
دھرنوں کی کامیابی
دھرنوں کی کامیابی
اگرچہ روشنی کے دھرنوں کی عمر تیس دن سے زیادہ ہوچکی ہے مگرابھی تک’’چوری‘‘ اکڑ اکڑ کر زمین کی چھاتی پر چل رہی ہے۔شیشے کے سیل شدہ صاف شفاف باکس میں دھاندلی برہنہ پڑی ہوئی ہے۔ اور اس کے اردو گردرد کا دھرنا جاری ہے ۔امید کے ترانوں پر جیالوں کی دھمالیں شروع ہیں۔سچائی کا ڈھول بج رہا ہے۔ ایک طرف عمران خان چراغِ صبح کی طرح جل رہے ہیں تو دوسرے طرف ڈاکٹر طاہر القادری کی زرتارشعاعیںڈی چوک کو زندگی بخش روشنیوں سے منورکر رہی ہیں۔اسلام آباد کے آسمان نے اس سے پہلے ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا۔ کنٹینروں کی دیواروں ،ہتھکڑیوں کی جھنکاروں،جیلوں کی سیا ہ بختیوں اورموسم کی تمام تر سختیوں کے باوجود لوگ ہیں کہ وہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہے۔دنیا کی تاریخ میں شاید ہی اتنے طویل دھرنے کی کوئی مثال موجود ہو۔
مذاکرات کی میز بار بار سجتی رہی ہے مگرمیز کے ارد گرد بیٹھے ہوئے چائے سے اٹھتی ہوئی بھاپ کے ساتھ اپنی دکان بڑھا تےرہے ہیں۔البتہ دھرنے دینے والوں کا جنون مسلسل بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف بھڑکتی ہوئی حکومتی چڑچڑاہٹ تھوڑی دیر کیلئے بجھتی ہے اور پھرلاٹھی چارج ،آنسو گیس اور گرفتاریوں کی صورت میں بھڑکنے لگتی ہے۔حکومت مسلسل اسکرپٹ رائٹر کی تلاش میں ہے۔کبھی افواج ِپاکستان کی طرف انگلی اٹھاتی ہے اور کبھی گرا دیتی ہے۔دھرنے والے بھی کسی امپائر کی موجودگی کی خبر دیتے رہتے ہیں۔سیاست کے داستان گو جاوید ہاشمی کی اشاروں بھری کہانیاںبھی کہانیاں ہی بن کر رہ گئی ہیں۔نہ ’’گو نواز گو‘‘ کا شور تھم رہا ہے اور نہ ہی کسی فیصلہ کن قوت کی دخل اندازی کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔
بے شک دھرنا دینے والے ابھی تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے مگرصاحبانِ دھرنا نے(ن) لیگ کی حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے۔وزیر اعظم نواز شریف ، خادم اعلی شہباز اور تمام اہم ترین وزیروں کے خلاف دفعہ نمبر تین سو دو کی دو ایف آئی آر درج ہوچکی ہیں۔سترہ لوگوں کے قتل کی ایف آئی آر۔اور دونوں ایف آئی آرعدالت عالیہ کے حکم پر درج کی گئی ہیں۔ہمارے علاقے میں جب بڑی بوڑھیاں کسی کو بددعا دیتی ہیں تو کہتی ہیں ۔’’شالا ترائے سو ڈوں وچ ناں آوی ‘‘(یعنی اللہ کرے کہ تمہارے اوپر دفعہ نمبر تین سو دو کی ایف آئی آر درج ہو)۔جس دن سے ڈاکٹر طاہر القادری کی فلائٹ اسلام آبادکی بجائے لاہور ایئرپورٹ پر اتری ہے اُس دن سے حکومت نے چین کا ایک سانس بھی نہیں لیابلکہ ہر آنے والے دن حکومت اور زیادہ کمزور ہوئی اور اس وقت خستگی کا یہ عالم ہے کہ اس کچی دیوار کو ذراسی بے موسمی بارش بھی کسی وقت گرا سکتی ہے۔ حکومت کی شکستگی کی آخری حدیہ ہے کہ کل تک حکومت کی نظر میں آرمی چیف بائیس گریڈ کا ایک سرکاری آفسر تھا مگر آج وہ حکومت اور حقیقی اپوزیشن کے درمیان رابطے کا ایک اہم ترین پل ہے۔وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اُس بائیس گریڈ کے آفسر کے دفتر کے کئی چکر کاٹ چکے ہیں اور وزیر اعظم نے اپنے اقتدار کا دورانیہ بڑھانے کے لئے دبے لفظوں میں اس سے مدد کی درخواست کی ہے۔اور معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے اپنے جلسوں میںگو نواز گو کے نعرے سنائی دینے لگے ہیں۔دھرنوں کی اس سے بڑی اور کامیابی کیا ہوسکتی ہے۔
ان دھرنوں سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کوجس قدر فائدہ ہوا ہے۔اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔پاکستان کی تاریخ میںمسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے بعدیہ وہ دوپارٹیاںسامنے آئی ہیں جنھیں پاکستان کی سیاست سے اب کوئی باہر نہیں نکال سکتا۔یہ بھی ممکن ہے مستقبل قریب میں یہ دونوں ایک ہوجائیں۔اس وقت ان دونوں پارٹیوں کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ مستقبل قریب میں اگرغیرجانبدارانہ انتخابات ہوجائیںتو یہ پارٹیاں دوتہائی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوجائیں گی۔اعتزازاحسن نے یونہی نہیں کہا کہ عمران خان اور ڈاکٹرطاہر القادری کی باتیں لوگوں کے دلوں میں تیروں کی طرح اترتی جارہی ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ دنیا کی خطرناک تحریکیں عدم تشدد پر یقین رکھنے والی تحریکیں ہوتی ہیں۔سو عدم تشدد پر یقین رکھنے والے ان دھرنوں کی خطرناکی کا اندازہ ابھی تک حکومت کو نہیں ہورہا۔یہ دھرنے عوام کے دل کی دھڑکن بنتے جارہے ہیں۔یہ جو اپوزیشن جماعتیں نواز شریف کے پیچھے کھڑی ہیں انہیں نواز شریف سے کسی اچھائی کی توقع ہے۔نہ ہی وہ نواز شریف کی حکومت کیلئے مرے جارہے ہیں یہ سب جماعتیںدراصل اپنی زندگی بچائے کیلئے نواز شریف کو سانسیں فراہم کر رہی ہیں کیونکہ انہیں علم ہو چکا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا دورآچکا ہے۔وہ جان چکے ہیں کہ اگر یہ دونوں رہنما اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو پاکستانی سیاست میں ان کی جماعتیں ایک قصہ پارنیہ بن کر رہ جائیں گی۔

