عید کے بعد کیا ہوگا۔ منصورآفاق
دیوار پہ دستک

عید کے بعد کیا ہوگا

عید کے بعد کیا ہوگا

منصور آفاق

گورنمنٹ کالج لاہور کی روایت اتنی عظیم رہی ہے کہ جب اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تو ایک زمانے کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں کہ اس کے نام میں یونیورسٹی کا لفظ کیوں شامل کیا گیا ۔راوین کے نزدیک تو گورنمنٹ کالج کی عظمت کے سامنے دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں سرنگوں دکھائی دیتی ہیں ۔مجھے جب ڈاکٹر اقبال شاہد اور ڈاکٹر صائمہ ارم نے کہا کہ گورنمنٹ کالج لاہور چاہتا ہے کہ وہ آپ کے شعر ی مجموعہ’’ دیوان منصور‘‘ اور’’ الہامات باہو ‘‘کی تقریب ِ پذیرائی کرے تومجھے ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا ۔گورنمنٹ کالج لاہورسے میری محبت کا پہلا سبب راوی تھا ۔ایک تو وہ راوی ہے جو شاہی قلعہ کی دیواروں کے ساتھ بہتا ہے۔

جس کی چھاتیاں بادشاہی مسجد کے میناروں کےسائے چوم لیتی ہیں لیکن ایک اس سے بھی عظیم تر راوی ہے جس کی روایت گورنمنٹ کالج لاہور سے منسوب ہے۔جس نے علم و ادب کے اتنے بڑے بڑے میناروں کو جنم دیا ہے ۔جن کا سایہ نہ صرف پاکستان پر بلکہ علم و ادب کی پوری دنیا پر محیط ہے ۔علامہ اقبال ،پطرس بخاری ، فیض احمد فیض ،امتیاز علی تاج جیسی طوفان بخش لہریں اِسی راوی سے اٹھیں اور غیر ملکی ادب کی تلاطم خیزیوں کو شرما گئیں۔79کے راوی نے ایک اور موج تاریخ کے سپرد کی بڑی بڑی مونچھوں والا خوبصورت چہرہ راوی کے سینے پر سج گیا۔وہ خوبصورت چہرہ اور محبوب قلم اجملؔ نیازی کا تھا۔یہ راوی کا عہدِ جوانی تھا۔موسیٰ خیل کی سنگلاخ زمین کا سینہ چیرکر ایک چشمہ پھوٹا تھا۔جس نے راوی کی طغیانیوں کو بہت تیز کر چھوڑا تھا۔اور پھر اس غیور چشمے کو موسیٰ خیل کی لپکتی بانہوں نے اپنی آغوش میں لے لیا وہ طالب علموںکو آدابِ فرزندی سکھانے کیلئے تدریس و تعلیم کے میدان میں نکل آیا۔گارڈن کالج پنڈی سے ہوتا ہوا جب میانوالی آیاتو میں نے اسی کی وساطت سے راوی کو پہچانا ۔میں جب گورنمنٹ کالج میانوالی میں پڑھتا تھا تو یہی چہرہ ہمیں اردو پڑھایا کرتا تھا ۔ بہر کیف میں شعیب بن عزیز کی معیت میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی پہنچا تو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حسن امیر شاہ نے جس محبت سے استقبال کیا وہ دل کی گہرائیوں تک محسوس ہوا۔اپنے مرشدی عطاالحق قاسمی نے جب سے پی ٹی وی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا ہے ۔وہ زیادہ تر اسلام آباد ہی ہوتے ہیں مگر اس تقریب کیلئے خصوصی طور پر دس بجے کی فلائٹ سے لاہور پہنچے سیدھے جی سی آئے اور پھر یہ کہہ کروہی سے واپس اسلام آباد چلے گئے کہ منصور آفاق اپنے ہم عصر تخلیق کاروں میں سرِ فہرست ہے ۔ان کی اسقدر محبت پر دوستوں کو رشک کرنا چاہئے حسد نہیں۔ شعیب بن عزیز جنہوں نے پچھلے بیس پچیس سال سے کسی کتاب کی تقریب رونمائی میں اظہار خیال نہیں کیا تھا ۔ انہوں نے میرے لئے اپنی یہ روایت بھی توڑ دی اور کہا کہ’’ دیوان منصور‘‘کو نصاب میں شامل کیا جائے ۔میرے لئے اس سے زیادہ اعزاز کی بات اور کیا ہوسکتی ہے ۔ڈاکٹر سعادت سعید ،شفیق خان اور ڈاکٹر جواز جعفری کی گفتگو تو ابھی تک جی سی کے درو دیوار میں گونج رہی ہوگی ۔گجرات یونیورسٹی نے میرے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں ڈاکٹر صغرا صدف نے بھی کچھ اسی طرح کی گفتگو کی ۔ میانوالی میں بھی دو تقاریب ہوئیں ۔ جن میں مفتی عمران اور بلقیس خان کی محبت و عقیدت کو میں نے اپنے لئے سرمایہ محسوس کیا ۔اسلام آباد میں راشدہ ماہین ملک کی طرف سے میرے لئے منعقدہ تقریب بھی بہت خوبصورت تھی جس کی صدارت ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کی تھی ۔لیہ میں عمران شانی کی طرف سے ہونے والی تقریب بھی ایک بہت یادگار تقریب تھی ۔ میں وہاں ندیم بھابھہ تنویر حسین ملک اور حسن عباسی کی معیت میں پہنچا ۔یہ سفر بھی ایک قدم قدم یادگار رہا ۔افضل عاجزاور عزیر الرحمن فیصل اس تقریب میں شمولیت کےلئے اسلام آباد سے آئے ۔

میانوالی سے افضل بلوچ ، حسن رضا ، ظہیر احمد ظہیر اورشاکر خان آئے ہوئے تھے ۔وہاں لیہ کی ڈی سی او سے ملاقات ہوئی ۔یہ لیہ ضلع کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایسی ڈی سی او نصیب ہوئی ۔میں جب لیہ پہنچا تو رئوف کلاسرا یاد آ گئے ۔ اپنی مٹی سے روف کی محبت لافانی ہے میرے نزدیک جب بھی مٹی سے محبت کا کہیں ذکر آئے گا تو رئوف کلاسرا کو ضروریادکیا جائے گا۔لاہور میں ہونے والی وجدان کانفرنس مجھے بہت دیر تک یادرہے گی ۔اس کانفرنس پر ’’نوجوان شاعر اور کانفرنس کے روح رواں ’’نبیل ‘‘ کو مبارک باد ۔اس کانفرنس کی آخری نشست کل پاکستان محفل مشاعرہ کی صدارت کرتے ہوئے میرے ذہن میں بار بار یہ خیال آیا کہ ابھی ایسے مشاعروں کی صدارت کرنا تمہارا حق نہیں جن میں اتنے بڑے بڑے شاعر شامل ہوں ۔ سو اس صدارت پر میں تمام احباب سے معذرت خواہ ہوں ۔وجدان کا نفرنس میں پیر سلطان فیاض الحسن قادری سروری کی تصوف کے موضوع پر گفتگو بھی اہل علم کو برسوں یاد رہے گی ۔ اس کانفرنس میں میری کتاب دیوان منصور کو وجدان ایوارڈ بھی دیا گیا جس کے ساتھ ایک خطیر رقم شامل تھی میں اس فیصلے پر جج حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

پاکستان میں جہاں زندگی کے ہر شعبے میں بڑی بڑی کرپشن کی داستانیں لکھی گئیں وہاں سرکاری ایوارڈ کی تقسیم میں بھی ایک بڑی کرپشن ہوئی ۔جب سے ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے کچھ احباب اس وقت سے تحقیق کا کام شروع کر چکے ہیں کہ اس سال کس کا حق تھا اور کسے ایوارڈ ملا اس سلسلے میں عدالت عالیہ سے رجوع کیا جارہا ہے کہ وہ گزشتہ تمام ایسے ایوارڈ واپس لینے کا فیصلہ کرے جو حقداروں کو نہیں ملے ۔میری جنرل راحیل شریف سے درخواست ہے کہ جب پاکستان کو کرپشن سے پاک کیا جائےتو اس بدیانتی کے داغ بھی دھوئے جائیں۔مجھے افسوس سے کہنا ہے کہ اس کرپشن میں صرف گزشتہ تمام حکومتیں ہی ملوث نہیں موجودہ حکومت بھی ملوث ہے ۔جس کے حالات ان دنوں خاصے دگر گوں ہیں ۔

معمول کے مطابق ہر سال کی طرح پھراپوزیشن نے بجٹ مسترد کردیا۔عوام دوست بجٹ کا حکومتی شور و غوغاجھاگ کی طرح بیٹھتا چلا گیا۔وزیروں کے چہروں پر اڑتی ہوئی ہوائیاںکچھ اور گہری ہوگئیں۔بجٹ سے ایک دن پہلے وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس کر کے سوئس بنکوں میں دو سو ارب ڈالر واپس لانے کا اعلان کر دیا۔ پیپلز پارٹی کےسابق وفاقی وزیر کوبارہ یا سولہ سال کی سزا سنا دی گئی ۔بہت سی ایسی باتیں ہو چکی ہیں ۔ بہت ساپانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا ہے جو واپس نہیں آ سکتا اور ابھی تک پاناما لیکس کا کھلا ہوا سینہ وزیر اعظم پاکستان کے دل کا آپریشن کرنے والے برطانوی ڈاکٹرز سے بھی سل نہیں سکا۔ میں اب واپس برطانیہ جا رہاہوں ۔وہیں بیٹھ کر دیکھوں گا کہ عید کے بعد کیا ہوتا ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے