
غزالوں کے تعاقب میں
غزالوں کے تعاقب میں
منصورآفاق
آئیے آج کچھ درختوں سے پوچھتے ہیںکچھ پرندوں کی باتیں سنتے ہیں کچھ غزالوں سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ایک بار پہلے بھی میں اِن کی محفل میں گیا تھا۔لمبی گفتگو ہوئی تھی۔ پوچھتے تھے کہ راوی اور ستلج میںریت کیوں اڑ نے لگی ہے ۔بہتے ہوئے ٹھنڈے پانیوںپر کیاکسی آسیب کا سایہ ہو گیا ہے یا انہیں بھی بیچ دیا گیا ہے۔آج جب دوبارہ ملا قات ہوئی تو وہ بہت اداس تھے۔پیڑوں کے پتوں پر اوس کی طرح آنسوبکھرے ہوئے تھے ۔پرندوں کی آنکھوں میں مایوسیاں بھری ہوئی تھیں۔چرندوں کے چہرے سراپا سوال تھے ۔مجھ سے پوچھنے لگے کہ چھانگا مانگا کے جنگلات کون چرا لے گیا ہے ۔کندیاں کے جنگل کہاں چلے گئے ۔ڈفر اور مری کے جنگلات گم ہوگئے ہیں۔ ایک پرندے نے کہا ’’میں نے تو انہیں صوبہ پختون خوامیں ہجرت کر جانے کا مشورہ دیا ہے ۔سنا ہے وہاں عمران خان کروڑوں درخت لگوا رہے ہیں ۔
میںخاموش رہا۔ انہیں کیا جواب دیتا ۔ میری اخبار بین نظر سے تو تازہ تازہ پنجاب کے محکمہ جنگلات کا یہ بیان گزرا تھا کہ محکمہ لکڑی کی چوری کے واقعات میں خاطر خواہ کمی لانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ جنگلوں کے خاتمے کی خبر میرے لئے عجیب تھی۔دل پیڑوں کی حفاطت کرنے والوں پر نثار ہورہا تھا کہ اِس خوف سے درخت ہی کاٹ دئیے ہیں کہ کہیں کوئی چرا کرنہ لے جائے۔تحقیق کہ اٹک سے لیکر سندھ کے بارڈر کوٹ سبدل تک اب درختوں کا ذخیرہ کہیں نظر نہیں آتا۔میں چوری ختم کرنے کے اِس شاندار طریقے پرمتعلقہ ادارے کے اعلیٰ عہدیداران کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔(ایں سعادت بزورِ بازو نیست)
مجھے کندیاں کے گھنے جنگلوں کا بہت دکھ ہے میں جوانی میں وہاں شکار کھیلا کرتا تھا۔شوق ِشکار کے سبب کچھ فارسٹ گارڈ زسے اب تک علیک سلیک ہے ۔جب میں نے ایک جاننے والے گارڈ سے درختوں کے اجتماعی قتل عام کا سبب پوچھاتو عجیب کہانی سامنے آئی ۔اس نے بتایا ہے کہ ’’جنگل اوپر والوں کے حکم سے کاٹے گئے مگر جنگلات کی تباہی و بربادی کی ساری ذمہ داری نیچے والوں پر ڈال دی گئی ۔ خودمجھ پر ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی ریکوری ڈالی گئی ہے۔صرف مجھ پرہی نہیں پنجاب کے تمام فارسٹ ڈویژنوں میںمجھ جیسے بے شمارچھوٹے ملازمین پر کروڑوں روپے کے نقصان کی ریکوریاں ڈالی گئی ہیں۔ کروڑوں روپے کے درخت ہم معمولی ملازم کس طرح کاٹ کر لے جا سکتے ہیں۔ اگرجنگلوں کا خاتمہ واقعی چھوٹے ملازمین ہی نے کیا ہے تو پھر بڑے افسران اس وقت کہاں سو رہے تھے ۔اُ س کے بقول اگر مختلف فارسٹ ڈویژنوں کے فارم نمبر گیارہ کی پڑتال کی جائے توبہت سے فارسٹ گارڈ ایسے نظر آئیں گے جن پر پچاس سے ستر لاکھ روپے کی ریکوریاں ڈالی گئی ہیں۔ اگر ہم فارسٹ گارڈز اپنی عمربھر کی تنخواہیں بطور ریکوری قومی خزانے میں جمع کروادیں توتب بھی واجب الادا رقم پوری نہیں ہو سکتی ۔ جبکہ افسران کو بچانے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔یوں انکوائری رپورٹیں سیکشن آفیسرز کے رحم و کرم پر رہ جاتی ہیں۔ ‘‘
درختوں کے کٹ جانے کا دکھ جہاں پرندوں کو تھا وہاں اعلیٰ افسران کو بھی کچھ دیر پریشانی لا حق رہی۔ انڈے کھاتے کھاتے جب اچانک مرغی ذبح کر لی جائے تو ایسی کیفیات دلوں میں وارد ہوتی ہیں۔ بہرحال وہ زیادہ دیر خسارے میںنہیں رہے۔انہوں نے جلدہی کچھ اور فائدہ مند ذرائع تلاش کرلئے۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق محکمہ جنگلات کے لال سوہانرا نیشنل پارک (بہاول پور)سے کروڑوں روپے کی مالیت کے ڈھائی سو سے زائدانتہائی قیمتی ہرن لا پتہ ہو گئے ۔حکام ِاعلیٰ کو جیسے ہی معلوم ہوا تو انہوںنے اِس مقدمے پر فوری کارروائی کرتے ہوئے روایت کے مطابق ایک کمیٹی تشکیل دے دی ۔ کمیٹی کے ارکان نے پارک کا دورہ کیا یعنی جائے وقوعہ کا معائنہ کیااورجو چوری ہونے سے بچ گئے تھے ان ہرنوں کی تعداد سے متعلق حتمی رپورٹ مرتب کی اور فیصلہ کرنے والوں کے سپرد کردی۔اطلاع کے مطابق رپورٹ میںچوری ہوجانے والے ہرنوںکا ذکر نہیں کیا گیاتھا ۔بیچارے گم شدگان کو کون پوچھتا ہے۔(چاہے آدمی ہوں یا ہرن )جب گم ہونے والوں کا ذکر نہیں تھا تو گم کرنے والوں کا کیسے ہوسکتا تھا۔ سومعاملہ دبا دیا گیا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایک لاکھ27 ہزار ایکڑ پر محیط لال سوہانرا نیشنل پارک میں دوبارہ انہی ہرنوں کے ساتھ واردات ہوئی ہے۔ پارک کے نئے انچارج نے ان کی تعداد پرتحفظات کا اظہار کیا تو سیکریٹری جنگلات نے ہرنوں کی گنتی کے لئے پانچ رکنی کمیٹی تشکیلذ دے دی ۔ کمیٹی نے ہرنوں کی تعداد میں نمایاں کمی محسوس کی۔ دفتری ریکارڈ کے مطابق پارک میں ساڑھے تین سو سے زائد چنکاڑے اور کالے ہرن ہونے چاہئے تھے لیکن پارک میں دوسو سے زیادہ ہرن موجود نہیں۔سو پھر کمیٹی بنادی گئی ہے۔
یہ ہرنوں کی وہ نایاب قسم ہے جس کے شکار پر دنیا بھر میںپابندی عائد ہے ۔ فطرت کے حسن اور صناعی کا یہ شاہکار مسلسل دنیا میں معدوم ہوتا جارہا ہے ۔فطرت کے اس بیش بہا تحفہ کا تحفظ کرنا ہم پر فرض ہے۔ بہر حال پنجاب میں اتنی بڑی تعداد میںہرنوں کا غائب ہونا کسی المیہ سے کم نہیں ۔وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو فوری طور پرپیڑوں پرندوں چرندوں اور درندوںکی گم شدگی کا نوٹس لینا چاہئے کیونکہ ان کا شمار بھی ان کی رعایا میں ہوتا ہے۔رعایا سے یاد آیا کہ رعایا کو بغاوت پر آمادہ کرنے والے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری دونوں انڈیا میں موجود ہیں۔شیخ رشید بھی پہنچ چکے ہیں۔یہ لوگ غزالوں کی طرح گمشدہ تو نہیں ہیں مگران کی خبر ضروررکھئے ۔ایسا نہ ہوکہ کل کہیں نون لیگ والوں کو لندن سازش کی طرح کلکتہ سازش کی کہانیاں نہ بُننی پڑجائیں۔
mansoor afaq

