
27 واں ادارہ
27 واں ادارہ
کسی سینے میں ترازو ہونے کیلئے تیر جب کمان میں نکلتا ہے تو اُس ثانیہ کے مختصر دورانیہ میں جو آنکھ ہدف کو وہاں سے ہٹانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ جسم کے باقی تمام اعضاء اسی جاسوس آنکھ کی شان میں زندگی کے گیت کہتے ہیں۔ یہی جاسوس آنکھ ممالک کی ترقی اور دوسرے اہم معاملات میں بھی بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ کسی بھی مملکت کے جاسوس دراصل اس کی آنکھیں ہوتے ہیں، ملک کے اندر بھی اور ملک سے باہر بھی۔ خوش قسمتی سے پاکستان کی یہ آنکھ دیکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور اس کی ژرف نگاہی پوری دنیا میں تسلیم شدہ ہے بلکہ مخالفین اسے کمزور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے ممالک سیاسی حکومتوں پر دبائو ڈالتے رہتے ہیں کہ اس آنکھ کی کارکردگی کو محدود کیا جائے۔
جب سے پاکستان میں دہشت کے لوتھڑے کھمبوں پر لٹکنے لگے ہیں۔اس جاسوس آنکھ کی اندرون ِ ملک کارکردگی پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ موجودہ حکومت نے اس حوالے ایک اجتماعی ادارے کا پلان ترتیب دیا ہے مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ کہانی ہے جس کا آغاز آج سے تقریباً چھ سال پہلے ہوا تھا۔ یہ دو ہزار آٹھ کی بات ہے جب رحمٰن ملک نے اس بنیاد پر آئی ایس آئی کو وزارتِ داخلہ کے ماتحت کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرایا تھا کہ فوجی خفیہ ایجنسیوں اور سویلین خفیہ ایجنسیوں میں رابطے کا فقدان ہے۔ خاص طور پر آئی ایس آئی کے پاس جو معلومات ہوتی ہیں وہ حکومت تک نہیں پہنچتیں مگر پیپلزپارٹی کی حکومت کو چوبیس گھنٹوں میں وہ نوٹیفکیشن واپس لینا پڑگیا تھا۔کچھ لوگوں کے خیال میں یہ کوشش دراصل پاکستانی فوج کو کمزور کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو خوش کرنے کیلئے کی گئی تھی۔ میرے نزدیک جمہوری حکومتوں کو اکثر یہ وہم رہتا ہے کہ یہ ادارہ ان کے عزائم کے راستے میں رکاوٹ ہے ۔ حکومتیں بنانے اور گرانے میں اس کے کارکن شریک رہتے ہیں ۔اصغر خان کیس کے تناظر میں دیکھا جائے تو کسی حد تک جمہوری حکومتوں کے اس خوف کی وجوہات سمجھ میں بھی آتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی حکومت سنبھالتے ہی آئی آیس آئی کا جائزہ لینا شروع کر دیا تھا کیونکہ آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ پرنون لیگ یہ الزام لگاچکی تھی کہ وہ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کیلئے اپنے ادارے کو استعمال کررہا ہے۔
بظاہر آئی ایس آئی کے نئے سربراہ سے نواز شریف مطمئن ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کسی مستقل حل کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک کوشش پچھلے سال نومبر میں کی گئی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق سے پارلیمنٹ کو سفارش کرا دی گئی کہ آئی ایس آئی کو سویلین کنٹرول میں دے دیا جائے مگر پھرخاموشی اختیار کر لی گئی تھی ۔ شاید عسکری اداروں کے مزاج کو دیکھتے ہوئے اس پر کوئی عمل درآمد نہیں کیاگیااور نواز شریف کو ایک نئے ادارے کے قیام کا مشورہ دیا گیا جس کے ماتحت پورے ملک کی تمام خفیہ ایجنسیاں کردی جائیں۔چونکہ اس بات کا خدشہ تھا کہ ممکن ہے افواج پاکستان سے تعلق رکھنے والی خفیہ ایجنسیاں اس ادارے کے تحت کام کرنے سے انکار کر دیں اس لئے سوچا گیاکہ اس ادارے کو خفیہ معلومات کا رابطہ کمیشن قرار دیاجائے اور تمام اداروں کو پابند کردیا جائے کہ وہ اپنی تمام تر معلومات اسے فراہم کریں۔سو اندرونی سلامتی کی پالیسی کے تحت ایک مشترکہ انٹیلی جنس ڈائریکٹریٹ اعلان کر دیا گیاہے۔یہ ادارہ فوجی اور سویلین چھبیس ایجنسیوں کی معلومات کو ایک جگہ جمع کرنے والا پاکستان کا ستائیسواں خفیہ ادارہ ہوگا ۔اس خیال کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سارا کچھ اُسی ایک صاحبانِ اقتدار کی خواہش کا تسلسل ہے جیسے بھی ممکن ہو آئی ایس آئی کے پاس موجودہ معلومات تک رسائی حاصل کی جائے۔اس سلسلے میں وزارتِ داخلہ میں ایک کمیٹی پہلے سے موجود ہے۔ آئی ایس آئی کا ایک نمائندہ اس کمیٹی کا باقاعدہ ممبرہے ۔یہ کمیٹی یہی رابطہ کمیشن والا کام کرتی ہے یعنی اس کی وساطت سے ضروری معلومات ایک دوسرے کو بہم پہنچائی جاتی ہیں مگر یہ کمیٹی تمام معلومات کے حصول کی مجاز نہیں سو اس مقصد کیلئے نئے ادارے کا وجود عمل میں لایا گیا ہے۔اگر صرف ان ایجنسیوں کے آپس میں روابط کا مسئلہ ہوتا تو سالانہ دو ارب روپے خرچ کر کے ایک تیسرے ادارے کے قیام کی کیا ضرورت تھی کیا یہی کافی نہیں تھاکہ تمام ایجنسیوں کے درمیان موجودہ روابط اور زیادہ بہتر بنا دیئے جاتے۔ ہر ایجنسی پر پابندی عائد کردی جاتی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح ضروری معلومات شیئر کرے۔
جہاں تک انٹیلی جنس اداروں کے درمیان روابط کی بات ہے تو ماضی میں فوجی ایجنسیوں کے آپس میں مراسم اور سویلین ایجنسیوں کے آپس میں تعلقات میں کہیں خرابی دکھائی نہیں دیتی۔ مسئلہ صرف فوجی اور سویلین ایجنسیوں کے درمیان ہے۔ اگرچہ یہ آپس میں معلومات شیئر کرتی ہیں مگر سویلین ایجنسیوں کے لوگ ہمیشہ یہی سمجھتے ہیں کہ ملٹری کی ایجنسیاں ان پر اعتبار نہیں کرتیں۔ سوال یہ ہے کہ کیسے اعتبار کریں۔ سول حکومتیں پولیس سے لے کر پٹواری تک ہر جگہ اپنے مفادات کے تحت کام کراتی ہیں۔نیب سے ایف آئی اے تک ہرجگہ اپنی پسند کے افسر لگواتی ہیں ۔ حتیٰ کہ تھانے میں حوالدار بھی حکومتی ایم این اے یا ایم پی اے کی منشا کے خلاف نہیں لگ سکتا ۔اب بتائیے ایسی ایجنسیوں پر کون اعتبار کر ے۔
کراچی کی صورت حال ہم سب کے سامنے ہے وہاں تمام سویلین ایجنسیاں کام کررہی ہیں مگر جب بھی کسی علاقہ میں آپریشن ہونے لگتا ہے تو مجرموں تک پہلے اطلاعات پہنچ چکی ہوتی ہیں ۔ ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم کاقتل اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ سویلین ایجنسیوں کوحکمران پارٹیوں کے تسلط سے آزاد کرانا انتہائی ضروری ہے۔عمران خان نے دعوی ٰ کیا ہے کہ انہوں نے صوبہ پختونخوا کی پولیس کو مکمل طور پر غیر سیاسی بنادیا ہے مگربنوں جیل جیسے واقعات بھی صوبہ پختونخوا میں ہوئے ہیں جن کا سبب انٹیلی جنس اداروں میں روابط کی کمی کو قرار دیا گیا ہے۔بہرحال اس وقت ملک کی آنکھیں تختۂ مشق ہیں ۔دیکھتے ہیں کہ انہیں کس نمبر کی عینک لگائی جاتی ہے۔

