اس نے دیوار پر پاکستان کا نقشہ لگا رکھا تھا ۔وہ نقشے کے درمیان میں بڑا سا دائرہ بنا کر بولا’’یہ مرکزی جوہڑ ہے۔جہاں سے گندگی جنم لیتی ہے ۔‘‘پھر اُس جوہڑ سے ایک لمبی لکیر کھینچتے ہوئے کہا ’’یہ نالی اِس جوہڑ سے نکل کر شمالی اور جنوبی وزیر ستان تک جاتی ہے۔ ایک اور لائن کھینچی اور کہا ’’یہ نالی سندھ سے گزرتے ہوئے کراچی تک جارہی ہے۔ ‘‘پھراگلی نالی بلوچستان جاتی ہوئی دکھائی اور پھر وزیرستان والی لکیر پر انگلی رکھتے ہوئے کہا کہ ہم اس نالی کو تقریباً نوے فیصد صاف کرچکے ہیں ۔کراچی کی طرف اشارہ کیا اور بولا یہ لائن بھی تقریباً ساٹھ فیصد صاف شفاف ہوچکی ہے‘‘ ۔ بلوچستان والی نالی کے بارے میں کہا’’یہاں بھی صفائی کا کام تقریباً پچاس فیصد مکمل ہوچکا ہے۔ مگر یہ صفائی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہے گی ۔کیونکہ مرکزی جوہڑ سے دہشت گردی کے ساتھ جڑی ہوئی کرپشن کی گندگی پھر ان نالیوں میں پہنچ جائے گی۔ سو جب تک مرکزی جوہڑ کو صاف نہیں کیا جاتا اس وقت تک پاکستان دوبارہ صحت مند نہیں ہوسکتا۔یہ مرکزی جوہڑ وہاں ہے جہاں پاکستان کے تقریباً آدھے لوگ رہتے ہیں۔جسے پنجاب کہتے ہیں۔ سو جب تک افواج پاکستان پنجاب میں ضرب عضب نہیں شروع کرتیں اُس وقت تک ہر کامیابی وقتی اورادھوری ہے۔‘‘
میں نے اُس دانشور سے سوال کیا ’’ضرب عضب جمہوری اداروں کے ایما پر شروع کیا گیا تھا اور جمہوری ادارے یہ نہیں چاہتے کہ اِس کا دائرہ کار پنجاب تک بڑھایا جائے ۔ افواج پاکستان نے اگر زبردستی پنجاب میں کارروائی شروع کی تو یہ ایک غیر آئینی عمل نہیں ہوگا‘‘وہ کہنے لگا ۔’’ بالکل غیر آئینی نہیں ہوگا۔پاکستان کے دستور کے مطابق افواج پاکستان کو حفاظت کرنی ہے ۔چاہے جنگ کامیدان کہیں بھی ہو۔ اگر پاکستان کو کوئی خطرہ لاحق ہے ۔تو افواج پاکستان کو اُس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہےاور اس وقت پاکستان کو جو دشمن دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے وہ یہی دہشت گردی کے ساتھ جڑی ہوئی کرپشن ہے۔ جب سے جنرل راحیل آرمی چیف بنے ہیں اور انہیں اس خطرے کی ہولناکی کا احساس ہوا ہے۔انہوں نے اسی وقت سے اِس دشمن کے خلاف بڑی بھرپورجنگ شروع کر رکھی ہے۔اِس وقت افواج پاکستان تین صوبوں میں یہ جنگ بڑی بہادری، بڑے تدبر اور بڑی حوصلہ مندی کیساتھ لڑ رہی ہے اوراب پاکستان کے دشمنوں کا تعاقب کرتے ہوئے چوتھے صوبے میں داخل ہونے والی ہے۔ میرے خیال میں اگر انہیں پنجاب میں داخل ہونے سے روکا گیاتو موجودہ جمہوری اداروں کو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔ پہلے بھی ان جمہوری اداروں کی شفافیت پر کئی طرح کے سوالیہ نشان ہیں۔‘‘
میں نے پوچھا کہ ’’آ پ کے خیال میں ملک کسی نئے مارشل لاء کی طرف جارہا ہے ‘‘
