امریکہ کی ایک اور کرم نوازی. منصورآفاق
دیوار پہ دستک

امریکہ کی ایک اور کرم نوازی

امریکہ کی ایک اور کرم نوازی

منصورآفاق

میری سسرال امریکہ میں ہے سوآنا جانالگا رہتا ہے ۔ میری سسٹر ان لاء وہاں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اس لئے کچھ خبریں مجھے وقت سے ذرا پہلے بھی مل جاتی ہیں ۔مگر میں ان پر زیادہ اعتبار نہیں کرتا کیونکہ ایک پاکستانی خاتون سینیٹرکا بیٹا بھی ایک امریکی اعلیٰ عہدے دارہے اور اس کی طرف سے ملنی والی خبریں اکثر غلط ثابت ہوئی ہیں ۔اس کے انجینئر والد گرامی کو اس سلسلے میں کئی بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ دوچار دنوں میں اِس خبر کی تصدیق ہوجائے گی کہ امریکہ نے وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف کے درمیان جنم لینے والے مسائل میں اہم کردار کیاہے۔ امریکہ کی وساطت سے جنرل راحیل شریف کو اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ حکومت دہشت گردی سےوابستہ کرپشن کے خلاف پنجاب میں کارروائی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ اس یقین دہانی کے بعد واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہو ئے جنرل راحیل شریف نے کہا ’’دہشت گردوں کے سہولت کاروں ،ہمدردوں اور حمایتیوں کو ہر حال میں گرفتار کیا جائے گا ‘‘اور اسی یقین دہانی کے سبب وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرمایا’’کوئی بھونچال نہیں آنیوالا ۔سول اور ملٹری میں کوئی تقسیم نہیں۔آرمی چیف ،وزیر اعظم کی باقاعدہ اجازت سے امریکہ گئے ہیں‘‘اس یقین دہانی کی دو وجوہات بیان کی جارہی ہیں ایک تو یہ کہ جب امریکہ نے جنرل راحیل شریف سے شدت پسندوں کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کیا تو پنجاب میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں ،ہمدردوں اور حمایتیوں کے خلاف کارروائی میں حکومتی رویہ زیر بحث آیادوسری وجہ حکومت کی طرف سے غیر سرکاری طور پر امریکہ کوآگاہ کیا گیا تھاکہ آرمی چیف جمہوریت کے خلاف کوئی قدم اٹھانے والے ہیں۔انہیں روکا جائے۔ اسی تناظر میں امریکہ نے ثالث کا کردار ادا کیا ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب میں سندھ کی طرح کا فوجی آپریشن کیسے ممکن ہوگا۔پنجاب حکومت کیا آسانی سے اپنے خلاف کارروائی ہونے دے گی۔سندھ میں آپریشن کے خوف کی وجہ سے آصف زرداری ایک عرصہ پاکستان نہیں آئے کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گایقینا یہ خطرہ ملکی سیاست کے اہم ناموںکو بھی لاحق ہوگامگر حکومت میں ہونے کی وجہ سے ان کیلئے تو یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ کسی اسلامی مملکت میں سکونت اختیار کرلیں ۔یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت نے اپنے کچھ وزرا ء کی قربانی دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اور اگر کر لیا ہے تو کیاوہ اپنی جان بچانے کیلئے اپنے بڑوں پر الزام نہیں لگائیں گے۔معاملہ ابھی تک خاصا پیچیدہ ہے کہ پنجاب میں کس طرح افواج پاکستان حقیقی معنوں میں کوئی آپریشن کر سکے گی ۔بہر کیف کچھ لوگوں کو یہ خوشخبری سنائی جا سکتی ہے اور کچھ لوگوں کے ساتھ اس بات پر اظہارِ افسوس کیا جاسکتا ہے کہ اس یقین دہانی کے بعدفوری طور پر فریقین کے درمیان جناب اچکزئی کی طرف سے بیان کئے گئے جنگ کے بادل چھٹ گئے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے یہ پانچ روزہ دورہ، امریکہ کی دعوت پر نہیںکیا بلکہ اسے خود ان کی خواہش پرارینج کیا گیا تھااور اس کا فیصلہ بھی اس وقت کیا گیا جب وزیر اعظم نواز شریف امریکہ واپس آئے اور انہوں نے جنرل راحیل شریف کو بتایا کہ امریکہ کیا چاہتا ہے۔یہ بھی اہم سوال ہے کہ جب جنرل راحیل شریف جانتے تھے کہ امریکہ کیا چاہتا ہے تو انہوں نے امریکی مطالبات پورے کرنے کی بجائے امریکہ کا دورہ کرنیکا ارادہ کیوں کیا ۔بے شک جنرل راحیل شریف کو امریکہ میں جو پروٹوکول ملا ہے وہ کسی اور آرمی چیف کو کم ہی ملا ہوگااور اس کی وجہ یہی ہے کہ امریکہ جانتا ہے کہ معاملات جنرل راحیل شریف کے بغیر طے نہیں ہوسکتے ۔کئی امریکی اخبارات نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ جنرل راحیل شریف کا یہ دورہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔اس دورے کے پاکستان کے مستقبل پر بڑے اہم اثرات مرتب ہونگے۔ ابھی پاکستانی حکومت یا افواجِ پاکستان نے امریکی تحفظات دور کرنے کیلئے کوئی پیش رفت نہیں کی ہے بلکہ نواز شریف نے اپنے وعدوں پر ذرہ بھر بھی عمل نہیں کیا حتیٰ کہ جماعت الدعوۃ کی پریس کوریج تک نہیں روکی جا سکی ۔پاکستانی حکومت مسلسل مذہبی انتہا پسندی کی حمایت کر رہی ہے ۔ابھی تک جہادیوںکو بطور آلہ کار استعال کیا جارہا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ افغانستان کے طالبان پر پاکستان کا اثرو رسوخ ابھی تک اُسی طرح قائم ہے۔پاکستانی حکومت جب چاہتی ہے وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جاتے ہیں اور جب چاہتی ہے وہ انکار کر دیتے ہیں۔وال ا سٹریٹ جرنل نے لکھا کہ جنرل راحیل شریف کے دورے سے وزیر اعظم پاکستان کے دورے کی چمک دمک ماند پڑ گئی ہے۔نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ افواجِ پاکستان نے اپنے اختیارات میں توسیع کر لی ہے ۔ ذاتی طور پر میرے نزدیک امریکی میڈیا کے اس رویے کے پس منظرمیں بھارتی پروپیگنڈےکا ہاتھ بھی ہے ۔جس کی وجہ سےدہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بے مثال قربانیوں کو صحیح طور پر اہمیت نہیں دی جارہی ۔
یہ خیال بھی کیا گیا کہ امریکہ نے جس طرح جنرل آصف نواز جنجوعہ کو مارشل لاء لگانے کامشورہ دیا تھا اس نے اسی طرح جنرل راحیل شریف کو بھی یہی مشورہ دیا ہوگا ۔ کیونکہ پاکستان میں مارشل لاء امریکہ کیلئے سب سے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔مگر ان لوگوں کو یہ بات بھول جاتی ہے کہ امریکہ نے جنرل آصف نواز جنجوعہ کے سامنے مارشل لاء کی حمایت کیلئے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کریں گے ۔جس پر انہوں نے مارشل لاء لگانے سے انکار کردیا تھا ۔پورا واقعہ بیگم عابدہ حسین سےسنا جا سکتا ہے جو ان دنوں امریکہ میںپاکستان کی سفیر ہوا کرتی تھیں۔بہر حال حکومت کو اس بات کا قلق ضرور ہے کہ جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ یہ دورہ امریکن ملٹری کیساتھ پاکستانی ملٹری کے تعلقات میں وسعت لانے کیلئے کیا جا رہا ہے اور وہاں جا کر امریکی نائب صدر ، امریکی وزیر خارجہ ، ، کانگریس کے ارکان ، اور تھنک ٹینکوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے