ادھی لعنت دنیا تائیں. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

ادھی لعنت دنیا تائیں

ادھی لعنت دنیا تائیں

چینی صدر سے بلاول بھٹوکی ملاقات کی خبرپڑھی تو صدراوباما اور وزیر اعظم نواز شریف ملاقات یاد آگئی۔حکمرانوں کے رویے ملکوں کی پالیسیوں کے عکاس ہوتے ہیں پھرذہن میں پیر اعجاز لہراگئے ۔کئی سال پرانی بات ہے۔میں اور مظہر برلاس ایک رات ایک عالم دین دوست کے ساتھ اسلام آباد سے لاہور جارہے تھے۔راستے میں خاصی دیر پیر صاحب کا ذکر ِ خیر رہا۔مظہر برلاس نے بتایا کہ آج کل وہ صدر ہائوس چھوڑ کر گوجرانوالہ اپنے گھر گئے ہوئے ہیںہماری باتیں سن کر ہمارے دوست نے ضد کی کہ ان سے مل کرہی لاہور جائیں گے۔ہم موٹروے سے ا تر آئے، گوجرانوالہ پہنچے تو صبح کے چار بج رہے تھے۔سوچا کہ شریف آدمیوں کی طرح صبح ان کے گھر جایا جائے ۔ابھی کہیں آرام کرلیتے ہیں ۔ ہم ایک ہوٹل میں داخل ہوئے اوروہاں ہوٹل والے سے جھگڑا ہوگیا۔جھگڑا ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھاکہ مظہر برلاس کے فون کی بیل بجی ۔ دوسری طرف پیر صاحب تھے ۔کہنے لگے۔لڑو مت میں جاگ رہا ہوں گھر آجائو۔پیر صاحب کا گھر میری توقع سے کہیں زیادہ فقیرانہ تھا۔سواس مجذوب نما شخص میں میری دلچسپی بڑھ گئی ۔اُس روزایک بات انہوں نے یہ بھی کہی تھی کہ بلاول جب بھی اقتدار میں آئے گاچین کی مدد سے آئے گا۔میں ہنس دیا تھااورمظہر برلاس نے کہاتھا۔’’چین امریکہ نہیں ہے۔وہ دوسروں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔‘‘اور وہ خاموش ہوگئے تھے ۔آج جی چاہ رہا ہے کہ اس دن کی گفتگو کا کچھ حصہ میںقارئین کے سامنے پیش کروں۔یہ باتیں انذ کی ہیں مگرلفظ میرے ہیں۔

’’یہ ڈپریشن کا دور ہے۔ انزائٹی کا عہد ہے۔بے چینی اوربے قراری کا زمانہ ہے ۔آئیے کچھ دیر اپنے اندرقیام کرتے ہیں ۔لاشعور میں جھانکتے ہیں۔دل کے دریا میں اترتے ہیں۔ من کو کھوجتے ہیں ۔بیتی ہوئی ساعتوں کی طرف دیکھتے ہیں۔گزشتہ چند سالوں میں جتنی باتیں، جتنے دکھ ،جتنی حسرتیں ،جتنی نارضگیاں،جتنی مسرتیں ،جتنے خواب ،جتنے خیال، جتنی آرزوئیں،جتنی تمنائیں، جتنے منظر ،جتنی فلمیں ،جتنی کتابیں اپنی ہم سفر رہی ہیں یاتوہم انہیں بھلا چکے ہیں یانظرا نداز کرچکے ہیں،ان کی موجودگی غیر موجودگی میں بدل چکی ہے ۔ ایک بات جو کئی برس پہلے ہوئی تھی جسے ہم نے پھر کبھی یادہی نہیں کیا ۔اُس کی طرف دھیان ہی نہیں دیا ۔اس کو طاقِ نسیاں میں کہیں گم ہوجانا ہے ۔ذرا اپنے اندر جھانک دیکھئے ۔کہ گزری ہوئی باتیں موجود ہیں یا نہیں۔اسی طرح پیچھے چلتے جائیے۔ زندگی کے تمام سالوں کی بھولی ہوئی مردہ باتیں یہاں زندہ نظر آئیں گی ۔ان میںکچھ پھول بن کر کھل رہی ہونگی توکچھ عفریت بن چکی ہوں گی ۔دیکھئے جیسے ہی ہم اپنے اندر داخل ہوئے ہیں ،کچھ عفریت جاگ پڑے ہیں۔ جوکھلتی ہوئی کلیوں کو روندتے ہوئے ہماری طرف بڑھ رہے ہیں ۔ اورپھر اس سے پہلے کہ کوئی درد کا عفریت ہمیں نگل جاتاہم نے پیچھے کی طرف دوڑ لگادی ہے ۔ابھی ہم اپنے اندرکے دروازے تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ باہر نکل آئے۔یہ تو اندر کی کائنات کے باہر کا منظر تھا۔اندرکی کائنات کے سامنے یہ باہرکی کائنات جس میں رہتے ہیں کچھ بھی نہیں ہے۔