اس نے کہا ’’نہیں قطعاً نہیں۔ہرگز نہیں ۔ہاں طرزِ حکمرانی بدل جانےکے امکانات ہیںکیونکہ موجودہ جمہوریت کا غلط استعمال پاکستان کی تباہی کا سبب بن رہا ہے ۔آئی ایس پی آر کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ کے گڈ گورننس کے حوالے سے جو پریس ریلیز جاری کی گئی اس کے بین السطور میں یہی کچھ کہا گیا ہے ۔میری اُن سے گزارش ہے کہ وہ اِس پریس ریلز کی تھوڑی سی وضاحت اور کریں تو معاملات بالکل واضح ہوجائیں۔ پاکستانی قوم اس دن سے جنرل عاصم باجوہ کی حکمت بھری عظمت کی قائل ہوچکی ہے جب جنرل راحیل شریف نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کی تھی اور جمہوریت کاایوان آوازوں کے شعلوں سے بھر گیا تھا تو جنرل عاصم باجوہ نے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ یہ ملاقاتیں حکومت کی خواہش پر ہوئی ہیں ۔‘‘
میں نے پھر سوال کیا کہ ’’جمہوریت کا غلط استعمال اور طرز حکمرانی کی تبدیلی، کچھ اس کی وضاحت کیجئے‘‘
اس نے کہا’’ جمہوریت کا غلط استعمال یہ ہے کہ جنہیں ستر فیصد لوگ پسند نہیں کرتے۔ انہیں اقتدار مل جاتا ہے ۔وہی عوامی نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک حلقہء انتخاب میں تین لاکھ ووٹ ہیں تو ان میں تقریباً ڈیڑھ دو لاکھ ووٹر تو کسی امیدوار کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ اسے ووٹ دیں۔یعنی ساٹھ ستر فیصدلوگ ووٹ ڈالتے ہی نہیں۔ باقی تیس چالیس فیصد لوگ جو ووٹ کاسٹ کرتے ہیں ان کے ووٹ دو یا تین امیدواروں میں ضرور تقسیم ہوجاتے ہیں۔یعنی جیتنے والے کے حصے میں تقریباًپندرہ بیس فیصد ووٹ آتے ہیں ۔یہ ہے جمہوریت کا غلط استعمال۔
جہاں تک طرزِ حکمرانی میں تبدیلی کی بات ہے تو اس کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ ملک کو ’’گڈ گورننس‘‘ کی طرف لایا جائے۔تاکہ احتساب اور انصاف طاقتور کی گرفت سے باہر ہو۔ قاتل، چور اور ڈاکو اپنے انجام کو پہنچیں ۔زندگی کی بنیادی ضروریات ہر شخص کو میسر ہوں ۔جمہوری انتخابات واقعتا جمہوری ہوں اور اُن میں بے داغ اور اہل لوگ سامنے آئیں۔ لوگوں کو کسی دبائو کے بغیر ووٹ دینے کا حق ملے ۔وسائل کی تقسیم ملک کے تمام حصوں میں برابر ہو۔ طاقت کے تمام ایوان اور ادارے ایک پیج پر ہوں۔ واقعتا لوگوں کیلئے لوگوں کی حکومت ہو۔ ہر شخص اقتدار میں حصہ دار ہو اورہر شخص تک جمہوریت کے ثمرات پہنچیں۔ یہ نہ ہو کہ جنوبی پنجاب میں بھوک بلکتی پھرے اور لاہورکو پیرس بنایا جارہا ہو۔ اس پر لطف کی بات یہ ہے کہ شاعرِ لاہورکے ہونٹوں پرپھر بھی یہی دعا ہے ۔ترا مکہ رہے آباد مولا۔ مرے لاہو ر پر بھی اک نظر کر ۔‘‘اِس دانشور سے یہ ساری گفتگو میانوالی میں پیر پیہائی کے مقام پر ہوئی جہاں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے کچھ نقل و حمل جاری ہے۔