
زلزلے کا سفر
زلزلے کا سفر
آج میں دن بھرحیران و پریشان رہا ۔ ہوا یہ کہ میرے پڑوس میں انگریز رہتا ہے۔مائیکل گوو نام ہے اس کا۔کسی یونیورسٹی میں جیالوجی کا پروفیسر ہے ۔آج اُس سے ملاقات ہوئی تو وہ پاکستان میں آنے والے زلزلے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہنے لگا ’’ پاکستان بھی زلزلوں کی پٹی پر ہے۔وہاں عمارات کی تعمیر میں بڑی احتیاط ہونی چاہئے‘‘۔میں نے جواباً بڑے فخر سے کہا’’ ہمارے ماہرین نے اس حوالے سے پاکستان کو انیس حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔یہ تقسیم زمین میں متحرک فالٹ لائنز کو دیکھتے ہوئے کی گئی ہے کہ یہاں زلزلہ آسکتا ہے یہاں نہیں آسکتا۔پھراسی تقسیم کو سامنے رکھ کر وہاں بلڈنگ کوڈز بنائے گئے ہیں۔‘‘ وہ حیرت اور پریشانی سےمیری شکل دیکھنے لگا جیسے میں نے پتہ نہیں کیا کہہ دیا ہے ۔وہ کچھ دیر بے اعتباری سے مجھے دیکھتا رہا اور پھر بولا ’’نہیں یہ ممکن نہیں۔ابھی تمہارے پاس نہ تو ایسی ٹیکنالوجی ہے اورنہ اتنا علم ۔تم غلط کہہ رہے ہو ‘‘مجھے بڑا سخت غصہ آیا کہ یہ ہم پاکستانیوں کو بالکل ہی گیا گزرا تصور کرتا ہے۔میں نے ذرا سے کھردرے لہجے میں کہا ’’ تم ہم پاکستانیوں کو کیا سمجھتے ہو ۔ہم نے ایٹم بم بنا لیا ہے ۔کیاہم یہ ذراسی زمین کی ٹوٹ پھوٹ کی سائنس نہیں سمجھ سکتے ‘‘۔وہ میری شکل دیکھ کر ہنس پڑا اور بولا۔ایٹم بم بنایا جاسکتا ہے مگر پاکستان میں یہ طے نہیں کیا جاسکتا کہ کہاں زلزلہ آسکتا ہے اور کہاں نہیں بلکہ یہ بھی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ یہاںزلزلے کا زیادہ امکان ہے اور یہاں کم ہے۔تقریباًسارا پاکستان اُس پٹی پر ہے جہاں زلزلے آسکتے ہیں ‘‘میں نے اپنے طور پر اُسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا’’ زلزلوں کے حوالے سے آزاد کشمیر ، شمالی علاقہ جات ،مکران ریجن پاکستان میں سب سے خطرناک علاقے قرار دئیے گئے ہیںاور اسلام آباداور سالٹ رینج کوکم خطرناک کہا گیا ہے۔ہمارے ماہرین کے نزدیک وسطی پنجاب اور بالائی سندھ کے علاقے زلزلوں سے مکمل طور پر محفوظ ہیں ‘‘اب وہ بیزاری سے بولا’’میری سمجھ میں نہیں آرہے تمہارے ماہرین ۔تمہارے تقریباََ سارے ملک کے نیچے سے ایک طرح کی فالٹ لائنز گزر رہی ہیںجو زلزلوںکا باعث بنتی ہیں ۔یہ وہی پٹی ہے جو افغانستان ، پاکستان ،بھارت ایران ،ترکی سے ہوتی ہوئی یوگو سلاویہ تک جاتی ہے۔تم اس پٹی سے کیسے معلوم کر سکتے ہو کہ یہاں کچھ نہیں ہوسکتا البتہ یہاں خرابی ہوسکتی ہے۔تمہیں معلوم ہے نا جاپان بھی اسی طرح کی ایک اور زلزلوں والی پٹی پر ہے جو انڈونیشیا اور ملائشیا تک چلی جاتی ہے ۔اتنی ترقی کرجانے کے باوجود ابھی تک جاپانی پوری طرح یہ معلوم نہیں کر سکے کہ کونسے علاقےزیادہ خطرناک ہیں اور کونسے بالکل محفوظ ہیں ۔کسی حدتک یہ معلوم بھی کیا جاسکتا ہے مگر یہ بہت مہنگا پروجیکٹ ہے ۔پاکستان کیلئے ممکن نہیں ہوسکتا کہ وہ اس مقصد کیلئے اتنا سرمایہ لگائے‘‘۔میں نے اسے پھر سمجھانے کی کوشش کی کہ’’ہمارے پاس پورا نقشہ موجودہے جس میں خطرناک علاقے کو سرخ رنگ سے واضح کیا گیا ہے اس میں یلو ایریاز بھی ہیں‘‘۔وہ میری بات کاٹتے ہوئے بولا ’’میرا خیال ہے تم لوگ اپنے آپ کو دھوکا دیتے پھرتے ہو یا میرے جیسے کسی جیالوجی کے ماہر نے تم سے رقم بٹور نےکیلئے تمہیں بے وقوف بنا یا ہے ۔یہ کوئی ضروری نہیں ہوتا کہ جہاں ایک بار زلزلہ آیا ہے دس سال کے بعد بھی دوبارہ وہیں آئے گا۔تم لوگ اگر زلزلوں کی پیشگی تیاری چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریقہ کارہے کہ ہر تعمیر اُس بلڈنگ کوڈ کے مطابق کرو جس میں زلزلہ پروف ڈیزائن اور لچک پیدا کرنے والا میٹریل استعمال کیا جاتا ہے تا کہ عمارتیں زلزلوں کی تھرتھراہٹ کو برداشت کرسکیں‘‘۔ میرا ذہن ابھی تک یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا کہ ڈاکٹر مائیکل گوو درست کہہ رہا ہے ۔میں نے بحث جاری رکھی۔میں نے پورے اعتماد سے کہا’’میرے علم کے مطابق زمین کی سطح، ابلے ہوئے انڈے کی طرح مختلف جگہوں سے چٹخی ہوئی ہے ۔انہی کو زمین کے اندر کی پلیٹیں کہا جاتا ہے ۔نوعدد بڑی پلیٹیں ہیںاور 12 عددچھوٹی پلیٹیں جو حرکت میں ہیں۔ بلوچستان میں تین بڑی پلیٹیں ہیںانہی کے کناروں یا دراڑوں کے ٹکرائو سے کوئٹہ رینج میںایک بہت بڑا زلزلہ آیا تھا آدھا شہر ختم ہوگیا تھا۔‘‘
کہنے لگا ’’مجھے تمہاری ان باتوں سے کوئی اختلاف نہیں مگر تم یہ کیسے طے کر سکتے ہوکہ پلیٹوں کی ٹوٹ پھوٹ جو 1935میں کوئٹہ کے قریب ہوئی تھی وہی 2005میں بالاکوٹ یا مظفر آباد کے گرد و نواح میں ہوئی۔ایسا کوئی پیمانہ تمہارے پاس نہیں ہے ۔تم نے جو ریڈ زون یا گرین زون بنا رکھے ہیں وہ سب فراڈ ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’ہم ان پلیٹوں کی سالانہ حرکت دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کہاں کس وقت ٹکرائو کا امکان ہے۔‘‘۔بولا ’’بے شک ہم حرکت ناپ سکتے ہیں مگر یہ طے نہیں کرسکتے کہ کہاں کس وقت یہ حرکت اُس مقام پر پہنچ جائے گی کہ پلیٹوں میں رگڑ پیدا ہوگی یا ٹکرائو ہوگا ۔اس کا اندازہ لگانے کیلئے ہم نے اربوں پونڈ خرچ کئے ہیں مگر پھر بھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ تمہارے ماہرین چھوٹے چھوٹے دوچار سینسرلگا کرکیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہاں زلزلے کا زیادہ امکان ہے۔یہاں کم ہے‘‘۔اب اس کی بات کسی حد تک میری سمجھ میں آگئی تھی ۔اور ذہن میں اقبال ساجد کا یہ شعر لہرا گیا تھا
جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
پھرخیال آیا کہ ہم نے جن علاقوں کو ریڈ زون قرار دے رکھا ہے ۔ان بیچاروں کا کیا قصور ہے ۔مجھے بالکل ایسا لگا کہ جیسے ہم نے کچھ علاقوں کو نحس قرار دے دیا ہو اور کچھ علاقوں کو سعد ۔سومیں نے مجبوراً بات بدلتے ہوئے مائیکل گوو سے کہا ’’اچھا یہ جو conspiracy theories پھیل رہی ہیں کہ بڑی طاقتیں ایسے ہتھیار تیار کرچکی ہیں جن کی مدد سے زلزلے لائے جاسکتے ہیں ۔سنا ہے اس ہتھیار کا نام ’’زلزلے کا سفر ‘‘ رکھا گیا ہے ‘‘۔کہنے لگا ’’یہ کونسی عجیب بات ہے ۔زمین کی کوکھ میں آدھا کلو یورینیم کا دھماکا کردو۔پہاڑ روئی کے گولوں کی طرح اڑتے پھریں گے ۔بے شک زمین کے اندرکسی مخصوص مقام پر ایک حد سے بڑا ایٹمی دھماکہ زلزلہ پیدا کرسکتا ہے مگرمیرے نزدیک خاص طور پر زلزلہ پیدا کرنے والا کوئی ہتھیار ابھی تک کہیں تیار نہیں کیا گیا۔ حوصلہ رکھو۔دنیا مسلسل زندگی کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ موت کی طرف نہیں ‘‘۔

