
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
میں اس وقت دیارِ عیسوی کی اکیسویں ا سٹریٹ پر کھڑا ہوں مجھے اس مصروف ترین گلی میں آتے جاتے ہوئے زیادہ تر لوگ مرغ ِ سربریدہ دکھائی دے رہے ہیں ۔ تقریباً ہر شخص نے اپنے سرپر جو ٹوپی پہن رکھی ہے اس پر فاختہ کا نشان بنا ہوا ہے جو ٹائی کے پن کی صورت شاخ ِ زیتون جیسی ہے ۔ لباس پر امن کے پرفیوم کا بہت زیادہ اسپرے کیا ہوا ہے مگر ان کے جسموں سے آتی ہوئی باورد کی بو پوئنزن کی تیزخوشبو میں دب نہیں رہی ۔ میرے سامنے دور دور تک غزہ کے بچوں کا خون پھیلا ہوا ہے۔ اسکولوں اور اسپتالوں پر گرتے ہوئے بارود کی اڑتے ہوئے انسانی جسموں کے لوتھڑے پڑے ہیں۔
اس اکیسویں اسٹریٹ سے میری دوستی کچھ زیادہ قدیم نہیں ۔ میں ابھی بیسویں صدی کے شہر سے اس امید کے ساتھ نکلا تھا کہ اگلادیار روشنیوں اور خوشبوئوں سے بھرا ہوا ہو گا مگر اس وقت مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں انسانی تاریخ کے انتہائی بد قسمت موڑ پرکھڑا ہوں۔ گھور اندھیرے آنکھوں میں چبھنے لگے ہیں۔ تاریکیاں دل و دماغ تک اترنے لگی ہیں۔ امن ،سلامتی اور عافیت کا لمحہ کون سا ہے۔ یہ سوال صرف میرا نہیں ہے بلکہ میرے عہد کا ہے ۔ صدیوں سے بلند ہوتی ہوئی یہ پکار کیوں کہیں نہیں سنی جارہی کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسا نیت کا قتل ہے ۔ رنگ ، نسل ، وطن ، مذہب، اور زبان کا اختلاف کسی بھی انسان کے قتل کا جواز نہیں بن سکتا۔ انسان کا خون مقدس ہے ۔ کوئی تو روشن لفظوں میں آسمان کی چھاتی پر کندہ کردے کہ لہو کی کوئی داستان اب کہیں نہیں لکھی جائے گی۔ کسی ماں کا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا جائے گا۔ کسی بچے کے مقدر پر یتیمی کی مہر نہیں لگائی جائے گی ….مشرق و مغرب دونوں جگہوں پر۔اور اپناخدا تو رب المشرقین بھی ہے اور رب المغربین بھی ۔ اسے کسی بھی بے گناہ انسان کا خون گرانا کسی طرح بھی گوارہ نہیں۔ کوئی تودیار عیسوی کی اکیسویں گلی میں امن کی پکار عام کرے ۔ سلامتی کے علم بلند کرے۔انسان کو روشنی دیں بینائیاں دے بصیرتیں دے۔
یہ لہو رنگ موسم ختم کیوں نہیں ہوتا۔آخر کیوں
’’کسی ذبح خانے کے آس پاس کہیں زندگانی مقیم ہے
مجھے آئے اپنی ہر ایک شے سے لہو کی بو
بڑی تیز تیز
بڑی متلی خیز
کئی پرفیوم کی بوتلیں
میں چھڑک چکا ہوں لباس پر
اسی گرم خون کی مشک پر ۔ اسی سرد ماس کی باس پر
کسی ذبح خانے کے آس پاس
کئی بار دھویا ہے ہاتھ کو
کئی بار مانجھا فلیٹ کی۔ میں نے ایک ایک پلیٹ کو
مجھے آئے ذائقہ خون کا
مجھے آئے ایک سڑاند سی
مجھے کچا ماس دکھائی دے
کہیں ہاتھ پائوں سڑے ہوئے
کہیں گولیوں کے گلاب سے… نئی چھاتیوں میں گڑے ہوئے
کہیں گردِ ناف کے پارچے…. مرے ناشتے میں پڑے ہوئے
کسی ذبح خانے کے آس پاس
کہیں زندگانی مقیم ہے‘‘
کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اسرائیل کیا چاہتا ہے ۔ غزہ میں اور کتنے لوگ شہید ہونے ہیں ۔ کیا وہ سارے غزہ کو قبرستان بنا دینا چاہتا ہے۔ ویسے بھی فلسطین میں تو ایک عرصے سے آبادیاں اور ویرانے ایک جیسے ہی ہوچکے ہیں۔ مگراسرائیل کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انجیر کے پیٹر پر ناشپاتیاں اور امردو نہیں لگتے ۔ وہ کیکر کے درختوں سے اخروٹ نہیں اتار سکتا ۔ جو کچھ وہ کررہا ہے اس کا انجام بھی ویسا ہوگا ۔ آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ ظلم تو ظلم ہے اور انسانی تاریخ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ یہ جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ہٹلر نے یہودیوں کا اجتماعی قتل کیا جس کے بارے میں کہا گیا۔’ہولو کاسٹ….ایک ہیری کین…وقت پربجتاہو پیانوکاخاموش نوٹ ۔ ہولو کاسٹ۔ لاکھوں لوگوں کا سفر۔ اپنے مرے ہوئے دوستوں کی روحوں کی تلاش میں۔ ہولو کاسٹ….گندے نالے میں گرتے ہوئے پانی کی تشد آمیز زوردار آواز۔ ہولو کاسٹ۔ ایک ٹوٹے ہوئے کھلونے کے گھاس پر بکھرے ہوئے سینکڑوں ٹکڑے جنہیں جوڑا نہیں جا سکتا۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر وہ ظلم کرنے والا ہٹلر بدی کا نشان بن کر تاریخ میں گم ہوگیا ہے۔ کیا اسرائیل غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتا ہے۔؟تو پھر اسے ہٹلر کا انجام یاد رکھنا چاہئے۔

