
ہرحال میں تحفظ
ہرحال میں تحفظ
سات اکتوبر1958پاکستان کی تاریخ کا پہلاتاریک ترین تھا جب جنرل ایوب خان ء نے مارشل لگایا تھا۔اورمفاد پرست سیاست دان مکھیوں کی طرح اس کے ارد گرد جمع ہوگئے تھے ۔اس دن کی تاریکی پچیس مارچ 1969کوکچھ اور گھٹا ٹوپ ہوگئی جب یحییٰ خان نے دوسرا مارشل لا لگا دیا اور اہل مفادنے اس کے راستے میںکچے گوشت اور شراب کی دکانیں کھول لیں ۔ملکی تاریکی تیسرادن پانچ جولائی 1977کا ہولناک دن تھا جب جنرل ضیا نے اقتدار پر قبضہ کیااور صاحبان ِ مفادان کی مجلس شوریٰ کے رکن بنتے چلے گئے۔ اوراس سلسلے کا چوتھا تاریک ترین دن بارہ اکبوتر1999 کے روز طلوع ہوا ۔ جنرل پرویز مشرف نے عنان ِ اقتدا پنے ہاتھ میں تھام لی اور سلسلہ ٔ مفاد کے سجادہ نشین اپنی اپنی نشست سنبھالنے کیلئے چکلالہ چھاونی کی طرف دوڑ پڑے
میں تاریخ ایک طالب علم ہوں،یہ چاروں سیاہ دن۔ہمیشہ میری دلچسپی کا باعث رہے ہیںمیں نے ان چاروں داغ داغ صبحوں سے پہلے کے حالات و واقعات پربہت غورکیاہے اس صورتِ احوال تک پہنچنے کی کوشش کی ہے جس کے سبب فوج اقتدارپر قبضہ کرنے کیلئے مجبور ہوگئی۔مجھے ہر موڑ پر یہی احساس ہوا کہ پاکستان پریہ ظلم سیاست دانوں کی نااہلی کی وجہ سے ہوا ۔ہر دور میںحکومتوں کے کارہائے نمایاں کے سبب کچھ سیاست دانوں کی دعوت پر ہی فوج آئی اورکچھ سیاست دانوںنے اسے خوش آمدید کہا۔مسلسل مارشل لائوں کے سبب فوج کی ایک علیحدہ حیثیت بنتی چلی گئی اور اس کے بعدپاکستان میں کوئی حکومت بھی ایسی نہیں آئی کہ جو فوج جیسے مضبوط اور خود مختار ادارے کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کرتی ۔کوئی حکومت فوج میں اتنی تبدیلی نہیں کرسکی کہ فوج پالیساں بنانے اور ان پر عمل در آمد کرنے کا کام چھوڑ دے۔ہر حکومت نے ایسے کام کئے کہ فوج کو ملکی سلامتی کیلئے اپنی پالیساں ترتیب دینی پڑیں ۔
دراصل وہ سیاست دان جو ہمیشہ فوج کی مدد سے اقتدار میں آئے ہیں ان کیلئے کیسے ممکن ہے کہ وہ جرنیلوں کے ساتھ ٹکرا سکیں۔ایک ذوالفقار علی بھٹو نے کوشش کی تھی نوازشریف نے اپنے دوسرے دور میںبھٹو کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کی اور اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کون نہیں جانتا۔میرے خیال میں ان مارشل لائوں کے جتنے قصوراوار فوجی جرنیل ہیں اتنے ہی سیاستدان ہیں۔خاص طور پر اہل اقتدار۔
کتنے ستم کی بات ہے کہ اس ایک سوال پر مسلسل بحث جاری ہے کہ جنرل راحیل شریف کا مخاطب کون تھا۔اشارتاًیہ پیغام انہوں نے کسے دیاہے کہ فوج اپنے وقار کا ’’ہر حال‘‘ میں تحفظ کرے گی ۔سوچتا ہوںوہ لوگ کسے دھوکے میں رکھنا چاہتے ہیں جو کہہ رہے ہیںکہ آرمی چیف کا بیان میڈیا کے لئے تھا ۔ میڈیا پر کچھ لوگ جس طرح کی گفتگو کرنے لگے ہیں وہ افواجِ پاکستان کے لئے ِ ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے ۔یقینا یہ صاحبان اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں کیا انہیں معلوم نہیںکہ انہوں نے افواج ِ پاکستان کے ساتھ کیا معاہدہ کیا تھااور پھر اس سے کیسے منحرف ہوئے ۔یقینا انہیں معلوم ہے ۔سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ اور پنجاب کے وزیر اعلی کی فوجی حکام کے ساتھ یہ بات طے ہوئی تھی کہ جنرل پرویز مشرف کو عدالت میں ایک بارپیش کردیں اس کے بعد اس کے باہر جانے پر لگائی گئی تمام پابندیاں ختم کردی جائیں گی ۔اس معاہدے کے تحت پرویز مشرف عدالت میں چلے گئے مگر حکومت اپنے وعدے سے منحرف ہوگئی بلکہ یہاں تک کہ ان دونوں صاحبان نے اپنے موبائل فون بند کردئیے ۔ فوجی حکام رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے اور ناکام رہے۔پھرکئی دن انتظار کیا ہے مگر کوئی جواب نہ آیاسواس کے بعد آرمی چیف پہلی بار بول پڑے۔کچھ دن پہلے ایک افواہ گلی کوچوں میں پھیلی ہوئی تھی کہ پرویز مشرف ملک سے باہر جا رہے ہیں ان جانے کیلئے چکلالہ ایئرپورٹ جہاز آکر کھڑا ہے ، مگر پھر یہ افواہ ، افواہ ہی ثابت ہوئی ۔حقیقت میں یہ افواہ نہیں تھی لیکن حکومت کے مکرنے کے سبب وہ جہاز پرویز مشرف کے بغیر پرواز کرگیا۔
بے شک بین الاقوامی صورت حال ایسی ہے کہ اس وقت ملک میں مارشل لا لگانا خاصا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔خاص طور پر امریکہ نواز حکومت کی حمایت کر رہا ہے۔مگر امریکہ پر اعتبار کرنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ اس سے زیادہ بے اعتبار ملک اور کوئی نہیں ۔اس کی کوئی اخلاقیات نہیں ہیں وہ اپنے کسی بھی مفاد کی خاطر کسی وقت بھی کسی بات سے بھی پھر سکتا ہے۔میری اہل اقتدار سے گزارش ہے کہ ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔وہ جنرل راحیل کے جملے میں ’’ہر حال ‘‘ کی موجودگی پر ٹھنڈے دل سے غور کریں ۔ میں صاحبان ِ حکومت کیلئے ایک بار پھر وہ جملہ درج کررہا ہوں۔’’ فوج اپنے وقار کا ’’ہر حال‘‘ میں تحفظ کرے گی ‘‘صورت حال خاصی خراب ہے ملک میں اتنی سیاہی پھیل چکی ہے کہ پانچواں سیاہ دن عوام کو صبح ِ تابناک کی طرح محسوس ہوگا۔
mansoor afaq

