
ہم جو اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کرسکے
ہم جو اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کرسکے
سولہ دسمبرمیری تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے ۔اُس دن میرے بدن کو دو حصوں میں تقسیم کردیاگیا تھا۔آج پھر اسی سولہ دسمبرکومیرے ایک سو بتیس بچے شہیدکر دئیے گئے۔وہ جو میرا مستقبل تھے ان بچوں کی زندگی سے بھرپورآنکھیں بند کر دی گئی ہیں۔میرے گھروں سے چہکار چھین لی گئی۔ جہاں کل تک قہقہوں کی بارشیں تھیںوہاں آنسوئوں کی جھیلیں بن گئی ہیں۔درد کا ایک دریا ہے کہ ہر آنکھ میں بہہ رہا ہے۔وہ مائوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بانٹنے والے ۔وہ صبح کی تمہید بننے والے کسی خوبصورت تتلی کا تعاقب کرتے ہوئے کہیں بہت دور چلے گئے ہیں۔ وہاں چلے گئے ہیں جہاں سے کوئی صدا پلٹ کر نہیں آتی ۔کیا قیامت ہے کہ وہ زندگی جس نے ابھی کھل کرمسکرانا تھا وہ تابوت میں لیٹی ہوئی ہے ۔ معصوم سی زندگی ۔ وہ زندگی جس نے ابھی اس دیس پر سایہ فگن ہونا تھااسے قبر میں دفن کردیا گیا ہے۔
ہاں ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔موت بولائی ہوئی اونٹنی کی طرح زندگی کے تعاقب میں ہے۔مگر یہ موت وہ موت نہیں۔یہ موت تو ہمارے اجتماعی ضمیر کی موت ہے ۔یہ موت توہمارے دھڑکتے ہوئے دلوں کی موت ہے۔یہ موت توہماری ان حسیات کی موت ہے جو ہمیں جینے کا ہنر سکھاتی ہیں ۔یہ من حیث القوم ہر پاکستانی کی موت ہے۔بے شک موت بڑی تکلیف دہ شے ہے ۔ہمیشہ کیلئے کسی کے بچھڑ جانے کا دکھ بہت سفاک ہوتا ہے۔کلیجہ چیر دیتا ہے وہ بچے کل تک جن کی آواز۔۔جن کے انداز۔رنگ اور خوشبو کا جادو لئے ہوئے تھے آج صرف ان کی یاد کی کپکپاتی ہوئی لوکھڑکی سے اندر آر ہی ہے ۔موت ایک آفاقی حقیقت سہی مگر ہمارا تو زندگی پر ایمان ہے۔ نیکیوں کے موسم میں گلابوں کی طرح مہکتی ہوئی زندگی پراورمیں یہ بھی جانتا ہوں کہ وقت کی بے رحم ہواکا چلن بہت تیز ہے۔ محو ہوتی ہوئی انسانی یادداشت سے کوئی نہیں ٹکرا سکتالیکن اگر ہم نے اِس سانحہ کو بھی بھلا دیا جیسے اس سے پہلے ہونے والے سینکڑوں سانحوں کو بھلا چکے ہیں تو پھرلعنت ہے ہماری زندگی پر۔
یہ بچے کون تھے ؟ کب پیدا ہوئے تھے ؟ میرا ان سوالوں سے کوئی تعلق نہیں ۔میری آنکھوں میں تو صرف یہ سوال چبھ رہا ہے ۔کہ یہ بچے کیوں مر گئے ہیں ؟آخر انہوں نے کیا قصور کیا تھا ۔کیا یہ اس لئے شہید کئے گئے ہیں کہ یہ پاکستانی قوم کے بچے تھے ۔میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ اس ملک کےبالا دست طبقات اپنے بچوں کی حفاطت نہیں کرسکے اور جو باپ اپنے بچوں کا محافظ نہیں بن سکتا ہے وہ باپ نہیں ہوسکتا۔میں برطانیہ میں رہتا ہوں یہاں ماں باپ کی غفلت کی وجہ سےکسی ایک بچے کو بھی کوئی زخم آجائے تو ان ماں باپ سے ان کے تمام بچے حکومت چھین لیتی ہے کہ تم میں اتنی اہلیت نہیں کہ تم ایک بچے کی نگہداشت کر سکوتم ماں باپ کیسے ہوسکتے ہو۔ میرے دیس کے حکمرانو! تم سے اپنے بچوں کی رکھوالی نہیں ہوسکی۔تم میرے دیس کے حکمران نہیں ہو سکتے۔
اور اگر پاکستانی قوم چاہتی ہے کہ آئندہ کسی ماں کا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے نہ کیا جائے۔کسی بچے کے مقدر پر یتیمی کی مہر نہ لگائی جائے تو اسے کوئی بڑا فیصلہ کرنا ہوگا۔ان قاتلوں کے بارے میں۔ جن سے مخاطب ہوکر حضرت علی ؓنے فرمایا تھا ’’تمہارے سروں میں دماغ نہیں غلاظت بھری ہوئی ہے تمہاری آنکھیں خناسوں کے گھونسلے ہیں جہاں سے فتنے جھانکتے ہیں۔ تمہاری زبانوں سے سانپ جھڑتے ہیں۔ڈرو اپنے ہاتھوں سے کہ وہ تمہارے ہی گلے گھونٹنے کو تم پر لپکنے والے ہیں‘‘وہ قاتل کون ہیں ۔وہ قاتل ہمارے اندر موجود ہیں وہی جن کے دماغ غلاظت سے بھر ے ہیں ۔وہی جو گفتگو کرتے ہیں تو ان کی زبانوں سے زہر ابلتا ہے ۔آئو پاکستانیو!آئو مل کروہ تمام آنکھیں نکال دیںجن آنکھوں سے فتنے جھانکتے ہیںاور یہ علمائے حق پربھی فرض ہے کہ قوم کے ساتھ مل کر ایسے علماءاور ایسی مساجد جہاں بچوں کے قتل کی تعلیم دی جاتی ہےانہیں بند کردیں تاکہ یہ قوم پھر کسی کربلا سے نہ گزرےپھر کہیں کوئی علی اصغر شہید نہ ہو۔ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دہشت گردکون ہیں۔ تمام دہشت گرد تنظیموں کے ناموں سے پتہ چل جاتا ہے کہ انہوں کے اسلام کے لبادے میں قتل و غارت کا بازار گرم کررکھا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کون کون ان دہشت گردوں سے متعلق اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔ سہولت کار ہے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب یہ اپنی کمیں گاہوں سے نکلتے ہیں تو کن کن مذہبی اداروں میں جاکر ٹھہرتے ہیں۔ کن کن کے مہمان ہوتے ہیں میری اس سلسلے میں افواجِ پاکستان سے درخواست ہےکہ وہ شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن ضربِ عضب کا دائرہ پورے ملک تک پھیلا دیں۔ ہر جگہ کی تلاشی لیں ہر انتہا پسند شدت پسند کے گھر پر نظر رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ مدارس میں جو نصاب پڑھایا جارہا ہے اسے گہری نظر سےدیکھیں۔ انہیں سرمایہ فراہم کرنے والی تنظیموں کو پکڑیں اورحکومت ِ وقت کو مجبور کریں کہ وہ فوری طور پر گرفتار شدہ ہزاروں دہشت گردجنہیں عدالتیں سزائے موت سنا چکی ہیں۔ انہیں پھانسیوں پر لٹکائے۔

