ڈی چوک پرروشنی کے کنٹینرز. منصورآفاق
دیوار پہ دستک

ڈی چوک پرروشنی کے کنٹینرز

ڈی چوک پرروشنی کے کنٹینرز

منصور آفاق

پاکستان میں کئی طرح کے کنٹینرمشہور ہوئے۔ امریکی اسلحہ افغانستان لے جانے والے کنٹینرز کی کہانیاں بہت پھیلیں۔ ان میں سے کچھ راستوں میں جلا دئیے گئے مگر زیادہ تر اپنی منزل تک پہنچے۔ چار سو کے قریب گم ہوئے جو کئی سالوں بعد کچھ عرصہ پہلے کراچی کی بھینس کالونی سے ملے ۔ان میں سے زیادہ ترخالی تھے۔ اسلحہ جہاں پہنچنا تھا پہنچ چکا تھا ۔کنٹینرز کا ایک اور استعمال بھی پاکستان میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔انہیں سڑکیں اور راستے بند کرنے کیلئے حکومت استعمال کرتی ہے ۔لوگوں نے کئی باراحتجاجی تحریکوں میں پاکستان کو کنٹینرستان بنتے دیکھا ہے ۔مگر پاکستان کی تاریخ میںدو کنٹینر ایسے بھی ہیںجنہیںبہت زیادہ محبت اور عقیدت حاصل ہوئی وہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے کنٹینرز ہیں ۔ ان رہائشی کنٹینرز کو یورپ میں کیروان کہا جاسکتا ہے ۔یہ تقریباًیورپ کے ہر اُس گھر میںموجودہوتا ہے جنہیں گھومنے پھرنے کاشوق ہو اور تھوڑے سے مالی حالات بھی بہتر ہوں ۔ ہالی ڈیز پر لوگ انہیں اپنی کاروں کے پیچھے باندھتے ہیں اور کسی دلفریب جگہ پر جاکر کھڑا کر دیتے ہیں۔یورپ کے ہر خوبصورت مقام پر انہیں کھڑاکرنے کیلئے جگہیں مختص ہوتی ہیں۔ان میں ایک چھوٹے سے گھر کی تمام سہولتیں موجود ہوتی ہیں۔شاعری میں اس کیروان کا ذکر کچھ یوں آیاہے

چند لکڑی کے کواڑوں کو لگا کر پہیے
وقت نے کار کے پیچھے مرا گھر باندھ دیا

پاکستان میں یہ کیروان صرف ڈی چوک پر کھڑے کئے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ دھرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے ۔پاکستانی قوم ان سے اچھی طرح واقف ہے۔ کچھ لوگوں نے انہیں آنکھوں سے دیکھاہے اور کچھ لوگوں نے انہیں ٹیلی وژن کی اسکرین پر دیکھاہے لیکن یہ بات شاید ہی کوئی پاکستانی کہہ سکے کہ اُس نے یہ کیروان نہیں دیکھے ہوئے۔ان کیروان نے سب سے زیادہ نقصان موجودہ حکومت کو پہنچایا اوران سے زیادہ فوائدعسکری اداروں نے پاکستان کی بہتری کیلئے اٹھائے ۔یہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے کیروان کی کرامت تھی کہ موجودہ حکومت نے افواجِ پاکستان کی ہر اچھی بات پر سرِ تسلیم خم کیا اور ملک دہشت گردی کی جنگ میں کامیاب ہوا۔

اطلاع ہے کہ عمران خان نے اپنے کنٹینر کی صفائی کاحکم دے دیا ہے ۔اس کی اچھی طرح سروس کی جارہی ہے اور اس میںکچھ اور سہولتیں بھی شامل کی جارہی ہیں ۔پچھلی مرتبہ عمران خان نے تقریباً ایک سو چھبیس دن اس میں قیام کیا تھا ۔نئی سہولتوں سے اندازہ ہوتاہے کہ شاید اس مرتبہ کچھ عرصہ قیام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں بھی اطلاع یہی ہے کہ انہوں نے برطانیہ سے خاصامعیاری اور بڑاکیروان خرید کر بذریعہ بحری جہاز پاکستان بھجوا دیا ہے ۔وہ کسی لمحے بھی کراچی کے ساحلوں پر اترنے والا ہے۔ اُن ساحلوں پرجہاں عزیر بلوچ کا آسیب جگہ جگہ دکھائی دے رہاہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل کے چہرے سے نقاب نوچ سکتاہے ۔جہاںپی آئی اے کے جہاز بمبار طیارے بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔جہاں درد کے دھرنے کا آغاز ہوا چاہتا ہے ۔بہر کیف اس متبرک کنٹینر نے پہنچنا تو کراچی سے لاہور ہے جہاںغریبوں کے کواٹروں سے گزرتی ہوئی اورنج ٹرین کی آواز تبدیلی کے شورسے ہم آہنگ ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔ لاہور سے یقینا یہ کنٹینراسلام آبادجائے گا۔ کیونکہ آبادتو ڈی چوک نے ہی ہونا ہے۔اگرچہ اسد عمر نے کنٹینر کے ڈی چوک پہنچنے کی وجہ عوام کے معاشی قتل عام کو قرار دیا ہے۔خاص طور پر حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںجو دکھاوے کی کمی کی ہے ۔یہ احتجاج اس کے خلاف شروع کیا جارہا ہے کہ جب ڈیزل کی اصل قیمت 38.2 روپے ہے تو حکومت اس پر 37.6 روپے ٹیکس کے نام پرکیوں بٹوررہی ہے ۔وغیرہ وغیرہ۔مگر میرے نزدیک اس کی وجوہات کچھ اور بھی ہیں ۔سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ رینجرز کا آپریشن ابھی تک پنجاب میں شروع نہیں ہوسکا۔پیپلز پارٹی اگرچہ پوری طرح گرفت میں ہے مگر پنجاب میں موجود کرپشن کے مگر مچھ ابھی اسی طرح راہ چلتے لوگوں کو اپنی لینڈ کروز تلے روند رہے ہیں ۔دوسرا پی ٹی آئی کو اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ آئندہ بھی صاف شفاف الیکشن ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔دھاندلی کے کسی راستے پر کوئی کنٹینر نہیں رکھا جارہا ۔سو موجودہ حکومت سے بہتری کی توقع رکھنا اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے بھی دبے لفظوں میں قومی حکومت کی بات کی ہے۔ آصف زرداری اور بلاول زرداری بھی سعودی عرب سے مایوس ہو کرامریکہ گئے ہوئے ہیں۔ صدر اوباما سے توقع نہیں کی جارہی کہ وہ ان کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے نام کوئی پیغام بھیجیں گے مگر امید پر دنیا قائم ہے۔ سو اس ساری صورت حال میں تحریک انصاف نے یہی مناسب سمجھا کہ کنٹینر کی صفائی شروع کردی جائے۔ صرف اِسی کنٹینرسے انصاف کا سورج طلوع ہوسکتا ہے۔ اس کنٹینر کے ڈی چوک میں پہنچنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پنجاب حکومت پیچھے ہٹنے کی بجائے عسکری قیادت کی گفتگو پر دھیان دے گی۔

سنا ہے ایک کنٹینر وزیراعظم نواز شریف نے بھی تیار کرایا ہوا ہے جو مکمل طور پر بلٹ پروف ہے اور اس کی دیواریں شیشے کی ہیں۔ شاید وہ اسے دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ممکن ہے اسے کچھ پہلے ہی سڑک پر لانا پڑ جائے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے