مینوں اچھرے موڑ تے مل وے. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

مینوں اچھرے موڑ تے مل وے

مینوں اچھرے موڑ تے مل وے

شام خوشگوار تھی۔ وہ دونوں پیدل چل رہے تھے۔ فیروز پورہ روڈ پر شمع سے اچھرے کی طرف۔ میٹرو بس کی کنکریٹ کے نیچے نیچے ۔انہیں شمع سینما یاد آرہا تھا ۔بابو علم دین نے بڑی دکھ بھری آوازسے کہا ’’افسوس ہماری حکومت نہیں آئی وگرنہ میں عمران خان سے کہہ کر اس چوک میں پھر شمع سینما بنوادیتا۔تاریخی ورثوں کو یوں برباد نہیں ہونا چاہئے۔اچھوفخریہ انداز میں بولا ’’کہہ تو ایاز صادق سے کہہ کر بنوادوں مگرشرط ہے اس کے بعدنون لیگ کے خلاف بولے گا نہیں ‘‘بابو علم دین بزرگوں کی طرح مسکراکر کہنے لگا’’وہ کیا بنوائے گا بیچارہ اس کی اپنی وکٹ اڑ گئی ہے اورسیاست کے گراونڈ میں کہیں مل ہی نہیں رہی ۔‘‘اچھونے بڑی بے پروائی سے کہا ’’دوچار سیٹیں اوپر نیچے ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ایاز صادق ایم این اے ہو نہ ہو، حکومت تو ہے نااُس کی نا۔آج شیر گرجا ہے تُو نے جنگ اخبار نہیں پڑھی۔ ‘‘ بابو علم دین نے تحمل سے پوچھا ’’کس نے کیا کہا ہے ‘‘اچھو کہنے لگا’’بھا پرویز رشید نے عمران خان کو کھلا چیلنج دیا ہے کہ گھوڑا موجود ہے اور میدان بھی۔آئے اور ایک بار پھر ایاز صادق سے مقابلہ کرے۔پرویز رشید نے پھٹے چک دتین‘‘بابو علم دین بولا ’’یہ تو کئی دن پرانی خبر ہے ۔عمران خان نے جواب بھی دے دیا ہے کہ نواز شریف مقابلے پرآئے تو میں الیکشن لڑنے پر تیارہوں۔اچھو بولا’’بابو !آدمی کو اپنی حیثیت دیکھ کر بات کرنی چاہئے ۔کہاں نواز شریف اور کہاں عمران خان ۔سیدھی بات ہے اب بوکھلا گیا ہے۔ بھاگ رہا ہے الیکشن سے ۔اس کے پاس تو ڈھنگ کا امیدوار ہی نہیں ۔ بابوبھائی یہ کوئی اٹی ڈنڈے کا کھیل نہیں۔الیکشن ہے الیکشن ‘‘۔ بابو علم دین بولا ’’جب تمہاری چوتھی وکٹ بھی گرے گی ‘پھر احوال پوچھوں گا‘‘۔اچھو کہنے لگا ’’دیکھ بابو تُو سیانا آدمی ہے تُو مجھے بتا بھلا کرکٹ کا سیاست سے تعلق ہے ۔سعد رفیق ۔ایاز صادق اور پھر خواجہ آصف کیا لکڑی کے ہیںکہ عمران خان وکٹ کی طرح انہیں گرا دے گا۔ شیر ہیں شیر ۔جب عمران خان اسمبلی میں گیا تھا تو خواجہ آصف نے کیسے حیا اور شرم دلائی تھی ۔مجھے تو اس دن اپنا خواجہ پورا سلطان راہی لگا تھا۔اللہ جنت نصیب کرے اُس جیسا بھی دوسرا کوئی پیدا نہیں ہوگا‘‘۔بابو علم دین رک گیا اور اچھو کو بھی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا کرلیا۔ پھربولا’’یار اس مرتبہ تمہارے لیڈروں نے بڑی بہادری دکھائی ہے۔ یقین نہیں آتا۔ بڑا حوصلہ کیا ہے ۔ بڑی ہمت سے کام لیا ہے۔اس فیصلے کیلئے بڑا دل گردہ چاہئے تھا۔ اچھو چڑ چڑا ہو کر کہنے لگا۔’’کس فیصلے کی بات کر رہا ہے بول بھی ‘‘ علم دین نے کہا۔یہی کہ ہم سپریم کورٹ میں نہیں عوام کی کورٹ میں جائیں گے۔‘‘اچھوبری سی شکل بنا کر بولا ’’ہونہہ ۔یہ بھی کوئی بات ہے ۔ اس مرتبہ پی ٹی آئی کے امیدوار کی ضمانت ضبط نہ کرادیں تو پھر کہنا ۔تُو نہیںدیکھ رہا عمران خان کس طرح بھاگا پھرتاہے ۔ اس میں ایاز صادق سے مقابلے کی جرات ہی نہیں ۔ادھر کہیں الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنے ورنے کر تا پھر رہاہے کہ کسی طرح الیکشن رک جائے ۔ پہلے بھی اس نے دھرنا دیا تھا بلکہ دھر نی دی تھی۔دوچارسو لوگ تو’’ تاجا سانپوں والا‘‘ بھی جمع کر لیتا ہے ۔‘‘

دو نوں چلتے چلتے اچھرے موڑ پہنچ گئے تھے ۔کسی دکان پرفل والیم میں یہ گیت بج رہا تھا (مینوں اچھرے موڑ مل وے )وہ چائے کے کھوکے کے سامنے رک گئے۔بابو نے آواز دے کر لڑکے سے کہا ’’او چھوٹے دو کپ چائے ۔شوگر کم تے پتی تیز۔‘‘اورپھر وہیں پڑے ہوئے بینچوں پر بیٹھ گئے۔بابو نے اچھوسے کہا ’’ یہ بتا کہ جب سعد رفیق کے خلاف فیصلہ آیا تھا تووہ فوراً سپریم کورٹ پہنچ گیا تھا۔ایاز صادق کی باری آئی ہے تو نون لیگ کو عوام کی عدالت یاد آگئی ہے۔‘اچھودھیمے لہجے میں بولا۔او سعد رفیق تھوڑا ڈرپوک ہے ۔ ڈر گیا تھا کہ کہیں ہار نہ جائوں ۔ایاز صادق شیر ہے شیر۔دیکھ کیسے اکھاڑے میں اترا ہے ۔ ‘‘

دوچارلوگ اور بھی ادھر ادھر آکر بیٹھ گئے تھے ۔ چائے بھی آگئی تھی۔اچھو نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا ’’ بابو چپ کیوںلگ گئی ہے ۔ابھی کچھ نہیں گیا ۔ ہمارے ساتھ آجا ۔ میں تجھے حمزہ شریف سے ملائوں گا ۔میری بہت اوپر تک اپروچ ہے ۔یہ سیٹ تو ویسے ہی ایاز صادق کی ہے اوروہ اسپیکر تو ہے ہی ۔مان نہ مان تیرا اسی میں فائدہ ہے۔‘‘بابو علم دین بولا ’’دیکھ ! اچھو پچھلی بار تم لوگ دھاندلی سےجیتے تھے ۔کیا پھر کچھ ایسے ہی ارادے ہیں ‘‘اچھو غصے میں آگیا ۔زور زور سے کہنے لگا ’’ہم تجھے چور لگتے ہیں ووٹ چرانے والے یا ڈاکو دکھائی دیتے ہیں ۔بابو یہ تُو زیادتی کر رہا ہے۔ ‘‘بابو علم دین بولا ’’ یار یہ بات میں نے نہیں کہی جج صاحب نے کہی ہے‘‘ ۔اچھوبات کاٹتے ہوئے ’’نہیں نہیں۔یہ بات جج صاحب نے اپنے فیصلے میں کہیں نہیں لکھی انہوںنے تو یہ کہا ہے کہ کچھ انتظامی خرابیوں سے الیکشن متنازع ہوگئے ہیںچلو پھر کرا لیتے ہیں ‘‘بابو علم دین بولا ’’ اچھا تو پھر یہ بتائوکہ جج صاحب نے ایاز صادق پر پچیس لاکھ روپے جرمانہ کیوں کیا ہے ۔ جرمانہ اسی بندے پر ہوتا ہے ناجو جرم کرتا ہے ۔‘‘اچھو غصے سے بولا ’’بابو تجھے دیکھ لیں گے ۔بس الیکشن آیا۔ بھاگنے نہیں دیں گے پی ٹی آئی والوں کو ۔‘‘ایک نوجوان جو بالکل قریب کھڑا تھا ۔اس کے ہاتھ میں شام کا اخبار تھا ۔اس نے خاموشی سے وہ اخبار اچھو کے سامنے رکھ دیا اس کی موٹی سرخی تھی’’ ایاز صادق نے سپریم کورٹ میں اپیل کردی ۔‘‘۔اچھو کے چہرے کے مختلف حصے پھڑپھڑانے لگے ۔اچھو نے رفتہ رفتہ اپنی حالت پر قابو پالیا لیا اور پھر بابو علم دین سے بولا ’’بابو یہ پی ٹی آئی میں شامل ہو نے کا طریقہ کیا ہے؟۔‘‘

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے