میلسی کے گائوں دھلو کے کچھ تاریک گھروں کو سولر انرجی سے روشن کیا تو وزیراعلی پنجاب کے مشیرِ انرجی شاہد ریاض گوندل یاد آگئے ۔ لوڈ شیڈنگ کے موضوع پران سے بہت طویل گفتگو ہوئی تھی۔ انہوں نے پاکستان کو انرجی کے پرابلم سے نکالنے کیلئے کئی ایسے پروجیکٹ بتائے تھے جو بہت کم وقت میں پاکستان کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں ۔ یقیناانہوں نے یہ مشورے وزیراعلی پنجاب کو بھی دئیے ہونگے مگرانہوں نے تو اپنا آلۂ سماعت پہلی بارسانحہ ء ماڈل ٹائون کے بعد کانوں سے لگایا ہے ۔ شاید الیکشن کے فوراً بعد وہ اسے کہیں اندھیرے میں رکھ کربھول گئے تھے۔ سوانہیں وہ گھر گھرشمسی توانائی دینے کے مشورے کیسے سنائی دے سکتے تھے۔ شاہد ریاض گوندل سے درخواست کی جاسکتی تھی کہ وہ اپنے باس کودوبارہ مشوروں سے نوازیں مگر افسوس کہ اب ان کے باس کے پاس وقت بہت کم ہے۔
ہم میلسی سے لاہور روانہ ہوئے تو یاد آیا کہ لندن میں جب گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے اپنی حکومت کے خلاف سچی اور کھری گفتگو کی تھی تو میں نے انہیں فون کر کے اس جرأت مندی پر مبارک باد دی تھی اور انہوں نے وعدہ لیا تھا کہ جب میں پاکستان آئوں گا تو انہیں ضرور ملوں گا سو میں نے اپنے دوست اور ان کے قریبی ساتھی حافظ امیرعلی کو فون کیا اور کہا کہ میں کل لاہور میں ہوں ممکن ہو تو گورنر صاحب سے ملاقات کا وقت طے کرادیجئے۔ اگلے دن چھ بجے ہم گورنر پنجاب کے ساتھ گورنر ہائوس کے لان میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ میرے ساتھ ریلیف ادارے کے چیئرمین علامہ سید ظفراللہ شاہ ،مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی اہم کاروباری شخصیت سہیل سرفراز منجھ اور اسلام آباد سے تنویر حسین ملک بھی تھے۔ تنویر حسین ملک وہ عجیب و غریب شخص ہے جس نے بغیر کسی مفاد کے ہزاروں لوگوں کے ساتھ بھلائی کی ہے۔(ابھی آسمان زمین سے مایوس نہیں ہوسکتا) تقریباً گھنٹے بھرملاقات جاری رہی۔ اپنی باڈی لیگوئج سے گورنرصاحب لوگوں کیلئے کچھ کرنے اور گورنرہائوس کی فصیلیں گرانے میں پُرعزم دکھائی دئیے۔
اسی رات دس بجے کی فلائٹ پر کراچی جانا تھا سو گورنر ہائوس سے سیدھے ایئرپورٹ پہنچے۔ کراچی میںوہ گاڑی ہماری منتظر تھی جس پر ہمیں تھرپارکرکے شہر مٹھی پہنچنا تھا۔ صبح صبح مٹھی کے سرکٹ ہائوس داخل ہوئے ۔ مٹھی میں ہمارا استقبال اس خبر نے کیا کہ تھر میں غذائی قلت کے سبب پچھلے تین دنوں میں چھ بچے مرچکے ہیں۔ پتہ نہیں ہمارے حکمراں خدا کو کیا جواب دیں گے ۔عمر فاروق نے تو کہا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تواے عمر! قیامت کے روز اس کا ذمہ دار تُو ہوگا۔ مٹھی کے ڈی سی او آصف جمیل سے ملاقات ہوئی۔ اچھے آدمی تھے غریبوں کیلئے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ہمیں بہت سے قیمتی مشورے دئیے۔ وہیں طے پایا کہ ریلیف دینے والا ادارہ وہاں جو بچوں کا اسپتال بنا ناچاہ رہاہے اس کیلئے ہمیں وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ سے ملاقات کرنی چاہئے۔ جب میں نے اس مقصد کیلئے مظہر برلاس کو فون کیا تو اس نے کہا ’’قائم علی شاہ سے مل کر تم دونوں ایک دوسرے کا وقت ضائع کروگے۔ تم کو اگر کام کرنا ہے تو میں ان کی بیٹی نفیسہ شاہ سے بات کرتا ہوں اور پھر بعد تھوڑی دیر بعد میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف نفیسہ شاہ موجود تھیں۔
اورپھر ہم بھوک اور پیاس کے ریگزاروں میں داخل ہوگئے۔ یعنی صحرائے تھر میں اتر گئے۔ میلوں سفر کیا۔ مسلسل چار دن ہماری جیپیں صحرا میں دوڑتی رہیں۔ یہ دنیا کا نواں بڑا صحرا ہے۔ تقریباً دو لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔ یہ صحرا آدھا پاکستان میں اور آدھا بھارت میں ہے۔ درمیان میں بھارت کی طرف سے لگائی گئی کانٹے دار باڑ ہے اور دونوں طرف مورچوں میں بیٹھے ہوئے سپاہی ہیں۔ دونوں طرف ہندو اور مسلمان آباد ہیں۔ معاشی اعتبار سے بھی دونوں طرف رہنے والے ایک طرح کی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ ہم جیسے مٹھی شہر نکلے تو ہمارے موبائل فون نے ہمیں خبردار کیا کہ ہم کسی اور دنیا میں داخل ہو چکے ہیں یعنی موبائلز اور لیپ ٹاپس نے اپنے چہروں پر نوسروس کا بورڈ آویزاں کرلیا۔ ابلاغ کی دنیا ختم ہوگئی۔ رابطے منقطع ہو گئے۔ گھروں کی طرزِ تعمیر دیکھ کر مجھے افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والوں کے گھر یاد آگئے۔ بالکل وہی اسٹائل تھا۔ تمام لوگوں کے چہرے دھوپ سے جھلسے ہوئے تھے۔ ہاں خوبصورتی کا بھی ایک منظر آنکھوں میں محفوظ رہ گیاہے۔ شاید وہ ڈوبتے ہوئے سورج کی سنہری شعاعوں میں پر پھیلائے ہوئے مور کا رقص میں کبھی نہ بھول سکوں۔ پچھلے دنوں غذائی قلت کے سبب بہت سے مور بھی ہلاک ہوئے۔ موروں کی ہلاکت کا ایک بڑا سبب بارڈ پر لگی ہوئی خار دارتاریں بھی ہیں۔ دونوں طرف کے مور جب کانٹے دار تاروں کو اڑکرعبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو فوجیوں کی گولیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ بات بہت عجیب وغریب تھی۔ مانا انسانوں کو تو ویزے کی ضرورت ہے مگر پرندے تو پرندے ہیں۔ کسی نے بتایا کہ انڈین کہتے ہیں پاکستانی تھرکے موروں میں رانی کھیت کے جراثیم ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہندوستانی تھر کے مور بھی مرنے لگ جاتے ہیں اور ہمارے تھر کے لوگوں کا دعوی ہے کہ موروں کا یہ وبائی مرض آیا ہی ادھر سے ہے۔ یہاں فاضل جمیلی کی وساطت سے ملنے والی شخصیت کرشن شرما کا ذکر نہ کرنا بڑی ناانصافی ہوگی جنہوں نے انسانوں کے ساتھ موروں کی صحتمند زندگی کیلئے بھی تھر میں بےپناہ کام کیا ہے اور کررہے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کیلئے کام کرنے والی بڑی بڑی این جی اوز دراصل بڑی تبدیلی کو روکنے کیلئے دنیا بھرمیں مصروفِ عمل ہیں۔