23مارچ کا پاکستان۔ منصورآفاق
دیوار پہ دستک

23مارچ کا پاکستان

23مارچ کا پاکستان

منصورآفاق

آج یوم پاکستان ہے ۔ یعنی23 مارچ ہے. وہ دن ہے جب لاہور کے منٹو پارک میں مسلمانوں نے اپنی علیحدہ مملکت کے قیام کی تحریک کا آغاز کیا تھا۔یہی دن تھا جس نے دو قومی نظریہ کو اپنی پوری آب و تاب سے برِ صغیر کے آسمان پر ثبت کردیاتھا۔لوگ کہتے ہیں پاکستان اسی دن کی بدولت وجود میں آیامگر میں سمجھتا ہوں کہ اس دن کی بدولت ہندوئوں کوایک ہزار سال کے بعد آزادی نصیب ہوئی تھی۔پاکستان تو اُس دن وجود میں آگیا تھا جب عربستان سے آنے والے پہلے شخص کے نقشِ پااس زمین پربنے تھے۔جب اس زمین پر پہلی مسجد تعمیرہوئی تھی ۔جب یہاں پہلا ترانہ لکھا گیا تھا ۔ابھی پاک بھارت میچ میں شفقت ا مانت علی خان نے قومی ترانے میں غلطی کی تو کسی نے کہا ’’یہ ترانہ مشکل بہت ہے اس میں سارے عربی اور فارسی کے لفظ ہیں۔کوئی نیا قومی ترانہ بنایا جائے‘‘۔مجھے اس بات سے بہت تکلیف ہوئی ۔بے شک ہم نے قوم کوعربی اور فارسی کی جگہ انگریزی زبان سکھانی شروع کر رکھی ہے ۔شاید دنیا میں سر اٹھا کر جینے کیلئے ہم غلام مزاج لوگوں کیلئے انگریزی سیکھنا انتہائی ضروری ہے مگر کئی ترقی یافتہ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں انگریزی کی وہی حیثیت ہے جو پاکستان میں فارسی کی ہے۔ترانہ تبدیل کرنےکی بات پرویزمشرف دور میںبھی بہت پھیلائی گئی مگر پذیرائی نہیں مل سکی تھی۔پرویز مشرف تو پاکستان کے نام سے’’ اسلامی جمہوریہ‘‘ کے لفظ بھی نکال دینے چاہتے تھے ۔ 21 ستمبر2003ءکو امریکہ میں متعین پاکستانی سفیر اشرف جہانگیر قاضی نے اپنے صدر جنر ل پرویز مشرف کے اعزاز میںنیو یارک میں عشائیہ دیا تو اس کا جو دعوت نامہ تقسیم کیاگیا اس میں’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ کی بجائے "ڈومینین (DOMINION) آف پاکستان کے الفاط لکھے گئے تھے ۔ ڈومینین ایک لقب ہے جو برطانوی دولت مشترکہ کے خود مختار ممالک کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس سلسلے میں قائداعظم محمد علی جناح کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جو انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں 11اگست1947ء کے روز کی تھی۔ اُس میں کہا تھا۔’’ہمیںاس یقین سے کام کا آغاز کرناچاہئے کہ کچھ ہی عرصے میں اکثریت، اقلیت اور ہندو ومسلم قومیتوں کی تمام بدنمائیاں غائب ہو جائیں گی۔ کیونکہ مسلمان ہونے کی حیثیت میں بھی ہمارے اندر پٹھان ،پنجابی ، شیعہ ، سنی وغیرہ موجود ہیں ۔ہندوئوں میں بھی برہمن ، ویشنو، کھتری ،بنگالی اور مدراسی وغیرہ ہیں۔اگر مجھ سے پوچھتے ہو تو یہ چیز ہندوستان کی آزادی اور خود مختاری میںسب سے بڑی رکاوٹ رہی۔اگر یہی چیز (ہم ہندوستانیوں میں ) نہ ہوتی تو ہم کب کے آزاد ہوچکے ہوتے۔دنیا کی کوئی طاقت چالیس کروڑ لوگوں کی قوم کواپنا غلام بنا کر نہیں رکھ سکتی۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو تمہیں کوئی مفتوح نہ بنا سکتا۔محکوم کر بھی لیتا تو زیادہ دیر تک اپنا تسلط برقرار نہ رکھ سکتا۔اب تم آزاد ہو۔اس مملکت پاکستان میں تم اپنے مندروں ،مسجدوں اور دوسری عبادت گاہوں میں آزادانہ جا سکتے ہو ۔تمہارا مذہب ، تمہاری ذات، تمہارا عقیدہ کچھ بھی ہو۔کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔تم جانتے ہو کہ کچھ عرصہ پہلے انگلستان کے حالات ہندوستان سے بھی برے تھے۔رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عقیدے کے لوگ ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانے میںمصروف تھے۔ اس وقت بھی دنیا میں ایسی مملکتیں موجود ہیں جن میں صرف ایک خاص طبقے کے خلاف امتیازات برتے جارہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم ایسی صورتحال میںاپنی مملکت کا آغاز نہیں کررہے۔ ہماری ابتداء تو ایسے ایام میں ہورہی ہے جب ذاتیں،قومیتیں اور مسلک ایک دوسرے سے مل رہے ہیں۔ فرق اور امتیاز ات ختم ہورہے ہیں۔ ہم تمام اِس مملکت کے مساوی شہری ہیں۔ انگلستان میں بھی لوگوں کواُن ذمہ داریوں اور مشکلوں سے گزرنا پڑا تھا جو ان کی حکومت کی طرف سے ان پر عائد کر دی گئی تھیں، وہ لوگ اِس آگ میں سے گزر چکے ہیں۔آج تم کہہ سکتے ہوکہ کسی ر ومن کیتھولک اورپروٹسٹنٹ کاماضی کی طرح اب کوئی وجود باقی نہیں رہا ۔ آج صرف یہ حقیقت موجود ہے کہ ہر آدمی عظیم برطانیہ کا شہری ہے اور ہر ایک شہری کی مساوی حیثیت ہے۔تمام لوگ ایک قوم کے افراد ہیں ۔ میرے خیال میں اب ہمیں بھی اسی نصب العین کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔ تم دیکھنا کہ ایک وقت آئیگاجب کوئی ہندو ہندو نہیں رہیگا جب کوئی مسلمان مسلمان نہیں رہے گا ۔مذہبی معنوں میں نہیں۔ مذہب تو ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے ۔ سیاسی معنوں میں سب ایک مملکت کے شہری ہونگے ‘‘

میرے نزدیک ان کی تقریر کے اس پیراگراف کاقطعاً یہ مفہوم نہیںکہ انہوں نے پاکستان کی بنیاد د قومی نظریہ پر نہیں رکھی تھی۔مگر یہ طے ہے کہ وہ جدید اور لبرل پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ مگرسیکولر پاکستان نہیں۔لبرل اور سیکولر کا فرق اہل علم سمجھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ مذہب کی بنیاد پرپاکستانی ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہیں۔ان کے نزدیک بھی پاکستان کا مطلب کیا ۔لاالہ الاللہ ۔تھا مگرایسا نہیں کہ جیسا ہم نے سمجھ لیا ہے کہ بنام ِ مذہب ا سکولوں میں بچوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ قائداعظم نے جو پاکستان بتایا تھا اس کا نام’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘نہیں تھا۔ یہ نام1956کے آئین میں پاکستان کو دیا گیا ۔پھر اسے1973کے آئین میں بھی شامل کرلیا گیا۔اگرچہ پرویز مشرف نے اُس آئین میںکئی تبدیلیاں کرائی تھیں مگر نام بدلنے کی ہمت نہیں کرسکے تھے۔آج کل پرویز مشرف کے پاکستان سے چلے جانے کا بہت شور و غوغا ہے۔ وزیر داخلہ نے تویہا ں تک کہہ دیا ہے کہ’ اگر عدالت نے کہا تو ہم انہیں انٹرپول کے ذریعے واپس لائینگے‘۔ممکن ہے درست کہہ رہے ہوں مگر ان کی اس بات پر یقین نہیں آتا۔لگتا ہےیہ جملہ اپوزیشن کے دبائوپر منہ سے پھسل گیا ہے ۔جنرل پرویز مشرف جب یہاں تھے توحکومت انہیں عدالت نہیں لے جا سکی ۔خواہش کے باوجود ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی نہیں ڈال سکی ۔اب تو وہ آزاد دنیا کے آزاد شہری ہیں اورصرف کوئی عام پاکستانی شہری نہیں ہیں۔ سابق صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف ہیں۔جنہیںچند روز پہلے ایئر پورٹ سے ریسیو کرنے صبح سویرے عرب امارات کے اعلیٰ عہدیدار آئے تھے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے