گئی تھی مگر دوبارہ دائر نہیں کی گئی تھی۔

ایک اور درخواست سپریم کورٹ میں بیرسٹر ظفراللہ خان کی جانب سے بھی دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت چیف جسٹس کی مدت ِ ملازمت میں اٹھارہ ماہ کی توسیع کرنا چاہتی ہے اور اس حوالے سے مختلف خبریں شائع ہو رہی ہیں جن کی ابھی تک کوئی تردید نہیں کی گئی اس لئے سپریم کورٹ فوری طور پراس معاملے کا نوٹس لے کر کارروائی کا حکم جاری کرے یعنی ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ حقدار کو ان کا حق ملے ۔ان لوگوں کا خیال ہے کہ افتخار محمد چوہدری جب بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو انہوں نے پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔انہوں نے آج تک جتنے سیاسی فیصلے دیئے ہیں ان سے نون لیگ کو فائدہ ہوا ہے اور اصغر خان کیس کا جو انہوں نے فیصلہ دیا تھا اس پر جزوی طور پر بھی عملدرآمد نہیں کرایا تھا جب کہ این آر او والے فیصلے پر مکمل طور پر عمل نہ ہونے کے جرم میں انہوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیا تھا۔ میرے نزدیک یہ ساری لایعنی باتیں ہیں بے بنیاد الزام ہیں۔

یہ بالکل اسی طرح کے الزامات ہیں جو پرویز مشرف نے لگائے تھے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے بیٹے کو پولیس سروس میں شامل کرانے کے لئے مختلف سرکاری حکام پر دباوٴ ڈالتے رہے۔ انہوں نے اپنے حق (entitlement) سے زیادہ گاڑیاں اپنے زیر استعمال رکھیں اور ایک سے زیادہ مواقع پر انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں وہ گاڑی دی جائے جو وزیر اعلیٰ یا گورنر کے زیر استعمال ہے۔ اس کے علاوہ دو مقدمات میں جو انہوں نے کھلی عدالت میں زبانی فیصلے سنائے تھے بعد میں تحریری طور پر ان کے برعکس فیصلے تحریر کئے تھے، وغیرہ وغیرہ۔عدلیہ تحریک میں چیف جسٹس کی گاڑی کے ڈرائیور اعتزاز احسن کی گفتگو کا انداز بھی کچھ عرصہ سے بدلا بدلا ہے ۔پیپلز پارٹی سے نئے وصال کے بعد انہیں بھی عدلیہ کی آزادی مادر پدر آزادی محسوس ہونے لگی ہے۔ حتیٰ کہ وہ تو یہاں تک آگئے ہیں کہ کہتے پھرتے ہیں”عدلیہ عقلِ کل نہیں ہے“۔ کیا مطلب ہے بھئی! اپنے کام میں عدالت عالیہ اگر عقل کل نہیں ہے تو اور کون ہے۔ انصاف کی سڑک سپریم کورٹ پہنچ کر رک جاتی ہے۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے