
انسان کو زندہ رہنے دو
انسان کو زندہ رہنے دو
تھر کے غریب عوام دو وقت کی روٹی کے کیوں محتاج ہیں ۔وہاں صدیوں سے انسانیت کیوں سسک سسک کر جی رہی ہے۔ اس سوال کا جواب کیا دیا جائے ۔سچ تو یہی ہے کہ صدیوں سے چند نوالوں کے عوض انسانیت اپنا بدن بیچتی چلی آرہی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ تھر میں انسان سسک سسک کر جی رہا ہے،میں کہتا ہوں انسانی تاریخ میں کوئی کم ہی لمحہ ایسا گزرا ہو گا جب اس کی سسکاریوں سے ہوا مغموم نہیں ہوئی ہو گی،بالکل اسی طرح دہشت گردی بھی پاکستان کے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہوگئی ہے مگر یہ بھی کوئی نئی چیز نہیں۔
یہ دہشت گردی ہزاروں سالوں سے لوگوں کے زندہ بدن پر چل رہی ہے۔ بادشاہوں کے لشکریوں کے پائوں تلے کچلی ہوئی نوع انسانی کی کہانی۔ دہشت گردی ہی کی کہانی ہے۔ہیروشیما اور ناگاساکی کی شمشان گاہ میں اڑتی ہوئی اٹیمی راکھ۔ہٹلر کے گیس چیمبروں میں یہودیوں کی اجتماعی موت۔ فلسطین میں مرتے ہوئے معصوم بچے۔ کراچی کی گلیوں میں بہتا ہوا خون۔ افغانستان میں چٹختے ہوئے مظلوم پہاڑ اور مقام ِصفر پر گرتی ہوئی گیارہ ستمبر کے دو ہندسوں کی سر بلند عمارتیں اور پاکستان میں بے گناہ شہید ہونے والے ساٹھ ہزار پاکستانی یہ سب ایک طرح کی دہشت گردی ہے، پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں کو کب ہوش آئے گا کب ان کی آنکھیں کھلیں گی۔
کیا اس وقت جب سب کچھ لٹ چکا ہو گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پتھرائی ہوئی آنکھیں نہ بند ہوا کرتی ہیں اور نہ انہیں کھولا جا سکتا ہے۔ لوگ صدیوں سے ایک خوبصورت حال کے خواہشمند ہیں۔ پاکستان میں میرا خیال ہے کہ انہیں اپنی یہ تمنا کسی ڈسٹ بن میں پھینک کر ایک روشن مستقبل کیلئے تگ و دو کرنی چاہئے۔ شاید یہی تگ و دو زمانہٗ حال میں بھی کچھ بہتری لے آئے وگرنہ وقت تو مسلسل انسانی لہو کے چھینٹے اڑا رہا ہے۔
میں یہ بھی یقین سے کہہ سکتا ہوں بلکہ مجھے قسم ہے کھجور کی ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح افق کی گود میں گرتے ہوئے چاند کی، مجھے قسم ہے شام کے کشکول میں کھنکھناتے سکّے کی طرح گرتے آفتاب کی،مجھے قسم ہے صحن کی کچی دیوار سے اونچے لگائے گئے اس چالیس والٹ کے بلب کی جس سے ہمسائے کا بے چراغ گھر بھی کچھ کچھ روشن ہے۔وقت روشنی ٹپکتاتے ہوئے قلم سے اپنے روشن تر خوابوں کو روشن ترین لمحوں میں بدلنے کے لئے مصروف ِ عمل ہے۔ اس کے سینے میں دل دھڑکتا ہے مگر دل تو بھیڑیئے کے سینے میں بھی دھڑکتا ہے اور اِس وقت بھیڑیئے ہی دنیا میں کج کلاہ ہیں۔ پتہ نہیں آسمان کیوں نہیں گرتا۔زندگی اکسیویں صدی میں آگئی ہے مگرانسان انسان نہیں بن سکا۔گیارہ ستمبر کے بعد دنیا اور زیادہ غیر محفوظ ہو گئی ہے۔ میں اس وقت دیارِ عیسوی کی اکیسویں اسٹریٹ پر کھڑا ہوں ۔
مجھے اس مصروف ترین گلی میں آتے جاتے ہوئے زیادہ تر لوگ مرغ ِ سر بریدہ دکھائی دے رہے ہیں ۔تقریباً ہر شخص نے اپنے سرپر جو ٹوپی پہن رکھی ہے اس پر فاختہ کا نشان بنا ہوا ہے اور ٹائی کے پن کی صورت شاخ ِ زیتون جیسی ہے ۔لباس پر امن کے پرفیوم کا بہت زیادہ اسپرے کیا ہوا ہے مگر ان کے جسموں سے آتی ہوئی بارود کی بو پوئنزن کی تیزخوشبو میں دب نہیں رہی۔ میرے سامنے ایک طرف گیارہ ستمبر کے میناروں سے لے کر مقامِ صفرکی پاتال تک جلوہ فگن ہے دوسری طرف عراق اور شام سے لے کر شمالی وزیرستان کااحاطہ تک دکھائی دے رہا ہے ۔اس اکیسویں اسٹریٹ سے میری دوستی کچھ زیادہ قدیم نہیں ۔میں ابھی بیسویں صدی کے شہر سے اس امید کے ساتھ نکلا تھا کہ اگلا دیار روشنیوں اور خوشبوئوں سے بھرا ہوا ہو گامگر اس وقت مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں انسانی تاریخ کے انتہائی بدقسمت موڑ پر کھڑا ہوں۔ گھور اندھیرے آنکھوں میں چبھنے لگے ہیں۔ تاریکیاں دل و دماغ تک اترنے لگی ہیں۔ امن ،سلامتی اور عافیت کا نگر کونسا ہے۔ یہ سوال صرف میرا نہیں ہے بلکہ میرے عہد کا ہے۔
آئیے ہم سب مل کرپکار بلندکریں کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔رنگ ، نسل ، وطن ، مذہب اور زبان کا اختلاف کسی بھی انسان کے قتل کا جواز نہیں بن سکتا۔ انسان کا خون مقدس ہے ۔انسانی لہو لندن کی انڈر گراونڈ ٹرینوں میں بہے یاکراچی کی گلیوں میں اس کے تقدس میں کوئی فرق نہیں آتا۔آئو روشن لفظوں میں آسمان کی چھاتی پر کندہ کردیں کہ لہو کی کوئی داستان اب کہیں نہیں لکھی جائے گی۔ کسی ماں کا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا جائے گا۔
کسی بچے کے مقدر پر یتیمی کی مہر نہیں لگائی جائے گی۔ مغرب اور مشرق کا فرق و امتیاز کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اپناخدا تو رب المشرقین بھی ہے اور رب المغربین بھی۔ اسے کسی بھی بے گناہ انسان کا خون کرانا کسی طرح بھی گوارہ نہیں۔ دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر امریکیوں کی انسان دشمن پالیسیاں ہوں یا خودکش دھماکے اس کے نزدیک دونوں ملعون فعل ہیں آئو دیار عیسوی کی اکیسویں گلی میں امن کی پکار عام کریں ۔سلامتی کے علم بلند کریں۔انسان کو روشنی دیں، بینائی دیں، بصیرت دیں کہ وہ اندھا ہو کر اپنے گھر کو آگ لگا رہا ہے۔
mansoor afaq
