صاحبِ عزت کون . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

صاحبِ عزت کون

صاحبِ عزت کون

’’خانۂ لاشعور میں کھڑکیاں بج رہی تھیں۔ چمکتی بجلیوں میں پنجابی فلموں کے ہیرو صور پھونک رہے تھے ۔بادلوں میں روشنیوں کی رقاصہ آخری کتھک ناچ رہی تھی۔ بھادوں بھری شام کے سرمئی سیال میں زمین ڈوبتی چلی جا رہی تھی ۔پگھلا ہوا سیسہ سماعت کا حصہ بن گیا تھا ۔مرتے ہوئے سورج کی چتا میں ڈوبتے ہوئے درخت چیخ رہے تھے۔پرندوں کے پروں سے آگ نکل رہی تھی ۔ ٹوٹتے تاروں کے مشکی گھوڑوں کی ایڑیوں سے اٹھتی ہوئی کالک زدہ دھول میں کائنات اور میں گم ہو چکے تھے۔ اسٹریٹ لائٹ کی آخری لو بھاپ بنتی ہوئی تارکول میں ضم ہوچکی تھی۔ سائے دیواروں کو چاٹ چکے تھے۔ آسماں گیر عمارتیں مقام ِ صفر سے مل چکی تھیں ۔انڈر گراونڈ ٹرینوں کی طرح بہتا ہوا لاوہ سرنگوں میں دوڑ رہا تھا۔ چٹانوں کے ٹکڑے نرم نرم ریشوں میں ڈھل رہے تھے۔آہنی چیزوں میں کپاس کے پھولوں کا گداز در آیا تھا۔کُن کا عمل وقت سے کئی لاکھ گنا زیادہ تیزہو چکا تھا۔ہوا نے آخری ہچکی لی اور اچانک شعور کے بیڈروم میں میری آنکھ کھل گئی تھی۔ میں اسی طرح بستر پر لیٹا رہا تھا۔ خواب گاہِ دماغ کی کھلی کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے باریک پردے ہوا کے زیر و بم کے ساتھ جاگ جاگ جاتے تھے۔ کمرے میں اونگتی ہوئی ہلکی نیلی روشنی لہرا لہرا جاتی تھی۔

صبحِ وصال کی شعاعیں پچھلی گلی سے نکل نکل دیواروں کے کینوس پر الٹی ترچھی لکیریں کھینچ رہی تھیں ۔زمانہ بدل رہا تھا۔شہر تبدیل ہو رہے تھے۔زبانیں بنتی اور بگڑتی جا رہی تھیں۔ روح کی تقسیم کا عمل جاری تھا۔عدم سے کچھ وجود میں آرہا تھا۔خواب کی کار چل رہی تھی۔ خیال کے پائوں اٹھ رہے تھے۔ آسمان پر کچھ لکھا جا رہا تھا۔ میرے اردگرد کوئی خوشنما کہانی بنی جا رہی تھی۔کسی قبر سے زندگی کی کونپل ابھر رہی تھی۔سوچوں کو بدن مل رہے تھے ۔کائنات ِ ذات میں تحریک ہو رہی تھی۔

میں اٹھااورخواب کوآنکھ کی شیف سے نکالا۔ صدیوں کی گرد جھاڑی۔ آنسوئوں میں بھیگ بھیگ کر خشک ہونے والے اکڑے ہوئے غلاف کو اتارا۔ چمکتی دمکتی ہوئی بے شکل لڑکیاں میرے آئینہ خانے میں داخل ہوئیں ۔ نرم و نازک بدن یادداشت کے گلاس سے طلوع ہوئے۔دل کی دھڑکن ڈھولک کی تھاپ بن گئی۔ذہن میں کیروا بجنے لگا۔ قیام ِ جنت کے دن یاد آئے نواح ِ فہم میں لاشعور کی بھولی بھٹکی لہروں کی انگلیاں ہارمونیم پر چلنے لگیں۔حوا کیلئے لکھا ہوا آدم گیت حوروں کے بدن میں سرسرانے لگا۔ ہوا تیز ہونے لگی خواب کے صفحے الٹ الٹ جانے لگے۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہم آباد میں الجھنیں کچھ نئے گھروندے بنا رہی ہیں۔

دماغ کی پرانی نسوں میں نئی تعمیر شروع ہے۔ واہموں کی محراب دار کوٹھیوں کی دیواروں پر آتی جاتی ہوئی سرخ رنگ کی کوچیوں سے خون ٹپک رہا ہے۔ چھٹی حس کے سگنل الٹے سیدھے میسج بھیج رہے ہیں۔حواس کے پانچوں سرکٹ کسی نامعلوم ستارے سے آتی ہوئی برقی لہروں سے شاٹ ہو چکے ہیں۔ میرے باطن کے صحرا میں کئی فٹ برف گری پڑی ہے۔ ہر قدم کوہ گراں بن چکاہے۔جوتوں کے تلوں کی سلائی زمین کی آخری حد تک کر دی گئی ہے مگر میں چل رہا ہوں، بلندی کی طرف اور میرا سفر پاتال سے شروع ہوا۔ میں آدم ہوں اور واپس آسمانوں کی طرف جا رہا ہوں۔ آسماں میرے قدموں تلے بہہ رہے ہیں۔ میں اس سفر میں اپنے اندر داخل نہیں ہونا چاہتا تھا مگردروازے پر رکے ہوئے بھی صدیوں گزر گئی تھی۔ جب اپنے آپ سے شرمندگی عرش تک پہنچ گئی توشعور نے مجھے اندر کی بے کراں لامکانی میں گرا دیا۔جہاں اپنے جذبوں کی عبادت کی جارہی ہے جہاں خواہشوں کی دیویاں تراشی جا رہی ہیں۔جہاں خواب تجسیم ہورہے ہیں جہاں میں اپنی سائیکی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔اچانک میری نظر پڑی روح کا درِ طلسم کھلا۔ حیرتوں کی راہداریوں میں فہم کے آدھے دھڑ پتھر کے ہو گئے۔دھویں کے مرغولے انسانی بدن کی شکل میں لہرانے لگے۔ عدم آباد میں کہانیاں کروٹیں لینے لگیں۔ وجدان تڑخ گیا، گیان پیچھے رہ گئے۔ بے حد و بے کراں کائناتیں ایک عصبیے میں سمٹ آئیں۔ ازل اور ابد کاغذ پر کھینچی ہوئی لکیر کے دو نکتے بن گئے۔ وقت پلے اسٹیشن فائیو کی گیم کی طرح بچوں کے اشاروں پر حرکت کرنے لگا۔ دیکھنے والے اسکرین کے اندر داخل ہونے لگے۔ کہانی کار اور کہانی کے کردار آپس میں گتھم گتھا ہوگئے۔وہ لفظ کو الف سے پہلے تھے اور وہ ہندسے جو صفر سے پہلے تھے علم کے فٹ پاتھ پر چہل قدمی کرنے لگے۔ آدمی نے نئے آدم کا عصبیہ تخلیق کر لیا۔ ایسے آدمی چلتے پھرتے دکھائی دینے لگے جو نسلِ آدم میں سے نہیں‘‘۔

خواب سے حقیقت تک پھیلی ہوئی میری کہانی میں لکھا ہوا ہر جملہ علامتی ہے۔آئو غور کریں کہ میں نے اس کہانی میں کیا کہا ہے، کیوں کہا ہے، کیسے کہا ہے،کس لئے کہا ہے ۔ذات سے کائنات تک اپنا محیط رکھنے والی یہ کہانی ہمیں شعورِ ذات سے آشنا کر سکتی ہے۔ ہمیں جھوٹ اور کرپشن کی دلدل سے نکال سکتی ہے۔ ہمیں دنیا کے ساتھ مل کر جینے کا ڈھنگ سکھا سکتی ہے۔ ہم پر بھائی چارے اور رواداری کے در وا کر سکتی ہے۔ حتیٰ کہ ہمیں یہ بھی سمجھا سکتی ہے کہ ہمیں کیسے لوگوں کی پیروی کرنی ہے۔ کن کو اپنا رہنما بنانا ہے اور کن کو نہیں بنانا۔ آئیے اس کہانی سے یہ سیکھنے کی کوشش کریں کہ صاحبِ عزت کون ہے ۔ چور سرمایہ دار یا زرق ِحلال کھانے والا غریب۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے