
رائے ونڈ مارچ
رائے ونڈ مارچ
منصورآفاق
میانوالی کے ایم این اے اور تحریک انصاف کے رہنما امجد علی خان سے گزشتہ روز ٹیلی فون پر تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ہماری بات چیت کا موضوع تیس ستمبر کو ہونے والا رائیونڈ مارچ تھا۔انہوں نے بتایا کہ میانوالی کے مختلف شہروں میں ہم نے ان لوگوں کی فہرستیں تیار کر نے کےلئے باقاعدہ کمیٹیاں بنائی ہیں جو احتجاج کےلئے رائےونڈ جانا چاہتے ہیں ۔ان کے خیال میں اس وقت تک جانے والوں کی جو فہرستیں ان کے پاس جمع ہوچکی ہیں ۔ان میں بیس ہزار سے زائد لوگ شامل ہیں ۔یعنی احتجاج میں شرکت کےلئے کم ازکم بیس ہزار لوگ صرف ضلع میانوالی سے لاہور میں داخل ہونگے ۔اسی تناظر سے میں نے غور کیا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے میانوالی کوئی بڑا ضلع نہیں ہے اگر میانوالی سے بیس ہزار لوگ آتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ باقی شہروں سے اس سے کہیں زیادہ لوگ احتجاج میں شامل ہونگے ۔یعنی یہ تعداد پانچ لاکھ سے لے کر دس لاکھ کے درمیان ہوسکتی ہے ۔
اگر اگلے ہفتے سے پانچ لاکھ لوگ بھی لاہور کی سمت سفرشروع کردیں تو انتیس تاریخ تک لاہور کی صورت حال کیاہوگی۔اس کا اندازہ لگانا ابھی آسان نہیں ہے ۔ مگر اتنے لوگوں کی آمد کےلئے حکومت پنجاب کیا انتظام کر رہی ہےاس وقت کاسب سے اہم سوال یہ ہے ۔عمران خان نے بھی بار بار کہا ہے کہ میں اس مرتبہ پورے ملک سے لوگ بلا رہا ہوں ۔یعنی انہوں نے لاہور کے حکام سے کہا ہے کہ وہ ذہنی طور پر تیار ہوجائیں جو انتظامات کرنے ہیں وہ کر لیں تاکہ اہل لاہور کو زیادہ پریشانیاں نہ اٹھانی پڑیں ۔ مگر ابھی تک نون لیگ کی حکومت ِ پنجاب نے سوائے اس کے کوئی انتظامات نہیں کئے کہ جانباز فورس اورڈنڈابردار فورس تیار کر لی ہے جو رائےونڈ جانے والوں کےساتھ دست وگریباں ہوگی یعنی الٹا لاہور کو میدان جنگ بنانے کا پروگرام تیار کرلیاہے ۔جو بہت خوفناک بات ہے ۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب معاملہ کی گمبھیرتا کو محسوس کرتے ہوئےجلد کوئی نہ کوئی بہتر فیصلہ کریں گے۔ ویسے کسی زمانے جب کوئی احتجاج کا اعلان کرتا تھا حکومتیں اس کے ساتھ گفت وشنید کرتی تھیں ۔ مطالبات پوچھتی تھیں ،راضی کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔مجھے یاد ہے کہ 1977میں جب ذوالفقار علی بھٹوکے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی تو حکومت نے احتجاجی لیڈر شپ کے ساتھ مذاکرات کا بھی آغاز کردیا تھا جوکامیاب ہو گئے تھے مگر جنرل ضیا الحق نے مذاکرات کی کامیابی کے اعلان سے پہلے ہی بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا ۔
لیکن اب مذاکرات کا دور صرف اسی وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی دھرنا دے کر بیٹھ جائے ۔اب تحریک انصاف پورے ملک سے لوگوں کو رائےونڈ مارچ کےلئے بلا رہی ہے اور حکومت کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی بلکہ حکومت الٹا جنگ کی حکمت عملی پر غور رہی ہے ۔(اللہ نہ کرے اس سے پہلے کوئی اور جنگ شروع ہوجائے ) ۔اگر حکومت نے تحریک انصاف سے اس سلسلے میں کوئی بات چیت شروع نہ کی تو میں تصور کی آنکھ سے دیکھ رہا ہوں کہ جاتی امرا میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ کےقرب و جوار میں ایک وسیع و عریض دھرنا موجود ہے ۔اس وقت بھی حکومت نے مذاکرات ہی کرنے ہیں ۔ ماڈل ٹائون والی صورتحال کی ہمت تو دوبارہ حکومت نہیں کرسکتی ۔اور اس مرتبہ یہ بھی نہیں کہ عمران خان آسانی سے ایسے مذاکرات کے دھوکے میں آجائیں گے ۔ جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ۔یا اس طرح کے مذاکرات جیسے پیپلز پارٹی کی حکومت نےڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کئے تھے ۔ یعنی اب دھوکا بازی ممکن نہیں ہوگی ۔
جب یہ لشکرِ انصاف رائے ونڈ کی طرف روانہ ہوجائے گا تو لاہور کو پھرکچھ سکون نصیب ہوگا مگر اس سے پہلے پہلے لاہور کے دامن میں اتنے لوگ سمیٹنے کی ذمہ داری بھی حکومتِ پنجاب پر عائد ہوتی ہے۔ لاہور میں نہ اتنے ہوٹل ہیں کہ جہاں یہ لوگ قیام کرسکیں نہ کوئی اور ایسی جگہیں ہیں اورعمران خان نے قافلوں کو ہدایت دے دی ہے کہ چوبیس ستمبر سے لاہور کی طرف سفر شروع کردیں ۔یہ لوگ کہاں جائیں گے ۔ کہاں سوئیں گے ۔کہاں جاگیں گے ۔ اپنی انسانی ضروریات کہاں پوری کریں گے ۔خیر کھانے پینے کے حوالے سے تو لاہورکا دامن بہت وسیع ہے مگررہائش کا مسئلہ بہت بڑا ہے ۔پنجاب حکومت ابھی سے ان کےلئے قذافی اسٹیڈیم یا فورٹ ریس اسٹیڈیم کو مختص کردے ۔وہاںانسانی ضرورت کی چیزیں عارضی بنیادوں پر تیار کرنی چاہئیں ۔
آنے والے قافلوں کے روٹس کیا ہونے ہیں ۔ ٹریفک کیسے کنٹرول کرنا ہے ۔لاہور سے رائے ونڈ کےلئے کونسا راستہ اختیار کرنا ہے ۔حکومت تحریک انصاف کے لوگوں کے ساتھ میٹنگز کرے ۔یہ معلوم کرے کہ کتنے لوگ لاہور میں داخل ہونے والے ہیں ۔لاہور کی صفائی کاسلسلہ کیا ہوگا اگر دھرنا ہوگا تو کہاں ہوگا وہاں انسانی ضروریات کا کیسے خیال رکھا جائےگا ۔ لوگوں کی ہیلتھ اینڈ سیفٹی کیسے ممکن ہوسکے گی ۔
اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری خود تو اس احتجاج میں شریک نہیں ہورہے لیکن دو دن پہلے وہ اپنے تمام چاہنے والوں سے کہہ دیں گےکہ وہ ضرور رائے ونڈ مارچ میں شریک ہوں ۔شیخ رشید کی کوشش ہے کہ وہ صرف راولپنڈی سے پچاس ہزار لوگ لے کر لاہور جائیں ۔کچھ طاقتیں اور بھی اپنے لوگوں کو اس مارچ میں شرکت کےلئے تیار کررہی ہیں ۔ان میں اہم ترین لوگ وہ ہیں جویہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف حکومت کا سب سے بڑا گناہ ممتاز قادری کی شہادت ہے ۔ان کےنزدیک یہی وقت ہے کہ نواز شریف کی حکومت کو سبق سکھانے کا ۔وہ بھی اپنے لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کر رہے ہیں کہ چاہے عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری ہمارے حمایتی نہیں لیکن ہمارا دشمن تو سانجھا ہے ۔سو ہمیں ان کی پوری مدد کرنا چاہئے ۔پاکستان کے وہ لوگ بھی جو ذہنی طور پر بھارت کے بہت خلاف ہیں ۔جن پر بھارت میں دہشت گردی کے الزامات بھی لگتے رہتے ہیں وہ بھی اس مارچ کا حصہ بننے کے متعلق غور کررہے ہیں ۔سومریدکے سے بھی کافی لوگوں کے شریک ہونے کا امکان ہے۔اطلاع کے مطابق عمران خان نے تحریک انصاف صوبہ پختون خوا کو دو لاکھ سے زائدلوگو ں کو اپنے صوبے سےلاہور لانے کا ٹارگٹ دیا ہے ۔تحریک انصاف کے خیال میں ہمیں 80 لاکھ ووٹ ملے ہیں اگر ہم ہر آٹھ ووٹرز میں سے ایک ووٹر کو لاہور لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو لاہور میں ایک ملین لوگ جمع ہوجائیں گے۔
mansoor afaq

