
میاں محمد بخش انٹرنیشنل کانفرنس
میاں محمد بخش انٹرنیشنل کانفرنس
آخر کاربرطانوی وزیر اعظم ڈیوڈکیمرون کو کہنا پڑ گیا ہے کہ دہشت گردی کی ترویج کرنے والی مساجد اور مدارس بند کردیاجائے گا ۔سیون سیون کے واقعہ کے بعد برطانوی حکومت نے چاہا تھا کہ وہ ایسے مدارس جوبرطانوی بچوں کے دل و دماغ میں نفرت کے بیج بو رہے ہیں،ان پرپابندی عائد کردی جائے مگربرٹش مسلم لیڈر شپ نے حکومت کویقین دلایا تھا کہ برطانوی مسلمان خود انتہا پسندی کے اس عفریت کو کنٹرول کرلیں گے ۔اس سلسلے میں ’’مناب ‘‘ نام کا ایک ادارہ بھی قائم کیا گیاجس کا یہی مقصد تھا۔مگر وہ بری طرح ناکام ہوا۔ برطانیہ میں داعش کے نظریات پروان چڑھتے رہے ایک مخصوص مکتبہ ء فکر کی مساجد کو دی جانے والی فنڈنگ دہشت گردی کیلئے استعمال ہوتی رہی۔ اسلام کی شکل بگاڑی جاتی رہی ۔اس وقت بھی برطانیہ میں ایسے مدارس کی کمی نہیں جہاں بچوں کویہ تعلیم دی جارہی ہے کہ یہودی اور عیسائی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے ان کا قتل تمہارے لئے جائز ہے ۔
انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے ہمارے پاس بس ایک ہی راستہ ہے ۔ وہ صوفیائے کرام کا راستہ ہے ۔اس سلسلے کچھ لوگوں نے بہت کام کیا ہے ۔ان میںحضرت سلطان باہو ٹرسٹ کے چیئرمین سلطان نیاز الحسن قادری اور علامہ سید ظفراللہ شاہ سرِ فہرست ہیں۔ پیرسید معروف حسین نوشاہی کا نام بھی اس سلسلے میں بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن اس وقت میں اِس شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف کام کرنے والی جس شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوں ۔اُس کا نام ظفر تنویر ہے۔
میں اس وقت بریڈفورڈ میں موجود ہوں ،اس شہر سے مجھے عجیب و غریب محبت ہے ۔ میںایک طویل عرصہ لاہور اور اسلام آباد رہا ۔ اب کئی برسوں سے برمنگھم مقیم ہوں ۔ مگر اپنے آبائی شہر میانوالی کے بعد جوشہر مجھے اپنااپنا لگتا ہے ۔وہ یہی ہے ۔یہاںمجھ سے گلیاں گفتگو کرتی ہیں ۔ مکان سرگوشیاں کرتے ہیں ۔درخت بولتے ہیں ،ہوائیں ہمکلام ہوتی ہیں ۔ یہ سارا شہر مجھ سے محبت کرتا ہے ۔ اس محبت میں ناموں کا ایک ہجوم ہے جو میری زبان پر آتے ہیں تو منہ میں مٹھاس بھر جاتی ہیں ۔مگر ایک نام مجھے بہت اپنے دل کے بہت قریں محسوس ہوتا ہے ۔ وہ نام ظفر تنویر کاہے۔حسن و خوبی کے جتنے استعارے ہیں اُنہی سے ہیں ۔اپنے چچا چراغ حسن حسرت کا ترکہ انہوں نے ہی اپنے خانۂ دل میں رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے دنیا میںدہشت گردی کے خلاف میاں محمد بخش کی سنہری تعلیمات پھیلانے کابہت ہی جاندار سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پرنٹ میڈیااور الیکٹرانک میڈیا کاکامیابی سے استعمال اوربڑی بڑی اہم اور یاد گارکانفرنسز کا انعقاد کیلئے ان کا نام ہی کافی ہے
گذشتہ روزبریڈفورڈ میںمیری آمد کا مقصدانہی کی بپاکردہ دوسری میاں محمد بخش انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت تھی۔گذشتہ سال کی طرح یہ بھی ایک یادگارکانفرنس تھی۔باقی نشستیں تو خیر بھرپور تھیںہی مگر محفل موسیقی میں سائیں ظہور ، صنم ماروی نے جوروح پرور ماحول بنادیا تھا اُس کی کیفیت ابھی لہو سے نکل نہیں رہی ۔پچھلے سال بھی اِسی ہال میں کانفرنس ہوئی تھی ۔اِسی قدیم اور شاندار ہوٹل میں سب لوگ ٹھہرے تھے ۔ ان میںکچھ ایسے بھی تھے جن کی بہت شدت سے یاد آئی۔سہیل وڑائچ تھا سہیل احمد بھی تھا۔ڈاکٹر صغرا صدف تھیں۔ رفاقت علی خان بھی تھا۔فہمیدہ ریاض سے بھی یہیں ملاقات ہوئی تھی ۔ہنس راج ہنس بھی یاد آرہا تھا۔ ہنس راج ہنس سے میری خاصی گفتگو انڈیا پاکستان کے تعلقات پر ہوئی تھی ۔اس کی ایک بات بڑی اہم تھی ۔ اس نے کہا تھا کہ انڈیا پاکستان میںاپنی لابنگ کیلئے بہت کچھ کرتا ہے ۔اس نے پاکستان میں تقریباًہر میدان میں ایسے ذہن تیار کر رکھے ہیں جن دلوںمیںبھارت کے ہر قیمت پر اچھے مراسم کی تمنا ہے۔اس کے بر عکس پاکستان نے اپنے آپ کو صرف کشمیر تک محدود کیا ہوا ہے ۔ پاکستان کو چاہئے کہ پوری انڈین عوام میں اپنے امیج کو بہتر بنانے کیلئے کام کرے ۔شاید پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ بھارت میں موجودمسلمان بھارت میں پاکستان کے نمائندے ہیں مگریہ سچ نہیںہے ۔انہیں بھی اپنے ساتھ ملانے کیلئے پاکستان کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا‘‘اُس وقت جب وزیر اعظم نواز شریف کے چار نکاتی امن فارمولے کو بھارت نے مسترد کردیا ہے اس وقت سینٹ کی طرف اس کی توثیق کی ضرورت پتہ نہیں کیوں پیش آئی ۔اس وقت تو ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کو ہر بات کا جواب اسی کی زبان میں دیا جائے ۔یعنی ہنس راج ہنس کے مشورے کے مطابق ’’کچھ نہ کچھ کیا جائے‘‘ ۔ پاکستان ایسی کوئی امیج بلڈنگ کی مہم میڈیا کی وساطت سے بڑے بھرپور انداز میں کرسکتا ہے۔یہ صرف انڈیا میں ہی نہیں ۔پاکستان کو پوری دنیا اپنی امیج بلڈنگ کیلئے کام کرنا چاہئے ۔دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی موجود ہیں انہیں متحرک کرنا چاہئے ۔ کانفرنس میں اگرچہ اس سال بھی بہت لوگ تھے مگر میرے دوستوں میں سے صرف طاہر سرور میر تھا۔سو زیادہ دیراسی سے گفتگو رہی ۔میںپرانی یادیں تازہ کرتا رہااور وہ نئے قصے سناتا رہا۔
کانفرنس کی پہلی نشست جب ختم ہوئی تو بریڈفورڈ یونیورسٹی کے کچھ سٹودنٹس میرے پاس آئے ۔انہوں نے مجھے یونیورسٹی میں منی لانڈرنگ کے موضوع پرایک سیمینار میں شرکت کی دعوت دی جو میں نے قبول کرلی ایک نوجوان نے بتایا ’’ہم اِس سیمینار پاکستان سے معروف ماڈل ایان علی کو بھی بلارہے ہیں‘‘۔ میں نے سوچاکہ شایدیہ کراچی یونیورسٹی پر طنز کررہاہے۔ میں نے کہا کہ’’ تمہیں معلوم ہے ناکراچی یونیورسٹی سے اُس طالب علم کو نکال دیا گیاہے جس نے ایان علی کو بلایا تھا‘‘توکہنے لگا’’ہم نے یہ فیصلہ اسی طالب علم کے ساتھ اعلانِ یک جہتی کے طور پرکیا ہے ‘‘ اب میں کچھ پریشان ہواکہ یہ بریڈفورڈ یونیورسٹی میں کیا ہونے لگا ہے ۔میں نے کہہ دیا ’’ منی لانڈرنگ کرنے والی ایک خاتون کو آپ اتنی زیادہ اہمیت کیوں دے رہے ہیں ۔ ‘‘ وہ ماتھے پہ تھوڑی سی شکنیں ڈال کے بولا’’ہمارا سیمینار ہے ہی اسی موضوع پر کہ منی لانڈرنگ کیا ہے؟ ۔بھارت اگر ایم کیو ایم کو خفیہ فنڈنگ فراہم کرے توبرطانیہ کے نزدیک وہ منی لانڈرنگ نہیں ۔ الطاف حسین کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ آصف زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو پر سوئٹزرلینڈ میں منی لانڈرنگ کا مقدمہ چلے تو بے گناہی کی گواہی دینے کیلئے این آراو آجائے۔پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈارتحریری طور پر منی لانڈنگ کا اعتراف کریںتو اسے سابق صدر پرویز مشرف کے جبرمیں شمار کیا جائے ۔
ڈاکٹر قیوم سومرو آصف زرداری کے دورمیں ہر ہفتے ایک بریف کیس اپنے ساتھ دبئی لے جاتے رہیں تو انہیں پروٹوکول ملتا رہے اوربیچاری ایان علی ۔جس پر ابھی تک فردِ جرم بھی عائد نہیں ہوسکی ۔اس کو کوئی طالب علم یونیورسٹی میں بلا لے تو طالب علم کو بھی نکال دیا جائے ، یہ انصاف نہیں ‘‘میں نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا ’’معاملات کی گہرائی کو تم نہیں جانتے ۔ اُس سے تفتیش کرنے والا ایک انسپکٹر قتل بھی ہوچکا ہے ‘‘وہ کہنے لگا ’’یہ بھی بڑے لوگوں کی کوئی سازش ہوسکتی ہے اگروہ بیچاری اتنی طاقتور ہوتی تو اس نے اتنا عرصہ بغیر فردِجرم کے جیل میں نہ گزارا ہوتا‘‘میں نے سوچا کہ انہیں سمجھانا مشکل ہے ۔سومیں انہیں چھوڑ کر کانفرنس کی طرف متوجہ ہوگیا ۔ روشنی اور خوشبو کی کانفرنس کی طرف ۔نوروں نہلائی ہوئی زندگی کی کانفرنس کی طرف۔

