
ملاقاتیں ادھوری ہیں
ملاقاتیں ادھوری ہیں
منصور آفاق
چند گھنٹوں کے فرق سے دو وفاقی وزراء اور ایک وزیراعلیٰ کی جنرل راحیل شریف سے راولپنڈی میں ملاقاتیں بہت مثبت قرار دی جارہی ہیں۔اطلاع کے مطابق ان ملاقاتوں سے حکومت اور افواج پاکستان میں بڑھتی ہوئی خلیج خاصی کم ہوئی ہے اور قوم نے دہشت گردی کی جنگ میں فتح کی طرف ایک قدم اور بڑھایا ہے ۔ورلڈ بنک کے دبائو پرافواج ِ پاکستان کے بجٹ میں کٹوتیوں کی غیر مستند خبریںبھی دم توڑ گئی ہیں۔برے اور اچھے دہشت گردوں کی تفریق کے خاتمے پر ایک بارپھر اتفاق رائے ہواہے۔حکومت کی طرف سےقومی سلامتی کو دائو پر لگا کر بھارت سے اچھے مراسم بنانے کی افواہوں کی مکمل طور پر تردید ہو گئی ہے۔مجھے یقین ہے کہ آئندہ کسی شوگر مل میں کسی بھارتی انجینئر کو اس وقت تک ملازمت نہیں دی جائیگی جب تک آئی ایس آئی اس کی کلیئرنس نہ دیدے۔
پٹھان کوٹ کے واقعہ پراقوام متحدہ میں بھارتی درخواست( جس میںمسعود اظہر کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں ڈالے جانے کا مطالبہ کیا تھا) کو چین نے ویٹو کر کے پاکستان کے ساتھ ایک بار پھر بھرپور دوستی کا ثبوت دیا ہے مگرابھی تک پاکستانی حکومت نے’’را ‘‘کے گرفتارشدہ فیلڈ کمانڈر کل بھوشن سے حاصل ہونے والے بھارتی دہشت گردی کے ثبوت دنیا کے سامنے پیش نہیں کئے ۔جس کی پاکستانی عوام کو خاصی تشویش ہے ۔ان ملاقاتوں میں یہ بھی طے پاگیا ہے کہ کل بھوشن سے ملنے والی معلومات اور دستاویزات کی بنیاد پر حکومت بھارت کے خلاف دنیا بھر میں آواز بلند کرے گی اور اگرممکن ہوا تو عالمی عدالت میں بھارت کے خلاف دعویٰ بھی دائر کیا جائیگا۔یقینااب اس حوالے سے حکومتی خاموشی بھی ختم ہوجائے گی۔ چین کے ویٹو کرنے پر بھارتی وزیر داخلہ نے جس انداز میں چین کے خلاف دھمکی آمیزگفتگوکی ہے اُس سے صاف واضح ہے کہ بھارت ہر اس ملک کو اپنا دشمن سمجھتا ہے جوکسی بھی معاملے میں پاکستان کا ساتھ دیتا ہے۔ اس وقت ایران اور سعودی عرب دونوں کی پاکستان کے ساتھ دوستی، نریندر مودی کے دوروں کے سبب، کمرہ امتحان میںہے ۔ ویسے ماضی میں یہ دونوں ممالک دوستی کے امتحانوں میں زیادہ تر کامیاب رہے ہیں۔پٹھان کوٹ کے واقعہ پر موجودہ حکومت نے گوجرانوالہ کے ایک تھانے میں باقاعدہ مقدمہ درج کرایا ۔پاکستانی ٹیم تحقیقات کیلئے بھارت بھیجی ۔اس کے باوجود بھارت اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور مطالبہ کیا کہ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دیاجائے۔یعنی بھارت کی نیت اس معاملے میں قطعاً درست نہیں لگتی۔ اب بھارت کی تحقیقاتی ٹیم پاکستان آرہی ہے ۔میری سمجھ میں تو نہیں آرہا کہ وہ پاکستان آکر کیا کرے گی ۔کس دہشت گرد سے ملے گی ۔کس کا انٹرویو کرے گی ۔ابھی تک تو یہ بات بھی طے نہیں ہوسکی کہ پٹھان کوٹ کے واقعہ میںکوئی پاکستانی ملوث ہے بھی یا نہیں ۔یقینا بھارتی ٹیم پاکستان میں چند روز گھوم پھرکر واپس جائے گی اور پھرپاکستان پر نئے الزامات کی بارش ہوجائیگی ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی سانحہ گلشن اقبال کے بعدپنجاب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سپہ سالار کا کردارادا کرنا چاہتے ہیں ۔اگرچہ آرمی چیف سے ملاقات میں یہ بات طے ہوگئی ہے کہ ہر آپریشن کی اطلاع وزیر اعلیٰ کو ضرور دی جائے گی۔مگر یہ بھی ممکن قرار دیا گیاہے کہ کہیں آپریشن کی فوری ضرورت محسوس کرتے ہوئے پہلے آپریشن کردیا جائے اور بعد میں اطلاع دی جائے ۔پنجاب کیلئے لاہور میں رینجرزکی انسداد دہشت گردی فورس کے کمانڈوز کا نیا دستہ اپنی ٹریننگ مکمل کرچکا ہے۔ اگلے چند دنوں میںوزیر اعلیٰ خود پنجاب میں رینجرز بھیجنے کیلئے درخواست کرنے والے ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ انہیں خصوصی اختیارات دینے پر ابھی تک پنجاب حکومت تیار نہیں مگر اختلافات ابھی تک وہاں نہیں پہنچے جہاں سے واپسی نہ ہوسکے ۔بس ابھی کچھ معاملات پر ملاقاتیں ادھوری ہیں۔ ان ملاقاتوںکا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اب آئی ایس پی آرکے ڈائریکٹر جنرل عاصم سلیم باجوہ کی طر ف سے ہونے والے ٹوئٹس اورپنجاب میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے موضوع پر وزرا کے بیانات ایک جیسے سنائی دیں گے ۔مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میرے کالم کے شائع ہونے سے پہلے پہلے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ کو پنجاب کے دفاتر سے دہشت گردی کے ساتھ جڑی ہوئی کرپشن کی فائلیں اٹھاتے ہوئے رینجرزکے سپاہی غیر نہیں بلکہ اپنے اپنے لگنے لگ جائیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پنجاب نے بہت سےایسے شدت پسندوں کو انجام تک پہنچادیا ہے جن کی کسی زمانے میں پنجاب میں بڑی اہمیت تھی ۔جنہیں جیل کے باہر بھی اور جیل میںپورا پورا پروٹوکول ملتا تھا ۔ان میں کچھ ایسے نام بھی ہیں جنہیں مالی امدادبھی ملتی تھی مگر ایسے تمام شواہد اب فسانے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے مگر اس بات کی تشویش ضرور ہے کہ پنجاب بھر میں جہاں جہاں افواج پاکستان کا آپریشن شروع ہوگا وہاںوہاںفوری طور پراقتدار کی طاقت کا منبع بدل جائیگا۔پولیس اور ضلعی انتظامیہ پس منظر میں چلی جائے گی اورتمام ترطاقت رینجرز اور ملٹری کے پاس منتقل ہوجائے گی۔آپریشن کا آغاز ہوتے ہی پنجاب کا چیف سیکرٹری تبدیل کردیا گیا ہے۔ اب چیف سیکرٹری کیپٹن(ر) زاہد سعید ہیں راولپنڈی میں میٹرو بس سروس کے پروجیکٹ پر انہیںصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی دیا گیا تھا ۔پنجاب لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کاسہرا بھی انہی کے سرہے ۔وزیر اعلیٰ انہیں اپنے بہت قریب محسوس کرتے ہیں، وہ ریٹائرڈ فوجی بھی ہیں ۔سو پنجاب میںآپریشن کے دوران ان سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں ۔یقینا وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بہتر مشورے بھی دیں گے۔اور دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں اُس ادارے کابھرپور ساتھ دیں گے جو اُن کی بنیاد ہے ۔کہتے ہیں فوجی ریٹائرڈ ہو کر بھی فوجی ہی رہتا ہے۔

