
ڈاکٹر عامر لیاقت کیوں؟
ڈاکٹر عامر لیاقت کیوں؟
منصور آفاق
کافی عر صے سے پاکستان کا امیج دہشت گردی کے عفریت کے جبڑوں میں تھا ۔الحمدللہ ہم اسے نکالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔مگر جگہ جگہ دانتوں کے زخم موجود ہیں جن کا علاج جاری ہے ابھی اقوام متحدہ میں ہونے والی صوفیانہ میوزک کی شام بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔بر صغیر میں مذہبی انتہا پرستی کا آغاز اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں شروع ہوا۔اس دہشت گردی کا شکار ’’سرمد ‘‘ تھا۔سرمد الوہیت کی تلاش میں خرد سے گزر جانے والی ایک شخصیت تھی۔اُنہوں نے ترکِ دنیا کرتے ہوئے دینِ اسلام کاوہ راستہ اختیار کیا جو اس وقت کی مذہبی اور سیاسی حاکمیت کو قابلِ قبول نہیں تھا ۔ زندگی میں ان کی حیثیت ایک خرد مند مجذوب کی تھی شہیدہونے کے بعدوہ ایک باغی مجذوب کی حیثیت سے مشہور ہوئے ۔ مغل بادشاہ شاہجہاں کے بیٹے دارا شکوہ سے ان کی بہت دوستی اور نظریاتی ہم آہنگی تھی۔ اورنگ زیب نے انہیں مسجد میں آکر نماز پڑھنے کی درخواست کی تھی۔ اس زمانے میں ہر مسلمان پر فرض تھا کہ وہ حکومت کی تسلیم شدہ مساجد میں آکر نماز ادا کرے۔ سرمد نے مسجد میں آکر نماز پڑھنے سے انکار کردیا۔ اور پھر اتنے سے جرم کی پاداش میں انہیں جاں سے گزرنا پڑا۔اس لئے میں نے انہیں برصغیر میں مذہبی دہشت گردی کا پہلا شکار کہا ہے ۔ بس اسی دن سے ہندو پاک میں کفر کے فتوے موت کا پیغام بنتے آرہے ہیں۔ پاکستان میں مذہب کے نام پرمسلمانوں کاجتنا قتل عام ہواشاید ہی تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجود ہو۔ ضرب عضب سے کچھ بہتری ہوئی ہے وگرنہ کچھ عرصہ پہلے تک سچ کہنے والوں کی زندگیاں قاتلوں کے انتظار میں پھرتی تھیں۔ ابھی جو وزارت داخلہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف مسلسل بیان بازی کے باعث جیو کے ہردلعزیز اینکر ڈاکٹرعامر لیاقت کی زندگی خطرے میں ہے ۔ انہیں کسی بھی وقت جان لیوا حملے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ میرا خیال ہے اِس بات کایہی ثبوت بہت ہے۔ حیرت ہے وزارت داخلہ نے ڈاکٹر عامر لیاقت کو اپنی سیکورٹی سخت کرنے کی ہدایت کی ہے۔ حالانکہ انہیں سیکورٹی دیناتو حکومتِ وقت کا کام ہے ۔ بہر حال انہیں کچھ بھی ہوا تو اس کی ذمہ دار ی موجودہ حکومت پرہوگی ۔اس طرح کے لوگ جب کسی تہذیب میں قتل ہوتے ہیں تو پھر وہ تہذیبیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔ مغل تہذیب جو اپنے دور میں ایک بہت بڑی تہذیب گردانی جاتی تھی اس واقعہ کے بعد کتنی کم مدت میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ختم ہو گئی۔ مجھے یہ بات لکھتے ہوئے خوف محسوس رہا ہے کہ کہیں ہماری تہذیب کے خون سے لتھڑے ہوئے ہاتھ ہمیں بھی کسی ایسے ہی خوفناک انجام سے دوچار نہ کردیں ۔
مجھے پھر سرمد یاد آرہا ہے۔ بے شک سرمد جیسے لوگوں کیلئے دنیاوی قوانین بازیچہ ء اطفال سے زیادہ نہیں ہوتے ۔کہتے ہیں کہ جب ان کی گردن جسم سے جدا ہوگئی تھی تو اس وقت بھی ان کی انگلی اپنے لہو میں ڈوب کراللہ کا نام لکھتی چلی جارہی تھی۔ ان کا سر کے بغیر دھڑ کئی قدم چلا تو ان کے مرشد جنہیں وہ’’ہرے بھرے صاحب‘‘ کہتے تھے انہوں نے سرمد سے کہا ’’اپنے راز کو فاش مت کر‘‘تو ان کا سربریدہ بدن مردہ حالت میں زمیں پر گر پڑا۔ جسم ، احساس اور دماغ کے علاوہ ایک چیز روح بھی ہے جس کی کبھی موت واقع نہیں ہوتی۔اور اس کا تعلق وحدت ِ کل سے ہے، خدا کی ذات میں اپنی ذات کو فنا کر دینے والی روحیں خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو اتنا زیادہ مضبوط کرلیتی ہیں کہ خدا خود ان کے ہاتھ پائوں بن جاتا ہے کیونکہ زمینوں اور آسمانوں کا نور ہے جس طرح طاق میں چراغ، اور چراغ میں شیشہ، اتنا چمک دارجیسے ستارہ اور یہ روشن ہے زیتون کے تیل سے جو کہ نہ مشرق کا ہے اور نہ مغرب کا اور جو بے پناہ روشن ہے روشن در روشن ہے مگر اسے آگ چھو کر نہیں گزری اور خدا اپنی اس روشنی تک ان لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے جنہیں چاہتا ہے۔
ڈاکٹر عامر لیاقت کو دہشت گرد کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں ۔کیا جرم کیا ہے انہوں نے ۔کس طرح کا کفر سرزد ہوا ان سے ۔ یہی کہ امن اور اخوت کے پرچارک ہیں۔ فرقہ واریت کے خلاف ہیں ۔ دہشت گردی کو اسلام میں حرام سمجھتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں ۔ہاں ابھی کچھ دن پہلے انہوں نے کہا کہ باچاخان یونیورسٹی پر حملہ علم پر جہالت کاوار ہے اور جاہلوں نے انہیں اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ اللہ نہ کرے انہیں کچھ ہو۔ پہلےہی پاکستان میں بے شمار سرمدوں کی قبریں قطار در قطار بن چکی ہیں ۔اجل کی زد پہ ہے میرا قبیلہ۔ میں قبریں گنتے گنتے تھک گیا ہوں۔ بہرحال ان شہیدوں کا تعلق عوام سے ہو یا افواجِ پاکستان سے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانیں دے کر اس ملک کو ایک زندگی دی ہے ۔ہم اسی کربلا سے گزرے ہیں جس کے بعد اسلام زندہ ہوتا ہے ۔ میری خواہش ہے کہ ان تمام کا رنگ سرخ کردیا جائے ۔ تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چلے کہ یہ کن شہیدوں کی قبر یں ہیں۔ سرمد کی قبربھی سرخ ہے ان کے ماننے والوں نے علامت کے طور پر اس قبر کارنگ سرخ رکھا ہوا ہے۔ ان کی قبر کے حوالے سے کسی شاعرنے کہا ہے
سرمد کی قبرسرخ ہے یاسبز اِس سے کیا
ہر ظلم پوش حکم سے انکار۔ اس کانام
پاکستان سے اس مذہبی شدت پسندی کے خاتمے کیلئے ابھی بہت کچھ کرناضروری ہے ۔ایک ضرب عضب تو اسلحہ بردار شدت پسندوں کے خلاف جاری ہے ۔ایک ضرب عضب کی ابھی اور ضرورت ہے ۔وہ ضرب عضب کا آپریشن جودماغوں میں کیا جائے گا ۔جب تک کینسر زدہ دماغوں کی تطہیر نہیں ہوگی ۔اس وقت تک یہ ناسور اس معاشرے میں پنپتا رہے گا۔ اور اس جنگ کیلئے کچھ مقدس دیوانوں کی ضرورت ہے جو شدت پسند رویوں کی شدید مخالفت سے بے خوف اپنی سچائیوں کو پھیلاتے رہیں ۔ لوگوں کو بتاتے رہیں کہ کائنات میں انسان سے کوئی زیادہ شے محترم نہیں ۔ایک انسان کاقتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔جن کےہاتھ دعا کیلئے اٹھیں ۔بددعا کیلئے نہیں ۔ صرف یہی لوگ پاکستان میں دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کرسکتے ہیں۔

