کرکٹ کی سفارت کاری. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

کرکٹ کی سفارت کاری

کرکٹ کی سفارت کاری

پاکستان کی پانچ محترم ترین شخصیات خورشید قصوری، شہریار خان ، نجم سیٹھی،غلام علی اورعلیم ڈار کے ساتھ بھارت میں پیش آنے والے واقعات ایسے نہیں کہ ان سے صرفِ نظر کیا جا سکے ۔ بھارت یہ بات بھی جانتا تھا کہ ان کی حیثیت بڑے پاکستانی سفارت کاروں سے کسی طرح کم نہیں۔اس کے باوجود شہریار خان اور نجم سیٹھی کی موجودگی میںبی سی سی آئی کے ہیڈکوارٹرز میں شیو سینا کے غنڈوں کا حملہ یہی بتا رہا ہے کہ بھارتی حکومت خود ان مذاکرات کومنسوخ کرنے کا بہانہ تراشنا چاہتی تھی ۔

بگ تھری کا ووٹ لینے کیلئے بھارت نے کچھ د ل فریب وعدہ کئے تھے۔پہلے وعدے کے مطابق اِسی سال دسمبر میں متحدہ عرب امارات میں پاک بھارت کرکٹ سریز کھیلی جانی تھی مگر اُس طرف سے مکمل خاموشی دیکھ کرکچھ عرصہ پہلے شہریار خان نے یاددہانی کا محبت نامہ ارسال کیا تھا۔جواباًماہِ اکتوبر تک انتظار کامشورہ ملاکہ دہلی میں ہونے والے آئی سی سی کے اجلاس میں دیکھیں گے کہ وصالِ یار ممکن ہے یانہیں۔یعنی ایک طرح سے انکارہی کردیا گیاتھامگر اپنا معاملہ اُس غریب شخص جیسا ہے جواپنے بیٹے کیلئے گائوں کے چوہدری کے ڈیرے پر اس کی بیٹی کا رشتہ مانگنے چلا گیا تھا ۔ چوہدری کے حکم پر اس کے ملازموں نے اس کی خوب پٹائی کی ۔وہ مار کھا کر اٹھا۔اس نے زمین سے اپنی پگ اٹھائی اور اس کی گرد جھاڑتے ہوئے بولا’’تو پھر چوہدری صاحب میں انکار ہی سمجھوں ‘‘

جب شہریار خان اور نجم سیٹھی بھارت پہنچ گئے تو بھارت کیلئے مسئلہ پیدا ہوگیا کہ اب کیسے انکار کیا جائے۔صاف الفاظ میں انکار کیا نہیں جا سکتا تھاکیونکہ اُس دل فریب عہد و پیماںکی ایک دنیا گواہ ہے ۔وعدہ وفا کرنے کی ضمانت دینے والے ممالک بھی موجود ہیں۔سو لجاتی اور شرماتی ہوئی انڈین حکومت نے معاملہ اپنی ایجنسیوں کے سپرد کردیااور وہ شیو سینا کو میدان میں لے آئی۔ایک بھارتی دانشور کا خیال ہے کہ بال ٹھاکرے کی موت کے بعد شیو سینا پر مکمل طور پر ایجنسیوں کا کنٹرول ہے مگرمیں سمجھتا ہوں کہ بال ٹھاکرے کی زندگی میں بھی ایسا ہی تھا۔چلتے چلتے شیو سینا کا تھوڑا سا حدود اربعہ بھی سن لیجئے۔

ہندو میتھالوجی میں’ شیوا‘تباہی کا دیوتا ہے ۔اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں مسلمانوں کے خلاف جس ہندومرہٹے نوجوان نے گوریلا جنگ کاآغاز کیا اس کا نام بھی شیوا تھا ۔ہندو آج بھی اسے شیوا کا ایک روپ سمجھتے ہیں۔ان دنوںبھی بمبئی کے سمندر میںاُسی شیوا جی کا تین سو فٹ اونچا مجسمہ بنایا جارہا ہے۔وہ ہندوستانی تاریخ میں مغلیہ دورکا ہیروہے ۔اس نے1674میں مرہٹہ سلطنت کی بنیاد رکھی جو 1818تک قائم رہی ۔بے شک اس شیوا نے مغلیہ سلطنت کو اتنے گہرے زخم لگائے تھے کہ اورنگ زیب کی وفات کے ساتھ ہی سلسلہ ء زوال شروع ہوگیا تھا۔شیوا جی نے مرتے ہوئے اپنے لوگوں سے کہا تھا کہ اس وقت تک جنگ جاری رکھنا جب تک دھرتی ماتا پر ایک مسلمان بھی موجود ہے۔تاریخ میں پہلی باراسی نے بابری مسجد اور تاج محل کو گرانے کی بات کی تھی اس کے خیال میں جہاں بابری مسجد بنائی ہے وہاں پہلے رام کا مندر تھا اور جہاں تاج محل بنایا ہے وہاں شیوا کا مندر تھا .

اُسی کے نقشِ کفِ پا پرپائوں دھرتے ہوئے 1966میں بال ٹھاکرے نے ایک تنظیم بنائی۔اور شیوا جی کے نام پر اس کا نام شیو سینا رکھا۔ یہ تنظیم آغاز میں مرہٹے نوجوانوں کے حقوق کیلئے بنائی گئی تھی مگرجلد ہی بھارتی ایجنسیوں کی مدد سے وہ اُسے اپنے انتہا پسند ہندو مریدوں کی سیاسی جماعت بنانے میں کامیاب ہوگیا۔پھرجب بھی بھارتی ایجنسیوں کو پاکستان کے خلاف شور و غوغا کرانا مقصودہوا اِسی تنظیم سے کام لیا ۔

بال ٹھاکرے نے انیس سو ستر میں کہا تھا کہ شیو سینا کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں پھر کوئی اور پاکستان نہ بن سکے ۔گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور بابری مسجد کو شہید کرنے میںبھی اس تنظیم نے اہم کردار ادا کیاتھالیکن تمام زندگی کی تگ و دو کے باوجودمرنے سے چند ماہ پہلے بال ٹھاکرے کو کہنا پڑ گیا تھا ’’میں ہندوستان میں ایک اور پاکستان کو جنم لیتے ہوئے دیکھ رہا ہوں‘‘۔بال ٹھاکرے کو سب سے زیادہ تکلیف اپنی پوتی سے پہنچی تھی جس نے دوہزار گیارہ میں اسلام قبول کر کے ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی۔

شیو سینا نے صرف ہندو تہذیب کو زندہ کرنے کی کوشش نہیں کی اس نے ہندوئوں کیلئے بھی بہت کام کیا۔غریب ہندو ئوں کیلئے کئی لاکھ مکانات کی تعمیر شیو سینا کا ایک بہت بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔ِاس تنظیم نے نسلوں سے فٹ پاتھوں پر رہنے والوں کی زندگی بدل دی ۔یہ تنظیم اپنے مقصد کیلئے بھارت کے تمام امیرلوگوں سے بھتہ لیتی ہے۔چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔وہاں شیو سینا کے کسی مطالبے سے انکار کی جرات اپنی موت کو آواز دینے کے مترادف ہے ۔لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شیو سینا امیروں سے وصول کیا ہوا بھتہ بڑے بھرپور انداز میں غریبوں میں تقسیم بھی کرتی ہے۔اسے تقریباً پچاس سال ہونے کو ہیں مگر وہ اب تک بھرپور عوامی مقبولیت کبھی حاصل نہیں کرسکی۔1986تک شیو سینا کے پاس لوک سبھا کی صرف ایک نشست تھی۔ 1995میں پہلی بار اسے 73نشستیں ملی تھیں۔

بہر حال یہ بات طے شدہ ہے کہ بھارت کو معلوم ہوچکا تھا کہ وہ مذاکرات کی میز پر کرکٹ کا میچ ہار جائے گااس لئے اُس نے شیو سیناکو سامنے کردیا ۔بالکل اسی طرح خورشید قصوری بھی پاکستان کے سابق وزیر خارجہ تھے بھارتی حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں تھاکہ وہ خود ان کےپروگرام پر پابندی عائد کرے اوراُس کیلئے ایک پاکستانی کی کتاب کی بڑھتی ہوئی پذیرائی بھی تکلیف دہ تھی۔ بھارت تو غلام علی جیسے عظیم پاکستانی گلوکار کو برداشت کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ۔کہاں خورشید قصوری۔ شیو سینا سے بھرپور کام لیا گیا ۔ماضی میں شیو سینا کا کشمیرکے معاملات میں کوئی زیادہ عمل دخل نہیں تھالیکن موجود دورِ حکومت میں کشمیر میں بھی شیو سینا کومضبوط کیا جارہا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے رکن اسمبلی رشید انجینئر پر سیاہی پھینکنے کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔بہر حال کرکٹ کی سفارت کاری کا دور ختم ہوچکاہے اوریہ بھی طے ہوگیا ہے کہ پاکستان نے بگ تھری کے حق میں ووٹ دے کرایک ناقابل تلافی غلطی کی تھی۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے