
عمران خان کے ساتھ ایک شام
عمران خان کے ساتھ ایک شام
منصورآفاق
یہ چند دن پہلے کی ایک سہ پہر تھی ۔بنی گالا کا موسم خوشگوار تھا۔درختوں کے سائےخاصے ٹھنڈے ہوچکے تھے۔ڈرائنگ روم میںمظہر برلاس ، حسن رضا ، میں اور عمران خان موجود تھے ۔ارغونی قہوے کی بھاپ سے بھیگی ہوئی گفتگومیں کئی تلخ و شیریں موڑ آئے ۔قدرت نے مظہر برلاس کو مشکل سے مشکل بات منہ پر کہہ دینے کا عجب ڈھنگ عطا کیا ہے ۔عمران خان کا یہ جملہ کہ’’ مظہر تم ٹھیک کہہ رہے ہو ‘‘میرے لئے ذرا اجنبی تھا۔شایدتوقع کے برعکس تھا۔عمران خان جب کمرے میں داخل ہوئے تو جلدی میں تھے۔ہم سے ملے اور ملتے ہی ایسی گفتگو کا آغاز کردیا جس میں کئی بہت مشکل نام آتے ہیں ۔یعنی ابھی تک ریحام خان کے آسیبی سائے بنی گالا سے پوری طرح نکلے نہیںہیں۔زخم بھرنے میں وقت تو لگتا ہے ۔تیز تیز بولتے ہوئے اچانک عمران خان نے جا نماز لانے کیلئے کسی کوآواز دی ۔جا نماز آئی۔ عمران خان نے اسے بچھایا اور نماز ہونے لگی۔مجھے فوراًخیال آیاکہ اِس جلدی کا پس منظر یہی عصر کی نماز تھی جوادا ہونے کا وقت ہوچکا تھا۔مجھے عمران خان کے وضو میںہونے پر بھی حیرت ہوئی تھی۔دراصل ان کا لباس پورے اعتماد سے کہہ رہا تھا کہ وہ ابھی وضو کرکے نہیں آئے۔یعنی وہ کافی دیر سے وضو میں تھے۔میں انہیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھنے لگا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے عصر قوسِ قزح پر نماز پڑھ رہی ہے۔نماز کے معاملے میں میرا رویہ تھوڑا سایہ مختلف ہے کہ مجھے وہ لوگ زیادہ اچھے لگتے ہیں جوسرپر دھوپ کی دستار باندھ کر پائوں میں اپنے سائے کی جا نماز بچھا کر نماز ادا کرتے ہیں ۔نماز کے بعد کافی دیر گفتگو ہوئی ۔کچھ اپنی ہی کچھ ان کی سنی۔کچھ ان کہی گفتگو بھی ہوئی ۔اگرچہ مناسب نہیں تھا مگرمیں نے کچھ مشورے بھی دئیے ۔
اپنی بساط کے مطابق۔ پہلا جو مشورہ میں نے ان کے سامنے پڑی ہوئی میز پر رکھااس پر شاید وہ پہلے بھی غور کر چکے تھے ۔کہتے ہیں بڑے لوگ ایک ہی طرح سوچتے ہیں ۔میں نے کہا کہ انہیں فوری طور پر وفاق اور صوبوں میں اپنی شیڈو کیبنٹ کا اعلان کر دیناچاہئے ۔ہر وزیر کے ساتھ ایک شیڈو وزیر کی موجود گی ضروری ہے جو نہ صرف اس کے تمام معاملات پر نظر رکھے بلکہ اس محکمے کیلئے اپنا لائحہ عمل بھی عوام کے سامنے پیش کرے۔شیڈو کابینہ کے وجوو میں آنے سے تحریک انصاف ملک بھر میں حقیقی طور پر اپوزیشن کا کردارادا کرنے لگے گی ۔ یہ بھی سامنے آجائے گا کہ تحریک انصاف میں کون کتنے پانی میں ہے اور مستقبل کے وزیروں شذیروں کی کچھ تربیت بھی ہوجائے گی۔دوسرا مشورہ جو میں نے ان کے سامنے رکھا وہ خاصادشوار گزار تھا۔نعیم الحق تھوڑی دیر کیلئے محفل میں شریک ہوئے تھے مگران کا یہ سوال میرے دوسرے مشورے سے کسی حد تک جڑا ہوا تھا کہ یہ کیسا نظام ِ حکومت ہے جس میں ایسے لوگ اقتدار میںآجاتے ہیں جن کے خلاف ساٹھ ستر فیصد لوگ ووٹ کاسٹ کئے ہوتے ہیں۔بے شک پارلیمانی جمہوریت میں یہ بہت بڑا خلا ہے ۔یقینا جمہوریت میں بہتر نظام متناسب نمائندگی کا ہی ہے مگرمیں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا کسی تیسرے نظام کی تلاش میں ہے ۔اشتراکیت ناکام ہوچکی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے عفریت نے انسانیت کا بند بند مضمعل کر دیا ہے ۔سو تحریک انصاف ایک نئے نظام کی تشکیل کیلئے کام شروع کرے جو اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق بھی ہوا ور جسے غیر مسلم دنیا قبول بھی کرے۔نئے نظام کی خواہش عمران خان کے دل میں بھی کہیں تڑپ رہی تھی انہوںنے اس مشورے میں خاصی دلچسپی لی اور مجھے کہا کہ میں انہیں نئے نظام کی تشکیل کیلئے تفصیل سے تمام مواد ای میل کروں۔یہ کام ہونا چاہئے۔خاص طور پر ہمیں پاکستان میں کسی ایسے نظام کے خدوخال پر غور کرنا چاہئے جو اس معاشرے کو مکمل طور پر کرپشن اور ناانصافی سے پاک کر سکے ۔جو اقوامِ عالم کو بہتر مستقبل کے راستے سے ہمکنار کر سکے۔تیسرا مشورہ اہلِ قلم کے حوالے سے تھا۔اہل قلم ہر معاشرے کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں مگروہ عمران خان کے قرب و جوار میں کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔میں نے اسی سوال کے چہرے سے نقاب نوچ لیا کہ تر دماغ اور مضطرب دل رکھنے والے روشنی اور خوشبو کے پیامبر کہاں ہیں۔وہ جنہیں آپ کے پہلو میں ہونا چاہئے تھا وہ حاکم ِ وقت کے دربار میں موجود ہیں ۔عمران خان نے اس بات پر بھی سنجیدگی سے غور کیا۔امکان ہے کہ بہت جلد تحریک کسی اہل قلم کانفرنس کا بھی انعقاد کرے گی ۔
آخری بات حسن رضا کی طرف سے پیش کردہ پی ٹی آئی کے ایک ایم پی اے کے خلاف جعل سازی کے ناقابل تردید ثبوت موجود تھے ۔ ثبوت دیتے ہوئے عمران خان کو یہ بھی بتایا کہ یہ ثبوت اس سے پہلے لاہور میں علیم خان اور میانوالی میں پی ٹی آئی کے ایم پی اے سبطین خان کو دئیے جا چکے ہیں مگرکوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ان ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے عمران خان کے چہرے پرایک غصہ بھری تکلیف دکھائی دی جو ان کے باطن میںموجود سچے اور کھرے انسان کی عکاس تھی ۔ان کی دیانت اور کرپشن کے خلاف مسلسل جدوجہد کو میں سلام پیش کرتا ہوں۔انہوں نے وہ کاغذات عون چوہدری کے حوالے کئے اور کہاکہ اِ س ایم پی اے کو بلایاجائے۔ میں خود اُس سے بات کروں گا۔عون چوہدری جب ہمیں باہر چھوڑ کرآئے تو شام کے سائے گہرے ہو چکے تھےمگربنی گالا کا موسم ابھی تک خوشگوارتھا۔عمران خان بھی شام کی نماز کیلئے جانماز بچھا چکے تھے ۔

