
آپریشن کا حکم تو رحمان بابا نے دیا ہے
آپریشن کا حکم تو رحمان بابا نے دیا ہے
دھواں ہی دھواں ہے! دھند ہی دھند ہے، دھول ہی دھول ہے ۔کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ کونسی گاڑی کہاں جارہی ہے۔کس کی منزل کیا ہے۔غبار کے اسی جلوس میں ہم بھی چل رہے ہیں….دھیرے دھیرے….بچ بچاکر۔اسی جلوس میں وہ بھی رواں دواں ہیں۔خیال میں جمی ہوئی تارکول کی سیاہی اندیشہ ہائے دور دراز کے ٹائروں سے روندی جارہی ہے….کچھ پتہ نہیں چل رہا شام بھی دھند ہے ، صبح بھی دھند ہے۔کہتے ہیں دھند میں منظر جتنے واضح ہوسکتے ہیں آنکھیں اس سے کہیں آگے دیکھتی ہیں مگر جب تک اِس بات کی دھند نہیں ہٹتی کہ منہاج القران کے دفتر پرحملہ کس طرح ظہور پذیر ہوا، آنکھیں مستقبل کے منظرنامے کا درست تجزیہ نہیں کر سکتیں۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ یہ وہ لاشیں نہیں تھیں جو قبروں میں دفن ہونے کے بعد مرجاتی ہیں۔ یہ تو فقیروں درویشوں کے جسد تھے جو سلسلۂ قادری کی درگاہ میں بیٹھ کر برسوں سے پیغمبرِ انسانیت ، چارہ ساز بیکساں کی بارگاہِ اقدس اعظم میں اپنے اپنے درود پیش کر رہے تھے۔ ان کی قبریں تو ویسے بھی نہیں مرتیں۔اس شہادت کے بعد تو کوئی انہیں مار ہی نہیں سکتا یعنی یہ سانحہ ماڈل ٹائون صرف انسانی تاریخ کے سینے پر نہیں سج گیا، یہ روحانیت کی تاریخ میں بھی آسماں کی چھاتی پر سورج کی کرنوں کے ساتھ لکھا رہے گااور اہلِ اقتدار سے اہل تصوف پہلے بھی بہت ناراض ہیں پھر اس غیر معمولی واقعہ کی ٹائمنگ بھی غیر معمولی ہے۔
یہ واقعہ اس وقت کیاگیا جب افواجِ پاکستان نے آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا تھا ۔’آپریشن ضربِ عضب‘ کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس آپریشن میں پاکستان کی تمام تر روحانی طاقتیں بھی افواج ِ پاکستان کی پشت پر کھڑی ہیں۔ فوج کو اس آپریشن کی اجازت بادشاہوں نے نہیں فقیروں نے دی ہے۔اس آپریشن کا حکم تو رحمان باباؒکے مزار سے آیاہے ۔داتاگنج بخشؒ اور امام بریؒ نے دیا ہے۔ چودہ جون کوشمالی وزیرستان میں جیٹ طیاروں نے بمباری کی ،ایک سو پچاس دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ آپریشن ضربِ عضب کا آغاز ہوا۔ قوم کو افواج ِ پاکستان کی طرف سے روشنیوں کی نوید ملی۔پندرہ جون کو آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوجی دستے شمالی وزیرستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ مسجدوں میں فقیر اپنی افواج کی کامیابیوں کے لئے سجدہ ریز ہو گئے۔ سولہ جون کو بادشاہ بھی وہیں آکھڑا ہوا جہاں فقیر موجود تھے یعنی وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا کہ آپریشن ضربِ عضب شروع ہو چکا ہے۔
فوج یہ آپریشن سات آٹھ مہینے پہلے شروع کرنا چاہتی تھی مگر آسمانوں نے کسی اور وقت کا تعین کر رکھا تھا سو نون لیگ اور دوسری تحریک انصاف دونوں پارٹیاں مسلسل مذاکرات کی خواہشمند رہیں اور دونوں نے بھرپور کوشش کی مگر مذاکرات، مذاق رات سے آگے نہ بڑھ سکے۔ وقت اور جگہ کا تعین جب اپنے تناسب پر پہنچا تو آپریشن شروع ہو گیا(تمام احترام اور عقیدتیں افواجِ پاکستان کے شہیدوں کے نام)۔ آپریشن شروع ہونے سے ذرا پہلے تک فوج اور حکومت کے درمیان فکری و نظری فاصلے کافی حد تک تھے۔فضا میں یہ احساس پھیلا ہوا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کوئی بڑا عدالتی فیصلہ آنے والا ہے۔ عمران خان نے اپنے جلسوں کا آغاز کر دیا،ڈاکٹر طاہر القادری نے کینیڈا سے واپسی کی تاریخ کا اعلان کردیا۔ چوہدری برادران نے استقبال کی تیاریاں شروع کردیں، الطاف حسین نے ایم کیو ایم کوتیار ہوجانے کا حکم دے دیا تھا۔شیخ رشید نے ٹرین مارچ کی تاریخ دے دی۔ حکمراں جماعت کو اپنی حکومت کی بنیادوں میں پڑا ہوا بھونچال یاد آگیا۔ دھاندلی کے ثبوت آنکھوں میں لہرانے لگے۔شمالی وزیرستان میں آپریشن کیلئے وزیراعظم نے اپوزیشن کو ساتھ ملا لیا۔ شیخ رشید ٹرین نے مارچ روک دیا۔ عمران خان نے جلسہ منسوخ کردیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کے موخر ہونے کا امکان بھی پیدا ہوگیا ۔
تمام قوم آپریشن کے عمل میں نون لیگ کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ پہلی بار یہ موقع آیا کہ ہر پارٹی کا ہر لیڈر نون لیگ کی حکومت کی حمایت کررہا تھا۔اچانک پولیس نے منہاج القران کے دفتر پر حملہ کردیا اور یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔یہ وہ لاشیں نہیں تھیں جو قبروں میں دفن ہونے کے بعد مرجاتی ہیں،یہ تو فقیروں درویشوں کے جسد تھے جو سلسلۂ قادری کی درگاہ میں بیٹھ کر برسوں سے پیغمبرِ انسانیت ، چارہ ساز بیکساں کی بارگاہِ اقدس اعظم میں اپنے اپنے درود پیش کر رہے تھے….اور اپنا تو یقین ہے کہ حکومتوں کے فیصلہ بھی فقیر کرتے ہیں۔
mansoor afaq

