
نرخرے سے آتی ہوئی آواز
نرخرے سے آتی ہوئی آواز
مجھے ایک شخص ملا جو بہت پریشان تھا کہنے لگا کہ’’ مجھے کسی مجذوب نے ایک دن کہا چل آج سے ہر شخص تجھے اسی طرح نظر آئے گا جس طرح وہ قیامت کے روز دکھائی دے گا مجھے اس روز سے ہر شخص کا چہرہ کالا سیاہ دکھائی دیتا ہے‘‘۔اور مجھے سرورکائنات کا فرمان یاد آگیا کہ قیامت کے روز جھوٹ بولنے والے کا چہرہ کالا ہوگا۔بے شک جھوٹ فریب اور کرپشن کی ہر طرف عمل داری ہے ۔سینیٹ کے انتخابات میں خرید و فروخت کی کہانیاں سن سن کر میں آئینہ دیکھنے لگتا ہوں کہ کہیں میرا چہرہ بھی کالا تو نہیں ہوگا آخر ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں میں نے ووٹ دیئے ہیں۔ کاٹھ کے گھوڑوں کی خرید و فروخت کا عمل ہر طرف جاری و ساری ہے ۔پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کوئی نئی چیز نہیں ۔نواز شریف اور عمران خان ویسے ہی پریشان ہورہے ہیں ۔حکومت جتنی چاہے ترامیم کرلیں ۔اِس کاروبار کو کوئی فرق نہیں پڑنا۔یہ خریدو فروخت کا عمل پاکستان کی رگوں میں بیٹھ چکاہے۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان میں امانت دار لوگ پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ملک میں سچائی کا ہولناک قحط پڑگیا ہے۔میگا کرپشن ماونٹ ایورسٹ سر کر چکی ہے۔فریب کاری نے ایسے ایسے دام ِ ہم رنگِ زمیں بچھادیئے ہیں جن سے بچ نکلنا ممکن ہی نہیں رہا۔ دیانت دار لوگ پیدا ہونا ہی بند ہوگئے ہیں مگر یہ حقیقت نہیں ہے ۔وہ لوگ ابھی تک پیدا ہو رہے ہیں جنہیں برے لوگوں کے سر دکھائی نہیں دیتے جو یہ کہتے ہوئے گھروں سے نکلتے ہیں کہ
اے قاسم ِ اشیاء تری تقسیم عجب ہے
دستار انہیں دی ہے جو سر ہی نہیں رکھتے
مگرجیسے ہی باہر آتے ہیں معاشرہ انہیں پاگل قرار دے دیتا ہے۔ انہیں ماہرین ِ نفسیات کے پاس جانے کے مشورے ملنے لگتے ہیں۔ ہر شعبہ ء زندگی کا یہی حال ہے۔کوئی ادارہ اس سے محفوظ نہیں۔ایسا کیوں ہے۔ میں نے اِس مسئلہ پرانیس سو بانوے میں ٹی وی کیلئے ایک ڈرامہ لکھا تھا ۔اُس کی کہانی کچھ یوں تھی کہ میڈم پروین کسی شخص میں جب کوئی برائی دیکھتی تھی توبے ساختہ اس کے منہ سے نکلتا تھا ۔ اِس کا توسر ہی نہیں۔یعنی’’سر ہی نہیں اُس کا تکیہ کلام تھا۔اُس کا دس سالہ بیٹاناصراکثر اُس سے پوچھتا تھا کہ ’’امی بے سرے لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ وہ بولتے کیسے ہیں‘‘۔ ماں نے ایک دن تنگ آکر یونہی کہہ دیا کہ’’ اُن کے نرخرے سے آواز نکلتی ہے‘‘یہ بات بچے کے دماغ میں راسخ ہوکر رہ گئی کہ برے لوگوں کے سر نہیں ہوتے اور پھر ایک دن یوں ہوا کہ اسکول میں جب اُس کا کلاس ٹیچر بچوں پر زبردستی ٹیسٹ پیپر بیچنے کی کوشش کرنے لگا تو اس کا سر غائب ہوگیا۔ ناصر کو اس کی آواز نرخرے سے آتی ہوئی دکھائی دی ۔وہ چیخ مار کربھاگا اور گھر جا کر ماں سے کہنے لگا کہ مجھے اپنے استاد کا سر دکھائی نہیں دیتا۔ ماں اس کی آنکھیں چیک کرتی ہوئی کہنے لگی۔’’آنکھیں ٹھیک لگ رہی ہیں تمہاری ‘‘ماں نے اسے کار میں بٹھایا اور آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر وہاں ایک ایسے شخص کو جسے دکھائی دیتا تھا اُسے دفتر سے چھٹی کیلئے جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ بنا کر دے رہا تھا۔جیسے ہی ناصر کو اس بات کا علم ہوا توڈاکٹر کا بھی سر غائب ہوگیا۔وہی نرخرے سے آتی ہوئی آواز دکھائی دی۔اس نے چیخ ماری اور بھاگ کر باہر نکل آیا۔ڈاکٹر نے ماں کو مشورہ دیا کہ ناصر کو کسی ماہرِ نفسیات کی ضرورت ہے۔واپسی پر ان کی کار ایک پولیس سارجنٹ نے روک لی اور اپنے مخصوص انداز میں کچھ رقم کا تقاضا کرنے لگا۔اس سارجنٹ کا سر بھی غائب ہوگیا۔ بڑا مسئلہ بن گیا۔ناصر کا انکل وکیل تھا۔اگلے دن وہ آیااور بڑے فخر سے بتانے لگا کہ آج اُس نے ایک ایسے مجرم کو رہا کرایاہے۔جس کے جرم کے چار چشم دید گواہ تھے اور اس کے انکل کا بھی سر غائب ہوگیا۔ ناصر کو کئی ماہرینِ نفسیات کے پاس لے جایا گیا۔ مگراسی طرح لوگوں کے سر غائب ہوتے رہے۔اس کے بیورو کریٹ ماموں کا سر غائب ہوا۔ان کے ہمسائے میں رہنے والے ایک سیاسی لیڈر کا سر غائب ہوا۔اس کے ابو کا ایک دوست جو بڑا معروف صحافی تھا اور اکثر ان کے گھر آیا کرتا تھا ایک دن اس کا سر بھی غائب ہوگیاحتی کہ ایک دن ایسا آیا کہ اس کے ابو جو بہت بڑے بزنس مین تھے ان کا سر بھی غائب ہوگیا۔
اسی طرح اس بیماری میں دو ماہ گزر گئے اس کے امتحانات آگئے مگر وہ دو ماہ سے اسکول گیا ہی نہیں تھا ۔ ماں چاہتی تھی کہ اس کا سال ضائع نہ ہو مگر ناصر اسکول جانے پر راضی ہی نہیں تھا کہ وہاں اسے اپنے استاد کا سر نہیں دکھائی دیتا۔ ماں نے اس کے ایک کلاس فیلو دوست سے بات کی۔ اس لڑکے نے کسی نہ کسی طرح ناصرکو امتحان دینے پر تیار کرلیا۔ ناصر نے اسے بہت کہا کہ میں نے تو دوماہ سے کچھ پڑھا ہی نہیں میں فیل ہوجائوںگا مگردوست نے اس سے کہا کہ تیرے پاس ہونے کا میں ذمہ دار ہوں ۔تُو بس امتحان دے۔امتحان دینے کیلئے ناصر اپنے دوست کے ساتھ سہماہوا اسکول گیا۔اور سر جھکا کر بیٹھ گیا کہ اس کی نظر اپنے استاد پر نہ پڑے ۔سوال نامہ تقسیم ہوا ۔ناصر کو کوئی سوال بھی نہیں آتا تھا۔ناصر کے پیچھے والی کرسی پر اس کا دوست بیٹھا ہوا تھا۔ ناصر نے اُس سے سرگوشی کے لہجے میں کہا کہ مجھے تو ان میں سے کوئی سوال نہیں آتا اور دوست نے ایک چھوٹی سی پرچی اس کی طرف بڑھا دی جس پر ایک سوال کا جواب لکھا ہوا تھا۔ناصر نے جیسے ہی اسے پیپر پر نقل کرنا شروع کیا تو اسے اپنے استاد کا سر دکھائی دینے لگا۔نرخرے سے آنیوالی آواز ہمیشہ کیلئے ختم ہوگئی۔
mansoor afaq

