عمران خان . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

عمران خان

عمران خان

عمران خان کا نام جب طالبان نے اپنی مذاکراتی ٹیم میں ڈالا تو عمران خان کو طالبان خان کہنے والوں کی آنکھیں خوشی سے باہر نکل آئیں، انہوں نے وہ آنکھیں اپنی ہتھیلیوں پہ رکھ لیں اور گلی گلی لوگوں کو دکھانے لگے کہ دیکھا ہم ٹھیک ہی کہتے تھے۔حتی کہ ایک ٹی وی چینل نے تو عمران خان کے خلاف باقاعدہ ایک فلر بنا کر چلانا شروع کردیاکہ ان کے باقاعدہ طالبان کے ساتھ رابطے ہیںیعنی وہ طالبان کے شریک کار ہیں۔ میں عمران خان کے حوالے سے جب بھی سوچتا ہوں مجھے مینو طور یاد آجاتا ہے ۔یونانی دیو مالا میں مینو طور کا پورا دھڑ گھوڑے کا ہے۔

لیکن سر انسان کاہے مجھے جب بھی مینو طور کا خیال آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جانور کے جسم سے ڈکراتاہوا انسان باہر آرہا ہے۔اسکی کوشش میں کچھ انسان جلدی باہر نکل آتے ہیں۔اور کچھ وہیں اٹکے رہتے ہیں ۔اب اگر عمران خان نے باہر آنے میں جلدی کی اور اپنی شخصیت کو انسان کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کی تو میرا خیا ل ہے اس میں ان کا کوئی قصور نہیں مگر اس کو کیا کیا جائے کہ مینو طور کے حلق میں اٹک جانے والے بہت سے انسانی سر ان کے وجود پر معترض ہیں۔عمران خان نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ مجھ پر اعتراض کرنے کی بجائے اپنے دھڑ کی فکر کیجئے جو ابھی تک جانور کے جسم میں ہے مگر ان انسانی سروں پر یخ بستہ لمحوں کی برف جمی ہوئی ہے یا سورج کی چوری چھپے آنے والی شریر دھوپ نے ان کے بالوں کو سفید کر دیا ہے۔اسلئے وہ اپنے بڑھاپے اور قدامت آشنائی کواپنا آثاثہ جان کر یہ سمجھتے ہیںکہ مینو طور کے ڈکراتے حلق سے نکل جانے والا عمران خان ہم پر ایک عریاں طنز ہے۔اس کے کالے بال ہمارے رو پہلے سروں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ان کے نزدیک دانش صرف سفید گھروندوں میں آشیانہ بناتی ہے۔انہیں ہمیشہ عمران خان سے دیانت داری ، اخلاص اورفکری تضادات کے باعث پر خاش رہی۔

مگرعمران خان اپنی صلاحیتوں کے باعث اور زیادہ نمایاں ہوتے گئے۔ مینو طور کے حلق میں پھنسے ہوئے سفید سر پھر چلاّئے اب باقی تضادات کے ساتھ ساتھ حسد کی آگ بھی ان کے وجود میں بھڑک چکی تھی۔انہوں نے اس کے راستوں میں پتھر بکھیرنے شروع کر دئیے اور وہ ہر معاملے میں کڑے طنز کے تیروں کی لپک سہتا رہا۔لیکن اب انہیں صرف ان کی سیاست پر نہیں بلکہ ان پر بھی اعتراض تھا کہ وہ ان کی طرح مینو طور کے جسم میں اٹکا کیوں نہیں رہا،باہر کیوں نکل آیا۔ادھر عمران خان بھی اس بات پر آمادہ نہیں کہ وہ پھر جانور کے حلق میں لوٹ جائیں۔اس جرم کی پاداش میں ان پرملامتوں کے تیروں کی بارش اور تیزہو گئی۔اب وہ کہیں بھی سہمے سہمے نظر نہیں آتے جب کہ کچھ لوگ انہیں لوحِ جہاں پہ حرف مکرر بنانے پر تلے ہوئے تھے۔اس کے ارد گرد پتھروںکے ڈھیر لگ گئے اور ان کے جسم کا کوئی حصہ ان پتھروں کے بخشے ہوئے زخموں سے خالی نہ رہا۔

مگر وہ بڑے حوصلے سے پتھروںکے حصار سے بھی باہر نکل آئے۔ اب ان کے سامنے ایک پتھریلی سڑک تھی، انہوںنے سوچا تھا کہ اس انتخابی سڑک پر اس کے اپنوں کے دل بچھے ہوں گے۔مگر یہاں تو بیگانوں نے قدم قدم پر خنجر بچھا رکھے تھے۔جسم تو پہلے ہی زخم زخم تھا۔پاؤں بھی لہو لہان ہوگئے ۔دھونس ۔دھاندلی وغیرہ نے ان کے حوصلوں کی کرچیاں کیں۔اوپر سے نیچے آگئے ۔ زمین کو چھو لیا۔وقت نے انہیں ہسپتال میں داخل کر دیا۔اب وہ ہار کے بیٹھنا چاہتے تھے۔مگر فرش پر بھی چھریاں بچھی ہوئی تھیں۔ان کے چاروں جانب حسد، بغض،منافقتیں اور منافرتیں بندوقیں تانے ان پر فائر کر رہی تھیں۔اور وہ ان کے درمیان زندگی کی کوئی رمق ڈھونڈنا چاہتے تھے۔۔۔۔لیکن وہ ناکام رہے۔اور پھر میں نے دیکھا کہ مینو طور کنگ آسٹرمیں تبدیل ہو گیا ہے۔(کنگ آسٹر یونا نی دیو مالا میں ایک بگلا ہے جو اپنے زخم نوچ رہا ہے )عمران خان بھی اپنے زخموں کو نوچنے لگے۔اور پھر وہ کب تک اپنے زخموں کو نوچتے۔انہوں نے اپنی سوچوں کو نوچنا شروع کر دیا۔

اس نے چھریوں کی ما لا اپنے گلے میں ڈال لی۔اور اسی سڑک پر بھاگنا شروع کر دیا جو بے رحم اور سنگدل نوکیلے پتھروں کی امین بن کر ان کے قدموں کے لئے دوزخ بچھا رہی تھی ۔مگر رفتہ رفتہ زخم بھر گئے۔ٹوٹی ہوئی ریڑھ کی ہڈی واپس اپنی جگہ پر آگئی۔انہوں نے حوصلہ کیا اور پھر اٹھ کھڑے ہوئے یعنی صوبہ پختونخواہ میں حکومت بنالی ۔لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ یہ عمل بھی زخم نوچنے کے مترادف ہوتا جا رہا ہے ۔میں جو مذاکرات کے بارے میں بڑی تاریک رائے رکھتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ملک اور قوم کے ساتھ مذاق ہیں ۔قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیرنے کا نام ہے اور عمران خان جو پاکستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سب سے بڑے حامی ہیں۔اگرچہ انہوں نے طالبان کی نمائندگی کرنے سے انکار کردیا ہے۔مگرمیں کیا کروں مجھے ان کے بارے میںبار بار یہی خیال آتا ہے کہ’’مینو طور سے کنگ آسٹر تک‘‘بہت طویل فاصلہ تھا ۔مگر اس شخص نے دو قدم اٹھا کر کیسے تمام کر دیا۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے