
آئینی مدت
آئینی مدت
منصورآفاق
سابق صدر آصف علی زرداری کے لہجے کی تلخی کہہ رہی ہے کہ پیپلز پارٹی احتجاج کی سیاست شروع کرنے والی ہے۔اعتزاز احسن نے بھی خدشہ ظاہرکر دیاہے کہ لگتا ہے وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکیں گے ۔اس پیشں گوئی کے بین السطو ر میںبھی کسی احتجاجی تحریک کی خبر موجود ہے ۔قومی اسمبلی کے فلور پر بھی اپوزیشن مل بیٹھ کر فیصلے کرنے لگی ہے۔یعنی پھر وہی کہانی شروع ہونے والی ہے جس میں ہم جی رہے ہیں ۔وہی احتجاج کی کہانی جو عمران خان نے ڈی چوک پر ایک سو چھبیس دن لکھی۔جس کا عندیہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی گزشتہ دن دیا ہے۔میں نے اس احتجاج کے عمل پر بہت غور کیا ہے۔ احتجاج دراصل ہر انسان کے اندر کروٹیں لیتا ہے۔ہر شخص کے اندر جو ایک حق سچ کی بات کرنے والا صوفی ہوتا ہے وہ احتجاج کرتا ہے ۔ کوئی آسمان سے احتجاج کرتاہے تو کوئی زمین سے ۔کچھ لوگ روشنی اور خوشبو کے خلاف بھی احتجاج کرتے ہیںمگر زیادہ تر انسانی ضمیرکا احتجاج نظامِ زر کے خلاف رہا ہے لوگوں نے ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔جھوٹ فریب اور کرپشن کی معاشرت سے بغاوت کی ہے۔لوگوں کا یہ احتجاج ایک اظہارِیک جہتی بھی ہے ۔غریبوں اور ناداروں کے ساتھ۔اندھیری گلیوں میں پرورش پانے والوں کے ساتھ۔ان کے ساتھ جنہوںنے ساری زندگی پیپلز پارٹی کو ووٹ دئیے مگرانہیں روٹی ، کپڑا اور مکان میسر نہ آسکا۔ یہ احتجاج ہر دور میں ہوا۔ماضی میں صوفی اس احتجاج کی علامت سمجھے جاتے تھے۔یعنی اِسی احتجاج کا کہیں نام منصور حلاج ہے تو کہیں شاہ حسین ۔ کہیں بلھے شاہ ہے تو کہیں سرمد۔یہ صوفی ہمیں ہر دور میں دکھائی دیتے ہیں۔ان کا کوئی بھی نام ہو سکتا ہے ۔بھٹو سے لے کر منصور آفاق تک ۔کچھ بھی ۔کہتے ہیں کہ ہر صوفی ایک نئے عہد کی تمہید ہوتا ہے۔وہ ان کردار وںکے خلاف آواز اٹھاتا ہے جوظلم اور نا انصافی کے نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔وہ چاہتا ہے کہ انسان ظلم اور ناانصافی کی معاشرت سے نکل کرایک آزاد فضا میں سانس لے ۔یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ کیا وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتے ہیںیا نہیں ۔میرے نزدیک90فیصد بظاہر نہیں ہوتے مگرآتی ہوئی صدیوں پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں۔یہ لوگ انسان اور انسانیت کو عظیم تر ثابت کرنے کی کوشش میں ایک جدو جہدِ مسلسل کی علامت بن کر تاریخ کے سینے پر سج جاتے ہیں۔یہ لوگ ترکِ دنیا بھی دنیا کی بھلائی کیلئے کرتے ہیں۔
یہ لوگوں کے اعتبار کو جوڑتے ہیں۔ویسے تو آدمی پر کوئی جاندار اعتبار نہیں کرتا۔بہت سے توکسی آدمی کو اپنا چہرہ نہیں دکھاتے ۔موسموں ، پرندوںپر اعتبار کر لیتے ہیں مگر انسان پر نہیں ۔صوفی انہی ٹوٹے ہوئے اعتباروں کو نئی زندگی دیتا ہے۔ مذہبی اجارہ داروں سے مذہب کو نجات دلاتا ہے ۔معاشرے میں پیار محبت، رواداری اور انسانیت کے بیج بوتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ ہر گلی میں روشنی کے شجر اگنے لگیں۔مگر اپنی دنیا میں ایسا کوئی صوفی دکھائی نہیں دیتا۔عمران خان میں اِس صوفی کی کچھ صفات موجود ہیں مگران کی خاموشی دیکھ کر گدھ بہت جمع ہوگئے ہیں۔ان کی وسعت قلبی کے سبب ان کے دائرے میں ایسے بھی آگئے ہیںجنہیں نہیں آنا چاہئے تھا۔پاکستانی قوم کسی مکمل صوفی کی تلاش میں ہے۔دوسرے لفظوں میں اسے کسی پاگل کا انتظار ہے جو پوری قوم کو پاگل بنا دے ۔دنیا میں پاگل قومیں ہی سپر پاور بنتی ہیں۔اب یہ قوم آصف زرداری جیسے کسی عقلمند آدمی کے طلسم میں نہیں گرفتار ہوسکتی ۔اب اعتزاز احسن چاہے افتخار محمد چوہدری کی گاڑی چلائے یا بلاول بھٹو کی۔کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔میڈیا کی آزادی کی بدولت اب یہ نہیں ممکن رہاکہ پاکستانی عوام پھر وہاں پہنچ جائے جہاں انسان کے پاس سوچ ، فکر، دلیل ، معقولیت کچھ باقی نہیں رہتا آنکھوں میں شعلے اور ہاتھوں میں پتھر رہ جاتے ہیں ۔موجودہ حکومت کیلئے اگر کوئی خطرے کی گھنٹی ہے تو وہ صرف پی ٹی آئی اوراس بات کا امکان بہت کم ہے کہ پی ٹی آئی کسی ایسی تحریک کا حصہ بنے گی جس کے پیچھے آصف علی زرداری کا ذہن رسا کار فرما ہوگا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے تمام غصے کا سبب کوئی نظریہ نہیں ۔کوئی غریبوں کے حقوق کی جنگ نہیں۔بلکہ ایک شخص ہے ۔ایک ایسا شخص جسے رینجرز جیسے بے داغ ادارے نے گرفتار کیاجس نے نہ صرف کرپشن کی بلکہ اپنے مفادات کیلئے دہشت گردوں کے سہولت کار کا کردار بھی ادا کیا۔پی ٹی آئی اس معاملے میں پوری طرح موجودہ حکومت کے ساتھ ہے ۔اور عمران خان سے یہ توقع بھی نہیں جا سکتی کہ وہ کسی کرپشن کے معاملے میں اپنے رویے میں کوئی لچک پیدا کرے گا ۔
اے کاش جہاں ہم چین سے اتنا کچھ لے رہے ہیں وہاں یہ قانون لے لیں کہ جو شخص کرپشن کرے اسے سزائے موت دے دی جائے جس طرح چین میں دی جاتی ہے ۔ اگرواقعتا اس قانون کاصحیح طور پر پاکستان میں اطلاق ہوجائے تو لاکھوں لوگ پھانسیوں پر جھولتے ہوئے دکھائی دیں گے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر نون لیگ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق،وزیر دفاع خواجہ آصف اوروزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی قربانی دے دے تو تحریک انصاف نواز حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دے گی مگر اس بات کا امکان بہت کم ہے ۔نواز حکومت کسی صورت میں بھی اپنی بساط سے ایسے وزیر نہیں ہٹا سکتی جنہوں نے اسے زندگی دی یہی تو ہیں جن سے بوئے وفا آتی ہے اور ہمارے حکمرانو ں کے نزدیک غالب کی طرح ’ وفاداری بشرط استواری اصلِ ایماں ہے۔

