
دیوار پہ دستک
دیوار پہ دستک
نئی دہشت گرد تنظیم ’’احرار الہند‘‘کا تجزیہ کرتے ہوئے سب سے پہلے تو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے یہ انام احرار الہند کیوں رکھا۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ایک تویہ کہ وہ واضح کرنا چاہتے کہ ہم پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے ۔تنظیم کے نام کے ساتھ ’’ہند ‘‘ کے لفظ کا استعمال اسی نقطہ ء نظر کو نمایاں کرنے کیلئے کیا گیاہے ۔ اس نام رکھنے کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ’’احرار ‘‘ کا لفظی مطلب ہوتاہے کہ وہ قوم یا گروہ جوکسی کی غلامی قبول نہ کرے یا کسی کی غلامی میں نہ ہو۔یعنی انہوں نے یہ کہنے کی کوشش ہے کہ وہ مکمل پر طور پر آزاد ہیں ان پر کسی کے کوئی اثرات نہیں ہیں۔پھر اس لفظ کے استعمال سے انہوں نے اپنے آپ کو ان احراریوںکی اُس تحریک کے ساتھ بھی جوڑا ہے جوقیام پاکستان سے پہلے ایک متحرک اور فعال تھی ۔یہ لوگ قیام پاکستان کے بہت سخت مخالف تھے ۔مگر وہ احراریوں کی تحریک مکمل طور پرعدم تشدد پر یقین رکھتی تھی ۔عطااللہ شاہ بخاری سے ایک انٹرویو میں جب سوال کیا گیا کہ آپ پاکستان کے سخت مخالف تھے مگر پاکستان تو بن گیا ہے اب آپ کیا کہتے ہیں تو اس عظیم شخص نے کہا تھاکہ ’’تمام اختلاف مسجد کی تعمیر سے پہلے تھے ہم کسی اور طرح مسجد بنانا چاہتے تھے مگر اب مسجد بن جانے کے بعدمسلمان مر تو سکتا ہے اس مسجد کو گرانے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔‘‘اپنے آپ اس عطااللہ شاہ بخاری کا پیروکار کہنے والے نجانے کس راستے پر چل پڑے ہیں۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق مولوی عبد العزیز(لال مسجدوالے )کو طالبان نے اپنی کمیٹی کا ممبر غازی فورس کے کہنے پر بنایا تھا۔ غازی فورس طالبان کا ایک ذیلی گروہ ہے جس میں عبدالرشید غازی (لال مسجد والے )کے ساتھی اور شاگرد شامل ہیں۔جوپاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے ۔جب مذاکرات میں پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے کی بات کی گئی تو باقی تمام طالبان نے آئین ِ پاکستان کے تحت مذاکرات کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا مگراس گروہ نے انکار کردیا اور کہا کہ ہم آئین پاکستان کے تحت مذاکرات کیلئے تیار نہیں ۔ یہی بات مولوی عبدالعزیز نے کی اور طالبان کی کمیٹی سے علیحدہ ہوگئے ۔ غازی فورس کے تمام لوگوں نے بھی طالبان کو کہہ دیاکہ ہم مذاکرات میں شامل نہیں ہیں ۔
طالبان کے کچھ لوگوں نے بھی اس سلسلے میں ان کی حمایت کی اور ان سے مل کر ایک نیا گروپ تیار کیا جس کانام’’ احرار الہند ر‘‘کھا گیا۔یہ بھی اطلاعات آئی ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے بہت سے لوگ( خفیہ طورپربھی اور اعلانیہ بھی) ان کا ساتھ دے رہے ہیں ۔خاص طور پر تحریک طالبان میں شامل تمام غیرملکی دہشت گرد اسی تنظیم میں شامل ہوگئے ہیں یا کر دیا گیا ہے ۔تاکہ مذاکرات میںطالبان ان کی طرف سے مکمل بریت کا اعلان کر سکیں۔فون کرنے کا طریقہ اور فون نمبربھی وہی ہیں جو تحریک طالبان کے ترجمان کے پاس ہیں ۔یہ ان کا ترجمان اسد منصور بھی انہی نمبروں پر فون کر رہا ہے جس پر طالبان کا ترجمان کرتا ہے۔ اس تنظیم میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جن کے متعلق مولانا عبدالعزیز نے حکومت کو دھمکی دیتے ہوئے بتایا تھاکہ طالبان کے ساتھ فوراً مذاکرات کئے جائیں وگرنہ ان کے پاس پانچ سو خود کش خواتین بھی موجود ہیں جو کسی وقت بھی میدان میں اتر سکتی ہیں یہی وہی خواتین ہیں جو لال مسجد آپریشن وقت وہاں سے نکالی گئی تھیں۔
احرار الہندنے جس مولانا عمر قاسمی نامی نوجوان کو اپنے سربراہ قرار دیا ہے۔اس کے بارے میں ابھی تک یہی اطلاعات ہیں کہ وہ بھی عدم تشدد پر یقین رکھتا ہے ۔یہ مولانا قاسم ناناتوی کی اولاد میں سے ہے ۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سیکریڑی جنرل مولانا خالد سیف رحمانی کا بیٹا ہے ۔مدنیہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے ۔امام قاسم ناناتوی بین الاقوامی ایوارڈکمیٹی کاروح رواں ہے ۔اوراسلام کی عالم گیر نشاۃ ثانیہ کے لئے کام کرتا ہے ۔خلافت ِ عثماثیہ کو عالم اسلام کے مسائل کا حل سمجھتا ہے۔اور ترکی مجاہدشیخ محمود افندی کا ماننے والا ہے ۔ابھی تک یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتاکہ وہ خود بھی احرار الہند کے ساتھ وابستہ ہے یا یہ صرف اس کے ماننے والے لوگ ہیں۔ایک بات ہے کہ ’’احرار الہند ‘‘ جیسا نام لوگ طالبان کی طرح کم تعلیم یافتہ نہیں ان کی تاریخ پر بھی نظر ہے اورلفظ کے استعمال کو بھی جانتے ہیں جیسے انہوں ہند کے لفظ کو اپنے نام کاحصہ بنایا اورنام سے بہت ہی سے بہت کچھ کہہ دیا۔ جہاں تک طالبان پر بھارتی اثرو رسوخ کا تعلق ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔سوات کے آپریشن کے دوران بھارت سے آیا ہواسلحہ بڑی تعداد میں پکڑا گیا تھااور بھی کئی ثبوت اس سلسلے میں افواجِ پاکستان کے پاس موجود ہیں۔اس بات کے امکانات بھی ہوسکتے ہیں کہ کچھ غیر ملکی ایجنسیوں نے طالبان کے روابط بڑھانے کیلئے بھارت کے کچھ اہم مسلمانوں کو استعمال کیا ہو۔چاہئے تو یہ تھا جب احرار الہند کے ترجمان نے مولانا عمر قاسمی کو اپنا سربراہ قرار دیا ہے کہ وہ اس سربراہی سے انکار کرتایا اسے قبول کرتا مگر اس نے اس سلسلے میں مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔
اسلام آبادمیں ہونے والی دہشت گردی کی واردات میں لال مسجد کے سابقین کے ملوث ہونے کے ثبوت مل چکے ہیں مولوی عبدالعزیر کے شاگرد اور لال مسجد کی شہدا فاونڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام احمد یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اسلام آباد کے جج رفاقت اعوان نے لال مسجد کے کیس میں جو ان کے ساتھ سلوک کیا تھا یہ اسی کاجواب تھا۔مولوی العزیز نے اس سوال کے جواب میں حافظ احتشام کو ایک جذباتی نوجوان قرار دیا اور کہا کہ اس نے میرے خلاف بھی بیان دیا تھااس کا ہم لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ۔اگر مولوی عبدالعزیز کی اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پھر عدالت میںتنظیم شہدا فاونڈیشن آف پاکستان ٹرسٹ کے ترجمان کی حیثیت سے کیسے پیش ہوتا تھا۔احرار الہند تنظیم فروری کے پہلے ہفتے میں قائم کی گئی ۔نو فروری اس تنظیم کا نام پہلی بار سامنے آیا ۔اس تنظیم کے روح رواں لال مسجد کے دو سابق طالب علم ہیں جن کا ضلع اٹک کے شہر حضرو سے ہے ۔یہ بھی کہا
جاتا ہے کہ یہ دو نوں سکے بھائی ہیں ۔بہر حال اسلام آباد ابھی لال مسجدکی سر خیوں سے باہر نہیں سکا۔