ہم من کی دنیا سے کیوں ڈر گئے صرف اس لئے کہ اسے ہم جانتے ہی نہیں ۔ہم اس سے کبھی ملے ہی نہیں ۔اس طرف کبھی گئے ہی نہیں۔ذرا سوچئے ہم کبھی اپنے آپ سے ملے ہیں ۔ کبھی نہیں۔ہم نے کبھی اپنی ذات کے ساتھ وقت نہیں گزارا۔ اگر کبھی تنہائی میسر آئی بھی تو ہم نے عبادت کر لی۔ مناجات سے دل لگالیا ۔کسی مقدس شجر پر آنسوئوں کے ستارے ٹانک دئیے ۔ اپنی ذات کے ساتھ وقت نہیں گزارا۔صرف اس لئے کہ ہم ایک طے شدہ معاشرت میں جسم کے طے شدہ اصولوں کے ساتھ تین حصوں میں رہتے آرہے ہیں۔ ایک حصہ ہم سو کر گزارتے ہیں۔ایک حصہ ضروریاتِ زندگی کی تلاش میں گزارنا پڑتا ہے اور تیسرا حصہ ہم اپنی فیملی اپنے دوستوں ،اپنی مسرتوں اور دکھوں میں کاٹ دیتے ہیں ۔ہمارے پاس اپنے ساتھ گزارنے کیلئے وقت ہے ہی نہیں ۔ہم ہر کام اپنے فائدے کیلئے کرتے ہیں۔اللہ کے دربار میںبھی اپنی خواہشوں کی تکمیل کیلئے جاتے ہیں۔عبادت کرتے ہیں یا توجنت کے محلات کی طلب میں یا دنیاوی فوائد کیلئے ۔ہمیں صرف اپنے سکھ سے مطلب ہے۔ صرف دنیا و آخرت میں آسائشوں سے بھری زندگی چاہئے ۔ہم مسجدوں ، مندروں ، سیناگاگوں اورکلیسائوں میں خدا کیلئے نہیں اپنے لئے جاتے ہیں۔دنیا کے لالچ میں جاتے ہیں۔ہم دنیا دار ہیں ۔ہمارا اپنے باطن سےکیا واسطہ ۔ہماری زندگی تو بس دو چیزوں کے اردگرد گھومتی ہے۔ایک طرف لالچ ہے اور دوسری طرف خوف۔کبھی اقتدار کا لالچ کبھی اس کے چھن جانے کا خوف ۔کبھی لالچ کی بستیوں میں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوتے ہیں ‘‘یہاں ضمیر برائے فروخت ہے ۔کوئی ہے خریدنے والا۔ ۔کبھی خوف کے عالم میں زمینی خدائوں کے سامنے سجدہ ریز دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی جنت میں حور و غلمان کا لالچ سینے میں دھڑکتا ہے کبھی دہکتی ہوئی دوزخ کا ٰخوف جاگ پڑتا ہے۔

پیر اعجاز سے اتنی خوبصورت باتیں سن کر میں نے پوچھا ’’کیا کبھی زرداری صاحب سے بھی ایسی گفتگو کی ہے آپ نے ‘‘تو کہنے لگا۔

’’ادھی لعنت دنیا تائیں ساری دنیاداراں ہو‘‘

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے