
مجھے شکایت ہے
مجھے شکایت ہے
ہاں مجھے شکایت ہے۔بلکہ ہزاروں شکاتیں ہیں۔ شکایات کے دفتر ہیں میرے پاس۔ کوئی نہ کوئی شکایت تو ہر شخص کوکسی نہ کسی سے ہوتی ہی ہے۔کسی کو خدا سے شکایت ہے کہ”ہیں تلخ بہت بندہ ء مزدور کے اوقات۔کسی کو برے دنوں کے دوست سے شکایت ہے کہ اچھے دنوں میں اس نے وفا ہی نہیں کی ۔کسی کو گلہ ہے کہ تُو بہت دیر سے ملا ہے مجھے۔کسی کو صاحبانِ علم و دانش سے شکوہ ہے کہ اندھیرے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔کوئی آصف زرداری سے ناراض ہے کہ نواز شریف سے تعلق نبھاتے نبھاتے انہوں نے اپنی سیاست ختم کرلی ہے۔کسی کو نواز شریف سے گلہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو اربوں روپے دینے کے باوجود لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہوسکی ۔کسی کو عمران خان سے شکایت ہے کہ انہوں نے جو صوبہ پختون خوا کا وزیر اعلی بنایا ہے وہ پنجاب کے وزیر اعلی کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔کسی کو اعتزاز احسن سے شکایت ہے کہ انہوں نے قرآن فہمی میں رحمن ملک کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کا ثبوت دیا ہے ۔کسی کو حکومت ِپاکستان سے شکایت ہے کہ وہ اس وقت امریکہ کی خواہش پر طالبان سے مذاکرات کرنے جارہی ہے۔ایک بار پھر امریکی ایجنڈے پر عمل ہورہا ہے۔سو شکایات کی کوئی کمی نہیں ۔ میں اس وقت صرف چند شکایات اور ان کا ممکنہ جواب درج کررہا ہوں ممکن ہے کسی صاحب ِ تکلیف کا کچھ کتھارسس ہوجائے۔
پہلی شکایت یہ ہے کہ حکومت بدل گئی ہے مگرملکی حالات کا مقدر نہیں بدلا۔ اس لئے صرف اتنا عرض ہے۔مقدر خدا کامقرر کردہ قانون ہے۔جس طرح پانی جب تک پانی ہے اس کا مقدر ہے کہ وہ مائع ہو اور نشیب کو بہے۔مگر یہی پانی جب اپنی حالت تبدیل کر لیتا ہے اور بخارات بن جاتا ہے تو اس کا مقدربھی بدل جاتاہے ۔ وہ نشیب کی بجائے بلندی کی طرف اٹھنے لگتا ہے یعنی وہ مائع نہیں رہتا۔ گیس بن جاتا ہے۔یہی پانی جب جم کر برف بنتا ہے تو اس کا مقدر پھر بدل جاتا ہے۔پانی کی مختلف حالتیں کسی اور عامل کے عمل سے بدلتی ہیں مگر انسان اپنی حالت خود بدلتا ہے اور وہ جو حالت اختیار کر لیتا ہے۔اسی پر خدا کا مقرر کردہ قانون لاگو ہو جاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی کی منشا کے بغیر خشک پتہ بھی ٹوٹتے ہوئے شور نہیں کر سکتا مگر یہ بات بھی طے ہے کہ جس طرح کے لوگ ہوتے ہیں وہ اسی طرح کے حاکم نازل کرتا ہے۔اگر تمہیں صاحبانِ اقتدار سے شکایت ہے کہ وہ اچھے لوگ نہیں۔تو تم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو۔کہ تم میں کیا کیا خرابیاں ہیں۔جیسے جیسے تم اپنی خرابیاں دور کرتے جاؤ گے ویسے ویسے حکمران بدلتے جائیں گے۔
دوسری شکایت یہ ہے کہ جمہوریت ہم نے مغرب سے درآمد کی ہے یہ ایک غیر اسلامی نظامِ حکومت ہے یہ ہمارے مزاج سے لگا نہیں کھاتی۔علامہ اقبال بھی اس کے خلاف تھے ساری خرابیوں کی جڑ یہی ہے ۔ میرے نزدیک یہ جاہلیت کی پیدوار ہے ۔جمہوریت ہرگز غیراسلامی نظام ِ حکومت نہیں۔قرآن نے ہی دنیا میں پہلی مرتبہ کہا کہ معاملات میں دوسروں سے مشورہ لیا کرو۔ یوں دنیا میں پہلی دفعہ ملوکیت ختم ہوئی اور جمہوریت کی بنیاد پڑی ۔ایک بات کی وضاحت کردوں کہ مشہور یونانی مفکر افلاطون کی کتاب کانام رکھا گیا ہے Republic یعنی جمہوریت اس سے یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کا تصور تو قران سے صدیوں پہلے افلاطون نے پیش کیا تھا مگر یہ بات غلط ہے افلاطون کی کتاب کا یونانی میں اصل نام لا طینی میں تھاجس کا مفہوم ہے سلطنت کا آئین۔اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ ہوا تو Republic لکھ د یا گیا ۔ یہ اصل نام کے بھی خلاف ہے اور کتا ب کے نفسِ مضمون کے بھی خلاف ہے ۔ کتاب میں افلاطون نے پورا زور یہ ثابت کرنے میں صرف کیا ہے کہ بعض لوگ پیدائشی غلام ہوتے ہیں اس لئے انہیں غلام رکھنا ہی منشائے فطرت ہے بعض لوگ پیشہ ور ہوتے ہیں بعض سپاہی ہوتے ہیں اور بعض حکومت کرنے کے لئے پیدا ہوتے ہیں اسکے نزدیک انسانوں کی یہ تقسیم و تفریق پیدائشی ہے اور اسےِ قائم رکھنا منشائے فطرت کے عین مطابق ہے ۔حقیقت میں جمہوریت کا ادنی سا شائبہ بھی افلاطون کے ہاں موجود نہیں ۔ اسلام ہی نے سب سے پہلے جمہوریت کا تصور دیا ہے ۔ایک بہت اہم شکایت یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔غریب اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں زندگی بڑی مکروہ اور قابل نفرت محسوس ہونے لگی ہے۔ان میں روزبروز یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ زندگی ایک زخم ہے۔ گلتا ہوا زخم ۔بہتا ہوا زخم۔بے شک یہ شکایت بڑی اہم ہے وہ زندگی جو ان چم چم کرتی کاروں اور لش لش کرتے بنگلوں میں رہتی ہے۔ وہ ان کالی کالی گلیوں اور گرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھروندوں میں بھول کر بھی۔کبھی بھٹک کر بھی قدم نہیں رکھتی۔
جس میں دنیا کی نوے فیصد آبادی مقیم ہے۔ان لوگوں کی زندگی پردکھ کے سائے ہر وقت تھرتھراتے رہتے ہیں۔کہیں کسی کے معصوم سے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔کہیں کسی کی بیوی بیمار ہے تڑپ رہی ہے۔یہ زندگیاں کینسر سے زیادہ اذیتناک ہیں۔بڑی بے رحم اور ظالم ہیں۔مگرمیرے نزدیک یہ زندگیاں ۔زندگیاں نہیں ۔حالات کے شکنجے میں جکڑی ہوئی عمریں ہیں ۔یہ لمحوں کا بہتا ہوا دریا ہے۔لوگ جس کے دھارے پربے بس تنکوں کی طرح بہے جارہے ہیں۔مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ جو لوگ اس دھارے کا رخ موڑ لیتے ہیں ان کی زندگی سے ملاقات ہو جاتی ہے۔اس زندگی سے جو ہم سب کی تلاش میں ہے ہمیں ڈھونڈتی پھرتی ہے۔جسے شکایت ہے کہ ہم اسے آواز نہیں دیتے کہ وہ ہم تک پہنچ سکے۔بہر حال میرے نزدیک ان تمام کا ایک ہی حل ہے۔باہر کم اور اندر سے زیادہ ہے۔جب تک لوگ اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے ۔ کوئی تبدیلی کوئی انقلاب کچھ بھی نہیں آسکتا۔
mansoor afaq

