
پاناما لیکس فرینڈ شپ
پاناما لیکس فرینڈ شپ
منصور آفاق
آئی ایس پی آر کی پریس ریلیزپڑھ کر ایک دوست نے بڑی حیرت سے کہا کہ’’ کومب تو کنگھی کو کہتے ہیں۔یہ کنگھی کرنے کاکیا آپریشن ہوا ‘‘میں ہنس پڑا اور میں نے کہا ’’ سروں میںجوئیں جب بڑھ جاتی ہیں۔بالوں میں لیکھوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں تو پھرانہیں ڈھونڈنے کیلئے باریک کنگھیوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔گھوڑے کی جلد پر جو کھریراپھیرا جاتا تھا اسے بھی کومب کہتے ہیں ۔مگر افواج پاکستان نے اس لفظ کااستعمال تفتیش کے سلسلے میں کسی جگہ کوچھان ڈالنے کیلئے کیا ہے ۔مگر اِس آپریشن میںکنگھی کا مفہوم بھی بڑی بامعنویت رکھتا ہے ۔سچ یہی ہے کہ بال جوئوں سے اٹے ہوئے ہیں سو سروں کی مکمل صفائی ناگزیر ہے۔ افواج پاکستان نے ہرحال میں چن چن کرناپسندیدہ عناصر کواپنے منطقی انجام تک پہنچانا ہے ۔اگرچہ اِس آپریشن کا ایریا چاروں صوبوں پر مشتمل ہے مگر تین صوبوں میںتو پہلے ہی ملک دشمن افراد کے سروں کے جھاڑ جھنکاڑ کاٹے جارہے ہیں۔لگتا ہے یہ لوہے کا نوک دارکنگھا تقریباً 95فیصد پنجاب کے میدانوںمیں پھیرا جائے گا ۔اس کی زد میں محلات بھی آئیں گے اور کوٹھیاں بھی ۔خاص طور لاہور میں اس بات کا بہت امکان ہے کہ اس کے پھیرنے کے بعد آثار ِ قدیمہ کے محکمے کو کچھ ٹوٹی پھوٹی عمارتیں اوربھی مل جائیں ۔ پہلے بھی آثار قدیمہ کے حوالے سے لاہور بڑا اہم شہر ہے ۔ اس میں بڑے بڑے حکمرانوں کے شالامار بھی ہیں اور مقبرے بھی ۔ شیش محل بھی ہیں اوربارہ دریاں بھی۔جو عبرت سرائے دھر ہیں ۔مگر افسوس کہ ہم لوگ ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ بے شک انسان خسارے میں ہے۔ کومبنگ آپریشن کا اعلان اگرچہ کچھ دن پہلے جنرل راحیل شریف نے کیا تھا مگر اس وقت یہ کنگھا اتنا باریک نہیں تھامگر کورکمانڈرز کی میٹنگ سے کچھ دیر پہلے ایک آڈیو ٹیپ کچھ کورکمانڈرز کو سنائی گئی ۔جس میںتاثر دیا گیا ہےکہ مسلم لیگ ن کے بعض افراد ملک کے اہم ادارے کے خلاف منفی تاثرپھیلانا چاہتے ہیں ۔شاید اُسی ٹیپ کی وجہ سے کنگھےکے دندانوں کے بارے میں زیادہ باریکی سے غور کیا گیا۔کچھ اور اوزار بھی تیار کئے گئے جنہیں وقتِ ضرورت استعمال میں لایا جا سکے گا۔
یہ لوہے کا نوک دار کنگھا یقینا حکومت کیلئے خاصا تکلیف دہ ہوگا ۔افواج پاکستان اور حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کا اندازہ تو اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چار اپریل کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے درمیان کوئی واضح رابطہ نہیں ہوا ۔کوئی ملاقات نہیں ہوئی ۔اس وقت حکومت کا خیال ہے کہ کومنبنگ آپریشن کی اجازت افواج ِ پاکستان نے حکومت سے نہیں لی ۔اس لئے اس بارے میں کھل کر بات کی جائے ۔جب کہ افواج پاکستان کے نزدیک نیشنل ایکشن پلان کے بعدانہیں کسی اور اجازت کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔پچھلے کافی دنوں سے آئی ایس پی آر کی طرف سے کوئی ٹوئٹ بھی نہیں آیا ۔خاموشی ہی خاموشی ہے مگر دنیا جانتی ہے کہ خاموشی کے دامن میں ہمیشہ طوفان پرورش پاتے ہیں اور یہ بات تو پوری قوم جانتی ہے کہ ملک کی حفاظت کیلئے کوئی اور جاگے نہ جاگے پاک آرمی ضرور جاگ رہی ہے ۔یہ بھی طے ہے کہ گھر کو آگ لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو۔
پاناما لیکس کا پنڈورابکس بھی بند ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا ۔ایک اے این پی کے سوا تمام جماعتیں وزیراعظم کے استعفیٰ پر متفق ہو چکی ہیں حتیٰ کہ ایم کیو ایم نے بھی استعفیٰ کا مطالبہ کردیا ہے ۔دوسری طرف بلاول بھٹو نے بھی پیپلز پارٹی کا پوری طرح چارج سنبھال لیا ہے۔یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ سابق صدر آصف زرداری پاکستان واپس آنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ورنہ پیپلز پارٹی کے مردہ گھوڑے نے اتنی جلدی آنکھیں نہیں کھولنی تھیں ۔اور حکومت کیلئے سب سے خطرناک کپتان ہے ۔اس کی مقبولیت مسلسل بلندیوں پر ہے ۔صرف وہی ایک ایساہے جس سے وزیر اعظم نواز شریف خوفزدہ ہیں ۔اُن کے توپچیوں کی تمام تر توجہ کا مرکزوہی ہے ۔شاید انہیں یقین ہے کہ اگر کوئی ان کی حکومت گرانے میں کامیاب ہوا تو وہ عمران خان ہی ہوگا۔پھر انہیں دھرنا بھی یاد ہے ۔جس سے انہوں نے خدا خدا کرکے اپنی حکومت بچائی تھی۔اب عمران خان کے ہاتھ میں پاناما لیکس کی بندوق آگئی ہے۔ پاناما لیکس سے یاد آیا ۔چند دن پہلے میری ملاقات ایک انگریز وکیل سے ہوئی تھی ۔باتوں باتوں میںپاناما لیکس کا ذکر آگیا تو اس نے اس بات پر بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ پاکستانی وزیر اعظم نے ابھی تک استعفیٰ نہیں دیا۔میں نے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا نام لیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی تومستعفی نہیں ہوا تو وہ کہنے لگاکہ اس نے اپنی تمام چیزیں لاکر سامنے رکھ دی ہیں وہ کہیں گلٹی نہیں تھا مگرپاکستانی وزیر اعظم کے گلٹی ہونے کے تمام ثبوت موجود ہیں۔ان کےبچے ہر بات کا اقرار کر چکے ہیں ۔‘‘ میں نے کہا اگر ہم پاکستانی کہیں کہ ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر ‘‘ وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا’’پھر بھی وہ وزیر اعظم نہیں رہ سکتے ۔کیونکہ اب کسی اہم ملک کا سربراہ اپنے عوام کے خوف سے ان سے ملنے پر تیار نہیں ہو گا ۔ مثال کے طور اگر ڈیوڈ کیمرون ان سے ملتا ہے تو یہاں کے اخبار ’’پاناما لیکس فرینڈ شپ‘‘ کی کہانیاں سنانا شروع کردیں گے ۔سوناقدین کا خیال ہے کہ اب ہر حکمران اپنی عزت بچانے کیلئے پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات سے احتراز کرے گاا س لئے اپوزیشن کے بعض لوگوں کا بھی کہنا ہے وہ اب جلداز جلد استعفیٰ دے دیں ۔اسی میں ملک کی بہتری ہے ۔یہاں پرتوبرطانوی ادارے تحقیقات شروع کر چکے ہیںکہ وزیراعظم کی فیملی کا سرمایہ برطانیہ کیسے پہنچا ۔ منی لانڈرنگ ہوئی یا نہیں ۔
وزیر اعظم نواز شریف کے جلسے جاری ہیں۔کوئٹہ کے بعدگزشتہ روز بنوں میں ان کی آمد پرعام تعطیل کی گئی ۔تمام کاروبار بند کرادئیے گئے ۔افغان مہاجرین کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کردی گئی ۔بے شک یہ تمام جلسے پاناما لیکس کے دبائو کو کم کرنے کے لئے کئے جارہے ہیں ۔شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ اگروہ دنیا بھر کے عوام کو بھی اپنے ساتھ ملا لیں تو پھر بھی اس وقت تک ان کا دامن داغدار رہے گا جب تک سپریم کورٹ کا جوڈیشل کمیشن اپنی شفاف تفتیش کے بعد انہیں بے گناہ قرار نہیںدے دیتا۔

