
ملک ہم سے زیادہ اہم ہے
ملک ہم سے زیادہ اہم ہے
منصورآفاق
سب سے پہلے تو دعائے خیرہر اُس شخص کےلئے جس کے دل کا آپریشن ہونا ہے ۔پھر دعائے خصوصی وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کیلئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلد صحت ِ کاملہ عطا فرمائے ۔دل کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔دل کے آپریشن کئی طرح کے ہوتے ہیں مگر جس آپریشن میں سینہ کھول دیتے ہیں ۔وہ خاصا تشویشناک سمجھا جاتا ہے ۔مجھے تو اس کے تصور سے بھی ہول آتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم بے شک بہت بہادر ہیں کہ انہوں نے ایسے وقت میں قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں بذریعہ ویڈیو لنک آئندہ مالی سال کے بجٹ ،مالیاتی بل 2016-2017ء کی منظوری دی۔جب انہیں معلوم تھا کہ صبح ڈاکٹرز نے ایک آری نما آلے کے ساتھ پسلیوں کو درمیان سے کاٹنا ہے ۔پھرانہیں زور سے کھینچ کر ایک دوسرے سے اتنا دور کردینا ہے کہ سینے میں پڑے ہوئے دل پر ہاتھ ڈالا جا سکے ۔میں نے دل کے آپریشن کی ایک ویڈیو دیکھی ہے ۔ دل کا آپریشن بہت حیرت انگیز ہوتا ہے ۔ ڈاکٹردل کوسینے سے باہر نکال لاتے ہیں اور پھر اس میں رفو گری کا کام شروع کرتے ہیں مصحفی نے کہا تھا۔
مصحفی ہم تو سمجھتے تھے کہ ہوگا کوئی زخم تیرے سینے میں بہت کام رفو کا نکلا،بے شک دل کے آپریشن میں رفوکا کام بہت ہوتا ہے ۔ دل کی باریک باریک ناڑوں کو کہیں سے کاٹنا پڑتا ہے اور کہیں جوڑنا پڑتا ہے۔ الحمدللہ میڈیکل سائنس نے اس میدان میں بہت ترقی کرلی ہے ۔سو زیادہ تر آپریشن کامیاب ہی ہوتے ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ کالم کی اشاعت تک کامیابی کے ساتھ وزیر اعظم نواز شریف کا آپریشن مکمل ہو چکا ہوگا مگر اصل مسائل آپریشن کے بعد سامنے آتے ہیں ۔دراصل آپریشن کے بعد مریض عام آدمیوں کی طرح زندگی گزار ہی نہیں سکتا۔ اسے باقی زندگی بہت احتیاط سے بسر کرنا پڑتی ہے ۔ تین ماہ تک ہوائی سفر کی ڈاکٹر اجازت نہیں دیتے ۔پہلے چار ہفتے تو مریض کوانتہائی نگہداشت میں رکھا جاتا ہے ۔یعنی تین ماہ تک پاکستانی وزیراعظم کا پاکستا ن آنے کا کوئی امکان نہیں ۔
مریض کو ہر طرح کے ذہنی دبائو سے دور رکھا جاتا ہے ۔ایسی کوئی بات مریض کو نہیں بتائی جا سکتی جس سے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوجائیں ۔کم ازکم چھ ماہ مریض نے ٹینشن فری زون میں گزارنے ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد بھی مریض کو کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ ایسا نہ کرے جس سے دماغ پر زیادہ دبائو پڑے ۔آپریشن کے بعد مریض کو سیڑھیاں چڑھنے سے بھی منع کر دیا جاتا ہے ۔ کسی طرح کا چھوٹا موٹا وزن اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ۔
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ انکی دل کی سرجری کس طرح کی ہونی ہے کیا صرف ناڑیں ادھر سے ادھر جوڑنی ہیں یعنی بند ناڑوں کو بائی پاس کرنا ہے یا پھر دل میں کوئی پیس میکر وغیرہ رکھنا ہے ۔دل کے والوز اگر بند ہیں تو کتنے بند ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ابھی تک بین الاقوامی میڈیا کویہ بھی معلوم نہیں کہ یہ آپریشن کس اسپتال میں ہونا ہے ۔صرف اتنی خبر ہے کہ لندن کا کوئی نجی اسپتال ہے ۔
ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کی صدارت کو عمران خان نے انتہائی تشویشناک قرار دیا ۔عمران خان نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ویڈیو لنک کے سبب اس اجلاس کی تمام کارروائی کہیں اور بھی دیکھی اور سنی جا سکتی تھی۔میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ وہ مریض جس کی صبح ہارٹ کی اوپن سرجری ہو نی ہوشام کو اُس سے ایسے اجلاس کی صدارت کرانا نہ صرف مریض کیلئے خطرناک ہے بلکہ حکومتی معاملات پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔تقریبا ً ساٹھ فیصد دل کے مریض ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کی اوپن سرجری کی جانے لگتی ہے تو وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں جس کا باقاعدہ علاج کیا جاتا ہے ۔کیونکہ اس آپریشن میں نفسیاتی دبائو انسانی ذہن پر بہت زیادہ مرتب ہوتا ہے ۔خاص طور پر جب مریض وصیتیں اور نصیحتیں کرتا ہے تو اس کی ذہنی کیفیت موت سے ہم آہنگ ہونے لگتی ہے ۔سو ایسے مریض پرکاروبارِ مملکت کا بوجھ ڈالنا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ مریض کیلئے بھی اور مملکت کےلئے بھی ۔دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال موجود نہیں کہ کسی جمہوری مملکت کے وزیر اعظم یا صدر کےہارٹ کی اوپن سرجری ہواوراس نے اقتدار بھی اپنے پاس رکھا ہوا ہو۔پاکستانی آئین بھی اس معاملے میں ترمیم کا طلبگار ہے ۔یہ شق اٹھارویں ترمیم میں نکال دی گئی تھی کہ وزیر اعظم اگر موجود نہیں تو کوئی سینئر منسٹر ان کے اختیارات استعمال کر سکتاہے۔نواز شریف وزیر اعظم کیساتھ ساتھ وزیر خارجہ بھی ہیں ۔یعنی اگلےتین مہینے پاکستان کے وزیر اعظم کیساتھ وزیر خارجہ بھی بستر ِ علالت پر آرام کرے گا۔
وزیر اعظم پاکستان کابرطانیہ کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں بستر پر لیٹ کر ملک کے معاملات کو آگے بڑھا ناخاصا مشکل کام ہے بلکہ اگر میں کہوں کہ ممکن نہیں ہے تو یہ قطعاً غلط نہیں ہو گا ۔وزیر اعظم کوایک مریض کی حیثیت سے ڈاکٹرزہی ایسا نہیں کرنے دیں گے ۔ یقیناََ وزیر اعظم کی جگہ کوئی اور منسٹر وزیر اعظم کے اختیارات استعمال کرے ۔جس کےلئے کوئی نہ کوئی آئینی راستہ نکال لیا جائے گا۔ امکان یہی ہے کہ وہ شخصیت اسحاق ڈار کی ہوگی مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسحاق ڈارکو چندماہ کےلئے وزیر اعظم کیوں نہیں بنادیا جاتا۔یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے میرے ذرائع کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف اسحاق ڈار سے زیادہ کسی پر بھی اعتبار نہیں کرتے ۔ مگر لوگ کہتے ہیں وزیر اعظم ا نہیں بھی نہیں بنایا جا سکتا۔پانامہ لیکس کا بوجھ بھی وزیر اعظم کے ذہن پر ہے اور دل کے معاملات کی اس درجہ خرابی کا سبب بھی شاید یہی ہے ۔ نواز شریف پاناما لیکس کے دکھ کو دل پر لے بیٹھے ہیں ۔کیونکہ اس میں خدشات بہت ہیں ۔ صرف حکومت جانے کی بات نہیں ۔ اربوں ڈالر بھی جاسکتے ہیں۔ پھر زندگی بھی بڑی قیمتی شے ہے ۔ سو اِس دل کی جراحی میں پانا مہ لیکس کا بہت ہاتھ ہے ۔میرا خیال ہے اب کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی کی آرمی چیف سے ملاقات میں یقیناََ ڈرون حملے کے ساتھ وزیر اعظم نواز شریف کی صحت بھی زیر بحث آئی ہوگی ۔ ممکن ہے فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کو کرنا پڑ جائے ۔کیونکہ ہمارا ملک ہم سے زیادہ اہم ہے۔
mansoor afaq

