غیر سیاسی دانش . منصورآفاق
دیوار پہ دستک

غیر سیاسی دانش

غیر سیاسی دانش

منصورآفاق

عطاالحق قاسمی نے الحمرا میں اہل ِدانش و بینش کا میلہ لگا رکھاہے وہاںطرح طرح کے دانشور موجود ہیں مگرسیاسی پارٹیوں سے متعلقہ صاحبانِ دانش کہیں نظرنہیں آئے۔ویسے تو سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔کہا یہی جاتا ہے کہ عشاقِ حکومت میں اہل ِ خرد کا کیا کام ۔کیا کریں بیچارے۔ ان کی دانش کو دانش اسکولوں سے چھٹی ملے تو کچھ اور سوچیں ۔

کسی زمانے میں تحریک انصاف کے ایک بزرگ دانشورمیرے دوست ہوا کرتے تھے مگر انہوںنے میرے ساتھ اُس دن لڑائی کرلی تھی جب پی ٹی آئی ایک صاحب کو وزیراعلیٰ بنانے لگی تو میں نے کہا تھا کہ’’ نااہل سے اہلیت کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے۔ نابینا شخص بس کا ڈرائیور کیسے ہو سکتا ہے۔گونگے کو صدا لگانے کی نوکری کیسے دی جاسکتی ہے۔بہرے کو دستک سننے کی ملازمت کون دے سکتا ہے‘‘(اسی طرح کی صورت حال صوبہ بلوچستان میں بھی پیدا ہونے والی ہے )بہرحال اُس نے جواباً مجھے جو کچھ کہا تھاوہ گالیوں سے کم نہیں تھا۔میں خاموش ہوگیا تھا۔دوستی ختم ہوگئی تھی۔آج اچانک اُسی ناراض دوست کا فون آگیا۔ کہنے لگا ’’میں غلطی پر تھا میری طرف سے معذرت قبول کرلو‘‘اورمجھے اپنا ایک کلاس فیلو یاد آگیا جس نے مجھ سے بیس روپے فرسٹ ایئر میں ادھار لئے تھے اور فورتھ ایئر میں ایک دن واپس کرنے لگاتومیں نے لمحہ بھر سوچا اور کہا ’’سوری میں تمہارے بارے میںاِس عرصے میںجو رائے میں قائم کر چکا ہوںوہ بیس روپے واپس لے کر تبدیل نہیں کر سکتا‘‘۔

لیکن یہ میں نے ضرور پوچھاکہ’’ ایسا کیا ہوا ہے جو تم میرے ہم خیال ہوگئے ہو۔‘‘پتہ چلا کہ آج خود پارٹی لیڈرنے پختون خوا حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے جو کچھ کہاہے اس کا مفہوم یہی تھاکہ مجھے اور شرمندہ مت کریں۔مجھے یاد آیا کہ اِسی دوست نے وزیراعلیٰ صاحب کے باب میںمیلوں لمبا خطبہ ء مسنون ارشاد فرمایاتھا۔ ہائے کیا اندازِ گل افشانی ء گفتار تھا۔اس نے ان کو وزیر اعلیٰ بنانے کے ایسے ایسے فوائد گنوا ئے تھے کہ لوگوں کو پختون خوا کے جنت میں بدل جانے کا یقین ہو چلا تھا۔برطانیہ جہاں میں رہتا ہوں وہاں اس طرح کے بڑے بڑے دیدہ ور دانشور موجود ہیں۔صرف تحریک انصاف میں نہیں نون لیگ اور پیپلزپارٹی میں بھی ان کی کوئی کمی نہیں۔ابھی ابھی ایک بزرگ دانشور کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ اِن دنوں موصوف طوافِ کوچہ ء جاناں کو چھوڑ کرطواف حرم کی سعاد ت حاصل کررہے ہیں یعنی امریکہ جانے کی بجائے مکہ معظمہ گئے ہوئے ہیں ایک قطعہ یاد آگیاہے جو کسی شوخ نے بریڈفورڈ کی کسی مسجد کے دروازے پر لٹکادیا تھا

حضرت الحاج صوفی موج دیں کی خیر ہو
سب جوانی میں نکالے اپنے ارمان ِ بہشت
عمر کے اک ایک لمحے سے نچوڑا مال و زر
جمع کرتے آئے ہیں دنیا میں سامانِ بہشت
مانگتے ہیں بیٹھ کر اب مسجدوں میں رات دن
چند حوریں، ایک بنگلہ ، اور غلمان ِ بہشت

یہ دیدہ ور دانشور وہی ہیں جن کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ جب نرگس رو رو کر اپنی آنکھیں سفید کرلیتی ہے توتب کہیںان کالے نیلے دیدوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ بہر حال الحمرا میں ان دنوں ملک بھر کے تمام دانائے راز جمع ہیں۔عطاالحق قاسمی نے آرٹ اور علم کو اس طرح آپس میں ہم آغوش کر رکھا ہے کہ فلسفہ رقص کر تا ہوا نظر آتا ہے اورتحقیق و تنقید بھیرویں کے الاپ لیتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔دانش کے پیڑ پر طرح کے پھل اور پھول کھل رہے ہیں۔یہاں ظفر اقبال بھی موجود ہیں اور احسان شاہد بھی۔ دانشوروں کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں۔کچھ گائو زبانی دانشور ہوتے ہیںان کاتعلق خمیرہ گائوزبان سے کم اورزبان دانی سے زیادہ ہوتا ہے یعنی گفتگو کے بہت ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔آج ان میں سے کئی کو لوگ ’’ اینکر ‘‘کہتے ہیں۔کچھ زعفرانی دانشور ہوتے ہیں۔ان کاتعلق بھی ذہن ِ رسا کی زعفران زاری سے زیادہ کشتِ زعفران سے ہوتا ہے یعنی یہ ہنسنے اور ہنسانے کے ماہرسمجھے جاتےہیں۔آج کل مزاحیہ اداکار بھی اِسی صف میں شامل ہوچکے ہیں ۔کچھ فلسفی دانشوربھی ہوتے ہیں مگر اس قسم کا تعلق فلسفے سے زیادہ ’’معجون ِفلسفہ‘‘ سے ہوتاہے۔یہ فلسفہ لکھتے کم ہیں مگر استعمال زیادہ کرتے ہیں ۔ان سے ملاقات الحمرا کی ادبی بیٹھک میں آسانی سے کی جاسکتی ہے۔یہ قسم پاک ٹی ہائوس میںبھی وافر مقدار میں موجود رہتی ہے۔اور کچھ مروریدی دانش ور ہوتے ہیں۔موتیوں سے بھرے ہوئے مرورید کے خمیرے کی طرح۔ان کا شمار حکماء میں ہوتا ہے ۔یہ بیورو کریسی میں بہت ہوتے ہیں مگران کی تفصیل کا بیان خطرے سے خالی نہیں ۔کچھ لوگ کہتے ہیں دانشور ہونے کیلئے دانش کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوتی چند موٹی موٹی کتابوں کے نام ، کچھ جملے اوردوچار بڑے فلاسفر کی کوٹیشنزکسی بھی شخص کو دانشور ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں مگر افسوس کہ سیاسی جماعتوں میں تو ایسے دانشور بھی موجود نہیں اور جو موجود ہیں ان کے بارے میں کسی شاعرنے کہا ہے ’’پچھلے بیس برس کے دانشور۔۔۔اپنی اپنی سوچ کے نقطے پر۔۔پوچھ رہے ہیںرک رک کر۔۔۔۔ناخن پہ کیسے ہاتھی اور مہاوت چلتے ہونگے۔۔۔کیسے سرکنڈوں کی کچی چھت پراونٹوں کارقص ابھی تک جاری ہے۔‘‘

مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دانشور چاہے جیسے بھی ہوں ۔کوئی بھی ان کی بات سننے پر تیار نہیں۔اب عقل کی باتیں زمانہ ء جاہلیت کا قصہ لگتی ہیں۔افلاطون نے کہا تھا کہ کسی معاشرے پراس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ وہ عقل وخرد کا دشمن ہوجائے۔ خاص طور پرمیدانِ سیاست سے توایسے تمام دانشوروں کو چن چن کر نکال دیا گیا ہے ۔اب تو لوگ اپنے بچوں کو بھی منع کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی باتیں مت سنا کریں ۔کیونکہ کچے ذہن آسانی سے بھٹک جاتے ہیں۔میرا خیال ہے الحمرا میں بھی نا بالغ بچوں کا داخلہ ممنوع ہونا چاہئے ۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے