اللہ خیر کرے . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

اللہ خیر کرے

اللہ خیر کرے

میں بر طانیہ میں رہتا ہوں مگر میرا دل پاکستان میں دھڑکتا ہے۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے جنگ اخبار دیکھتا ہوں مگر یہ تو خیر طے شدہ بات ہے کہ پاکستان کی طرف سے خیر کی خبر کبھی نہیں آئی بلکہ ہر نئی آنے والے خبر پہلے سے زیادہ دل دہلانے والی ہوتی ہے۔ مذاکرات کا ادھورا ڈرامہ ہوا۔ ہمارے کچھ اور افراد شہید کر دئیے گئے۔کرپشن میں کچھ اور اضافہ ہوا۔ کراچی میں لاشوں کی برسات تھم نہ سکی۔ بلوچستان کے آتش فشاں لاوا اگل رہے ہیں طالبان کے خلاف آپریشن کیلئے حکومت مکمل طور پر تیار نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پھر کچھ ہونے والا ہے،کوئی طوفان، کوئی خوفناک حادثہ، کوئی ہولناک واقعہ، کوئی کرب کی دوزخ سے نکلی ہوئی تاریخ بدلنے کی ساعت،کوئی ٹوٹتی زمین کی دہشت خیز آواز،کوئی ساکت ہوتی زندگی، کوئی ٹیلیوژن کی سکرین پر چہرے بدلتی ہوئی رات، کوئی اجتماعی سماعت شکن دھماکہ،کچھ ہونے والا ہے۔ میں ایک تیز رفتار ریل گاڑی کو ایک ایسی سرنگ سے گزرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جِس کا دوسرا دہانہ بنایا ہی نہیں گیا، اللہ خیر کرے۔

میں نے پچھلی رات ایک بہت عجیب و غریب خواب دیکھا۔خواب میں میں دیکھ رہا تھا کہ کھونٹے پر بندھے ہوئے جانوراپنی رسیاںتوڑ کر بھاگنے کی کوشِش میں ہانپ رہے ہیں ، گھونسلوں سے پرندے نکل آئے ہیں اور اپنی اپنی بولیوں میں شور مچا رہے ہیں۔افراتفری کا عالم ہے ، زمین کے پرت اُلٹ جانے کا اِمکان پیدا ہورہا ہے،پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اُڑ نے پر پر تول رہے ہیں۔ فضا میں ایک بے رونق سُرمئی اور سُرخ بُجھا بُجھا رنگ پھیلتا جارہا ہے۔ درخت اپنی بہاروں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، سوکھی ٹہنیاں اپنے استخوانی وجود لئے ساکت و جامداپنی پور پور خشک پتھرائی آنکھوں میں دہشت بھر کر آسمان کی طرف اُٹھی ہوئی ہیں، کانٹوں کی باڑیں اپنے قریب کی ہر شے سے لپٹتی جارہی ہیں۔ تیز و تند زہریلی آندھیاں ہر چیز کو جڑ سے اُکھاڑ کر بگولوں کے چکر میں جکڑنے کے موقع کی تلاش میں ہیں۔اس قربِ قیامت کے خواب کی تمام تر تعبیریں پاکستان کے ساتھ ملحقہ ہیں۔میں اس خواب کی تعبیر کرتے ہوئے ڈر رہا ہوں کیسے کہوں کہ قہقہے تاریخ میں بدل جائیں گے،زبانیں پتھر کی ہوجائیں گی ، آنکھیں پھیل کر باہر اُبل آئیں گی ،زندگی کی رمق موت کی زردی میں بدل جائے گی ۔ اللہ نہ کرے ایسا کچھ ہو۔مگرمجھے ایسا کیوں محسوس ہورہا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ممکن ہے کہ جو کچھ میں سوچ رہا ہوں ، دیکھ رہا ہوں ویسا نہ ہو۔ کچھ اور ہو مگر یہ مصدقہ ہے کہ کچھ ہونے والا ہے ۔

پاکستان میں سیاست ختم ہوچکی ہے۔حزب ِ اقتدار اورحزب ِ اختلاف ایک ہوچکے ہیں۔مخصوص طرزِ فکر رکھنے والی مذہبی جماعتیں ایک ہی مورچہ میں جمع ہوچکی ہیںاور اُن کی توپوں کا رُخ بھی ایک ہی فصیل کی جانب ہے ۔وہ فصیل جِس کے ہر بُرج اور ہر منارے پرلشکری ایستادہ ہیں۔ مورچے میں توپوں کے گولے اُٹھانے والی سپاہ کی بھی کوئی کمی نہیں۔ بہرحال انہوں نے طالبان کو بچانا ہے۔پاک فوج نے اگر طالبان کا صفایا کردیا تو یقینا اگلی باری انہی کی ہوگی ۔یعنی طالبان کے ہمدردوں کی ۔ خبر یہ بھی گرم ہے ۔بہت جلد ایسے حالات پیدا کر دئیے جائیں گے کہ ایک اور مارشل لاء کے سِواکوئی اور چارہ نہیں رہ جائے گا اور میرا ذاتی خیال ہے کہ اب پاکستان کسی اور مارشل لاء کا متحمل نہیں ہو سکتا اس سرنگ کے آخری کنارے پر روشنی کی کرن کا تصور ہی بعید از اِمکان ہے۔مگر تباہی و بربادی کی یہ کہانی کس اختتام پر منتج ہوگی۔خدا رحم کرے ۔معیشت کی ستم گاہ میں زندگی کی درد انگیزکراہ طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے۔ اس کی قبا میںجا بجا بھوک کے پیوند لگے جاتے ہیں ۔مہنگائی نے اس کا بند بند مضمحل کر دیا ہے ۔ روٹی کی تلاش میں نکلا ہوا بچہ چاند کی گولائی دیکھ دیکھ کراُکتا چکا ہے۔بھوک اس کا پیٹ کاٹتی جا رہی ہے۔ماں کو ہنڈیا میں پتھر ابالتے ہوئے بہت دیر ہو چکی ہے۔فاقہ زدہ دوشیزہ کو اپنی عصمت کے دام بھی پورے نہیں مل رہے ۔

روکھی سوکھی کھا کر رات گزارنے والے سفید پوش صرف پانی پر عمر گزارے جا رہے ہیں ۔ماہانہ پانچ، دس ہزار روپے تنخواہ لینے والاچار بچوں کا باپ خودکشی کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔غربت آخری احتجاج کیلئے سڑکوں پر آنے والی ہے ،کچھ ضرورہونے والا ہے ۔دنیا کی بڑی بڑی طاقتیںقومیت کی قربان گاہ پر نثار ہونے کیلئے بلوچوں کو تیار کر چکی ہیں اورہمارے پاس انہیںبارود بھری آوازسے واپس لوٹ جانے کا مشورہ دینے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔کچھ طاقتوں طالبان نے اتنا وقت دلایا ہے کہ اب وزیرستان کی پہاڑیوں کو لہورنگ کرناآسان نہیں رہا مگر مجبوری بن چکا ہے ۔ پاکستان میں ہر طرف لہو گر رہا ہے اورخون تو پھر خون ہے گرتا ہے تو جم جاتا ہے ۔مگرسروں کی بیچ بونے والے یہ نہیں جانتے کہ وہاں دماغوں کی فصل اگ آئی ہے۔

گذشتہ ادوار میںعلم کی درس گاہ میں نصاب سے روشنی کے وہ تمام ورق نکال لئے گئے ہیںجو سچائی کی کھوج میں نکلنے والوں کی رگوں میں لہو کی رفتار کو تیز کرتے تھے۔کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس نصاب کو پڑھ کر پروان چڑھنے والی نسلیںاپنی سرحدوں کا دفاع کیسے کریں گی۔شاید پھر نصاب بدلنے والا ہے۔کچھ نئے نصاب لکھنے والے قلم اپنے کان پر رکھ کر حرکت میں آنے والے ہیں ،کچھ ہونے والا ہے۔ہاںمیں نا امید نہیں ہوں، مجھے اس پتھرائی ہوئی زندگی میں کس نومولود بچے کے رونے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے