نئے انتخابات کا پھندا. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

نئے انتخابات کا پھندا

نئے انتخابات کا پھندا

یہ کوئی کتاب نہیں تھی بلکہ ایک بہت بڑی عمارت ہے جس میں چھبیس بڑے بڑے فلیٹ ہیں اوراس عمارت کا نام پاکستان ہے ۔پوری دنیا پر پھیلا ہوا پاکستان ۔کچھ فلیٹس ایسے بھی ہیں جن میں داخل ہونے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ یہ پاکستان نہیں ہو سکتا مگر ڈرائنگ روم میں لگی ہوئی (نوازشریف کا دشتِ سعودیہ سے شکارشدہ )نیلے ہرن کی کھال اتار کر دیکھا جائے تو دیوار میں پڑی ہوئی دراڑیں پڑھنے والوں کو پھر پاکستان پہنچادیتی ہیں۔

میں جب پہلے فلیٹ میں داخل ہوا تو ایسا لگا جیسے میں کسی ٹائم مشین پر سوار تھا جس نے پہلی بریک لاہور میں لگائی ۔میں جیسے ہی گاڑی سے باہر نکلا توقیامِ پاکستان کے وقت بھارت سے لاہور آتے ہوئے قافلوں کی خون آلود دھول میری پلکوں پر جم گئی ۔آنکھیں صاف کیں تو ہاتھ سرخ ہوگئے ۔ہاتھ پونچھے تودامن ِ قمیص زخم زخم افق کی طرح داغ داغ ہوگیا۔یہ بھی عجیب خون ہے کہ تقریباً ستر سال کا ہوجانے کے باوجودابھی تک خوشبو دے رہا ہے۔ ابھی تک اس کی لالی میں کوئی کمی نہیں آئی۔

دوسرے فلیٹ کے دروازے پر دستک دی ،دروازہ خودبخود کھل گیا۔ اندر گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ دہشت گرد فائرکررہے تھے۔کھڑکیوںسے ایک اڑتے ہوئے مسافر جہاز کی کھڑکیوںپر ۔ شاید یہ فلیٹ ایئر پورٹ کے بہت قریب تھا۔پاک سرزمین شاد باد ۔زخم زخم جہازرن رے پراترنے میں کامیاب ہوگیا ۔اور ہتھیلیوں پر سروں کے چراغ جلاکر نکلے ہوئے فوجیوں نے دہشت گردی کا بدن گولیوں چھلنی چھلنی کردیا ۔(پاک فوج زندہ باد)

تیسرے فلیٹ میں داخل ہوا تو وہاں بھی لہو کی بو پھیلی ہوئی تھی۔دروازوں اور دیواروں پر خون کا پینٹ کیا گیا تھا۔جگہ جگہ فرش پر انسانی جسم کے لوتھڑے پڑے ہوئے تھے ۔جیسے کسی کو کسی نے ابھی ابھی قیمہ کرنے والی مشین سے گزارا ہو۔جماہوا خون ۔ہر طرف۔ رگوں سے باہر جماہوا خون ۔۔ سرخ رنگ تمام فلیٹس میں اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ پھیلا ہوا تھا ۔ مہندی کے مردہ لہو سے لیکر سانحہ ماڈل ٹائون میں شہید ہونے والی خواتین تک ہر جگہ اسی رنگ کی حکمرانی تھی۔سرخ رنگ۔ رنگوں کی دنیا میںسب سے زیادہ تکلیف دہ یہی رنگ ہے ۔ اللہ تعالی نے شاید اسی لئے تخلیقِ کائنات کے عمل میں اس رنگ کا زیادہ استعمال نہیں کیابلکہ اسے رگوں میں چھپا چھپا کے رکھا ہے۔
چوتھے فلیٹ میں دو لڑکے ویڈیو گیم کھیل رہے تھے۔گیم میں جہاز فضا میں چکرا رہے تھا مگر اسے ایئرپورٹ پر اترنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی ۔ ایئرپورٹ کے آس پاس لوگ ہی لوگ تھے۔پولیس ہی پولیس تھی ،دور تک آنسو گیس کے گہرے گہرے بادل تھے ۔الٹے سیدھے ڈنڈے سوٹے ہوا میں گھوم رہے تھے۔ پتھرائو ہورہا تھا۔ڈری اور سہمی ہوئی حکومت کے بیک وقت کئی اجلاس جاری تھے۔باہر سے ہونے والے سچائی کے حملے کی روک تھام ہر لمحہ مشکل ہوتی جارہی تھی۔وہاں بھی میری وحشت بڑھنے لگی اور میں’ وحشت ہی سہی ‘گنگناتا ہوا باہر نکل آیا تھا۔

پانچویں فلیٹ میں داخل ہوا تو ٹائم مشین مجھے پھر پیچھے کی طرف لے گئی ۔ماضی قریب میں ہونے والا الیکشن جاری تھا۔ساری پرچیوں پرایک ہی جگہ ایک ہی مہر لگ رہی تھیں۔کہیں ڈبے ووٹوں سے بھرے جارہے تھے ۔ کہیں گننے کیلئے انہیں کھولا جارہا تھا۔ فتح کے جشن فتح سے پہلے جاری تھے۔عدل و انصاف مطمئن تھا۔پہرے دار خوش تھے۔

چھٹے فلیٹ میں سمندر میں ڈوب جانے والے حاجیوں کی جنازے پڑے ہوئے تھے ۔عبدالحمید عدم بھی کیا غلط آدمی تھے۔انہوںنے اخبار کی اس خبر پر کہ ’’حاجیوں کا جہاز ڈوب گیا ‘‘ پر کیا برا مصرع لگایا تھا۔’اِس قدر بوجھ تھا گناہوں کا‘۔کہتے ہیں اِ ن دنوں پاکستان حاجیوں کے معاملے میںبھی خود کفیل ہو چکا ہے زندگی کا کونسا شعبہ ایسا ہے جہا ں حاجی موجود نہیں ۔ شہرِ اقتدار کے باسیوں سے درخواست ہے کہ وہ حج کی ایک اور سعادت حاصل کر لیں ۔ سارے مسئلے خود بخود حل ہوجائیں گے ۔وگرنہ ماہ رمضان کے بعد موجودہ حکومت کو دوطرف سے گھیرنے کا پروگرام فائنل ہوگیا ہے ۔ایک طرف سے عمران خان دوسری طرف سے ڈاکٹر طاہر القادری شکار کو گھیر گھار کر اس مقام تک لائیں گے جہاں نئے قوانین کے ساتھ نئے انتخابات کا پھندا لگادیا گیا ہے۔

ساتویں فلیٹ میں داخل ہوا تووہاںدہشت گردوں کے ہمدردوں کی ایک میٹنگ جاری تھی ۔کچھ لوگ ، کچھ لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ تم تو کہتے تھے اگر طالبان کے خلاف آپریشن کیا گیا تو پورا ملک دھماکوں سے گونج اٹھے گا۔ہر شہر ،قصبے ، ہر گائوں ہر مسجد میں طالبان کے موجودہیں۔مگرکچھ نہیں ہوا۔

آٹھویں فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک دہشت گرد برآمد ہوا اس نے مجھ پر فائرنگ شروع کردی ۔ میں بھاگنے لگااور بھاگتے بھاگتے اپنے گھر کے لان میں پڑی آرام دہ کرسی پر دھڑام سے گر پڑا سامنے ٹیبل پر پڑا نیلم بشیر کا افسانوی مجموعہ’ وحشت ہی سہی‘ میرا منہ چِڑا رہا تھا۔ میں ابھی آٹھویں افسانے تک پہنچا تھا اور اس کتاب میں چھبیس فلیٹ تھے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے